الفضل اور میرا خاندان

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 12؍اگسست 2024ء)

مولانا نسیم سیفی صاحب

مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ رقمطراز ہیں کہ محترم نسیم سیفی صاحب مدیر الفضل میرے پھوپھی زاد بھائی اور پڑوسی بھی تھے۔ بہت حوصلہ افزائی کرنے والے ایڈیٹر تھے۔ الفضل میں میری نظم یا مضمون چھپتا تو کبھی حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خوشنودی کا خط بھی آجاتا اور کئی بار اصلاح فرمادیتے۔ ایک ایسے ہی خط میں حضورؒ نے میری ایک نظم میں اصلاح بھی تجویز فرمائی تو مَیں نے جواب میں اس نظم کا وہ شعر بھی لکھ دیا جو سیفی صاحب نے کسی مصلحت سے حذف کردیا تھا۔ اس پر حضورؒ نے بڑا دلچسپ جواب دیا جس میں فرمایا کہ ’’اعتراض والی نظم کا ایک شعر سیفی صاحب کی سنسرشپ کی زَد میں آگیا۔ اس شعر کو شائع نہ کرنے کی حکمت تو مکرم سیفی صاحب سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کرنے سے وہ خود بھی آپ کے اعتراض میں آگئے۔ اصل بات یہ ہے کہ مکرم سیفی صاحب ماشاءاللہ بڑی ذہانت سے الفضل کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں ورنہ الفضل کبھی کا بند ہوچکا ہوتا۔ اگر الفضل ماہ بماہ چھپتا تو بلاشبہ سیفی صاحب بھی ماہ لقا کہلوانے کے مستحق ٹھہرتے۔ لیکن الفضل تو روزنامہ ہے اور سورج کی طرح روز اُن کے خوبصورت کلام کے آئینہ میں اُن کی لقاء الفضل کے شائقین سے کرواتا ہے۔ …‘‘

شیخ خورشید احمد صاحب

میری آپی رسالہ مصباح کی مدیر رہیں اور لجنہ مرکزیہ کی سیکرٹری اشاعت بھی۔ اُن کی شادی مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نائب مدیر الفضل ربوہ سے ہوئی تو میرا الفضل سے تعلق بھی بڑھتا چلاگیا۔ پہلے وہ لاہور میں رہتے تھے لیکن پھر ربوہ منتقل ہوگئے اور ہمارے ہمسائے بن گئے۔ ایک رات اُن کا دروازہ کھٹکا۔ ایک صاحب یاد رفتگاں کے عنوان سے کسی کی یاد میں مضمون لائے۔ محترم شیخ صاحب نے حیرت سے کہا کہ موصوف تو ابھی ہستگاں میں شامل ہیں۔ جواب ملا کہ الفضل میں اُن کی تشویشناک علالت کا پڑھا تھا، میرے پاس وقت تھا، مَیں نے سوچا بعد میں بھی تو لکھنا ہے کیوں نہ ابھی لکھ لوں، فوت ہوجائیں تو پہلا مضمون میرا چھاپ دینا۔
جب مَیں کراچی میں رہتی تھی تو ایک دفعہ ڈاکیا الفضل کی وی پی لایا تو ہماری بچت کی خاطر یہ پیشکش کی کہ آپ اس کے لیے پیسے دیتی ہیں، اس طرح کے بہت سے اخبار ہمارے ڈاکخانے میں پڑے رہتے ہیں مجھے صرف دس روپے مہینہ دے دیا کریں تو مَیں روز ڈال جایا کروں گا۔ ظاہر ہے یہ آفر قبول نہ کی گئی۔ اسی طرح ایک بار ڈاک سے ربوہ کے قریبی شہر کی ایک تنظیم کی طرف سے ایک خط بھی ملا کہ ہم الفضل میں آپ کو پڑھتے ہیں، آپ دنیائے شعر میں بلند مقام پر فائز ہیں مگر ایک محدود دائرے میں بند ہوکر رہ گئی ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ آملیں تو …۔ (یہاں تک ہی پڑھا اور اس خط کو آگ دکھادی۔ اس کا اس سے بہتر جواب نہ تھا۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں