الفضل ایک خزانہ ہے

مجاہد احمد شاستری صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل … اکتوبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم شیخ مجاہد احمد صاحب (شاستری) ایڈیٹر ہفت روزہ بدر قادیان بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کی پیدائش یکم جنوری 1978ء کی ہے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کرنے کے بعد یکم اگست 1993ء کو ’’جامعہ احمدیہ‘‘ میں داخلہ لیا اور فروری 2000ء میں یہاں سے فارغ التحصیل ہوا۔ جامعہ میں دَورِ طالبعلمی کے دوران احمدیہ لائبریری واقع قصر خلافت میں جانا شروع کردیا۔ لائبریری میں اکثر ایک شناسا چہرہ میز پر الفضل کی ضخیم جلدیں سامنے رکھے محو مطالعہ نظر آتا۔ لمبا قد، خوبصورت گورا رنگ، چہرے پر موٹے شیشوں والی عینک لگائے متفکرانہ انداز میں فائلوں میں ڈوبا ہوا ایک شخص، اُسے معلوم ہی نہ ہوتا کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے۔

محترم ملک صلاح الدین صاحب

آنے والے کے السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ کے جواب میں ’وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘ کا تحفہ پیش کرکے دوبارہ مطالعہ میں مصروف ہو جاتا۔ یہ تھے ہمارے محترم درویش بزرگ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے۔ جتنا عرصہ لائبریری میں گزرتا آپ کو مطالعہ میں مصروف پاتا۔ کبھی کوئی نشانی کسی فائل میں رکھ رہے ہیں تو کبھی کوئی نشان کسی جگہ لگا رہے ہیں۔ آج بھی آپ کی لگائی ہوئی نشانیاں الفضل کی فائلوں میں نظرآجاتی ہیں۔ جب کبھی آپ مطالعہ کی تھکاوٹ محسوس کرتے تو لائبریری میں موجود افراد کے ساتھ محو گفتگو ہوجاتے اور اصحاب احمدؑ کے دلنشین واقعات یوں بیان کرتے گویا تمام حاضرین کو اصحاب احمدؑ کی پاکیزہ مجلس میں لے جاتے۔ جب لائبریری کا وقت ختم ہو جاتا تو مددگار کارکن الفضل اور البدر کی ضخیم فائلیں اٹھائے محترم ملک صاحب کے گھر رکھ آتا۔ آپ گھر میں نہ جانے کتنے گھنٹے ان فائلوں کا مطالعہ کرتے لیکن اس عرق ریزی کا نتیجہ یعنی ’’اصحاب احمدؑ‘‘، ’’تابعین اصحاب احمدؑ‘‘ اور ’’مکتوباتِ احمدؑ‘‘کی سیریز ہمارے سامنے ہے۔
ابتدائی تعارف اخبار الفضل سے یوں ہوا کہ جامعہ احمدیہ میں تقریری صلاحیت بڑھانے کے لیے دس دس منٹ پر مشتمل مختلف موضوعات پر تقریر کرنی ہوتی تھی۔ ہر طالب علم کی ہفتہ میں ایک بار تو لازماً باری آ جاتی تھی۔ تقاریر کی تیاری کرنا ایک بڑا بھاری مرحلہ ہوتا تھا جس کے لیے اخبار الفضل سے استفادہ کیا جاتا۔ آہستہ آہستہ مزہ آنے لگا۔ تقریر کے موضوع کی تلاش میں ساری فائل کی ورق گردانی ہوجاتی بلکہ کئی مضامین پڑھنے کا موقع مل جاتا۔ مطالعہ کی عادت شروع سے طبیعت میں تھی، الفضل کے مطالعہ نے اس میں مزید چاشنی بھر دی۔ جامعہ میں موسم بہار کی دو ہفتے کی چھٹیاں آتیں تو طلبہ وقف عارضی پر جاتے۔ ایک سال بعض وجوہ سے یہ پروگرام ملتوی ہوگیا تو خاکسار نے لائبریری میں اخبار بدر، الفضل و دیگر جماعتی رسالہ جات کی فہرست تیار کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ 1914ء سے اخبار الفضل کا مطالعہ شروع کیا اور مضامین کی فہرست بنالی جس سے بہت استفادہ کیا۔

محترم مہاشہ محمد عمر صاحب

جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جون 2005ء تک بنارس میں ہندو یونیورسٹی میں سنسکرت زبان میں تخصص کی توفیق ملی۔ 2005ء میں قادیان آنے پر نظارت نشر و اشاعت قادیان میں بطور ہندی مترجم تقرر ہوا تو اخبار الفضل کا مطالعہ دوسرے نقطہ نگاہ سے شروع کیا۔ محترم مہاشہ محمد عمر صاحب، محترم فضل الدین مہاجر صاحب اور مولانا ناصرالدین و دیار تھی صاحب کے ہندو ازم کے بارے میں معلوماتی اور تحقیقاتی مضامین کے مطالعہ سے بہت فائدہ ہوا۔ جلسہ پیشوایان مذاہب میں جب بڑے بڑے علماءِ ہنود کے سامنے ان مضامین میں بیان کیے گئے نکات پیش کیے جاتے ہیں تو وہ ان نکات کو خوب پسند کرتے ہیں اور برملا اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ان مضامین کو ہندی زبان میں پھیلانا چاہیے۔
اخبار الفضل نے جماعت احمدیہ کی کئی رنگ میں خدمات کی ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کو محفوظ رکھنے، مخالفین کے اعتراضات و الزامات کا جواب دینے اور نئے نئے مضمون نگار پیدا کرنے میں اس کی خدمات قابل قدر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں