الفضل تقسیم کرنے کا ’’جرم‘‘
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 20؍اکتوبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں الفضل تقسیم کرنے والے ایک ہاکر کی آپ بیتی ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ سے منقول ہے۔
فیصل آباد کے ہاکر میاں اصغر علی کو الفضل تقسیم کرنے کے جرم میں مُلّاؤں نے پکڑ کر مارا اور اپنے نام نہاد دین کی حفاظت کی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس واقعہ سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ گذشتہ دو ماہ سے میری نقل و حرکت کا جائزہ لے رہے تھے کہ میں کن کن راہوں سے جاتا ہوں اور مخصوص اوقات میں کن گلیوں میں سے گزرتا ہوں۔ اُس روز جب مَیں ایک احمدی کے گھر دستک دے رہا تھا کہ روزنامہ الفضل اُس کے حوالے کروں تو اچانک کسی مدرسے کا طالب علم آیا اور کہنے لگا مجھے بھی ایک الفضل خریدنا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس مقررہ تعداد میں پرچے ہوتے ہیں جو مستقل خریداروں کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ تھوڑا سا اصرار کرکے چلاگیا۔ ابھی میں چند قدم چل کر دوسرے گھر کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ایک داڑھی والے نے مجھ سے الفضل طلب کیا۔ مَیں نے انہیں بھی پہلے والا جواب دیا۔ ابھی میں اپنے اگلے مقام کی طرف بڑھا ہی تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرا پیچھا کررہا ہے۔ مَیں نے مڑ کر دیکھا تو ایک دوسرا مولوی میرے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ مَیں نے اپنی سائیکل کی رفتار بڑھادی۔ مگر اُس نے اپنے موبائل پر اپنے دوسرے ساتھی کو اطلاع کی جس نے چند گز آگے سے آکرمجھے دبوچ لیا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایک موبائل تھا۔ پھر اطراف میں چھپے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بلالیا۔ چنانچہ دس مولویوں نے مجھے گھیرلیا اور گھسیٹتے ہوئے قریبی مسجد میں لے گئے۔ سائیکل کے دونوں پہیے پنکچر کر ڈالے۔ اخباروں کا تھیلا چھین لیا۔ مسجد میں کئی مولوی بیٹھے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پچاس ساٹھ مدرسے کے مولوی طالب علم بھی وہاں جمع ہوئے۔ پہلے تو مسجد کے مولانا نے مجھے برا بھلا کہا۔ اس کے بعد مسجد سے باہر نکال کر انہوں نے اپنے جہاد کا آغاز کرتے ہوئے گھونسوں اور لاتوں کی بارش کردی۔ کئی مرتبہ زمین سے اٹھا کر زمیں پر پٹخا۔ مجھے اس وقت رسول کریم ﷺ کا طائف کا سفر یاد آگیا۔ میں نے اپنے ربّ سے اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے کی دعا کی۔ جب مولانا تھک گئے تو ان کے کہنے پر اُن کے حواریوں نے جہاد شروع کردیا۔ پچاس کے قریب مُلّا ایک لائن میں کھڑے ہوگئے۔ ہر نوجوان باری باری اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا حسب توفیق جہاد میں حصہ لیتے ہوئے میرے سر پر جوتے مارتا چلاگیا اور ننگی گالیاں بھی دیتا گیا۔ مولانا نے اپنے جاں نثاروں سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اس کافر کے منہ میں پیشاب کرو۔ تاہم وہ نوجوان کھلی جگہ میں اس بےحیائی پر آمادہ نہ ہوئے۔ بہرحال انہوں نے اپنے جہادی کمانڈر کی نگرانی میں جہاد لڑا۔ اس جہاد و فساد کی خبر کسی شریف انسان نے پولیس کودی تو پولیس کی دو تین گاڑیاں آئیں اور مجھے زبردستی وین میں ڈال کر تھانے لے آئیں۔ چند لمحوں میں وہ مولانا اور ان کے حواری بھی تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالنے لگے کہ میرے خلاف توہین رسالت اور تقسیم لٹریچر کا مقدمہ بنایا جائے۔ پولیس نے بھی اتفاق کرلیا کہ مجھ سے اسلام کو واقعی خطرہ ہے لہٰذا میرے خلاف FIR کٹ گئی۔ میں پہلے حوالات میں رہا اور بعد میں جیل بھیج دیا گیا۔ آخر خداتعالیٰ نے رحم فرمایا اور میری ضمانت منظور ہوئی ۔
