الفضل — خاموش تبلیغ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 13؍اکتوبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم حافظ ملک منور احمد احسان صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ جامعہ احمدیہ سے فراغت کے معاً بعد 1980ء میں میری پہلی تقرری ضلع سیالکوٹ میں ہوئی تو میں اپنے ایک گاؤں میں پہلی بار گیا جہاں صرف دو احمدی تھے۔ ایک تو بڑی عمر کے بزرگ تھے اور دوسرے ایک جوان پرائمری سکول ماسٹر مکرم سرور صاحب تھے جو اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ مکرم ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ ہائی سکول کے غیر از جماعت ہیڈ ماسٹر میرے دوست ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ الفضل اُن کے نام لگ جائے۔ چنانچہ مَیں نے اخبار الفضل ان کے نام جاری کروادیا۔
ایک دو ہفتوں کے بعد ماسٹر سرور صاحب کا پیغام آیا کہ جب سے آپ ہمارے گاؤں کا چکر لگا کر گئے ہیں تب سے میرا بڑا بھائی میری مخالفت کرنے لگا ہے اور دھمکیاں بھی دے رہا ہے کہ اگر تمہارا مربی اب دوبارہ آیا تو میں اس کی بےعزتی کروں گا اور ماردوں گا۔ نیز انہوں نے یہ بھی لکھا کہ آپ جلد از جلد مجھے ملیں، مَیں بہت پریشان ہوں۔
خط ملنے کے فوراً بعد احتیاط مدّنظر رکھتے ہوئے جب مَیں اُن کے گاؤں پہنچا تو ماسٹر صاحب کسی اَور گاؤں کے سکول میں گئے ہوئے تھے۔ لہٰذا میں ہائی سکول کے ہیڈماسٹر صاحب سے ملنے چلاگیا۔انہوں نے آنے کا مقصد پوچھا تو میں نے اشارۃً انہیں بتایا کہ مَیں نے آپ کے نام اخبار الفضل لگوادیا ہے۔ وہاں کچھ افسران بھی موجود تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ یہ کونسا اخبار ہے اور مجھ سے تعارف پوچھا۔ میرے تعارف کروانے پر انہوں نے جماعت کے متعلق سوالات شروع کردیے۔ وہاں عجیب الٰہی تصرف ہوا کہ ہمارے احمدی دوست ماسٹر سرور صاحب کے بڑے بھائی جنہوں نے مجھے دھمکیاں دی تھیں وہ بھی اسی سکول میں ماسٹر تھے۔ وہ بھی سارا وقت سٹاف روم میں ہی بیٹھے باتیں سنتے رہے۔ اس کے بعد میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی مصروفیت کی بِنا پر واپس آگیا۔
الفضل کے حوالے سے دعوت الی اللہ کا ایک ماحول پیدا ہوا تھا جس کی وجہ سے مکرم ماسٹر سرورصاحب کے بڑے بھائی کے خیالات بدل گئے اور اس کے بعد مَیں بِلاخوف و خطر خداتعالیٰ کے فضل سے ساڑھے تین سال اس علاقے میں خدمات بجا لاتا رہا اور کئی دفعہ اس گاؤں میں دورہ پر جاتا رہا۔ اس طرح ماسٹر صاحب کی تربیت کا موقع ملتا رہا۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہاں ایک اَور دوست بھی احمدی ہوگئے۔
اس وقت میری رہائش ربوہ میں ہے۔ 1990ء کی دہائی کی بات ہے کہ میرے ذمہ الفضل کا کافی بقایا ہوگیا۔ ایک دن مکرم ماسٹر رحمت علی صاحب ظفر نمائندہ الفضل نے مجھے بتایا کہ میرے ذمہ دو سال کا بقایا ہے۔ کہنے لگے کہ آپ ہرماہ تھوڑے تھوڑے پیسے دیتے جائیں اس طرح محسوس بھی نہیں ہوگا، بےشک پچاس روپے ماہانہ ہی دیتے رہیں۔ایک طرف الفضل کے مطالعہ کا شدید شوق اور دوسری طرف بقایا کی وجہ سے الفضل بند ہونے کا خدشہ۔ مکرم ماسٹر صاحب کی یہ بہت بڑی نیکی تھی کہ انہوں نے مجھے بہت آسان راہ دکھا دی۔ چنانچہ میں انہیں باقاعدہ پچاس روپے ماہوار دیتا رہا۔ کچھ ہی عرصے بعد میرا سارا بقایا ختم ہوگیا۔ اب بھی میں ماہانہ تھوڑا تھوڑا چندہ دیتا رہتا ہوں جس سے کوئی بوجھ بھی محسوس نہیں ہوتا اور الفضل بھی شوق سے پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔