الفضل سے تبلیغ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 5؍اگسست 2024ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم بشارت احمد شاہد صاحب بیان کرتے ہیں کہ بچپن سے گھر میں الفضل آتا لیکن بچپن کی وجہ سے اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ایک بار یہ اظہار گھر میں کردیا تو والد محترم محمد اسماعیل صاحب دیالگڑھی نے سمجھایا کہ اگر تم مٹھائی کی دکان کے باہر کھڑے رہوگے تو مٹھائی کے ذائقے سے محروم رہوگے۔ اگر الفضل کا مزہ لینا ہے تو اسے پڑھنا شروع کرو اور جو لفظ سمجھ نہ آئے تو اس کا مطلب پوچھ لیا کرو۔
تاریخ احمدیت میں کئی ایمان افروز واقعات بیان ہوئے ہیں جن سے الفضل کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ مکرم خان صاحب غلام محمد خان صاحب سابق صدر شادن لنڈ ضلع ڈیرہ غازیخان لکھتے ہیں کہ بندہ نے مارچ ۱۹۱۷ء میں بذریعہ خط بیعت کی۔ جنوری ۱۹۱۷ء میں اخبار الفضل میں زار روس کے متعلق پیشگوئی پڑھی تھی جس کے بعد میرے اندر گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ اگر مدّعی صادق ہے تو ہم تو غرق ہوگئے۔ تب سےخدا سے عہد کیا کہ آئندہ تارک صلوٰۃ نہیں ہوں گا اور حسب توفیق تہجدگزار بھی ہوں گا۔
مکرم میاں محمد اسماعیل صاحب سکنہ محمدانہ ضلع گجرات بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۱۵ء میں گاؤں میں ایک چٹھی رسان آتا تھا جس کے پاس کسی کا الفضل بھی ہوتا تھا۔ وہ لے کر پڑھا کرتا تھا۔ آخر احمدیت قبول کرلی۔
مکرم میر عالم صاحب ساکن کوٹلی پونچھ غیرمبائعین میں سے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کوٹلی میں ایک احمدی مستری اللہ دین صاحب ہوا کرتے تھے جو گاہے گاہے مجھے الفضل دیا کرتے تھے اور قادیان جانے کی تحریک بھی کرتے رہتے تھے لیکن مَیں چونکہ پیغام صلح بھی پڑھتا تھا اس لیے شش و پنج میں مبتلا تھا۔ آخر میرے دل نے گواہی دی کہ میری خوابیں بھی بتاتی ہیں کہ مَیں اصل جماعت میں شامل نہیں، چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں بیعت کی درخواست کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں