الفضل سے میرا تعلق
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 5؍اگسست 2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرمہ زاہدہ خانم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ الفضل سے میرا تعلق بچپن سے ہی جاری ہے۔ میری عمر بہت چھوٹی تھی جب میرے داداجان الحاج چودھری غلام جیلانی صاحب نے احمدیت قبول کی اور شدید مخالفت میں بھی ثابت قدم رہے۔ الفضل بھی لگوالیا جو مَیں بھی پڑھنے کی کوشش کرتی۔ میری عمر محض دس گیارہ سال تھی جب ایک دن میرے دادا کی کسی بات کو ماننے سے میرے والد نے انکار کیا۔ یہ دیکھ کر مَیں نے اپنے والد کو اخبار الفضل میں سے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک ایسا فقرہ پڑھ کر سنایا کہ انہیں داداجان کی اطاعت کے لیے قائل کرلیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار مضمون نویسی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے خواتین سے فرمایا کہ تم ٹوٹے پھوٹے جملے ہی لکھنا شروع کرو، دیکھنا پھر ایک دن اچھی رائٹر بن جاؤگی۔ مَیں نے آپؓ کی اس نصیحت پر عمل کیا اور اللہ کے فضل سے بعد میں آل ربوہ مقابلوں میں بارہا پوزیشن حاصل کی۔
میرے شوہر مکرم بشارت الرحمٰن صاحب کو الفضل کے مطالعہ کا بہت شوق تھا اور بچوں میں بھی اس کی عادت ڈالی۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ بچوں کو الفضل کا پہلا صفحہ ضرور پڑھا دیا کرو۔ انہوں نے اپریل ۱۹۹۰ء میں وفات پائی جبکہ تمام بچے ابھی کم سن اور زیرتعلیم ہی تھے۔ مَیں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ الفضل کے مطالعہ اور خلیفہ وقت کے خطبات نے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ میرے شوہر کو اپنے بچوں کو قرآن کریم حفظ کروانے کا بھی بہت شوق تھا اور الفضل میں مدرسۃالحفظ کے اعلانات پڑھ کر بھی بچوں کو سناتے تھے۔ خداتعالیٰ نے فضل فرمایا اور تینوں بیٹے حافظ قرآن بنے اور دنیاوی طور پر بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
ایک روز مَیں اپنے محلّہ باب الابواب ربوہ کی سابق صدر لجنہ مکرمہ امۃالقیوم صاحبہ مرحومہ کے ہاں اچانک کسی کام سے گئی تو وہ اچار سے روٹی کھا رہی تھیں۔ مَیں نے پوچھا کہ کیا آج سالن نہیں بنایا؟ تو کہنے لگیں کہ آپ سے کیا پردہ۔ خاوند کی وفات کے بعد الفضل بند کروانے کو دل نہیں مانتا۔ الفضل کا چندہ کئی ماہ سے بقایا تھا، مَیں نے سوچا کہ کچھ بچت کرکے وہ چندہ ادا کردوں۔
ایک بار خاکسار نے الفضل کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک دردناک اقتباس پڑھا تو دعا اور کوشش کرکے ۲۰۰۸ء میں خلافت جوبلی سے پہلے ربوہ کے ایک سو گھرانوں میں اخبار جاری کروانے کی توفیق پائی۔ اس پر حضورانور نے بھی خوشنودی کا اظہار فرمایا۔