’’الفضل‘‘ سے میرا عشق
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل …؍دسمبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں نامور ادیب مکرم احسن اسماعیل صدیقی صاحب مرحوم (آف گوجرہ) کی ایک تحریر شامل اشاعت ہے جو ’’الفضل‘‘ 7؍اپریل 1936ء سے منقول ہے لیکن آج کے حالات کی بھی عکاس ہے۔ اس سے اُس زمانے کے عمومی حالات کا نقشہ بھی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
آپ رقمطراز ہیں کہ یوں تو الفضل کا مَیں بےحد شائق ہوں مگر جس دن الفضل کا خطبہ نمبر ملتا ہے، فرط مسرت سے جھومنے لگتا ہوں اور کسی ایسی جگہ کا متلاشی ہوتا ہوں جہاں میرے مطالعہ میں کوئی چیز مخل نہ ہوسکے تاکہ میں چپ چاپ اپنے پیارے آقا حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ کے مبارک منہ سے نکلے ہوئے جادو اثر الفاظ پڑھوں۔ بار بار پڑھوں اور ایک کیف کے سمندر میں ڈوب جاؤں!!
مَیں نے ہرکارے کی آمد کے صحیح وقت کو معلوم کرنے کے لیے اپنے صحن کی دھوپ پر نشان لگا رکھا ہے۔ ہر پانچ منٹ کے بعد بےتابانہ اسے دیکھتا ہوں اور جونہی کہ دھوپ میرے مقررہ نشان پر آجاتی ہے۔ میں اپنے ڈرائنگ روم میں اُس کے انتظار میں آبیٹھتا ہوں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی راہگیر کے بوٹوں کی آواز سے ہرکارے کے آنے کا دھوکا ہو جاتا ہے اور میں اس پھرتی سے دروازہ کھولتا ہوں کہ بچارا راہگیر خوفزدہ سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ مگر میں ہرکارے کو نہ پا کر پھر دروازہ بند کرلیتا ہوں۔ وہ شریف آدمی اپنے ٹھیک وقت پر آتا ہے اور اپنے مخصوص لہجے سے آواز دے کر مجھے میری ڈاک دے جاتا ہے جو عزیزوں کے خطوط، دوستوں کے محبت ناموں، چند ایک ادبی رسائل اور مختلف اخبارات پر مشتمل ہوتی ہے۔ مگر میری نظر ہمیشہ ایک چھوٹے سے تہ شدہ اخبار پر پڑتی ہے جس کا نام الفضل ہے۔ کھولتا ہوں اور اس میں ایسا کھو جاتا ہوں کہ باقی ماندہ ڈاک میری میز پر پڑی کی پڑی رہ جاتی ہے!
28؍مارچ1936ء کو حسب معمول ڈاک آئی تو تمام ڈاک کو پہلے کی طرح میز پر بکھیر دیا۔ میری نظر سرخ رنگ سے لکھے ہوئے الفضل پر پڑی۔ یہ خطبہ نمبر تھا۔ اٹھایا اور پڑھنے لگ گیا ایک ایک لفظ دل میں کُھبتا جارہا تھا اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ میرے سامنے کھڑے خطبہ ارشاد فرمارہے ہیں۔ جی چاہتا تھا کہ پر ہوں تو اُڑ کر قادیان کے مقدس مامور کی عظیم الشان یادگار، اپنے پیارے آقا کے قدموں سے جا کر لپٹ جاؤں۔
جب میں خطبہ پڑھتے پڑھتے ان الفاظ پر پہنچا کہ ’’آؤ ہم پھر اپنے ربّ کے حضور سجدے میں گر جائیں اور اپنی سجدہ گاہوں کو…‘‘۔ تو میری آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔ خطبے کی آخری دعا، بڑی مشکل سے ختم کی اور اُسی وقت اپنے ربّ کے حضور سجدہ کے لیے جھک گیا اور بےاختیار میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے: اے خالق دوجہاں! اے بادشاہوں کے بادشاہ! اے بےکسوں کے والی! اے قادر مطلق خدا! تُو اپنی ذات کے صدقے اور اپنے جلال کے صدقے ہم ناتوانوں اور مظلوموں پر رحم کر۔ رحم کر۔ رحم کر کہ تیرے سوا کوئی رحم کرنے والا نہیں۔ تُو ہی ارحم الراحمین ہے، تجھے ہی دنیا میں امن قائم کرنے کی طاقت ہے۔ آہ! اے سمیع بصیر خدا! ناپاک روحیں تیرے پیارے فرستادہ مسیح کو گندی گالیاں دیتی ہیں۔ تیرے پیارے بندوں کے دل دکھاتی ہیں۔ تُو اپنی ربوبیت کا جلوہ دکھا اور ان لوگوں کو ہدایت کا نور بخش۔ یا غضب کی آگ ان بدروحوں پر برساکر پاک کر دے۔ آمین آمین
