الفضل سے وابستہ خوبصورت یادیں
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم نذیر احمدسانول صاحب معلّم سلسلہ رقمطراز ہیں کہ ہمارے والد محترم حافظ صوفی محمد یار صاحب احمدی ہونے سے پہلے حافظ قرآن،عالم دین اور پیر تھے۔ چوپڑ ہٹہ تحصیل کبیروالا ضلع خانیوال میں ’’روحانی ہسپتال دارالذکر‘‘ کے نام سے دینی مدرسہ چلاتے تھے۔ علاقے میں آپ کی شرافت کا چرچا تھا۔ 1978ء میں خدائی اشارے پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کی دستی بیعت کی سعادت حاصل کی تو اُن کے کچھ مریدین نے بھی احمدیت قبول کرلی اور اس طرح ضلع خانیوال میں ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔
1978ء میں ہم اپنے والد صاحب کے دینی مکتب میں ہی زیرتعلیم تھے۔ بیعت کے بعد انہوں نے الفضل کا اجرا بھی کرالیا تھا جو بذریعہ ڈاک آتا تھا۔ دو میل کے فاصلے پر دیہاتی ڈاکخانہ تھا جس کا بندوبست ایک مخالف احمدیت ماسٹر صاحب کے پاس تھا۔ خاکسار روزانہ پیدل وہاں جایا کرتا۔ پہلے تو ماسٹر صاحب سے جھڑکیاں کھاتا پھر الفضل وصول کرتا اور پاپیادہ واپس آتا۔
ہمارے گھر اخبار کیا آتی کہ موسم بہار آجاتا، گھر کا ہر فرد خوش ہو جاتا۔ ابا جی اخبار پڑھتے۔ دوپہر کو ہماری والدہ صاحبہ بچوں میں سے کسی کو اخبار دیتیں۔ وہ پڑھتا جاتا اور والدہ صاحبہ تلفّظ کی تصحیح کراتی جاتیں۔ چھوٹی عمر میں مشکل الفاظ، اصطلاحات، ادبی نکات اور دیگر ثقیل فقرات سے ذہن ناشناسا ہونے کے باعث دقّت محسوس ہوتی تھی لیکن والدہ صاحبہ ہجے کرکے نہ صرف تلفّظ درست کرادیتیں بلکہ موٹا موٹا مطلب بھی سمجھا دیتیں۔ گویا ہماری تعلیم و تربیت میں الفضل کا بنیادی کردار رہاہے اور یہ بچپن سے ہی ہمارا استاد، اتالیق اور رہبر ہے۔
پڑھنے کے بعداخبار الفضل کو والد صاحب کی لائبریری کی فائلوں میں محفوظ کرلیا جاتا اور بوقت ضرورت اس خزانے سے علاقے کے احمدی اہل علم بھی فیض حاصل کرتے۔
الفضل نے ہمیں بہت کچھ عطا کیا۔ پہلا صفحہ پڑھنے سے دل عش عش کرتا، روح میں وجد کی کیفیت پیدا ہوجاتی اور دلی کثافت دور ہوتی، گویا الفضل علمی زنگ دور کرنے کا نسخہ کیمیا ہے جس نے غیروں کو بھی ہر قسم کے فیض سے مالامال کیا ہے۔ ہمارے علاقے کے ایک غیر از جماعت مولوی محمدالدین صاحب ایک کتاب کے حوالے کے سلسلے میں ہماری لائبریری میں آئے۔ الفضل پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی تصویر دیکھی تو دیر تک دیکھتے رہے۔ پھر کبھی کبھار آتے تو الفضل کا مطالبہ کرتے اور خطبہ جمعہ پڑھتے۔ بعد میں خداتعالیٰ نے انہیں نور احمدیت سے منور کیا تو موصوف کی کافی مخالفت ہوئی لیکن خداتعالیٰ کے فضل سے ثابت قدم رہے۔
جنگلوں میں بود و باش رکھنے والے ہم جیسے افراد کا مرکز سے رابطے کا واحد ذریعہ الفضل تھا۔ یہ ایک دینی یونیورسٹی بھی ہے۔ اس کا مستقل قاری ہر عنوان، ہر شعبہ اوردلچسپی کے تمام امور پر آسانی سے بات چیت کرسکتا ہے۔ یہ نیکی کی تعلیم دیتا اور نیکی پر ابھارتا ہے یہی وجہ ہے کہ خدا کے فضل سے ہمارے خاندان میں تادم تحریر 17؍واقفین زندگی ہیں۔
