الفضل سے وابستہ خوبصورت یادیں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 27؍اکتوبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب رقمطراز ہیں کہ خاکسار علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہے کہ الفضل اپنے مقاصد کی نہایت اعلیٰ رنگ میں زمانے کی ضرورتوں کے عین مطابق تکمیل کر رہا ہے۔ خاکسار کا اس اخبار سے مئی 1973ء سے تعلق چلا آرہا ہے جب مجھے احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس وقت مَیں B.A کا طالبعلم تھا ۔ میرے گاؤں دھیروکے ضلع ٹوبہ میں بذریعہ ڈاک یہ اخبار آتا تھا۔ ہمارے استاد مکرم مولوی محمد نعیم صاحب انصاری کے بیٹے نصراللہ صاحب باقاعدگی سے پرچہ ڈاک خانہ سے لاتے اور احباب اس سے استفادہ کرتے۔ خاکسار بھی اپنی روحانی تشنگی دُور کرتا۔ بلکہ اخبار الفضل سے ایک قلبی لگاؤ ہوگیا تھا اس لیے شدت سے اس کی آمد کا انتظار رہتا۔ دیگر ادبی و علمی اور دینی موضوعات کے علاوہ جماعتی تحریکات، ترقیات اور سرگرمیوں کا علم ہوتا رہتا تھا۔ خلفائے احمدیت کے خطبات جمعہ اور دیگر خطابات پڑھنے کا موقع میسر آتا۔ پھر ایک وقت آیا کہ الفضل کے ساتھ قلمی رشتہ قائم ہوگیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
الفضل کے جو فوائد مجھے ملے اُن میں نثرنگاری میں تربیت اور اسلوبِ بیان میں راہنمائی کے علاوہ مطالعہ کا ذوق بھی ہے۔ نیز یہ اخبار تبلیغ کا ذریعہ ہے۔ دورانِ ملازمت اپنے رفقائےکار کو اُن کے پسندیدہ مضامین شائع ہونے پر پرچہ اُن کو پڑھنے کے لیے دیتا تو وہ خوشنودی کا اظہار کرتے۔ اس کے ٹھوس معلوماتی مضامین معرفت و عرفان کا خزینہ اور حقائق و دقائق سے پُر ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے طرز استدلال سے آگہی حاصل ہوئی اور پھر مطالعہ کتب سلسلہ نے اسے مزید روشنی عطا کی۔ جماعت احمدیہ کا علم کلام جو حضرت مسیح موعودؑ کا تخلیق کردہ ہے۔ اس کی جھلک کا عکاس الفضل ہی ہے۔ یہی وہ طرز استدلال ہے جس نے صلیب کو پاش پاش کیا ہے اور دجالیت کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ اسلام کا حسین و خوبصورت، خوشنما اور دلرُبا چہرہ دنیا کو دکھلا دیا ہے۔ الفضل کے ذریعے مجھے قلمی جہاد میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے۔ یہ بچوں کی تربیت اوراُن میں شوقِ مطالعہ پیدا کرنے میں بہت مدد کرتا ہے۔ اس میں شائع ہونے والے ذاتی اعلانات باہمی اخوّت پیدا کرتے ہیں۔ المختصر یہ کہ الفضل نے میری زندگی پر ہر لحاظ سے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں