الفضل سے وابستہ میری یادیں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل … اکتوبر2025ء)

فضل الٰہی انوری صاحب

مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب (سابق مبلغ افریقہ و یورپ) لکھتے ہیں خاکسار 1927ء میں بھیرہ (ضلع شاہ پور۔ حال سرگودھا) میں پیدا ہوا۔ یہیں خاکسار کے ننہال تھے لیکن پرلے درجہ کے جاہل اور اَن پڑھ۔ اس کے برعکس والد محترم ماسٹر امام علی صاحب حضورپوری ثم بھیروی، محکمہ تعلیم میں مدرس تھے۔میرے تایا محترم ماسٹر محمد زمان صاحب (مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) ہمارے خاندان میں پہلے احمدی ہوئے۔ اگرچہ وہ جوانی میں ہی فوت ہو گئے مگر ان کی وجہ سے گھرمیں احمدیت کا چرچا ہوتا رہتا تھا۔ مگر ابا جان نے بہت بعد میں یعنی اندازاً 1930ء میں احمدیت قبول کی۔اُس وقت خاکسار موضع سالم کے مڈل سکول کی دوسری یا تیسری جماعت میں پڑھتا تھا جہاں ابا جان بطور سیکنڈماسٹر ملازم تھے۔سکول میں اباجان کے علاوہ دوتین اَور مدرس بھی احمدی تھے جن کے ساتھ جمعہ کی نماز باجماعت ادا ہوتی تھی۔ غیراحمدی ٹیچرز کے ساتھ مذہبی بحث بھی جاری رہتی۔ اعتراضات کا جواب تلاش کرنے کے لیے اباجان اخبار الفضل منگوایا کرتے۔ جبکہ دوسرے ٹیچر اخبار زمیندار منگوایا کرتے جس کا مرغوب مشغلہ احمدیت پر نت نئے اعتراضات شائع کرنا تھا۔ جب بھی کسی اخبار میں احمدیت پر کوئی اعتراض شائع ہوتا تو کچھ دنوں کے بعد اس کا جواب الفضل میں شائع ہو جاتا۔ علاوہ ازیں اخبار الفضل ا پنے علمی اور تربیتی مضامین کے اعتبار سے اُس وقت بھی ایک بہت بڑے معلّم اور مربی کا کردار ادا کر رہا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے خطباتِ جمعہ ہر ہفتہ ایک نئی روحانی غذا لے کر آتے جو دلوں کو مسخر کیے بغیر نہ رہتی۔ ان باتوں کا ذکر اباجان گھر آکر بھی کرتے۔ والدہ صاحبہ جو اپنے غیر از جماعت والدین کے اثر کے تحت شروع شروع میں کچھ مخالفانہ رنگ رکھتی تھیں، الفضل سے متاثر ہوتیں اور ایک عرصے بعد انہوں نے بھی بیعت کرلی اور پھر ایسا اخلاص دکھایا کہ مالی قربانی کی ایک بہترین مثال قائم کر دی۔
ابا جان بتایا کرتے تھے کہ ایک سکول میں جس میں مَیں پڑھاتا تھا، ایک بار ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ مَیں نے تبادلہ کی ضرورت محسوس کی اور اس کے لیے دعا کرنی شروع کردی۔ درخواست محکمہ میں بھیجے ہوئے جب کافی عرصہ گزر گیا اور کوئی جواب نہ آیا تو میرے دل میں دعا کے بارے میں کچھ بدظنی پیدا ہونی شروع ہو گئی۔ اس اثنا میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکا ایک خطبہ الفضل میں شائع ہوا جس میں دعا ہی کا مسئلہ بیان ہوا تھا اور بتایا گیا تھا کہ دعا کے بارے میں کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔اور یہ کہ بعض دعائیں ایسی ہوتی ہیں جن کو قبولیت کی حد تک پہنچنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ اور مثال بھی وہی دی ہوئی تھی جس سے خود مَیں دوچار تھا۔ یعنی فرمایا کہ مثلاً ایک ٹیچر ہے، وہ اپنے تبادلے کے لیے دعا کرتا ہے۔ اب یہ چیز ایسی نہیں جس کا ایک فرد واحد سے تعلق ہو۔ تبادلے کا خواہش مند ٹیچرآخر کسی دوسرے ٹیچر کی جگہ جائے گا اور تب جائے گا جب وہ دوسرا ٹیچر بھی تبدیل ہوگا۔ یعنی وہ کسی تیسرے ٹیچر کی جگہ جائے گا۔ اس طرح پر ایک ٹیچر کی تبدیلی کئی دوسرے ٹیچروں کی تبدیلی کے بعد عمل میں آئے گی اور اس کے لیے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ پس دعا کرنے والے کو اپنی دعا کے قبول ہونے کے لیے جلدی نہیں کرنی چاہیے۔حضورؓ کی یہ بات پڑھ کر میری ساری کوفت دُور ہو گئی کیونکہ وہ مثال ایسی تھی جو خود مجھ پر صادق آرہی تھی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد فی الواقعہ میراتبادلہ عمل میں آگیا۔
ایک نواحمدی گھرانے میں الفضل کا پہلا کردار روحانی شیر مادر کا تھا جس کے ہم محتاج تھے۔ الفضل کا دوسرا کردار خود خاکسار کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ جب خاکسار نے گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے 1944ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تو گھریلو مالی وسائل کے پیش نظر مزید تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ اور ابھی خاکسار سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کیا جائے کہ اخبار الفضل میں پڑھا کہ قادیان میں کالج کھل گیا ہے، میٹرک پاس کر لینے والے داخل ہونا چاہیں تو فلاں تاریخ تک قادیان پہنچ جائیں۔ چنانچہ خاکسار اپنے والدین سے مشورہ کرنے کے بعد تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ لینے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس سے قبل خاکسار 1940ء کے جلسہ سالانہ پر اپنے ابا جان ماسٹر امام علی صاحب کے ساتھ قادیان دیکھ چکا تھا۔ خاکسار کی تائی صاحبہ مسماۃ غلام فاطمہ (بیوہ ماسٹر محمد زمان صاحب مرحوم) وہاں ہی رہ رہی تھیں۔ خاکسارکے یہ تایا اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے اور 1914ء کے لگ بھگ بطور ٹیچر قادیا ن میں آئے تھے مگر ان کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ تپ محرقہ سے بیمار ہو کر 1919ء میں فوت ہوکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ خاکسار کی تائی صاحبہ اپنے میاں کی وفات کے بعد دارالمسیح قادیان میں منتقل ہو کربعض دیگر بیوہ عورتوں کے ہمراہ رہنے لگ گئی تھیں۔


1946ء میں F.Sc کا امتحان پاس کرلینے کے بعد خاکسار اپنے وطن بھیرہ میں تھا کہ الفضل میں حضرت مصلح موعودؓ کی جانب سے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک شائع ہوئی۔ چنانچہ والدین کی اجازت کے ساتھ خاکسار نے اپنی زندگی وقف کرنے کی درخواست حضور کی خدمت میں بھیج دی۔ حضورؓ کی طرف سے قادیان پہنچنے کا ارشاد ملا تو اپریل یا مئی 1947ء میں خاکسار حاضر ہوگیا۔ انٹرویو کے بعد فیصلہ ہوا کہ خاکسار کو فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے لیے لے لیا جائے۔ لیکن جلد ہی تقسیم ہند کی وجہ سے حالات بدل گئے۔ چنانچہ میں تعلیم الاسلام کالج لاہورسے B.Sc کرکے ربوہ میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے جامعہ احمدیہ میں داخل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ مربی بننے کے بعد خاکسار کو مغربی افریقہ اور جرمنی میں خدمت کی توفیق ملی۔

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

جب ایک بار خاکسار جرمنی سے واپس پاکستان پہنچا تو خاکسار کی ڈیوٹی حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے دفتر میں بیرونی ڈاک کے دیکھنے پر لگی۔ اس دوران بعض اوقات خود بھی ایسی مجالس میں شریک ہو جاتا جو غیرازجماعت احباب کے ساتھ منعقد ہوتیں۔ حضورؒ کا موضوع سخن ان ایام میں زیادہ تر ان افضال الٰہیہ سے متعلق ہوتا جو عام احمدیوں پر رؤیائے صالحہ اور کشوف کی صورت میں نازل ہو رہے ہیں اوران کی ایمانی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ کئی واقعات حضورؒ کی زبان مبارک سے سنے تو حضورؒ سے اس موضوع پر ایک کتاب مرتّب کرنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر الفضل کے ذریعے دعوت عام دی گئی تو قریباً ایک سو احباب کی طرف سے اڑھائی صد ایسی ایمان افروز خوابیں موصول ہوئیں۔ نیز پہلے سے شائع شدہ رؤیائے صادقہ کو الفضل اور دیگر رسائل سے اکٹھا بھی کیا۔ چنانچہ اب تک ’’درویشان ِاحمدیت‘‘ کے نام سے اس کتاب کی چھ جلدیں شائع ہوچکی ہیں جن میں جا بجا اُن رؤیا ئے صالحہ کا ذکر ہے۔ پس خاکسار بجا طو ر پراپنے آپ کوروزنامہ الفضل کا ممنون احسان سمجھتا ہے کہ جس کی بدولت خاکسار کوایسا مواد میسر آگیا جو ان کتب کی زینت بنا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں