’’الفضل‘‘ میرا محسن

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍جولائی 2024ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم انورندیم علوی صاحب نے اپنی چند خوبصورت یادیں مرتب کی ہیں۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ۱۹۶۵ء میں ہم اپنے گاؤں گوٹھ امام بخش میں رہتے تھے۔ اباجی مکرم چودھری غلام نبی علوی صاحب صدر جماعت تھے۔ میرا سکول سات کلومیٹر دُور دریاخاں مری میں واقع تھا جو سندھی میڈیم تھا۔ اُس وقت سندھ کے تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم کافی بہتر تھا۔ وہاں ایک احمدی دوست مکرم سیٹھ صادق احمد صاحب کی آڑھت کی دکان تھی جہاں ہمارے گاؤں کی ڈاک بھی آتی تھی۔ یہ ڈاک سکول سے واپسی پر مَیں لے آتا جس میں اخبار الفضل بھی ہوتا۔ گاؤں میں بجلی نہ تھی۔ رات کو لالٹین کی روشنی میں ابّاجی مجھ سے اخبار پڑھواکر سنتے اور مشکل الفاظ کے معانی بھی سمجھاتے۔
جب پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو سندھ کے سکول بند ہوگئے لیکن ربوہ کے تعلیمی ادارے کھلے تھے چنانچہ مَیں ربوہ آکر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہوگیا جہاں سندھی کے نام سے مشہور ہوا۔ پہلے امتحانات میں ہی سندھی میڈیم میں پڑھنے والا یہ ‘سندھی’ اوّل آگیا تو سب حیران ہوئے لیکن مجھے معلوم تھا کہ دراصل ’’الفضل‘‘ ہی میرا محسن تھا۔ بعدازاں الفضل کے لیے مضامین لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہوا اور ان مضامین پر مشتمل دو کتب اب تک شائع ہوچکی ہیں۔
اسی ضمن میں ابّاجی کا ذکرخیر بھی ضروری ہے۔ انہوں نے بائیس سال کی عمر میں (اپنے خاندان میں سب سے پہلے) احمدیت قبول کی اور پھر باقی فیملی بھی احمدیت کی آغوش میں آتی گئی۔ آپ نے قریباً ۹۷سال عمر پائی اور آخری عمر تک الفضل کا روزانہ بےچینی سے انتظار اور پھر مطالعہ جاری رکھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب خصوصاً ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘، ’’انفاخ قدسیہ‘‘ اور ’’کشتی نوح‘‘ اُن کے سرہانے موجود رہتیں۔وفات کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں