’’الفضل‘‘ میرا مربی
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل …؍دسمبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم ریاض احمد باجوہ صاحب رقمطراز ہیں کہ میری عمر تقریباََ اٹھارہ سال تھی جب خداتعالیٰ نے مجھے خوابوں اور قبولیتِ دعا کے ذریعے احمدیت کی طرف مائل فرمایا۔ پھر ایک انذاری خواب ایسا آیا کہ اُس کا نظارہ میرے لیے دل دہلا دینے والا تھا۔ اگلے روز خوف و رجا کی کیفیت میں مَیں اپنے آبائی گاؤں قاضی پہاڑنگ کی مسجد میں نماز عصر ادا کرنے گیا اور دعا کی کہ اے اللہ! مجھے تو علم نہیں کہ کس طرح احمدی ہونا ہے۔ اگر احمدیت سچی ہے تو کسی ایسے آدمی کو بھیج دے جو مجھے بتاسکے کہ احمدی کیسے ہونا ہے۔ جب یہ دعا کرنے کے بعد مَیں مسجد کے صحن میں آیا تو عین اُسی وقت ایک احمدی مسجد کے قریب سے یہ منادی کرتے ہوئے گزر رہا تھا کہ کل ہمارے مربی تشریف لائیں گے اور نماز عشاء کے بعد خطاب کریں گے۔ جو چاہے آکر یہ خطاب سن سکتا ہے۔
یہ بارشوں کا موسم تھا۔ ہمارے گاؤں کے اندر سے ہی ایک برساتی نالہ جسے ڈیک کہا جاتا ہے گزرتا ہے۔ جب بارش ہو تو آس پاس کے دیہات بھی زیر آب آجاتے ہیں اور اُس روز تو ڈیک میں ایسی طغیانی آئی ہوئی تھی کہ ہمارا گاؤں ایک کشتی کی مانند سیلاب میں تیرتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ گاؤں کے چاروں اطراف دور دور تک پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ ایسے میں کسی کا وہاں تک پہنچنا امر محال نظر آتا تھا اور کسی اجنبی کا آنا تو وہم و گمان سے بھی بعید تھا۔ تاہم ان تمام نامساعد حالات کے باوجود اگلے روز مکرم خورشید احمد صاحب سیالکوٹی نمائندہ الفضل ربوہ عصر کی نماز کے وقت ہمارے گاؤں قاضی پہاڑنگ پہنچ گئے۔ مَیں اس روز تو انہیں نہ مل سکا لیکن اگلے روز میری اُن سے ملاقات ہوئی۔ سلام دعا کے بعد جب وہ دلائل کے ساتھ مجھے احمدیت کی صداقت سمجھانے لگے تو مَیں نے عرض کی کہ اس کی ضرورت نہیں، مجھے اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعے صداقتِ احمدیت سے آگاہ فرما چکا ہے۔ آپ بس یہ راہنمائی فرما دیں کہ میں کس طرح احمدی ہوسکتا ہوں؟ انہوں نے مجھے بیعت فارم دیا جسے لے کر مَیں گاؤں کی مسجد میں چلاگیا، دعا کی اور وہیں بیٹھ کر وہ بیعت فارم پُر کیا اور لاکر اُن کو دے دیا۔ انہوں نے میرا وہ خط حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں ارسال کردیا۔ کچھ ہی عرصے بعد حضورؓ کی طرف سے منظوریٔ بیعت کا خط خاکسار کو مل گیا۔

میری قبولِ احمدیت کا علم لوگوں کو ہوا تو گاؤں میں میری مخالفت بڑھنے لگی چنانچہ مَیں ہجرت کرکے ربوہ آگیا اور یہاں برادرم مکرم ظہور احمد باجوہ صاحب کے ہاں رہائش پذیر ہوا۔ میرا اُن سے پہلا خونی رشتہ تو یہ تھا کہ ہمارے پڑدادا ایک ہیں اور دوسرا نیا تعلق یہ تھا کہ ہم دونوں ایک ایسے وجود کے ماننے والے تھے جس نے ہمیں یہ تعلیم دی تھی کہ ‘‘تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی’’ (کشتی نوح)۔ چنانچہ 1960ء کی دہائی کے پہلے پانچ سال میں نے آپ کے گھر میں ہی ایک فردِ خاندان کی حیثیت سے گزارے۔ ان کی خاص توجہ اور تربیت کی وجہ سے مجھے بہت سے بزرگوں اور ربوہ کی علمی و ادبی مجالس سے فیضیاب ہونے اور ذیلی تنظیموں میں خدمت کی توفیق بھی ملنے لگی۔ اسی دوران مَیں بحیثیت پروف ریڈر روزنامہ الفضل ربوہ سے منسلک ہوگیا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ جس شخص کے ذریعے مجھے بیعت کی توفیق ملی تھی وہ الفضل کا ہی نمائندہ تھا اور اب جب میں روحانی ولادت میں تربیت کے مراحل سے گزر رہا تھا تو ایک دفعہ پھر الفضل نے میری زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔




مَیں تقریباََ چار سال اس خدمت پر رہا اور اس دوران الفضل نے اور اس کے عملے کے حسن سلوک نے میری تعلیم و تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اُس وقت اخبار الفضل کے عملے میں مکرم روشن دین صاحب تنویر (ایڈیٹر)، مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی اور مکرم خورشید احمد صاحب (اسسٹنٹ ایڈیٹرز)، مکرم گیانی عباداللہ صاحب (مینیجر)، مکرم احمد حسین صاحب (ہیڈ کاتب)، مکرم سردار احمد صاحب (کاتب) اور مکرم محمد یعقوب صاحب (کاتب) شامل تھے۔ تما م کارکنان بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ ہر فرد بڑی فرض شناسی، دلجمعی، لگن اور محبت وعشق سے اپنے فرائض ادا کرنے والا تھا۔ بطور پروف ریڈر مَیں الفضل کو ایک بار نہیں باربار پڑھتا تھا یہاں تک کہ حضرت مسیح موعودؑ اور خاص طور پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ارشادات، خطبات و خطابات اتنی دفعہ پڑھتا کہ جزو بدن بن جاتے تھے۔ اِس وقت میری عمر 74 سال ہے لیکن ان تحریرات کا اثر آج بھی میرے رؤاں رؤاں میں سمویا ہوا ہے۔ مَیں کہہ سکتا ہوں کہ میرا مربی ’’الفضل‘‘ ہے۔
دفتر الفضل میں چند سال خدمات بجالانے کے بعد مختلف دفاتر میں خدمت کی توفیق ملی۔ پھر مجھے نظارت زراعت کے تحت سندھ بھجوا دیا گیا۔ تب سے مَیں الفضل کو ایک پروف ریڈر کے طور پر نہیں بلکہ ایک قاری کی حیثیت سے پڑھتا ہوں۔ یہ واحد ذریعہ تھا جس نے مجھے دربارِ خلافت اور ربوہ جیسی حسین بستی سے جوڑے رکھا۔ اس روحانی سرچشمہ نے مجھے ہمیشہ فیضیاب کیا۔ میری مشکلات میں میرے لیے احباب جماعت کی دعاؤں کا اثر مَیں نے ہمیشہ محسوس کیا۔ مثلاً میرا بیٹا ندرت ریاض ایک بار ایسا بیمار ہوگیا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دعائیں ہمارا سہاراتھیں۔ الفضل میں بھی باربار اعلانِ دعا شائع ہورہاتھا جسے پڑھ کر وہ لوگ بھی تیمارداری کے لیے آئے جنہیں مَیں جانتا تک نہ تھا۔ آخر خدا کے فضل نے دعاؤں کو جذب کیا اور میرا بیٹا الحمدللہ تندرست ہوگیا۔ پس یہ الفضل کی ہی برکات تھیں کہ میری تکلیف ساری جماعت کی تکلیف بن گئی اور ساری جماعت میرے لیے مجسم دعا بن گئی جس کا ثمرہ غیرممکن کے ممکن ہوجانے سے حاصل ہوا۔
