الفضل نے قلمکار بنادیا

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل …؍دسمبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم محمد ایوب صابر صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب سے مَیں نے ہو ش سنبھالا ہےروز نامہ الفضل اپنے گھر میں موجود پایا ہے۔ والد محترم حکیم محمد افضل صاحب (مرحوم) جماعتی رسائل وا خبارات کے گرویدہ تھے چنانچہ تمام رسائل ’’انصاراللہ‘‘، ’’خالد‘‘، ’’تشحیذالاذہان‘‘، ’’تحریکِ جدید‘‘، ’’لاہور‘‘ رسالہ، ’’تقاضے،‘‘ اخبارات روزنامہ ’’الفضل‘‘ اور ’’جنگ‘‘ ہمارے گھرآتے تھے۔ جب سکول سے آتے تو اخبار و رسائل ڈھونڈتے اور تمام بہن بھائی پہلے پڑھنے کے لیے دوڑ لگاتے، اپنی اردو درست کرتے، والد محترم یا بڑے بہن بھائی الفاظ و معنی کی وضاحت کرتے، اسی طرح گھر یلو ماحول کی وجہ سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ سے لگاؤ بڑھتا رہا جو اب تک جاری ہے۔

مولانا نسیم سیفی صاحب

1989ء میں ’’الفضل‘‘ کے ایڈیٹر مکرم نسیم سیفی صاحب نے الفضل میں مضمون لکھنے کی تحریک کی اور قارئین کو مضمون بھجوانے کا کہا۔ خاکسار ایک دن بیٹھ کر سوچتا رہا کہ کوئی نہ کوئی مضمون بھیجنا چاہیے چنانچہ مضمون بعنوان ’’بجلی کا بل‘‘ ہلکے پھلکے مزاح کے رنگ میں جو کچھ بل جمع کرانے کا منظر تھا لکھ کر ارسال کر دیا۔ جس میں لمبی لائنوں اور بینکوں کے رش کی وجہ سے لوگوں کے انتظار کی کیفیت اور اسے دُور کرنے کے لیے کچھ مشورے لکھے۔ مکرم سیفی صاحب نے مضمون کی نوک پلک سیدھی کرکے اسے شائع کردیا۔

ثاقب زیروی صاحب

الفضل میں اپنے مضمون کو پہلی مرتبہ پڑھنے کے بعد جو خوشی حاصل ہوئی وہ بیان سے باہر ہے جیسے یہ میری زندگی کا کوئی خاص دن ہو۔ بس پھر کیا تھا ایک اَور مضمون کی کوشش کی جو بابوں کے حوالے سے ذرا زیادہ مزاح میں تھا اس لیے اسے الفضل کی بجائے ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ کے لیے مکرم ثاقب زیروی صاحب کو بھجوا دیا جنہوں نے اسے ’’جہاں مَیں ہوں‘‘ کی زینت بنا دیا ۔ بس اس طرح لکھنے کا یہ سلسلہ چل نکلا جس کا سارا کریڈٹ روزنامہ الفضل کے ایڈیٹر مکرم نسیم سیفی صاحب کو جاتا ہے۔ پھر 2009-2010ء میں اپنے بھائی محمداعظم طاہر کی شہادت اور والد صاحب کی وفات کے حوالے سے اپنے واقعات یکجا کیے جسے مکرم عبدالسمیع خان صاحب نے الفضل میں شائع کیا۔ اسی طرح ایک اَور مضمون ’’خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر‘‘ کے حوالے سے بھی لکھا جو شائع ہوگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں