الفضل کا ایک پرچہ اور قبول حق
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 26؍ جولائی 2023ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد امان اللہ صاحب رقمطراز ہیں کہ میرے والد محترم مولوی غوث محمد صاحب مقامی سکول میں استاد تھے اور گاؤں کے خطیب بھی تھے۔ آپ کا تعلق مخالفِ احمدیت مذہبی اور علمی خاندان سے تھا۔ غیراحمدی علماء آپ کے پاس آکر ٹھہرا کرتے تھے۔ ۱۹۵۳ء کے ہنگاموں میں کچھ حکومت اور کچھ اپنی کارکردگی کا ذکر کرتے۔ میری عمر چھ سات سال کی تھی اور مَیں اُن کی باتیں دلچسپی سے سنا کرتا تھا۔ گاؤں کے ایک بزرگ عبدالعزیز صاحب احمدی ہوچکے تھے اور ہماری مسجد کے سامنے اُن کی چھوٹی سی دکان تھی۔ وہ خود تو اَن پڑھ تھے مگر الفضل اخبار منگوایا کرتے تھے۔ ایک دن جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد والد صاحب مسجد سے نکلے اور اُن کی دکان پر کھڑے ہوگئے۔ الفضل کا ایک پرچہ سامنے پڑا تھا۔ اُسے اٹھاکر پڑھنے لگے۔ سورۃالانعام کی آیت ۷۰ کی تشریح ایک مضمون میں کی گئی تھی جس کا ترجمہ ہے کہ جو بھی اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہوں گے یعنی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین میں سے۔ اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔
یہ مضمون پڑھا تو چہرے کا رنگ بدل گیا، بات روشن ہوگئی،گہری سوچ میں ڈوبے اپنے ایک ساتھی استاد اور دوست سلطان احمد صاحب سے اس کا ذکر کیا اور غور کرنے کو کہا۔ بعدازاں دونوں نے مشورہ کیا کہ بات تو صحیح ہے۔ پھر دونوں اسی سال ۱۹۵۸ء کے جلسہ سالانہ پر ربوہ چلے گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر سنیں تو حق واضح ہوگیا اور دونوں دوستوں نے بیعت کرلی۔ واپس آکر والد صاحب نے اپنے مقتدیوں سے کہا کہ مَیں تو احمدی ہوگیا ہوں، اپنے لیے امام ڈھونڈ لو۔ انہوں نے علماءکو بلاکر مناظرہ بھی کروایا مگر آپ نے استقامت دکھائی اور اس طرح الفضل کے ذریعے احمدیت کی برکت ہمارے خاندان کو نصیب ہوئی۔