الفضل کا مطالعہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍جولائی 2024ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عبدالباسط چودھری صاحب کا ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ہماری دکان ملتان کینٹ میں احمدیوں کی پرانی مشہور دکان ہے ۔ والد صاحب نے دکان میں ایک طرف کرسی میز لگائی ہوتی تھی جس پر الفضل اور دیگر جماعتی لٹریچر پڑے رہتے تھے۔ کافی تعداد میں احباب ان کا مطالعہ کرتے۔ ایک ہسپتال کے لیبارٹری اسسٹنٹ باقاعدگی سے آتے اور کہا کرتے کہ عجیب عادت سی ہوگئی ہے کہ جب تک الفضل کا مطالعہ نہ کرلوں، دل ہی نہیں لگتا۔ ایک ٹی وی چینل کے میزبان مجھ سے الفضل لے جاتے ہیں کہ جب وہ کام سے تھک جاتے ہیں اور قلبی سکون چاہتے ہیں تو الفضل کا مطالعہ کرتے ہیں۔
ایک ایسا دَور بھی آیا جب الفضل نسبتاً ایک دو دن دیر سے ملنے لگا۔ مَیں نے ڈاکیے سے وجہ پوچھی تو پہلے تو اُس نے ٹال دیا لیکن پھر ایک دن بتایا کہ جب مَیں ڈاکخانے سے نکلتا ہوں تو باہر بیٹھا ہوا ایک عرضی نویس مجھ سے اخبار الفضل لے لیتا ہے اور پڑھ کر اگلے روز واپس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے مطالعے سے میرے ذہن کو سکون ملتا ہے۔
جناب مخدوم حسن رضا گردیزی صاحب جو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے کلاس فیلو بھی رہے تھے اور جناب شاہ محمود قریشی صاحب سابق وزیرخارجہ کے چچاسسر تھے، وہ بھی باقاعدگی سے الفضل کا مطالعہ کرنے ہماری دکان پر آیا کرتے تھے بلکہ اخبار میں شائع ہونے والے بعض اشعار بھی اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے اور کہا کرتے تھے کہ احمدیوں کے اشعار انتہائی معیاری ہوتے ہیں جنہیں جب مَیں کسی مجلس میں سناتا ہوں تو لوگ عش عش کراٹھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں