الفضل کی اشاعت لاہور میں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 22؍ستمبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں اخبار الفضل کے لاہور میں سات سالہ عرصے (15؍ستمبر1947ء تا 30؍دسمبر1954ء) کا جائزہ مکرم منور علی شاہد صاحب کے قلم سے پیش کیا گیا ہے۔
جون 1913ء سے لے کر اگست 1947ء تک روزنامہ الفضل قادیان سے شائع ہوتا رہا۔ تقسیمِ ہند کے بعد15؍ستمبر 1947ء سے روزنامہ الفضل لاہور پاکستان کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا اور 26؍فروری1953ء تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ 1953ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کے باعث 27؍فروری1953ء سے الفضل ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا۔ 15؍مارچ1954ء سے دوبارہ الفضل لاہور شائع ہونا شروع ہوا اور یہ دسمبر 1954ء میں ربوہ منتقل ہو گیا۔

شیخ خورشید احمد صاحب
شیخ روشن دین تنویر صاحب

روزنامہ الفضل کے لاہور سے نکلنے کا دَور اس لحاظ سے بے سرو سامانی کا دور تھا کہ مرکز سے دُوری، مہجوری، مجبوری و محرومی اس کے شامل حال رہی۔ یہ پرانی انارکلی سے ملحق 3۔میکلیگن روڈ سے نکلتا رہا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی ہدایت پر مولانا روشن دین تنویر صاحب، جناب شیخ خورشید صاحب اور مکرم احمد حسین صاحب کاتب 9؍ستمبر1947ء کو قادیان سے لاہور پہنچے۔ الفضل کے مینیجر جناب چودھری عبدالواحد صاحب (سابق مدیر ’’اصلاح‘‘ سرینگر) تھے۔ اخبار کا ابتدائی کام مسجد لال روڈ کے سامنے ایک کوٹھی میں نہایت بےسرو سامانی میں شروع کیا گیا۔ دن رات کی بھاگ دوڑ کے بعد بالآخر 14؍ستمبر کی شام کو الفضل لاہور کا پہلا شمارہ شائع ہونے کے لیے پریس میں بھجوایا گیا جس پر 15؍ستمبر 1947ء (30؍شوال 1366ھ ) کی تاریخ درج تھی۔ ایڈیٹر مکرم روشن دین تنویر صاحب اورپرنٹر و پبلشر قاضی عبدالحمید صاحب تھے جبکہ گیلانی الیکٹرک پریس ہاسپٹل روڈ لاہور میں طبع ہو کر جودھا مل بلڈنگ لاہور سے شائع کیا گیا۔ صفحہ اوّل پر حضرت مصلح موعودؓ کا ارشاد بعنوان ’’کیا آپ سچے احمدی ہیں؟‘‘ شائع ہوا۔

مولانا محمد شفیع اشرف صاحب

روزنامہ الفضل پر اس کے اجرا کے 6سال بعد حکومت کی طرف سے ایک سال کے لیے پابندی عائد کر دی گئی۔ ایک سال کی پابندی کا عرصہ مکمل ہوتے ہی ایک دو ورقہ علامتی الفضل 15؍مارچ1954ء سے نکلنا شروع ہوا جو مکرم محمدشفیع اشرف صاحب بطور قائمقام ایڈیٹر نکالتے رہے۔ انہوں نے 25؍مارچ 1954ء تک دس پرچے نکالے۔ 26؍مارچ 1954ء سے الفضل8صفحات پر مشتمل اپنی روایتی شان کے ساتھ دوبارہ نکلنا شروع ہوا ۔

مسعود احمد دہلوی صاحب

پارٹیشن کے بعد لاہور سے الفضل کے اجرا کے وقت سے رپورٹنگ کی ڈیوٹی محترم ثاقب زیروی صاحب کے سپرد تھی۔ آپ کو تمام پریس کانفرنسوں اور سرکاری تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا ۔ 1949ء کے اوائل میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی زیر ہدایت محترم مسعود احمد دہلوی صاحب کو الفضل کا رپورٹر مقرر کر دیا گیا اور محترم ثاقب صاحب نے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے فرائض سنبھال لیے ۔ محترم دہلوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ پاکستان ٹائمز کے نامی گرامی رپورٹر میاں محمد شفیع المعروف م۔ش نے مجھے اپنے شاگردوں کے حلقہ میں شامل کرلیا اور رفتہ رفتہ وہ مجھے رپورٹنگ کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے رہے۔ اس زمانہ میں سرکاری تقریبات میں محترم مولانا عبدالمجید سالک ایڈیٹر روزنامہ انقلاب بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ چونکہ میں نے کچھ عرصہ ’’انقلاب‘‘ میں بھی کام کیا تھا۔ وہ مجھ سے پہلے واقف تھے۔ ان کی نظر التفات نے بھی اخبار نویسوں کے حلقہ میں جگہ بنانے میں بہت مدد کی۔
حالیہ تاریخ کا ایک سیاہ دن وہ بھی تھا جب28؍مئی 2010ء کو لاہور کی مساجد میں دہشتگردی کے بعد بڑھتی ہوئی مخالفت کا بہانہ بناکر 25؍جولائی 2012ء سے اخبار فروش یونین کے ذریعے الفضل کی لاہور میں تقسیم و فروخت قانونی نوٹس کی دھمکی دے کر بند کرادی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں