الفضل کی برکات

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 27؍اکتوبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرمہ سیّدہ بشریٰ خالد صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ناروے بیان کرتی ہیں کہ اپنی ناسمجھی کی عمر میں ماں باپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے اورکھانا کھاتے ہوئے اُن کے ہاتھ میں چند کاغذ دیکھتی جنہیں پڑھ کر وہ کوئی نہ کوئی دینی یا تربیتی بات کرتے۔ شعور کی عمر ہوئی تو یہ باتیں علم کی صورت دماغ میں محفوظ ہونے لگیں۔ ناصرات کی کلاس میں کوئی سوال ہوتا تو جواب فوراً ذہن میں آجاتا۔ پھر خود بھی الفضل پڑھنے کی طرف توجہ ہونے لگی۔ آخری صفحہ پر کچھ باریک سا لکھا ہوتا جو اکثر سمجھ نہ پاتی۔ ابا جان نے پوچھنے پر بتایا کہ یہ وصیت کے حوالے سے منظوری کا ذکر اور دعا کے طور پر لکھا جا تا ہے۔ پھر انہوں نے وصیت کے بارے میں بتایا۔ یہ بیج دل میں بویا گیا اور جیسے ہی سولہ سال کی ہوئی تو نظامِ وصیت میں شامل ہوگئی۔
ایک دفعہ سکول سے دیر سے گھر آئی تو بہت بھوک لگی تھی۔ کھا نا کھانے بیٹھ گئی تو عصر کی نماز لیٹ ہوگئی۔ پھر الفضل پڑھنے بیٹھی تو اُس میں نماز کے حوالے سے مضمون میں درج حضرت مسیح موعودؑ کے اِن الفاظ نے جادو کا کام کیا کہ کام کے واسطے نماز نہ چھوڑو بلکہ نماز کے لیے کام چھوڑدو۔ خداتعالیٰ نے ایسے سنبھالا کہ وہ دن اور یہ دن پھر سُستی نہیں ہوئی۔
ناروے آئی تو الفضل کی کمی کا شدّت سے احساس ہوا چنانچہ یہاں بھی الفضل لگوالیا۔ لجنہ کے کاموں میں، تقاریر تیار کرنے میں بہت ممد رہا۔ آج میرے چار بچے ہیں۔ ہم کھانا کھانے بیٹھیں یا باجماعت نمازکے بعد بیٹھیں تو اس مبارک اخبار کے حوالے سے کوئی ضرور ذکر ہوتا ہے۔ چاہے سیرت کے واقعات ہوں، تحریکات ہوں یا دعائیہ اعلان ہوں۔ ڈھیروں رحمتیں ہوں اس وجود پر جس نے اس مبارک اخبار کا اجرا کیا اور اُن تمام مبارک خواتین پر جو اپنے زیورات بیچ کر اِس میں معاون و مدد گار ہوئیں اور ہمارے ان بزرگوں پر جنہوں نے اِس کی طرف ہمارا رجحان بڑھایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں