الفضل کی خوبصورت یادیں

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍جولائی 2024ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب مربی سلسلہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے بعض دوستوں کی الفضل کے حوالے سے خوبصورت یادوں کو بیان کیا ہے۔

عبدالقدیر قمر صاحب

٭…مضمون نگار کی اہلیہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے گھرانے نے احمدیت قبول کی تو گھر میں الفضل بھی آنے لگا۔ میری والدہ مجھ سے پڑھواکر اخبار سنتیں تو میری بھی تربیت ہوتی جاتی۔ ایک روز ایک مربی سلسلہ کے تعلق باللہ کا احوال ایک مضمون میں پڑھا تو میرے دل میں شدّت سے خواہش پیدا ہوئی کہ میری شادی بھی کسی مربی سلسلہ سے ہوجائے۔ جب میری شادی کے پیغامات آنے شروع ہوئے تو مَیں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی والدہ سے کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم نئے احمدی ہیں، جماعت میں ہمیں کوئی جانتا نہیں، ہمیں مربی کا رشتہ کیسے ملے گا؟ مَیں نے کہا کہ میری تو یہی شدید دلی تڑپ ہے۔ پھر مَیں نے دعائیں بھی شروع کردیں اور آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری شادی مربی سلسلہ سے ہوگئی۔
٭…مکرم منصور صاحب نے بیان کیا کہ الفضل کا ہمارے خاندان پر یہ احسان ہے کہ ہم نُوراحمدیت سے منور ہوئے۔ میرے والد مکرم چودھری بشیر احمد صاحب سٹیشن ماسٹر تھے، ایک قریبی سکول میں ایک احمدی استاد مکرم ماسٹر ابراہیم شاد صاحب تعینات تھے جنہوں نے الفضل لگوا رکھا تھا۔ وہ الفضل کا مطالعہ کرنے کے بعد اخبار کو سٹیشن کے کسی بنچ پر چھوڑ جاتے جسے والد صاحب اٹھاکر ایک الماری میں رکھ دیتے۔ ایک بار شدید بارش کی وجہ سے ڈیوٹی پر کوئی اَور نہ آیا اور میرے والد اکیلے ہی بیٹھے تھے تو اپنی تنہائی دُور کرنے کے لیے الماری میں رکھے ہوئے الفضل کے پرانے شماروں کا مطالعہ شروع کردیا۔ جوں جوں یہ مطالعہ آگے بڑھتا رہا تو شکوک و شبہات کے دبیز پردے ہٹتے چلے گئے۔ اور آخر آپ کا سینہ احمدیت کے نُور نے منور کردیا۔
٭…مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار ضلع گوجرانوالہ کا مربی ضلع تھا تو مکرم خالد صاحب سے تبادلہ خیال ہوا۔ انہوں نے کچھ عرصہ مطالعہ کرنے اور ایم ٹی اے دیکھنے کے بعد بیعت کرلی۔ چند دن بعد ہی اُن کے والدین نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ اُن کے والد صاحب نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اُن کے گاؤں کا ایک نوجوان احمدی ہوگیا اور اُس نے الفضل لگوالیا تو اُس کی شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ اس مخالفت سے تنگ آکر وہ کہیں باہر چلا گیا۔ اب الفضل تو آتا تھا لیکن اُسے لینے والا کوئی نہ تھا۔ ایک روز مَیں نے سوچا کہ مَیں دیکھوں تو سہی کہ اس اخبار میں کیسے مضامین آتے ہیں جس پر مخالفت ہوتی ہے۔ جب اخبار پڑھنا شروع کیا تو اس میں خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہﷺ کے دلنشیں تذکرے اور دوسرے علمی مضامین کو پایا جنہوں نے چند ہی دن میں میری کایا پلٹ دی اور مَیں نے اپنے بیٹے خالد کو نصیحت کی کہ جب بھی تمہارا رابطہ احمدیوں سے ہو تو اُن کے ساتھ شامل ہوجانا اور مجھے بھی ملانا۔ خدا تعالیٰ نے ہماری سچی تڑپ کو دیکھا اور آپ لوگوں سے ملادیا۔
اس خاندان کو الفضل سے بہت محبت تھی اور اس کے مضامین سے اُن کے علم میں ایسی جِلا آئی کہ دعوت الی اللہ کی لگن پیدا ہوئی اور خالد صاحب کو مزید ۳۵؍بیعتیں کروانے کی سعادت بھی ملی۔
٭…ایک دوست نے بیان کیا کہ میرا بیٹا شدید بیمار ہوگیا اور علاج کے باوجود مرض بڑھتا گیا۔ آخر یوں لگنے لگا کہ ہمارا پیارا بیٹا چند دنوں کا مہمان ہے۔ آخر مجھے خیال آیا کہ الفضل میں دعا کا اعلان کرواؤں۔ خدا نے ایسا فضل کیا کہ جس دن اعلان شائع ہوا اگلے ہی دن سے حالت سنبھلنے لگی اور چند دن کے اندر بیٹا بالکل صحت مند ہوگیا۔ اُس دن سے مَیں الفضل پڑھتے ہوئے اعلانات کا مطالعہ کرتا ہوں تو بیماروں کے لیے دعا بھی کرتا ہوں۔
٭…مکرم مظفر احمد درّانی صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیںکہ بچپن سے ہی الفضل سے تعلق ہوگیا۔ جب افریقہ میں متعیّن ہوا تو یہ بھی دیکھا کہ بہت سے افریقن بزرگ الفضل کے مضامین کے مطالعہ کی شدید تڑپ رکھتے تھے چنانچہ اُن کے شوق کو دیکھتے ہوئے الفضل کے اہم مضامین کا ترجمہ کرکے انہیں سمجھایا جاتا اور مقامی اخبار میں بھی ان کا خلاصہ شائع کروایا جاتا۔
٭…مکرم صفدر نذیر صاحب گولیکی مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ میرے بچپن سے ہی اخبار الفضل ہمارے ہاں آتا تھا اور میرے والد محترم تو اس کے شیدائی تھے۔ خود پڑھ کر اپنے دوستوں کو بھی مطالعہ کے لیے دیتے۔ جب مَیں میٹرک میں تھا تو ہم خانیوال میں مقیم تھے۔ میرے والد صاحب نے میری ڈیوٹی لگائی کہ گاڑی میں ربوہ سے الفضل آتا ہے، تم بلٹی چھڑاکر لایا کرو اور اخبار احمدی گھرانوں میں تقسیم کیا کرو۔ مَیں روزانہ یہ خدمت کرنے لگا لیکن خود مطالعہ کا اتنا شوق نہ تھا۔ ایک دن مخالفین نے اخبار کا بنڈل مجھ سے چھین کر پھاڑ دیا اور مجھے بھی ڈرایا دھمکایا۔ اس واقعے کے بعد مَیں نے الفضل کو بنظر غائر پڑھنا شروع کیا کہ اس میں کونسی چیز مخالفین کو ناپسند آئی ہے۔ لیکن اس مطالعے نے مجھے یہی دکھایا کہ یہ تو خدا اور رسولﷺ کی محبت بڑھانے والا اور ہماری علمی ترقی کا ذریعہ ہے۔ جب مَیں دعوت الی اللہ کے لیے افریقہ گیا تو مَیں نے دیکھا کہ اگر الفضل میں اُن ممالک کے کسی بزرگ کا ذکرخیر ہوتا تو وہاں کے باشندوں کی خوشی دیدنی ہوتی۔
٭…مکرم محمد آصف خلیل صاحب مربی سلسلہ نے بتایا کہ جب سے ہمارے گھرانے نے احمدیت قبول کی تو الفضل ہمارے ہاں آنے لگا۔ اخبار آتا تو سارا دن گاؤں میں ہماری دکان پر موجود رہتا اور کئی غیرازجماعت بھی اسے بڑے شوق سے پڑھتے اور کہتے کہ تمہارے اخبار میں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کے علوم پائے جاتے ہیں۔ ہم نئے احمدی تھے ہماری تو الفضل نے تربیت ہی نہیں کی بلکہ خلافت سے محبت کرنے کے انداز بھی سکھائے۔ نماز اور مالی قربانی میں قدم بڑھانے کی عادت ڈالی اور پھر میرا زندگی وقف کرنے کا موجب بھی الفضل ہی بنا اس لیے مجھے اس سے عشق ہے۔
٭…مکرم مقصود احمد قمر صاحب مربی سلسلہ نے بیان کیا کہ میری عمر دس گیارہ سال تھی تو میری والدہ مجھے اخبار الفضل پڑھنے کے لیے روزانہ احمدیہ مسجد سے ملحقہ لائبریری میں بھیجا کرتیں اور جب مَیں گھر آتا تو پوچھتیں کہ کیا پڑھ کر آئے ہو؟ اس طرح بچپن سے ہی غور سے اخبار پڑھنے کی عادت ہوگئی۔ جب میری تقرری تنزانیہ میں ہوئی تو الفضل باقاعدگی سے نہ ملتا۔ ہفتے میں ایک بار بنڈل کی صورت اخبار آتے تو ہماری خوشی دیدنی ہوتی۔ ہمارے تنزانین دوست بھی ہم سے الفضل پڑھواکر سنتے۔ جن کو اردو سے شُدبُد ہوتی وہ خود بھی پڑھنے کی کوشش کرتے۔ خاص طور پر مولانا محمدیوسف کانبولا صاحب اور ابوطالب صاحب کو الفضل سے عشق تھا۔ٹبورا کی ایک خاتون تھیں جو خاص طور پر مشن سے الفضل منگواکر پڑھتیں اور بچوں کو سناتی تھیں۔
٭…مکرم میاں محمد زاہد صاحب آف جھنگ بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں میری ڈیوٹی ضلع شیخوپورہ کے ایک مقام پر تھی تو سخت گرمی کے موسم میں نہر کے کنارے ایک درخت کے سایے میں بیٹھے بیٹھے مَیں نے اپنے بچوں کو آواز دی کہ مجھے الفضل پکڑادیں۔ میری آواز نہر کے دوسرے کنارے پر گزرتے ہوئے دو آدمیوں نے بھی سُن لی تو اُن میں سے ایک نے بوٹ اور جرابیں اتاریں، پتلون اوپر کی اور نہر میں سے ہوتا ہوا میرے پاس آگیا۔ اُس کا ساتھی بھی پیچھے پیچھے آگیا۔ اُس نے پوچھا کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ میرے اثبات میں جواب دینے پر کہنے لگا کہ میرا نام محمد ارشد ہے اور مَیں محکمہ نہر میں اوورسیئر ہوں۔ میرے کانوں میں الفضل کا نام پڑا تو نہر سے گزر کر آگیا کہ ایک تو احمدی دوست سے ملاقات ہوجائے اور دوسرے الفضل بھی پڑھ لوں۔
اسی جگہ ایک روز بیٹھا ہوا تھا۔ چارپائی پر الفضل بھی پڑا تھا کہ ایک غیرازجماعت آگیا اور اخبار اٹھاکر پڑھنے لگا۔ جب اُس نے حضرت مسیح موعودؑ کے یہ الفاظ پڑھے کہ سچی توبہ گناہوں کو اس طرح ختم کردیتی ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، تو عجیب کیفیت اُس پر طاری ہوگئی۔ وہ بار بار یہ الفاظ پڑھتا رہا۔ پھر کہنے لگا کہ اگر بانی جماعت احمدیہ کی یہی تعلیم ہے تو مَیں بیعت کرتا ہوں۔ چنانچہ بعدازاں وہ نہایت مخلص احمدی بن گیا۔
٭…مکرمہ شوکت اسد صاحبہ نے الفضل سے اپنی بےانتہا محبت کا پس منظر یہ بیان بتایا کہ بچپن میں ہم اپنے نانا محترم قاضی عطاءاللہ صاحب کے ہاں جاتے تو انہیں اور نانی جان کو الفضل کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتی۔ مَیں نے بھی کئی دفعہ پڑھا لیکن کوئی کہانی یا لطیفہ نہیں نظر آیا تو سوچتی کہ یہ اتنی دلچسپی سے کیوں پڑھتے ہیں۔ جب ہم ربوہ آگئے تو اپنے ماموں محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کو دیکھا کہ بڑی گہری نظر سے الفضل کا مطالعہ کرتے، نوٹس لیتے اور مضامین کو اہل خانہ سے ڈسکس بھی کرتے۔یہاں سے مجھے بھی الفضل سے دلچسپی پیدا ہوتی گئی۔ پھر والدہ صاحبہ نے اخبار لگوالیا تو مجھے بھی ایسی لگن ہوگئی کہ انتظار رہتا۔ شادی کے بعد جب اخبار نہ ملا تو بڑی بےچینی ہوئی۔ آخر اپنے شوہر کی دادی کے ہاں سے منگواکر پڑھتی۔ پھر ایک قریبی احمدی گھرانے کا علم ہوا تو وہاں سے منگوانے لگی اور خود پڑھنے کے بعد چار پانچ دوسرے گھرانوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتی جو خود نہیں لگواسکتے تھے۔ مَیں یہ بھی دعا کرتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنا گھر دے تو سب سے پہلے الفضل لگواؤں گی۔ جب اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کو سنا تو مَیں نے بھی اپنا عہد پورا کیا اور اب الفضل خود پڑھ کر دوسرے گھروں میں بھی بھجوادیتی ہوں۔
٭…مکرم صوفی محمد اکرم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۷۰ء میں میری تعیناتی محکمہ محنت لاہور میں تھی اور ہمارا دفتر آبادی سے کچھ فاصلے پر تھا۔ لاہور میں کسی بھی ہاکر سے الفضل روزانہ مل سکتا تھا۔ مَیں نے ایک دوسرے دفتر میں اخبار دینے والے ہاکر سے کہا کہ مجھے الفضل دے جایا کرو۔ اُس نے کہا کہ صرف الفضل اخبار کے لیے اتنی دُور جانا مشکل ہے کیونکہ الفضل پر صرف ایک ٹیڈی پیسہ کمیشن ملتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ الفضل شروع کرو اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا۔ وہ ایک شریف انسان تھا اور اگلے ہی روز سے اُس نے الفضل ہمارے دفتر میں پہنچانا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کر دفتر کے مختلف دوستوں نے اپنے پسندیدہ مختلف اخبارات لگوانے شروع کیے اور چند ہی روز میں دس بارہ اخبار رسالے ہمارے دفتر آنے لگے۔ یہ اخبارات سب سے پہلے شعبے کے ہیڈ ایس اے نقوی صاحب (ایم بی ای)کے پاس جاتے اور وہ ہر اخبار پڑھ کر اس پر دستخط بھی کرتے (وہ جنرل یحییٰ خان سابق صدر کے کزن تھے۔) الفضل پر بھی اُن کے دستخط ہوتے۔ پھر باقی سٹاف بھی الفضل پڑھنے لگا۔ بہرحال اب ہاکر بہت خوش تھا۔ مجھے کبھی الفضل کا بِل نہ پوچھتا بلکہ مَیں جب بھی اُسے پیسے دیتا تو یہی کہتا کہ رہنے دیں، یہ سب کچھ الفضل کی برکت سے ہی ہے۔
٭…مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ شادی سے قبل دوسرے احمدی گھرانوں سے الفضل منگواکر پڑھا کرتی تھیں۔ شادی کے بعد پہلی عید پر جب شوہر نے پسند کا تحفہ پوچھا تو انہوں نے الفضل لگوانے کی فرمائش کی جو شوہر نے پوری کردی۔
٭…مکرم محمد انوارالحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم محمد عبدالحق صاحب لاہور ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھے۔ ۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران اُن کے دوستوں نے ایک روز پوچھا کہ آپ پر ان فسادات کا کیا اثر ہوا ہے؟ یہ کہنے لگے کہ سارا دن مَیں اخباروں میں مخالفانہ خبریں پڑھتا ہوں اور لوگوں سے سنتا ہوں لیکن جب گھر جاکر اپنا اخبار الفضل پڑھتا ہوں تو سارے دن کی باتوں پر یہ تریاق کا کام دیتا ہے اور راحت و سکون اور حوصلہ مل جاتا ہے۔
میری تلقین سے پندرہ افراد الفضل کے خریدار بن چکے ہیں۔ ایک دوست کے غیراحمدی ہاکر نے اُسے بتایا کہ وہ بھی الفضل کا خریدار ہے کیونکہ اس میں بڑے اچھے اور تربیتی مضامین ہوتے ہیں۔
٭…مکرم ایس اے احمد صاحب انبالہ چھاؤنی سے لکھتے ہیں کہ مالی کمزوری کی وجہ سے آج تک الفضل نہیں خرید سکا۔ اب ارادہ کیا ہے کہ سقہ اڑا کر بچت کی جائے اور الفضل جاری کروایا جائے۔ پانی خود بھر لیا کریں گے۔
٭…ستمبر ۱۹۳۵ء میں ایک انگریز نواحمدی مکرم مبارک احمد فیولنگ صاحب نے لندن سے ایک خط اردو میں ادارہ الفضل کے نام لکھا جس میں پوچھا کہ اُن کی الفضل کی قیمت کب ختم ہوتی ہے تاکہ مزید قیمت ارسال کردیں۔

الفضل کی خوبصورت یادیں” ایک تبصرہ

  1. جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے ابو بھی ہم سے الفضل پڑھایا کرتے تھے اور پھر پوچھتے تھے کہ اس میں سے کیا سمجھ آیا۔ اس وقت تو کچھ سمجھ میں نہیں اتا تھا لیکن ہم کچھ نہ کچھ ابو کو بتا دیتے تھے کہ یہ لکھا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں