الفضل کی یادداشت
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍جولائی 2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عنایت اللہ صاحب اپنی یادداشت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مَیں ۱۹۳۸ء میں تین سال کی عمر میں اپنے خالوجان حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ کے پاس قادیان میں جاکر رہنے لگا۔ اُس زمانے میں محترم خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل تھے جن کا گھر بھی ہمسائیگی میں ہی تھا اور مَیں اُن کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ جب کچھ سُدھ بُدھ ہوئی اور لکھنے پڑھنے لگا تو الفضل کو بھی پہچاننے لگا۔ خالوجی تو نہایت انہماک سے سارے الفضل کا مطالعہ فرماتے اور باقی افراد بھی اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق اسے دیکھتے۔ پاکستان بننے کے بعد جب مَیں سندھ منتقل ہوگیا تب بھی الفضل پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر پڑھائی کے لیے خالوجی کے پاس ربوہ آکر میٹرک کیا اور پھر لاہور چلاگیا تو بھی الفضل سے تعلق رہا لیکن ۱۹۵۴ء میں افغانستان چلاگیا تو الفضل کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ پھر تئیس سال بعد ۱۹۷۷ء میں واپس پاکستان آیا تو الفضل سے ٹوٹا ہوا رشتہ جُڑ گیا تو باقاعدگی کے ساتھ الفضل کا مطالعہ کرنے لگا۔ اب تو یہ حال ہے کہ چھٹی والے دن تشنگی بڑھ جاتی ہے اور کوئی پرانا اخبار بھی نظر آجائے تو اُسے بھی پڑھ لیتا ہوں۔ جب تک برسرروزگار رہا تو پورا چندہ ادا کرتا رہا اور جب ریٹائر ہوگیا تو میری درخواست پر مینیجر صاحب نے رعایتی قیمت پر اخبار جاری کردیا۔