الفضل کے ساتھ دیرینہ تعلق
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل …؍دسمبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم محمد مقصود احمد منیب صاحب مربی سلسلہ نے اخبار الفضل کے ساتھ اپنے ذاتی اور خاندانی ایمان افروز تعلق کو قلمبند کیا ہے۔
مضمون نگار تحریر کرتے ہیں کہ شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں دادا جان حکیم دوست محمد صاحب، ابا جی مکرم ڈاکٹر محمد طفیل نسیم صاحب، امی جان اور پھوپھی جان مکرمہ غلام فاطمہ صاحبہ کو روزانہ صبح باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کے بعد الفضل اخبار پڑھتے اور دوسروں سے سنتے ہوئے دیکھا۔ ماڑی انڈس نامی ریل گاڑی صبح تقریباً چار بجے سانگلہ ہل پہنچتی تھی جس پر روزانہ کا اخبار صبح سویرے ہمیں مل جاتا اور نمازِ فجر سے واپسی پر دادا جان اُسے لے آتے۔ مَیں نے جب سکول جانا شروع کر دیا تو نمازِ فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتا اور پھر روزنامہ الفضل اونچی آواز میں سب کو سناتا۔ داداجان کہتے تھے کہ پہلے صفحے کے شروع سے لے کر آخری صفحے کے آخری لفظ تک سناؤ۔ میں جب دعاؤں کے اعلان پڑھتا تو وہ فرماتے کہ ٹھہرو پہلے اِن کے لیے دعا کرلیں اور پھر نام لے لے کر سب کے لیے دعا کرتے اور ہم سب اُن کی اِس دعا میں شامل ہوتے۔ جب بھی کسی بچے کی ولادت کا اعلان پڑھتا تو الحمدللہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سعید رُوح کا اضافہ فرمایا ہے۔ فرماتے تھے کہ بعد میں نہ تو نام یاد رہتا ہے نہ دعا کی وجہ اس لیے موقع پر ہی دعا کر دی جائے تو بہتر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی اکثر فرماتے کہ الفضل کے ذریعہ ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا فضل ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعائیں کرتے ہیں۔ یہ حضرت فضل عمر (سیّدنا مصلح موعودؓ) کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ اور یہ بات کرتے ہوئے ان کی آواز بھرّا جاتی اور آنکھوں میں آنسو آجاتے۔
اباجی مطب کرتے تھے۔ آپ کے مطب پر روزانہ اخبار الفضل آتا اور تبلیغ کا ایک خاموش ذریعہ بن جاتا۔ بعض غیرازجماعت دوست اجازت لے کر اسے اپنے گھر بھی لے جاتے کیونکہ وہ لوگوں کے سامنے پڑھتے ہوئے جھجکتے تھے۔ داداجی ایسے لوگوں کی ٹوہ میں رہتے تھے اور اُن کے نام اخبار جاری کروا دیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ1986ء میں ایک مولوی صاحب اباجی کے مطب پر تشریف لایا کرتے تھے۔ سلام دعا کے بعد کچھ دیر کے لیے تشریف رکھتے۔ الفضل کا مطالعہ کرتے، اس میں سے کچھ نوٹ کرتے اور اُٹھ کر چلے جاتے۔ بعدمیں مجھے پتہ چلا کہ وہ ایک ملحقہ گاؤں کی مسجد میں خطیب ہیں اور روزانہ نماز فجر کے بعد اپنا درس اور خطبہ جمعہ الفضل سے تیار کرتے ہیں۔
داداجی نے بارہا مجھے بتایا کہ اُن کے تایا جان یعنی میرے پڑنانا جان حضرت میاں محمد مراد صاحبؓ کی یہ عادت تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے پاس الفضل رکھا کرتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی اسے پڑھنے کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ وہ جب کبھی بس، ریل گاڑی یا تانگے میں سفر کرتے تھے تو دیکھ لیتے کہ کوئی پڑھا لکھا نوجوان مل جائے تو اُس کے ساتھ بیٹھ جاتے اور اُسے الفضل تھما کر کہتے کہ نوجوان! یہ اخبار تو پڑھ کے سناؤ۔ یوں دعوت الی اللہ کا سلسلہ چل نکلتا اور لوگ متاثر ہو کر سوالات کرنے لگتے اور احمدیت کے بارے میں مزید تحقیق کرتے۔ اس طرح انہوں نے سینکڑوں انسانوں کو راہِ حق دکھائی۔ اُن کے حوالے سے مکرم عبدالعظیم صاحب درویش قادیان بیان کرتے ہیں: حضرت میاں محمد مراد صاحبؓ کا اوڑھنا بچھونا تبلیغ تھا۔ ذاتی نقصانات جھیلتے لیکن قطعاً پروا نہ کرتے۔ مکرم شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگرمَل) کے مسلمان ہونے کے باعث ہندو برافروختہ ہوئے اور بالآخر میاں صاحب کو بیرانوالہ بنگلہ سے بھاگ کر پنڈی بھٹیاں جانا پڑا۔ میاں صاحب کا طرزِتبلیغ بہت پُرتاثیر اور جاذب تھا۔ میں تیرہ چودہ سال کا نوجوان تھا۔ مخالفین کے اعتراضات لے کر آیا تو آپ نے مجھے الفضل پڑھنے کو دیا۔ پھر جب بھی آپ کے پاس آتا تو مجھے الفضل پڑھنے یا سنانے کو کہتے اور میری تعریف کرتے۔ اس طرح مجھ پر اَثر ہونے لگا۔ (ماخوذ از تابعین اصحاب احمدؑ جلد اوّل صفحہ نمبر 20، 21)
جب دادا جی نے مجھے بتایا کہ تمہارے پڑنانا حضرت میاں محمد مراد صاحب کی وفات 13؍فروری1968ء کو ہوئی تھی اور تمہاری پیدائش اس کے ٹھیک ایک سال بعد 13؍فروری1969ء کو ہوئی تھی تو اس بات نے مجھے اپنے پڑناناجان کے ساتھ ساتھ جماعتی جرائد و رسائل کے بھی زیادہ قریب کر دیا اور روزانہ جب تک مَیں الفضل کا مطالعہ نہ کرلیتا تھا مجھے سکون نہیں ملتا تھا۔
جب مَیں کچھ بڑا ہوا تو دادا جی نے سانگلہ ہل کے احمدی گھرانوں میں الفضل پہنچانے اور مہینے کے آخر پر بِل وصول کرنے کی میری ڈیوٹی لگادی۔ اُس وقت ہمارے امیر جماعت مکرم چودھری فقیراللہ صاحب تھے جو ایک دبنگ قسم کے بزرگ تھے اور سانگلہ ہل میں ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔ اس وجہ سے بھی مَیں بےدھڑک ہر کسی کے سامنے الفضل اخبار رکھ دیا کرتا تھا۔
پھر ہماری جماعت میں جب مکرم حافظ محمود احمد ناصر صاحب مربی سلسلہ تشریف لائے تو آپ اگرچہ نابینا تھے لیکن بہت بہادر انسان تھے۔ مَیں اُن کی لاٹھی بن کر اُن کے ساتھ چلتا تھا اور اپنے اُن دوستوں سے اُنہیں ملواتا تھا جو الفضل کی تقسیم کے دوران میرے زیرِتبلیغ آئے تھے۔ دوستوں کے سوالات کے جوابات محترم حافظ صاحب عطا فرماتے تو یوں مجھے بھی سوال و جواب کی مشق ہوتی گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی سعید روحیں احمدیت کے نور سے منور بھی ہوئیں۔
داداجی کی طرف سے لگائی جانے والی ڈیوٹی کے مطابق روزنامہ الفضل کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتی رسالہ جات بھی مَیں احمدی گھروں میں تقسیم کرتا اور مہینے کے آخر پر بِل بھی وصول کرتا۔ اکثر مجھے کچھ پیسے بچ بھی جاتے تھے جو داداجی کی نصیحت کے مطابق مقامی فنڈ میں دے دیا کرتا تھا۔ بعض دکاندار مجھے چھیڑتے تھے کہ دیکھو !حکیموں کا لڑکا چند پیسوں کی خاطر اخباروں اور رسالوں کی ہاکری کرتا ہے۔ مَیں جان بوجھ کر اُن کے پاس بیٹھ جاتا اور اُن کو بتاتا کہ میں تو اللہ میاں اور اُس کے دین کی چاکری کر رہا ہوں، آپ پڑھ کر تو دیکھو کہ اِس میں لکھا کیا ہے۔ پھر میں اُن کو مفت الفضل مہیا کردیتا جس کے پیسے مجھے داداجی دے دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اِس بہانے وہ دکاندار کچھ نہ کچھ پڑھ بھی لیتے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اُنہوں نے میری عزت کرنا شروع کر دی کہ یہ تو واقعی اللہ اور رسولﷺ کی چاکری کر رہا ہے۔ چنانچہ ایک بار جب مَیں کچھ بیمار ہوگیا اور کچھ دن الفضل کی تقسیم کے لیے نہ جاسکا تو کئی غیرازجماعت دوست اباجان کے مطب پر آئے اور میرا حال احوال پوچھا ۔ پھر میری بیماری کا معلوم ہونے پر کچھ احباب میرا پتہ کرنے ہمارے گھر پربھی آئے۔ اِس بات نے میرے اندر ایسا جوش بھر دیا کہ مَیں نے بیماری کی پروا کیے بغیر اگلے ہی دن دوبارہ الفضل کی تقسیم کے لیے شہر میں پھرنا شروع کردیا اور اپنی جسمانی کمزوری یا بیماری کی کچھ پروا نہ کی۔ کچھ دیر بعد جب ایک احمدی گھر کے سامنے مَیں اخبار دینے پہنچا اور دستک دی تو جب تک وہ صاحب باہر نکلے تو مَیں اِتنی دیر میں نقاہت کی وجہ سے اُن کے تھڑے پر گرچکا تھا۔ انہوں نے مجھے پانی پلایا اور اباجان کو فون کردیا۔
اباجان اپنے ساتھ دوائیوں کا بکس لے کر آئے، مجھے ایک انجکشن دیا اور پھر اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھر لے آئے۔ لیکن اُنہوں نے مجھے نہ تو ڈانٹا اور نہ ہی منع کیا بلکہ میری ہمت بندھائی۔ اگلے دن جب مَیں نکلنے لگا تو اباجان نے مجھے ایک انجکشن اَور لگایا اور فرمایا کہ اب جاؤ۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ کبھی مَیں نے ناغہ کیا ہو یا بیماری کی وجہ الفضل کی تقسیم چھوڑی ہو۔ حتیٰ کہ اگست 1988ء میں مَیں جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلے کے انٹرویو کے لیے حاضر ہوا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ الحمدللہ۔ ؎
مرے آباء کی مجھ پر ہے عنایت
مجھے اِس در کا پتھر کر دیا ہے
اباجی کی ساری زندگی اُن کا مطب خداتعالیٰ کے فضل سے جاری رہا جہاں باقاعدگی سے روزنامہ الفضل سمیت دیگر احمدی رسالہ جات بھی آتے رہے۔ یہ بکثرت پڑھے جاتے اور تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ کا ذریعہ بنتے رہے۔ الحمدللہ
