الفضل کے ساتھ ذاتی تعلق
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 17؍نومبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم محمد رفاقت احمد صاحب رقمطراز ہیں کہ خاکسار نویں کلاس کے طالب علمی کے زمانے سے روزنامہ الفضل کا قاری ہے۔ اخبار کے مضامین ، حضرت خلیفۃالمسیح کی صحت اور دیگر جماعتی خبروں سے عزیزواقارب کو آگاہ بھی کرتا تھا۔ یہ بھی عادت بن گئی کہ غیرازجماعت غیرمتعصب دوستوں اور اپنے پروفیسرز صاحبان کو بھی وقتاًفوقتاً الفضل مطالعہ کے لیے دیتا رہتا۔ بعض پبلک لائبریریوں میں اُن کی اجازت سے پرانے یا نئے الفضل کے پرچے بھی رکھواتا اور احمدیت کے بارے میں جاننے کا شوق رکھنے والوں کو ان کی خواہش پر الفضل بذریعہ ڈاک بھی روانہ کرتا۔ کچھ لائبریری والوں، میرے اساتذہ اور جاننے والے غیرازجماعت احباب کو ایسا چسکا پڑ گیا کہ وہ خاکسار کے ذریعہ الفضل اخبارات کے پرانے فائل تک منگواتے اور پڑھ کر واپس کردیتے۔ ان کی یہ ضرورت میں جماعت احمدیہ راولپنڈی میں قائم لائبریری کے ذریعہ پوری کرتا رہا۔ اس لائبریری میں پرانے الفضل، بدر، الحکم کے علاوہ بعض بڑی نایاب کتب موجود تھیں۔ جون 1974ء میں چند شرپسندوں نے اسے آگ لگا دی اور یہ قیمتی ذخیرہ جل گیا۔
محکمہ ڈاک کی مواہیر اور خریداری نمبروں سے اندازہ ہوا کہ ہمارے خاندان میں الفضل بذریعہ حضرت میاں جمعہ خان صاحبؓ، مکرم عبدالکریم صاحب ڈرائنگ ماسٹر، مکرم میاں عبدالرشید صاحب محکمہ پولیس اور مکرم شیخ بشارت احمد صاحب محکمہ تعلیم 1913ء سے آرہا ہے۔ خاکسار کی پڑدادی حضرت عمر بانو صاحبہ بڑی دانا اور نیک خاتون تھیں۔ ایک رات انہوں نے خواب میں کسی بزرگ کو اونٹنی پر سوار یہ اعلان کرتے ہوئے دیکھا کہ امام مہدی قادیان میں ظاہر ہو گئے ہیں۔ اس پر انہیں یقین ہوگیا کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ مسیح موعود درست ہے۔ چنانچہ بیعت کرلی۔ پھر اُن کے ذریعہ سارا خاندان احمدی ہوگیا۔ وہ اخبار الفضل بھی منگواتیں اور اپنے بچوں، غیرازجماعت رشتہ داروں نیز ہمسایوں وغیرہ کے ذریعہ اخبار کے مندرجات کو بڑے شوق و اہتمام سے سنتی اور سنواتی تھیں اور اس کے بعد پنجابی میں ترجمہ کرواتیں تاکہ ہر مردوزن کو سمجھ آجائے۔
اخبار الفضل ہماری آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک خاندانی تاریخی ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1979ء میں مجھے SBP نے شعبہ بینکنگ میں ملک بھر میں اوّل آنے پر گولڈمیڈل دیا۔ میرے بیٹے عزیزم غالب احمد عدنان کو 2004ء میں Arid یونیورسٹی نے BCS Hons میں دوم آنے پر سلور میڈل دیا۔ اسی طرح خاکسار کے نکاح، دعوت ولیمہ، ہمارے وصایا کے مسل نمبرز، بیٹے بیٹیوں کے نکاحوں اور رخصتانے وغیرہ کی خبریں اخبار الفضل نے اشاعت کے ذریعہ ریکارڈ کردیں۔
محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مرحوم نے مجھے ایک دفعہ نصیحت کی کہ الفضل میں مضامین لکھا کرو، اس سے نہ صرف لکھاری کا اپنا علم بڑھتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ خاکسار نے مختلف معلوماتی مضامین لکھے جو اخبار الفضل نے پذیرائی کرتے ہوئے شائع کیے۔ الحمدللہ
