الفضل کے عاشق
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍جولائی 2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم ظفراللہ صاحب اپنی یادداشت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ میرے والد الفضل کے عاشق تھے۔ شیخوپورہ کے ایک گاؤں ڈھامکےؔ میں ہمارا واحد احمدی گھرانہ تھا۔ لاہور میں ہمارے گاؤں کا ایک آدمی ملازم تھا جو وہاں ایک احمدی کی دکان پر آنے والا ہمارا الفضل روزانہ کام سے واپس آتے ہوئے ہمارے لیے لے آتا تھا۔ پھر میرے بڑے بھائی لاہور میں ملازم ہوگئے تو یہ فریضہ وہ سرانجام دینے لگے۔ بعد میں یہی ذمہ داری میرے حصے میں آئی۔ مَیں گھر پہنچتا تو والد صاحب بڑی شدّت سے الفضل کے منتظر ہوتے اور اخبار ملتا تو شام کا کھانا اور دوسری ضروریات بھی پس منظر میں چلی جاتیں۔ اُن کی محویت کا یہ عالم ہوتا کہ اخبار پڑھتے ہوئے کبھی کھانا کھاتے تو لقمہ پلیٹ سے باہر میز کی سطح کو چھو رہا ہوتا۔ مطالعے کے بعد اپنی اخبارات کو والد صاحب مجلّد شکل میں سنبھال کررکھتے جو آج بھی ہمارے گھر کی زینت ہیں۔