الفضل کے پاکیزہ اثرات
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 3؍نومبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرمہ ’ن۔ن‘ صاحبہ لکھتی ہیں کہ ہمارے ابّا کو وفات پائے بائیس سال ہوچکے ہیں لیکن ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ وہ حضرت مصلح موعودؓ کا یہ ارشاد بتایا کرتے تھے کہ تم لوگوں کو الفضل کی قدر نہیں ہے اس کی قدر کیا کرو ایک زمانہ آئے گا جب الفضل کا ایک ایک شمارہ ایک ہزار روپیہ کا ملے گا۔
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے الفضل کو اپنے گھر میں آتے دیکھا۔ہمارے گھر میں الفضل پڑھنے کی چاٹ سب کو اباجان نے ہی لگائی تھی۔ روزانہ پہلے پڑھنے کے لیے ہم سب بہن بھائی ہاکر کا انتظار کیا کرتے تھے۔ چھٹی والے دن الفضل پڑھنے کو نہ ملے تو لگتا تھا آج زندگی میں کچھ کمی سی ہے۔
میری زندگی میں الفضل کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جو تنوع الفضل کے مضامین میں دکھائی دیتا ہے وہ کسی اور اخبار میں نظر نہیں آتا۔ میں تو پسندیدہ مضامین اور نظموں کی کٹنگ رکھ لیتی ہوں اور وقتاً فوقتاً پڑھتی اور مزہ لیتی ہوں۔
خوشی غمی کی خبروں سے دعائیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میں تو اپنی ہر نماز میں الفضل کے بیماروں کے لیے دعائے صحت اور دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کے لیے دعا ئے مغفرت کرتی ہوں۔ اب میں بڑھاپے کی حد میں ہوں مگر مجھے اپنے کالج کا وہ زمانہ یاد آتا ہے کہ جب میں اپنے امتحانی پرچوں میں الفضل کے حوالے دے کر اسلامیات اور دوسرے پرچوں میں پہلی پوزیشن لیا کرتی تھی۔ پھر یونیورسٹی کی کلاسز یاد آتی ہیں کہ مخالفت کے طوفان میں الفضل کی معلومات سے اپنے اساتذہ کو حیران کردیا کرتی تھی۔ ہماری ایم اے اسلامیات کی کلاس میں قراءت، تلفظ اور عام معلومات کے لیے ایک قاری صاحب آیا کرتے تھے۔ ۳۵سٹوڈنٹس کی کلاس میں مَیں واحد تھی جس نے نماز صحیح تلفّظ کے ساتھ سنائی۔ الحمدللہ
الفضل کی اشاعت نے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ابتدائی ربوہ میں ساکنان ربوہ کو ہر معاملے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ربوہ جو آج کل Lush Green ہے آج کی نسل تو یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ ابتدا میں یہاں کیسی مٹی ہوتی تھی جس میں پاؤں دھنس دھنس جاتے تھے۔ہمیں تو وہ مٹی بھی عزیز تھی اور آج کا سرسبز ربوہ بھی عزیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مرکز کی رونقیں تاقیامت قائم و دائم رکھے۔ آمین
