الفضل کے چند محنتی کارکنان

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 10؍نومبر2025ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم حکیم قدرت اللہ محمود چیمہ صاحب نے اپنے مضمون میں الفضل کے بعض محنتی کارکنان کا محبت بھرا تذکرہ کرتے ہوئے اخبار الفضل سے اپنے تعلق کو بیان کیا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد محترم محمد عبداللہ چیمہ صاحب سابق کارکن دفتر وقف جدید کو الفضل اخبار سے دلی لگاؤ تھا اور وہ ہر ماہ کی اخبار کی فائل بناکر رکھتے تھے۔ 1970ء سے وہ یہ فائلیں تیار کررہے تھے۔

سلطان احمد پیرکوٹی صاحب

میرے نانا جان حضرت میاں پیرمحمد صاحب پیرکوٹیؓ ضلع حافظ آباد کے گاؤں پیرکوٹ ثانی میں رہتے تھے اور الفضل کے خریدار تھے۔ گاؤں میں ڈاک ہر چوتھے روز آیا کرتی تھی۔ سارا گھر اخبار الفضل کا مطالعہ کرتا اور پھر اخبار کو مسجد میں دیگر احباب کے مطالعہ کے لیے رکھ دیا جاتا۔
جب ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر مسافروں کو ٹھنڈا پانی مفت پلایا جاتا تھا تو حضرت مولوی عطا محمد صاحبؓ بھی الفضل کا بنڈل لے کر وہاں موجود ہوتے اور ٹرین کے ساتھ پلیٹ فارم پر چلتے چلتے بلند آواز سے ’’الفضل اخبار مفت‘‘ کی آواز لگاتے اور خواہشمند مسافروں کو اخبار پکڑاتے جاتے۔

گیانی عباداللہ صاحب

ربوہ میں ہماری رہائش دارالرحمت غربی میں تھی جہاں دفتر الفضل بھی واقع تھا۔ اکثر دفتر جانے کا موقع بھی ملتا اور آج اُن میں سے کئی مرحومین یاد آرہے ہیں۔ مثلاً محترم گیانی عباداللہ صاحب مینیجر الفضل تھے، سادہ طبیعت، باریش درویش طبع بزرگ تھے اور دفتر کے اندر ہی ایک کمرے میں اُن کی رہائش تھی۔

مسعود احمد دہلوی صاحب

محترم مسعود احمد خان صاحب دہلوی ایڈیٹر تھے۔ آپ اہل زبان تھے اور آپ کی اردو نہایت نستعلیق ہوتی تھی۔ ہمارے محلّے کی مسجد بیت الناصر میں اکثر ملفوظات کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ میرے ماموں جان محترم مولانا سلطان احمد صاحب پیرکوٹی عالم دین، زودنویس اور صاحب قلم تھے۔ کئی کتب کے مؤلف تھے۔ 1970ء سے 1983ء تک بطور معاون ایڈیٹر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ یکم جون1923ء کو حضرت میاں پیرمحمد صاحبؓ پیرکوٹی کے ہاں پیدا ہوئے۔ مدرسہ احمدیہ قادیان سے فاضل عربی کی تکمیل کی۔ 1946ء میں اپنی زندگی وقف کردی۔ پہلے شعبہ زودنویسی اور پھر دفتر الفضل میں خدمت کی توفیق پائی۔
دفتر کے مددگار کارکن مکرم ناصر احمد صاحب مرحوم تھے۔ اخبار فولڈ کرنے اور بعدازاں ربوہ میں اخبار تقسیم کرنے کا کام مکرم عبدالرشید بٹ صاحب مرحوم کیا کرتے تھے جو دفتر میں ہی ایک چھوٹے سے کوارٹر میں مع فیملی رہتے تھے۔اخبار کی کتابت کرنے والوں میں محترم منشی احمد حسین صاحب کاتب فیکٹری ایریا میں رہائش رکھتے تھے۔ پھر محترم منشی اسماعیل صاحب ہیڈکاتب ان دنوں دارالرحمت میں ہی رہائش پذیر تھے۔ اُن کو 1934ء سے 1989ء تک خدمت دین کی توفیق ملی۔ نہایت سادہ، ملنسار اور شگفتہ طبیعت والے بزرگ تھے۔ اُن کے چھوٹے بھائی محترم منشی نورالدین صاحب خوشنویس میرے خالو تھے اور وہ بھی الفضل اور دیگر رسائل کی کتابت کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی شاندار کتابت کی بھی اُن کو توفیق ملی۔ اُن کے اکلوتے بیٹے منشی حمیدالدین صاحب بھی کتابت کیا کرتے تھے اور قریباً پچیس سال الفضل میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ محمود انور صاحب خوشنویس کے لکھنے کا انداز باقی کاتب حضرات سے الگ تھلگ تھا۔
الفضل کے مطبع ضیاءالاسلام پریس کے دو محنتی کارکن بھی یاد آرہے ہیں۔ ایک محترم منشی ہدایت اللہ صاحب مرحوم جو پریس میں ہی رہتے تھے اور لیتھوسسٹم آف پرنٹنگ کے دَور میں پلیٹ لگایا کرتے تھے۔ پلیٹ کے اوپر الفاظ اُلٹے چھپتے تھے اور جو لفظ کسی وجہ سے ٹھیک نہیں لگتا تھا یا ٹوٹ جاتا تھا تو محترم منشی صاحب قلم کے ساتھ اُلٹی لکھائی میں پلیٹ کے اوپر اس لفظ کو درست کردیتے تھے۔ ایک مکرم حمیداللہ صاحب مشین مَین تھے جو پرنٹنگ مشین چلاتے تھے۔ اُن کے کپڑے سیاہی سے آلودہ ہوتے۔ بجلی بند ہونے کی صورت میں تیل کا انجن چلاکر اخبار کو بروقت تیار کرنا ان کی ہی خوبی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں