الفضل ہی استاد و معلّم ٹھہرا

مکرم منور اقبال مجوکہ صاحب سابق امیر ضلع خوشاب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کا تعلق پنجاب کے ایک ایسے دُوراُفتادہ علاقے سے ہے جو ایک لمبے عرصہ تک تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم رہا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے گاؤں میں بجلی جیسی نعمت کو دستیاب ہوئے بھی دوچار سال ہی ہوئے ہیں۔ یہ خاکسار کی خوش قسمتی ہے کہ ایک احمدی گھرانہ میں آنکھ کھولی اور پڑھنے لکھنے کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ ہوئی تو قرآن کریم کے بعد تحریری صورت میں الفضل ہی استاد و معلّم ٹھہرا۔ میرے والد مکرم ملک عمر حیات صاحب مجوکہ جو قریباً بیس سال صدر جماعت رہے۔ وہ الفضل باقاعدگی سے بذریعہ ڈاک منگواتے اور انہیں اخبار کا انتظار اور اس سے استفادہ کا ذوق و شوق جنون کی حد تک تھا۔ ڈاکیا ہفتے میں ایک دن ہمارے گاؤں آتا اور ہفتہ بھر کے الفضل اکٹھے دے جاتا۔ اس لیے ڈاکیے کے انتظار میں بھی ایک خاص لذت اور سرور کا سماں رہتا۔ پھر الفضل کا ایک ایک لفظ جب تک نہ پڑھ لیا جاتا، چین نہ آتا اور اب 45 سال گزرنے کے بعد بھی الفضل کے انتظار کی کیفیت ویسی ہی ہے یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ ناشتہ کرنے اور دفتر جانے سے پہلے الفضل کا مطالعہ ایک بھرپور، بابرکت اور معلوماتی دن کا ضامن ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں