آنحضرت ﷺ کی رات
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 8؍ستمبر2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب حلالپوریؓ کا ایک مضمون الفضل کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے لوگو! تم میں سے ایسے لوگوں کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی امیدیں پیش کرنے والے ہوں اور یوم آخر ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہو اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوں۔ رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ پایا جاتا ہے۔
آنحضرت ﷺ کی زندگی کے دن اور راتیں اگرچہ اس امر میں مساوی اور یکساں ہیں کہ آپؐ کی حیات طیبہ کا ہر لمحہ اپنے ربّ کی یاد اور خوشنودی کی تلاش میں صرف ہوتا۔ جس طرح آپؐ کے دن کے اوقات معمور ہوتے تھے اسی طرح آپ کی راتوں کی گھڑیاں بھی انہی کاموں کے لیے وقف تھیں اور اسی میں آپ کی خوشی کا راز مضمر تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی شان میں فرماتا ہے: اے پیغمبر! رات کے وقتوں میں اور دن کے اطراف و حصص میں اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیا کر جس پر تیری خوشی اور خوشنودی کا دارومدار ہے۔
مگر آپ کے دن کے مشاغل اور رات کے مشاغل میں ایک امتیاز اور فرق بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے: دن کے اوقات میں چونکہ تجھے بہت محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ (سورۃالمزمل) جو گو سراسر خداتعالیٰ کی تسبیح و تقدیس پر مشتمل ہوتی ہے۔ مگر اس میںعملی پہلو غالب ہوتا ہے اور اس کی سرانجام دہی میں تجھے محنت شاقہ اور بہت تگ و دو سے کام لینا پڑتا ہے اور اس فرض کی ادائیگی میں براہ راست لوگوں سے تجھے واسطہ پڑتا ہے اور علیحدگی اور تنہائی میں دعاؤں اور تسبیح و تحمید ذکر الٰہی کا موقع کم میسر آسکتا ہے۔ اس لیے خداتعالیٰ کی جناب میں مناجات اور دعائیں کرنے کا زیادہ تر موقع تجھے رات کے اوقات میں ہی مل سکتا ہے۔ پس رات کے اوقات سے یہ کام لیا کرو اور آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش حصہ قیام اور نَاشِئَۃ الَّیْل میں بسر کیا کر۔ چنانچہ فرمایا: اے وہ شخص جس کے کندھوں پر ایک بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے۔ رات کو قیام کرلیا کر۔ مگر کچھ قلیل حصہ (رات کا آرام بھی کیا کر) خواہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا زیادہ۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:کجا وہ شخص جو رات کی گھڑیاں سجدہ کرتے ہوئے اور کھڑا ہونے کی حالت میں اپنے ربّ کی عبادت میں گزارتا ہے اور ہر وقت آخرت کا خیال رکھتا ہے اور اپنے ربّ کی رحمت پر نظر رکھتا ہے (اور کجا اس نعمت سے محروم شخص)۔
رسول کریم ﷺ کے رات کے مشاغل اجمالی طور پر بطور نمونہ کسی قدر ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔
٭…امّ المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ کی رات اس طرح گزرا کرتی تھی کہ آپ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر چند نوافل پڑھتے اور دعائیں کرتے اور پھر لیٹ جاتے۔ پھر اُٹھ کر نوافل پڑھتے اور پھر لیٹ جاتے۔ ہر بار جتنا وقت آپ سوتے قریباً اتنا ہی وقت نوافل میں گزارتے اور اس طرح سے مجموعی طور پر قریباً نصف رات آپ کی دعاؤں میں اور نوافل میں گزرتی اور نصف کے قریب سونے اور آرام لینے میں۔
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرتﷺ کو رات کے وقت اس طرح پر نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ آپؐ پہلے تین بار اللہ اکبر کہتے۔ پھر کہتے کہ ذُوْالْمَلَکُوْت وَالْجَبَرُوْت وَالْکِبْرِیَاءِِ وَالْعَظَمَۃ۔ وہ بہت ہی بڑی حکومت اور بادشاہت کا مالک ہے۔ اس کی شان بہت ہی بڑی ہے اور عظمت اسی کے لیے ہے۔ اس کے بعد آپ نماز شروع کرتے جس کے متعلق مَیں نے یہ دیکھا ہے کہ پہلی رکعت میں آپؐ نے سورت بقرہ ساری کی ساری پڑھی اور اس کے بعد رکوع بھی آپ نے قریباً اتنا ہی لمبا کیا جتنا لمبا قیام کیا تھا اور پھر رکوع کے بعد اسی طور پر قومہ اور پھر پہلا سجدہ اور پھر قعدہ بین السجدتین اور پھر دوسرا سجدہ۔ غرض ان ارکان میں سے ہر ایک رکن قریباً آپؐ کے قیام اور رکوع کے برابر ہی لمبا تھا۔ اسی طرح سے آپ نے چار رکعتیں پڑھیں۔ جن میں آپؐ نے چار سورتیں (سورۃالبقرہ، سورت آل عمران، سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ اور ایک روایت میں چوتھی رکعت میں سورۃ الانعام پڑھنے کا ذکر ہے) پڑھیں۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں ایک رات اپنی خالہ اُمّ المومنین میمونہؓ کے گھر جا کر سویا۔ آنحضرت ﷺ کی باری اس رات حضرت میمونہؓ کے گھر میں تھی۔ جب آپؐ رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی وضو کرکے ساتھ شامل ہو گیا۔ آپؐ نے کُل تیرہ رکعت نماز پڑھی اور پھر لیٹ گئے۔ جب لیٹ کر نماز کے لیے اٹھے تو آپؐ نے جو دعائیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی: اے اللہ! میرے دل میں، آنکھوں میں، کانوں میں، دائیں بائیں، اوپر، نیچے، آگے، پیچھے نور ہی نور کردے اور میرے حصہ میں نور ہی نور ہو۔ اے اللہ خود مجھے مجسم نور بنادے۔
حضرت ابن عباسؓ سے ہی روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رات کو آنحضرت ﷺ کے گھر میں تھا۔ آپؐ نے اٹھ کر سورت آل عمران کے آخری رکوع کی آیات پڑھیں۔ پھر مسواک اور وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی جس میں آپؐ نے قیام، رکوع و سجدہ بہت لمبا کیا۔ پھر لیٹ گئے۔ اسی طرح تین بار آپؐ نے اٹھ کر نماز پڑھی اور درمیان میں لیٹ جاتے رہے۔
اس حدیث میں سورت آل عمران کی جن آیات کا ذکر ہے ان میں آنحضرت ﷺ کی تصدیق میں ظاہر ہونے والے آسمانی اور زمینی نشانوں کی طرف اشارہ کرکے اور ان سے فائدہ اٹھانے اور آپ کی تصدیق کرنے والوں اور بالمقابل ان سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کا انجام بتایا گیا ہے اور بدانجام سے بچنے کے لیے بعض دعائیں سکھلائی گئی ہیں۔ ان آیات کو پڑھ کر لوگوں کے لیے آپ دعائیں کیا کرتے تھے اور خداتعالیٰ کے حضور میں بالالتزام شفیعانہ التجائیں کرتے تھے کہ یا الٰہی غافلوں کی آنکھیں کھول اور انہیں برے انجام سے بچا۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ قریباً ساری رات آپؐ نے اس دعا میں گزاری: اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ … یہ وہ دعا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن اپنی بگڑی ہوئی اُمّت کے لیے بطور شفاعت کریں گے۔
٭…حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ ایک رات آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائے اور یکے بعد دیگرے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے۔یہ دونوں صاحب اس وقت اپنی اپنی جگہ پر نماز میں مشغول تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بہت پست آواز سے نماز پڑھ رہے تھے اور حضرت عمرؓ زیادہ اونچی آواز سے۔ اس کے بعد جب وہ دونوں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے پاس سے اپنے گزرنے کا ذکر فرمایا اور نماز میں دونوں کی آواز کی کیفیت بیان فرمائی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں اس خیال سے پست آواز سے پڑھتا ہوں کہ جس ہستی کی جناب میں مَیں اپنی عرض پیش کررہا ہوں وہ پست سے پست آواز کو بھی اسی طرح سنتی ہے جس طرح بلند آواز کو اور حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ میری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ کوئی سوتا ہو تو سن کر جاگ پڑے اور جاگتا ہو تو اس ذریعہ سے اس کی غفلت دُور ہو جائے جس پر آنحضرتﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو ارشاد فرمایا کہ کسی قدر بلند آواز سے پڑھا کریں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رات کو مدینہ میں کسی طرف شورو غل ہوا جسے کسی حادثے کا اندیشہ خیال کیا گیا۔ شور سن کر صحابہ کرامؓ اس طرف دوڑ پڑے۔ جب کسی قدر دُور گئے تو دیکھا کہ آگے سے آنحضرتﷺ اسی طرف سے واپس آرہے ہیں اور ابوطلحہؓ کے گھوڑے پر بغیر زین کے سوار ہیں اور تلوار لگائی ہوئی ہے۔ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ کوئی خوف اور فکر کی بات نہیں اور اس گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ گھوڑا کیا ہے ایک سمندر ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ بعض ازواج رات کو بیٹھی باتیں کررہی تھیں۔ ایک نے کہا کہ سب سے اچھی کہانی تو خرافہ والی ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ جانتی بھی ہو کہ خرافہ کون تھا؟ وہ بنی عذرہ میں سے تھا۔ اسے کسی دوسرے ملک کے لوگوں نے اپنا اسیر اور غلام بنالیاتھا۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں چیرہ دست لوگ موقع پاکر ایسا کرلیا کرتے تھے۔ وہ ایک عرصہ دراز تک ان میں رہا۔ اس کے بعد انہوں نے اسے اس کی قوم کی طرف واپس بھیج دیا۔ وہ اپنی قوم میں واپس پہنچ کر وہاں کے عجیب و غریب واقعات بیان کیا کرتا تھا جو اس نے دیکھے تھے۔ اسی طرح اُمّ زرع والی حدیث میں گیارہ عورتوں کا جو ایک لمبا قصہ مذکور ہے اُسے آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے سن کر فرمایا میرا تمہارے ساتھ اس سے کچھ کم اچھا سلوک نہیں جو ابوزرع کا اُمّ زرع کے ساتھ تھا۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ جب فجر کی سنتیں پڑھ چکتے تو اس وقت اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپؐ مجھ سے باتیں کرتے اور اگر میں ابھی سو رہی ہوتی تو آپ بھی لیٹ جاتے۔
حضرت امام جعفر صادقؓ اپنے والد حضرت امام زین العابدین سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا گیا کہ آنحضرت ﷺ کا بستر کیسا ہوتا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ میرے گھر میں جو آپؐ کا بستر تھا وہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی۔ یہی سوال میں نے حضرت حفصہؓ سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے گھر میں آپؐ کا بستر ٹاٹ کا تھا جسے دوہرا کر دیا جاتا تھا اور اس پر آپؐ سوتے تھے۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ اگر اس کی چار تہیں کر دی جایا کریں تو کچھ نرم ہو جائے۔ چنانچہ اس کی چار تہیں کر دی گئیں اور آپؐ اس پر سوئے۔ جب صبح ہوئی تو آپؐ نے دریافت فرمایا کہ آج میرے نیچے کیا تھا؟ ہم نے عرض کیا کہ وہی آپؐ کا بستر تھا۔ ہاں ہم نے اس کی تہیں بجائے دو کے چار کردی تھیں تاکہ نسبتاً کچھ نرم ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے پھر اسی طرح کردو کیونکہ اس آرام کی وجہ سے آج نماز تہجد کے لیے پہلے وقت پر میری آنکھ نہیں کھلی۔
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرتﷺ لیٹنے لگتے تھے تو اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی اپنے دائیں رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیتے تھے اور یہ دعا کرتے تھے: اے اللہ! محشر کے روز مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔ اسی طرح حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ جب آپؐ بستر پر لیٹتے تو کہتے: اے اللہ تیرے نام پر ہی میری موت آئے گی اور اسی پر پھر مجھے زندگی ملے گی۔ اور جب سو کر اٹھتے تو کہتے: تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سزاوار ہے جس نے ہمیں موت کے بعد پھر زندگی بخشی ہے اور اسی کی طرف متوجہ ہونے کے لیے ہمارا جاگنا اور اٹھنا ہے۔
سنن نسائی میں مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ جب رات کو کروٹ بدلتے تو کہتے: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی بھی قابل پرستش نہیں ہے وہ دیکھتا ہے اور ہر ایک پر اس کا کامل تصرف ہے وہ آسمانوں کا اور زمینوں کا اور جو کچھ ان میں پایا جاتا ہے اس کا پروردگار ہے اور غالب اور بہت بخشنے والا ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ جب بھی آنحضرت ﷺ کی باری میرے گھر میں ہوتی تھی تو آپؐ ہمیشہ رات کے پچھلے حصے میں مقبرہ بقیع کی طرف تشریف لے جاتے اور وہاں جا کر کہتے: اے جماعت مومنین کے گھر کو آباد کرنے والو! السلام علیکم، جس بات کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا وہ تم پر آگئی اور ابھی ایک منزل طے کرنی باقی ہے جس کی میعاد تمہارے لیے کل کا دن ہے اور انشاءاللہ تعالیٰ ہم بھی تم سے ملنے والے (ہی) ہیں۔ اے اللہ! بقیع کے رہنے والوں کو جو کیکر کے درختوں کے جھنڈ میں آپڑے ہیں، بخش دے۔