تاریخِ الفضل کا ایک ورق

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 22؍ستمبر2025ء)

عبدالسمیع خان صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 18؍جون2014ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں سلسلہ احمدیہ میں پریس کے آغاز سے 1940ء تک اس کی بتدریج ترقی کی ایمان افروز تاریخ بیان کی گئی ہے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جس سرعت سے نشرواشاعتِ اسلام کا کام کرنا چاہتے تھے اُس میں ایک بڑی رکاوٹ امرتسر اور بٹالہ کے مختلف مطبع خانوں سے لٹریچر کی اشاعت تھی۔ بعض اوقات حضورؑ پریس کو قادیان منگوالیا کرتے تھے اور اس کے لیے تمام اخراجات بھی ادا کرتے تھے۔ لیکن اکثر پریس والے اپنے وعدے کے مطابق کام مکمل نہ کرتے جو تکلیف کا باعث ہوتا۔ چنانچہ 1887ء میں آپؑ نے قادیان میں اپنا پریس نصب کرنے کا فیصلہ فرمایا جس کا ابتدائی تخمینہ تیرہ چودہ سو پاؤنڈ تھا۔ تاہم یہ منصوبہ قابل عمل نہ ہوسکا۔ 1892ء کے جلسہ سالانہ پر جو مشورے ہوئے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا چنانچہ 1893ء میں جب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کی اشاعت شروع ہونے لگی تو حضورؑ کے ارشاد پر محترم شیخ نوراحمد صاحب مالک ریاض ہند پریس اپنا پریس امرتسر سے قادیان لے آئے اور گول کمرے میں نصب کیا۔
بالآخر 1895ء میں ضیاءالاسلام پریس قادیان کا قیام عمل میں آیا جس میں پہلی کتاب ’’ضیاءالحق‘‘ شائع ہوئی۔ اس پریس کی ابتدائی نگرانی حضورؑ خود فرمایا کرتے تھے۔ یہ چھوٹا سا لکڑی کا پریس تھا جو ہاتھ سے چلایا جاتا تھا۔ سب سے بڑی دقّت یہ تھی کہ اس کو چلانے کے لیے آدمی نہ ملتے تھے۔ بعض صحابہؓ نے وہاں خدمت بھی کرنا چاہی۔ ایک دوست کا بیان ہے کہ ایک دن وہاں کچھ وقت کام کیا مگر چونکہ عادت نہ تھی اس لیے کندھے شل ہوگئے اور ہاتھ تو ایسے ہوگئے جیسے خون ٹپک رہا ہو۔ حضورعلیہ السلام سے کسی نے میری حالت کا ذکر کیا تو نماز ظہر کے بعد مجھے دیکھ کر حضورؑ نے ازراہ شفقت فرمایا: میاں! یہ تمہارا کام نہیں ہے۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ

حضورؑ کے ضیاءالاسلام پریس پر مرزا اسماعیل بیگ صاحب اور شیخ نور احمد صاحب وغیرہ کام کرتے تھے اور حضرت حکیم فضل الدین صاحب مہتمم تھے۔ جلد ہی الحکم اخبار کا اپنا انواراحمدیہ پریس قائم ہوگیا جس کی مشینوں میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ 1907ء میں حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے ایک بڑی مشین خرید کر پریس میں لگادی۔ اسی طرح اخبار بدر اور فاروق کے بھی اپنے پریس قائم ہوگئے۔
1914ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے دَور کے آغاز میں قادیان میں اللہ بخش سٹیم پریس نصب کیا گیا۔ تاہم اخبار الفضل اور دیگر لٹریچر کی کتابت اور طباعت کے مسائل بڑھتے ہی گئے۔ 1924ء میں جب حضورؓ یورپ تشریف لائے تو آپؓ کے پیش نظر طباعت کے لیے مشین کی خریداری بھی تھی چنانچہ اس کا جائزہ لیا جاتا رہا۔ بعدازاں مختلف پریسوں کے لیے انجن اور نئی مشینوں کی خریداری کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن ایک مشکل یہ بھی تھی کہ الفضل اُسی پریس سے شائع ہوسکتا تھا جس پریس کی منظوری لی گئی تھی چنانچہ اگر پریس میں کوئی خرابی پیدا ہوجاتی جو دو تین دن میں درست ہوتی تو اس دوران اخبار بھی شائع نہ ہوسکتا۔ اچانک اخبار بند ہوجانے سے دور کی جماعتوں میں بہت بےچینی پیدا ہوجاتی۔ ایسی ہی ایک خرابی 1938ء میں واقع ہوئی جب ایک پُرزہ ٹوٹ گیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی یہ بھی خواہش تھی کہ عمدہ خوشخط کاتب قادیان میں رہیں تاکہ آپؑ کے کام میں رخنہ پیدا نہ ہو۔ تاہم یہ دقّت ہمیشہ رہی۔ بلکہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنے دَور میں یہ تحریک بھی کروائی کہ کچھ لوگ محض سلسلہ کی خدمت کے لیے کتابت سیکھیں۔ تاہم اس دقّت کی وجہ الفضل کے صفحات بھی بعض دفعہ کم کرنے پڑتے۔ اخبار کی اشاعت میں ایک بڑی مشکل کاغذ کی فراہمی بھی تھی جسے لاہور سے منگوانا پڑتا تھا۔ جنگ عظیم دوم شروع ہوتے ہی کاغذ کے نرخ میں یکدم بہت اضافہ ہوگیا کیونکہ کاغذ سویڈن سے درآمد کیا جاتا تھا لیکن جرمن آبدوزوں نے تارپیڈو مار کر اتحادیوں کے بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا جس سے کاغذ کی کمی ہوگئی۔ نتیجۃً اخبارات مالی مشکلات کا شکار ہوگئے اور استعمال ہونے والے کاغذ کی کوالٹی پر بھی اثر پڑا اور اکثر جرائد کا حجم بھی کم ہوگیا۔

تاریخِ الفضل کا ایک ورق” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں