تاریخ احمدیت راولپنڈی کا ماخذ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 13؍اکتوبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرم خواجہ منظورصادق صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری عمر اس وقت 70 برس ہے اور مَیں گذشتہ تقریباً 55 سال سے الفضل کا باقاعدہ قاری اور خریدار ہوں۔
ہم ہجرت کے بعد گرمولہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوئے جہاں جماعتی انتظام کے تحت ایک الفضل آتا تھا جو شیخوپورہ سے ڈاکیا دیگر ڈاک کے ساتھ سائیکل پر لاتا تھا، یہاں ڈاک خانے کا کام مقامی پرائمری سکول کا ایک ٹیچرجزوقتی طور پر سرانجام دیتا تھا۔ ڈاک بعد دوپہر تقریباًتین بجے آتی تھی اور مَیں الفضل کے انتظار میں سکول ماسٹر کے پاس ڈاکیے کے لیے گھنٹوں چشم براہ رہتا تھا۔ ڈاک میں اگر کسی روز الفضل نہ ملتا تو مجھے بےحد مایوسی ہوتی جبکہ الفضل ملنے پر خوشی کی کوئی انتہا نہ ہوتی اور گھر لے جا کر جب تک اسے اول تا آخر پڑھ نہ لیتا اس وقت تک کسی اَور کے ہاتھوں میں اس کے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ شاید الفضل سے یہی عقیدت و محبت ہی تھی جو مجھے بعدازاں شعبہ صحافت میں لے کر آئی۔ یونیورسٹی کی تعلیم سے فراغت کے بعد1967ء سے تاحال خاکسار کو مختلف قومی روزناموں میں سب ایڈیٹر سے لے کر ایڈیٹر تک کے اہم عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی مگر دن رات کی مصروفیات کے باوجود الفضل ہمیشہ میری متاع عزیز رہا۔ یہ سچ ہے کہ میں نے الفضل سے بہت کچھ سیکھا ۔
الفضل میں میرا پہلا مضمون اُس وقت چھپا جب مَیں میٹرک کا طالب علم تھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا: ’’عربوں نے ایرانیوں سے کیا سیکھا‘‘۔ یہ ایک مختصر سا تحقیقی مضمون تھا مگر اس کی اشاعت سے میری ایسی ہمت بندھی کہ اس کے بعد مَیں نےالفضل کے علاوہ کبھی کسی اَور اخبار یا جریدے کو اپنی کوئی تحریر برائے اشاعت نہیں بھیجی اور نہ کبھی اس کی خواہش رہی۔
خاکسار کو چند سال قبل ’’تاریخ احمدیت راولپنڈی‘‘ کی تدوین کے سلسلہ میں کچھ خدمت کی توفیق ملی تو اس کے لیے مجھے بارہا ربوہ جانے اور خلافت لائبریری میں گھنٹوں الفضل کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کرنے کا موقع ملا اور مجھے یہ اقرار کرنے میں کوئی باک نہیں کہ الفضل نے اس اہم کام کی انجام دہی میں میری سب سے زیادہ مدد کی۔
آج بھی الفضل کا مطالعہ میرا معمول ہے، میرے گھر دیگر قومی اخبارات بھی آتے ہیں مگر جو تسکین الفضل پڑھ کر ہوتی ہے وہ دوسرے اخبارات میں کہاں! یہ ایسا روحانی مائدہ ہے جو اپنی اور اہل و عیال کی گھر بیٹھے تربیت کا ایک آسان اور مستقل ذریعہ ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں شاید ہی کوئی اخبار ایک صدی سے زائد عرصے سے چل رہا ہو، یہ اعزاز صرف الفضل کو حاصل ہے جو مخالفین اور معاندین کی ریشہ دوانیوں، سازشوں، شرارتوں اور کئی خوفناک آندھیوں اور طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے قائم و دائم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں