تبصرہ کتب: ڈاکٹر عبدالسلام کی متاثرکُن زندگی

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 4؍اگست 2025ء)

ڈاکٹر عبدالسلام نوبیل انعام وصول کرتے ہوئے

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

1982ء سے اب تک ڈاکٹر سلام کی عالیشان زندگی پر چار قابل ذکر سوانح عمریاں شائع ہوچکی ہیں یعنی ڈاکٹر عبدالغنی، جگجیت سنگھ، گورڈن فریزر اور مجاہد کامران۔ یہ سب انگریزی میں ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران قبل ازیں ڈاکٹر سلام کی زندگی پر متعدد مبسوط و محققانہ مضامین ضبط تحریر میں لاچکے ہیں۔ اُن کو ڈاکٹر سلام کا ہونہار اور منظورِ نظرشاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ گورنمنٹ کالج میں وہ سلام چیئر کے حامل رہے ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ 1985ء میں اُن کو ’’عبدالسلام پرائز اِن فزکس‘‘ دیا گیا تھا۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ اپنی ذات میں ایک تسلیم شدہ سائنسدان، سلام کے شاگردخاص نیز ایک قلم کار ہونے کے ناطے اُن ہی کو زیب دیتا تھا کہ وہ اپنے ذیشان استاد کے حالاتِ زندگی کو مدلّل اور مبسوط طریق پر قلم بند کریں۔ 1980ء کی دہائی میں ڈاکٹر سلام نے مجاہد کامران سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اُن کی سرگذشت ضبط تحریر میں لائیں۔ اگرچہ کئی سال بعد لیکن ڈاکٹر عبدالسلام کی انگریزی سوانح The Inspiring Life of Abdus Salam (عبدالسلام کی متاثرکُن زندگی) جنوری 2013ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور نے شائع کی ہے جس میں حالاتِ زندگی کے علاوہ ڈاکٹر سلام کی سائنس اور پاکستان کے لیےخدمات اور عظیم الشان کامیابیوں کی تفصیل شامل ہے۔ اس کتاب پر مکرم زکریا ورک صاحب کا تبصرہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍اگست 2014ء میں شائع ہوا ہے۔

زکریا ورک صاحب

زیرنظر سوانح عمری میں سلام کے میٹرک سے ماسٹرز تک کے امتحانات کے حاصل کردہ نمبروں کی یونیورسٹی آف پنجاب کی اصل فہرست شامل ہے۔ مصنف کے ڈاکٹر سلام کے ساتھ ذاتی تبادلہ خیال اور سلام کے آئیڈیاز کا ذکر ہے۔ ایک باب سلام بحیثیت طبیعیات دان اور انسان بہت منفرد ہے۔ سلام کے شاگرد Delborgough کہتے ہیںکہ ریاضی کی مدد کے بغیر کسی مسئلے کے ٹھیک ہونے کے بارے میں سلام اندازہ لگالیتے تھے، اُن کو مسئلے کا جواب وہبی طور پر معلوم ہوتا تھا جو اکثر درست ہوتا تھا۔ اگر اُن سے پوچھا جاتا کہ وہ اپنے جواب سے کیوں اس قدر پُریقین تھے تو اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ وہ ہاتھ کے انگوٹھوں کو دائرے میں گھماتے، کرسی میں پیچھے ہوکر نیم دراز ہوجاتے اور انگلی آسمان کی طرف اٹھاکر اشارہ کردیتے۔ وہ کسی بھی شخص کو اپنی علمیت پر شیخی بگھارتے ہوئے برداشت نہیں کرسکتے تھے۔

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

پروفیسر Bertocci کہتے ہیں سلام کا مخصوص انداز تھا کہ فزکس یا دیگر علوم میں اہم نقاط کو اٹھالیں، ان پر محتاط رنگ میں نظر ڈالیں اور غیراہم نقاط کو نظرانداز کردیں بشرطیکہ فائنل رزلٹ ٹھیک ہو۔ سلام کے لیے مطالعہ کرنا اتنا ہی اہم تھا جتنا کہ تخلیق کرنا۔ 1987ء میں انہوں نے اختر سعید سیکرٹری تعلیم پنجاب کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ ایک نئی قسم کا حساب (Reiman Surfaces) سیکھ رہے تھے اور یہ بہت مشکل ہے۔ اس سوال پر کہ کیا انہوں نے نظریاتی طبیعیات میں اپنا تحقیقی کام ختم کردیا ہے؟ سلام نے جواب دیا کہ کام کیسے ختم ہوسکتا ہے، کام ختم کرنا موت کے مترادف ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی ناامیدی یہ ہے کہ اُن کے پاس تحقیقی کام کے لیے خاطرخواہ وقت نہیں ہے۔ یہ درس تھا کیونکہ ڈاکٹر سلام اکثر مختلف ممالک کے درمیان سفر میں ہوتے تھے۔ اُن کے شاگرد ڈیل بورگو کہتے ہیں کہ سلام اپنا تحقیقی کام سفر کے دوران کرتے تھے۔

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

پروفیسر گورڈن فیلڈمین کا کہنا ہے کہ سلام نہ صرف اپنے آئیڈیاز کے بارے میں بلکہ جب بھی وہ کسی نئی چیز کے بارے میں پڑھتے تو بہت جذباتی ہوجاتے بشرطیکہ بیان کردہ آئیڈیا خوبصورت ہوتا۔ ڈاکٹر کارلو Rubia نے ڈاکٹر سلام کی سرنؔ کے لیے خدمات پر 1997ء میں مقالہ پڑھا اور بتایا کہ سرن کے مستقبل کے متعلق سلام کا ویژن، جوش اور نظر ایسی تھی کہ گویا وہ سرن کے آئندہ بیس سال کی نقشہ کشی کرچکے تھے۔
سلام کو دنیا کے چھیالیس اداروں کی طرف سے D.Sc کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ آپ اہم عالمی سائنسی اداروں کے فیلو تھے۔ متعدد عالمی انعامات آپ کو ملتے رہے۔ 275؍ سائنسی مقالوں کے مصنف یا شریک مصنف تھے۔لیکن اوّل و آخر پاکستانی تھے اور پاکستانی شہریت پر آپ کو فخر تھا۔

تبصرہ کتب: ڈاکٹر عبدالسلام کی متاثرکُن زندگی” ایک تبصرہ

  1. ڈاکٹر عبدالسلام بہت انسپائرنگ پرسنلٹی تھی۔ اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے

اپنا تبصرہ بھیجیں