تعارف کتاب: ’’غلاموں کا غلام‘‘
تعارف کتاب
’’غلاموں کا غلام‘‘


آج ہمارے زیرنظر ایک ضخیم کتاب ’’غلاموں کا غلام‘‘ ہے جو مکرم نسیم احمد باجوہ صاحب مبلغ سلسلہ برطانیہ کی تصنیف ہے۔ آنمحترم اس وقت امام مسجد بیت الفتوح مورڈن کے طور پر خدمت کی سعادت پارہے ہیں۔ آٹھ صد سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کی وجہ تسمیہ ایک خواب ہے جو آپ نے اپنی زندگی وقف کرنے سے پہلے دعا کے نتیجے میں دیکھا جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت بھی کی۔
مذکورہ کتاب کے آغاز میں قریباً ایک صد صفحات پر مشتمل داعیان الی اللہ کے لیے اہم معلومات پیش کی گئی ہیں جو دراصل مؤلف موصوف کے تبلیغی تجربات کا ہی نچوڑ ہیں۔ پھر آپ نے اپنے خاندان میں احمدیت کے نفوذ کا بیان کرنے اور مختصر خاندانی تعارف کروانے کے بعد اپنے مشاہدات اور تجربات کے حوالے سے تبلیغی مساعی کی دلچسپ تفاصیل اور ایمان افروز روایات بھی پیش کی ہیں۔ کتاب میں خلفائے کرام کی دعاؤں کی اعجازی قبولیت کے متعدد واقعات شامل ہیں نیز بہت سے ایسے واقعات بھی اپنے مشاہدات کے حوالے سے قلمبند کیے ہیں جو تاریخ احمدیت میں شامل ہیں۔ اسی طرح متعدد تاریخی تصاویر بھی کتاب کی زینت میں اضافہ کرتی ہیں۔ الغرض یہ کتاب شروع سے آخر تک نہایت دلچسپ اور ایمان افروز معلومات کا خزانہ ہے جس کا مطالعہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے درج ذیل ارشاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’سوانح نویسی سے اصل مطلب تو یہ ہے کہ تا اس زمانے کے لوگ یا آنے والی نسلیں ان لوگوں کے واقعات زندگی پر غور کرکے کچھ نمونہ ان کے اخلاق یا ہمت یا زہد و تقویٰ یا علم ومعرفت یا تائید دین یا ہمدردی نوع انسان یا کسی اور قسم کی قابل تعریف ترقی کا اپنے لئے حاصل کریں ۔…جو سوانح نویسی کے لئے قلم اٹھاویں کہ اپنی کتاب کو مفید عام اور ہر دلعزیز اور مقبول انام بنانے کے لئے نامور انسانوں کے سوانح کو صبر اور فراخ حوصلگی کے ساتھ اس قدر بسط سے لکھیں اور ان کی لائف کو ایسے طور سے مکمل کرکے دکھلاویں کہ اس کا پڑھنا ان کی ملاقات کا قائم مقام ہو جائے۔تا اگر ایسی خوش بیانی سے کسی کا وقت خوش ہو تو اس سوانح نویس کی د نیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے دعا بھی کرے۔‘‘ (کتاب البریہ (حاشیہ)صفحہ159تا 162۔ روحانی خزائن جلد13)

مؤلف کتاب اپنے خاندان کا تعارف یوں کرواتے ہیں کہ میرے والد محترم چودھری محمد شریف باجوہ صاحب ضلع سرگودھا کے گاؤں چک نمبر33 کے رہنے والے تھے جبکہ والدہ مکرمہ سلیمہ باجوہ صاحبہ حضرت چودھری حاکم علی صاحبؓ رئیس چک پنیار ضلع گجرات کی بیٹی تھیں جنہیں 1897ء کے آغاز میں حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں یوں پتہ چلا کہ گھر پر پڑھانے کے لیے مامور ایک استاد گجرات سے اپنے ساتھ کسی اخبار کا ایک ٹکڑا لے کر آئے جس میں یہ ذکر تھا کہ قادیان میں ایک شخص نے تمام مذاہب کو چیلنج دیا ہے۔

آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ اخبار دیکھ کر مجھے قادیان جانے کا شوق پیدا ہوا لیکن یہ علم نہیں تھا کہ قادیان کہاں ہے۔ پھر ایک روز مَیں کچھ زادِراہ لے کر چل پڑا۔ گجرات پہنچا تو پتہ لگا کہ وہاں شیخ رحمت اللہ صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے مرید ہیں۔ مَیں اُن کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب اس وقت لدھیانہ میں ہیں۔ نیز انہوں نے مجھے ایک خط حضرت صاحب کی طرف لکھ دیا۔ مَیں وہ خط لے کر نکلا اور ایک قریبی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے لیے چلا گیا۔ وہاں کے دیوبندی امام کو جب میرے ارادے کا علم ہوا تو اُس نے حضورعلیہ السلام پر ایسے الزامات لگائے کہ میرا ارادہ بدل گیا اور مَیں جلال پور میں اپنے سابقہ پیر کو مل کر واپس آگیا۔ لیکن اخبار میں پڑھی ہوئی بات کا دل پر ایسا اثر ہوچکا تھا کہ دل میں قادیان جانے کی تڑپ ختم نہ ہوئی۔
اتفاق سے کچھ عرصے بعد میرا ایک دوست (جو پیرزادہ بھی تھا) علاج کی غرض سے امرتسر کے ہسپتال میں داخل ہوا تو اُس نے مجھے بھی وہاں بلالیا۔ مَیں نے وہاں پہنچ کر قادیان جانے کا ارادہ کیا تو میرے دوست کے والد نے مجھے روکنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن مَیں روانہ ہوگیا اور بذریعہ ریل بٹالہ پہنچ کر قادیان کے لیے یکّہ کی تلاش شروع کی۔ مگر جب کوئی یکّہ نہ ملا تو آخر پیدل ہی شام چھ سات بجے قادیان پہنچ گیا۔ کسی سے پوچھ کر مسجد مبارک میں پہنچا۔ اُس دن وہاں ایک انگریز پولیس کپتان لیکھرام کے قتل کے متعلق حضرت صاحب کی تلاشی لینے آیا ہوا تھا (یہ 8؍اپریل 1897ء کا واقعہ ہے)

جب حضورؑ مسجد میں تشریف لائے تو مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے مغرب کی نماز پڑھائی۔ مجھے نماز میں بڑا لطف آیا۔ نماز کے بعد حضور علیہ السلام بیٹھ گئے۔ دیگر اصحاب بھی موجود تھے۔ مَیں حضورؑ کے پاؤں دبانے لگا اور ساتھ ساتھ اپنا قصہ بھی سنانے لگا کہ بچپن سے ہی بزرگوں کے پاس جاتا رہا ہوں تاکہ کسی طرح ولی اللہ بن جاؤں اور جو وظیفہ بھی کسی نے مجھے بتایا مَیں نہایت احتیاط سے اسے کرتا رہا لیکن میری خواہش اب تک پوری نہیں ہوئی اور عملی حالت بہت خراب ہے۔ حضورؑ نے میری ساری عرض سن کر فرمایا: ’’اچھا دعا کرتا ہوں۔‘‘ پھر حضورؑ نے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنی شروع کی اور اتنی لمبی دعا کروائی کہ مَیں تو تھک گیا۔ لمبی دعا کے بعد حضورعلیہ السلام نے ایک تقریر فرمائی۔ پھر عشاء کی نماز ہوئی اور حضورؑ نے سب دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا۔ اُن دنوں حضورؑ دونوں وقت مسجد میں اپنے مریدوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔ پھر جب حضورؑ اندر تشریف لے گئے تو مَیں مسجد میں ہی ایک طرف پڑ کر سوگیا۔ صبح کی نماز پر حضورؑ تشریف لائے اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے نہایت خوش الحانی اور بلند آواز سے قرأت کی جو مجھے بہت پسند آئی۔ بعض اشخاص رو بھی رہے تھے۔ نماز کے بعد حضورؑ اندر تشریف لے گئے اورکچھ دیر بعد سیر کے لیے باہر تشریف لائے۔ ہم آٹھ احباب حضورؑ کے ہمراہ باغ میں سیر کے لیے گئے۔ وہاں ایک شخص نے شہتوت اتار کر ایک کپڑے میں ڈال دیے اور سب دوست ایک دائرے میں بیٹھ کر وہ شہتوت کھاتے رہے۔ پھر واپس روانہ ہوئے تو شہر کے نزدیک پہنچ کر مَیں نے مصافحہ کیا اور اجازت طلب کی۔ فرمایا: دو تین دن اَور ٹھہر جانا تھا۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! ضروری طور پر جانا ہے۔ آپؑ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے فرمایا: ’’قرآن مجید پڑھنا، ترجمہ کے ساتھ پڑھنا اور سوچ سمجھ کر پڑھنا۔ تہجد پڑھنا گو دو رکعت ہی پڑھو اور میرے ساتھ خط و کتابت رکھنا۔‘‘
غرض مَیں بیعت کیے بغیر ہی واپس روانہ ہوگیا اور اپنے پیرزادوں کے پاس امرتسر پہنچا۔ اُن کے پوچھنے پر مَیں نے بتایا کہ قادیان میں نماز میں اس قدر لذّت آئی کہ ساری عمر مجھے اتنی لذّت کبھی نہیں آئی اور نماز کی وہاں بڑی تاکید ہوتی ہے۔ پھر مَیں نے امرتسر سے ایک سادہ اور ایک ترجمہ والا قرآن مجید خریدا اور اپنے گاؤں چک پنیار آگیا۔ نماز تہجد تو اُسی روز سے شروع کردی اور ڈاڑھی بھی رکھ لی۔
گاؤں واپس جاکر چند دنوں میں میرے اندر اس قدر جوش پیدا ہوا کہ مَیں فوراً قادیان پہنچا اور اپریل 1897ء میں ہی بیعت کرلی۔ تب تک مَیں نے حضورؑ کی کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ بیعت کے چند روز بعد جب مَیں نے اجازت چاہی تو حضورؑ نے ’’کتاب البریہ‘‘ خود لاکر اپنے ہاتھ سے مجھے عنایت فرمائی اور فرمایا: ’’اس کو پڑھو۔‘‘ چنانچہ مَیں یہ کتاب لے کر واپس اپنے گاؤں چلا گیا۔
حضرت چودھری حاکم علی صاحبؓ کی دو بیگمات تھیں۔ آپؓ کی خواہش تھی کہ آپؓ کا کوئی بیٹا زندگی وقف کرے اس لیے اپنے بیٹوں کو یکے بعد دیگرے مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل بھی کروایا لیکن آپؓ کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ بعدازاں آپؓ نے اپنی بیٹی (مصنّف کتاب کی والدہ)کی شادی ایک واقف زندگی سے کردی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی خواہش کو قبول فرمایا اور اس بیٹی کی اولاد میں سے کئی افراد کو زندگی وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

مصنّف کتاب کے دادا محترم چودھری نبی بخش باجوہ صاحب نے 1930ء میں احمدیت قبول کی۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ پہلے مَیں چشتیائی گدّی میراشریف ضلع کیملپور کا مرید تھا اور احمدیت کا سخت مخالف تھا لیکن احمدی اور غیراحمدی علماء کے متضاد بیانات سن کر سخت حیران بھی رہتا تھا۔ تاہم خداتعالیٰ سے صحیح راستہ دکھانے کے لیے دعا مانگتا رہتا تھا۔ پچاس سال کی عمر میں مَیں نے ایک رات پچھلے پہر غنودی کی حالت میں خواب دیکھا جس میں کسی شخص کو بلند آواز سے یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا وَمَاکُنّا مُعَذِّبِیْن حَتّٰی نَبْعَثْ رَسُوْلًا۔ اس خواب کے آنے پر مَیں سخت ڈر گیا اور احمدیت کی مخالفت فوراً چھوڑ دی۔ اور چند دنوں کے بعد بیعت بھی کرلی۔
محترم چودھری نبی بخش صاحب باجوہ بیعت کرنے کے بعد ایک جنون کے ساتھ دعوت الی اللہ میں مشغول ہوگئے۔ آپ کی دو بیگمات تھیں۔ دونوں سے کئی بچے ہوئے۔ مکرم نثار احمد صاحب شہید لاہور بھی آپ کی نسل میں سے ہیں۔ آپ کے بڑے بیٹے (مصنّف کتاب کے والد) محترم چودھری محمد شریف باجوہ صاحب اسلامیہ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھے جب اُنہیں اپنے والد کے احمدیت قبول کرنے کا علم ہوا تو انہوں نے شدید مخالفت کی۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ غصے میں آکر ڈیرے کی حویلی کو آگ لگادی۔ دوسروں کو بتاتے کہ میرے والد کے دماغ پر اثر ہوگیا ہے۔ انہی دنوں اسلامیہ کالج کے احمدی طلبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کو ایک لیکچر کے لیے کالج میں مدعو کیا تو ایک احراری پارٹی نے (جس میں باجوہ صاحب بھی شامل تھے) فیصلہ کیا کہ ہم نے مرزا صاحب کی تقریر میں شور کرنا ہے۔ چنانچہ یہ سب ہال میں پہنچے اور اصرار کیا کہ وہ پیچھے کھڑے ہوکر لیکچر سنیں گے۔ لیکن احمدی طلبہ نے اُن پر زور دیا کہ سب آگے جاکر علیحدہ علیحدہ کرسیوں پر بیٹھیں۔ جب احمدی طلبہ کا اصرار بڑھا تو اکثر طلبہ ہال میں بیٹھنے کی بجائے باہر چلے گئے لیکن باجوہ صاحب آگے جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اپنے والد کے احمدی ہونے کا مجھے بہت رنج تھا اور مَیں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آخر احمدی کیا کہتے ہیں۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ لیکچر کے لیے کھڑے ہوئے تو اُن کا نورانی چہرہ آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ پھر جب لیکچر سنا تو دل کے تمام شبہات دُور ہوگئے اور جلسے کے بعد گھر آتے ہی بیعت کا خط لکھ دیا۔ بی اے کرنے کے بعد زندگی بھی وقف کردی۔ کچھ عرصہ جامعۃالمبشرین میں زیرتعلیم رہے اور بعض گھریلو مشکلات کی وجہ سے رخصت لینی پڑی۔ اس بات کا انہیں ہمیشہ دکھ رہتا تھا۔ 1972ء میں جب وہ گورنمنٹ کالج سرگودھا سے ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تو اپنے وقف کی بحالی کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں عریضہ تحریر کیا۔ حضورؒ نے اس شرط کے ساتھ آپ کی درخواست قبول فرمائی کہ اب بقیہ زندگی بلاتنخواہ کام کریں گے۔ چنانچہ آپ آخر دم تک حضورؒ کے عملہ حفاظت میں بطور نائب افسر خدمت کی سعادت بجالاتے رہے۔ 1974ء میں آپ کو دل کا حملہ ہوا اور چند دن فضل عمر ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کے بعد وفات پاگئے۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت نماز جنازہ پڑھائی اور ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
کتاب میں مصنّف نے اختصار سے اپنے خاندان کے بہت سے خدام دین کا تعارف کروایا ہے اور اُن کی خدمات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ خداتعالیٰ نے کس طرح آپ کو تبلیغ کا ذوق عطا فرمایا اُس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ احمدیہ عقائد کی طرف میری توجہ اور احمدیت کی تعلیم کی طرف میرا رجحان دراصل مخالفین کے ساتھ تبادلۂ خیالات اور اُن کو تبلیغ کا ہی نتیجہ تھا۔ جب مَیں کمرشل انسٹیٹیوٹ سرگودھا میں کامرس کا طالبعلم تھا تو ایک روز ایک پروفیسر نے علیحدہ بلاکر پوچھا کہ کیا تم مرزائی ہو؟ مَیں نے کہا: جی ہاں، میرے والدین ہیں لیکن مجھے کوئی زیادہ علم نہیں۔ اس پر انہوں نے مجھے مولانا مودودی صاحب کا کتابچہ ختم نبوت پڑھنے کے لیے دیا اور کہا کہ اسے پڑھ کر تجھے علم ہوگا کہ مرزائی ہونا کتنا بڑا گناہ ہے۔ چونکہ مجھے جماعت کے مؤقف کا کوئی علم نہ تھا اس لیے کتابچہ پڑھ کر بڑی بےچینی ہوئی۔ ایک روز خاکسار احمدیہ لائبریری گیا تو وہاں مجھے محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کی کتاب ’’مولانا مودودی صاحب کے کتابچہ ختم نبوت پر علمی تبصرہ‘‘ مل گئی۔ اس کتاب کے ابھی مَیں نے تین چار صفحات ہی پڑھے تھے کہ سچائی عیاں ہوگئی۔ پھر مَیں نے اُن پروفیسر صاحب سے تبلیغی گفتگو جاری رکھی۔ ایک موقع پر انہوں نے مجھے تفسیر ثنائی کا نسخہ دیا اور کہا کہ تمہارے مولوی عزیزالرحمٰن صاحب نے اس تفسیر کا جو حوالہ اپنی کتاب میں دیا ہے وہ تو اس میں موجود ہی نہیں۔ خاکسار کو بہت تشویش ہوئی اور مَیں مولوی عزیزالرحمٰن صاحب کے پاس پہنچا۔ وہ مجھے ہمراہ لے کر ربوہ آئے اور خلافت لائبریری میں موجود تفسیر ثنائی کا اصلی ایڈیشن نکال کر وہ حوالہ مجھے دکھایا۔ تب معلوم ہوا کہ پاکستان میں بددیانتی کرتے ہوئے جو ایڈیشن شائع کیا گیا تھا اُس میں سے وہ حوالہ ہی حذف کردیا گیا تھا جو احمدی علم کلام میں پیش کیا جاتا تھا۔ ہم نے لائبریری سے وہ کتاب عاریۃً لی اور آکر پروفیسر صاحب کو دکھائی تو وہ بہت پریشان ہوئے اور اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ اس واقعے کے بعد مَیں نے کالج کے طلبہ کو بھی تبلیغ شروع کردی اور بہت سا لٹریچر بھی تقسیم کیا جس پر پرنسپل کو میری شکایت کردی گئی۔ ایک روز پرنسپل نے مجھے بلایا، لڑکوں کو دیا گیا بہت سا لٹریچر اُن کی میز پر موجود تھا۔ اُن کے پوچھنے پر مَیں نے بتایا کہ جب کوئی مجھ سے احمدیت کی تعلیم کے بارے میں پوچھتا ہے تو مَیں اُسے یہ دیتا ہوں۔ ساری بات سن کر نہایت شفقت سے انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ کالج میں تبلیغ نہ کیا کرو بلکہ کالج کی حدود کے باہر جو مرضی کرو۔ چنانچہ پھر کالج کے بعد کہیں باہر بیٹھ کر کئی کئی گھنٹے اپنے دوستوں سے تبلیغی گفتگو کیا کرتا۔ اس گفتگو کا مجھے بھی غیرمعمولی فائدہ ہوا اور بعدازاں 1968ء میں بی اے کرنے کے بعد زندگی وقف کرنے کی توفیق بھی مل گئی۔
کتاب میں خداتعالیٰ کی طرف سے معجزانہ حفاظت کے چند واقعات بیان کیے گئے ہیں جب خداتعالیٰ نے یقینی حادثات سے محفوظ رکھا۔ نیز متعدد مخالفین کے ایسے واقعات بھی شامل ہیں جن پر خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے جب صداقت واضح کردی تو انہوں نے صدق دل سے احمدیت قبول کرلی۔ اسی طرح بہت سے ایسے مشاہدات بھی سپرد قلم کیے گئے ہیں جو احمدیوں کے ایمان، اخلاص، اعلیٰ اخلاق اور تعلق باللہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مثلاً ایک واقعہ مصنّف کتاب یوں بیان کرتے ہیں کہ میری ہمشیرہ محترم مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت سرگودھا کی بہو تھیں۔ مئی یا جون 1974ء میں خاکسار اپنی ہمشیرہ سے ملنے کے لیے ربوہ سے بذریعہ بس روانہ ہوا۔ اُس دن سرگودھا میں احمدیوں کے خلاف شدید ہنگامے ہورہے تھے اس لیے بس کو شہر سے باہر روک دیا گیا اور بتایا گیا کہ آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بس سے اُتر کر مَیں دوسرے مسافروں کے ساتھ ایک تانگے میں سوار ہوکر سرگودھا شہر میں محترم مرزا صاحب کے گھر پہنچا ۔ وہاں کافی لوگ جمع تھے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں احمدیوں کے مکانات کو فسادی نذرآتش کر رہے ہیں اور کسی وقت یہاں بھی آسکتے ہیں۔ وہاں پولیس والے بھی موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی فکر نہ کریں، ہم پوری حفاظت کریں گے۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ پولیس والے غائب ہوگئے اور کوٹھی کی پچھلی طرف سے شور سنائی دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو تین سو لوگ نمودار ہوگئے۔ اس پر گھر میں موجود سب لوگ قریبی ہمسایوں کے گھروں میں چلے گئے لیکن محترم مرزا عبدالحق صاحب گھر کے اندر ہی رہے۔ مَیں نے سوچا کہ اُن کو اکیلے چھوڑ کر جانا مناسب نہیں۔ ہم نے اندر سے دروازے بند کرلیے تو حملہ آوروں نے دروازے توڑنے شروع کیے اور ساتھ ہی ایک دروازے کو آگ بھی لگادی جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ دھواں اتنا زیادہ ہوگیا کہ سانس لینا بھی مشکل تھا۔ چنانچہ ہم نے ایک دروازہ کھول دیا اور باہر نکل آئے۔ یہاں حفاظتِ الٰہی کا معجزہ یہ ہوا کہ باہر سے آنے والے لوگ اتنے بدحواس تھے کہ اُن کی نظر صرف لُوٹ مار کی طرف تھی اور یہ کہ کس چیز کو آگ لگانی ہے۔ یا غالباً وہ یہ سمجھے کہ اُن کے ہی کسی آدمی نے دروازہ کھولا ہے۔ بہرحال ہم باہر چلے گئے اور مکرم مرزا صاحب دعائیں کرتے ہوئے گھر کے سامنے اِدھراُدھر ٹہلنے لگے۔ ایسے میں کچھ ہمسائے آپ کے پاس آئے اور کہا کہ یہ وحشی لوگ ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں، آپ ہمارے گھر میں آجائیں۔ لیکن مرزا صاحب نے انکار کردیا۔ خاکسار بھی اُن کے ساتھ ہی رہا۔ قریباً ایک گھنٹہ توڑپھوڑ ، آگ لگانے اور سامان چرانے کی کارروائی کرنے کے بعد یہ لوگ چلے گئے تو پولیس بھی وہاں آنکلی اور پوچھنے لگی کہ کیا ہوا ہے؟ بہرحال کوٹھی کا کوئی حال نہ تھا۔ اتنے میں رات پڑگئی۔ بجلی کی تاریں بھی وہ لوگ کاٹ گئے تھے اس لیے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ ہم دونوں اور فتح محمد خان صاحب (جو مرزا صاحب کے ایک معاون تھے)گھر کے باہر چارپائیاں بچھاکر سونے کی تیاری کررہے تھے کہ بہت سی کاریں کوٹھی کے اندر داخل ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ محمد حنیف رامے صاحب وزیراعلیٰ پنجاب اپنے افسران کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ اُن کی شہر میں موجودگی میں ہی سارا دن فسادات ہوتے رہے تھے۔ خیر محترم مرزا صاحب نے اُن کا استقبال کیا۔ انہوں نے اظہارِ افسوس کیا اور کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیں۔ محترم مرزا صاحب نے اُن کا شکریہ ادا کیا کہ وہ تشریف لائے ہیں اور کہا کہ یہ جو ستّراسّی ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے یہ تو کچھ بھی نہیں، جس خدا نے پہلے دیا تھا وہ دوبارہ بھی دے سکتا ہے۔ باقی مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ خدا کے فضل سے میرا ایمان بالکل محفوظ ہے اور وہی اصل چیز ہے۔ پھر رامے صاحب نے کسی افسر کو مرزا صاحب کے لیے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے کہا اور خود واپس تشریف لے گئے۔

حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے ایک فعال زندگی گزاری اور 2006ء میں 106 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آخری عمر تک آپ کا حافظہ بہت عمدہ رہا اور مختلف اجتماعات میں اپنی تقریروں کو قرآن کریم، حدیث، حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات اور عربی، اردو، فارسی اشعار سے مزین کرتے اور گھنٹہ گھنٹہ بھر بڑی روانی اور بہت بلند اور صاف آواز میں تقریر کرتے جو جذب و اثر سے بھری ہوئی ہوتی۔ جب بھی لوگوں کی طرف سے آپ کے پُراثر خطاب کو سراہا گیا تو فرماتے کہ مَیں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ایک حقیر سا کیڑا ہے جسے خدا نے بولنے کی طاقت دے دی، یہ خدا کی قدرت کا ہی کرشمہ ہے۔ اسی طرح متعدد مواقع پر ریڈیو اور اخبارات کے لیے آپ کے انٹرویو ریکارڈ کیے گئے جن میں ایک سوال یہ بھی کیا جاتا کہ آپ کی صحت کا راز کیا ہے۔ آپ ہمیشہ قرآن کریم کی یہ آیت پیش کرتے: وَاَمَّا مَایَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الْاَرْضِ (الرّعد:18) اور فرماتے کہ مَیں اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ جو شخص بنی نوع انسان کے لیے مفید اور نفع رساں وجود بننے کی کوشش کرے گا خداتعالیٰ اس کو زیادہ دیر زمین میں رکھے گا۔ آپ یہ بھی کہتے کہ صبح تہجد کی نماز ادا کرنے سے بھی انسان کی صحت و عمر میں برکت دی جاتی ہے۔ اسی طرح کم کھانا، وقت پر کھانا اور ورزش وغیرہ کا بھی ذکر کرتے۔
مؤلف کتاب کو مختلف ممالک میں بہت سے مقامات پر خدمت کی سعادت عطا ہوتی رہی ہے اور اس کتاب میں میدان عمل میں پیش آنے والے بہت سے ایمان افروز واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے انتخاب پیش ہے:
٭… 1982ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے برمنگھم میں نئے احمدیہ مرکز دارالبرکات کا افتتاح فرمایا۔ اس موقع پر ایک ہوٹل میں مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی جس میں اسّی کے قریب انگریز مہمان مدعو تھے۔ ایک مہمان نے کہا کہ آپ کی جماعت افریقہ میں تو کافی پھیل رہی ہے لیکن یورپین ممالک میں کیوں اتنی زیادہ نہیں پھیل رہی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی آپ لوگ مخالفت نہیں کررہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ آپ لوگ محسوس کریں گے کہ اب یہ جماعت اہمیت اختیار کرگئی ہے، پھر آپ مخالفت کریں گے اور پھر لوگ جماعت کے پیغام پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ الٰہی جماعتیں ہمیشہ مخالفت کے بعد پھیلتی ہیں۔
٭… 1977ء میں خاکسار کی تقرری ایک ماہ کے لیے زیورک (سوئٹزرلینڈ) میں ہوئی۔ اُس وقت زیورک میں صرف ایک ہی مسجد یعنی احمدیہ مسجد ہی تھی۔ یہ مسجد 1963ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ سوئٹزرلینڈ جیسے مہنگے ملک میں ہندوستان سے رقم لاکر مسجد بنانا ایک بڑا کارنامہ تھا۔ نیز یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ نے 25؍اگست 1962ء کو اپنے دست مبارک سے رکھا تھا اور اس کا افتتاح حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے 22؍جون 1963ء کو فرمایا تھا۔ اس مسجد کی اہمیت کا اندازہ وہاں ایک ماہ قیام کے دوران ہوا۔ ایک روز ایک مراکشی مسلمان کا فون آیا جس نے بتایا کہ ہم یہاں تقریباً دو سو مراکشی مسلمان ہیں، ہمارا ایک آدمی فوت ہوگیا ہے۔ براہ مہربانی ہماری مدد کریں اور جنازہ پڑھادیں کیونکہ ہم میں سے کسی کو علم نہیں کہ کیا کریں۔ خاکسار نے انہیں کہا کہ اگر آپ کے پاس کوئی آدمی جنازہ پڑھانے والا نہیں تو ان شاءاللہ خاکسار ضرور جنازہ پڑھادے گا لیکن پہلے اپنے لوگوں کو یہ بات اچھی طرح بتادیں کہ خاکسار جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتا ہے اور احمدیہ مسجد میں امام ہے۔ کچھ دیر بعد اُس شخص نے اپنے لوگوں سے بات کرکے فون پر بتایا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم میں سے کسی کو جنازہ پڑھانا نہیں آتا۔ چنانچہ خاکسار نے اُن کے ساتھ جاکر جنازہ پڑھایا اور کچھ دیر تعزیت بھی کی۔ لوگوں نے شکریہ ادا کیا اور کچھ معاوضہ بھی دینا چاہا لیکن خاکسار نے بتایا کہ جماعت احمدیہ تو انسانیت کی خدمت کے لیے ہے اور اس قسم کی خدمت کو محض لِلّٰہ کرتی ہے۔
مسجد میں جمعہ کے علاوہ بھی روزانہ کئی غیراحمدی مسلمان آیا کرتے تھے جن کا تعلق دنیا کے ہر خطّے سے ہوتا تھا۔بعض پاکستانی احمدی نوجوان بھی کبھی ایک دو راتوں کے لیے قیام کرتے جو سوئٹزرلینڈ کے راستے جرمنی جا رہے ہوتے۔
٭… ہنسلو کے ایک احمدی کی ایک انگریز دوست سے تبلیغی گفتگو رہتی تھی۔ مجھ سے اُنہوں نے ذکر کیا تو مَیں نے انہیں کہا کہ اپنے زیرتبلیغ دوست کو دعا کرکے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ دیں اور جب وہ اسے پڑھ لے تو پھر میرے ساتھ ملاقات کے لیے لائیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے تو مَیں نے تعارف کے بعد پوچھا کہ کیا آپ نے کتاب پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ مَیں نے پوچھا: کیسی لگی؟ کہنے لگے کہ بہت اچھی ہے۔ مَیں نے کہا کہ آپ کو اس کتاب کی کسی بات سے کوئی اختلاف ہے؟ کہنے لگے: نہیں۔ مَیں نے کہا پھر تو آپ خدا کے فضل سے مسلمان ہوگئے ہیں کیونکہ یہی اسلام ہے جو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے ہچکچاتے ہوئے کہا ٹھیک ہے۔ مزید گفتگو ہوئی تو مَیں نے انہیں شرائط بیعت پڑھ کر سنائیں اور بیعت فارم سے متعلق بتایا تو وہ کہنے لگے کہ مَیں تو ’’مرزا غلام احمد قادیانیؑ‘‘کو نہیں جانتا، اُن کی بیعت کیسے کرسکتا ہوں؟ خاکسار نے کہا کہ جب بھی کوئی نبی فوت ہوجاتا ہے تو اُس کی تعلیم ہی باقی رہ جاتی ہے جسے لوگ قبول کرتے ہیں۔ اس ملک میں جتنے بھی عیسائی ہیں انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو دیکھا تو نہیں، صرف اُن کی تعلیم کو پڑھا اور مانا ہے۔ الحمدللہ اُن کی سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے احمدیت قبول کرلی۔ اُن دنوں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ تشریف لائے ہوئے تھے۔ حضورؒ سے اُن کی ملاقات کروائی گئی جس پر وہ بہت خوش ہوئے اور پورے شرح صدر سے آخر دم تک بیعت پر قائم رہے۔ حضورؒ نے اُن کا نام محمد انور رکھا جبکہ مکینزی اُن کا فیملی نام تھا۔
٭…1979ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کو امیرومبلغ انچارج یوکے بناکر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ یوکے میں پانچ نئے مراکز قائم کریں۔ مکرم شیخ صاحب نے خاکسار کو ساؤتھ آل میں کوئی جگہ تلاش کرنے کی ہدایت دی اور یہ بھی کہا کہ ہرجماعت نصف رقم کا خود انتظام کرے جبکہ باقی نصف رقم مرکز دے گا۔ چونکہ اُن دنوں ساؤتھ آل جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی اس لیے مشورہ سے طے پایا کہ تین بیڈروم والا مکان خرید لیا جائے جو سولہ سترہ ہزار پاؤنڈ میں آجائے گا۔ لیکن پھر مشورہ کیا گیا کہ یہ مکان بہت چھوٹا ہوگا۔ چنانچہ ایک بنگلہ دیکھا گیا جس کی قیمت 38؍ہزار پاؤنڈ تھی۔ لیکن بظاہر مقامی جماعت کے لیے اس کی نصف رقم اکٹھی کرنا قریباً ناممکن تھا۔ اسی کشمکش میں تھے کہ خاکسار لیوٹن جماعت کے دورے کے لیے گیا اور رات کو مکرم میاں منور علی صاحب صدر جماعت کے گھر پر قیام کیا۔ صبح مکرم میاں صاحب نے کہا کہ رات مَیں نے ایک بڑی عجیب خواب دیکھی ہے کہ ہمارے گھر کے سٹنگ روم میں قالین پر حضرت مسیح موعودؑ تشریف فرما ہیں۔ مَیں نے حضورؑ کی خدمت میں ایک پوٹلی میں کچھ رقم پیش کی تو آپؑ نے فرمایا: اسے گنو۔ مَیں نے گنتی کی تووہ 52؍ہزار پاؤنڈ تھے۔ پھر خواب ختم ہوگئی۔ مَیں نے انہیں کہا کہ یہ خواب میرے لیے تھی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ساؤتھ آل مسجد کے لیے بڑی جگہ عطا فرمائے گا جس پر باون ہزار پاؤنڈ لاگت آئے گی۔ چنانچہ وہ بنگلہ بھی چھوڑ دیا گیا اور ایک بڑا مکان (موجودہ مرکز دارالسلام) تلاش کیا گیا جسے 46؍ہزار پاؤنڈ میں خریدا گیا۔ بعدازاں اسی سال کی مجلس شوریٰ کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ اس مکان کی خرید اور اس کے بعد تزئین و آرائش پر کُل باون ہزار پاؤنڈ لاگت آئی ہے۔ مقامی جماعت کے لیے نصف رقم جمع کروانے کا انتظام اللہ تعالیٰ نے ایسے فرمادیا کہ ایک احمدی بینک مینیجر نے بطور قرضہ کافی بڑی رقم دے دی۔ یہ قرضہ بعد میں ساؤتھ آل اور اردگرد کی دیگر جماعتوں نے مل کر ادا کردیا۔
٭… حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ’’ہمارے اختیار میں ہو تو فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اُس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوںکو بچالیں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھادے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جاویں۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 219۔ ایڈیشن 2003ء)
حضورعلیہ السلام کی اس خواہش کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایک دفعہ خاکسار اور انگریز نَواحمدی مکرم ناصر وارڈ صاحب نے ایک پروگرام بنایا۔ چنانچہ مشورہ کے بعد ہم نے ایک سوالنامہ تیار کیا اور پھر ایک اتوار کی دوپہر ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاکر اجازت چاہی کہ دو تین منٹ اگر دے سکیں تو ہم ایک سروے کررہے ہیں۔ چند ایک نے مصروفیت کا عذر کیا لیکن اکثر نے ہمارے سوالات کے جوابات دیے اور بعض نے جب مزید دلچسپی ظاہر کی تو ہم نے انہیں لٹریچر بھی دیا جو ہم نے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ اس سروے میں صرف پانچ سوالات تھے یعنی: کیا آپ نے اسلام کا نام سنا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام کا لفظی مطلب کیا ہے؟ کیا آپ نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کا نام سنا ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت محمدﷺ کا دعویٰ کیا تھا؟ کیا آپ نے جماعت احمدیہ کا نام سنا ہے اور اس کے متعلق کیا جانتے ہیں؟
اس سروے کا بہت فائدہ ہوا۔ اکثر لوگوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ہمیں اُن پر بہت رحم آیا اور اپنے فریضہ کی اہمیت کا اَور بھی زیادہ احساس ہوا۔ کچھ عرصہ اسی طرح کام کرنے کی توفیق پائی۔
٭… انگلستان کی اکثر لائبریریوں میں ایک کتاب Bengal to Birmingham ملتی ہے۔اس کتاب کے مصنّف ایک بنگالی فیض الرسول صاحب تھے۔ وہ 1979ء میں احمدی ہوئے اور خدا کے فضل سے اخلاص میں ایسی ترقی کی کہ نہ صرف احمدیت کی تائید میں دو کتابیں تحریر کیں بلکہ تیسرے حصہ کی وصیت کرنے کی بھی توفیق پائی۔ اسّی سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی۔ اُن کی بیعت کا واقعہ یوں ہے کہ ایک دن وہ برمنگھم لائبریری میں گئے تو اُن کی نظر ’’تذکرہ‘‘ کے انگریزی ترجمہ پر پڑی۔ نام عجیب لگا تو کھول کر دیکھا۔ معلوم ہوا کہ یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے الہامات، کشوف اور رؤیاء کا مجموعہ ہے جس کا ترجمہ حضرت چودھری محمدظفراللہ خان صاحبؓ نے کیا ہے۔ اگرچہ پہلے وہ دہریہ خیالات رکھتے تھے لیکن اس کتاب نے اُن کے خیالات میں ایسی تبدیلی پیدا کی کہ مسجد فضل لندن کے پتہ پر سارا واقعہ لکھ کر مزید لٹریچر بھجوانے کی درخواست کی۔ پھر خیال آیا کہ مخالفین کا لٹریچر بھی پڑھنا چاہئے۔ چنانچہ مختلف اسلامی کتب خانوں سے مخالفین کا لٹریچر بھی لے کر پڑھا اور آخر جماعت احمدیہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور بیعت کرلی۔ قبول احمدیت کے بعد انہوں نے چالیس صفحات پر مشتمل کتابچہ Commonsense about Ahmadiyyat لکھا جس میں اپنے احمدی ہونے کا واقعہ بیان کرکے جماعت احمدیہ کے اور مخالفین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا اور آخر میں لکھا کہ کہیں مَیں نے احمدی ہونے میں غلطی تو نہیں کی؟ پھر یہ کتابچہ نامور مسلمان علماء، دانشوروں اور مسلمان سفیروں کو بھجوایا۔ اس کتابچہ کو پڑھ کر جن لوگوں نے جواب دیا اُن کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے آپ نے ایک اَور کتاب An Open Letter to the Muslim World لکھی اور مسلمان علماء پر اتمام حجت کیا۔

٭… مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب پہلے انگریز احمدی مبلغ تھے جبکہ دوسرے انگریز مبلغ مکرم طاہر سیلبی صاحب ہیں۔ مکرم سیلبی صاحب اپنی قبولِ احمدیت کی داستان یوں بیان کرتے ہیں کہ کہیں سے مجھے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ ملا تو اسے پڑھ کر میرا دل اسلام کی طرف کھینچا گیا لیکن مَیں مسجد جانے سے گھبراتا تھا کیونکہ وہاں پر میرا کوئی واقف نہ تھا۔ آخر ایک عید کے دن مَیں مسجد فضل لندن کے باہر جاکر کھڑا ہوگیا۔ لوگوں کو آتے جاتے دیکھتا تھا لیکن سمجھ نہیں آتی تھی کہ اندر کیسے جاؤں۔ اتنے میں کسی احمدی نے مجھ سے مدّعا پوچھا تو مَیں نے تفصیل بتائی۔ اس پر انہوں نے اندر آنے کی دعوت دی اور مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سے ملاقات کروادی۔ کچھ گفتگو کی اور چند مزید کتب لے کر مطالعہ کیا اور آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کرلی۔
مکرم سیلبی صاحب اُن دنوں Wembley میں رہتے تھے اس لیے پانچوں نمازیں ادا کرنے کے لیے ہمارے ساؤتھ آل مرکز میں آنا شروع کردیا۔ ان کے پاس کار موجود تھی۔ ایک دن کہنے لگے کہ اگر آپ مجھے نسبتاً کمزور احمدی خدام کے نام اور فون نمبر دے دیں تو مَیں انہیں مسجد لانے کی کوشش کروں گا۔ چنانچہ لوگوں کے گھروں میں گئے، اپنا تعارف کرایا کہ نیا احمدی ہوں اور نماز ادا کرنے مسجد جاتا ہوں۔ اور پوچھا کہ اگر آپ مسجد جانا چاہیں تو مَیں آپ کو گھر سے اٹھالیا کروں؟ چنانچہ کئی خدام ان کے ساتھ باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے لیے آنے لگے۔ یہ ان کا پہلا جماعتی کام تھا۔ پھر اخلاص میں مسلسل ترقی کی اور آخر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں زندگی وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ منظوری ہوئی اور جامعہ احمدیہ ربوہ میں چار سال کورس مکمل کرنے کے بعد پہلی تقررّی بریڈفورڈ میں ہوئی۔ ربوہ میں ان کے قیام کے دوران ایک نواحمدی انگریز لڑکی طاہرہ صاحبہ کے ساتھ ان کی شادی کی تجویز حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمائی تو دونوں نے اسے بخوشی قبول کیا۔ دونوں بہت نیک، نمازوں اور تہجد کے پابند، قربانی کرنے والے اور تبلیغ کا غیرمعمولی جوش رکھنے والے ہیں۔ اس وقت ان کے بیٹے حسن سیلبی بھی جامعہ احمدیہ یوکے سے فارغ التحصیل ہوکر میدان عمل میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

٭… اٹلی کے شہر Turin میں ایک کپڑا ہے جسے مقدّس کفن کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کو اس کپڑے میں اُس وقت لپیٹا گیا تھا جب وہ صلیب پر مرنے کے بعد اُتارے گئے تھے اور پھر تیسرے دن دوبارہ وہ زندہ ہوگئے اور بعد میں آسمان پر چلے گئے۔ کیتھولک عیسائیوں کے لیے خاص طور پر کفن مسیح توجہ اور اہمیت کا مرکز ہے چنانچہ ہر 33 سال کے بعد اس کی زیارت کروائی جاتی ہے۔ 1978ء بھی اس کی زیارت کا سال تھا۔ چرچ نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک سکیم بنائی جس کے تحت کئی ملین لوگوں کو اس کی زیارت کرواکر اپنے عقائد کو مضبوط کرنا تھا۔ چرچ کے اعلان کے بعد جماعت احمدیہ نے بھی اسی سال لندن میں ایک کسرصلیب کانفرنس کے انعقاد کی تجویز کی۔ یہ کانفرنس انتہائی کامیابی سے منعقد ہوئی جس میں متعدد تحقیقی مقالے پیش کیے گئے اور کثرت سے یہ تحقیق بھی عوام الناس تک پہنچائی گئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ جیسا کہ بہنے والے خون کے دھبوں کی مقدس کفن پر موجودگی سے ثابت ہوتا ہے کہ اُس وقت وہ زندہ تھے۔ چنانچہ بائبل کے بیان کے مطابق بھی ثابت ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ اپنے حواریوں سے گلیل میں ملے اور پھر مخفی طور پر مشرقی ممالک کی طرف ہجرت کرگئے اور بالآخر سرینگر کشمیر میں قیام کیا جہاں آپؑ کو بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوںیعنی یہودی قبائل نے آپؑ کو قبول کرلیا اور حدیث نبویﷺ کے مطابق آپؑ 120 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ (کنزل العمال)۔ آپؑ کی قبر سرینگر کے محلہ خانیار میں موجود ہے۔
کسرصلیب کانفرنس کے نتیجے میں چرچ اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے بھی اس کانفرنس میں شرکت فرمائی اور ایک عیسائی تنظیم کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے کانفرنس میں یہ اعلان فرمایا کہ ہم مسیح کی صلیبی موت پر مباحثہ کے لیے یورپ کے کسی بھی بڑے ملک کے دارالحکومت میں آنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن چیلنج دینے والی عیسائی تنظیم نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔
کانفرنس کے تمام مقالہ جات ایک کتاب کی شکل میں Truth about the Crucifixion کے نام سے شائع ہوئے۔ ایک انگریز محقّق Mr Skolfield نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب مَیں اس بات پر غور کرتا ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ نے تقریباً اسّی سال پہلے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کی قبر کشمیر میں ہے تو میرا دل گواہی دیتا ہے کہ واقعی وہ اللہ کے نبی تھی۔
حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے اس موقع پر ایک کتاب Deliverance from the Crossتحریرفرمائی جس میں اُس وقت تک کی اس موضوع پر ہونے والی تمام تحقیقات کو جمع کردیا۔ اسی طرح اس موضوع پر کئی دیگر کتب بھی سامنے آئیں جن میں خاص طور پر سپینش عیسائی محقّق Dr Faber Kaiser کی کتاب Jesus Died in Kashmir بھی تھی۔
٭…حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد مجلس عاملہ یوکے نے مشورہ کیا کہ اب ہمارا فرض ہے کہ باقاعدگی سے حضورؒ کی خدمت میں نذرانہ پیش کیا جائے تاکہ حضورؒ کو ذاتی ضروریات کو پورا کرنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔ اس غرض کے لیے حضورؒ سے ملاقات کا وقت لے کر مجلس عاملہ کا ایک وفد حضورؒ کے دفتر میں حاضر ہوا۔ حضورؒ نے بھانپ لیا کہ کس موضوع پر بات ہونے لگی ہے۔ چنانچہ آپؒ نے آغاز ہی میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری تمام ضروریات کو پورا کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اس لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔
حضورؒ نے اُنہی دنوں خاکسار کو دفتر میں طلب کرکے فرمایا کہ جس بنک میں آپ کا اپنا اکاؤنٹ ہے وہاں ایک اَور اکاؤنٹ کھلوالیں جو میرا اکاؤنٹ ہوگا اور آپ میری نمائندگی میں اسے آپریٹ کرتے رہیں۔ اس کے ساتھ ہی حضورؒ نے ایک ہزار پاؤنڈ کا چیک دیا اور فرمایا کہ اس چیک کے ساتھ یہ اکاؤنٹ کھلوالیں۔ یہ چیک حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آف امریکہ کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
٭…اُن دنوں حضورؒ کے ساتھ مجالس عرفان بھی منعقد ہوا کرتی تھیں۔ ایک مجلس میں کسی دوست نے سوال کیا کہ کیا حضور کی پاکستان سے لندن ہجرت کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات میں کوئی ذکر ہے؟ حضورؒ نے فرمایا کہ تذکرہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک رؤیا درج ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں حضرت علیؓ بن گیا ہوں اور میری خلافت کے خلاف بغاوت ہوگئی ہے۔ جس کے آخر میں ایک دشمن کہتا ہے ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی کہ مجھے چھوڑو تاکہ مَیں موسیٰ کو قتل کردوں۔ (الہام 7؍دسمبر1892ء)
حضورؒ نے فرمایا کہ رؤیا کے آغاز میں حضرت علیؓ کا ذکر ہے جو آنحضورﷺ کے چوتھے خلیفہ تھے اور اس لحاظ سے یہ رؤیا حضرت مسیح موعودؑ کے چوتھے خلیفہ کے متعلق ہے۔ دوسرے اس میں بتایا گیا ہے کہ اس سارے واقعہ کا انجام وہی ہوگا جو حضرت موسیٰؑ کے مقابلے پر فرعون کا ہوا یعنی موسیٰؑ بچائے گئے اور فرعون ڈوب گیا اور حضرت موسیٰؑ اور آپؑ کے ساتھیوں کو پکڑنے میں ناکام رہا۔ یہی اب ہوا ہے اور ابھی کئی باتیں آئندہ ہوں گی۔ (چنانچہ بعد میں ضیاءالحق کی ہلاکت کے ساتھ یہ پیشگوئی مکمل ہوئی)
٭…1979ء میں لیسٹر شہر میں مقیم پانچ گھرانوں کو ایک جماعت بنا دیا گیا۔ چند افراد کی یہ جماعت نماز جمعہ ایک پبلک عمارت میں ادا کیا کرتی تھی۔ 1985ء میں ایک روز غیراحمدی مسلمانوں نے آکر کہا کہ احمدی غیرمسلم ہیں اور ان کو جمعہ پڑھنے کا کوئی حق نہیں۔ پھر دھمکی دی کہ اگلے جمعہ ہمارے ہزاروں لوگ آئیں گے اور اگر احمدی یہاں جمعہ ادا کرنے آئے تو کوئی زندہ بچ کر نہیں جاسکے گا۔ اس پر صدر جماعت نے پولیس سے رابطہ کیا تو پولیس نے غیراحمدیوں سے رابطہ کرنے کے بعد احمدیوں کو کہا کہ اتنے زیادہ لوگ آرہے ہیں کہ ہم آپ کی حفاظت نہیں کرسکیں گے اس لیے آپ کسی اَور جگہ جمعہ کا انتظام کرلیں۔ اس پر صدر جماعت نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں صورت حال پیش کرکے راہنمائی کی درخواست کی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ مَیں دعا کرکے آپ کو جواب دوں گا۔ ایک دو روز کے بعد حضورؒ نے صدر صاحب کو پیغام بھجوایا کہ مَیں نے دعا کی ہے اور مَیں نے فرشتوں کو آسمان سے اُترتے ہوئے دیکھا ہے جو آپ کی حفاظت کررہے تھے اس لیے آپ اگلا جمعہ وہیں جاکر پڑھیں۔ چنانچہ صدر صاحب نے یہ پیغام سب گھروں تک پہنچادیا۔ دوسری طرف غیراحمدیوں کی مسجد میں یہ تیاری کی جارہی تھی کہ احمدیوں کو کسی صورت اب جمعہ نہیں پڑھنے دینا۔
نماز جمعہ کے لیے بارہ احمدی مَردوں اور بچوں پر مشتمل جماعت اپنے امام کی اطاعت میں مقررہ مقام پر پہنچ گئی۔ دوسری طرف خداتعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذریعے اس طرح مدد کی کہ جمعہ کی صبح سے ہی انتہائی تیز ہوا اور طوفانی بارش شروع ہوگئی جو مسلسل نماز جمعہ تک جاری رہی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیراحمدی بہت تھوڑی تعداد میں وہاں پہنچ سکے۔ ان چند لوگوں کو پہلے تو پولیس نے وارننگ دی کہ وہاں سے چلے جائیں اور پھر جو لوگ وارننگ کے باوجود نہ گئے تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے احمدی احباب نے فرشتوں کی حفاظت میں اسی جگہ نماز جمعہ ادا کی۔
حضورؒ کی خدمت میں اُس روز کی رپورٹ مسلسل پیش کی جارہی تھی۔ حضورؒ احباب جماعت کے عزم و حوصلہ اور خلافت کی فرمانبرداری سے ایسے خوش ہوئے کہ صدر صاحب کو فرمایا کہ اب آپ مسجد کے لیے بھی کوئی جگہ ڈھونڈیں۔ چنانچہ کافی تلاش کے بعد مسجد بیت الاکرام قائم ہوئی جس کا افتتاح حضورؒ نے 19؍اپریل 1993ء کو فرمایا۔ بعدازاں مسجد میں توسیع ہوئی اور گنبد و مینار بھی تیار کیے گئے جس کا افتتاح 20؍فروری 2016ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 16 و 17؍ستمبر1945ء کی درمیانی رات ایک رؤیا میں دیکھا کہ ہوائی جہاز کا سفر کرتے ہوئے کسی نے آپ ؓ کے پوچھنے پر بتایا کہ آپؓ کا جہاز سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اترے گا۔ اُس وقت گلاسگو میں کوئی احمدی نہ تھا لیکن اُسی سال مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے اسلام قبول کیا اور پھر اپنی زندگی بھی وقف کردی۔ 1949ء میں حضورؓ نے انہیں گلاسگو میں مبلغ اسلام مقرر فرمایا۔ وہ وہاں انیس سال تبلیغ کی سعادت پاتے رہے اور کئی سعید روحوں کو آغوشِ اسلام میں لائے۔ 1967ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اسکاٹ لینڈ کا دورہ فرمایا۔

مسجد بیت الرحمٰن کی وسیع عمارت 1984ء میں خریدی گئی تھی جبکہ ایک صلوٰۃسنٹر قبل ازیں گلاسگو میں موجود تھا۔ مکرم مجید احمد صاحب سیالکوٹی اور مکرم لئیق احمد صاحب طاہر بھی وہاں متعیّن رہے تھے۔ 10؍مئی1985ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے موجودہ مسجد بیت الرحمٰن اور مشن ہاؤس کا رسمی اور بعدازاں 8؍اپریل1988ء کو باقاعدہ افتتاح بھی فرمایا۔ ان مواقع پر شدید مخالفت ہوئی جس نے جماعت احمدیہ کے تعارف اور دعوت الی اللہ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ نیز شہر کے مرکز میں یہ ایک خوبصورت اور شاندار عمارت تھی جس نے جماعت کے وقار میں بھی اضافہ کیا۔ مسجد میں دو بڑے ہال، آٹھ کمرے، مبلغ کی رہائش گاہ نیز دیگر سہولتیں موجود تھیں۔ 2008ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے گلاسگو کا دورہ فرمایا تو وہاں کے لارڈ پرووسٹ نے حضورانور کے اعزاز میں سٹی ہال گلاسگو میں پُروقار استقبالیہ دیا۔
1988ء میں خاکسار کی تقررّی اسکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے اور برطانیہ کے چوتھے بڑے شہر گلاسگو میں ہوئی تو اس وقت اسکاٹ لینڈ کے مختلف شہروں میں قریباً 130؍احباب پر مشتمل تین جماعتیں گلاسگو، ایڈنبرا اور کیٹرین میں قائم تھیں۔ آج 2020ء میں وہاں ساڑھے چھ صد سے زائد احمدی ہیں جبکہ ڈنڈی میں ایک نیا مرکز بھی قائم ہوچکا ہے۔ جون 1988ء میں جب خاکسار وہاں پہنچا تو اُس وقت حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشاد پر حضورؒ کے مباہلے کے چیلنج کو خوب مشتہر کیا گیا۔ چنانچہ اخبارات سے رابطہ کرکے رپورٹرز کو مسجد میں مدعو کیا گیا۔ خبروں کے علاوہ جن اخبارات نے خاکسار کے انٹرویو بھی شائع کیے ان میں ’’گلاسگو ہیرلڈ‘‘ اور ’’دی سکاٹس مین‘‘ شامل تھے۔ اس تشہیر کا اس قدر اثر تھا کہ جنرل ضیاءالحق کی ہلاکت کی خبر خاکسار کو سب سے پہلے ایک اخباری رپورٹر نے ہی فون پر دی۔ یہ احمدیت کی صداقت کا عظیم الشان نشان تھا چنانچہ حضورؒ کے ارشاد پر ہم نے اگلے ہی روز ایک جلسہ بھی کیا جس میں بہت سے غیرمسلم بھی مدعو کیے گئے۔ جلسے کے بعد ایک زیرتبلیغ نوجوان ندیم صاحب نے بیعت کرنے کی توفیق بھی پائی۔ اسی طرح اسلم قریشی کی بازیابی بھی مباہلے کا عظیم الشان نشان تھا جس نے دشمنوں کے منصوبوں کو نامرادی اور ذلّت میں دھکیل دیا۔
گلاسگو میں خداتعالیٰ نے مباہلے کے حوالے سے ایک روشن نشان ظاہر کیا۔ گلاسگو میں ختم نبوت تنظیم کے صدر شیخ عبدالغنی صاحب ایک معروف تاجر تھے اور بہت بڑے سٹور کے مالک تھے۔ گلاسگو مشن کے افتتاح کے موقع پر اُن کی سرکردگی میں بعض افراد نے حضورؒ کی آمد پر بےہودہ نعرے لگائے۔ بعد میں ایک اشتہار بھی ہمارے خلاف شائع کیا جس میں نہایت جھوٹے الزامات جماعت احمدیہ پر لگائے۔ حضورؒ نے جب معاندین احمدیہ کو دعوت مباہلہ دی تو روزنامہ ’’ملّت‘‘ لندن نے 9و10؍جولائی 1988ء کی اشاعت میں اس خبر کو صفحہ اوّل پر شائع کرتے ہوئے اس میں شیخ عبدالغنی صاحب کا باقاعدہ نام لے کر مخاطب کیا۔ بعد میں اُنہیں دستی طور پر بھی مباہلہ کا پمفلٹ دیا گیا لیکن وہ اپنی معاندانہ کارروائیوں میں مسلسل بڑھتے گئے چنانچہ خداتعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہوئی اور وہ کئی ملین پاؤنڈ کے فراڈ میں ملوّث پائے گئے۔ انہیں اپنا کاروبار بند کرکے پاکستان بھاگ جانا پڑا اور اُن کے خلاف نہایت ذلّت آمیز نظمیں اور مختلف سرکردہ افراد کی طرف سے بیانات اخبارات ورسائل میں شائع کیے گئے۔
ایک نشان برمنگھم میں دکھایا گیا ۔ وہاں کی اہل حدیث مسجد کے امام محمود احمد صاحب میرپوری جو اہل حدیث برطانیہ کے جنرل سیکرٹری بھی تھے، وہ مختلف شہروں میں جاجاکر جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت پھیلا رہے تھے۔ جب مباہلے کا چیلنج اخبارات میں شائع ہوا اور اُن کو براہ راست بھی بھجوایا گیا تو انہوں نے تمسخر کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کی اور اخبار ملّت میں بیان شائع کروایا کہ قادیانیوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ جب بھی کوئی مرتا ہے، کہتے ہیں کہ ہماری پیشگوئی سے مرا ہے۔ اس کے چالیس روز بعد وہ سڑک کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے جب اُن کی گاڑی موٹروے پر اچانک رُک گئی اور پیچھے سے آنے والے ایک ٹرک نے اُسے ٹکّر مار دی۔ پھر اخباروں میں یہ خبر آئی کہ اُن کے گھر میں تعزیت کے لیے آنے والے لوگوں کی کثرت سے فرش نے اچانک جواب دے دیا اور سب لوگ فرش سمیت گھر کے تہ خانے میں جاگرے۔ باہر ایمبولینس کی لائن لگ گئی جبکہ گھر کے اندر ملبے میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔
ایک اَور نشان گلاسگو میں ظاہر ہوا جب روزنامہ جنگ میں خبر شائع ہوئی کہ جماعت احمدیہ کے معروف مخالف مولوی عطاءاللہ شاہ بخاری کے بیٹے اور مجلس احرار اسلام پاکستان کے جنرل سیکرٹری مولوی عطاءالمحسن بخاری کے برطانیہ کے دورے کے دوران گلاسگو، ایڈنبرا اور ڈنکاسٹر کے ایک ہزار قادیانیوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اس پر ہم نے مرکز کی ہدایت پر اسکاٹ لینڈ کی تمام مساجد کے ائمہ اور ممتاز شخصیات کو لکھا کہ اس خبر کو سچا ثابت کرنے والے کو ایک ہزار پاؤنڈ دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہمیں کسی نے جواب نہ دیا لیکن اتفاق سے بخاری صاحب دوبارہ گلاسگو آگئے۔ وہاں کی بڑی مسجد میں لوگوں نے اُن سے اس خبر کے متعلق دریافت کیا تو انہوںنے خبر سے ہی لاعلمی کا اظہار کردیا۔ پھر احمدیوںکے ایک وفد نے کسی کے ذاتی گھر میں اُن سے مطالبہ کیا کہ اس خبر کی تردید کریں۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا اور وہاں موجود لوگوں کے سامنے اپنا بددیانت ہونا ثابت کردیا۔
جولائی1988ء میں خاکسار نے اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے لیے ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کا اجراء کیا جو فروری 1990ء تک جاری رہا۔ صدسالہ جوبلی 1989ء کی خصوصی تقریبات کا بھی اہتمام کیا گیا جن میں معززینِ شہر کو عشائیہ پیش کرنے کے علاوہ اخبارات میں تشہیر، متعددنمائشوں کا انعقاد اور خدمت خلق کے حوالے سےکئی رفاہی پروگراموں کا انعقاد شامل تھا۔ ایک روز ریڈیو بلفاسٹ کے نمائندے نے اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر کہ ہم گیلک زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کروانا چاہتے ہیں مجھے فون کیا اور براہ راست میرا انٹرویو نشر کیا۔
خاکسار کو سکاٹ لینڈ کے جزائر Skye اور Lewis & Harris کے تبلیغی دورے کی توفیق بھی ملی جہاں کے اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئیں۔ ان جزائر کی مجموعی آبادی تیس ہزار سے زائد ہے۔
بی بی سی ٹیلی ویژن کا ایک معروف پروگرام Question Time مختلف شہروں میں ہوتا ہے جس میں برطانیہ کے بڑے سیاسی لیڈر اور دوسرے ماہرین مدعو ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ یہ پروگرام گلاسگو میں منعقد ہوا۔ پینل میں لبرل پارٹی کے بہت مقبول اور لائق لیڈر Paddy Ashdown بھی شامل تھے۔ ہم چند دوست بھی پروگرام میں شریک ہوئے اور پروگرام کے اختتام پر اُن سے ملے۔ خاکسار نے اپنا تعارف کروایا تو جماعت احمدیہ کا نام سنتے ہی وہ فوراً بولے کہ مَیں لندن میں آپ کی جماعت کے سربراہ کو اُن کی رہائش گاہ پر ملا تھا جبکہ مجھے ایک موقع پر مدعو کیا گیا تھا۔
I have never met such a wise man.
ایک انگریز لیڈر کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ نہ صرف خلافت کی سچائی کی دلیل ہیں بلکہ اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ خلافت واقعی دنیا کی رہنمائی کرسکتی ہے۔
1989ء میں ایڈنبرا سٹی کونسل نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر سال کسی نامور عالمی سائنسدان کو ایڈنبرا میڈل کے نام سے ایوارڈ دیں گے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے انعام کے لیے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو منتخب کیا گیا۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے وہاں ایک نہایت عالمانہ لیکچر بھی دیا۔ آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ لیکچر کے نوٹس ایک عام سے شاپنگ بیگ میں تھے جو آپ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ حاضرین میں کئی چوٹی کے سائنسدان بھی شامل تھے۔ لیکچر کے اختتام پر حاضرین نے کھڑے ہوکر دیر تک تالیاں بجائیں اور بعد میں باری باری آگے جاکر آپ سے ملاقات کی اور تصاویر بنوائیں۔ بعض نے تو آپ کے قدموں میں بیٹھ کر تصویر کھنچوائی۔ اس دوران محترم ڈاکٹر صاحب کی نظر ایک طرف کھڑے ہوئے ہم چند احمدیوں پر پڑی تو آپ نے خود ہمیں بلایا اور ساتھ بٹھاکر تصویر کھینچوائی۔ اس طرح اسکاٹ لینڈ کی سرزمین بھی حضرت مسیح موعودؑ کی اس پیشگوئی کی صداقت کا نشان بن گئی کہ ’’خداتعالیٰ نے مجھے باربار خبر دی ہے کہ میرے فرقہ کے لوگ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ نے رؤیا میں لنڈن میں ایک منبر پر کھڑے ہوکر اسلام کی صداقت کو انگریزی میں بیان کرتے ہوئے اور پھر بہت سے سفید پرندوں کو پکڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ اگرچہ مَیں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راست باز انگریز صداقت کا شکار ہوجائیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام)
حضورعلیہ السلام کی پیشگوئیوں کی ایک خوبصورت مثال اُس وقت دیکھنے کو ملی جب ایڈنبرا کے ایک سکاٹس نوجوان یحییٰ مکینزی صاحب گلاسگو مسجد میں آئے۔ انہوں نے حضرت اقدسؑ کی کتب پڑھ کر اسلام قبول کیا تھا۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ گریجوایشن کرنے کے بعد وہ دو سال سے فارغ ہیں کیونکہ جہاں بھی انٹرویو کے لیے جاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ وہ احمدی مسلمان ہیں اور اسلامی تعلیم کے مطابق جمعہ ضرور پڑھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہر جگہ کام سے انکار ہوجاتا ہے۔ خاکسار پر اُن کی بات کا غیرمعمولی اثر ہوا اور کہا کہ وہ حضورایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کا خط لکھیں اور صدقہ بھی دیں۔ کہنے لگے کہ خط تو لکھ دوں گا لیکن صدقے کے لیے تو میرے پاس کوئی رقم نہیں ہے۔ خاکسار نے کہا کہ خاکسار آپ کی طرف سے باقاعدہ صدقہ دے گا۔ حضورانور کی دعاؤں کے طفیل خداتعالیٰ نے فضل فرمایا اور انہیں چند ہفتوں میں ایئرفرانس میں جمعہ پڑھنے کی شرط کے ساتھ کام مل گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو بہت سے انعامات سے نوازا۔ ان کی اولاد نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد عطا کی۔ اب خدا کے فضل سے ان کا بیٹا ڈاکٹر ہے۔
ایک بار خاکسار نے ایڈنبرا میں ایک اجلاس میں اپنی تقریر میں دعوت الی اللہ کی اہمیت بیان کرکے کہا کہ تبلیغ کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔ اُس وقت رات کے دس بجے تھے۔ اجلاس کے بعد یحییٰ مکینزی صاحب میرے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا اس وقت بھی تبلیغ کی جاسکتی ہے؟ خاکسار نے کہا: ہاں، آپ میرے ساتھ آئیں۔ پھر مَیں اپنی کار میں انہیں لے کر ریلوے سٹیشن پہنچا۔ ایک دکان سے تین آئس کریم خرید کر وہاں چلے گئے جہاں مسافر اپنی ٹرین کا انتظار کررہے تھے۔ ایک نوجوان ایک میز پر اکیلا بیٹھا تھا۔ ہم اُس کی اجازت سے اُس کے پاس بیٹھ گئے۔ رسمی کلمات کے بعد اپنا تعارف کروایا اور اُس کو کہا کہ اگر گلاسگو میں کبھی رات ٹھہرنا پڑے تو وہ ہمارے مشن ہاؤس میں ٹھہرسکتا ہے۔ پھر فون نمبرز ایکسچینج کیے اورآئندہ ملتے رہنے کے وعدے بھی ہوئے۔
گلاسگو سے قریباً تیس میل کے فاصلے پر واقع گاؤں Catrine میں چودھری محمد حسین صاحب اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے لیکن نہایت مخلص اور جوشیلے احمدی تھے۔ خدمت خلق بھی کرتے تھے اس لیے لوگ عزت بھی کرتے تھے۔ ایک دفعہ اُن کی دعوت پر اُن کے گھر گیا تو مجلس میں ایک نائیجیرین خاتون بھی اپنے بچے کے ساتھ موجود تھی جس کا شوہر ڈاکٹر تھا۔ اُس نے بتایا کہ وہ بچہ رات کو ڈر کر چیختا ہے اور بستر پر پیشاب کردیتا ہے۔ ہر قسم کے ٹیسٹ کروائے ہیں لیکن بیماری کا پتہ نہیں چلتا۔ وہ کہنے لگی کہ اگر کوئی مذہبی آدمی تعویذ دے سکے تو وہ اس طریق کو بھی آزمانا چاہتی ہے۔ خاکسار نے کہا کہ ہم تو آنحضورﷺ کی سنّت کے مطابق دعا کریں گے۔ چنانچہ ہم نے اُسی وقت اجتماعی دعا کی کہ اے خدا! تُو اپنے فضل سے اس نائیجیرین فیملی کو احمدیت کی سچائی کا نشان دکھادے۔ الحمدللہ کہ خداتعالیٰ نے بچے کو اُسی دن سے شفا دے دی۔ بعد میں وہاں کی ایک اَور نائیجیرین خاتون نے بھی اپنی دو بچیوں کے ساتھ بیعت کرنے کی توفیق پائی۔
آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ میری اُمّت کے بچوں کی دعا خاص طور پر مقبول ہوتی ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ صدقہ بلا کو ٹالتا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ دعا ایسی چیز ہےکہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کرسکتی ہے اور مُردہ کو زندہ کرسکتی ہے۔ نیز فرمایا کہ دعا وہ ہتھیار ہے جو اس زمانہ کی فتح کے لیے مجھے آسمان سے دیا گیا ہے۔
قبولیتِ دعا کے ضمن میں ہی یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ شدید سردیوں میں ایک بار خاکسار اپنی پانچ سالہ بیٹی صباح السلام کے ساتھ کہیں سے واپس مسجد آرہا تھا۔ صبح نو بجے کا وقت تھا اور سڑکوں پر بہت رش تھا۔ اچانک ہماری کار سڑک پر بند ہوگئی اور باوجود کوشش کے اسٹارٹ نہ ہوئی۔ اس پر مَیں نے کچھ صدقہ نکالا اور پھر ہم نے دعا کی۔ اس کے بعد بھی کار اسٹارٹ نہ ہوئی تو پھر مزید کچھ صدقہ نکالا اور دعا کی۔ پھر بھی کار اسٹارٹ نہ ہوئی تو تیسری بار کچھ صدقہ نکالا اور دعا کی۔ خدا کے فضل سے چابی گھمانے پر اب کار اسٹارٹ ہوگئی۔ چونکہ کار میں خرابی تھی اس لیے خطرہ تھا کہ دوبارہ نہ کھڑی ہوجائے چنانچہ قریب ترین گیراج کی طرف لے گئے جو ہمارے گھر کے بھی قریب ہی تھا۔ راستے میں دو ٹریفک لائٹس ملیں، خدا نے فضل فرمایا اور دونوں لائٹس سبز ملیں اس لیے ہمیں رکنا نہ پڑا۔ جب ہم گیراج کے باہر کے دروازے پر پہنچے تو کار بند ہوگئی اور پھر کوشش کے باوجود اسٹارٹ نہ ہوسکی۔ خاکسار نے اندر جاکر مکینک کو بتایا تو اُس نے بھی آکر کوشش کی لیکن کار اسٹارٹ نہ کرسکا تو چابی لے لی اور بعد میں کار ٹھیک کردی۔ لیکن اس واقعہ نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایک نیا ایمان عطا کیا۔
آنحضورؓ نے سفر کے جو آداب بیان فرمائے ہیں اُن میں دو نفل نماز میں دعائے استخارہ پڑھنا، صدقہ دینا اور سواری پر بیٹھ کر مسنون دعا کرنا شامل ہیں۔ ایک روز ایک جماعتی پروگرام میں شمولیت کے لیے اپنی والدہ محترمہ سلیمہ باجوہ صاحبہ کے ساتھ گلاسگو سے ایڈنبرا کے لیے شام کے وقت روانہ ہوا تو ہلکی بارش ہورہی تھی۔ گزشتہ رات شدید برف باری ہوئی تھی اور موٹروے کے دونوں طرف برف کے پہاڑ کھڑے تھے اگرچہ سڑک صاف کردی گئی تھی۔ ستّر میل فی گھنٹہ کی سپیڈ پر چلتے ہوئے اچانک اگلی گاڑی نے بریکیں لگادیں۔ مَیں نے بریک لگائی تو سڑک گیلی ہونے کی وجہ سے کار پھسل گئی اور کنٹرول سے باہر ہوگئی۔ لیکن قادر خدا نے عفو کا سلوک فرمایا اور کار پہلے بائیں مُڑی لیکن کسی چیز سے ٹکرانے سے پہلے دائیں مُڑگئی اور اچانک U-turn لے کر اُلٹے رُخ منہ کرکے برف کے نرم پہاڑ کے اندر گھس کر آرام سے کھڑی ہوگئی۔ بفضلہ تعالیٰ کسی کو کوئی چوٹ نہ آئی اور نہ ہی کار کو کچھ ہوا۔ اردگرد ٹریفک کھڑی ہوچکی تھی۔ خاکسار نے کار کو اسٹارٹ کرکے برف سے باہر نکالا اور ہم آرام سے ایڈنبرا کی طرف روانہ ہوگئے۔ بلاشبہ یہ ایک معجزہ تھا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کی برکت حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ ایک دن خاکسار کی آٹھ سالہ بیٹی وجیہہ نے سکول سے آکر بتایا کہ کرسمس سے پہلے بچوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے کیلنڈر اور چاکلیٹ دیا جاتا ہے۔ اُس روز صبح ٹیچر نے وجیہہ کو ٹوکری سے پرچی نکالنے کے لیے کہا۔ اس نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے پرچی نکالی اور دعا کی کہ اس کا نام نکل آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کرلی۔ پھر ٹیچر نے وجیہہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی سے پرچی نکالنے کو کہا تو اُس نے وجیہہ سے پوچھا کہ تم نے کیا پڑھا تھا؟ وجیہہ نے بتایا کہ دعا پڑھی تھی اور اُس کے پوچھنے پر بتایا کہ بسم اللہ پڑھ لو۔ اُس نے بسم اللہ پڑھتے ہوئے پرچی نکالی تو اُس کا بھی نام نکل آیا۔ اس واقعے نے دونوں بچیوں اور سننے والوں پر گہرا اثر کیا۔
1988ء میں سلمان رُشدی کی بدنام زمانہ کتاب Satanic Verses کی اشاعت پر جہاں ایران کے آیت اللہ خمینی نے اُس کو قتل کرنے والے کو ایک ملین ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا وہاں دنیابھر میں مسلمانوں کے مظاہرے ہوئے اور کئی مسلمان بدنظمی کی وجہ سے اپنی جانوں سے محروم ہوگئے۔ حکومت برطانیہ نے سلمان رشدی کی حفاظت کا ہر طرح انتظام کیا ہوا تھا اور اُس کی کتاب بکثرت فروخت ہورہی تھی۔ ان حالات میں صرف حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ تھے جنہوںنے مسلمانوں کی قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں راہنمائی فرمائی۔ حضورؒ کی راہنمائی سے محمد ارشد احمدی صاحب نے ایک کتاب بھی تحریر کی۔ ان حالات میں سکاٹش پریس نے ہم سے بھی رابطہ کیا اور ہمارا موقف شائع کیا۔
15؍جنوری1989ء کو مسجد بیت الرحمٰن گلاسگو میں اسکاٹ لینڈ کے انصار، خدام اور اطفال کا پہلا سالانہ ریجنل اجتماع منعقد کرنے کی توفیق بھی ملی جس کی حاضری 35؍تھی۔ 28؍جنوری1990ء کو دوسرا سالانہ ریجنل اجتماع منعقد ہوا جس میں 46؍حاضرین کے علاوہ مرکزی نمائندے بھی شامل ہوئے۔ حضورؒ نے بھی اس موقع پر پیغام ارسال فرمایا جس میں دوسری صدی کے تقاضوں کے پیش نظر دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
اس کے بعد خاکسار کا تبادلہ تنزانیہ ہوگیا اور 10؍مارچ1990ء سے 1992ء تک قریباً اڑہائی سال بطور امیرو مبلغ انچارج تنزانیہ خدمت کی توفیق پائی۔ اس تقرری سے چند گھنٹے قبل ایک خواب کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تسلّی دی تھی اور بیدار ہونے پر خاکسار نے اپنے اہل خانہ کو خواب سناکر بتادیا تھا کہ جماعتی سفر درپیش ہے۔

تنزانیہ میں پہلا اہم کام قرآن کریم کے سواحیلی ترجمے کے چوتھے ایڈیشن کی طباعت تھی جس کے لیے خاکسار کی درخواست پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ازراہ شفقت رقم عطا فرمائی۔ یہ ترجمۂ قرآن خاکسار نے صدر مملکت جناب علی حسن موینیی صاحب کو اُس وقت پیش کیا جب وہ دارالحکومت دارالسلام میں بین الاقوامی بُک فیئر کے موقع پر ہمارے سٹال پر تشریف لائے۔ انہوں نے خوشی سے قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلی دفعہ کوئی ترجمۂ قرآن دیکھا ہے جو تنزانیہ میں ہی شائع ہوا ہو۔
موروگورو میں مکرم ڈاکٹر مبارک احمد صاحب احمدیہ میڈیکل سنٹر کو چلارہے تھے جہاں سے قریباً ڈیڑھ لاکھ افراد ہر سال مستفید ہوتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشاد کے تحت وہاں سے قریب ہی کیہونڈا میں ایک ہسپتال کی تعمیر مکرم وسیم احمد چیمہ صاحب امیرومبلغ انچارج شروع کرواچکے تھے۔ اس کا اکثر کام خاکسار کے دَور میں مکمل کیا گیا۔ ہسپتال میں چالیس بستروں کی سہولت تھی اور سرکاری ہسپتال کے بعد یہ دوسرا ہسپتال تھا جس میں ایکسرے مشین بھی نصب کی گئی تھی۔ 10؍جنوری1992ء کو وزیراعظم جناب جان ملےچیلا صاحب نے ہسپتال کا افتتاح کیا اور جماعت احمدیہ کی خدمتِ انسانیت کو بہت خراج تحسین پیش کیا۔ اخبارات میں اس خبر کی اشاعت سے تبلیغ کے نئے راستے کھلے۔
حضورؒ کے ارشاد پر افریقہ کے جن پانچ ممالک میں پریس لگانے کا فیصلہ ہوا اُن میں تنزانیہ بھی شامل تھا۔ اُس وقت خاکسار تنزانیہ کے جنوبی حصے میں ٹنڈورو میں تھا جہاں کی مسجد کی غریبانہ حالت دیکھ کر نماز میں دعا کا بہت موقع ملا اور نماز میں ہی ایک کشفی نظارے میں دیکھا کہ کوئی غیبی ہاتھ بڑی قیمتی مشینیں مجھے پکڑا رہا ہے جو خاکسار آگے مقامی لوگوں کو دے رہا ہے۔ چنانچہ جلد ہی یہ شاندار پریس کئی مشینوں کے ساتھ نصب ہوا جو دارالسلام کا دوسرا بڑا پریس تھا۔ اس میں حضورانورؒ کے ارشاد کے مطابق سکولوں کی کتب اصل لاگت پر ہی طبع کی جاتی تھیں جس سے بہت نیک نامی ہوئی۔
اُس زمانہ میں تنزانیہ میں 15؍معلّمین و مبلّغین تھے جن میں سے 7 کے پاس بائیسکل بھی نہیں تھا۔ چنانچہ چین سے دس نئے بائیسکل منگواکر اُن کے لیے سہولت پیدا کی گئی۔ تمام مساجد میں سفیدی کروائی گئی اور بعض میں قالین بھی بچھائے گئے جو لندن سے پریس کی مشینوں کے ساتھ آئے تھے۔
مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق مبلغ انچارج مشرقی افریقہ نے ایک سواحیلی اخبار نیروبی سے جاری کیا تھا جو بعدازاں بند ہوگیا۔ اس کا نام Mapenzi ya Mungu یعنی ‘خدا کی محبت’ تھا۔ یہ مفید اخبار بہت مقبول تھا۔ وہاں ٹی وی کی عدم موجودگی کی وجہ سے اخبار کی سخت ضرورت بھی تھی۔ چنانچہ بعض مقامی دوستوں کے مالی تعاون سے یہ ماہنامہ اخبار اپنے پریس میں شائع کروانا شروع کیا جو احمدیوں کے علاوہ غیروں میں بھی بہت مقبول ہوا۔
خاکسار کے وہاں جانے سے کچھ عرصہ قبل حکومت نے جماعت کو کباھا میں ایک ہزار ایکڑ زرعی زمین بطور تحفہ دی تھی تاکہ اسے آباد کیا جائے۔ لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کام نہ کیا جاسکا تھا۔ سب سے اہم فورویل ڈرائیو کی ضرورت تھی کیونکہ اس کے بغیر وہاں پہنچنا ناممکن تھا۔ حضورانورؒ کی خدمت میں درخواست کی گئی تو حضورؒ نے اس کا انتظام فرمادیا اور اس طرح کباھا میں کام کا آغاز کیا گیا۔ بعض حصوں میں چند افریقن ناجائز قبضہ کرچکے تھے، انہیں معاوضہ دے کر فارغ کیا اور ایک مسجد و مربی ہاؤس تعمیر کروایا، ایک کنواں بھی کھدوایا اور ایک معلّم صاحب کو وہاں متعیّن کردیا گیا۔ رقبے کے اردگرد ناریل کے درخت لگواکر ایک حصے میں مونگ پھلی کی کاشت کی گئی۔ قریبی لوگوں سے تعلقات قائم کرکے انہیں کام مہیا کیا تو تبلیغ کے راستے بھی کھلے اور CCM پارٹی کے چیئرمین مع فیملی احمدی ہوگئے۔ مختلف اوقات میں غرباء کو کھانا کھلانے کا انتظام کیا جاتا۔ دارالسلام یونیورسٹی کی سات فیکلٹیز کے لیے آٹھ تعلیمی وظائف جاری کیے جنہیں جماعت کے تعارف کے حوالے سے منسوب کیا گیا مثلاً مکرم شیخ کالوٹا امری عبیدی صاحب جو تنزانیہ کی آزادی کے بعد پہلی کابینہ میں وزیر رہے اور تنزانیہ کے قومی ترانہ کے خالق بھی تھے۔ وہ دارالسلام کے پہلے تنزانین میئر اور احمدی مبلغ تھے۔ اسی طرح مکرم شیخ مبارک احمد صاحب جو تنزانیہ اور مشرقی افریقہ کے پہلے مبلغ انچارج اور قرآن کریم کے پہلے سواحیلی ترجمہ کے مترجم تھے۔ حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ، حضرت ڈاکٹر فضل دین احمدی صاحبؓ، محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب، محترم ایم ایم احمد صاحب کے علاوہ احمدیہ مسلم مشن اور احمدیہ مسلم ہسپتال موروگورو کے نام سے بھی وظائف منسوب کیے گئے۔
حضرت ڈاکٹر فضل دین احمدی صاحبؓ نے کئی سال بطور وٹرنری ڈاکٹر اہل افریقہ کی خدمت کی، 1950ء کی دہائی میں وہ زنزبار میں متعیّن تھے کہ اُن کی اہلیہ حضرت حلیمہ بی بی صاحبہؓ کی وفات ہوگئی۔ غیراحمدیوں نے اُنہیں اپنے قبرستان میں دفن کرنے سے انکار کردیا تو ڈاکٹر صاحب نے شہر سے باہر ایک قطعہ زمین خریدا اور وہاں اپنی بیگم کو دفن کردیا۔ وہاں کے پرانے سیاسی و مذہبی لیڈروں نے خاکسار کو بتایا کہ کافی عرصہ تک یہ قبر موجود رہی اور اس پر ’’حلیمہ بی بی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر فضل دین صاحب احمدی‘‘ لکھا ہوا تھا۔ ہر جمعرات کو لوگ اس قبر پر دعا کرنے آتے تھے اور مشہور تھا کہ یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ بعدازاں یہاں سڑک اور پھر بسوں کا اڈا بنادیا گیا لیکن اس جگہ کا نام ابھی تک ’’میّت کی آرام گاہ‘‘ مشہور ہے۔ کئی مذہبی لیڈروں نے یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے قرآن کریم حضرت حلیمہ بی بی صاحبہؓ سے پڑھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحبؓ تبلیغ میں ہمیشہ سرگرم رہتے تھے اگرچہ مخالفت بھی بہت ہوتی تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے زنزبار میں ایک فعال جماعت قائم ہوگئی اور احمدیہ مسجد بھی بن گئی۔ خاکسار کے لیے دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ حضرت حلیمہ بی بی صاحبہؓ خاکسار کی والدہ کی حقیقی خالہ تھیں۔
تنزانیہ میں خاکسار کو ملک کے طول و عرض میں کئی اسفار کرنے کا موقع ملا اور کئی معجزات مشاہدہ کیے۔ مثلاً ایک لمبے سفر میں دُورافتادہ علاقے میں مجھے ملیریا ہوگیا اور الٹیوں اور اسہال سے حالت غیر ہونے لگی۔ مقامی ڈاکٹروں کے پاس مناسب علاج کی سہولیات نہیں تھیں۔ بتایا گیا کہ چند میل کے فاصلے پر جرمن ہسپتال ہے جہاں علاج میسر ہے۔ لیکن احمدی دوست نہایت غریب تھے اور میرے پاس بھی رقم نہیں تھی۔ دارالسلام سے فوری رقم منگوانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ حالت بہت نازک ہوگئی اور بیہوشی کی کیفیت طاری تھی تو وہاں کے ایک دو متموّل دوست جو سفر پر تھے، غیرمتوقع طور پر تشریف لے آئے۔ اُنہوں نے فوری طور پر مجھے ہسپتال منتقل کیا جہاں پانچ دن کے علاج کے بعد صحت ہوئی۔ اُن دوستوں کا اچانک اُس وقت آجانا ایک معجزہ تھا۔ بعد میں دارالسلام واپس آکر اُن کی رقوم شکریہ کے ساتھ اُنہیں بھجوادی گئیں۔
1992ء میں گزشتہ ایک سال کی رپورٹ جو حضورانورؒ کی خدمت میں بھجوائی گئی اس میں بتایا گیا کہ اس سال گیارہ نئی جماعتوں کے قیام کے ساتھ تنزانیہ میں جماعتوں کی کُل تعداد ننانوے ہوگئی ہے۔ لنڈی ریجن کی ایک جماعت Ingrito کا قیام اس طرح ہوا کہ مخالف علماء نے وہاں آکر جماعت کے خلاف الزامات لگائے۔ وہاں کے ایک دوست ہمارے معلّم عبداللہ گمباگے صاحب کے زیرتبلیغ تھے۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ یہ الزامات لغو اور جھوٹے ہیں تو انہوں نے اپنے گاؤں میں تبلیغ شروع کردی۔ جب دیکھا کہ کافی لوگ اُن سے متفق ہوگئے ہیں تو انہوں نے معلّم صاحب کو گاؤں بلایا اور پھر دو ہفتے میں ستّر بیعتیں ہوگئیں۔ یہ اطلاع دارالسلام پہنچی تو ایک معلّم عبداللہ بانگا صاحب کو حالات کا جائزہ لینے وہاں بھیجا گیا۔ اُن کے تین روزہ قیام کے دوران خدا کے فضل سے مزید 45؍افراد احمدی ہوگئے۔ اور یہ سلسلہ تب سے جاری ہے۔ الحمدللہ۔ دراصل مخالفت ہمارے لیے کھاد کا کام دیتی ہے کیونکہ مخالفین کے پاس جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
ڈوڈومہ ریجن کے مبلغ نصیر قریشی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دن مشن میں ایک آدمی آیا اور اُس نے بتایا کہ فلاں دُوردراز گاؤں سے تین دن کا پیدل سفر کرکے بیعت کرنے آیا ہوں۔ پھر بتایا کہ میرے گاؤں میں ایک ہی احمدی رجب علی ہے۔ وہ کافی عرصے سے ہمیں تبلیغ کرتا رہتا ہے لیکن کوئی بھی احمدی نہیں ہوا۔ چند دن پہلے وہ میرے پاس آیا اور پہلے کی طرح خوب تبلیغ کی لیکن مجھے اپنے اندر کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے بعد رجب علی صاحب ہاتھ اٹھاکر انتہائی کرب سے دعا کرنے لگے کہ اے خدا! اتنے عرصے سے اس گاؤں میں اکیلا احمدی ہوں۔ میری تبلیغ کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیا تُو مجھے اسی طرح دنیا سے لے جائے گا کہ میرے بعد اس گاؤں میں کوئی احمدیت کا نام لینے والا نہ ہوگا۔ رجب علی صاحب کی آہ و زاری کا میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ مَیں نے فوراً جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ چونکہ میرے پاس کرایہ کے لیے رقم نہیں تھی اس لیے تین دن کی پیدل مسافت کے بعد یہاں پہنچا ہوں تاکہ بیعت کرسکوں۔ اُس شخص نے اپنی چار بیویوں اور بارہ بچوں کے ساتھ بیعت کی اور پھر تبلیغ بھی شروع کی اور دوسرے خاندانوں کو احمدی کی۔
ایک روز ایک نوجوان نے مشن ہاؤس آکر بتایا کہ اُس نے فلاں جیل میں قید کے دوران کسی احمدی قیدی کی تبلیغ سے احمدیت قبول کی ہے۔ اس جیل میں پہلے سُنّی قیدی ایک مقررہ جگہ نماز پڑھتے تھے۔ جب احمدی قیدی کی تبلیغ سے یہ بھی احمدی ہوگیا تو انہوں نے وہاں اپنی نماز باجماعت علیحدہ شروع کردی اس پر سنّیوںکے امام نے افسرانِ جیل سے احتجاج کیا تو احمدیوں کو نماز کے لیے علیحدہ کمرہ دے دیا گیا۔ جب اس قیدی کی رہائی ہوئی تو جیل میں سترہ قیدی احمدی ہوچکے تھے۔ یہ اپنی نمازیں اور نماز جمعہ بھی پڑھتے اور داعی الی اللہ قیدی نے ان سب کو قرآن کریم پڑھنا بھی سکھایا جس کی یہ لوگ جیل میں روزانہ تلاوت بھی کرتے تھے۔
اسی طرح ایک دوسرے شخص نے بھی قید سے رہائی کے بعد مجھے بتایا کہ وہ پہلے بھی مسلمان تھا لیکن بدعملی میں مبتلا تھا۔ اب احمدی ہونے کے بعد نہ صرف اُس نے سچی توبہ کی توفیق پائی ہے بلکہ تبلیغ بھی کرتا ہے اور خدا سے محبت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اپنے والدین کی خدمت بھی کرتا ہے اور چندہ بھی دیتا ہے۔ ایسی زندگی کے متعلق وہ پہلے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
الحمدللہ کہ اُس زمانے میں خداتعالیٰ کے فضل سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں بیعتیں ہونے لگیں اور کئی نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ نئے بیعت کرنے والوں میں دارالسلام کے اینگلیکن چرچ کے بڑے پادری کا بیٹا بھی شامل تھا جو انجینئر ہے۔ اُس نے بتایا کہ دو سال تک زیرتبلیغ رہنے کے بعد وہ دل سے احمدی ہوچکا تھا لیکن اعلان کرنے سے ڈرتا تھا۔ ان دنوں اُس کو دل پر دباؤ محسوس ہونا شروع ہوا جو بڑھتا گیا یہاں تک کہ اُسے ملازمت ترک کرکے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ تب عارضی طور پر افاقہ ہوتا لیکن ڈاکٹر یہی کہتے کہ ٹیسٹ کلیئر ہیں۔ آخر اُس کے دل میں یہ یقین پیدا ہوگیا کہ جب تک مَیں اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کرتا مجھے شفا نہیںہوسکتی۔ تب اُس نے احمدی ہونے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ بہت مخالفت ہوئی لیکن وہ ثابت قدم رہا اور اللہ کے فضل سے بیماری بھی غائب ہوگئی، باقاعدہ جمعہ پر آتا اور چندہ بھی دیتا۔ قرآن کریم بھی سیکھنا شروع کردیا۔
بیعت کرنے والوں میں نوالہ کالج کے وائس پرنسپل، ارضی انسٹیٹیوٹ کی سٹوڈنٹ یونین کے صدر اور مسجد کے امام الصلوٰۃ، غیراحمدی مدرسہ شمسیہ کوالانی کے ہیڈٹیچر اور ایک چرچ کے پادری بھی شامل تھے۔
Ingrito کی غیراحمدی مسجد کے امام بھی احمدی ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ وہ دل سے احمدیت کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے لیکن اس خیال سے اعلان نہیں کرتے تھے کہ امامت جاتی رہے گی اور روزی بھی۔ آخر اُن میں سے کچھ جرائم پیشہ لوگ جن سے روزی کی توقع تھی، میرے گھر سے قیمتی سامان چراکر لے گئے اور مَیں کنگال ہوگیا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ صداقت کو قبول نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ مَیں نے احمدی ہونے کا اعلان کیا تو امامت سے ہی نہیں نکالا گیا بلکہ مسجد میں نماز پڑھنے سے بھی روک دیا گیا۔ لیکن میرا دل مطمئن ہے۔ اُسی سال مسجد شوریٰ پر وہ اپنے ہمراہ پانچ افراد کو لے کر 80؍کلومیٹر کا پیدل سفر کرکے پھر بس لے کر دارالسلام آئے۔
دارالسلام تنزانیہ میں ماہ جولائی کے پہلے عشرہ میں انٹرنیشنل ٹریڈ فیئر لگتا ہے۔ 1992ء میں اس میں اٹھارہ ممالک نے شرکت کی اور زیمبیا کے صدر نے اس کا افتتاح کیا۔ جماعت احمدیہ کو بھی سٹال لگانے کی توفیق ملی جس پر ہزاروں زائرین آئے۔ 47؍ہزار شلنگ کا لٹریچر بھی فروخت ہوا۔ اس نمائش کے دوران دارالسلام یونیورسٹی مسجد کے امام جناب ابوبکر صاحب نے بیعت کی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اگرچہ وہ دو سال سے احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کررہے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ٹریڈفیئر میں بین الاقوامی کمپنیاں تو اپنے تجارتی مال کو لے کر موجود ہیں اور غیرمسلم ادارے بھی اپنے مذاہب کی تبلیغ میں سرگرم ہیں لیکن اسلام اور قرآن کریم کا جھنڈا بلند کرنے والے صرف احمدی ہیں۔
حضورانورؒ نے تنزانیہ کے سپرد چار ہمسایہ ممالک کیے ہوئے تھے۔ اللہ کے فضل سے روانڈا، ملاوی اور برونڈی میں تو تبلیغ سے احمدیہ جماعتیں قائم تھیں لیکن موزمبیق میں خانہ جنگی کی وجہ سے رابطہ مشکل تھا۔ جب خاکسار نے اخبار میں پڑھا کہ تنزانیہ کے ریجن Ruvuma میں موزمبیق کے پناہ گزینوں کو آباد کیا گیا ہے تو ریجنل مبلغ شیخ یوسف عثمان صاحب کو وہاں کا دورہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ انہوں نے رپورٹ میں بتایا کہ قریباً بیس ایسے افراد ملے ہیں جو خود کو قادیانی کہتے تھے اور وہ بتاتے ہیں کہ وہ پیدائشی قادیانی ہیں کیونکہ اُن کے بزرگوں نے اُن کو یہی بتایا ہے۔ انہوں نے ہماری تبلیغ سے پہچان لیا اور کہا کہ یہ باتیں تو وہی ہیں جو قادیانی کرتے ہیں۔ اُن کو بتایا گیا کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور قادیانی کا لفظ غیراحمدی شرارت سے استعمال کرتے ہیں۔
حضورانورؒ کی دعا کی اعجازی قبولیت کے واقعات میں ایک یہ بھی تھا کہ ایک بار قریباً دو سال سے بارش قریباً نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے آثار پیدا ہونے لگے تو ایک احمدی دوست Kibaha سے ایک روز آئے اور نہایت دردبھرے لہجے میں بتایا کہ انہوں نے بڑی محنت اور رقم خرچ کرکے فارم تیار کیا اور اب پانی کا انتظار ہے لیکن خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ بہت سا مالی نقصان ہوجائے گا۔ انہوں نے حضورانورؒ کے نام دعا کا ایک خط بھی دیا۔ خداتعالیٰ کا یہ اعجازی نشان دیکھا کہ اگلے ہی دن سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا جو مئی کے آخر تک جاری رہا یہاں تک کہ اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ ایک علاقے میں سیلاب آگیا ہے اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اس پر خاکسار نے فوراً حضورانورؒ کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھا اور پھر یہ خدائی نشان دیکھا کہ اگلے روز پہلی دفعہ دھوپ نکلی اور بعد میں وقفے وقفے سے بارش ہونے لگی جو فصلوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ چنانچہ ایک اخبار ’’ڈیلی نیوز‘‘ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کوسٹ ریجن کے کباہا ڈسٹرکٹ میں جہاں گزشتہ دو سالوں سے مسلسل قحط تھا اب انتہائی شاندار فصل کی امید ہے۔
ٹبورا ریجن سے ایک نوجوان شوریٰ میں شرکت کے لیے دارالسلام آنا چاہتے تھے لیکن جتنی رقم تھی اُس سے راستے میں کسی مقام تک کا ریل کا ٹکٹ لے لیا۔ جب وہاں پہنچے تو ریلوے اسٹیشن پر ایک دوست مل گئے جنہوں نے چائے وغیرہ پلائی اور حال احوال معلوم کیے تو فوراً جیب سے دو ہزار شلنگ نکالے اور کہا کہ مَیں بھی دارالسلام جارہا ہوں اگر وہاں کوئی انتظام ہوجائے تو واپس کردینا۔ چنانچہ دارالسلام پہنچ کر وہ مجلس شوریٰ میں شریک ہوئے اور پھر کسی کام کے لیے اپنے محکمانہ دفتر میں گئے تو افسر نے کہا کہ اس کام میں تو دو تین دن لگیں گے۔ اس دوران تم یہاں ٹھہرو اور ڈیلی الاؤنس کے لیے فارم پُر کرو۔ چنانچہ فارم پُر کیا تو کام کے اختتام پر انہیں چودہ ہزار شلنگ مل گئے جس میں سے قرض بھی ادا کردیا اور شوریٰ میں شرکت بھی ہوگئی۔ اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ’’اِنِّی مُعِیْنٌ مَن اَرَادَ اِعَانَتَکَ‘‘ (مَیں اس شخص کی اعانت کروں گا جو تیری اعانت کرے گا)ایک بار پھر پورا ہوا۔
مذکورہ بالا الہام کے دوسرے حصے ’’اِنِّی مُھِیْنٌ مَن اَرَادَ اِھَانَتَکَ‘‘کی صداقت پر یہ واقعہ بھی مشاہدے میں آیا کہ زنزبار کے عرب نسل کے نوجوان ابوالفتح نے احمدیت قبول کی تو اپنے کمرے میں رہنے والے دوسرے نوجوان کو تبلیغ شروع کی لیکن اُس نے حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق نہایت توہین آمیز کلمات کہنے شروع کیے اور ایک دن کہا کہ تمہارا نبی تو (نعوذباللہ)بیت الخلاء میں فوت ہوا تھا۔ باوجود سمجھانے کے بھی وہ باز نہ آیا۔ اُسی رات اُسے شدید ڈائریا ہوگیا اور حتّٰی کہ اتنا کمزور ہوگیا کہ اُٹھ کر بیت الخلاء جانے کے قابل بھی نہ رہا۔ احمدی نوجوان اُس کو ہسپتال لے گیا اور تین چار دن کے علاج کے بعد اُسے آرام آگیا۔ پھر سمجھانے پر اُس کے رویے میں نرمی آگئی اور احمدیت کی طرف مائل ہوگیا۔
زنزبار کے چیف منسٹر سیف شریف حمادی صاحب سے مل کر ہمارے وفد نے درخواست کی کہ ہم مسجد اور ڈسپنسری بنانا چاہتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ جب تک مَیںمنسٹر ہوں اس زمین پر قادیانیوں کی کوئی چیز نہیں بننے دوں گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ تھوڑے عرصے بعد اس منسٹر کو الزامات کی وجہ سے نہ صرف معزول کیا گیا بلکہ چار سال قید کی سزا بھی ہوئی۔ نئی خاتون وزیرصحت سے رابطہ کرکے جب جماعت نے خواہش کا اظہار کیا تو اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم آپ کو معقول جگہ دیں گے بلکہ اگر آپ قریبی جزیرے Pemba میں بھی ڈسپنسری بنانا چاہیں تو وہاں بھی جگہ لے لیں۔ الحمدللہ
زنزبار کی سرزمین پر یہ عبرتناک واقعہ بھی چند سال قبل گزرا کہ چند داعیان الی اللہ جب بازار میں تبلیغ کررہے تھے تو چند غیراحمدی متعصّب مُلّاؤں نے فساد کیا۔ احمدیوں نے کہا کہ عیسائی بھی تبلیغ کرتے ہیں تم انہیں کیوں نہیں روکتے۔ بہرحال معاملہ چیف قاضی کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ ہر مذہب کے لوگوں کو تبلیغ کا حق ہے۔ چنانچہ احمدیوں نے تبلیغ جاری رکھی۔ کچھ دن بعد دو مُلّا وہاں آئے اور احمدیوں کے پاس موجود قرآن کریم اور دوسرا لٹریچر پھاڑ کر نیچے پھینک دیا۔ احمدیوں نے کہا کہ خدا کے کلام کے ساتھ ایسا سلوک کروگے تو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا لیکن مُلّاؤں نے کوئی بات نہ سنی۔ چند دن بعد تنزانیہ کی خواتین کی تنظیم کی سربراہ نے اسلام کے شادی بیاہ کے قوانین کے متعلق ایک بیان دیا جس پر انہی مُلّاؤں نے ایک احتجاجی جلوس نکالا اور فساد برپا کیا جس پر سربازار پولیس نے فائرنگ کردی اور دو مُلّاؤں کو ہلاک کردیا۔ ان میں سے ایک ابھی ہسپتال میں زندہ ہی تھا کہ ہمارے صدر جماعت اُس سے ملنے گئے تو اُس نے معافی مانگی کہ اُس سے غلطی ہوئی جو اُس نے قرآن کریم کی توہین کی۔ چند دن بعد وہ فوت ہوگیا۔
خداتعالیٰ کے فضل سے تبلیغی ٹیمیں بناکر تبلیغ کے کام کو بہت وسیع کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے کئی فضل بھی فرمائے مثلاً ایک دوست الیاس مروہ صاحب نے خاکسار کے ذریعے بیعت کی۔ وہ کئی زبانیں جانتے تھے اور تبلیغ کا شوق بھی بہت تھا۔ انہوں نے ہزاروں بیعتیں کروائیں۔ نومبائعین میں جزیرہ Pemba کے ممبر آف پارلیمینٹ کا بیٹا بھی تھا جسے بیعت کرنے پر باپ نے گھر سے نکال دیا تو وہ دارالسلام آگیا اور کوئی بزنس شروع کردیا لیکن ثابت قدم رہا۔
اکتوبر1992ء میں خاکسار کی تبدیلی تنزانیہ سے یوکے میں ہوگئی۔ واپس آکر میری تقررّی یوکے کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں ہوئی۔ یہاں 1964ء میں جماعت قائم ہوئی۔ 1980ء میں وہاں ایک مکان بطور مشن ہاؤس و مسجد خریدا جاچکا تھا جسے قابل استعمال بنانے کے لیے مرمّت و تزئین کا کام کروانے کی توفیق بھی خاکسار کو ملی تھی۔ نئی تقرّری کے بعد خاکسار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے موجودہ مسجد دارالبرکات بنوانے کی توفیق ملی۔ یہ مسجد شہر کے وسط میں بہت اونچی جگہ پر واقع ہے۔ دوایکڑ وسیع رقبہ ہے۔ اس کی قیمت ایک ملین پاؤنڈ تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہمیں صرف دوصد پاؤنڈ میں مل گئی۔ بعد میں کافی خرچ کرکے اسے گنبد و مینار والی خوبصورت مسجد بنادیا گیا۔ شدید مخالفت کے باوجود خداتعالیٰ کا یہ معجزہ تھا کہ یہ جگہ ہمیں مل گئی۔ نیز یہ بھی احمدیت کی صداقت کا نشان تھا کہ خاکسار کے یوکے آنے سے قریباً چار ماہ قبل ایک روز الحاج حسن کنگولیلو صاحب نائب امیر تنزانیہ نماز ظہر کے لیے مسجد دارالسلام آئے تو اپنی ایک خواب سنائی جس میں کسی نے کہا کہ حضورانور نے مجھے کسی جگہ ایک بہت بڑی مسجد بنوانے کے لیے بھیجا ہے۔ پھر خواب میں آپ کو وہ زیرتعمیر مسجد بھی دکھائی گئی جس کی نگرانی مَیں کررہا تھا۔ بعد میں میری تبدیلی یوکے ہوگئی اور جب برمنگھم میں مسجد بن رہی تھی تو مکرم الحاج کنگولیلو صاحب جلسہ سالانہ یوکے کے لیے آئے اور میری دعوت پر چند دیگر دوستوں کے ساتھ برمنگھم آکر مسجد کو بھی دیکھا اور جنرل میٹنگ میں اپنی خواب بھی سنائی۔
مسجد دارالبرکات کی تعمیر کے حوالے سے ایک یہ نشان بھی ظاہر ہوا کہ یہ عمارت 1889ء میں بنی تھی۔ بعد میں سکول کے طور پر استعمال ہوتی رہی جو کئی سال پہلے بند کردیا گیا۔ اس حالت کافی خستہ تھی لیکن قوانین کے مطابق اس کے مالکان کو باہر سے اسے اسی طرح رکھنا ضروری تھا۔ ایک عمارت کا ایک حصہ چرچ نما تھا جس کے اوپر ایک کافی اونچا مینارہ تھا جیسا کہ چرچوں پر ہوتا ہے۔ کونسل کی شرط تھی کہ یہ مینارہ اسی طرح رکھنا ہے بلکہ اسے مرمّت کرکے ٹھیک کرنا ہے۔ جماعت نے مجبوراً یہ شرط مان لی لیکن دل میں یہ عجیب معلوم ہوتا تھا کہ اندر مسجد ہوگی اور باہر عیسائی طرز کا مینارہ ہوگا۔ بہرحال جب کونسل نے جماعت کے حق میں فیصلہ دے دیا تو عمارت ہمارے سپرد ہونے سے چند دن پہلے ایک رات شرارتی نوجوانوں نے عمارت کو آگ لگادی اور بھاگ گئے۔ فائربریگیڈ نے آگ بجھالی لیکن اس کے نتیجے میں مینارے کا اوپر والا حصہ گرگیا۔ چنانچہ کونسل نے مینارے کو برقرار رکھنے والی شرط ختم کردی بلکہ اجازت دے دی کہ مسجد کے نشان کے طور پر ایک گنبد اور ایک مینار بنالیا جائے۔ الحمدللہ۔ اس مسجد کی تکمیل پر ڈیڑھ ملین پاؤنڈ خرچ ہوا جس کا زیادہ تر حصہ مقامی جماعتوں نے ادا کیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ایک بار فرمایا تھا کہ اگر کسی رپورٹ میں بیعتوں کا ذکر نہ ہو تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ رپورٹ خالی ہے خواہ کتنی لمبی چوڑی رپورٹ ہے۔ خاکسار کے نام ایک خط میں فرمایا: وہ تبلیغ جس کا کچھ نتیجہ نہ ہو محض دکھلاوا ہوتا ہے۔ یہ پڑھ کر خاکسار کئی دن روکر دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمادے۔ ایک روز حضرت مسیح موعودؑ کی یہ تحریر نظر سے گزری کہ تم اپنی حالت پر خود رحم نہ کرو بلکہ اپنی حالت ایسی بناؤ کہ خدا کو تم پر رحم آجائے۔ اس پر خاکسار نے روزانہ سٹی سنٹر جاکر کھڑا ہونا شروع کیا ۔ ایک ہاتھ میں بڑا کارڈ پکڑ لیتا جس پر ’’اسلام‘‘ لکھا ہوتا اور دوسرے ہاتھ میںلٹریچر ہوتا۔ جب کوئی لٹریچر لینے آتا تو پوچھتا کہ اُسے اسلام میں دلچسپی کیسے پیدا ہوئی۔ اس طرح سلسلۂ گفتگو شروع ہوجاتا۔ ایک روز وہاں ایک عیسائی کا سٹال دیکھا تو پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ یہاں سٹال کے لیے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ خاکسار نے اگلے روز سے اپنا سٹال لگالیا اور پھر یوں لگتا تھا کہ اسلام کی دکان کھل گئی ہے۔ اللہ کے فضل سے داعیان کی ایک ٹیم مل گئی جن کی تربیت کے لیے ہفتہ وار کلاس بھی شروع کردی گئی۔ قریبی شہروں سے بھی خدام آنے لگے اور وہاں بھی سٹال لگنے شروع ہوگئے۔ بیعتیں بھی ہونا شروع ہوئیں اور مخالفت بھی ہونے لگی جس نے کھاد کا ہی کام کیا۔
سٹال پر کھڑے داعیان سے کہا جاتا کہ اپنا وقت استغفار اور دعا میں گزاریں۔ بہت رابطے ہونے لگے لیکن کبھی شرارتی لوگ بھی آجاتے۔ ایک روز پاکستانی برٹش لڑکوں کا ایک گروپ آیا اور کہا کہ تمہیں اسلام کی تبلیغ کا کوئی حق نہیں۔ ہماری کوئی بات سنے بغیر انہوں نے میز توڑ دی اور کتابیں زمین پر پھینک کر بھاگ گئے۔ دیکھنے والے انگریز حیران تھے کہ مسلمان ہی مسلمانوں کا سٹال گرا رہے ہیں۔ ہم نے فساد سے بچنے کے لیے اگلے دن جگہ بدل کر سٹال لگانا شروع کردیا۔
ریلوے سٹیشن کے قریب ہم سٹال لگایا کرتے تھے جہاں ایک بار دس پندرہ پاکستانی لڑکوں کا گروپ آیا اور ہمیں تبلیغ سے منع کیا۔ ہم نے کہا کہ اگر تم صحیح اسلام کی تعلیم پیش کرسکتے ہو تو تم بھی سٹال لگایا کرو۔ لیکن وہ کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے اور بحث کے بعد بلند آواز سے کافر کافر کہنا شروع کردیا۔ جواب میں ہم نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا۔ کچھ دیر بعد اُن میں سے کسی نے کہا کہ اس طرح تو لوگ انہیں ہی مسلمان اور ٹھیک سمجھیں گے۔ پھر وہ چلے گئے۔ بعد میں بھی چند بار مختلف دنوں میں وہی لڑکے آئے اور کافر کافر کا شور مچایا۔ جواب میں ہم نے کلمہ طیبہ کا بلند آواز سے ورد کیا تو وہ کچھ دیر کے بعد چلے جاتے رہے۔ کبھی دھمکیاں بھی دیتے۔ ایک بار ایک افریقن بھی سٹال پر آیا اور دھمکیاں دیں۔ ایک بار ایک پاکستانی لڑکا حملہ کرنے کی نیت سے مشن ہاؤس آکر پچھلے باغیچے میں چھپ گیا کہ مکرم آدم چغتائی صاحب نے اسے دیکھ لیا اور پولیس کو فون کردیا۔ وہ بھاگ کر کار میں بیٹھا لیکن پولیس نے اُسے جالیا اور تنبیہ کی۔ دوبارہ وہ نظر نہیں آیا۔ بہرحال کئی واقعات ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ غیب سے ہماری مدد کی۔ ہم سٹال لگانے سے پہلے ہمیشہ صدقہ دیتے اور حضورانور کو دعا کا خط لکھتے تھے۔ 1997ء میں ہمارے ریجن کا ٹارگٹ ستر تھا۔ آخری ماہ میں سولہ البانیین لوگوں نے ایک ساتھ بیعت کی تو ہمارا ٹارگٹ پورا ہوگیا۔ حضورانورؒ نے اس کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا۔
حضورانورؒ نے مکرم امیر صاحب یوکے کو یہ ارشاد بھی فرمایا کہ کامیاب داعیان الی اللہ کو نیشنل عاملہ میں بلاکر اُن سے گائیڈ لائن لیں۔ چنانچہ ہماری ٹیم لندن آکر اس ہدایت کے مطابق عمل کرتی رہی۔ اسی حوالے سے ایک کتابچہ بھی تیار کیا گیا جس میں کامیاب دعوت الی اللہ کے تیرہ نکات پہلی بار مرتّب کیے گئے۔ اکتوبر 1998ء میں خاکسار کو مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب امیر یوکے نے اطلاع دی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے خاکسار کو ریجنل مشنری کے ساتھ ساتھ نیشنل سیکرٹری تبلیغ یوکے بھی مقرر فرمایا ہے۔
خاکسار نے تبلیغی سٹال لگانے کے علاوہ برمنگھم میں ٹریننگ کلاسز کا اہتمام بھی کیا جن میں یوکے بھر سے خدام ذوق و شوق سے شریک ہوتے اور بعض کئی کئی ہفتے قیام کرتے۔ ان کو لیکچر بھی دیے جاتے اور سٹال پر کھڑے ہوکر داعی الی اللہ بننے کی عملی تربیت بھی دی جاتی۔ اس کے نتیجے میں کثرت سے داعیان الی اللہ تیار ہوئے اور ہر سال سینکڑوں بیعتیں ہونے لگیں۔ 2001ء میں پہلی نیشنل داعیین الی اللہ کانفرنس بھی مسجد دارالبرکات برمنگھم میں منعقد کی گئی جس میں تین سو داعیین الی اللہ شریک ہوئے۔
ایک روز ہمارے سٹال پر ایک صومالین دوست آیا اور معلومات حاصل کیں۔ ہمای درخواست پر اپنا ایڈریس بھی دیا تاکہ ہم اُس سے بعد میں بھی مل سکیں۔ جب ہم نے اُس سے ملاقات کی تو اُس نے بتایا کہ وہ احمدیت کو بالکل نہیں جانتا تھا لیکن جب اُس نے پہلی بار ہمارے سٹال پر نظر ڈالی تو اُسے ہمارے چہروں پر نُور نظر آیا اور اُس کے دل نے گواہی دی کہ ہم سچے لوگ ہیں چنانچہ ذہنی طور پر اُس نے اُسی روز احمدیت قبول کرلی تھی۔ پھر اُس نے بیعت کرلی۔ چند روز بعد ہمارے سٹال پر چند پاکستانی غیراحمدی لڑکے آئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے لگے۔ اتنے میں کہیں سے وہ صومالی بھی وہاں آگیا اور اُس نے لڑکوں کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے حضرت اقدسؑ کو گالی دی تو وہ اُنہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ہم نے صومالی کو کہا کہ ہم نے لڑائی نہیں کرنی، ہم تو دعا اور صبر کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن صومالی کی ابھی پوری تربیت نہیں ہوئی تھی، اُس نے لڑکوں سے کہا کہ مَیں بھی احمدی ہوں اگر تم نے لڑنا ہے تو آجاؤ میرے ساتھ لڑو۔ وہ کافی مضبوط تھا اس لیے لڑکے خاموشی سے وہاں سے چلے گئے۔
اللہ تعالیٰ بعض اوقات قبل از وقت خوابوں کے ذریعے بھی ہمارے حوصلے بڑھاتا۔ اُن دنوں داعین الی اللہ جمعے کی رات برمنگھم مسجد میں آجاتے۔ اگلی صبح نمازتہجد، فجرباجماعت اور درس قرآن کے بعد اکٹھے ناشتہ کرتے۔ پھر صدقہ دیتے اور حضورانور کی خدمت میں خط لکھ کر ہفتے کا سارا دن تبلیغ میں گزارتے۔ اُن کے دو گروپ بن جاتے۔ ایک تبلیغی سٹال لگاتا اور دوسرا گروپ تبلیغی مجالس کرنے جاتا۔ ایک صبح ایک داعی الی اللہ نے بتایا کہ اُسے خواب میں کسی نے چار آم دیے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ آم پھل ہے اور تبلیغ کا پھل تو بیعت ہی ہے۔ پھر وہ ایک اَور دوست کے ساتھ پرانے رابطوں سے اپائنٹمنٹ بناکر اجتماعی دعا کرکے نکل گئے۔ کئی تبلیغی مجالس کرکے رات کو بہت خوشی کے ساتھ واپس آئے اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے چار بیعت فارم جمع کروائے۔
مسجد دارالبرکات کی عمارت جب پہلی بار احمدیوں کو اجتماعی طور پر دیکھنے کی اجازت ملی تو وہ دن ہمارے لیے عید کا دن تھا۔ طارق چودھری صاحب اپنے ساتھ ایک زیرتبلیغ ایتھوپین دوست حسن صاحب کو بھی لے آئے۔ وہاں اُن سے تبلیغی گفتگو ہوتی رہی تو انہوں نے خوشی سے بیعت کرلی بلکہ یہ بھی کہا کہ مسجد دارالبرکات کی تعمیر کے لمبے عرصے کے دوران وہ بلامعاوضہ سیکیورٹی کی خدمت کے لیے وقف کرتے ہیں اور صرف ویک اینڈ پر کام کرکے اپنا گزارہ کرلیا کریں گے۔ وہ کار مکینک تھے۔ اُن کی خواہش کے مطابق جب اجازت دے دی گئی تو انہوں نے یہ سعادت بڑے اخلاص سے دو سال تک سرانجام دی۔ مسجد تیار ہونے پر وہ ہماری مسجد کے پہلے مؤذن بھی بن گئے۔ انہیں بتایا گیا کہ ہمیں اس لحاظ سے بھی خوشی تھی کہ اُن کا تعلق بھی اُسی ملک سے تھا جس ملک سے مسجد نبویؐ کے پہلے مؤذن حضرت بلالؓ کا تعلق تھا۔
جب خاکسار نیشنل سیکرٹری تبلیغ تھا تو بیعتوں کا ماہوار ٹارگٹ مقرر کیا جاتا۔ ایک بار مہینے کا آخری دن آگیا لیکن چودہ بیعتوں کی کمی تھی۔ بہت بےچینی تھی کہ یقیناً ہماری کوشش اور دعا میں کمی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ پھر عشاء کی نماز کے بعد حضورانورؒ کی خدمت میں دعا کا خط لکھا اور حدیث مبارکہ دُعَاء اَطْفَال اُمَّتِیْ مُسْتَجَابٌ (کہ میری اُمّت کے بچوں کی دعا خاص طور پر مقبول ہوتی ہے) خاکسار نے اپنی اہلیہ اور بچیوں کو ساتھ لے کر انہیں اپنی پریشانی سے آگاہ کرکے اور حدیث سناکر اجتماعی دعا کروائی۔ اگلی صبح جب ہم اٹھے تو فیکس مشین میں مختلف جماعتوں کی طرف بھجوائے گئے چند بیعت فارم آئے ہوئے تھے۔ جب انہیں گنا گیا تو خداتعالیٰ کے فضل سے پورے چودہ نکلے۔ الحمدللہ
مرکزی ہدایت کے مطابق خاکسار کو دو سال تک بطور اناؤنسر ہر سوموار کو برمنگھم سے لندن آکر ایم ٹی اے میں بطور اناؤنسر بھی خدمت سرانجام دینے کی توفیق ملتی رہی۔ اسی طرح میری بچیوں کو حضورانورؒ کی اردو کلاس میں شامل ہونے اور نظمیں پڑھنے کی توفیق بھی ملتی رہی۔ حضورؒ نے خود بچیوں کو نظمیں پڑھنا سکھایا۔ اس طرح ساری دنیا خاکسار کی بیٹی وجیہہ باجوہ سے تو خاص طور پر متعارف ہوگئی۔ حضورؒ نے خاکسار کی درخواست پر ایم ٹی اے کے لیے وجیہہ کا وقف بھی منظور فرمالیا۔ بعد میں وجیہہ کی شادی حضورؒ نے عزیزم وقاراحمدی سے کروادی جو خود بھی وقف ہیں۔ دونوں میاں بیوی ٹیچر ہیں اور عزیزم وقار کو غیراحمدیوں کی مخالفت کے باوجود آکسفورڈ پریس کے تحت GCSE کے لیے چار کتب لکھنے کی توفیق بھی مل چکی ہے۔ الحمدللہ
قرآن کریم اور احادیث میں سچ بولنے کی بہت ہدایت کی گئی ہے۔ عام حالات میں تو انسان سچ ہی بولتا ہے لیکن جب کسی نقصان کا خطرہ ہو یا کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہو تو سوائے اللہ کے فضل کے انسان کو بدی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ ایک بار خاکسار ایک دوست کے ساتھ برمنگھم سے لندن آرہا تھا کہ مجھے نیند محسوس ہوئی۔ مَیں نے اپنے دوست کو کہا کہ گاڑی وہ چلالے۔ جب ہم لندن پہنچے تو کسی انگریز نے ہماری گاڑی کو ٹکر ماردی اور بھاگ گیا۔ قصور اُس کا ہی تھا لیکن ہمیں اُس کی گاڑی کا نمبر وغیرہ معلوم نہ ہوسکا اس لیے ہم نے کوئی کارروائی نہ کی۔ چند دن بعد پولیس کی طرف سے ہمیں خط ملا جس کے سوال نامہ میں یہ بھی درج تھا کہ گاڑی کون چلا رہا تھا۔ لیکن میری گاڑی چلانے والے کسی دوسری گاڑی پر بطور ڈرائیور انشورڈ تھے اس لیے میری گاڑی قانوناً نہیں چلاسکتے تھے۔ قانوناً خاکسار کو اس غلطی پر جرمانہ بھی ہونا تھا اور چھ پوائنٹس بھی لگنے تھے۔ چونکہ میرے پہلے بھی چھ پوائنٹس تھے چنانچہ بارہ پوائنٹس ہونے کے بعد ڈرائیونگ پر پابندی بھی لگ جانی تھی۔ بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ اگر مَیں یہ لکھ دوں کہ گاڑی مَیں خود چلا رہا تھا تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ قصور دوسرے ڈرائیور کا ہی ہے۔ لیکن خاکسار نے کہا کہ یہی تو امتحان ہے اس لیے خاکسار جھوٹ نہیں بولے گا۔ چنانچہ خاکسار نے ایک رات عدالت کو خط میں سچ لکھ دیا اور اگلی صبح پوسٹ کرنے کا ارادہ کرکے دعا کی۔ رات کو خواب دیکھا کہ ایک حادثے میں عبدالحق نامی کسی شخص کا بازو ٹوٹ گیا ہے۔ خواب کی تعبیر واضح تھی اس لیے خاکسار نے خط ضائع کردیا اور خود مقررہ تاریخ کو عدالت میں حاضر ہوگیا۔ چونکہ فیصلہ کے بعد ڈرائیونگ پر پابندی لگ جانی تھی اس لیے ایک دوست کی کار میں گیا۔ مجسٹریٹ کے پوچھنے پر کہ کیا آپ کو پتہ تھا کہ ڈرائیور آپ کی کار نہیں چلاسکتاَ؟ مَیں نے کہا کہ یہ کبھی بات تو نہیں ہوئی، مَیں یہی سمجھتا تھا کہ جیسے وہ اپنی کار چلاتا ہے ایسے ہی وہ میری کار بھی چلاسکتا ہے۔ مَیں نے یہ بھی کہا کہ مجھے مشورہ دیا گیا تھا کہ اگر مَیں لکھ دوں کہ مَیں خود کار چلا رہا تھا تو مجھ پر کوئی الزام نہیں ہوگا لیکن چونکہ مَیں خود ایک مذہبی آدمی ہوں اور لوگوں کو سچ کی تلقین کرتا ہوں اس لیے میرے ضمیر نے اجازت نہیں دی کہ جھوٹ بولوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مجسٹریٹ کے دل پر بڑا گہرا اثر ڈالا اور اُس نے کہا کہ قانونی طور پر وہ میرے بارہ پوائنٹس کو تو کم نہیں کرسکتا لیکن یہ اجازت دے سکتا ہے بعض خصوصی حالات کی وجہ سے مجھے کار چلا نے کی اجازت حاصل ہوگی۔ چنانچہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس آئے۔
ایک بار خاکسار کی بیٹی کوٹ خریدنے میرے ساتھ بازار گئی تو کئی دکانیں دیکھنے اور بہت وقت صرف کرنے کے بعد اُس قسم کا کوٹ ایک دکان پر نظر آگیا جس طرح کا اُسے چاہیے تھا لیکن قیمت دیکھ کر اُس نے خریدنے سے انکار کردیا۔ مَیں نے کہا بھی کہ اتنی محنت کرنے اور وقت لگانے کے بعد یہ کوٹ مل گیا ہے تو اس کے خریدنے پر مجھے انقباض نہیں ہے لیکن وہ راضی نہ ہوئی اور ہم بدمزگی کی کیفیت میں واپس پہنچے۔ گھر پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ ہم نے بازار جاتے ہوئے آنحضورﷺ کی دعا اللّٰھُمّ انِّی اَعُوذُبِکَ مِن صَفْقَۃٍ خَاسِرَۃٍ (اے اللہ! مَیں خسارے کے سودے سے تیری پناہ مانگتا ہوں) نہیں پڑھی تھی۔ خاکسار نے اپنی فیملی کے ساتھ اپنے خیال کا ذکر کیا اور پھر دعا پڑھ کر ہم سب بازار گئے۔ بازار میں داخل ہوتے ہی سامنے کی دکان پر ویسا ہی کوٹ لگا ہوا تھا اور اس کی قیمت بھی نسبتاً کافی کم تھی۔ ہم نے رقم ادا کی اور خدا کا شکر کرتے ہوئے کوٹ لے آئے۔
ایسا ہی قبولیتِ دعا کا ایک واقعہ یہ ہوا کہ ایک سفر کے دوران جب میری کار کا انجن اچانک تیل ختم ہوجانے کی وجہ سے ناکارہ ہوگیا تو مَیں نے اپنے ساتھی داعی الی اللہ کاشف صاحب سے کہا کہ قرآنی حکم کے مطابق اس نقصان پر ہم انّاللّٰہ وَانّاالیہ راجعون کا ورد کرتے ہیں۔ جب ہم برمنگھم مسجد پہنچے تو ہمیں ایتھوپین نومبائع کیئرٹیکر حسن صاحب ملے۔ مَیں نے اُن کو بھی تفصیل بتاکر کہا کہ آپ بھی یہ دعا پڑھیں تاکہ ہم سب نشان دیکھیں جو ہمارے ایمان میں اضافے کا بھی موجب ہو۔ اگلے دن خاکسار نے دورے پر سٹیونیج جانا تھا۔ میری درخواست پر کاشف صاحب مجھے اپنی کار میں وہاں لے گئے تو وہاں کے صدر یونس صاحب سے ذکر کیا کہ مَیں کوئی کار خریدنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے گھر کے باہر کھڑی ہوئی ایک کار دکھائی اور بتایا کہ اس کی قیمت دو ہزار ہے۔ مَیں نے کہا کہ میرا بجٹ ڈیڑھ ہزار ہے اس لیے اس کو نہیں لے سکتا۔ وہ کہنے لگے کہ آپ اس کو چلائیں اگر پسند آئے تو ڈیڑھ ہزار دے دیں ورنہ واپس کردیں۔ چنانچہ مَیں نے وہیں انشورنس کروائی اور کار برمنگھم لے آیا جہاں حسن صاحب کو بھی دکھائی۔ وہ چونکہ خود بھی کار مکینک تھے اس لیے کہنے لگے کہ بہت اچھی کار ہے اور اس کی قیمت دو ہزار سے کم نہیں ہے۔ مَیں نے بتایا کہ مجھے ڈیڑھ ہزار میں مل رہی ہے تو کہنے لگے کہ فوراً لے لیں۔ سو الحمدللہ یہ نشان ہم تینوں نے دیکھا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جب خطبہ جمعہ میں اپنے خاندانوں کے بزرگوں کی یادوں کو بیان کرتے چلے جانے کا ارشاد فرمایا تو مَیں نے اجلاسات میں بچوں سے اُن کے خاندان کے بزرگوں کے بارے میں مضامین پڑھوانے شروع کیے۔ بچوں پر اس کا بہت اچھا اثر ہوا۔ نیز خاکسار نے اپنے ناناجان حضرت چودھری حاکم علی صاحب پنیارؓ کے حالات زندگی شائع کروائے۔ یہ حالات زندگی خاکسار نے اپنے جامعہ کے مقالے کے لیے جمع کیے تھے۔ خاکسار کے سسر مکرم مولانا محمد سعید انصاری صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا و سنگاپور نے مقالے کو کتابی صورت میں ٹائپ کرکے بھجوادیا جسے رقیم پریس سے جولائی 1995ء میں طبع کروایا گیا۔ بعد میں مکرم اکرام ڈار صاحب صدر جماعت کارڈف نے اور پھر مکرم چودھری انور احمد کاہلوں صاحب نے ازخود اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ بھی کردیا جسے 2020ء میں شائع کروادیا۔
برمنگھم مسجد کے قریب بہت کم احمدی گھرانے آباد تھے۔ بعض اوقات فجر یا کسی دوسری نماز کے وقت کوئی نمازی بھی مسجد نہ آسکتا۔ ایک خطبہ جمعہ میں خاکسار نے یہ افسوسناک پہلو بیان کیا تو نماز کے بعد ایک دوست نسیم شاہ صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ ڈنکاسٹر میں رہتے ہیں لیکن اگر مسجد کے کونے میں انہیں رہنے کی اجازت دے دیں تو وہ خود کو وقف کرسکتے ہیں۔ وہ خود احمدی ہوئے تھے اس لیے تبلیغی مسائل سے اچھی طرح واقف تھے، انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ بہت عاجز مزاج اور خلافت سے گہری محبت کرنے والے تھے۔ وہ قریباً دو سال ہمارے پاس مسجد میں رہے اور خاکسار کے تبلیغی کاموں میں بہت مدد کرتے۔ باقاعدہ اذان دیتے اور ہر خدمت کے لیے تیار رہتے۔ بہت دعاگو بھی تھے۔ اُن کے ذریعے اُن کے دو بھائیوں نے بھی بیعت کرلی۔ اپریل 2020ء میں اُن کی وفات ہوئی۔
خاکسار جب 1982ء میں برمنگھم کے پرانے مشن ہاؤس کی مرمت و تزئین کے لیے وہاں گیا تو مکرم ڈاکٹر سرفرازعلی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ آپ میڈیکل ڈاکٹر تھے لیکن اپنے کام سے فارغ ہوکر روزانہ مسجد آکر میرے کاموں میں مدد کرتے۔ اُس وقت خاکسار کے پاس کار نہ تھی۔ اُن کی کار مختلف سامانِ عمارت لانے کے لیے بھی وقف تھی۔ مسجد کی مرمّت کے لیے چندے یا وقارعمل کی ضرورت ہوتی تو دونوں طرح سے وہ مدد کرتے۔ بہرحال قابل رشک آدمی تھے۔ جب 1992ء میں دوسری دفعہ خاکسار کی تقرری برمنگھم میں ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کافی بیمار تھے اور زیادہ مسجد نہیں آسکتے تھے۔ بعد میں اُنہیں مسلسل ہچکی کی تکلیف ہوگئی تو وہ ہسپتال کے Intensive Care میں داخل ہوئے۔ مجھے علم ہوا تو مَیں ایک دوست کے ساتھ وہاں پہنچا۔ ہچکیاں مسلسل آرہی تھیں اور اس وجہ سے پیٹ میں درد بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دعا کریں۔ اُن کی حالت کو دیکھ کر دل میں بہت درد پیدا ہوا۔ خاکسار نے کہا کہ آئیے سب مل کر دعا کرتے ہیں۔ مجھے کرائیڈن کے اُس نوجوان کا واقعہ یاد آرہا تھا جسے اسی حالت میں محض اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ ایک لمبی دعا کی حتّٰی کہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کے خراٹوں کی آواز آنے لگی۔ جونہی اُن کی ہچکی بند ہوئی وہ بلااختیار گہری نیند میں چلے گئے۔ ان دعاؤں کی قبولیت کی برکت دراصل خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں کیونکہ خاکسار باقاعدگی سے حضورانور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھتا ہے۔ حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے بھی ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ کسی کام کے لیے دعا کررہے تھے لیکن کافی عرصہ دعا کرنے کے باوجود وہ کام نہ ہوا۔ آخر انہیں الہام ہوا کہ خلیفہ وقت کو دعا کے لیے لکھو۔ چنانچہ اس پر عمل کیا اور وہ کام ہوگیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے برمنگھم شہر کو کئی بار تشریف لاکر برکت بخشی ۔ خاکسار کی وہاں موجودگی میں حضورؒ تین بار تشریف لائے۔ پہلی بار 1982ء میں برمنگھم مشن ہاؤس کا افتتاح فرمانے کے لیے۔ اس موقع پر Thisle Hotel میں ایک مجلس سوال و جواب بھی منعقد ہوئی جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ 80؍انگریز مہمان مدعو تھے۔ ایک تقریب ایک سکول میں منعقد ہوئی جس میں احباب جماعت سے خطاب فرمایا۔
حضورانورؒ دوسری دفعہ 1994ء یا 1995ء میں برمنگھم تشریف لائے جب ایک باسکٹ بال ٹورنامنٹ منعقد کیا گیا جس میں نومبائعین پر مشتمل بوزنین اور البانین ٹیموں نے بھی حصہ لیا۔ اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے حضورؒ تشریف لائے۔
تیسری دفعہ حضورانورؒ 1996ء میں اُس وقت تشریف لائے جب دارالبرکات مسجد کی موجودہ جگہ کی خرید زیرغور تھی۔ اُس روز ایک مجلس سوال و جواب بھی رکھی گئی تھی جس میں قریباً ایک صد معزز مہمان شامل ہوئے جن میں اکثریت انگریزوں کی تھی۔ تقریب کے بعد چوبیس نومبائعین نے حضورانور کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت پائی۔
خاکسار اور خاکسار کی اہلیہ رشیقہ باجوہ صاحبہ کی تین بیٹیاں ہیں اور تینوں کو ہم نے پیدائش سے پہلے ہی وقف کردیا تھا جبکہ وقف نَو کی سکیم ان کی پیدائش کے بعد شروع ہوئی۔ تینوں بیٹیوں کو پنجوقتہ نماز کی پابندی کے ساتھ شرائط بیعت اور دیگر امور سکھانے کے علاوہ دعائے استخارہ بھی سکھائی اور کہا کہ روزانہ دو نفل میں یہ دعا پڑھ کر اپنے اچھے نصیب کے لیے دعا کیا کریں۔ سب بچیوں نے شادی سے پہلے وصیت بھی کی اور پندرہ سال عمر ہونے پر تجدید وقف کے لیے خلیفہ وقت کی خدمت میں تحریر کیا۔ بڑی بیٹی عطیہ کے لکھنے پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے وقف منظور فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کے ساتھ تبلیغ میں مدد کیا کریں۔ چنانچہ تب سے وہ انگریزی پمفلٹس اور کتب کی تیاری میں میری مدد کررہی ہے۔ حضورؒ کی منظوری سے اُس کا رشتہ بھی 1999ء میں میرے بھانجے عزیزم عمران الدین سے طے ہوا تو حضورؒ نے ازراہ شفقت نکاح کا اعلان بھی فرمایا۔
عزیزہ عطیہ کی شادی کے کافی دیر تک اولاد نہیں ہوئی۔ ایک روز خاکسار نے اپنی بیٹی کو اس پہلو سے مغموم دیکھا تو ہم سب گھر والوں نے مل کر لمبی دعا کی اور کچھ دنوں کے بعد خاکسار نے خواب میں عزیزہ عطیہ کے چار بچے دیکھے۔ اسی وقت سب کو بتادیا۔ الحمدللہ اب عزیزہ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو سب وقف نو کی سکیم میں شامل ہیں۔
1984ء میں خلافت احمدیہ کو پاکستان سے ہجرت کرکے لندن آنا پڑا۔ اس سے قبل یورپ میں اسلام کے حق یا مخالفت میں کوئی قابل ذکر بات نہیں ہوتی تھی لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد گویا دعوت الی اللہ میں انقلاب آگیا۔ اسلام کے خلاف حسد نے جہاں سلمان رشدی سے کتاب لکھوائی وہاں اسلام کے حق میں بھی کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ مثلاً 1997ء میں ڈرہم کے بشپ نے اعلان کیا کہ وہ عیسائیت کے چالیس خصوصی ایّام (Lent) کے دوران بائبل کی بجائے قرآن کریم کا مکمل مطالعہ کریں گے۔ اسی طرح اخبار میں شائع ہوا کہ گزشتہ چند سالوں میں بیس ہزار برطانوی عورتوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان میں سے چند کے انٹرویو بھی ’’دی ٹائمز‘‘ نے شائع کیے۔ ان عورتوں نے بتایا کہ اسلام کا مطالعہ کرکے ہمیں معلوم ہوا کہ عورت کو جس قدر حقوق اسلام دیتا ہے اَور کوئی مذہب نہیں دیتا۔
امریکہ سے ہزاروں خواتین کے اسلام قبول کرنے کی خبر بھی اخبارات میں شائع ہوئی۔ یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ ڈنمارک میں قرآن کریم کی فروخت اتنی بڑھ گئی ہے کہ مارکیٹ میں مزید دستیاب نہیں ہیں۔ 1991ء میں ملکہ برطانیہ کے ذاتی ڈاکٹر نے ایک مضمون لکھا کہ بائبل کو ڈاکٹری نقطہ نگاہ سے پڑھ کر مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حضرت عیسیٰؑ کو صلیب سے زندہ اتارا گیا تھا۔ اسی طرح کی کئی خبریں شائع ہونے لگیں۔

ساؤتھ ہال مشن ہاؤس کو تین خلفاء نے برکت بخشی ہے۔ 1980ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مسجد دارالسلام ساؤتھ ہال کا افتتاح فرمایا تھا۔ 1982ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ وہاں تشریف لائے، مسجد کا معائنہ فرمایا اور ایک تقریب سے خطاب فرمایا۔ دونوں مواقع پر خاکسار وہاں متعیّن تھا۔ 18؍اکتوبر2017ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد دارالسلام کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا اور 23؍فروری2020ء کو افتتاح بھی فرمایا۔ یہ مسجد ڈیڑھ ملین پاؤنڈ کی لاگت سے تعمیر ہوئی ہے جس میں سات سو نمازی آسکتے ہیں۔ اس موقع پر ایک پُروقار تقریب میں دو صد مہمان بھی شامل ہوئے۔
2001ء میں خاکسار کی تقرری بریڈفورڈ میں ہوئی جہاں پاکستانی اتنی کثرت سے آباد ہیں کہ یہ Little Pakistan کہلاتا ہے۔ اندازہ ہے کہ یہاں چھوٹی بڑی 103؍مساجد ہیں اور 22 مدرسے بھی ہیں۔ 1962ء میں لندن سے باہر یہاں پہلی جماعت قائم ہوئی۔ اُس وقت محترم چودھری رحمت خان صاحب امام مسجد لندن بریڈفورڈ تشریف لائے۔ تب یہاں پندرہ احمدی گھرانے تھے۔ 1969ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے یہاں کا دورہ فرمایا۔ 1975ء میں مکرم مولانا امین اللہ خان سالک صاحب پہلے مبلغ تعینات ہوئے۔ 1980ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مسجد بیت الحمد واقع لیڈز روڈ کا افتتاح فرمایا۔
1945ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے رؤیا میں ایک ہوائی جہاز میں سفر کیا جو لندن سے گلاسگو پہنچا لیکن درمیان میں ایک اَور مقام پر بھی ٹھہرا جو گلاسگو سے دو سو میل جنوب میں واقع ہے۔ حضورؓ کی رؤیا کے مطابق 1949ء میں گلاسگو میں احمدیہ مشن جاری ہوا اور پھر بریڈفورڈ میں جماعت قائم ہوئی جو گلاسگو سے دو سو میل جنوب کی طرف واقع ہے۔ اس وقت بریڈفورڈ میں دو احمدیہ مساجد ہیں جبکہ قریبی علاقوں میں متعدد جماعتیں قائم ہوچکی ہیں اور خوبصورت مساجد تعمیر ہوچکی ہیں۔ ایک نیک طبع انسان کے لیے سچائی پہچاننے کے لیے یہی بات کافی ہے۔
بریڈفورڈ پہنچ کر خاکسار نے داعیین الی اللہ کی ایک مستعد ٹیم تیار کی اور قریبی قصبوں میں بھی تبلیغی سٹال لگانے شروع کیے۔ 93؍لائبریریوں میں نمائشوں کا اہتمام کیا جن میں کئی دُوردراز کے علاقے بھی شامل تھے اور لائبریریوں کو اسلامی کتب کا قیمتی سیٹ بھی تحفۃً دیا جاتا۔ Selby کے قصبہ میں ہمارے سٹال پر ایک انگریز نے آکر بتایا کہ وہ MTA دیکھتے ہیں اور ہماری پُرامن تعلیم سے بہت متأثر ہیں۔ Shipleyمیں ایک پاکستانی دوست سٹال پر آئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ باباجی اسلام کی بہت خدمت کررہے ہیں۔ پھر بتایا کہ مَیں MTA باقاعدہ دیکھتا ہوں اور دل میں تو احمدی ہی ہوں۔
بریڈفورڈ یونیورسٹی کے Dr. Simon Ross Valentine نے اُنہی دنوں ایک کتاب “Islam & Ahmadiyya Jamaat” لکھی جس میں ہمارے تبلیغی سٹالز کا بھی ذکر کیا۔ 40؍سے زیادہ اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئیں۔ اس علاقے میں لوگوں کی اسلام میں دلچسپی اتنی تھی کہ کئی لائبریریوں میں ہمارے رکھوائے گئے پمفلٹس ختم ہوگئے۔ایک جگہ کسی نے ایک کاغذ پر ہاتھ کی شکل بناکر انگلی کا اشارہ حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر کی طرف کیا ہوا تھا اور ساتھ لکھا تھا: اس شخص کو غور سے دیکھو۔ ایک جگہ ایک ٹیچر ملے جنہوں نے بتایا کہ مَیں نے لٹریچر پڑھا تو اس کا اتنا مزہ آیا کہ جاکر اپنی کلاس میں طلبہ کو کچھ حصے پڑھ کر سنائے اور بتایا کہ اسلام صرف وہ نہیں جو آپ میڈیا پر سنتے ہیں بلکہ یہ بھی ایک اسلام ہے جو امن، محبت اور حکمت والا ہے۔
خاکسار بریڈفورڈ میں متعیّن تھا جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات ہوئی۔ یوکے سے پانچ مبلغین کو انتخاب خلافت کمیٹی کا ممبر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی جن میں خاکسار بھی شامل تھا۔ خلافت احمدیہ کا قیام اور تسلسل بھی احمدیت کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے۔
خلافت کے قیام اور خلیفۂ وقت کی اطاعت سے متعلق بےشمار ارشادات ملتے ہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تم دیکھ لو کہ اللہ کا خلیفہ زمین میں موجود ہے تو اُس سے وابستہ ہوجاؤ اگرچہ تمہارا بدن تارتار کردیا جائے اور تمہارا مال لُوٹ لیا جائے۔ (مسند احمد بن حنبل)۔ اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد۔ جو لفظ خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کیے بغیر نہیں چھوڑنا۔‘‘ (الفضل قادیان2؍مارچ1946ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہ نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘ (الفضل ربوہ 30؍مئی2003ء)
بریڈفورڈ میں تقرّری کے بعد خاکسار کی بڑی کوشش یہی تھی کہ جماعت خلیفۂ وقت کے ارشادات پر لبیک کہنے کی سعادت پائے۔ چنانچہ نمازوں کی ادائیگی اور قرآن کی تلاوت میں بیداری کے علاوہ تبلیغی امور میں بھی کئی کام ہوئے۔ حضورؒ کے ارشاد کے ماتحت 38 بڑے ہوٹلوں میں قرآن کریم باترجمہ اور دیگر لٹریچر تحفۃً دیا گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آغاز خلافت سے ہی لندن میں امن کانفرنس کا آغاز فرمادیا تھا۔ اسی حوالے سے بریڈفورڈ، شیفیلڈ، سکنتھورپ وغیرہ میں امن کانفرنسوں کا انعقاد کیا جانے لگا جن میں وزراء اور ممبران پارلیمنٹ، کونسلرز اور پروفیسرز، ججز، وکلاء، پولیس اور میڈیا کے نمائندگان وغیرہ شریک ہوتے جن کی مجموعی تعداد اکثر پانچ صد سے بھی زائد ہوجاتی۔ مہمانوں کو قرآن کریم باترجمہ کا نسخہ بھی پیش کیا جاتا۔ جرمنی میں ایک دفعہ ایک میئر کی بیٹی احمدی مسلمان ہوگئی۔ اُس نے بتایا کہ اُس کے والد کو جماعت احمدیہ نے قرآن کریم تحفۃً دیا تھا جسے اُس لڑکی نے پڑھا اور اسلام قبول کرلیا۔
ہم نے سکولوں سے بھی رابطہ کیا اور اسلامی لٹریچر کی پیشکش کی نیز انہیں گروپس کی صورت میں مسجد آنے کی دعوت دی اور اسلام کے بارے میں لیکچرز اور سوال و جواب کی مجالس کے لیے اپنی خدمات بھی پیش کیں۔ ہم سکولوں میں کتب کا سٹال بھی لگاتے۔ ایک بار ایک تیرہ سالہ لڑکا سٹال پر آکر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی کتاب Revelation, Rationality, Knowledge and Truth کی طرف اشارہ کرکے بتانے لگا کہ اُس نے یہ کتاب پڑھی ہوئی ہے۔ پوچھا کہاں سے لی؟ تو اُس نے بتایا کہ ہمارے سکول کی لائبریری میں یہ کتاب موجود ہے۔ اتنی چھوٹی عمر کے بچے کا اتنی ضخیم اور مشکل مضامین والی کتاب کا مطالعہ ہمارے لیے باعثِ حیرت تھا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ ’’جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔‘‘ (ملفوظات جلدہفتم صفحہ119)۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں یوکے جماعت کو پچیس مساجد بنانے کا ٹارگٹ دیا تھا۔ اس کے مطابق اب تک بفضلہ تعالیٰ کُل 42؍مساجد اور مراکز بن چکے ہیں۔ خاکسار نے بریڈفورڈ میں اس حوالے سے بھی جماعت کو باربار توجہ دلائی چنانچہ احباب نے مسجد فنڈ میں فراخ دلی سے رقوم ادا کیں اور 2008ء میں مسجدالمہدی اڑہائی ملین پاؤنڈ کے خرچ سے تیار ہوگئی۔ اس میں دو ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 12؍اکتوبر2004ء کو اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور 7؍نومبر2008ء کو اس کا افتتاح فرمایا۔ اسی طرح شیفیلڈ میں جماعت تو تھی لیکن مسجد کوئی نہیں تھی۔ وہاں کی جماعت کو بھی فعال کیا تو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر ایک موزوں عمارت عطا فرمادی اور مسجد بیت العافیت تیار ہونے کے بعد 8؍نومبر 2008ء کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کا افتتاح فرمایا۔ یہ عمارت نیلامی میں خریدی گئی تھی۔ نیلامی میں احمدی دوستوں کے ساتھ ایک غیرازجماعت دوست بھی گئے تھے جنہوں نے ایک رات پہلے خواب دیکھا تھا کہ نیلامی میں مطلوبہ رقم کوئی نہیں دے گا اور بعد میں جماعت احمدیہ کے نمائندے مالکان سے علیحدگی میں مل کر یہ جگہ لے لیں گے۔ چنانچہ بعینہٖ ایسے ہی ہوا۔
سکنتھورپ میں بھی مسجد نہیں تھی۔ خطبات کے ذریعے دعاؤں اور مالی قربانی کی تحریک کی گئی اور خلیفۂ وقت کی خدمت میں دعائیہ خطوط کے ذریعے کوشش شروع کی تو دسمبر 2002ء میں سکنتھورپ میں ایک بڑا مکان مل گیا۔ شروع میں ہمسایوں نے ہماری سخت مخالفت کی لیکن جب اُن سے انفرادی رابطہ کرکے اور بلاکر بتایا گیا کہ ہماری تعلیم کیا ہے اور ہماری تاریخ کیا ہے تو اُن کو احساس ہوا کہ یہ تو پُرامن جماعت ہے۔ یہ بات بھی اہم تھی سکنتھورپ کے اکثر احمدی ڈاکٹر تھے جنہیں وہ اپنے ہسپتالوں میں خدمت خلق کرتے ہوئے ایک عرصے سے دیکھ رہے تھے۔ جب حضورانور ایدہ اللہ وہاں تشریف لے گئے تو فرمایا کہ یہاں باقاعدہ گنبد ومینار والی مسجد بنائیں۔ چنانچہ جب یہاں باقاعدہ مسجد تعمیر کی گئی تو کسی ہمسایہ نے اعتراض نہیں کیا۔
ہارٹلے پُول میں 2003ء میں مسجد کے لیے پلاٹ خریدا گیا جہاں 3؍اکتوبر2004ء کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد ناصر کا سنگ بنیاد رکھا اور مسجد کا فتتاح 2005ء میں فرمایا۔
اسی طرح کیتھلے میں بھی ایک صلوٰۃ سنٹر 2007ء میں لیا گیا جسے ابتدا میں مکرم ڈاکٹر حفیظ صاحب نے ذاتی طور پر خریدا اور پھر اُسی قیمت میں جماعت کے نام منتقل کردیا۔
2005ء میں مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب سابق امیر جماعت یوکے نے وقف زندگی کی اہمیت و برکات کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں درج تین باتوں کا خاکسار کا بہت فائدہ پہنچا۔ مثلاً حضرت مسیح موعودؑ نے 1907ء میں وقف زندگی کی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے یہ شرط بھی لکھوائی کہ ’’مَیں کوئی معاوضہ نہیں لوں گا۔ چاہے مجھے درختوں کے پتے کھاکر گزارا کرنا پڑے مَیں گزارا کروں گا اور تبلیغ کروں گا۔‘‘ اور یہ ہدایت کہ ’’واقفین کو ہر ہفتہ باقاعدگی سے اپنی رپورٹ بھجوانی ہوگی۔‘‘ اس ہدایت پر خاکسار تب سے عمل پیرا ہے جس سے بہت فوائد حاصل ہوئے۔
اس کتاب میں حضرت مصلح موعودؓ کے مطالباتِ تحریک جدید میں سے ایک مطالبہ وقف جائیداد کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ خاکسار نے یہ پڑھ کر اپنی جدّی زرعی زمین واقع اونچہ پہاڑنگ (ضلع سیالکوٹ پاکستان) جماعت کو پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ جب بھی ممکن ہو یہ زمین فروخت کرکے پہاڑنگ اونچہ میں مسجد بنوائی جائے۔
مذکورہ کتاب میں حضرت مصلح موعودؓ کی وقف اولاد کی تحریک کا بھی ذکر ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ ہر خاندان ایک لڑکا وقف کرے، جن کے ہاں اولاد نہ ہو یا بڑی عمر کی ہو یا جن کی لڑکیاں ہی ہوں تو وہ خود یا چند دوست مل کر ایک دیہاتی مبلغ یا مدرسہ احمدیہ کے ایک طالب علم کا خرچ برداشت کریں۔
چونکہ خاکسار کی تین بیٹیاں ہی ہیں اس لیے خاکسار تب سے ایک دیہاتی مبلغ کا خرچ پیش کرنے کی توفیق پارہا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ ابتلاؤں کا آنا بھی صداقت احمدیت کی دلیل ہے جس سے ترقیات کی راہیں بھی کُھلتی ہیں۔ چنانچہ جب ہم نے بریڈفورڈ کے قریبی علاقوں میں دعوت الی اللہ پر زور دیا تو کامیابیوں کے ساتھ مخالفت میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ مخالفت دراصل حسد کا نتیجہ ہوتی ہے جو مخالفین کی بےبسی کو بھی ظاہرکرتی ہے۔
ایک دفعہ بریڈفورڈ کی مرکزی لائبریری میں ہم نے دو ہفتے کی نمائش لگائی جس میں تیس زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم بھی رکھے۔ ہم روزانہ وہاں جاکر لوگوں کے سوالات کے جواب بھی دیتے۔ آخری روز جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ انتظامیہ نے بتایا کہ سامان تو دو تین گھنٹے پہلے آپ کے آدمی لے گئے ہیں۔ خاکسار نے کہا کہ ہم تو اب آئے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ وہ بھی پاکستانی تھے ہم سمجھے کہ شاید آپ نے بھیجے ہیں۔ بہرحال مخالفین نے اس جھوٹ اور چوری کو ہی اسلام کی خدمت سمجھا تھا۔ لیکن ہم نے نمائش کا یہ سلسلہ پھر 93؍شہروں اور قصبوں تک پھیلادیا جو آج بھی جاری ہے۔
ایک بار ایک ساٹھ سالہ احمدی ناصر میر صاحب کو عشاء کی نماز کے بعد گھر جاتے وقت مخالفین نے حملہ کرکے شدید زخمی کردیا۔ ہماری مسجد کے قریب ہی غیراحمدیوں کی بھی ایک مسجد ہے۔ اُن کے نمازیں اکثر مخالفانہ نعرے لگاتے ہوئے ہماری مسجد کے پاس سے کاروں میں گزرتے۔ چند بار انہوں نے ہماری مسجد کے دروازے کے لیٹر بکس میں پٹاخے بھی ڈالے جس سے مسجد میں دھواں بھر گیا۔ دو تین بار میری کار پر اینٹ مار کر شیشہ توڑ دیا یا درواززہ ٹیڑھا کردیا۔ ایک بار ایک احمدی دوست کے سر سے ٹوپی اُتار کر بھاگ گئے۔ یہ اُن کی اسلامی خدمات کی جھلکیاں ہیں۔
شیفیلڈ میں ہم نے مرکزی لائبریری میں تبلیغی نمائش لگائی تو مقررہ وقت سے قبل ہی انتظامیہ نے مقامی مسلمانوں کی شکایات اور دھمکیوں کے ملنے پر ہم سے معذرت کرلی۔ حیرت تھی کہ غیرمسلم انتظامیہ تو اسلامی نمائش لگانے کی اجازت دے رہی تھی اور غیراحمدی مسلمان اسے بند کروارہے تھے۔
24؍مارچ2016ء کو گلاسگو کے احمدی دکاندار اسد شاہ صاحب کو چاقو کے تیس وار کرکے جس شخص تنویر نے شہید کیا تھا وہ بھی بریڈفورڈ سے ہی گیا تھا۔ ان سب واقعات کے باوجود ہم نے اللہ کے فضل سے سٹی سنٹر میں کبھی تبلیغ بند نہیں کی اور خدا نے حفاظت بھی فرمائی۔ الحمدللہ
برمنگھم میں قیام کے دوران خاکسار نے تبلیغ گائیڈ کی تیاری شروع کی تھی۔ اس میں بیان کردہ کامیاب تبلیغ کے 13 درجوں پر وکالت تصنیف کو تحفّظات تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہ معاملہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کیا تو حضورانور نے ملاحظہ کرنے کے بعد فرمایا کہ اسے رہنے دیں تاہم اس کے نیچے یہ نوٹ لکھ دیں کہ یہ چند باتیں ہیں کہ جن پر عمل کرکے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اس کے علاوہ اَور بھی بہت سے کامیابی کے گُر موجود ہیں۔ چنانچہ اس ہدایت کی تعمیل کردی گئی۔ یہ گائیڈ مکمل ہوکر جب طبع ہوئی تو خاکسار بریڈفورڈ میں متعیّن تھا۔ پہلی کاپی حضورایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خاکسار نے پیش کی تو حضورانور نے فرمایا: ’’آپ نے اپنی زندگی کا نچوڑ پیش کردیا ہے۔‘‘ بعدازاں کئی ممالک خصوصاً جماعت احمدیہ امریکہ کے عہدیداران نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اس گائیڈ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بیعتیں بھی عطا فرمائی ہیں۔ 2013ء میں امریکہ کے شعبہ تبلیغ نے اس تبلیغ گائیڈ کی اشاعت کی منظوری حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کرکے اس کا امریکن ایڈیشن اڑہائی ہزار کی تعداد میں شائع کروایا۔ اللہ کے فضل اب تک اس گائیڈ کے چار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
خاکسار نے زمانہ طالب علمی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ حج میں طواف کررہا ہوں۔ 2004ء میں ایک دوست نے مجھے حج کے لیے اخراجات کی پیشکش کی اور کہا کہ وہ ایک تکلیف میں مبتلا ہیں اور اگر مَیں خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنے پر اُن کے لیے دعا کروں گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی تکلیف دُور فرمادے گا۔ خاکسار نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اُن کی پیشکش قبول کرلی۔ چنانچہ ہم چودہ احمدیوں نے ایک قافلے کی صورت اُس سال حج کی توفیق پائی۔ جب خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑی تو ایک لمبی دعا میں غلبہ اسلام، آنحضورﷺ، حضرت مسیح موعودؑ، تمام خلفائے کرام بشمول حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ، تمام صحابہ کرام، بزرگان اور عزیزواقارب اور باقی دنیا کے لیے دعا کی توفیق ملی۔ جس دوست نے حج کا انتظام کیا تھا اُن کے لیے خاص طور پر بڑے الحاح سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ اس دعا کی قبولیت کو بطور نشان مانگا جائے چنانچہ عرض کیا کہ اے اللہ! اگر اس دوست کی تکلیف ہمارے حج کے بعد کسی وقت دُور ہوئی تو کسی کو کیا یقین ہوگا کہ اس کا حج کی دعاؤں سے کوئی تعلق ہے اس لیے حج کے دوران اگر کوئی نشان ہو تب ہی لوگوں پر اثر ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عاجز بندوں کی دعاؤں کو سنا اور حج کے فوراً بعد اُن صاحب نے فون پر رابطہ کرکے خوشی سے بتایا کہ خداتعالیٰ نے دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے میری تکلیف دُور کردی ہے۔
حج کے لیے مکہ روانگی سے چند ماہ قبل سے میرے دائیں گھٹنے میں شدید درد تھی کہ بغیر دردکش دوا لیے نماز پڑھنا بھی مشکل تھا۔ مسلسل دردکُش دوا بھی مضرِ صحت ہوتی ہے لیکن تینوں وقت اس گولی کو لینا میری مجبوری تھی۔ حج کی برکت سے دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میری درد وہیں ختم ہوگئی اور مَیں نے دوا لینی چھوڑ دی بلکہ آج تک اس گھٹنے میں درد نہیں ہوئی۔
تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ خاکسار کی ایک بھانجی کے متعلق خاکسار کو معلوم ہوا کہ اُس کے سب بہن بھائیوں کے ہاں وقف نَو بچہ یا بچی ہے لیکن اُس کے دو بچے ہیں ایک سترہ سالہ لڑکا اور ایک تیرہ سالہ لڑکی لیکن وقف نَو کوئی نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے دعا کی توفیق دی اور ایک سال کے اندر اُس کے ہاں وقف نَو بیٹا عمراحمد پیدا ہوگیا۔
ہم نے برٹش حکومت اور قوم کے لیے بھی خاص طور پر دعا کی جن کے پاسپورٹ کی بدولت ہمیں حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اگر ہمارے پاسپورٹ پاکستانی ہوتے تو ہم کبھی حج نہ کرپاتے۔ حج کے بعد ہم نے ربوہ اور قادیان کے مقدّس مقامات کی زیارت کی بھی توفیق پائی۔
بریڈفورڈ میں قیام کے دوران ایک سعادت یہ بھی ملتی رہی کہ پہلے دو سال حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اجازت سے اور بعدازاں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے خاکسار رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد بیت الحمد میں اعتکاف کی توفیق پاتا رہا۔ پہلے سال مکرم عبداللطیف صاحب بھی اعتکاف بیٹھے لیکن یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی رہی اور 2008ء میں دس آدمی اور سات خواتین کو اعتکاف کی توفیق ملی جنہوں نے قبولیتِ دعا کے بہت سے نظارے بھی دیکھے۔ اسی طرح بریڈفورڈ میں قیام کے آٹھ سالوں میں ہر رمضان المبارک میں روزانہ قرآن کریم کے ایک سپارے کا درس دینے کی توفیق بھی ملتی رہی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں ہفتہ وار رپورٹ بھجوانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ حضورانور جوابی نوازش نامہ بھی ارسال فرماتے جو قیمتی نصائح اور رہنمائی پر مشتمل ہوتا۔ چنانچہ ایک دفعہ فرمایا کہ رپورٹ میں مطالعہ کا بھی ذکر کیا کریں۔ چنانچہ خاکسار نے نماز فجر اور تلاوت کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے دس صفحات پڑھنے اور ان کے نوٹس لینے شروع کیے۔ اس کے نتیجے میں اڑہائی سال میں 23 جلدوں کا سیٹ مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد ملفوظات کی دس جلدیں بھی پڑھ لیں۔ اور پھر اشتہارات کی تین اور مکتوباتِ احمدؑ کی دو جلدوں کو پڑھنے کی توفیق بھی مل گئی۔ مجھے دیکھ کر میری اہلیہ نے بھی یہ مطالعہ شروع کردیا اور خدا کے فضل سے سارا سیٹ مکمل پڑھ لیا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی پرہیزگاری کے لیے عورتوں کو پرہیزگاری سکھادیں ورنہ وہ گنہگار ہوں گے اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہوکر بتلاسکتی ہے کہ تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی۔ جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلید ہوتی ہے۔ … عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا۔ نیز عورتیں چھپی ہوئی دانا ہوتی ہیں۔ یہ نہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ احمق ہیں۔ وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثروں کو حاصل کرتی ہیں۔ جب خاوند سیدھے راستہ پر ہوگا تو وہ اُس سے ڈرے گی اور خدا سے بھی۔‘‘ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ 217)
18؍اگست 2009ء کو خاکسار کی تقررّی مسجد بیت الفتوح مورڈن میں ہوگئی۔ اس کی عمارت مارچ 1996ء میں خریدی گئی تھی اور تب سے نمازباجماعت کا سلسلہ یہاں جاری ہے۔ بعدازاں اس کے احاطے میں مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد تعمیر کی گئی جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے 19؍اکتوبر 1999ء کو رکھا ااور اس کا افتتاح حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 3؍اکتوبر2003ء کو نماز جمعہ پڑھاکر فرمایا۔ اس مسجد کا کُل رقبہ پانچ ایکڑ سے زائد ہے اور اس کے مسقّف احاطے میں تیرہ ہزار افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مجھ سے قبل اس مسجد میں مکرم رانا مشہود احمد صاحب اور مکرم عبدالغفار صاحب نے بطور مربی سلسلہ اور امام خدمات سرانجام دی تھیں۔
لندن کی 24جماعتیں بھی خاکسار کو بطور مربی سلسلہ دی گئیں۔ اسی طرح 2009ء سے 2015ء تک جامعہ احمدیہ یوکے میں تفسیرالقرآن اور کچھ وقت کلام پڑھانے کی توفیق بھی ملتی رہی۔ لندن آنے پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پہلی ہدایت خاکسار کو یہ فرمائی کہ نمازوں کی حاضری بڑھانے کی کوشش کریں اور غیرازجماعت لوگوں اور ہمسایوں سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کریں۔
حضورانور کے ارشاد پر عمل کرنے کے لیے خصوصی کوششیں کی گئیں۔ مختلف اخبارات میں انٹرویو اور خطوط کے ذریعے مسجد آنے کی دعوت دی گئی اور داعیین الی اللہ کے ذریعے بھی ہزاروں پمفلٹس ہر سال تقسیم کروائے گئے۔
خاکسار کی تقرری بیت الفتوح میں ہوئی تو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ خطبات جمعہ وہاں سے ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ میری تقررّی کے بعد پہلا جمعہ آیا تو مسجد پہنچنے پر ابھی مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے کہاں بیٹھنا چاہیے کہ اچانک مجھے اپنی دو سال پرانی خواب یاد آئی جس میں مَیں نے خود کو حضورانور کی مجلس میں حضورانور کے دائیں جانب بیٹھے دیکھا تھا۔ چنانچہ مَیں وہاں مستقل بیٹھتا رہا۔ ایک احساس یہ بھی تھا کہ میرے پاس خدا کے سامنے کیا عذر ہوگا کہ مَیں نے خلیفہ وقت کے سامنے بیٹھ کر خطبات سنے تو پھر بھی اپنے اندر کماحقّہٗ تبدیلی پیدا نہ کی۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف استغفار کی طرف توجہ رہی بلکہ اپنی اصلاح کی کوشش کرنے کی توفیق بھی ملتی رہی۔ ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ غالباً 1966ء میں خاکسارنماز جمعہ پڑھنے کے لیے سرگودھا سے ربوہ آیا۔ گرمیوں کا موسم تھا اور مسجد مبارک میں پنکھے چل رہے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ خطبہ جمعہ ارشاد فرمارہے تھے تو خاکسار کو بار بار اونگھ آرہی تھی۔ خطبہ ختم ہوا تو خاکسار نے بشدّت اس کمزوری کو محسوس کیا اور نماز کے بعد سنتوں میں گریہ و زاری سے استغفار بھی کیا کہ خدا کا خلیفہ بول رہا تھا اور مَیں اونگھ رہا تھا اور اُن باتوں سے محروم ہوکر واپس چلاجاؤں گا جو میری روحانی زندگی کا ذریعہ ہیں۔ اس کیفیت کے دوران اچانک خداتعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالا کہ خطبے کے نوٹس لینا شروع کردو۔ چنانچہ مَیں نے اس کے بعد ہمیشہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں نہ صرف خود عمل کرنے کی بلکہ تربیتی معاملات میں بھی استفادہ کرنے کی بھرپور توفیق پائی۔ روزانہ نماز فجر کے بعد درس میں ان نوٹس میں سے دو تین پوائنٹس بیان کرتا رہا۔ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ پر جرمنی میں مبلغین کی میٹنگ میں اس عاجز کی مثال دیتے ہوئے اُنہیں بھی ایسا کرنے کی ہدایت فرمائی تو بےحد خوشی ہوئی۔
2017ء اور 2018ء میں خاکسار کی درخواست پر حضورانور نے مختلف جماعتوں کی مجالس عاملہ کو گروپس کی صورت میں ملاقات کی اجازت عطا فرمائی اور اس دوران جائزہ لیتے ہوئے نہایت قیمتی نصائح سے بھی نوازا۔ چند نکات درج ذیل ہیں۔ حضورانور نے فرمایا:
٭…نماز باجماعت کی باقاعدہ حاضری رکھا کریں۔ ماریشس کی مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا کہ جو تین ماہ میں نماز باجماعت میں باقاعدہ نہ ہوجائیں انہیں مجلس عاملہ سے فارغ کردیا جائے۔ اگر عاملہ کا نمونہ اچھا نہیں ہوگا تو دوسروں کا کیا حال ہوگا۔ نماز ایسی شے ہے جو خدا نے فرض کی ہے کسی انسان نے نہیں کی۔ کم از کم فجر اور عشاء کی نماز باجماعت میں باقاعدہ ہونا چاہیے۔ ایک دفعہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جو فجر اور عشاء پر نہیں آتے ان میں منافقت پائی جاتی ہے۔
٭…عہدیداروں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے۔ اگر مسجد یا صلوٰۃ سنٹر سے دُور ہیں تو جہاں بھی دوسرا آدمی میسر ہو وہیں نماز باجماعت پڑھ لیں۔ نومبائعین کو نماز سکھائیں اور نماز کی عادت بھی ڈالیں۔ جب نماز ٹھیک ہوجائے گی تو باقی کام خودبخود ٹھیک ہوجائیں گے۔ ہر دو ماہ بعد عشرہ صلوٰۃ منایا کریں۔ سب صلوٰۃ سنٹرز میں نظر آنا چاہیے کہ حاضری بڑھی ہے۔
٭…ایک جماعت کے صدر نے پوچھنے پر عرض کیا ویک اینڈ پر اکثر عاملہ ممبران فجر اور عشاء کی نماز مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ حضورانور نے فرمایا کہ مسجد چرچ نہیں جو صرف ویک اینڈ پر کھلتی ہو۔ عاملہ کے ممبران کو نمازی ہونا چاہیے ورنہ امیر صاحب کو رپورٹ کریں۔
٭…موصیوں کو نماز باجماعت کا پابند ہونا چاہیے کیونکہ صرف چندہ دینا کسی کو موصی نہیں بناتا بلکہ نماز بھی ضروری ہے۔اس سلسلے میں لجنہ اور خدام سے بھی مدد لیں۔ سیکرٹری وصایا کا کام ہے کہ موصیوں کی نماز باجماعت اور تلاوت قرآن کریم کی بھی نگرانی کرے اور اس طرف توجہ دلائے۔ اسی طرح وقف عارضی کی بھی تحریک کرے۔
٭…جس طرح شعبہ مال کام کرتا ہے اسی طرح شعبہ تربیت بھی کام کرے تو بہت ترقی ہوسکتی ہے۔ نمازوں پر زور دیں گے تو چندے خودبخود آجائیں گے۔ تربیتی کوششوں کا بھی نتیجہ ظاہر ہونا چاہیے جیسے چندوں کے لیے کوشش کی جائے تو نتیجہ نظر آتا ہے۔
٭…نوجوان بچے بچیوں کو سنبھال لیا جائے تو یہ بہت اہم کام ہے کیونکہ عام طور پر پندرہ سے اٹھارہ سال کے بچے بچیوں کو اگر اچھا ماحول نہ ملے تو اُن کے بگڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ خدام خدام کی بات زیادہ مانتے ہیں اس لیے خدام کو خدام کی تربیت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
٭…ایک دوست نے بتایا کہ کس طرح وہ اخبارات میں مخالفِ اسلام شائع ہونے والے خطوط کا جواب لکھتے ہیں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ اگلی نسلوں کو بھی یہ واقعات بتائیں اور انہیں تبلیغی کاموں کے لیے تیار کریں۔
٭…احمدی ٹیکسی ڈرائیورز کو مختلف زبانوں میں تعارفی لٹریچر مہیا کیا جائے تاکہ وہ اپنی اپنی سواریوں میں تقسیم کرسکیں۔ ایسے پمفلٹ تقسیم کیے جائیں کہ انسان کو مذہب کی ضرورت ہے اور خداتعالیٰ واقعی موجود ہے۔
٭…قیدیوں سے بھی رابطہ کرکے اُن کی مدد بھی کی جائے اور انہیں جماعت کا تعارف بھی کروایا جائے۔
٭…تبلیغ کی کوشش کے ساتھ دعا بھی ضروری ہے اور دعا کے لیے فرض نماز ضروری ہے۔ اس طرف توجہ کریں۔
٭…تبلیغ دلائل سے کریں۔ جلسہ سالانہ قادیان پر میرا ختم نبوت والا خطاب سنائیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں فرمایا ہے کہ جو ختم نبوت کا منکر ہے وہ کافر ہے۔
٭…ایک سوال ہوا کہ تدبیر اور دعا کو تبلیغ میں کتنا کتنا وقت دینا چاہیے؟ حضورانور نے فرمایا کہ یہ حالات پر منحصر ہے۔ فتح دعاؤں سے ہوگی لیکن کوشش اور دعا دونوں ضروری ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے کتابیں لکھیں یہ تدبیر تھی اور ساتھ دعائیں بھی کیں۔ آپؑ کو الہام ہوا کہ تیری نمازوں سے تیرے کام افضل ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرمایا کیونکہ آپؑ یہ سب دینی کام خداتعالیٰ کے لیے ہی کررہے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اونٹ کے پاؤں باندھ کر پھر توکّل کرو۔ پس تبلیغ میں کامیابی کے لیے نمازوں، نوافل اور تہجد میں دعائیں کریں۔ اسی طرح چلتے پھرتے دعا کریں۔
٭…آن لائن قرآن سکھانے کے جماعتی انتظام سے 35 ممالک فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اسے متعارف کروائیں۔ غیراحمدی بھی اس سے فائدہ اٹھاکر اپنے شکوک دُور کرسکتے ہیں کہ احمدیوں کا قرآن وہی ہے جو اُن کا ہے۔ اسی طرح انصار کو بھی قرآن کریم پڑھائیں اور اُن کی آمین بھی کرائیں۔
٭…انصاراللہ کے منتظم تعلیم القرآن و وقف عارضی خود بھی وقف عارضی کریں اور اس میں قرآن کریم پڑھائیں اور تبلیغ کے لیے بھی وقت دیں۔ تبلیغ کے لیے صرف ویک اینڈ پر نہیں بلکہ مستقل سٹال لگایا کریں۔
٭…ایک دوست سے حضورانور نے دریافت فرمایا: آپ کے پاس کیا کام ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس امین کا عہدہ ہے۔ فرمایا: عہدہ نہیں، خدمت۔
٭…ایک سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ ہمارے داعیین کی انفرادی تبلیغ سے چار بیعتوں کا ٹارگٹ پورا ہوگیا ہے۔ یہ بیعتیں انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف علاقوں میں ہوئی ہیں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ اپنے قریبی علاقے میں بھی تبلیغ کریں کیونکہ قریبی علاقے کی بیعتوں کو سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔
٭…حضورانور نے ایک نومبائع جرمن لڑکی کے قبولیت دعا کا واقعہ سنایا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ سفر کررہی تھی جو دہریہ تھا۔ اچانک شدید بارش شروع ہوگئی اور ان کی گاڑی خراب ہوگئی۔ ریکوری والوںنے بتایا کہ تین گھنٹے میں آئیں گے۔ اس لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے کیا مَیں نماز پڑھ لوں؟ وہ کہنے لگا کہ دعا کرنا کہ بارش رُک جائے۔ وہ کہتی ہے کہ مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ! میرے دہریہ باپ کو معجزہ دکھا۔ چنانچہ اسی وقت بارش رُک گئی اور دوسری طرف ریکوری وین صرف تیس منٹ میں ہی آگئی۔ اس طرح دونوں نے معجزہ دیکھا۔
٭…بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف افریقہ کے ہی قبولیتِ دعا کے واقعات سنائے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا کو ماننے والے زیادہ تر غرباء میں ہی ہوتے ہیں۔ سب کچھ میسر ہو تو اکثر لوگوں کو خدا یاد نہیں رہتا۔
٭…حضورانور نے جائزہ لیتے ہوئے پوچھا کہ آج جنہوں نے مسجد بیت الفتوح میں نماز فجر ادا کی ہے وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ چند دوستوں نے ہاتھ کھڑے کیے۔ پھر فرمایا کہ جنہوں نے مسجد فضل میں فجر کی نماز ادا کی ہے وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ جب ہاتھ کھڑے ہوئے تو ایک دوست سے فرمایا کہ ہاں آپ بھی آئے تھے اور ساتھ آپ کے بھانجے بھی تھے جو دوسری صف میں بیٹھے ہوئے تھے۔
٭…حضورانور نے عاملہ اراکین کو داڑھی رکھنے کی بھی ہدایت فرمائی۔ نیز فرمایا: خدام داڑھی کے ساتھ زیادہ اچھے لگتے ہیں۔
٭…ہر سیکرٹری کے پاس اپنے شعبے کی مکمل معلومات ہونی چاہئیں۔ چھوٹی جماعت بنانے کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ ہر شخص سے ذاتی تعلق ہو۔
٭…حضورانور کے ارشاد پر مکرم مبارک صدیقی صاحب نے نماز کے موضوع پر ایک نظم بھی کہی جس کا آغاز یوں ہوتا ہے:

ہو جس کی تم تلاش میں وہ دلکشی نماز ہے
کہا حضور نے ہمیں کہ زندگی نماز ہے
ہزار کام ہوں تمہیں، یہ اوّلین کام ہو
نماز کا ، نماز کا ، نماز کا قیام ہو
اگرچہ پانچ وقت کا ضرور التزام ہو
نماز فجر اور عشاء کا خاص اہتمام ہو
یہ زندگی ہے بندگی تو بندگی نماز ہے
کہا حضور نے ہمیں کہ زندگی نماز ہے
نماز کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کا درج ذیل ارشاد ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ فرمایا:
’’یقیمون الصلوٰۃ کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیں کرتے۔ ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اسی وقت مکمل عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ توبہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے۔ جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں ان کی سب نمازیں ہی ردّ ہوجاتی ہیں۔ … نماز خداتعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیارت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعویٰ کے خلاف خود ہی ڈگری دیتا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلداوّل صفحہ104)
اس کے بعد حضورؓ نے بغیر کسی مجبوری کے نمازباجماعت ادا نہ کرنے والے مردوں کو تارک الصلوٰۃ قرار دیا ہے۔
حضورؓ نے نماز کے سات درجے بھی بیان فرمائے ہیں یعنی 1۔ نماز بالالتزام پڑھنا۔2۔ نماز وقت پر ادا کرنا۔3۔ نماز باجماعت ادا کرنا۔4۔نماز کے مطالب سمجھ کر ادا کرنا۔5۔نماز کو محو ہوکر ادا کرنا گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا یہ یقین ہو کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔ مؤخرالذکر کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نابینا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا یہ اطمینان رکھتا ہے کہ گو مَیں تو ماں کو نہیں دیکھ سکتا مگر وہ مجھے دیکھ رہی ہے۔6۔ نوافل کی ادائیگی۔ 7۔تہجّد کی ادائیگی۔ (تفسیر کبیر جلدششم صفحہ135۔136)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
اُس رُخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدّعا
جنّت بھی ہے یہی کہ ملے یار آشنا
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے خاکسار کو 2010ء سے 2014ء تک مسجد بیت الفتوح میں اعتکاف کرنے کی سعادت ملتی رہی۔ حضور ازراہ شفقت خاکسار کو امیرالمعتکفین بھی مقرر فرماتے رہے۔ 2014ء کے بعد سے صحت کی خرابی کی وجہ سے خاکسار روزہ نہیں رکھ سکتا تھا اس لیے اعتکاف بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اعتکاف کے نتیجے میں جو برکات عطا ہوتی ہیں اُن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بار اعتکاف سے پہلے مجھے کندھے میں ایسا شدید درد نکل آیا جس کے لیے روزانہ دوا استعمال کرنے کے علاوہ ڈاکٹروں نے انجیکشن لگوانے کا بھی مشورہ دیا اور مَیں نے رمضان کے بعد کی تاریخ بُک کرلی۔ اعتکاف کے دوران صبح شام دوا کھاکر اور دوائی کی مالش کرکے گزارا کیا لیکن درد مسلسل تھا۔ اعتکاف کے بعد مَیں گھر گیا اور اسی درد کے ساتھ سویا۔ صبح اٹھا تو درد کا نام و نشان نہیں رہا تھا اور آج تک پھر وہ درد نہیں ہوا۔ اگلے روز ڈاکٹر حامداللہ صاحب نے (جو اعتکاف میں بھی ساتھ تھے اور میری تکلیف بخوبی جانتے تھے) مجھ سے درد کے بارے میں پوچھا تو مَیں نے صورتحال بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تو اعتکاف کا معجزہ ہے کیونکہ یہ درد تو اس طرح ٹھیک نہیں ہوتی۔
خاکسار کو اٹھارہ سال کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ شادی کے بعد اپنی اہلیہ کو تحریک کی تو وہ بھی بخوشی شامل ہوگئیں۔ جہاں بھی بطور مبلغ تعینات رہا وہاں کتاب وصیت کی اشاعت کرتا رہا۔ نیز اپنی تینوں بیٹیوں کو بھی اُن کی عمر کے مطابق کتاب پڑھواکر تحریک کی اور وہ بھی نظام وصیت میں شامل ہوتی گئیں۔ اسی طرح اپنی اگلی نسل کے جو بچے بچیاں بھی پندرہ سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں انہیں کتاب پڑھا کر اس نظام کی اہمیت سمجھائی تو وہ بھی اس میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ رمضان کے درسوں میں خاکسار خاص طور پر اس کا ذکر کرتا ہے چنانچہ ہر سال معتکفین میں سے بیس پچیس احباب نظام وصیت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ تحدیث نعمت کے طور پر یہ ذکر کرتا ہوں کہ 2018ء میں ایک خطبہ جمعہ میں حضورانور نے مالی قربانی کی اہمیت و برکت بیان فرمائی اور بتایا کہ ہمیشہ مالی قربانی کے معیار میں ترقی کرتے رہنا چاہیے۔ چنانچہ خطبہ کے دوران ہی خاکسار کے دل میں تحریک ہوئی اور خاکسار نے نماز جمعہ کے بعد حضورانور کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کرتے ہوئے اپنے چندہ وصیت کے معیار کو دسویں حصے سے تیسرے حصے کا کردیا۔ خاکسار ہمیشہ مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب (پہلے انگریز مبلغ) کے متعلق یہ جان کر رشک کرتا ہے کہ انہوں نے غربت کے زمانے میں جبکہ مبلغین کا الاؤنس بہت کم ہوتا تھا، انگریز ہوتے ہوئے تیسرے حصے کی وصیت کی۔اسی طرح مکرم حنیف محمود صاحب نے محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب سابق امام مسجد فضل لندن و صدر صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے متعلق کتاب میں لکھا ہے کہ وہ بھی تیسرے حصے کے موصی تھے اور انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو بھی ایک خط میں اس کی تحریک کی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
زبزل مال در را ہش نمی گردو کسے مفلس
خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا
یعنی خدا کی راہ میں مال خرچ کرکے کبھی کوئی غریب نہیں ہوتا اور اگر انسان نیکی کا ارادہ کرلے تو خدا خود اس کا مددگار ہوجاتا ہے۔
دعوت الی اللہ کی اہمیت پر خلفائے کرام مسلسل ارشادات فرماتے ہیں چنانچہ8؍ستمبر2017ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ تبلیغ پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے تمام عہدیداران کو اس حوالے سے احباب جماعت کی رہنمائی کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ خاکسار نے ایک سلیبس تیار کرکے مختلف جماعتوں میں تبلیغ ٹریننگ کلاسز شروع کیں۔ یہ کلاسیں ہفتہ وار قریباً دو گھنٹے کی منعقد ہوتی تھیں۔ سات کلاسوں کے بعد امتحان لیا جاتا اور انعامات دیے جاتے۔ ان کلاسوں میں یہ مضامین سکھائے جاتے: داعی الی اللہ کی ذاتی تربیت۔ احمدی اور غیراحمدی میں فرق ازروئے قرآن۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی اور دلائل از روئے احادیث ۔ ختم نبوت۔ عیسائیوں کو تبلیغ کا طریق۔ دہریوں کو تبلیغ۔ غیرمسلموں کے اسلام پر اعتراضات اور ان کا جواب۔ ہر کلاس میں سوال و جواب بھی ہوتے اور تحریری نوٹس بھی دیے جاتے۔ ان کلاسوں میں وٹس ایپ گروپ بھی بنائے گئے جو آج بھی ایکٹو ہیں اور انہیں تبلیغی مواد مہیا کیا جاتا ہے اور راہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 15؍اکتوبر2012ء کو خطبہ جمعہ میں مغربی میڈیا کے اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرتﷺ کی سیرت کو اجاگر کرنے کےلیے کوششوں پر زور دیا۔ اس پر خاکسار نے ایک انگریزی تبلیغی کتابچہ بعنوان Mohammad and Islam in the eyes of non-Muslim Scholars (حضرت محمدﷺ اور اسلام:غیرمسلم اہل علم کی نظر میں) مرتّب کرکے شائع کیا۔ اس میں کُل 56 حوالے پیش کیے گئے ہیں۔ مثلاً آئرلینڈ کے سرجارج برنارڈشا نے 1931ء میں ایک کتاب The Genuin Islam (حقیقی اسلام) لکھی جس میں وہ لکھتے ہیں:’’مَیں نے حضرت محمدﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے اور میری رائے میں اُن کو دجّال کہنا بہت بڑا جھوٹ ہے۔ انہیں تو انسانیت کا نجات دہندہ قرار دینا چاہیے۔‘‘
ایک دوسرے آئرش مستشرق Edmund Burke اپنی کتاب میں لکھتا ہے:’’محمدؐ کا دیا ہوا قانون (قرآن کریم) بادشاہ سے لے کر ایک معمولی انسان تک سب کے لیے ہے اور دنیا میں جتنے بھی قانون موجود ہیں ان سب سے زیادہ اپنے اندر وسعت اور روشن خیالی رکھتا ہے۔‘‘
ایک برطانوی مستشرق Arthur Gliman لکھتا ہے: صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے ستّرہزار مسلمانوں کو قتل کیا۔ انگریزی فوج نے صلیب کے نام پر جنگ کرتے ہوئے 1874ء میں غانا کی جنگ میں افریقن دارالسلطنت کو زندہ جلادیا۔ اس کے مقابلے پر حضرت محمدﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر ظالم دشمن سرداروں سے پوچھا کہ تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: اے سخی بھائی! رحم کی توقع ہے۔ تو آپؐ نے جواباً اُن کو معاف کرنے کا اعلان فرمادیا۔
یہ کتابچہ مقامی کونسلرز اور میئرز کو بھی بذریعہ ڈاک بھجوایا گیا۔ مرٹن کونسل کے ایک کونسلر نے بعد میں مجھے بتایا کہ یہ کتابچہ بہت مفید ہے۔ جب بھی ایسے مسلمان مجھے ملتے ہیں جو آپ کی جماعت کے خلاف بولتے ہیں تو مَیں انہیں یہ کتابچہ دکھاتا ہوں جس کا جواب اُن کے پاس نہیں ہوتا۔
2013ء میں جماعت احمدیہ برطانیہ نے اس ملک میں احمدیہ مشن کے قیام کے سو سال مکمل ہونے پر صدسالہ جوبلی منائی گئی تو خاکسار نے ایک کتابچہ The Ahmadiyya Muslim Commuminity in the eyes of non-Muslim Dignitaries (احمدیہ مسلم جماعت غیرمسلم مشاہیر کی نظر میں) مرتب کرکے شائع کیا جس میں 73 مشاہیر کے جماعت کے متعلق بیانات جمع کیے گئے۔
خاکسار نے قرآنی دعاؤں پر مشتمل ایک کتاب مکرم بلال ایٹکنسن صاحب ریجنل امیر نارتھ ایسٹ کی خواہش پر لکھی تھی۔ اس کتاب میں ہر دعا کا انگریزی و اردو ترجمہ دیا گیا تھا۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بغرض منظوری یہ کتابچہ پیش کیا گیا تو فرمایا اس میں ٹرانسلیٹیریشن بھی شامل کردیں۔ حضورانور کے ارشاد کی تعمیل نے اس کتاب کو اَور بھی متبرک و مفید بنادیا۔ اس کتاب کے اب تک سات ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ خاکسار اپنی کتب خود شائع کرواتا ہے اور بغیر نفع لییے جماعت کے سپرد کردیتا ہے۔ کتاب کی قیمت بھی جماعت خود مقرر کرتی ہے۔
خداتعالیٰ کے فضل سے خلفائے کرام کی طرف سے اس عاجز کے بارے میں بعض اوقات تعریفی کلمات بھی ارشاد ہوتے رہے۔ مثلاً جن دنوں خاکسار کرائیڈن میں متعیّن تھا تو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے کارکن مکرم مجید احمد صاحب سیالکوٹی مربی سلسلہ نے بتایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے مبلغ انچارج امریکہ کو خط میں لکھوایا ہے کہ آپ کے سارے ملک کی جتنی بیعتیں ہیں اس سے زیادہ تو یہاں صرف نسیم باجوہ کی بیعتیں ہیں۔
اُنہی دنوں ایک مجلس عرفان میں میرے سوال کرنے سے پہلے حضورؒ نے فرمایا کہ کیا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کی تیسویں بیعت بھی ہوگئی ہے اور ٹارگٹ پورا ہوگیا ہے۔ پھر حضورؒ نے سامعین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہر ہفتے مجھے اطلاع دیتے ہیں کہ ان کا کیا ٹارگٹ بیعت ہے اور کتنی بیعتیں ہوگئی ہیں اور دعا کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے آخری خط میں لکھا تھا کہ تیس بیعتوں کا ٹارگٹ ہے اور انتیس بیعتیں ہوگئی ہیں۔ اس لیے مَیں نے یہ پوچھا ہے۔
جب خاکسار برمنگھم میں تھا تو خاکسار کا برمنگھم جماعت کی طرف سے ستّر بیعتوں کا ٹارگٹ تھا جو اللہ کے فضل سے پورا ہوگیا۔ خاکسار چونکہ اس ٹارگٹ کے حصول کے لیے حضورؒ کی خدمت میں ہر ہفتے خط تحریر کرتا تھا چنانچہ اُسی روز خط لکھ کر حضورؒ کی دعاؤں اور رہنمائی کا شکریہ ادا کیا۔ اگلے خطبہ جمعہ میں حضورؒ نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یورپ کے لوگ بےدین ہیں اور دین کی باتیں نہیں سنتے لیکن آپ کے اسی ملک میں ایسے لوگ ہیں کہ وہ اکیلے وعدہ کرتے ہیں کہ ستّر بیعتیں سال میں کرائیں گے اور پھر وہ وعدہ پورا بھی کرلیتے ہیں۔
مذکورہ خطبے میں ہی حضورؒ نے نیشنل مجلس عاملہ کو ہدایت کی کہ وہ کامیاب داعیین الی اللہ کو بلاکر پوچھیں کہ وہ کس طرح کام کرتے ہیں اور پھر اُن کے سپرد کریں کہ وہ یہ کام دوسروں کو بھی سکھائیں۔ چنانچہ خاکسار کو نیشنل مجلس عاملہ میں بلاکر معلومات لی گئیں اور چند دن کے بعد مکرم ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب امیر یوکے کی طرف سے اطلاع ملی کہ حضورانورؒ نے خاکسار کو نیشنل سیکرٹری تبلیغ مقرر فرمایا ہے۔ حضورؒ کی دعاؤں کے طفیل اُس سال ریکارڈ 545 بیعتیں ہوئیں۔ الحمدللہ کہ حضورانورؒ نے خاکسار کو مثالی مبلغ بھی قرار دیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے کئی مواقع پر خاکسار کی ہفتہ وار رپورٹ کے حوالے سے کئی بار ہدایت فرمائی کہ دیگر مبلغین کو بھی اسی طرح ڈائری بناکر بھجوانی چاہیے۔ (اس کتاب میں ایک ڈائری کے اُن صفحات کا عکس بھی شامل ہے جن پر حضورؒ کے دست مبارک سے مذکورہ ہدایت لکھی گئی اور دستخط ثبت فرمائے گئے۔)
27؍مارچ1898ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ 25؍جولائی1913ء کو حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحب پہلے مبلغ کے طور پر قادیان سے برطانیہ پہنچے۔ 1999ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے یورپ کی دوسری بڑی مسجد بیت الفتوح کا سنگ بنیاد رکھا۔ آج خدائی پیشگوئیوں کی صداقت اظہرمن الشّمس ہے۔ چنانچہ ہر سال جون کے آخری ہفتے میں مسلح افواج کا دن برطانیہ میں منایا جاتا ہے جس میں خصوصی پریڈ اور تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مرٹن میں اس سلسلے میں ایک بہت بڑی تقریب ہوتی ہے جس میں مختلف مذاہب کے نمائندے بھی خطاب کرتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اس علاقے میں غیراحمدی حضرات کی بڑی تعداد آباد ہے اور اُن کی مساجد بھی موجود ہیں تاہم مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے مسجد بیت الفتوح کے امام کو ہی مدعو کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر اسلام کی حسین تعلیم بیان کرنے کے علاوہ جماعت کی طرف سے ایک سٹال لگاکر ریفریشمنٹ پیش کی جاتی ہے اور اسلامی لٹریچر بھی دیا جاتا ہے۔ عوام کو مسجد آنے کی دعوت بھی دی جاتی ہے جس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے ساتھ سوال و جواب بھی ہوجاتے ہیں۔
برطانیہ میں مذہبی آزادی ہونے کی وجہ سے یہاں کے سکولوں میں تمام مذاہب کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ سارا سال تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد مسجد آتی ہے اور مجالس سوال و جواب بھی منعقد ہوتی ہیں جبکہ ہمیں بھی سارا سال تعلیمی اداروں میں لیکچرز دینے کے لیے بلایا جاتا ہے۔
اسی طرح عیسائیوں کے چرچوں، یہودیوں کے سینیگاگ، ہندوؤں کے ٹمپل، سکھوں کے گردواروں سے رابطہ کرکے اُن کو مسجد میں مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ بھی ہمیں اپنی عبادتگاہوںمیں مدعو کرتے ہیں۔ ایک بار جمعہ کے روز دو پادری صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے حضورانور کا خطبہ جمعہ بھی سنا، چار پانچ ہزار افراد کو آرام و سکون سے آتے جاتے اور نماز جمعہ ادا کرتے دیکھا۔ پھر ہمارے ساتھ لنگرخانے کے ڈائننگ ہال میں جاکر کھانا کھایا اور اس بات پر بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ کئی ہزار لوگوں کو کس طرح آرام سے سنبھالا جاتا ہے۔ پھر اُن میں سے ایک نے دوسری سے سوال کیا کہ ہم نے ایک گھنٹے کا خطبہ سنا ہے کیا اس میں کوئی ایسی بات تھی جس سے ہم متفق نہ ہوں۔ دوسرے نے فوراً کہا کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ یقیناً اپنے تجربات وہ آگے بھی پہنچائیں گے۔
اسی طرح ایک بار ایک انگریز مہمان (سلاؤ کے ڈپٹی میئر Mr Preston Brooker) نے تشریف لاکر حضورانور کا خطبہ جمعہ سنا اور پھر ڈائننگ ہال میں کھانا کھایا تو موصوف نے تبادلہ خیال کرنے کے بعد دورانِ گفتگو کہا کہ اس سارے ماحول کو دیکھ کر مجھے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے میں کوئی روک محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن مَیں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں اتنے غیراحمدی مسلمان ہیں اور اس قدر جماعت کے مخالف ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اُن کا میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ پھر اُنہوں نے بہت خوشی سے قرآن کریم کا نسخہ اور دیگر لٹریچر لیا اور کہا کہ وہ اسے ضرور پڑھیں گے۔
برطانیہ میں ہر کونسل میں میئر کا انتخاب ایک سال کے لیے ہوتا ہے اور میئر کی اپنے کونسلرز کے ساتھ سال میں چھ میٹنگز ہوتی ہیں ۔ پہلے زمانوں میں تو ہمیشہ چرچ کا بڑا پادری دعا کے ساتھ میٹنگ کا آغاز کرواتا تھا لیکن کچھ عرصے سے حکومت نے اجازت دی ہوئی ہے ہر میئر اپنی مرضی سے جس مذہبی نمائندے کو چاہے بلاسکتا ہے۔ چنانچہ دو دفعہ مرٹن کونسل کے میئر نے اور ایک دفعہ وانڈزورتھ کے میئر نے خاکسار کو مدعو کیا اور اسلامی طریق سے دعاؤں کے ساتھ اجلاس کا آغاز کروانے کی درخواست کی۔ اس موقع پر قرآن کریم اور اسلامی لٹریچر کا تحفہ بھی میئر کو پیش کیا گیا۔
2000ء میں برمنگھم میں خاکسار نے خواب دیکھا تھا کہ چند احمدی دوستوں کےساتھ روم (اٹلی) کے ایک پارک میں تبلیغی سٹال لگایا ہوا ہے اور لوگوں سے تبلیغی گفتگو ہورہی ہے۔ اتنے میں کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا یہاں کوئی مسجد ہے؟ خاکسار کہتا ہے کہ یہاں تو نہیں لیکن یہاں سے کچھ دُور مسجد ہے اور پھر خاکسار اُن کو مسجد لے کر جاتا ہے یا مسجد کا رستہ بتاتا ہے۔
چونکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو خواب پوری کی جاسکتی ہو اسے پورا کرنا چاہیے چنانچہ خاکسار نے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ایک ہفتہ کی رخصت روم میں وقف عارضی کے طور پر گزارنے کی اجازت لی اور اپنے بھانجے عزیزم وسیم الدین احمدی کے ہمراہ اٹلی گیا۔ ملک عبدالفاطر صاحب امیر اٹلی کو وکالت تبشیر نے اطلاع کردی۔ مکرم محمد افضل صاحب صدر جماعت روم کے گھر میں ہمارا قیام تھا۔ ان ایام میں نمازیں مختلف گھروں میں باجماعت ادا کی جاتی رہیں۔ پھر امیر صاحب کی اجازت سے خاکسار نے احباب کو روم میں مسجد بنانے کی خاص تاکید کرتے ہوئے اپنی طرف سے ایک ہزار پاؤنڈ چندہ بھی دیا۔ آٹھ دس لوگ تھے لیکن پچھہتر ہزار یورو کے وعدے وہاں ہوگئے۔ الحمدللہ
روم میں Mr Francesco Zannini سے بھی ملے جو رومن کیتھولک کے معروف مذہبی کالج میں پروفیسر ہیں۔ وہ جلسہ سالانہ برطانیہ میں بھی شامل ہوچکے ہیں اور اُن کے کمرے میں اُن کی حضورانور کے ساتھ لی گئی تصویر آویزاں ہے۔ جماعت سے بہت متأثر ہیں اور اس بارے میں ایک مضمون بھی اپنے کالج کے رسالے میں شائع کرواچکے ہیں۔ انہوں نے ہمیں کئی دیگر پروفیسرز اور طلباء سے بھی ملوایا جن سے بہت مفید گفتگو کا موقع ملا۔
جیسا کہ خواب میں دیکھا تھا کہ روم میں تو نہیں لیکن کسی دوسری جگہ احمدیہ مسجد ہے۔ چنانچہ روم سے قریباً چارسو کلومیٹر دُور Bolognaکے قریب ایک جگہ خریدی گئی جو مسجد کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔
اٹلی کی مجلس شوریٰ بھی اُنہی دنوں تھی چنانچہ نمائندگانِ شوریٰ کو خطاب کرنے اور گفتگو کرنے کا بھی موقع ملا۔ مبلغ انچارج عبدالواسع طارق صاحب نے ہمیں وینس، فلورنس اور پیسا ٹاور کی سیر کروائی اور صدر صاحب روم نے Catacombes دکھانے کا انتظام کردیا۔ یہ وہ غاریں ہیں جن میں ابتدائی توحید پرست عیسائی چھپ کر اپنی اور اپنے دین کی حفاظت کرتے تھے جس کا ذکر سورۃالکہف میں آیا ہے۔ ہم نے ویٹیکن سٹی کی بھی سیر کی۔
سپین کے ساتھ ہر مسلمان کو ایک جذباتی محبت ہے کیونکہ وہاں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی۔ بعد میں مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھاکر عیسائیوں نے بہت مظالم کرکے کچھ مسلمانوں کو ماردیا اور کچھ کو زبردستی عیسائی بنالیا۔ پھر قریباً پانچ سو سال تک مسلمانوں کو یہاں مسجد بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی دعاؤں سے حالات بدلے اور آپؒ نے پانچ سو سال کے وقفے کے بعد 1980ء میں یہاں مسجد بشارت پیدروآباد کا سنگ بنیاد رکھا۔ 1982ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اس کا افتتاح فرمایا۔ اس موقع پر خاکسار نے پانچ روز وہاں جاکر افتتاح کے انتظامات میں مدد کے لیے ڈیوٹی بھی دی۔ بعدازاں ویلنسیا کے قریب احمدیہ مسجد کا افتتاح حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2013ء میں فرمایا۔ 2018ء میں خاکسار ایک ہفتے کی رخصت پر حضورانور کی اس اجازت کے ساتھ وہاں جاکر رہا کہ تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے جماعتی کام بھی کرسکے گا۔ چنانچہ مسجد کے قریبی علاقے کا سروے تیار کرنے کے علاوہ لٹریچر بھی تقسیم کیا۔
خاکسار کی پیدائش سے چند ماہ پہلے خاکسار کی والدہ مرحومہ سلیمہ باجوہ صاحبہ نے خواب میں آسمان سے یہ آواز سنی جیسے انہیں مخاطب کرکے کہا جارہا ہو کہ ہم تمہیں خالد بن ولید، محمد بن قاسم اور طاق بن زیادہ بناکر چھوڑیں گے۔ چنانچہ خاکسار کی خواہش تھی کہ اگر موقع ملے تو جبرالٹر (جبل الطارق) جاکر اذان دی جائے جہاں سے طارق بن زیاد نے یورپ میں داخل ہوکر اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ ستمبر2019ء میں خاکسار کو وہاں جاکر اپنی خواہش پوری کرنے کا موقع بھی ملا۔ ڈاکٹر اعجاز احمد صاحب جنرل سیکرٹری جماعت سپین نے جبرالٹر اور بعض دیگر مقامات کی سیر کروائی۔ بعدازاں مکرم عبدالرزاق صاحب امیر جماعت سپین نے کئی تاریخی مقامات کی سیرکروائی اور بہت سے احمدی احباب سے ملاقات بھی کروائی جن میں کئی نواحمدی بھی شامل تھے۔ قرطبہ کا پہلا مشن ہاؤس بھی باہر سے دیکھا جہاں مکرم کرم الٰہی ظفر صاحب مرحوم (ابتدائی مبلغ سپین) کی رہائش اور دفتر تھا۔ اب یہ عمارت جماعت نے خریدلی ہے۔
1975ء میں آئرلینڈ میں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشاد پر 1983ء میں قیامِ مشن کا جائزہ لینے کے لیے ایک وفد آئرلینڈ بھجوایا گیا تھا جس میں خاکسار اور مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ یوکے تھے۔ اس وقت گالوے میں صرف تین احمدی گھرانے تھے۔ اس کے بعد 1988ء میں خاکسار آئرلینڈ گیا جب گلاسگو میں متعین ہونے کی وجہ سے سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ دونوں خاکسار کے سپرد تھے۔ اسی سال گالوے میں ایک مکان حاصل کرکے احمدیہ مشن قائم کردیا گیا جس کا افتتاح 31؍مارچ1989ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے خطبہ جمعہ کے ساتھ فرمایا۔ مکرم رشید احمد ارشد صاحب پہلے مبلغ مقرر ہوئے۔ بعد میں خاکسار کو بطور نیشنل سیکرٹری تبلیغ تین بار آئرلینڈ جانے کا موقع ملا۔ 1998ء میں جب مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب امیریوکے کے ہمراہ خاکسار وہاں گیا تو وہاں کے ہسپتالوں میں بارہ سے زیادہ احمدی ڈاکٹر کام کررہے تھے۔ بعدازاں 2002ء میں آئرلینڈ کا پہلا جلسہ سالانہ ڈبلن میں مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر یوکے کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں خاکسار مع فیملی شامل ہوا۔ اس جلسے میں وہاں کے پچیس تیس ڈاکٹر صاحبان شامل تھے۔ 2009ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر بطور مرکزی نمائندہ جلسہ سالانہ آئرلینڈ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ 2014ء میں گالوے میں جماعت احمدیہ کو اس علاقے کی پہلی مسجد بنانے کی توفیق ملی اس کا افتتاح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 26؍ستمبر کو فرمایا۔ حضورانور کو آئرش پارلیمنٹ نے بھی مدعو کیا۔ حضورانور نے ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات بھی کی اور اُن کے سوالات کے جواب بھی دیے۔2015ء میں دوسری مرتبہ اور 2019ء میں تیسری دفعہ خاکسار کو جلسہ سالانہ آئرلینڈ میں مرکزی نمائندہ کے طور پر شامل ہونے کی سعادت ملی۔ 2019ء میں جماعت کی تعداد پانچ سو سے زائد ہوچکی تھی۔ جماعت بہت فعال ہے۔ گالوے کی خوبصورت مسجد مریم کے ساتھ لائبریری، مبلغ کا رہائشی مکان اور مہمانوں کے لیے بھی مکان ہے۔ اس کے علاوہ ڈبلن میں بھی ایک مشن ہاؤس اور مرکز نماز اور مبلغ کا رہائشی مکان ہے۔ آئرش نواحمدی مکرم ابراہیم نونن صاحب گالوے میں بطور مبلغ انچارج تعینات ہیں۔ جلسہ سالانہ کے علاوہ ہر سال پیس سمپوزیم اور چیرٹی واک کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ خون کا عطیہ دینے کا سالانہ پروگرام بھی ہوتا ہے۔ اس طرح آئرلینڈ کی جماعت کی ترقیات کو بالکل آغاز سے اب تک اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی توفیق ملتی رہی ہے۔
ستمبر2009ء میں خاکسار کی مسجد بیت الفتوح میں تقرری کے بعد سے اب تک گزشتہ ساڑھے دس سال میں خداتعالیٰ کے فضل سے 279؍افراد جماعت احمدیہ میں شامل ہوچکے ہیں جن کا تعلق 37؍ممالک سے ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام داعیین الی اللہ کو بھی بہترین جزاء عطا فرمائے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ ارشاد ہم سب کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر گھر پھر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچالیں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھادے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جائیں۔‘‘ (ملفوظات جلدسوم صفحہ291)
2012ء میں برطانیہ میں ملکہ الزبتھ کی بادشاہت کو ساٹھ سال پورے ہونے پر ڈئمنڈ جوبلی بڑے جوش و خروش سے منائی گئی۔ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے کئی پروگرام بنائے جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا حسن لوگوں کو دکھایا جائے۔ غیرمسلموں میں یہ تأثر پایا جاتا ہے کہ مسلمان علماء اسلام کی تعلیم یہ بتاتے ہیں کہ غیرمسلم مسلمانوں پر حاکم نہیں ہوسکتے اس لیے وہ غیرمسلم حکمران کی اطاعت کو اپنا فرض نہیں سمجھتے۔ غیرمسلموں کے اس تأثر کو بعض نام نہاد مسلمانوں کے عمل سے تقویت پہنچتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’حکام کے لیے مسلمان ہونا لازمی نہیں۔ غیرمسلم حکام بھی جب تک اسلام کی تعلیم کے خلاف کوئی حکم نہ دیں ان کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح مسلمان حکام کی۔‘‘ (ملفوظات جلداوّل صفحہ260)
ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر خاص طور پر ملکہ اور ملک کے لیے دعا کرنے کے علاوہ ملکہ کو مبارکباد کے پیغامات بسوں پر آویزاں کیے گئے۔ نیز جماعت احمدیہ کی سالانہ چیرٹی واک کے ذریعے ملکہ کی چیرٹی ڈائمنڈ جوبلی فنڈ کے لیے ایک لاکھ بیالیس ہزار پاؤنڈ کا عطیہ پیش کیا گیا جو کسی کی جانب سے دی گئی سب سے بڑی رقم تھی۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جتنی رقم بھی ملکہ کی چیرٹی میں اکٹھی ہوگی اُس میں اُتنی ہی رقم حکومت اپنی طرف سے ڈالے گی اور وہ رقم غرباء پر خرچ کی جائے گی۔ اُس سال جماعت احمدیہ نے اپنی واک سنٹرل لندن میں کی تھی جس میں دو ہزار سے زائد مسلم اور غیرمسلم افراد شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ ہر جماعت نے مقامی طور پر پبلک پارکوں میں باربی کیو کا اہتمام کیا جس میں ہمسایوں کو دعوت دی گئی۔ حکومت نے اُس سال چھ ملین درخت لگانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا جس میں جماعت احمدیہ نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ اخبارات میں تشہیر بھی ہوئی اور وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرف سے شکریہ کا خط بھی جماعت کو موصول ہوا۔
برطانیہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے جو خدمت خلق مستقل بنیادوں پر کی جاتی ہے اس میں چیرٹی واک فار پیس کا انعقاد بھی ہے جس کا آغاز 1985ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا۔ اس کے ذریعے گزشتہ 35 سال میں 5.2ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم جمع کرکے پانچ سو سے زائد چیریٹیز میں تقسیم کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ بےگھر افراد میں کھانا تقسیم کرنے کی خدمت بھی خدام الاحمدیہ کی طرف سے اکثر کی جاتی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں قریباً سات ہزار افراد میں کھانا تقسیم کیا گیا ہے۔ خاکسار بھی کئی بار خدام کے ساتھ اس خدمت کے لیے سنٹرل لندن گیا ہے۔ اسی طرح ریٹائرڈ فوجیوں اور اُن کے لواحقین کی امداد کے لیے قائم پوپی اپیل کے تحت ہر سال رقم اکٹھی کرکے دی جاتی ہے۔ اب تک جماعت کی طرف سے ساڑھے آٹھ لاکھ پاؤنڈ سے زائد رقم پیش کی جاچکی ہے۔ 2020ء میں کرونا وائرس کی وبا میں بھی جب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ساری جماعت کو ہدایت فرمائی کہ دعاؤں کے علاوہ اپنے اپنے ملک میں ہرممکن ضرورتمندوں کی مدد کریں تو یوکے میں خدام نے مقامی کونسلوں میں اپنے نام بطور رضاکار درج کروائے جنہیں بڑی عمر کے افراد تک خوراک اور ادویات پہنچانے کا کام سونپا جاتا تھا۔
2017ء میں بیت الفتوح میں ایک پاکستانی نوجوان آئے جو الازھر یونیورسٹی مصر میں زیرتعلیم تھے اور جماعت احمدیہ کے متعلق مقالہ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں احمدیہ لٹریچر کے مطالعہ سے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اگر آنحضرتﷺ کو احمدی خاتم النبیین مانتے ہیں تو پھر مرزا غلام احمد صاحب کو نبی کیونکر مانتے ہیں۔ خاکسار نے اُن سے پوچھا کہ آپ عربی جانتے ہیں۔ خاتم مضاف ہے اور النبیین مضاف الیہ ہے جس کے معنے ہوئے نبیوں کی مُہر۔ یہ الفاظ آنحضورﷺ کے بلند مرتبہ کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں، آپ مجھے عربی کی کسی کتاب سے کوئی ایسی مثال دیں جس میں خاتم کا لفظ مضاف ہو اور النبیین کی بجائے کوئی اَور صاحبِ فضیلت گروہ مضاف الیہ ہو اور پھر اس میں خاتم کا معنی زمانہ کے لحاظ سے آخری ہو۔ وہ صاحب علم اور دیانتدار تھے اس لیے پوری طرح اتفاق کیا۔ اس کے بعد خاکسار نے اُن کو حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام سے آنحضورﷺ کی شان میں کچھ ارشادات سنائے اور اپنی کتاب ’’تبلیغی گائیڈ‘‘ دی کہ اس میں خاتم کے معانی کے ساتھ 41 مستند حوالے موجود ہیں۔
17؍اپریل2015ء کو مچم کے علاقے میں ایک ہال میں لیبر پارٹی نے ایک ڈنر کا اہتمام کیا جس میں علاقے کے اہم لوگ مدعو تھے۔ برطانیہ کے تین بار وزیراعظم رہنے والے ٹونی بلیئر مہمان خصوصی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو بھی دعوت دی گئی۔ خاکسار چند دوستوں کے ساتھ تقریب میں شامل ہوا۔ کھانے کے بعد تمام وفود کو باری باری مہمان خصوصی سے ملایا گیا۔ خاکسار نے جماعت احمدیہ اور مسجد بیت الفتوح کا تعارف کرانے کے بعد موصوف کو قرآن کریم (ترجمہ و تفسیر ازمحترم ملک غلام فرید صاحب) تحفہ کے طور پر پیش کیا۔ موصوف نے بڑے تپاک سے ملاقات کی اور تحفہ قبول کرکے یہ بھی کہا کہ مَیں قرآن کریم کو روزانہ پڑھتا ہوں۔ اس سے قبل انہوں نے کئی اخبارات کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی اسی بات کا اقرار کیا۔ انٹرنیٹ پر یہ خبر بھی موجود ہے کہ اُن کی نسبتی ہمشیرہ Lauren Booth نے اکتوبر2010ء میں اسلام قبول کرلیا تھا اور حجاب بھی پہنتی ہیں۔
بریڈفورڈ میں ایک بار ایک الیکٹریشن کو کام کے سلسلے میں بلایا۔ وہ انگریز تھا۔ کام ختم کرنے کے بعد میری چائے کی دعوت اُس نے قبول کی تو دوران گفتگو مَیں نے پوچھا کہ کیا وہ قرآن کریم دیکھنا پسند کرے گا۔ وہ کہنے لگا کہ مَیں نہ صرف دیکھنا چاہتا ہوں بلکہ پڑھنا بھی چاہتا ہوں۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ وہ کیتھولک ہے اور ٹونی بلیئر بھی کیتھولک ہے اور اُس نے کہا ہے کہ وہ روزانہ قرآن کریم پڑھتا ہے اس لیے مَیں بھی پڑھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اُسے قرآن کریم مع ترجمہ و تفسیر تحفۃً دیا جس پر وہ بہت خوش ہوا۔

26؍ستمبر2015ء کو بیت الفتوح سے ملحقہ عمارت میں ایک بچے کی بےاحتیاطی کی وجہ سے آگ لگ گئی اور عمارت کا کافی حصہ متأثر ہوا۔ لیکن معجزہ یہ تھا کہ تیزی سے پھیلنے والی آگ کے باوجود کوئی زخمی نہیں ہوا نیز مسجد اور طاہر ہال کے علاوہ ایم ٹی اے کے دفاتر اور سٹوڈیوز، لائبریری اور نمائش ہال محفوظ رہے جہاں بڑی نایاب اور قیمتی اشیاء تھیں۔ عمارت کا پرانا حصہ متأثر ہوا۔ حضورانور نے اس حوالے سے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ ان شاءاللہ اب جو نئی بلڈنگ بنے گی وہ پہلی بلڈنگ سے کئی گنا بہتر ہوگی اور ہماری ضرورتوں کے مطابق ہوگی اور جب مکمل ہوگی تو ہم سبحان اللہ اور ماشاءاللہ کہیں گے۔
میرے لیے ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ میرا دفتر اُس کمرے کے بالکل اوپر تھا جس میں آگ لگی تھی۔ آگ لگنے سے گیارہ روز قبل نماز فجر کے وقت میری طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور خاکسار نے ایک ہفتے کی رخصت کی درخواست لکھی تو دل میں ڈالا گیا کہ یہ کافی نہیں۔ چنانچہ دو ہفتے کی رخصت لے کر خاکسار لیسٹر اپنی ہمشیرہ کے پاس چلاگیا۔ وہاں مَیں بالکل ٹھیک تھا، نمازیں بھی پڑھاتا اور درس بھی دیتا رہا۔ لوگ بھی حیران تھے اور خاکسار خود بھی حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ آخر یہ بات آگ لگنے کے بعد سمجھ آئی کیونکہ آگ لگنے کی صورت میں مجھے اس کا علم نہیں ہوسکتا تھا اور آگ نے سب سے پہلے اوپر میرے دفتر کو لپیٹ میں لینا تھا۔ خاکسار کو اُس وقت حضرت مسیح موعودؑ کا وہ الہام بھی یاد آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اپنی وہ خواب بھی یاد آئی جو خاکسار نے تقریباً 19 سال کی عمر میں جامعہ جانے سے پہلے دیکھی تھی کہ خاکسار کو حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپؑ نے دریافت فرمایا: آپ کون ہیں؟ خاکسار نے عرض کیا: آپ کا غلام۔ اس پر آسمان سے آواز آئی: ’’غلاموں کا غلام‘‘۔
بیت الفتوح کے متأثرہ حصے کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 4؍مارچ2018ء کو رکھا۔ خاکسار کو بھی اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس حوالے سے جب مالی تحریک پر کئی ملین پاؤنڈ کی رقم پیش کی گئی۔ چنانچہ بائیس ملین پاؤنڈ کی لاگت سے نئی تیار ہونے والی عمارت کا افتتاح 4؍مارچ2023ء کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے پاکستان سے لندن ہجرت کے بعد ایک نئے یورپین سنٹر کے لیے پانچ لاکھ پاؤنڈ کی تحریک فرمائی۔ احباب نے جوش و خروش سے لبیک کہا اور چھ ماہ کے اندر 10؍ستمبر 1984ء کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) کا 25؍ایکڑ رقبہ مع عمارت خرید لیا گیا۔ بعد میں چھ ایکڑ مزید خرید کر اس میں شامل کیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر 2005ء میں آلٹن میں 208؍ایکڑ رقبہ خریدا جس کا نام حدیقۃالمہدی تجویز فرمایا۔ 2019ء میں حضورانور نے اسلام آباد میں نئی تعمیرات کا افتتاح فرمایا جس میں مسجد مبارک کے علاوہ قصرخلافت، مسرور ہال، متعدد دفاتر اور کارکنان کے لیے تیس مکانات بھی تعمیر کیے گئے تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی شفقتوں کا شمار کرنا مشکل ہے۔ مثلاً ایک بار بیمار تھا کہ مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب تشریف لائے اور بتایا کہ نماز جمعہ کے بعد حضورانور نے اُنہیں بلاکر میرا حال پوچھنے کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک جمعہ میں جب مَیں شدید کھانسی کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکا تو حضورانور نے اپنے دفتر جاکر کسی سے پوچھا کہ کیا نسیم باجوہ صاحب جمعہ میں تھے۔ عرض کیا گیا کہ غالباً تھے۔ حضورانور نے فرمایا کہ وہ وہاں پر نہیں نظر آئے جہاں وہ بیٹھتے ہیں۔ جب مجھے یہ اطلاع ملی تو خاکسار نے خط میں صورتحال لکھ کر دعا کی درخواست کی۔
2009ء میں حضورانور نے خاکسار کو ایک خوبصورت شیروانی کا تحفہ عنایت فرمایا۔ 2010ء میں حضورانور نے خاکسار کو اَلَیْسَ اللّٰہ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی انگوٹھی عنایت فرمائی۔ 2013ء میں ایک آرام دہ جائے نماز عطا فرمایا۔ کرونا کے دوران حضورانور نے مبلغین کو عطیہ عطا فرمایا اور خاکسار کو بھی چارصد پاؤنڈ بھجوائے۔
کرونا کی وبا کے نتیجے میں اجتماعی تربیتی پروگراموں کی جگہ بہت سے آن لائن پروگراموں نے لے لی۔ چنانچہ 2020ء میں لجنہ اماءاللہ بیت الفتوح کی تجویز پر ہفتے میں چار روز ایک گھنٹے کی قرآن کریم کا لفظی ترجمہ اور مختصر تفسیر سکھانے کی کلاس شروع کی گئی۔ یہ کلاس خدا کے فضل سے اتنی مقبول ہوئی کہ صدران جماعت اور ذیلی تنظیموں کے ذریعے شرکاء میں اضافہ ہونے لگا کہ ہمیں اپنا کنٹریکٹ بھی بڑا کرنا پڑا۔ بعض شرکاء نے دیگر ممالک میں مقیم اپنے عزیزوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہا تو حضورانور کی اجازت سے ایسا کیا گیا۔ چنانچہ تیس ممالک سے احباب اس کلاس میں شامل ہوتے ہیں۔
ایّام کرونا کے ایام ایک پہلو سے آفت تھے اور دوسری طرف ہمیں ترقی کی کئی نئی راہوں پر بھی گامزن کرگئے۔ ان میں سے ایک دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے احمدیوں کی حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے virtual ملاقاتوں کا موقع میسر آنا بھی ہے۔ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی صدسالہ جوبلی 2025ء میں ہورہی ہے۔ جنوری 2021ء میں ایک ورچوایل ملاقات میں حضورانور نے انڈونیشیا جماعت کو آئندہ پانچ سال کے لیے ایک لاکھ بیعتوں کا ٹارگٹ دیا۔ جب اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے طریقہ دریافت کیا گیا تو حضورانور نے تبلیغ کے ساتھ چار باتیں کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اوّل:نماز باجماعت ادا کریں۔ دوم:ہرروز باقاعدہ صبح کو تلاوت کریں۔ سوم:خلافت سے مضبوط تعلق قائم کریں۔ چہارم:کثرت سے آنحضرتﷺ پر درود بھیجیں۔
انہی دنوں ناظم انصاراللہ بیت الفتوح ریجن نے خاکسار سے کہا کہ گزشتہ پانچ سال سے اُن کے ریجن میں کوئی بیعت نہیں ہوئی۔ اس پر ایک پروگرام کے تحت تبلیغ ٹریننگ کلاسوں کا پروگرام بنایا گیا۔ پہلی کلاس میں 24؍انصار شامل ہوئے۔ خاکسار نے بیعتوں کے حصول کے لیے اُن سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ کبھی نماز نہیں چھوڑیں گے اور حتی الوسع تہجد بھی ادا کریں گے اور اس میں دعا کریں گے۔ دوسرے حضورانور کی خدمت میں ہر ہفتہ دعائیہ خط لکھیں گے۔ تیسرے روزانہ اس کام کے لیے صدقہ دیں گے۔ اسی طرح حضورانور کی ہدایت کے مطابق ہر شخص اپنے اردگرد کے دس ہمسایوں کو تحفہ دے، جماعت کا تعارف کروائے اور کوئی کتاب بھی دے۔ اس کے بعد سب نے بیس منٹ اجتماعی دعا بھی کی۔
خاکسار نے حضورانور کی خدمت میں ساری بات لکھ کر یہ دعا کی درخواست کی کہ بیت الفتوح جماعت میں بھی کوئی ایسا انگریز بیعت کرے جو جماعت سے مضبوط تعلق رکھنے والا ہو۔ خاکسار ہر ہفتے اس غرض کے لیے دعا کے لیے خدمت اقدس میں لکھتا رہا اور اپنے ہمسایوں کو تحفہ کے ساتھ کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ بھی دی۔ خداتعالیٰ نے اپنے خلیفہ کی دعاؤں کو سنا اور پانچ ہفتوں بعد ایک انگریز خاتون رابعہ صاحبہ نے بیعت کرلی۔ وہ ایم اے ہیں اور ایک سکول کی پرنسپل رہ چکی ہیں۔ احمدی ہونے کے بعد باقاعدہ نومبائعین کی کلاسوں میں شامل ہوتی ہیں۔ یہ پھل عین اُس دعا کی درخواست کے مطابق ملا جو ہم نے حضورانور کی خدمت میں تحریر کی تھی۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے مزید کئی بیعتیں عطا فرمائیں۔ الحمدللہ
زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور مختلف حالات پیش آتے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ کے بندے مصائب و آلام کو بھی برنگ انعام دیکھتے ہیں۔ پس کسی آفت کے آنے پر خداتعالیٰ سے دُور جانے کی بجائے خداتعالیٰ کے قریب ہونا چاہیے اور مدد مانگنی چاہیے۔ ذیل میں سولہ ایسے نسخے درج ہیں جن پر عمل کرنے سے خداتعالیٰ کے فضل سے مصائب نہ صرف دُور ہوتے ہیں بلکہ مصائب سے محفوظ رہنے میں مدد ملتی ہے۔
1۔ بلاناغہ پنجوقتہ نماز اور نماز تہجد:اگر کسی وقت نماز وقت پر ادا نہ کی جاسکے تو جلدازجلد قضا کرکے پڑھ لی جائے اور کثرت سے استغفار کیا جائے۔ اسی طرح اگر نماز تہجد باوجود کوشش کے رہ جائے تو سورج نکلنے کے بعد دو رکعات نفل پڑھ کر استغفار کیا جائے۔ نماز تہجد میں رو رو کر دعا کرنی چاہیے کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ جس کو چوبیس گھنٹے میں اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دفعہ بھی رونا نہیں آتا اُس کا ایمان خطرے کی حالت میں ہے۔
2۔روزانہ قرآن کریم کی تلاوت ترجمہ اور تدبّر کے ساتھ کی جائے۔ قرآن کریم پر عمل کرنے کا جائزہ لیا جائے اور اس کے لیے دعا کی جائے۔
3۔حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’الوصیت‘‘ کا مطالعہ کرکے نظام وصیت میں شامل ہوا جائے نیز دوسروں کو بھی یہ کتاب دے کر وصیت کی تحریک کی جائے۔
4۔روزانہ صبح حسب توفیق صدقہ دیا جائے۔ جب کوئی بڑی مشکل ہو تو صدقہ بکرا دیا جائے۔
5۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص یہ دعا تین دفعہ صبح اور تین دفعہ شام پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کو اُس دن اور رات اچانک آنے والے مصائب سے بچائے گا: بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِعِہٖ شَیْئٌ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
6۔ روزانہ استخارہ کی دعا کے ساتھ دو نفل ادا کریں۔
7۔ روزانہ یہ قرآنی دعا پڑھیں: رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان:75)
8۔ یہ دعا کثرت سے پڑھیں: یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔
9۔ آنحضورﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کی کتب کا مطالعہ کریں اور ان کے اسوۂ حسنہ پر عمل کریں خاص طور پر گھریلو معاملات میں۔
10۔ شرائط بیعت کا خلاصہ یاد کرکے ان پر عمل کریں۔ اس میں بکثرت درودشریف پڑھنے کی بھی تاکید ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّد۔ (الہام حضرت مسیح موعودؑ)
11۔ عہد بیعت کا خلاصہ یاد کرکے اس پر عمل کریں۔ اس میں درج استغفار کی دونوں دعاؤں کو بکثرت پڑھیں۔
12۔ حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات باقاعدگی سے سن کر ان کے نوٹس لے کر ان پر عمل کریں اور غیرازجماعت دوستوں تک بھی پہنچائیں تاکہ تبلیغ کا فریضہ بھی ادا ہو۔
13۔ حضورانور کو ہر ہفتہ دعا کے لیے خط لکھ کر اپنے مختصر مسائل بتائیں اور اپنی تبلیغی کوششوں کا بھی ذکر کریں۔ یہ امر حضورانور کے دل میں دعا کی تحریک پیدا کرے گا۔
14۔ روزانہ صبح و شام سیدالاستغفار پڑھیں۔
15۔ صحت اجازت دے تو ہر ہفتہ نفلی روزہ رکھیں۔
16۔ تبلیغ کرنے والوں کی دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت قرآن کریم میں دی گئی ہے۔ اس میں کامیابی کے لیے یہ دعا بھی پڑھیں: رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ۔ وَیَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ۔ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ۔ یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ۔
قارئین کرام! اس ضخیم کتاب سے صرف منتخب موضوعات اور اہم دلچسپ واقعات ہی نہایت اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیے جاسکے ہیں۔ اس تعارف کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ قارئین کو اس کتاب کے مندرجات کا اندازہ ہوجائے اور اس کی افادیت کے پیش نظر دلچسپی رکھنے والے احباب اور خصوصاً داعیان الی اللہ اس کا مطالعہ کرکے اپنے علم میں اضافہ اور میدان عمل میں نئی راہوں کا تعیّن کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ موصوف کو اس کاوش کی بہترین جزا عطا فرمائے اور آپ کے علم و عمل اور صحت و زندگی میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
(یہ کتاب مسجد بیت الفتوح میں واقع احمدیہ بُک شاپ سے بھی دستیاب ہے۔)
مکرم نسیم باجوہ صاحب کی ضخیم کتاب کا خلاصہ بہت محنت سے تیار کیا گیا ہے۔ اور بہت دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ جزاکم اللہ تعالی احسن الجزا