جلسہ سالانہ برطانیہ 2010ء کے موقع پرسیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کا خواتین سے خطاب
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
جلسہ سالانہ برطانیہ 2010ء کے موقع پر31 جولائی 2010ء بروز ہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (آلٹن۔یوکے)سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کا
خواتین سے خطاب اور نہایت اہم نصائح
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْن۔
دنیا میںجب تقویٰ مفقود ہو جاتا ہے، ختم ہو جاتا ہے، برائیاں پھیل جاتی ہیں، نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے، اُس وقت خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان کرتے ہوئے اپنے فرستادوں اور انبیا ء کو بھیجتا ہے تاکہ وہ اﷲ تعالیٰ سے براہ ِراست ہدایت پا کر بندوں کو اپنے مقصدِ پیدائش کی پہچان کروائیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اور پھر اِس زمانے میں آپ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت تک یہی ہم دیکھتے ہیں۔ الٰہی کتابیں اور تاریخِ آدم ہمیں اِنہی حالات کی خبر دیتے ہوئے خدا تعالیٰ کے انبیا ء کی بعثت کا پتہ دیتی ہیں جنہوں نے اپنی قوموں کی بگڑی ہوئی حالت کو سنوارنے کے لئے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر روحانی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ سعید فطرتوں نے انہیں مانا، تقویٰ پر قدم مارا اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں میں شامل ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بنے۔ لیکن ایک تعداد اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے اِن انبیا ء کی منکر بن کر قومی تنزل اور تباہی کی مورد بھی بنی۔ بہرحال انبیا ء کی بعثت کا یہ سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تک تو قومی اورعلاقائی سطح تک رہا لیکن جب انسانِ کامل اور خاتم الانبیا ء کی بعثت کا وقت آیا تو قومی اور علاقائی حدود کی تفریق ختم ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل انسانیت کے لئے مبعوث ہو کر آئے۔ یہ جو تلاوت آپ نے ابھی سنی ہے اِس میں بھی اِسی بات کا ذکر ہے۔
ایک آیت میں یَا اَیُّھَا النَّاسْ کہہ کر کُل انسانیت کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اِس نبی کے ماننے اور اِس پر نازل ہوئی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے میں ہی تمہاری بقا ہے۔ اور یہی تعلیم ہے جس سے تمہاری دنیا و آخر ت سنور سکتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اَلنَّاسْ کہنے کے بعد مزید وسعت دینے کے لئے بتایا کہ اے وہ سب لوگو! جو مختلف قوموں اور قبیلوں کی صورت میں دنیا میں بستے ہو ، یاد رکھو کہ تمہارے قبیلے اور تمہاری قومیں تمہاری پہچان تو ہیں لیکن تمہاری بڑائی کی سند نہیں ہیں۔ ہاں تمہارا تقویٰ اور عمل ہیں جو تمہیں خدا تعالیٰ کی رضا کا حامل بنا سکتے ہیں۔ جو متقی ہے اور تقویٰ کو حاصل کرنے کے لئے اِس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے جو کُل انسانیت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا اور آپؐ سے کہا کہ یہ اعلان کر دیں کہ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا(الاعراف: 159) کہ کہہ دے کہ اے لوگو، اے دنیا میں بسنے والے تمام انسانو ! میں تم سب کی طرف اﷲ تعالیٰ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اِس رسول کی کامل فرمانبرداری بھی ضروری ہے۔ کامل اطاعت بھی ضروری ہے۔ تقویٰ کے معیار حاصل کرکے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو اِس رسول کی پیروی کرنی ضروری ہے۔ ورنہ نہ تمہارا خاندان ، نہ تمہاری دولت ، نہ تمہاری اولاد ، نہ تمہارا بلند مرتبہ ،نہ تمہارا گروہ، نہ تمہاری قوم نہ حکومت، کوئی چیز بھی تمہیں اﷲ تعالیٰ کی رضا کا حامل نہیں بنا سکتی۔ اگر کوئی چیز کسی انسان کو دنیا و آخرت میں اﷲ تعالیٰ کی گرفت سے بچا سکتی ہے تو وہ تقویٰ ہے اور اب کیونکہ یہ کامل شریعت جو آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم پر اُتری ہے اِس نے تا قیامت قائم رہناہے، کوئی نئی تعلیم اور کوئی نئی شریعت دنیا میں نہیں آ سکتی اور تمام پرانی شریعتوں کی خوبیو ں کو بھی اِس کامل شریعت نے اپنے اندر سمو لیا ہے۔ اِس لئے انسان کے لئے سوائے اِس کی پیروی کے اَور کوئی چارہ باقی نہیں ہے۔
پس خوش قسمت ہیں ہم جو اِس آخری اور کامل نبیصلی اللہ علیہ وسلمپر ایمان لانے والے ہیں اور آپ کی شریعت پر یقین رکھتے ہیں جو دنیا کی نجات کا باعث ہے لیکن ایمان کا دعویٰ کرنے اور خدا تعالیٰ پر یقین رکھنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ جب یہ دعویٰ کرتا ہے تو پھر اپنی زندگی کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالے اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کرے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمکے اقوال کی پابندی کرے۔ قرآن کریم اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمکی پیشگوئیوں کے مطابق ہی اِس زمانے میں آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے جو قرآنی علوم و معارف اﷲ تعالیٰ سے ہدایت پا کر ہم پر کھولے ہیں اُن کو پڑھے ، سُنے، سمجھے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ چیزیں تقویٰ کی طرف لے جانے والی ہیں۔ تقویٰ کے معیار بلند کرنے والی ہیں۔ ایک مومن اور غیر مومن میں فرق کرنے والی ہیں کیونکہ زمانے کے امام کو مان کر اُس کی بات پر لبیک کہنا بھی آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں شامل ہے اِس لئے آپؑ کی بات ماننا انتہائی ضروری ہے۔ آپؑ حَکم اور عدل بنا کر بھیجے گئے ہیں، اور پھر نہ صرف یہ کہ ہمیں جو احمدی مسلمان ہیں، یہ حکم ہے کہ اپنے تقویٰ کے معیار بلند کر کے اسوۂ رسولصلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں بلکہ قُلْ کہہ کر جس کے پہلے مخاطب بے شک آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں آپؐ کو حکم دیا گیا ہے کہ دنیا کو بتا دیں کہ میں تمام دنیا کے ا نسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ا ِس لئے تقویٰ کے معیار وہی ہیں جو میں نے قائم کئے ہیں اور جو میں نے تمہیں بتائے ہیں جو میرے اوپر اتری ہوئی تعلیم میں خدا تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔ اب تقویٰ کے حصول کا یہی ذریعہ اپنا ؤ گے تو انسانیت کی بقا ہے۔ لیکن آپ کے اِس اعلان کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی بھی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ جب تم ایمان لے آئے ہو اور قرآن کریم میں ’ قُلْ‘ کا لفظ پڑھتے ہوتو تمہارے پر بھی یہ فرض ہے کہ دنیا کو بتاؤ کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے محبوب ترین ہیںاور تا قیامت خدا تعالیٰ کا آپ جیسا کوئی محبوب پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِس لئے اِس پیارے کی پناہ میں آؤکہ اِس کے سوا تقویٰ ممکن نہیں ہے۔ اِس کے سوا خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ جب ہم دنیا کو اِس پیغام کی طرف بلا کر تقویٰ پر چلنے کی تلقین کررہے ہوں گے تو ہمارے پر کس قدر یہ فرض بنتا ہے کہ اِس تعلیم کو اپنی زندگیوں میں لاگو کریں ، اپنے آپ پر لاگو کریں۔ ورنہ ہمارا ایمان اور اسلام کا دعویٰ بے وقعت ہو گا،اِس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔
تقویٰ کیا ہے ؟ ہم یہ لفظ اکثر استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کو اِس کے معنی پتہ ہوں گے ا ور کچھ اِس کے صرف سطحی معنی جانتے ہوں گے۔ تقویٰ ہے اﷲ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے برائی سے بچنا اور نیکیوں پر قدم مارتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنا۔ کسی نے تقویٰ کی تعریف اِس طرح کی ہے کہ چھوٹے بڑے گناہوں سے اِس طرح بچنا جیسے کسی کانٹے دار جھاڑیوں والے راستے سے انسان گزر رہا ہو اور اپنے کپڑوں کو احتیاط سے اِس طرح بچائے کہ کہیں کوئی کانٹا کپڑے کے کسی حصے میں پھنس کر اُسے پھاڑ نہ دے یا کوئی کپڑے کا دھاگہ باہر نہ نکل آئے اور عورتیں تو خاص طور پر کپڑوں کی بڑی احتیاط کرتی ہیں۔ جس کپڑے میں نقص پیدا ہو جائے یا کپڑا اُلجھنے کی وجہ سے کسی کا وقت ضائع ہونے لگے تو اکثر یہ صورت حال بڑی تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ یا بعض دفعہ خاردار جھاڑیاں اُلجھ کر اور کپڑوں سے گزر کر اُن کو زخمی بھی کردیتی ہیں۔ اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے جب آدمی کانٹے نکال رہا ہوتا ہے تو ہاتھ بھی زخمی کر لیتا ہے۔ اس لئے بھی انسان ایسی جگہوں سے بچ بچ کر گزرتا ہے۔ غرض ذرا سی بے احتیاطی بھی ایسے راستوں پر چلنے والے کو کئی پریشانیوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ پس یہ احتیاط ہے جو چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنے کے لئے ایک مومن پر فرض ہے ، ایک مومنہ پر فرض ہے اور پھر ایک احمدی مسلمان جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمانے کے امام کے حصار میں آ کر میں محفوظ ہو گیا ہوں، اُسے تو اِس حصار میں رہنے کے لئے سر توڑ کوشش کرنی چاہئے۔ پس کیا احمدی مرد اور کیا احمدی عورت ہر ایک کا فرض ہے کہ اِس حصار میں رہنے کی ہر ممکن کوشش کرے تاکہ شیطان سے محفوظ رہے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا رہے۔ جہاں کسی نے تقویٰ سے باہر قدم نکالنے کی کوشش کی یا تقویٰ سے باہر نکل کر کسی عمل کی کوشش کی تو وہاں وہ خوداپنے اس حصار کو توڑ کرباہر نکل گیا۔ اور پھر جب خود باہر نکل گیا تو اُن برکات سے بھی محروم ہونا شروع ہوگیا جن کا اللہ تعالیٰ نے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ جڑنے سے اور جڑے رہنے سے وعدہ فرمایا ہے۔ پس نیکیوں پر قدم مارنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے ایک مسلسل کوشش اوردُعا کی ضرورت ہے۔ اِس سے جہاں ہم خود اﷲ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے والے بنیں گے وہاں تبلیغ کا بھی حق ادا کر رہے ہوں گے۔
جیسا کہ مَیں نے کل تقریر میں بھی کہا تھا ، یہی توجہ دلا رہا ہوں کہ جلسے میں شامل ہونے کے ہمارے کچھ مقاصد ہیں اور جن میں سے سب سے اہم مقصد تقویٰ میں ترقی کرنا اور اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہے۔ اسی طرف جیسا کہ میں نے کہا کہ میں اکثر توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ ہمارے جلسوں، اجتماعوں اور لجنہ کے دوسرے پروگراموں میں شمولیت صرف ایک جگہ جمع ہونے کے لئے نہیں ہے جہاں ہمیں باتیں کرنے کا، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے کا موقع مل جائے ، تھوڑی دیر تفریح کرنے کا موقع مل جائے، پرانی بچھڑی ہوئی سہیلیوں سے ملنے کا موقع مل جائے۔ بلکہ ایک حقیقی مومنہ اور ایک حقیقی مسلمہ اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ میں نے اِس جلسے میں آکر جو کچھ سننا ہے اُس پر عمل کرنا ہے، اُسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے اور نہ صرف اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے بلکہ ایک احمدی مسلمان عورت کے ذمہّ اولاد کی تربیت کی جو ذمہ داری لگائی گئی ہے اُسے بھی کما حقہٗ پورا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اپنی اولاد کی بھی نیک تربیت کرنی ہے۔ اُس کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے ، اُس کی عبادات کی نگرانی کرنی ہے تاکہ بڑے ہوتے تک وہ خدائے واحد کی عبادت کرنے میں پکا ہوجائے۔ نیکیوں کے کرنے کی طرف اُسے توجہ دلاتے رہنا ہے تاکہ پختہ عمر کو پہنچنے تک اُس کا ہر عمل عملِ صالح بن جائے۔ غلط قسم کے لوگوں میں اُٹھنابیٹھنانہ ہو۔ غلط قسم کی حرکتوں میں ملوث نہ ہو۔ اور پھر یہ کہ بحیثیت ایک احمدی، ہر احمدی مرد اور عورت احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا سفیر اور داعی ا لی اﷲ ہے۔ اور خاص طور پر عورتوں کے لئے جنہوں نے اپنی نسل کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ یہ بات بھی ہر وقت مدّ نظر رہنی چاہئے۔ اِس لئے اُس کے عمل صرف اُس کی ذات تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ بھی بننے والے ہیں۔ اِسلام کی تصویر دوسروں کے سامنے پیش کرنے کا ذریعہ بننے والے ہیں۔ پس کبھی اپنے کسی عمل سے دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں۔ پس ایک احمدی مومن مرد اور عورت کے لئے اور ایک احمدی مسلم مرد اور عورت کے لئے اپنی حالتوں کے ہر وقت جائزے لینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
یہ دنیا خار دار جھاڑیوں کا ایک راستہ ہے۔ اِس میں سے گزرتے ہوئے اپنے کپڑوں کو اُ لجھنے سے بچانے اور پھٹنے اور اپنے ننگ کو ظاہر ہونے سے بچانے کے لئے ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ آجکل کی آزاد تعلیم نے غلط راستوں اور روشوں پر ایک طبقے کو ڈال دیا ہے۔ ایک طرف تو وہ احمدی ہونے کی باتیں کرتی ہیں اور دوسری طرف دنیاوی حملوں سے بچنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتیں۔اور جیسا کہ میں نے کہا ہمارے گرد ایک حصار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے گرد پیدا کیا گیا ہے، اُس حصار کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہمیں عطا ہوا ہے۔ ایک طرف تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے یعنی ہم اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی یہ آخری اور کامل تعلیم ہے جس سے اِدھر اُدھر ہونا انسان کو اﷲ تعالیٰ کی رضا سے دُور کر دیتا ہے اور دوسری طرف اِس کی غلط قسم کی تاویلیں بھی کرتے ہیں، اِس سے دُور جا رہے ہیں یعنی دل سے تصدیق کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور دل میں وسوسے بھی پیدا ہو رہے ہیں یا اگر وسوسے پیدا نہیں ہو رہے تو شیطان کا غلبہ بڑھ کر ہو رہا ہے یا شیطان اُس شخص پر غالب ہو نے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف اﷲ تعالیٰ سے محبت کا بھی دعویٰ ہو ، تقویٰ کا بھی دعویٰ ہو، اور دوسری طرف اُس تعلیم پر عمل نہ کر کے انسان شیطان کی گود میں بھی گر رہا ہو۔ پھر جب دل یہ تصدیق کر دیتا ہے کہ میں کامل ایمان لاتا ہوں تو دل میں اِس تعلیم کے پختگی سے قائم ہونے کے بعد زبا ن سے اِس کا اظہار بھی بہت ضروری ہے۔ پھر اپنے عمل سے بھی اِس کا اظہار بہت ضروری ہے۔ پس مومن اُس وقت تک حقیقی مومن نہیں بنتا جب تک زبان اور عمل سے اُس کے ہر قول و فعل کا اظہار نہ ہو رہا ہو۔ اِس یقین پر قائم ہوتے ہوئے جب تک وہ اپنی ہر حرکت و سکون کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرے جس پر ایمان لاتا ہے اور تمام احکام پر کامل فرمانبرداری سے عمل کرنے کی کوشش نہ کرے اُس وقت تک ایمان میں ترقی نہیں ہوتی۔
سب سے پہلے ایک مومن اور مومنہ کی جو ذمہ داری ہے وہ اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچاننا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اِس بارے میں فرماتا ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) اور مَیں نے جنوں اور انسانوں کو اِس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے بندے بن جائیں۔ اور بندے کون ہیں ؟یہ وہ سچے غلام ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے خدا پر ایمان لاتے ہوئے اُس کے کامل فرمانبردار ہیں۔ اُس کی اس طرح عبادت کرنے والے ہیں جو عبادت کرنے کا حق ہے جیسا کہ میں نے کل بھی بتایا تھا۔ اب ہر کوئی یہ تو کہتا ہے کہ ہم خدا کے بندے ہیں لیکن کتنے ہیں جو اِس کامل فرمانبرداری کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے مقصدِ پیدائش کے حصول کے لئے قدم بڑھاتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے تمہیں اِس لئے پیدا کیا ہے کہ میرے بندے بن جاؤ۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ بظاہر ایمان لانے والوں میں سے بھی ایسے لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں اُ س کے حقیقی بندے نہیں ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے پر ایمان لانے کا دعویٰ کرنے والوں کو کامل فرمانبردار بنانا چاہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے بندے اُس کے سامنے اِس طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے چاہئیں جس طرح مالک کے سامنے غلام کھڑا ہوتا ہے۔ ہم ایک انسان ہوتے ہوئے یہ تو چاہتے ہیں کہ ہمارے ملازم، ہمارے ماتحت، ہمارے چھوٹے ہماری باتوں کو مانیں لیکن وہ خدا جو ربّ العالمین ہے اُس کے احکامات کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں کہ ہمیں اِن احکامات پر حرفًا حرفاً عمل کرنا چاہئے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں اور اِ س میں حقِ بندگی ادا کرنے کے لئے سب سے پہلا حکم اﷲ تعالیٰ کی عبادت کا ہے۔ اگر آپ اپنے جائزے لیں تو خود نظر آئے گا کہ جماعت میں بھی مردوں اور عورتوں کی ایک تعداد ایسی ہے جسے تھوڑا بھی نہیں کہا جا سکتا جو مستقل مزاجی سے اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کرتی ، اپنے بچوں کی نمازوں کی نگرانی نہیں کرتی۔
آج پاکستان میں جو واقعات مسجد میں ہوئے ہیں اِن سے ایک طبقے کو اِس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اور پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔ خدا کرے کہ یہ توجہ مستقل قائم رہے۔ ان حالات میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں، اِس میں مرد بھی شامل ہیں، جن کو خدا تعالیٰ کی طرف وہ توجہ نہیں پیدا ہوئی جو ہونی چاہئے۔ اُنہیں اپنے دلوں کی تسکین، اپنے شوق اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ بعض یا تو نمازیں چھوڑ دیتی ہیں یا قضا ء کر کے نمازیں پڑھتی ہیں۔ نمازیں توجہ سے نہیں پڑھی جاتیں۔ ایک بوجھ سمجھ کر گلے سے اتارا جاتا ہے۔ پس اگر اﷲ تعالیٰ کا حقِ بندگی ادا کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنی نمازوں کی حفاظت اور اپنے بچوں کی نمازوں کی حفاظت ضروری ہے۔ جب نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو دنیا داری اور کھیل کود اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں خود بخود کمی آ جائے گی۔
اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اخلاص میں بڑھنے والی اور حق بندگی ادا کرنے کی کوشش کرنے والی اور جماعت کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے والی مومنات بھی اﷲ تعالیٰ نے جماعت کو بہت عطا فرمائی ہیں اورپاکستان کے مشکل حالات میں وہاں کی عورتیں بھی مختلف جگہوں پر کسی ایک جگہ میں نہیں قربانیاں پیش کرنے کے لئے اپنے عہدیداران کو بھی کہتی ہیں ، مجھے بھی لکھتی ہیں اور مختلف شہروں میں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ حالات کی وجہ سے جماعت کی مساجد میں جمعہ پر عورتوں کا جانا منع کیا گیا ہے تو عورتیں یہ لکھتی ہیں کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی مسجد میں جائیں۔ بڑا درد ہوتا ہے اُن کے الفاظ میں کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے جماعت سے مزید قربانیاں لینی ہیں تو ہم بھی شہادت کا رتبہ پانے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ اپنے نوجوان بچوں کو نمازوں اور مساجد کی حفاظت کے لئے مسجدوں میں بھجواتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنی نیکیوں میں آگے بڑھ رہا ہے۔ پس ایسی مائیں ، ایسی مومنات ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی بندگی کا حق بھی ادا کرنے والی ہیں اور قربانیوں کی معراج حاصل کرنے کی خواہشمند ہیںاور کوشش کرتی ہیں۔ لیکن بعض ایسی ہیں جن کے خاندانوں میں دینی ماحول تھا۔ جن سے توقع کی جاتی ہے کہ اُن کی دینی حالت بہت بہتر ہونی چاہئے لیکن مالی کشائش اور دولت نے اُنہیں اپنا حق بندگی ادا کرنے سے دُور کر دیا ہے۔ ایسی عورتوں کے حالات جب مجھ تک پہنچتے ہیں تو جہاں تکلیف کا باعث ہوتے ہیں وہاں فکر بھی ہوتی ہے۔ اور اُن بزرگوں کے تعلق کی وجہ سے اُن کے لئے دُعائیں بھی نکلتی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اِ ن کی حالت کو سدھارے ، اﷲ تعالیٰ اِ ن کو عقل دے۔
پھر ایک اہم بات جو مومنہ کی شان ہے اور جس کے بغیر تقویٰ ہو ہی نہیں سکتا اور خدا تعالیٰ نے عورتوں کو دئیے گئے احکامات میں اِس بات کو خاص اہمیت دی ہے اور اگر اِس خصوصیت کا ایک عورت صحیح ادراک اور فہم حاصل کر لے، اِس کی گہرائی کو سمجھ لے تو نہ صرف معاشرہ کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں بلکہ دنیا و آخرت کی جنت کی وہ وارث بھی بن جائیں۔ سورۃ النسا ء میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہحٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ (النساء:35)کہ غیب میں بھی حفاظت کرنے والی ہیں۔ ایسی حفاظت کہ جس کا اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ آجکل کے آزاد معاشرے میں یہ غیب میں حفاظت کا حق نہ ادا کرنا ہی ہے جس نے غلط قسم کی آزادی اور بے حیائی کو فروغ دیدیا ہے۔
اگر ہر عورت اس بات کو سمجھ لے کہ اُس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اُ ن کی بجا آوری اس نے اس لئے نہیں کرنی کہ کہیں خاوند، باپ یا بھائی کی نظر میں آ کر اُن کی طرف سے کسی سزا کی سزا وار نہ بن جائے بلکہ اِن ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس اس لئے ہمیشہ دلوں میں رکھنا ہے اوراُ سے پختہ کرنا ہے کہ ایک خدا ہے جو عالم الغیب ہے، جو غیب کا علم رکھتا ہے، جو ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے، ہر وقت اُس کی نظر اپنی مخلوق پر پڑ رہی ہے۔ ہر ایک کا عمل اُس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ پس جب یہ احساس رہے تو کوئی عورت ایسا عمل نہیں کر سکتی جو اُسے تقویٰ سے دُور ہٹا دے۔ ایک بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے خاوند سے کامل وفا کرنے والی ہو گی۔ خاوند کے گھر کی نگران ہوگی۔ اس کے مال کو ضائع کرنے کی بجائے اس کا صحیح مصرف کرنے والی ہو گی۔ کئی ایسی عورتیں ہیں جو تقویٰ پر چلنے والی ہیں یا تقویٰ کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی چلنے والی ہیں، جو باوجود تھوڑی آمد کے اپنے خاوند سے ملنے والی رقم میں سے کچھ نہ کچھ بچا لیتی ہیں اور جمع کرتی جاتی ہیں اور بعض دفعہ مشکل حالات میں خاوند کو دے دیتی ہیں۔ خاوند کو تو نہیں پتہ ہوتا کہ کیا بچت ہو رہی ہے؟ اب وہ اُس کے مال کی اِس طرح غیب میں حفاظت کر رہی ہیں۔ یا اگر اُن کو ضرورت ہے تو خاوند کو بتا کر اُس کا استعمال کر لیتی ہیں۔ اپنی اولاد کی صحیح نگرانی کرتی ہیں۔ اور یہ اولا دکی نگرانی صرف خاوند کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ اِس لئے ہو رہی ہوتی ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہوتی ہے کہ یہ قوم کی امانت ہیں۔ یہ جماعت کی امانت ہیں۔ پھر وہ اپنی دوستیں اور سہیلیاں بھی ایسی عورتوں کو بناتی ہیں جو اعلیٰ اخلاق کی ہیں۔ ایک خاوند کی وفادار عورت کبھی غلط قسم کی سہیلیاں نہیں بناتی جو اِس کو اُس ڈگر پر ڈالیں جو غلط ہو کہ خاوند کا پیسہ جتنا نچوڑ سکتی ہو نچوڑ لو۔ خاوند کے بغیر سیریں کرنے کے لئے آزادی سے جاؤ آخر تمہارا بھی آزادی کا حق ہے۔ جس سے چاہو جس طرح کے چاہو تعلقات رکھو۔، نہ ہی ایسی مشورہ دینے والی عورتیں غیب میں حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی ایسی عورتوں سے دوستیاں رکھنے والی اور باتوں پر عمل کرنے والی غیب میں حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں۔
اِسی طرح بیٹی ہے تو وہ اپنے تقدس اورعصمت کی حفاظت کرنے والی ہو۔ اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوا ور کوئی ایسی دوستی، ایسے طبقے میں اٹھنا بیٹھنا ، ایسی حرکت نہ کرے جو اُسے اپنے ماں باپ سے چھپانی پڑے۔ ہمیشہ یاد رکھے کہ عالم الغیب خدا ہے جو اُسے دیکھ رہا ہے۔ غلط قسم کے لڑکے لڑکیوں سے دوستیوں کو وہ اپنے ماں باپ سے تو پردے میں رکھ سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ سے نہیں جو ہر حرکت و سکون کو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح مختلف رشتوں کے حوالے سے عورت کی حیثیت ہے۔ ہر حیثیت میں اگر عورت یہ سوچ لے کہ میری کیا ذمہ داریاں ہیں ، میرے کیا فرائض ہیں اور دوسروں کے مجھ پر کیا حق ہیں اور ان کو نہ بجا لانے کی وجہ سے میں ایک عالم الغیب خدا کی پکڑ میں آ سکتی ہوں تو بہت سی برائیاں جن کو معاشرے میں عورت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، بہت سے گھروں کی بے چینیاں جو عورتوں کے عمل سے گھروں میں پیدا ہوتی ہیں، بہت سے بچوں کا ضائع ہونا جو عورتوں کی عدم توجہگی یا بے توجہگی کی وجہ سے یا غلط تربیت یا بے جا لاڈ کی وجہ سے ہوتا ہے ، کبھی نہ ہو۔ لیکن یہ سب باتیں اوریہ غیب کا صحیح ادراک صرف ایک مومنہ کو ہو سکتا ہے۔ ایک دنیادار کو نہیں ہو سکتا۔ ایک تقویٰ سے عاری عورت کو نہیں ہو سکتا۔
پس ایک احمدی عورت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا دعویٰ کرتی ہے یہ اعلان کرتی ہے کہ میں آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنی تعلیم کو اپنے پر لاگو کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گی۔ وہ اگر غیب میں اپنی ذمہ داریوں کی حفاظت کا حق ادا نہیں کرتی تو اپنے خدا کو ناراض کرنے والی بھی بن رہی ہو گی۔
بعض کو شاید خیال آئے کہ غیب میں جو حفاظت ہے یہ صرف عورتوں سے کیوں خاص ہے۔ مردوں کو کیوں حکم نہیں ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ مرد بھی آزادی کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت نہیں کر رہے ہوتے۔ وہ بھی غیب میں بعض اوقات بیوی سے بے وفائی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو اِس بات کے لئے اﷲ تعالیٰ نے جب عورتوں کو حفاظت کا حکم دیا ہے یا توجہ دلائی ہے تو اِس بات کو شروع ہی اِس طرح فرمایا ہے کہ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء (النساء :35) کہ مردوں کو قوام بنایا گیا ہے۔ اُن پر سب سے اول فرض ہے کہ احکام شریعت کی پابندی کریں اور کوئی ایسی حرکت اُن سے سرزد نہ ہو جو اُن پر یہ الزام لائے کہ وہ تقویٰ پر چلنے والے نہیں ہیں۔ مرد کا اثر عموماً عورت پر پڑتا ہے۔ نیک مرد کا اثر عورت پر نیک پڑے گا اور جو غلط کام کرنے والے مرد ہیں اُن کا بد اثر عورت پر پڑے گا۔ اس لئے مرد کو پہلے قوّام بنا کر کہا کہ اگر تم تقویٰ پر چلنے والے ہو تو عورت بھی تقویٰ پر قدم مارے گی سوائے استثنا ء کے اور اُس صورت میں کچھ سزا بھی رکھی ہے۔ عموماً نیک مردوں کی عورتیں نیکی کی طرف ہی چلنے والی ہوتی ہیں۔ مرد کو قوّام بنا کر تمام باتوں کا سب سے پہلے ذمہ دار بنایا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اے عورتو! جب تمہارے مرد نیکیوں پر قائم ہیں تو تمہارا بھی فرض ہے کہ نیکی میں آگے بڑھو۔ فرمانبرداری اختیار کرو اور صرف سامنے ہی نہیں بلکہ غیب میں بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرو۔ غیب خدا تمہارا نگران ہے اس لئے اگر مومن ہونے کا دعویٰ ہے تو شریعت نے جو ذمہ داری تمہارے ذمہ لگائی ہے اُسے ادا کرو۔ آزادی کی رَو میں اور حقوق کے حاصل کرنے کی رَو میں بہہ کر اپنا مقام اور اپنی ذمہ داریاں بھول نہ جانا۔ پس ایک مومنہ کا کام ہے کہ ظاہر میں بھی اور غیب میں بھی اپنے آپ کو شریعت کے احکام کی کامل فرمانبرداراور صالحہ بنائے۔
پھر اﷲ تعالیٰ مومن مردوں اور عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ (الحجرات:13) بہت سے ظنوں سے بچتے رہا کرو کیونکہ یہ ظن جو بد ظنی پر مبنی ہوتے ہیں معاشرے میں فساد کا باعث بنتے ہیں۔ اِس لئے کسی قسم کی رائے قائم کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کا حکم ہے کیونکہ بعض دفعہ بغیر کسی حقیقت کے بد ظنی کرتے ہوئے الزام تراشی کی عادت ہوتی ہے، اپنے ذاتی اختلافات کی وجہ سے دوسرے کو جماعتی نظام اور خلیفۂ وقت کی نظروں میں گرانے کی کوشش ہوتی ہے۔ بعض واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک ملک کی صدر لجنہ کو نامزد کیا تو اُس کی انتظامی صلاحیتوں کو نشانہ بنایا گیا اور ایسی ایسی شکایتیں کی گئیں جو بالکل غلط ثابت ہوئیں۔ خیر یہ تو ہوا۔ لیکن اُس کی بہن پر بھی بعض انتہائی غلط الزامات لگا دئیے گئے جو نہ صرف بد ظنی تھی بلکہ ایک شریف عورت پر تہمت بھی تھی۔ تو اﷲ تعالیٰ ایسی عورتوں کو بھی عقل دے۔
پھر اﷲ تعالیٰ کا ہی حکم ہے اور اِس پر میں اکثر زور دیتا رہتا ہوں۔ عورت کے تقدس اور حیا کے لئے بڑا ضروری ہے کہ غضّ بصر سے کام لیں اپنی نظروں کو نیچی رکھا کریں۔ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالیں۔ بعض غیراحمدی مسلمان علما ء جو ہیں وہ شاید نوجوان نسل کو اپنے زیر اثر کرنا چاہتے ہیں یا اُنہیں یہ خوف ہے کہ اگر اِس حکم پر عمل کرنے کا کہا جائے گا تو جو نوجوان مسلمان نسل ہے وہ شاید دین سے بالکل ہی نہ ہٹ جائے۔ اِن احکامات کی تشریح کرتے ہوئے پردے کو ضروری خیال نہیں کرتے حالانکہ یہ تمام باتیں جو میں نے ابھی اوپر بیان کی ہیں اور جن کا سورۃ نور میں ذکر بھی ہے یعنی حیا ، زینت کو رکھنا ، غضِ بصر سے کام لینا، یہ عورت کی حفاظت اور پردے کا حکم دیتی ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں مردوں کو بھی غض بصر سے کام لینے کا حکم ہے۔ صرف اس لئے کہ عورت کے تقدس کی حفاظت رہے۔ اور عورت کو اِس لئے کہ تمہاری حیا اور تقدس محفوظ رہے۔ بہر حال ایک غیر احمدی مسلمان کو تو خوف ہو سکتا ہے کہ اِن احکامات کی پابندی شا ید دین سے دُور نہ کر دے لیکن ایک احمدی مسلمان عورت پر یہ بد ظنی نہیں کی جا سکتی۔ ا س لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام بھی اور خلفاء بھی ہمیشہ عورتوں کو لباس اور پردے کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔ گو کہ آجکل پردے کے خلاف مغرب میں جو مہم چل رہی ہے، اس مہم کو چلانے کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک ردّ عمل پیدا ہو رہا ہے اور بعض نے ایسے برقعے بھی بنا لئے ہیں جو واقعی ایسے خوفناک لگتے ہیں اور جن کو دیکھ کر اُن ملکوں کی جو انتظامیہ ہے اُن کو بہرحال دیکھنا پڑتا ہے، بعض جگہوں پر جانے کے لئے چیک کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ ایک ردّ عمل ہے۔ فرانس وغیرہ میں جو قانون بنے ہیں جہاں تک میرے علم میں یہ بات ہے وہ بھی اِس قسم کے برقعے کے خلاف بنے ہیں۔ جو عام حجاب ہے اُس کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن قابلِ فکر بات یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک نے بھی غالباً سیریا نے اپنی یونیورسٹیوں میں پردے یا حجاب پر پابندی لگا دی ہے۔ اﷲ تعالیٰ مسلمان ملکوں پر بھی ، اُن کی حالتوں پر رحم کرے۔ یہ صاف مغرب سے خوفزدہ ہو کر یا دجالی چال کے زیر اثر آ کر کرنے والا کام ہے۔
بہر حال اﷲ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں اُن میں نہ ہی افراط کا حکم ہے نہ ہی تفریط کا حکم ہے۔ نہ اِس طرف جھکو نہ اُس طرف جھکو۔ اور یہی اصل چیز ہے۔ اب بھی غیر از جماعت مسلمان عورتوں، لڑکیوں میں دیکھنے میں آتا ہے، شاید اِن میں چند احمدی لڑکیاں بھی شامل ہوں کہ جینز اور چھوٹی قمیص پہن کر (پھرتی ہیں) جس میں جسم کی نمائش ہو رہی ہوتی ہے اور اوپر حجاب لیا ہوتا ہے۔ اِس قسم کا پردہ تو اسلام کا حکم نہیں ہے۔ یہ شاید اُن لڑکیوں میں بھی مغرب کے قانون کا ردّ عمل ہے کہ اچھا تم ہمیں روکتے ہو تو ہم حجاب لے لیتی ہیں۔ اس سے اُن کو کوئی غرض نہیں ہوتی کہ پردے کی رُوح کیا ہے۔ تو یہ جو ردّ عمل ہے یہ بھی غلط ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے احکامات میں تو یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ نظریں نیچی رکھو ، بے محابا عورت اور مرد آپس میں ایک دوسرے سے نظریں نہ ٹکرائیں۔ ایک حیا اُن میں ہونی چاہئے۔ دوسرے اپنی زینت چھپا ؤ ۔ ایسا لباس ہو جس سے جسم کی نمائش نہ ہوتی ہو اور تیسرے یہ کہ اپنی زینت چھپانے کے لئے اپنے گریبانوں، سر، گردن اور سامنے کے حصوں کو ڈھانپ کر رکھو ۔ جو برقعہ پہننا ہے وہ ڈھیلا ڈھالا ہو۔ جو میک اَپ کر کے چہرہ ننگا کر کے پھرتی ہیں وہ بھی زینت ظاہر کرنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسی طرح بالوں کی نمائش جو کرتی ہیں وہ بھی زینت ظاہر کرنے کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ وہ خود اپنے بالوں کی نمائش اِ سی لئے کر رہی ہوتی ہیں کہ یہ ہماری زینت ہے۔ خود سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ اِس سے ہماری خوبصورتی ظاہر ہو رہی ہے۔ اس لئے سر ڈھانکنا، چہرے کو کم از کم اِس حد تک ڈھانکناکہ چہرے کی نمائش نہ ہو رہی ہو اور لباس کو مناسب پہننا یہ کم از کم پردہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اِ س کی تلقین فرمائی ہے کہ کم از کم یہ معیار ہونا چاہئے۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’یورپ کی طرح بے پردگی پر یہ لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہر گز مناسب نہیں ہے۔ یہی عورت کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اِس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو ، اگر اِس آزادی اور بے پردگی سے اُن کی عفّت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد ہفتم۔ صفحہ 134)
پس آزادی کی بھی کچھ حدود ہیں۔ جب آزادی کے نام پر لباسوں کی نمائش شروع ہوتی ہے۔ جب ضرورت سے زیادہ فیشن کی طرف توجہ ہوتی ہے تو پھر بے پردگی کی طرف بھی قدم اُٹھتے ہیں۔ پاکستان سے مجھے بعض شکایا ت آتی ہیں اور خاص طور پر ربوہ سے کہ برقعوں کے بھی ایسے ڈیزائن شروع ہو گئے ہیں جس میں فیشن ہوتا ہے۔ چلتے ہوئے عورتوں کے جسم نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ اِس لئے تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسول نے جو (حدود) مقرر کی ہیں ، اُس کے اندر اپنی حدود رکھو۔
جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ انبیا ء اﷲ تعالیٰ کے احکام لے کر آتے ہیں تا کہ دنیا کی اصلاح کر کے اُنہیںخدا تعالیٰ کے قریب کریں۔ اِس زمانے میں اﷲ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے تو آپ نے جس طرح ہماری رہنمائی فرمائی ہے اُس کے مطابق چلنا چاہئے۔ جس سے ہماری دنیا و آخرت سنبھلتی ہے اُس کے مطابق چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایک مومنہ ہونے کا حق ادا کرنا چاہئے، اپنے آپ کو تقویٰ کے معیار کے مطابق چلانے کی کوشش کریں اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے اور ہمیشہ کہتا ہوں کہ احمدی عورت کی ذمہ داری بہت بڑھ کر ہے۔ وہ اپنی زندگی تقویٰ سے گزارے کیونکہ اُس پر جماعت کی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے۔ یہ آپ کے سپرد ایک امانت ہے اس امانت کا حق ادا کریں۔ اﷲ تعالیٰ سب کو اِس کی توفیق عطا فرمائے۔
دُعا کرلیں۔