جلسہ سالا نہ بنگلہ دیش 2011ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا خطاب
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت مَیں بنگلہ دیش کے جلسہ سالانہ کے پہلے دن کے ابتدائی اجلاس کے خطاب کے لئے کھڑا ہوا ہوں۔یہ جلسہ سالانہ جو بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے، یہ نئی جگہ پر ہو رہا ہے جو اس لئے کرائے پر لی گئی تھی کہ زیادہ تعداد میں لوگ شامل ہوسکیں۔ لیکن بد قسمتی سے، قوم کی بدقسمتی کہنا چاہئے، ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ ہر برے حالات میں بھی بہتر حالات پیدا کردیتا ہے، وہاں مخالفین کے ایک ٹولے نے جلوس نکال کر، انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا کہ یہاں جلسہ نہ ہونے دیا جائے۔ اس لئے وہاں کے حالات کچھ ایسے ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے انتظامیہ نے ہمیں کچھ تھوڑے وقت کی اجازت دی ہے۔ اس لئے یہ پروگرام مختصر کر کے، مَیں نے نظم بھی چھوٹی پڑھوائی ہے اوراب مَیں خطاب بھی مختصر کروں گا۔ ان کے لئے دعا بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے مشکل حالات میں آسانیاں پیدا فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا پولیس نے اور انتظامیہ نے ہمیں تھوڑا وقت دیا ہے کہ پانچ بجے تک یہ ختم کریں۔ ہم احمدی جو ہمیشہ قانون کی پابندی کرتے ہیں اور یہی ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم نے سکھایا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ اس وقت کے اندر اندریہ جلسہ یا جو بھی پروگرام ہے ہم ختم کر لیں گے کیونکہ جیسا کہ مَیں نے کہا ہمارا مقصد کسی قسم کا فساد پیدا کرنا نہیں، بلکہ ہم صلح پسند اور امن جُو، امن پسند لوگ ہیںاور اس لئے حکومت کے ہر حکم کی اطاعت کرنا اور اس کی پابندی کرنا ہمارا فرض ہے تا کہ ملک میں ہر طرح سے امن قائم رہے۔ہم تو اس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہیں جس نے صلح اور امن کی خاطر کفار کی من مانی شرائط کو مان لیا لیکن کسی قسم کی بدامنی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔گو اس جگہ میں تو جلسہ منعقد نہیں ہو سکے گالیکن ہو سکتا ہے کہ جماعت کی جو اپنی جگہ ہے وہاں جلسہ منتقل ہو جائے اور وہاں منعقد کیا جائے۔ اس لئے جلسہ تو انشاء اللہ تعالیٰ چھوٹے پیمانے پر چلتا رہے گا گو اس میں اتنی وسعت نہیں ہو گی۔ باہر سے جو لوگ آ چکے ہیں وہ تو بہرحال شامل ہوں گے۔ لیکن جو ہمارے خیال میں تھا کہ اس وسیع جگہ پر جلسہ کر کے ہم ایک دنیا کو اسلام کا خوبصورت پیغام جماعت کی طرف سے دے سکیں گے، اس میں ان لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس کو سننے سے محروم رہ جائیں گے۔
پس پہلی بات تو مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں بنگلہ دیش کے جو لوگ جلسہ کے لئے جمع ہوئے ہیں وہ اپنے وقت کو، اپنے ہر لمحے کو دعاؤں میں گزاریں اور دنیا کے احمدی بھی ان کے لئے دعائیں کریں۔ ہماری دعائیں انشاء اللہ تعالیٰ ضرور ایک دن رنگ لائیں گی اور یہی اکثریت جو ہے اقلیت میں بدل جائے گی۔ لیکن اس اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرنا بھی ضروری ہے۔اور وہ ہے دعوت الی اللہ کا کام۔اس کام کو ہم نے ہر حال میں کرتے چلے جانا ہے اور انشاء اللہ کبھی نہیں چھوڑنا۔
پس اس کے لئے مَیں بنگلہ دیش میں خاص طور پر جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی کہتا ہوں کہ اپنے پروگراموں میں تیزی پیدا کریں۔ ایک جامع پروگرام بنائیں اور دعوت الی اللہ کے کام کو ملک میںکونے کونے میں پھیلا دیں۔لیکن اس کام کے اچھے نتائج اسی وقت پیدا ہوں گے جب ہم اس پیغام کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے عملوں کی طرف بھی دیکھنے والے ہوں گے اورجب ہمارے عمل، ہماری تعلیم اور ہمارے پیغام کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں گے۔ورنہ دنیا کہے گی تم مجھے کیا نصیحت کر رہے ہو؟مجھے کیا تبلیغ کر رہے ہو؟ مجھ سے کیا اسلام کی خوبیاں بیان کر رہے ہو؟مجھے کیا بتا رہے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور قرآنِ کریم کی پیشگوئی کے مطابق وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) کے مطابق مسیح موعود آ گیا ہے؟ تم یہ بتاؤ کہ تم جن باتوں کی طرف توجہ دلا رہے ہو اور فخر سے بتا رہے ہو ان باتوں نے تمہارے اندر کیا تبدیلی پیدا کی ہے؟اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا ہی احسن بات کہنے والا نہیں بن جاتا بلکہ عملِ صالح کا نمونہ دکھانا بھی ضروری ہے۔ نیک اعمال بجا لانے بھی ضروری ہیں۔ کیونکہ بات وہی اثر کرتی ہے جس کے کہنے والا خود بھی اس پر عمل کر رہا ہو۔ایک شخص دوسرے کو سچائی کی کیا تلقین کرے گا جبکہ وہ خود جھوٹ کا سہارا لے رہا ہو۔
پس اگر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے تو پہلے ہمیں اپنی عملی حالت درست کرنی ہوگی۔ہر احمدی کو اپنے آپ کو احمدیت کا سفیر سمجھنا ہو گا۔اعمال، اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے ہوں گے جس کا ہم پرچار کر رہے ہیں۔اور وہ تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری شرعی کتاب قرآنِ کریم ہے جس کے آنے سے شریعت کامل ہوئی۔قرآنِ کریم میں سینکڑوں حکم ہیں جن کی ایک مومن کو تلقین کی گئی ہے۔اور ہمیں کہا گیا ہے کہ تم ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کروتب تم اعمالِ صالحہ بجا لانے والے کہلا سکو گے۔ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ رکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ جن باتوں کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اس کے عظیم ترین معیار تمہارے سامنے ہیں۔ بیشک ہر ایک انسان اپنی اپنی استعداد کے مطابق اعمال بجا لاتا ہے۔اس کے کم معیار بھی ہیں لیکن اُن احکامات پر عمل کرنے اور اُن اعمال کو بجا لانے کے لئے ہر ایک کے لئے کوشش کرنا ضروری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے تمام حکموں پر عمل کرنے کی ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں، اخلاق میں، عبادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں‘‘۔ فرمایا: ’’پس اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات کو ظلّی طور پر حاصل کرسکتیں تو یہ حکم ہمیں ہرگز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو۔ کیونکہ خداتعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ:287)‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن۔ جلد 22۔ صفحہ156)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول بڑا خوبصورت ہے کہ آپ کے اخلاق قرآن کریم کی تعلیم تھے۔پس جب ہم اپنے عملوں پر غور کریں گے، اپنی کمزوریوں پر غور کریں گے تو اللہ تعالیٰ سے ان احکامات پر عمل کرنے کی طاقت بھی مانگیں گے۔اور یوں ہمارے عمل ترقی پذیر ہوتے چلے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ہمیں نیکیاں کرنے کی توفیق دیتا چلا جائے گا اور ان میں وسعت پیدا کرتا چلا جائے گا۔ اور جب ہماری یہ حالت ہو گی تو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کام بھی احسن رنگ میں انجام دے سکیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمارے اس کام میں برکت بھی ڈالے گا۔ہمارا دعویٰ صرف زبانی دعویٰ ہی نہیں رہے گا بلکہ ہم اپنے قول کی عملی تصویر بھی بن رہے ہوں گے۔اور یہ بات انشاء اللہ تعالیٰ ہماری دعوتِ الی اللہ میں برکت ڈالے گی۔اللہ تعالیٰ نے نیک کام اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کی طرف بلانے اور اس مقصد کے لئے نیک عمل کے نمونے دکھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ یہ بھی اعلان کرو کہ اِنَّنِیْ مِنَ الۡمُسْلِمِیْن () کہ یقینا میں کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔اب جب نیک عمل بجا لائے جائیں گے تو فرمانبرداری کی وجہ سے ہی بجا لائے جائیں گے۔لیکن یہاں ایک بات یاد رکھنی بھی ضروری ہے کہ نیک عمل جتنے بھی اعلیٰ ہوں، اُس وقت تک ان میں برکت نہیں ہو گی اور ہم ان سے برکت حاصل نہیں کر سکیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانتے ہوئے کامل فرمانبرداری کا حق ادا نہیں کریں گے۔ اور کامل فرمانبرداری اس وقت ہو گی جب اس زمانے کے امام کو مان کر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہم ایک جماعت سے منسلک ہو کر، ایک نظام سے منسلک ہو کر پھر اپنے اعمال بھی بجا لائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچائیں گے۔
جب ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانتے ہوئے زمانے کے امام اور مسیح موعود کو آپؐ کا سلام پہنچایا ہے تو پھر مسیح موعود کی کامل فرمانبرداری بھی کرنی ہو گی۔ جب ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مانتے ہوئے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپؐ کا سلام پہنچایا ہے ، آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیںتو پھر ہمیں آپ علیہ السلام کی کامل فرمانبرداری بھی کرنی ہو گی۔ صرف دعوت الی اللہ کی انفرادی کوششیں ہی کافی نہیں ہوں گی بلکہ ایک نظام سے منسلک ہو کر مربوط اور مضبوط کوشش کرنی ہو گی۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ افراد کے نیک اعمال کا مجموعہ جماعت کی مضبوطی بڑھائے گا۔اور جب یہ نیک اعمال کامل فرمانبرداری سے ایک ہاتھ کے اشارے پر اٹھتے بیٹھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہوںگے تو دنیا میںایک انقلاب پیدا کرنے والے بن جائیں گے۔ اس زمانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان لانے والوں کے کاموں میں برکت کی نوید انہی لوگوں کو سنائی ہے جو ایک جماعت سے منسلک ہوں گے۔نام کی جماعتیں تو بہت ساری ہیں لیکن قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والی اور ایک ہاتھ پر بیعت کرنے والی جماعت صرف جماعتِ احمدیہ ہے۔ پس ہر احمدی کو اپنی اس اہمیت کو سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔اور یہ بات نظامِ جماعت چلانے والے جو افراد ہیں ان کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کریں گے جس کی اہمیت کے بارے میں مَیں گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر کر چکا ہوں تو وہ بھی پوچھے جائیں گے۔ایسی امانت جس کے اٹھانے سے ہر ایک نے انکار کیا تھا لیکن انسانِ کامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان پر ظلم کرتے ہوئے اُس امانت کو اٹھا لیا اور یہی امانت آخری زمانے میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کے سپرد کی گئی ہے۔اگر اس کے ماننے والے اس کا حق ادا نہیں کریں گے تو اُن کا بھی مؤاخذہ کیا جائے گا۔پس ہمارے لئے بڑی فکرانگیز بات ہے۔
اس حوالے سے مَیں نظامِ جماعت اور تمام ذیلی تنظیموں خدام، انصار اور لجنہ کے نظاموں کوبھی کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنی امانت کا حق ادا کریں۔ صرف افرادِ جماعت سے کامل اطاعت کی امید نہ رکھیں بلکہ اپنے فرائض بھی احسن طریق پر ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہماری کوششیں مزید مربوط اور مضبوط ہوں گی اور پورے نظام کو ہم فعّال کرنے والے ہوں گے، ہر طرف سے کوشش ہو رہی ہو گی تو دعوتِ الی اللہ کا کام کئی گنا بڑھ سکتا ہے جس میں بہت زیادہ گنجائش ہے۔ بعض رپورٹس مَیں دیکھتا ہوں تو ان سے پتہ لگتا ہے کہ بنگلہ دیش میں جس حد تک کام ہو سکتا ہے اُتنا نہیں ہو رہا۔ مجھے امید ہے کہ اب تک جو سستیاں ہو چکی ہیں اُن کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور ہر موقع جو اللہ تعالیٰ آپ کو مہیا فرماتا ہے، چاہے وہ ہماری ترقی کا موقع ہو یا کسی قسم کی مخالفت کا، اُس سے سبق حاصل کرنے والے ہوں گے۔اگر ہماری کوششیں مربوط ہوتیں توہو سکتا تھا کہ آج بھی یہی مخالفت جو مخالفین کی طرف سے ہوئی ہے اس میں سے بہت سارے مخالفین اس وقت ہمارے درمیان بیٹھے ہوتے۔
بنگلہ دیشی میرے اندازے کے مطابق بہت زیادہ روشن خیال اور روشن دماغ کے لوگ ہیں اور سوچ اور سمجھ رکھنے والے ہیں۔ حق بات کو اگر سمجھ جائیں تو اس کو قبول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت بھی بنگلہ دیش میں بہت سارے پڑھے لکھے لوگ جوجماعت کے پیغام کو سمجھتے ہیں اور جماعت کی تعلیمات کو سمجھتے ہیں، باوجود اس کے کہ ان کا جماعت سے تعلق نہیں ہے، براہِ راست جماعت میں شامل نہیں ہیں لیکن جماعت کی تعلیمات کی جوخوبصورتی ان تک پہنچتی ہے وہ اس وجہ سے ہمیشہ جماعت کا ساتھ دیتے ہیں۔اسی طرح دیہاتوں میں بھی، قصبوں میں بھی جو شرفاء ہیں وہ جماعت کی تعلیمات کو اچھا سمجھتے ہوئے مخالفت کی صورت میں جماعت کا ساتھ دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں جماعت کی مخالفت کے حالات بہت ساری دنیا کے بعض ممالک سے بہت کم ہیں اور جماعت کے بہتر حالات ہیں۔اس لئے اپنے تبلیغ کے نظام کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ دعوتِ الی اللہ کے نظام کو مزید فعّال بنانے کی ضرورت ہے تا کہ یہی مخالفین جو آج اکثریت میں نظر آ رہے ہیں یہ اقلیت میں بدل جائیں۔
یہ دن دعاؤں کے ساتھ گزاریں۔ اپنے ذاتی شکووں اور گلوں کو ختم کریںاور ایک ہی مقصد سامنے ہو کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہے جو پیار اور محبت کا پیغام ہے، جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے کا پیغام ہے تا کہ ہماری قوم حقیقی رنگ میں اُمّتِ مسلمہ کہلانے والی بن جائے۔
پس ہمیشہ یاد رکھیں جب ہمارے ایمانوں میں مضبوطی ہو گی، جب ہمارے مقاصد نیک ہوں گے، جب ہمارے اندر مستقل مزاجی ہو گی تو پھر خدا تعالیٰ ہمارے کام میں بے انتہا برکت ڈالتا چلا جائے گا۔ اور ہم بھی وہ انقلاب جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقدر انقلاب ہے اس کا حصہ بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جلسے کے مقاصد میں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے یہ بھی ہے کہ آپس میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کی جائے۔ پس اعلیٰ اخلاق دکھاتے ہوئے محبت اور پیاراور بھائی چارے کی فضا بھی پیدا کریں۔ اور نہ صرف یہاں جمع ہونے کے دوران بلکہ جب اپنے اپنے گھروں میں جائیں تو وہاں جا کر بھی اس پیار اور محبت کی فضا کو ہمیشہ قائم رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور خیریت سے جو جلسے کی باقی کارروائی ہے وہ بھی ختم ہواور خیر و عافیت سے آپ لوگ اپنے گھروں کو بھی جائیں۔
اب دعا کرلیں۔