حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا پیغام برموقع یومِ خلافت27؍ مئی 2014ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
سب سے پہلے تو سب کو اس بات کی مبارک ہو کہ آج خلافت کے ایک سو چھ سال پورے ہوئے۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک نشان ہے جو ہر سال ہم خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی صورت میں دیکھتے ہیں اور گزشتہ ایک صدی اس بات کی گواہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ الوصیت میں دو قدرتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلی قدرت نبوت اور دوسری قدرت خلافت۔ اور دوسری قدرت کو مزید واضح کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رسالہ الوصیت میں ہی حضرت ابوبکر ؓکی مثال دی ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ایک افراتفری کا عالم تھا ،ہر طرف پریشانی کا عالم تھا، مسلمانوں کے ایمان متزلزل ہو رہے تھے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھڑا کیا جنہوں نے پھر خوف کو امن کی حالت میں بدل دیا۔ اور پھر آیت استخلاف کے حوالے سے اس کو مزید واضح فرمایا تا کہ واضح ہو جائے کہ خلافت امن کی ضمانت ہے۔ پھر یہ بھی تسلی دلائی کہ واضح ہو کہ میرے جانے کے بعد دوسری قدرت کے نظارے تم دیکھو گے اور یہ دوسری قدرت ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ ان سب باتوں سے کیا سمجھ آتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ آپ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حوالہ دے کر، آیت استخلاف کا حوالہ دے کر، دوسری قدرت کے ہمیشہ جاری رہنے کا حوالہ دے کر آپ اپنے بعد خلافت کے جاری رہنے کی خبر ہمیں عطا فرما رہے ہیں۔آپ کسی مجدد کی بات نہیں فرما رہے جو آپ کی وفات کے فوراً بعد کھڑا ہو گا اور دین کی تجدید کرے گا بلکہ خلیفہ کی بات فرما رہے ہیں۔ میرے بعد ایک نمائندہ ہو گا جس کی تم لوگ بیعت کرو گے۔ آپ نے فرمایا: وہ میرے بعد میرے نام پر تم سے بیعت لے گا۔ نہ ہی آپ نے کسی انجمن کو بیعت لینے کا اختیار دیا۔
اس بارے میں آپ کو ایک حقیقت اور ایک لطیفہ بھی بیان کر دوں کہ ربوہ میں غیر مبائعینِ خلافت جو علیحدہ ہو کر خلافت ثانیہ کے شروع میں لاہور چلے گئے تھے، ان کی نسل میں سے ایک شخص خلافت ثالثہ میں ربوہ آیا اور ترقی اور تنظیم کو دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ واقعی یہ چیزیں ہمارے اندر نہیں ہیں۔ پھر خلافت رابعہ کی ہجرت کے بعد اس کو ربوہ آنے کا اتفاق ہوا۔ وہی نظام تھا ،وہی انجمن تھی، وہی لوگ تھے جو کام کر رہے تھے لیکن دیکھ کر کہنے لگا کہ اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ انجمن سے ویسا نظام نہیں چل رہا جیسا کہ خلیفہ وقت کی موجودگی میں یہاں چل رہا تھا۔ بہر حال خلیفہ وقت کی براہِ راست کسی جگہ موجودگی اپنا ایک علیحدہ اثر رکھتی ہے جس کو دوسرے بھی محسوس کرتے ہیں۔ اور جہاں تک مجدد کا سوال ہے وہ تو میں نے بتا دیا کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے واضح فرمایا ہے اور جو باتیں بیان فرمائی ہیں ان سے بالکل اس کا ردّ ہوتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی بڑا واضح طور پر فرمایا کہ میں مجدد الف آخر ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی اتباع میں خلافت احمدیہ ہی تجدید دین کے کام کو آگے بڑھانے والی ہے اور آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ بھی ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے اگر مجدد آتے رہے تو ایک وقت میں ایک سے زیادہ بھی مجدد آتے رہے جو زمانے کے لحاظ سے محدود تھے کہ جب چلے گئے تو ان کے ماننے والوں میں پھر بگاڑ پیدا ہو گیا۔ مکان کے لحاظ سے محدود تھے کہ جس علاقے میں تجدید دین کے کام کے سامان کرتے تھے اس حد تک ہی رہتے تھے، اسی علاقے میں محدود تھے۔ اور تجدید دین کے لحاظ سے محدود تھے کہ صرف خاص خاص برائیاں اور خامیاں جو اس علاقے میںمسلمانوں میں پیدا ہو گئیں تھیں ان کی اصلاح کرتے تھے۔ بہت سے ایسے تھے جنہوں نے تجدید دین کا کام کیا لیکن خود اپنے آپ کو مجدد نہیں کہا بلکہ دوسروں نے ان کو مجدد کے طور پر گردانا ،ان کو سمجھا اور آگے ان کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ مجدد تھے۔
حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے خدا تعالیٰ نے ہم پر جو احسان فرمایا ہے کہ آپ کے اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کی اتباع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خاتم الخلفاء، خاتم الاولیاء اور مجدد الف آخر بنا کر بھیجا ہے۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے ہر زمانے کے لئے اور ہر مکان کے لئے اور ہر برائی کو دور کرنے کے لئے ،دنیا کے فساد کو دور کرنے کے لئے آئے تھے اسی طرح اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی اتباع میں ان تمام برائیوں کو دور کرنے کے لئے اورآئندہ قیامت تک کے تمام زمانوں کے لئے اور پوری دنیا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کسی طرح بھی عام مجددین کے زمرے میں شامل کرنا جائز نہیں کیونکہ آپ کا زمانہ اور آپ کا مکان اور آپ کی تجدید دین کی حالت ہر زمانے اور ہر مکان اور تمام قسم کی برائیوں اور بدعات کو ختم کرنے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے اپنے بعد تا قیامت خلافت کے سلسلہ کے قائم ہونے کی ہمیں بشارت عطا فرمائی ہے جو تمام دنیا میں آپ کے کام کو جاری رکھے گا ۔ اور یہ خوشخبری اصل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے حوالے سے ہی ہے جس میں آپ نے نبوت کے بعد خلافت راشدہ کے جاری ہونے اور پھر ملوکیت اور بادشاہت کے جاری ہونے اور پھر اندھیرا زمانہ آنے کا نقشہ بیان فرما کر پھر خلافت علی منھاج النبوۃ کی پیشگوئی فرمائی تھی جس نے تاقیامت قائم رہنا تھا۔
پس خلافت کے جاری رہنے کی یہ خوشخبری جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں دے رہے ہیں یہ صرف آپ کی زبانی نہیں بلکہ یہ خوشخبری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ہم تک پہنچی ہے۔ اور آج خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اس بات پر مہر لگاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد قائم ہونے والا نظام خلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہے۔ دنیا میں قرآن کریم کے تراجم کے کام ،دنیا میں تبلیغ اسلام کے کام اور لاکھوں انسانوں کا ہر سال حقیقی اسلام کے جھنڈے تلے آنا، کروڑوں انسانوں کا کامل اطاعت کا جؤا بیعت کے بعد اپنی گردنوں پر ڈالنا، کیا یہ کوئی انسانی کوشش سے ہو سکتا ہے؟ اس وقت آپ لوگ جو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ایم۔ٹی۔اے کے پروگرام دیکھ رہے ہیں اور دنیا میں ہر جگہ ایک ہی وقت میں خلیفہ وقت کے جو خطبات سنے جاتے ہیں ،پروگرام دیکھے جاتے ہیں یہ جماعت احمدیہ کے وسائل کو دیکھتے ہوئے کوئی دنیا دار سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کی یہی ایک دلیل کافی نہیں!
دنیاوی لحاظ سے بھی دیکھیں تو آج بہت سے دنیا دار ایسے بھی ہیں جن کا دین سے تو تعلق نہیں لیکن بعض دفعہ رہنمائی کے لئے خلافت احمدیہ کی طرف ان کی نظر ہوتی ہے۔ مجھے دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کی خوبصورت اور پُر امن تعلیم بیان کرنے کا جب موقع ملتا ہے اور دنیا کو یہ بتانے کا موقع ملتا ہے کہ تم لوگ اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو ان ان اصولوں پر چلو، انصاف کو قائم کرو اور دوعملی کی پالیسیوں کو چھوڑو تو تبھی تم امن حاصل کر سکتے ہو اور تبھی تم لوگ اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہو اور اس دنیا میں اگر تم اپنی بقا چاہتے ہو تو اس کو حاصل کر سکتے ہو۔
ایم۔ٹی۔اے کی میں نے پہلے بھی بات کی تھی۔ اس بارے میں بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے ذریعہ سے یہ انعام اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا جو جیسا کہ میں بتا چکا ہوں دنیا کے ہر ملک میں جاری ہے۔ اس نے ایشیا میں بھی، افریقہ میں بھی، یورپ میں بھی، امریکہ میں بھی اور جزائر کے رہنے والوں میں بھی ان کی سوچوں کے دھارے تبدیل کر دئیے ہیں اور وہ سب ایک سمت چلنے والے ہیں گویا کہ جماعت احمدیہ کا مزاج اس وجہ سے ایک ہو کے رہ گیا ہے ۔اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذریعہ تو مقرر کیا لیکن خلافت کی اطاعت اور خلافت سے محبت اور خلافت کے انعام کی حقیقت کو جاننے کی وجہ سے تمام احمدیوں میں یہ روح پیدا ہوئی۔ اس سے بڑھ کر دین کے معاملے میں اکائی اور تجدید کا نمونہ اور کیا ہو گا کہ دنیا میں پھیلے ہوئے احمدی ایک اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس پیغام اور فعلی شہادت کو سمجھنے اور مسیح موعود کی بیعت میں آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے اور خدائے واحد کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہم اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں اور یہ کردار مسلم امہ کو بھی سمجھ میں آ جائے۔
عرب دنیا کی خاص طور پر یہ ذمہ داری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آخری پیغام کو سمجھیں جس میں آپ نے عربی عجمی گورے اور کالے کے فرق کو مٹا دیا تھا۔ پس اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی غلامی اور خلافت کی اطاعت میں ہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے راستے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو بھی اس کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اس بات کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس پیغام کو اپنے اپنے دائرے میں پہنچانے کی بھی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مشن کو پورا کرنے والے ہوں جس کی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے آپ پر ان الہامی الفاظ میں ڈالی تھی کہ
’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو علیٰ دینٍ وَّاحِدٍ‘‘
(تذکرہ شائع شدہ نظارت نشر و اشاعت قادیان دسمبر 2006ء صفحہ490)
پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے جس طرح عربوں نے اسلام کے پہلے دور میں اپنا کردار ادا کیا تھا اب اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کو دکھانے کے لئے اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
پس آج دنیا میں پھیلے ہوئے تمام عرب احمدی اپنی ذمہ داری سمجھیں کہ آپ نے اپنے اس فرض کو پہلے سے بڑھ کر ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات میں کوئی شک نہیں اور میں اس کا گواہ ہوں کہ عرب دنیا کے وہ احمدی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول فرمایا خلافت احمدیہ کے ساتھ انتہائی وفا اور اخلاص اور اطاعت کا تعلق رکھنے والے ہیں۔ پس اس اخلاص اور وفا اور اطاعت کے تعلق کو بڑھاتے چلے جائیں تا کہ ہم جلد سے جلد دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو گاڑ کر دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کر دیں۔ جزاک اللہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘
