حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ ﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا خطاب برموقعہ اجتماع انصارﷲ برطانیہ 4؍اکتوبر2009ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ

جماعتی ذیلی تنظیموں کے نظام میں انصار اﷲ کی تنظیم ایک ایسی تنظیم ہے جس کے ممبران اپنی عمر کے لحاظ سے عمر کے اُس حصہ میں پہنچ جاتے ہیں جہاں مکمل طور پر بالغ سوچ ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔اِس عمر میں انسان ہر کام سوچ کر اور جذبات سے بالا ہو کر اور ہوش و حواس میں کرتا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ارزل العمر کو پہنچ جاتے ہیں اور پھر اُن کی یاد داشتوں اور اعضاء میں اتنی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے کہ گویاوہ بچپن کی عمر میں واپس لوٹ جاتے ہیں اور پیغام رسانی والے پیغام نے یہ صحیح لکھا ہے کہ آخر میں سب کچھ ذہن کھا جاتاہے اور نہ ذہن رہتا ہے اور نہ ہڈیاں رہتی ہیں۔انصار اﷲ میں انسان چالیس سال کی عمر میں داخل ہوتا ہے اور ایک بڑا لمبا عرصہ کام کرنے کی بھی اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی بھی توفیق ملتی ہے۔اِس عمر میں وہ اپنی دنیوی امور کی معراج کو بھی حاصل کرتا ہے اور روحانی امور کی معراج کو بھی حاصل کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔اِس بلوغت کی سوچ کی عمر اور تجربہ کار انسان کو بچوں اور نوجوانوں کی طرح نصیحت تو نہیں کی جاسکتی۔ہاں یاد دہانی کروائی جاسکتی ہے۔ گو یاد دہانی بھی نصیحت کی ہی ایک قسم ہے اور اُس کا ایک رنگ ہے لیکن یہ نصیحت اس قسم کی ہے کہ جو انصار کو اس لحاظ سے کروائی جاتی ہے کہ خداتعالیٰ نے جو ذمہ داریاں تم پر ڈالی ہیں اور جو تم پر عائد ہوتی ہیں شائد انہیں بھول رہے ہو۔علم تو اکثر کو ہوتا ہے اور یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ جو جماعتی نظام میں شامل ہے اور جو اس عمر کو پہنچ گیا ہے اُس کو بعض باتوں کا علم نہیں ۔علم تو ہے لیکن علم کے باوجود توجہ نہیں دی جارہی یا بھول رہے ہیں ۔بہر حال جو بھی وجہ ہے یاد دہانی تو اس لحاظ سے کروائی جاتی ہے کہ جس بات پر توجہ نہیں دے رہے اور بھول رہے ہو اس پر توجہ کرو یا اگر توجہ ہے تو اُس معیا ر کے حصول کی کوشش کرو جو انصار کا ہونا چاہیئے۔اس لئے یاد دہانی میں یہی کہا جاتا ہے کہ ان امور کی طرف توجہ دو،ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دو،ان کاموں کی طرف توجہ دوجو تمہارے ذمہ لگائے گئے ہیں۔
عبادات کی طرف توجہ کریں
صدر صاحب انصار اﷲ سے جب میں نے پوچھا کہ کوئی خاص بات جو انصار کو کہنے والی ہے تو بتائیں۔ انہوں نے کہا اور جیسا کہ انہوں نے رپورٹ میں پڑھا اور اجتماع کے دوران سیشن بھی ہوتے رہے کہ اس سال نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کو ہم نے سب سے پہلی ترجیح میں رکھا ہے لیکن جو ٹارگٹ ہمیں حاصل کرنے چاہئے تھے وہ حاصل نہیں کر سکے۔ اس لئے اگر اس طرف توجہ دلانا چاہیں تو دلا سکتے ہیں۔ صدر صاحب کا یہ جواب جہاں مجھے حیران کرنے والا تھا وہاں فکر مند کرنے والا بھی تھا کیونکہ نوجوانوں اور بچوں کو تو یہ باربار نصیحت کی جاتی ہے اور والدین کو اِس کے لئے سب سے مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ دو اور حقیقت میں والدین ہیں بھی ایک بہت مؤثر ذریعہ۔لیکن اگر ان میں خود ہی ،جن کی اکثریت انصار اﷲ میں ہے، اس کام کی طرف پوری توجہ نہیں دی جارہی تو وہ بچوں اور نوجوانوں کو کس طرح نمازوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں یا ان پر نمازوں کی اہمیت واضح کر سکتے ہیں یا اس کی تلقین کر سکتے ہیں۔وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو اس قدر تردّد سے اس طرف توجہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ان کو تو اس اہتمام سے نمازیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔یہ بہت خطرناک چیز ہے۔اس طرف پوری توجہ نہ دینے کی وجہ سے جہاں خود انصار اﷲ میں اپنی روحانی حالت میں ٹھہراؤ یا گراوٹ کا اظہار ہوتا ہے وہاں یہ امر اگلی نسلوں میں نمازوں کی اہمیت کی طرف توجہ نہ دلانے کا باعث بھی بن رہا ہے۔تقویٰ سے دور لے جانے والا بن رہا ہے اور پھر انصار اﷲ کی عمر تو ایک ایسی عمر ہے جس میں زندگی کے انجام کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔آخر کار بڑھتی عمر کے ساتھ ایک دن انسان کا خاتمہ ہونا ہے اور وہی انجام ہے۔تو انجام کی طرف یہ جو تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم ہیں وہ تو بہت زیادہ فکر اور تردّد کے ساتھ اس طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں۔پس ایک مومن جسے خدا تعالیٰ کا خوف ہو اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے انجام کو سامنے دیکھتے ہوئے خوف زدہ ہو جاتا ہے اور خوف کی یہ حالت پھر اسے مجبور کرتی ہے کہ خالص ہو کر
خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور اُس کا قرب چاہے۔
گزشتہ دنوں ہم رمضان کے مہینے سے گذرے ہیں ۔امید کرتا ہوں کہ کمزوروں میں بھی ان دنوں میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی ہو گی اور نمازوں کی طرف توجہ ہوئی ہو گی۔اور جیسا کہ مساجد کی حاضری سے ثابت ہے کہ توجہ ہوئی ہے۔پس اس توجہ کو اگر انصار سو فیصدی اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تو ایک
عظیم الشان پاک تبدیلی ہمیں جماعت کے اندر نظر آئے گی جس کے اثرات نہ صرف ہم اپنے اندر محسوس کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے بیوی بچوں میں بھی محسوس کر رہے ہوں گے۔
اﷲ تعالیٰ نے جب نماز پڑھنے کا حکم فرمایا تو یہ بھی اعلان فرمایا کہ اس ذریعہ سے ایک پاک انقلاب تمہارے اندر پیدا ہو گا۔لوگ پوچھتے ہیں کہ کوئی دعا یا ذکر بتائیں جس سے ہمارے اندر پاک تبدیلی پیدا ہو اور وہ پاک تبدیلی اگر پیدا ہو جائے تو پھر قائم بھی رہے۔ سب سے بڑی دعا اور سب سے بڑا ذکر نماز ہی ہے بشرطیکہ اس کا حق ادا کرتے ہوئے وہ ادا کی جائے۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ا نے فرمایا: نماز عبادت کا مغز ہے۔
پس جس کو مغز مل جائے جس میں تمام قسم کی دعائیں آجاتی ہیں اور نہ صرف دعائیں آجاتی ہیں بلکہ انسان کی ہر طرح کی عاجزی اور انکساری اور کم مائیگی اور تضرّع کی وہ حالتیں بھی آجاتی ہیں جس سے ایک مومن خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بن سکتا ہے تو اُس کو کسی دوسری قسم کے اذکار اور دعاؤں کی کیا ضرورت ہے؟
پس جب انصار اﷲ کا نام اپنے ساتھ لگایا ہے تو سب سے پہلا اور بڑا اور اہم تقاضا انصار اﷲ بننے کا یہی ہے کہ اس کی عبادت کے معیار قائم کئے جائیں۔جیسا کہ میں نے کہاانصار اﷲ نے اپنے تعلق باﷲ کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور بچوں کے لئے بھی نمونہ بننا ہے اور اگر انصار اﷲ میں نمازوں کے بارے میں سستیاں ہوتی رہیں یا ان میں سے ایک بڑا حصہ سستی دکھاتا رہے یااگر اکثریت نہ سہی مگر ایک حصہ سستی دکھاتا رہے تو جہاں وہ نماز کے اہم فریضہ پر توجہ نہ دے کر اپنے
اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں کمی کر رہے ہوں گے وہاں وہ ایک مذہبی فریضہ پر پوری طرح عمل نہ کر کے ایک ایسا جرم کر رہے ہوں گے جو مذہبی جرم ہے۔نمازایک ایسا اہم فریضہ ہے جس کا ادا کرنا بہت ضروری ہے۔کلمہ طیّبہ پڑھنے کے بعد،اﷲ تعالیٰ کی توحید بیان کرنے کے بعد اور آنحضرت ا پر ایمان لانے کے بعد نماز کے فریضہ کو اسلام کے سب سے اہم رکن کے طور پر رکھا گیا ہے۔گویا کلمہ طیّبہ مسلمان ہونے کا زبانی اقرار ہے اور نماز اس کی عملی تصویر ہے۔پس جب تک عمل نہ ہو زبانی دعوے کر کے ایک انسان مجرم بنتا ہے۔ایک ملکی قانون کو تو انسان مان لیتا ہے لیکن اگر عمل اس کے الٹ کرے تو کیا یہ ملکی قانون توڑنے والا مجرم نہیں کہلائے گا۔یقینا انسان اس سے مجرم بنتا ہے تو اس طرح نماز کی ادائیگی نہ کرنے والا بھی مذہبی مجرم ہے اور پھر جب بچوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی انصار پر ڈالی گئی ہے تو ان کے سامنے نیک نمونے قائم نہ کرکے اورپھر اس امانت کا حق ادا نہ کر کے ایسے لوگ قومی مجرم بن جاتے ہیں۔اگر قوم میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو وہ ان لوگوں کے عمل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جن کے سپرد یہ ذمہ داری لگائی ہوتی ہے۔اگران کی نسل میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو ان کی نگرانی اور دعا میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔پس جب انصار یہ کہتے ہیں کہ الحمدﷲ ہم مجلس انصار اﷲ کے ممبر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس مجلس کے ممبر ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے ہر کام میں مددگاروں کی مجلس ہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی توحید کے قیام اور آنحضرت ا کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے ہر قسم کی عملی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اور عملی مدد کا پہلا اور بنیادی قدم بلکہ ایسا قدم جسے خدا تعالیٰ نے فرائض میں شامل فرمایا ہے نماز ہے۔اور عبادت کے یہی عملی نمونے جب گھروں میں قائم ہوتے ہیں ،نماز کے قیام کی گھروں میں بات ہوتی ہے تو نئی نسل بھی اس کی اہمیت اپنے ذہنوں میں بٹھا لیتی ہے اور اس طرح ہم اپنی نسلوں کی تربیت انہی بنیادوں پر کر رہے ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہیں اور یہ ایک بہت بڑا اہم کردار ہے جو خاموشی سے گھر کا سربراہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔
پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ انصار اﷲ کی کمزوری سے نسلوں میں کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ایک بچے نے اُس بزرگ کو صحیح جواب دیا تھا کہ اگر میں کیچڑ میں پھسلا تو میرے پھسلنے سے مجھے چوٹ لگے گی لیکن اگر آپ پھسلے تو پوری قوم کو لے کر ڈوب جائیں گے۔تو اُس بزرگ نے بھی اس کا صرف ظاہری مطلب نہیں لیا بلکہ اُن کی سوچ اس بات کی گہرائی تک گئی کہ بچہ صحیح کہہ رہا ہے۔میرے کئی شاگرد ہیں ۔کئی ایسے لوگ ہیں جو میرے پیچھے چلنے والے ہیں۔میری زندگی کے ہر عمل میں ذرا سی لغزش بھی میرے پیچھے چلنے والوں کی دنیا و آخرت خراب کر سکتی ہے۔پس یہ سوچ ہے جو انصار اﷲ کے ہر ممبر کو ہر ناصر کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم حقیقی انصار اﷲ ہیں۔ورنہ مجلس انصار اﷲ کی ممبر شپ لے لینا یا اُس میں شامل ہو جانا یا چالیس سال کی عمر کے بعد طوعاً و کرعاً یا مجبوری سے اس میں شامل ہو جانایا جماعتی قواعد کی روح سے اس کا ممبر بننا یا اپنی آمدمیں سے کچھ چندہ مجلس دے دینا یا چیرٹی واک میں حصہ لے لینا یا اجتماع پر چند پروگراموں میں حصہ لے لینا یا اجتماع میں دو دن کے لئے شامل ہو جانا آپ کو انصار اﷲ نہیں بنا سکتا۔
انصار اﷲ وہ ہیں جو دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کیا حکم دیئے ہیں ۔ایک مومن کی حیثیت سے ہمارے کیا کیا فرائض ہیں اور پھر ہم نے اُن فرائض پر خالص خدا تعالیٰ کی رضا کی حصول کے لئے کس طرح عمل کرنا ہے۔کس طرح ان کو بجا لانے کے لئے سعی اور کوشش کرنی ہے۔پس یہ جو عبادتوں اور نمازوں کی طرف توجہ دلانی ہے یہ بہت اہم چیز ہے۔انصار اﷲ میں سے تو سو فیصد کو اس طرف توجہ ہونی چاہئے۔
دینی علوم کے حصول کی طرف توجہ کریں
اس کے علاوہ میں کچھ اور باتوں کی طرف بھی آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔اُن میں سے ایک یہ ہے کہ دینی علم کی طرف توجہ اور اس کا حصول ۔یہ قرآن ِ کریم،احادیث اور حضرت مسیح موعود؈ کی کتب کے پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔آنحضرت ا کا فرمان ہے کہ پنگھوڑے سے لے کر لحد یعنی قبر تک علم حاصل کرو اور یہ علم حاصل کرتے چلے جانا ایک مومن کا فرض ہے۔اس لئے یہ تو کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میرا علم اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ اب مجھے علم کی ضرورت نہیں۔غور کرنے پر قرآن کے تو بے انتہا نئے نئے مطالب سمجھ آتے ہیں۔احادیث میں بھی بعض ایسی غور طلب احادیث ہیں جو بعض اوقات اس کا علم رکھنے والوں کو بھی پوری طرح سمجھ نہیں آتیں اور وہ اس کے لئے پھر اپنے سے بہتر احادیث کا علم رکھنے والوں سے مدد لیتے ہیں۔پھر حضرت مسیح موعود؈ کی کتب ہیں۔ہر مرتبہ پڑھنے پر نئے معانی اور معرفت کے نقاط ان سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے کوئی یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا کہ ہم نے کتب کو پڑھ لیا ہے۔یا قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لیا ہے یا تفسیر یں پڑھ لی ہیں یا کچھ احادیث پڑھ لی ہیں اس لئے اب ہم اتنے قابل ہو گئے ہیں کہ اب مزید علم کی ضرورت نہیں۔علم کو تو بڑھاتے چلے جانا چاہئے۔جو اپنے آپ کو اپنے زعم میں بہت بڑا علمی آدمی سمجھتے ہیںان کی سوچیں بڑی غلط ہیں۔
حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ الفضل جماعت کا اخبار ہے ۔ لوگ وہ نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کون سی نئی چیز ہوتی ہے ،وہی پرانی باتیں ہیں۔حضرت مصلح موعود ؓ جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود؈ کو بتایا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا ، وہ فرماتے ہیںکہ شائد ایسے پڑھے لکھوں کو یا جو اپنے زعم میں پڑھا لکھا سمجھتے ہیں کوئی نئی بات الفضل میں نظر نہ آتی ہو اور وہ شائد مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہوںلیکن مجھے تو الفضل میں کوئی نہ کوئی نئی بات ہمیشہ نظر آجایا کرتی ہے۔
(مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقاریر۔ انوارالعلوم جلد 14صفحہ 546-545)
تو جس کو علم حاصل کرنے کا شوق ہو وہ تو پڑھتا رہتا ہے اور بغیر کسی تکبر کے جہاں سے ملے پڑھتا رہتا ہے۔جو علم رکھتے ہیں انہیں اپنا علم مزید بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو کم دینی علم رکھتے ہیں اُن کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ پھر یہ علم جہاں ان کی اپنی معرفت بڑھانے کا باعث بنے وہاں ان کے بچوں کے لئے بھی نمونہ قائم کرنے والا ہو۔جب بچے دیکھیں گے کہ گھروں میں دینی کتابیں پڑھی جا رہی ہیں تو اُن میں بھی رجحان پیدا ہو گا۔اکثر اُن گھروں میں جہاں یہ کتابیں پڑھی جاتی ہیں اُن کے بچے شروع میں ہی چھوٹی عمر میں ہی کتابیں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ علم پھر سب سے بڑھ کر تبلیغی میدان میں کام آتا ہے۔
تبلیغ کی طرف توجہ کریں
انصار اﷲ کی ایک خاصی تعداد ایسی ہے جو فارغ ہے تو بجائے گھر میں بیٹھنے کے، گھر والوں کو پریشان کرنے کے مجلس انصار اﷲ کو باقاعدہ ایسی سکیم بنانی چاہئے جس کے تحت انصار اﷲ کے جو ممبران ہیں اُن کو تبلیغ کے لئے استعمال کیا جائے اور وہ انصار جو فارغ ہیںخود بھی اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کریں اور تبلیغ کے میدان میں مدد کریں۔
جیسا کہ مَیں نے جماعت کو بھی کہا ہے اور ذیلی تنظیموں کو بھی کہا ہے کہ اسلام اور جماعت کا حقیقی تعارف ہر طبقہ تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور دس سال کا ایک منصوبہ بنانا چاہئے کہ دس سال میں یہاں UK میں ہر شخص تک جماعت کا ایک مختصر سا تعارف پہنچا سکیں اور پھر اس کے لئے ہمیں ہر سال کم از کم دس فیصد آبادی تک جماعت کا یہ تعارف پہنچانا ہو گا۔صرف اتنا سا پیغام ہو کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا پیغام کیا ہے؟آپ ؑ کی بعثت کا مقصد کیا ہے؟ ۔دین کی ضرورت کیا ہے؟ ۔ اتنا پیغام ہی پہنچ جائے مختصر باتیں ہوں اور آگے پیچھے ایک ورقہ شائع کیا جائے اور اُس پرہماری ویب سائٹ کا پتہ دیا جائے۔ایم ٹی اے کا پتہ دیا جائے تاکہ جو دلچسپی رکھنے والے ہیں وہ پھرخود ہی توجہ کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ایک چھوٹا سا فنکشن کرکے چند آدمیوں کو چند کتابیں دے دی جائیں جو گھر جا کے رکھ دیتے ہیں اور پڑھتے بھی نہیں اور وہ کتابیںضائع ہو رہی ہوتی ہیں تو اس طرح وہ کسی اور کے کام آسکتی ہیں۔ بنیادی طور پر پہلے یہ دیکھیں کہ جس کو دے رہے ہیں اس کو مذہب سے یا دین سے کوئی دلچسپی بھی ہے کہ نہیں ۔ پس پہلا کام تو یہ کہ جوتعارفی ایک ورقہ ہے وہ ہر شخص تک پہنچ جانا چاہئے ۔پھر اس کے ساتھ ساتھ مزید رستے کھلتے چلے جائیں گے۔اگر انصار اﷲ میں وہ ممبران جو کچھ نہیں کر رہے او ر فارغ بیٹھے ہیں یا کسی ڈاکٹری مشورہ کی وجہ سے ،کسی چوٹ وغیرہ کی وجہ سے بھاری کام نہیں کر سکتے اور ان کو ڈاکٹروں نے سرٹیفیکیٹ دیا ہو کہ تم نے کام نہیں کرنا تووہ یہ تبلیغ کا کام توکر سکتے ہیں۔وہ اس پیغام کے پہنچانے اور احمدیت کا تعارف پہنچانے کی مہم میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جب وہ عملاً اس میدان میں قدم رکھیں گے تو اپنے دینی علم کی ترقی اور دعاؤں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی اور پھر یہ توجہ بڑھتی چلی جائے گی اور اس سے روحانیت میں ترقی ہوتی چلی جائے گی۔پس یہ دوسری بات ہے کہ تبلیغ کے میدان میں ایک خاص شوق،جذبے اور کوشش سے اپنے آپ کو پیش کریں۔
مالی قربانیوں کی طرف توجہ کریں
پھر ایک بات دین کی خاطر مالی قربانیوں کی ہے۔میں پہلے بھی اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہانصار اﷲ کی عمر میں ایک ایسا طبقہ بھی ہوتا ہے جو اپنے پیشہ ورانہ صلاحیتوں یا ہنر کے کمال کو پہنچ چکا ہوتا ہے ۔ اسی طرح اپنی آمدنیوں کے، تنخواہوں کے، اجرتوں کے جو Maximumسکیل ہوتے ہیں اُن کو حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آپ کی آمدنیوں میں جوترقی ہے اس میں دین کا حق بھی اپنی قربانی کے معیاروں کو بلند کرتے ہوئے ادا کریں۔
ایک تو مَیں نے کہا تھا کہ صفِ دوم کے جو انصار ہیںوہ نظام وصیت میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔ اگر صف دوم کے انصار نے اس طرف توجہ دی ہے اور ان کی اکثریت، بلکہ صف دوم کے انصار کو تو سو فیصد شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر تو اکثریت شامل ہو گئی ہے تو الحمد ﷲ اور اگر کوئی مزید گنجائش ہے تو اسے بھی پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ کوشش مجلس انصار اﷲ کی سطح پر ہونی چاہئے۔اگر وہ معیاری عمل نہیں کئے جن کی انصار اﷲ سے توقع کی جاتی ہے تو تب بھی توجہ کرنی چاہئے۔
بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ہمارے عمل ایسے ہیں کہ ہمیں وصیت کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔اگر ایسے عمل ہیں تب بھی وصیت کرنی چاہئے۔ہو سکتا ہے کہ اس کی بدولت اﷲ تعالیٰ اُن میں نیکی کی روح پھونک دے ۔ بلکہ وصیت کرنے کے بعد بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ خود بخود توجہ پیدا ہوتی چلی جارہی ہے جو اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی وجہ بھی بن رہی ہے ، دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ نمازوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ قربانیوں کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔قربانیوں کے معیار بلند ہو رہے ہیں۔ستر یا پچہتّر سال کے جو انصار ہوتے ہیں ان میں سے بعض کی وصیت تو مرکز منظور کرتا ہے اور بعضوں کی نہیں کرتا۔لیکن صف دوم کے جو انصار ہیں ان کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔
پھر اسی طرح دوسری مالی تحریکات ہیں ان کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔اپنے نام کو دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کے مددگار اور ناصر بننے کا اعلان کر رہے ہیں ، پھر اپنی قربانیوں کو دیکھیں،خود اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے دل سے فتویٰ لیں کہ کیا ہم انصار اﷲ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔جب خود اپنی سوچ کو اس نہج پر لائیں گے تو مجھے امید ہے کہ انشاء اﷲ تعالیٰ ہر ایک کے اندر پاک تبدیلیوں کے اور قربانیوں کے معیار بڑھتے چلے جائیں گے اور جب یہ بڑھیں گے تو یہی چیز ہے جو من حیث الجماعت، جماعت کی بقا اور ترقی کے سامان کرتی ہے۔
خلافت سے وابستگی اور اس کے تقاضے
پھر انصار اﷲ کا ایک اہم کام خلافت سے وابستگی اور اس کے استحکام کی کوشش کرنا ہے۔اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا ہر فرد اس میں لگا ہوا ہے اور بڑے اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں۔لیکن انصار اﷲ کو اس پر نظر رکھنی چاہئے کہ جومعیار حاصل کر رہے ہیں یہ یہیں نہ رک جائیں بلکہ بڑھتے چلے جائیں۔اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور یقینا یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت مومنین کے لئے ضروری ہے اور قرآن ِ کریم میں اس کا ذکر بھی فرمایا ہے جیسا کہ فرماتاہے وَعَدَاﷲُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْامِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (سورۃ النور:56) کہ اﷲ تعالیٰ نے تم میں سے جو ایمان لانے والے ہیں اور نیک عمل کرنے والے ہیں اُن سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا یعنی ان میں خلافت کا نظام قائم ہو گا اور مومنین کی جماعت خلیفہ وقت کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی باتوں پر عمل کرنے والی ہو جائے گی۔گویا کہ وہ ایک جان بن جائیں گے۔ جماعت کا اور خلیفہ کا ایک وجود بن جائے گا۔افراد ِجماعت اس کے اعضاء ہو جائیں گے اور خلیفہ وقت اس کے دل و دماغ کا کردار ادا کرے گا۔اور جب یہ سوچ ہر ایک میں پیدا ہو جائے گی تو سوال ہی نہیں کہ کوئی فرد ِ جماعت اپنے فیصلوں اور اپنے علمی نقطوں اور اپنے عملوں پر اصرار کرے۔دنیا نے کبھی یہ واقعہ ہوتے نہیں دیکھا کہ دماغ ہاتھ کو ایک حکم دے اور ہاتھ اس حکم کو ردّ کرتے ہوئے اپنے طور پر کوئی کام سر انجام دے۔
پس جو ایمان لانے والے ہیں ،نیک اعمال کرنے والے ہیں ،اﷲ تعالیٰ کے احکام ماننے والے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق اس جسم کا عضو بن جاتے ہیں جو دماغ کے تابع ہوتے ہیں۔ اس جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں جو آخری زمانے میں حضرت مسیح موعود؈ کے ذریعہ سے قائم ہو کر پہلوں سے ملنے والی جماعت ہے۔ پھر اس کے عملی نمونے دکھاتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے اس انعام کے حقدار ہو جاتے ہیں جو قیامت تک جاری رہنے والا انعام ہے۔
انصار اﷲ کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اس انعام سے حقیقی رنگ میںتبھی فیض اٹھائیں گے جب وہ ہر وقت اپنے ذہن میں یہ رکھیں گے کہ بحیثیت انصار اﷲ ہم اس جسم کا اہم عضو ہیں اور جسم کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر عضوسلامت ہو اور ہم نے اپنا نام اﷲ تعالیٰ کا مدد گار رکھ کر اپنے آپ کو جماعت کا وہ اہم حصہ بنا لیاہے جس کے عملی نمونے اور پاک تبدیلیاں دوسری تنظیموں اور افرادِ جماعت سے بہت بڑھ کر ہونی چاہئیں۔ہماری مالی قربانیوں کے معیار بھی دوسروں سے بلند ہوں۔ہماری تبلیغی سرگرمیوں کے معیار بھی دوسروں سے بلند ہوں۔ہماری عبادتوں کے معیار بھی دوسروں سے بلند ہوں۔جب یہ باتیں ہوں گی تو ہم حقیقی انصار اﷲ کہلائیں گے۔
اﷲ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود؈سے وعدہ ہے کہ آپؑ کی جماعت کو غلبہ عطا فرمائے گا اور ترقیات سے نوازے گا۔بے شک راہ میں روکیں آئیں گی مگر جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی چلی جائے گی۔پس جب اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور خلافت کا بھی دائمی وعدہ ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ خلافت کو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دین کے انصار بھی مہیا فرماتا چلا جائے گا۔گویا انصار اﷲ بھی ایک ہمیشہ قائم رہنے والا ادارہ ہے کیونکہ وہ افراد ہی ہیں جن کے ذریعہ سے اﷲ تعالیٰ دین کی نصرت کے لئے سامان فرماتا ہے۔اگر کوئی فرد دین کی نصرت کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کرے گا تو اﷲ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اور افراد تیار کر دے گا ،اور قومیں تیار کر دے گا اور انصار اﷲ کا جو یہ سلسلہ ہے یہ جاری رہے گا اور چلتا چلا جائے گا اور ہمیشہ جاری رہے گا۔پس اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے، اپنے آپ پر اﷲ تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہوئے ہمیشہ یہ کوشش کرتے چلے جانا چاہیئے کہ ہر فرد ناصرِ دین بنا رہے اور اس کا حق ادا کرنے والا ہو۔دنیا میں ہم جو جماعتی ترقیات دیکھ رہے ہیں یہ کسی فرد کی یا کسی خاص جماعت کی یا وہاں کے انصار کی مرہونِ منت نہیں بلکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے اور جماعت کی من حیث الجماعت ایک کوشش ہے جس میںخدا تعالیٰ برکت ڈال رہا ہے۔جس کے پھل آج ہم کھا رہے ہیں اور انشا اﷲ کھاتے چلے جائیں گے۔ہمارے بڑوں نے انصار اﷲ ہونے کا حق ادا کیا اور بے نفس ہو کر دین کی خاطر قربانیاں کیں۔آج یہ ہمارا فرض ہے کہ ایک خاص کوشش اور دعا کے ساتھ ساتھ اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے راستے ہموار کرتے چلے جائیں۔
حضرت مسیح موعودؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں بار بار اور کئی مرتبہ کہہ چکا ہوںکہ ظاہری نام میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں ۔تم بھی مسلمان ہو ۔ وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔تم کلمہ گو ہووہ بھی کلمہ گو کہلاتے ہیں۔تم بھی اتباع ِ قرآن کا دعویٰ کرتے ہو۔ وہ بھی اتباع ِ قرآن کے مدعی ہیں۔غرض دعووں میں تم اور وہ دونوں برابر ہو۔مگر اﷲ تعالیٰ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو۔اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت حاصل کرنی چاہیئے اور اس پر کاربند ہونا چاہئے اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوفِ خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھا وے۔اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں ‘‘۔ فرماتے ہیں:’’۔۔۔۔۔نصیحت کرنا اور بات پہنچانا ہمارا کام ہے ۔یوں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ہزار ہا انسان ہیں جنہوں نے محبت اور اخلاص میں تو بڑی ترقی کی ہے مگر بعض اوقات پرانی عادات یا بشریت کی کمزوری کی وجہ سے دنیا کے امور میں ایسا وافرحصہ لیتے ہیں کہ پھر دین کی طرف سے غفلت ہو جاتی ہے۔ہمارا مطلب یہ ہے کہ بالکل ایسے پاک اور بے لوث ہو جاویں کہ دین کے سامنے امور دنیوی کی حقیقت نہ سمجھیں اور قسما قسم کی غفلتیں جو خدا سے دوری اور مہجوری کا باعث ہوتی ہیں وہ دور ہو جاویں‘‘۔
فرمایا’’۔۔۔۔۔۔۔۔پس ضروری ہے کہ جو اقرار کیا جاتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔اس اقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو اور اس کے مطابق اپنی زندگی کا عملی عمدہ نمونہ پیش کرو۔عمر کا اعتبار نہیں ۔دیکھو ہر سال میںکئی دوست ہم سے جدا ہو جاتے ہیں ‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 604-605جدید ایڈیشن،ربوہ)
اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگی کو اس نہج پر چلانے ولے ہوں۔اپنی عبادتوں کے معیار اس حد تک لے جانے والے ہوں جو اﷲ اور اس کے رسول ہم سے چاہتے ہیں اور جن کی تلقین حضرت مسیح موعود؈ نے فرمائی ہے۔اﷲ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین۔اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں