خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ8؍ ستمبر2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج کے دن حسبِ روایت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر ہوتا ہے جو جماعت پر دورانِ سال ہوئے اور یہ ذکر بھی اُن فضلوں کا عُشر عشیر بھی نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ سارے سال میں جماعت احمدیہ پر فرما رہا ہے ۔ مَیں نے جو یہ اتنا بڑا پلندہ اُٹھایا ہے اور لے کے آیا ہوں اس سے لوگ پریشان نہ ہو جائیں۔ اس میں سے بھی کچھ حصے بیان ہوں گے سب بیان نہیں کر سکوں گا۔کیونکہ اس کے لئے تو بہت وقت چاہئے۔ باوجود بہت خلاصہ کرنے کے تب بھی بے انتہا بڑی رپورٹ بن جاتی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اللہ تعالیٰ کا بہت احسان ہے کہ اس سال بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو نئے ممالک میں احمدیت کا پودا لگانے کی توفیق عطا فرمائی اور اب دنیا کے دو سو دو (202) ممالک میں جماعت احمدیہ کا پودا لگ چکا ہے اور(جماعت) قائم ہو چکی ہے۔ اور اس طرح گزشتہ اٹھائیس سالوں میں اس آرڈیننس کی وجہ سے جو اس نیت سے جاری کیا گیا کہ جماعت کو اب ختم کر دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے ایک سو گیارہ نئے ممالک جماعت احمدیہ کو عطا فرمائے ہیں۔ دورانِ سال جو دو نئے ممالک ملے ہیں اُن میں پانامہ (Panama) اور امیریکن ساموآ (American Samoa) ہیں۔ پانامہ جو ہے یہ سینٹرل امریکہ میں واقعہ ہے۔ شمال میں Caribbean Sea اور جنوب میں اس کے Pacific Sea ہے۔اور شمال مغرب میں ملک کوسٹا ریکا (Costarica)ہے، جنوب مشرق میں کولمبیا (Columbia)ہے۔ سپینش یہاں بولی جاتی ہے اور پینتیس لاکھ اس ملک کی آبادی ہے۔ چھوٹا ساملک ہے۔ یہاں ہمارے اٹلی سے توصیف صاحب نائب صدر خدام الاحمدیہ گئے تھے اُن کے ذریعے سے جماعت یہاں قائم ہوئی۔ پھر یہاں کے ایک نو مبائع 2011ء میں پچھلے جلسہ کے بعد گوئٹے مالا کے جلسہ میں شامل ہوئے اور انہوں نے اسلام کے بارے میں، احمدیت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں، جماعتی لٹریچر ساتھ لے گئے اور پھر جماعت بڑھی۔ پھر ہم نے مبلغ کو بھی یہاں بھجوایا اُن کے ذریعے سے بھی بیعتیں ہوئیں۔

امریکن ساموآ یہ ملک بھی ساؤتھ ویسٹ کے جزائر کے ممالک میں سے ہے۔چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کی پچپن ہزار کی آبادی ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کے سپرد کیا گیا تھا اور ان کے ذریعے سے یہاں جماعت قائم ہوئی۔ دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے باون ممالک میں وفود بھجوا کر احمدیت میں نئے شامل ہونے والوں سے رابطے کئے گئے اور ان کی ایک لمبی فہرست ہے جو پیش کرنی ممکن نہیں۔

نئی جماعتوں کا قیام

اس طرح اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے علاوہ دنیا بھرمیں اس سال جو جماعتیں قائم ہوئی ہیں اُن کی تعداد 605 ہے اور ان 605 جماعتوں کے علاوہ 957 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔

نئی جماعتوں کے قیام کے واقعات

نئی جماعتوں کے قیام کے کچھ واقعات ہیں۔ مبلغ برنی کونی نائیجر لکھتے ہیں کہ ماذوجی (Mazogee) گاؤں نائیجیریا کے بارڈر پر واقع ہے۔ ہم لوگ جب اس گاؤں میں تبلیغ کے لئے پہنچے تو گاؤں کے چیف صاحب نے بتایا کہ امام صاحب کام کے سلسلے میں کانو (نائیجیریا) گئے ہوئے ہیں اس لئے آپ پھر کبھی آئیں۔ اس لئے ہم لوگ تبلیغ کئے بغیر واپس آ گئے۔ ایک دفعہ پھرجب ہم اس گاؤں میں پہنچے تو گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ آج صبح ہی امام صاحب واپس آئے ہیں۔چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں امام صاحب سمیت گاؤں کے لوگ جمع ہو گئے۔ خاکسار نے اجازت لے کر حسبِ معمول احمدیت کا تعارف کروایا اور آخر پر سوال کرنے کے لئے موقع فراہم کیا۔ اس گاؤں کے امام صاحب جو کہ ایک سنجیدہ اور عمر رسیدہ شخصیت ہیں۔ انہیں عربی زبان میں بھی کافی مہارت ہے۔ حدیث اور تفسیر کے مروّجہ علوم حاصل ہیں۔ امام صاحب نے بڑی خوشی کے ساتھ ہمارا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ہم سب بیعت کے لئے تیار ہیں۔ اور پھر امام صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ مَیں ’کانو‘(Kano) میں تھا۔ رات درود شریف کے ساتھ دعائیں کرتا ہوا سو گیا تو خواب میں مجھے بڑی زور دار آواز آئی کہ امام مہدی علیہ السلام کا دنیا میں ظہور ہو چکا ہے اور اس کے سفید جلد والے لوگ تمہارے علاقے میں پھر رہے ہیں۔ ان تک پہنچواور بیعت کرو۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے جاگتے ہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور صبح سامان باندھ کر یہاں پہنچ گیا۔ آگے آپ لوگوں کو موجود پایا۔ اس لئے نہ مجھے شک ہے اور نہ ہی کوئی سوال بلکہ مَیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے آپ کو ہمارے گاؤں تک بھیجا ہے۔ الحمد للہ اب یہ سارا گاؤں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکا ہے اور ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آ گیا ہے۔

امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال بہت کم بارش ہوئی جس کی وجہ سے شدید مشکلات تھیں۔ انہوںنے  مجھے بھی دعا کے لئے لکھاتو میں نے اُن کو کہا تھا کہ نمازِ استسقاء پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ ہمارے ایک معلّم بیان کرتے ہیں کہ ایک سکول ٹیچر محمد طورے صاحب ان کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ باقاعدگی سے ریڈیو احمدیہ سنتے تھے لیکن جماعت سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ایک دن سنا کہ جماعت کے خلیفہ نے اس علاقے کے لئے بارش کی خصوصی دعا کی ہے۔ پھر اس نے سنا کہ مالی جماعت کا امیر اُن کے علاقے میں آ رہا ہے تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ خود جا کر اُسے ملے۔ چنانچہ فراکو (Farako) گاؤں جہاں پروگرام تھا وہ وہاں پہنچ گیا۔ وہاں بھی اُس نے امیر سے سنا کہ اس علاقے میں بارشوں کے لئے خلیفۃ المسیح نے دعا کی ہے اور پھر خصوصی نماز پڑھائی۔ اس نے اپنے دل میں رکھ لیا کہ اگر اس سال غیر معمولی بارش ہوتی ہے تو صرف دعا کا نتیجہ ہو گی۔ کیونکہ کئی سال سے اچھی بارشیں نہیں ہوئی تھیں۔ جب بارش کا موسم آیا تو اُس نے دیکھا کہ ہر دوسرے تیسرے دن بہت بارش ہو جاتی ہے۔ وہ اس چیز کا گواہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں سے ایسی بارشیں نہیں ہوئیں۔ آج وہ اس لئے آیا ہے کہ احمدیت میں داخل ہو کیونکہ خدا خلیفہ کے ساتھ ہے۔ الحمد للہ۔ اب اس گاؤں میں کثرت سے لوگ بیعت کر رہے ہیں۔

بینن سے ہمارے کلاوی (Calavi) ریجن کے معلم بیان کرتے ہیں کہ بے بُولے (Gbeg Bome) گاؤں کے امام کا نوجوان بیٹا احمدی ہو گیا جس پر اس کا والد اس کا سخت مخالف ہو گیا اور دھمکیاں دیتا کہ وہ احمدیت چھوڑ دے ورنہ اُسے گھر سے نکال دے گا لیکن اس نوجوان نے احمدیت چھوڑنے سے انکار کر دیا تو اس کے باپ نے اُسے مارنے کی دھمکی دی اور باوجود مسلمانوں کے امام ہونے کے وہ جادو ٹونے کے ذریعے اپنے بیٹے کو مارنے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ جادو ٹونا افریقہ میں اور عرب ملکوں میں بڑا عام ہے۔ صرف پاکستان یا ہندوستان میں نہیں، ہر جگہ ہی مسلمانوں میں یہ رسم اور بدعت ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن جب وہ گھر کے پیچھے بیٹھ کر کوئی جادو کر رہا تھا تو لوگوں نے اُس کے چیخنے کی آوازیں سنیں۔ جب جا کر دیکھا تو امام بیہوش پڑا ہوا تھا۔ اُس کو اُٹھا کر گھر لایا گیا اور ہوش دلایا گیا۔ بعد میں پوچھنے پر وہ کہتا تھا کہ اللہ مجھے معاف کر دے اور ساتھ ہی اپنے بیٹے سے معافی مانگتا تھا۔ لوگوں کے اصرار پر اُس نے بتایا کہ میں پچھلے دنوں سے اپنے بیٹے کو مارنے کے لئے جادو کر رہا تھا۔ اس دن جب میں جادو کر رہا تھا تو میرے پیٹ میں شدید درد اُٹھی اور کثرت سے اسہال آئے اور لگا کہ میرا آخری وقت ہے۔ اس وقت مجھے بار بار یہی خیال آیا کہ جو کچھ مَیں کر رہا ہوں وہ غلط ہے اور احمدیت یقینا سچی ہے۔ پھر میں بیہوش ہو کر گرگیا۔ اب میں احمدیت کی مخالفت سے توبہ کرتا ہوں۔ اس واقعہ کے بعد سارے خاندان نے بیعت کر لی اور مزید بیعتیںبھی اس گاؤں سے عطا ہوئیں۔

نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد

جماعت کو دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے حضور جو مساجد پیش کرنے کی توفیق ملی اُن کی مجموعی تعداد 338ہے جن میں سے 119 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 219 مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ امریکہ میں حالیہ دورے کے دوران ڈیٹن(Drayton)، کولمبس(Columbus)، ورجینیا(Virginia)، بالٹی مور(Baltimore)، ہیرس برگ(Harrisburg) وغیرہ میں مساجد کے افتتاح کی توفیق ملی۔ کولمبس میں تو پہلے مسجد بن چکی تھی لیکن انہوں نے اس دفعہ افتتاح کروایا۔ اُس کاایک دفعہ پہلے ہو(افتتاح) چکا ہے لیکن اُن کی خواہش تھی کہ پلیٹ لگائی جائے۔ بہرحال تین نئی مساجد وہاں بنیں۔ ورجینیا کی مسجد بڑی خوبصورت اچھی بن گئی ہے۔ بالٹی مور میں ایک چار منزلہ عمارت بھی لی گئی ہے۔ ہیرس برگ میں مسجد ہادی کا افتتاح ہوا ہے۔ وسیع چرچ تھا جو خریدا گیا ہے۔ یوکے میں اللہ کے فضل سے چھ نئی مساجد کا افتتاح ہوا ہے،۔ مسجد طاہر (کیٹفرڈCatford)، بیت التوحید (فیلتھمFeltham)، بیت الامن (ہیزHayes)، بیت العطاء (وولور ہیمپٹنWolverhampton)، مسجد بیت الغفور (ہیلس اووَنHalesowen)دار الامان (مانچسٹرManchester)۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے میں مساجد کی تعداد 16ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ اور جگہوں پر مسجدیں بن رہی ہیں۔ ہندوستان میں اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے سات مساجد کا افتتاح ہو اہے۔ بنگلہ دیش میں تین مساجد، انڈونیشیا میں اس سال پانچ مساجد کا اضافہ ہوا ہے اور اب اللہ کے فضل سے انڈونیشیا میں ہماری مساجد کی تعداد 392 ہو چکی ہے۔ غانا میں 17 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ فلپائن میں ایک نئی مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ نائیجیریا میں 14 مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ سیرالیون میں 59 مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ لائبیریا میں 12، گیمبیا میں پانچ، آئیوری کوسٹ میں تین۔ اسی طرح دنیا کے مختلف اور ممالک ہیں۔ ایسٹ افریقہ میں سے تنزانیہ میں دس نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں، یوگنڈا میں چھ۔ بورکینا فاسو میں 21 مساجد کا اضافہ ہوا ہے جن میں 14 بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ مالی میں چھوٹے چھوٹے دیہات نے احمدیت قبول کی ہے اور 62 بنی بنائی مساجد وہاں ملی ہیں۔ اسی طرح کانگو کنشاسا میں، بینن میں اور مختلف ممالک میں مساجد میں اضافہ ہوا ہے۔

مساجد کے تعلق میں واقعات

مساجد کے تعلق سے کچھ واقعات ہیں۔گھانا کی ایک خاتون حاجیہ فاطمہ نے شہر میں دو پلاٹ جماعت کو دئیے اور ایک پلاٹ پر تین سال کے عرصے میں مسجد بنانے کا وعدہ کیا۔ اُن سے کہا گیا کہ مسجد کی جلد ضرورت ہے۔ اس کے بچوں نے اُنہیں نئی گاڑی خرید کر دی تھی۔ اب دیکھیں کہ دور دراز علاقوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے کس طرح افرادِ جماعت میں قربانی کی روح پیدا کی ہے۔ کہتے ہیں بچوں نے نئی گاڑی خرید کر دی تھی انہوں نے بچوں سے کہا کہ یا تو یہ گاڑی بیچ کر اس کے پیسے اُسے دئیے جائیں تا کہ وہ مسجد کا کام جلد کروا سکے اور اگر یہ منظور نہیں تو گاڑی گھر کے سامنے کھڑی رہے گی ۔میں اُس پر نہیں بیٹھوں گی جب تک مسجد کی تعمیر کا کام مکمل نہیں ہو جاتا ۔ چنانچہ بچوں نے دوسری صورت کو تسلیم کیا اور مسجد کی تعمیر کروائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین ماہ میں یہ مسجد تعمیر ہو گئی جو گھانا کے حساب سے تیس ہزار گھانین سیڈیز تقریباً سولہ ہزار ڈالر سے اوپر خرچ ہوئے۔ بورکینا فاسو کے ہمارے مبلغ حامد مقصود صاحب لکھتے ہیں کہ تگالہ (Tagala) میں امسال مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔ جماعت کے افراد نے اپنی اپنی ہمت کے مطابق وقارِ عمل میں بھر پور حصہ لیا۔ لجنہ کے ذمہ پانی کی فراہمی تھی جو تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے لاتی رہیں۔ خدام اور انصار کے ذمہ پتھر اور بجری مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ مستری کے ساتھ مدد کرنا بھی تھا۔ا س مسجدمیں دو سو افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ تگالہ گاؤں کے چیف صاحب جو کہ عیسائی تھے انہوں نے پہلے دن سے ہی نہ صرف مسجد کی تعمیر میں بھر پور حصہ لیا بلکہ قانونی مسائل کے حل کرانے میں بھی کافی معاونت کی۔ اُن پر مقامی چرچ کے اطراف سے کافی دباؤ تھا کہ کیوں مسجد کی تعمیر میں اتنے سرگرم ہیں؟ مگر انہوں نے کسی دباؤ کو قبول نہ کیا اور نہ صرف خود بلکہ چودہ دیہات کے چیفس کے ساتھ مسجد کے افتتاح میں شریک ہوئے اور احمدیوں کی محبت اور رواداری سے متاثر ہو کر ببانگ دہل اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور ہمارے ساتھ نماز جمعہ ادا کی۔

نئے تبلیغی مراکزکا قیام

تبلیغی مراکز کے قیام میں انڈیا کی جماعت سرِ فہرست ہے جہاں دورانِ سال چالیس مراکز کا اضافہ ہوا۔ پھر سیرالیون ہے۔ پھر انڈونیشیا ہے۔ پھر جرمنی ہے۔ آئیوری کوسٹ ہے اور اس طرح باقی ممالک۔ سٹراس برگ میں بھی جماعتی مشن ہاؤس قائم ہو رہا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ وہاں عمارت لے لی گئی ہے۔

وقارعمل

اسی طرح جماعت احمدیہ کا ایک خصوصی امتیاز وقار ِ عمل ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا کہ عورتیں ایک ایک کلو میٹر سے پانی لے کر آتی تھیں اور مرد مستریوں کی مدد کرتے تھے تو اس طرح وقارِ عمل کے ذریعہ سے ہمیشہ کام ہوتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعتیں اپنی مساجد اور سینٹر اور تبلیغی مراکز کی تعمیر میں بجلی، پانی اور دیگر فٹنگ کا کام اور رنگ و روغن وغیرہ وقار عمل کے ذریعہ سے انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ 62ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق 19980 وقار عمل کئے گئے۔ جس کے ذریعہ سینتیس لاکھ تیرہ ہزار ایک سو تراسی ڈالر کی بچت کی گئی۔ اور اس میں جرمنی سرفہرست ہے۔

وکالت ِاشاعت

وکالتِ اشاعت کی رپورٹ کے مطابق ساٹھ ممالک سے موصولہ رپورٹس کے مطابق 569 مختلف کتب اور  پینتالیس زبانوں میںپمفلٹس ،فولڈر وغیرہ طبع ہوئے ہیں جن کی تعداد باون لاکھ چوہتر ہزار پانچ سو چھبیس ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم کے تراجم مختلف زبانوں میں شائع ہوئے ہیں یا ری پرنٹ ہوئے ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے بعض تراجم شائع ہوئے ہیں، نئے بھی پرنٹ ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ جو تھی اس کا اب تک انگریزی میں ترجمہ نہیں تھا۔ بعض مخالفین یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ اس کا ترجمہ کیوں نہیں شائع کرتے۔ اُس کی پہلی اور دوسری جلد کا بھی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ ایک(نیا) رسالہ جاری کیا گیا جو ریسرچ سیل کے میر محمود احمد صاحب کے ذمہ لگایا تھا۔یہ ماہانہ رسالہ ہے’’ موازنہ مذاہب‘‘ جو یہاں یوکے سے چھپتا ہے اور اس میں بڑے اچھے علمی اور تحقیقی مضامین ہوتے ہیں۔ لوگوں کو بڑے پسند آرہے ہیں، اس کی ضرورت تھی اور گو اس وقت اس کی تعداد کم ہے لیکن اس کے بارے میں مَیں کہنا چاہتا ہوںکہ جو لوگ اردو پڑھنا جانتے ہیں اُن کو اس رسالہ کا خریدار بننا چاہئے۔ اس میں کافی اچھے مضامین ہیں بلکہ بعض مضامین کے ترجمے کر کے ریویو آف ریلیجنز میں بھی شائع کئے جا رہے ہیں۔

امیر صاحب کبابیر لکھتے ہیں کہ پروفیسر حسین درویش صاحب ایک معروف مسلم عالم ہیں، اور یروشلم یونیورسٹی کے ایک سینیئر پروفیسر ہیں۔ موصوف عربی زبان کے معروف ادیب، شاعر اور پائے کے عالم ہیں، ان سے ہم ملنے گئے۔ دورانِ گفتگو بہت جلد حضرت اقدس مسیح موعود کے علم کلام کو سمجھنے لگ گئے۔ ہماری علمی گفتگو کو بڑی عزت اور احترام سے قبول کیا اور اعتراف کرتے گئے۔ انہوں نے کہا کہ کئی بار ہم حیفا سے گزرے ہیں اور قادیانیوں کی مسجد دیکھتے دیکھتے بدگمانیاں کرتے گزرتے رہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ وہاںایک قیمتی علمی خزانہ بھی ہے۔ انشاء اللہ میں اس خزانے سے ضرور فائدہ اُٹھاؤں گا۔ نیز دورانِ گفتگو انہوں نے اس بات کی بھی خواہش ظاہر کی کہ وہ سو ڈیڑھ سو صفحات پر ایک مقالہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب اور عربی زبان کی فصاحت و بلاغت پر لکھیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو عربی زبان کا چیلنج دیا تھا جو بھی نیک فطرت ہو گا، بہر حال اس سے متاثر ہو گا۔ جماعت گنی گناکری کے صدر محمد ماریکا صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان کے چچا بڑے عرصے سے ان کے زیرِ تبلیغ تھے لیکن مخالفت کا یہ عالم تھا کہ اُن کا سگابھتیجا ہوتے ہوئے بھی اُن کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے باوجود ہمیشہ جہاں بھی موقع ملتا میںا ُنہیں پیغامِ حق ضرور پہنچاتا۔ چچا ہمیشہ یہی کہتے کہ علم میں اور تجربے میں مَیں تم سے زیادہ ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ تم احمدیت کے ذریعہ عیسائیت کے طرف جا رہے ہو۔ ایک دن میں نے اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیف ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا فرنچ ترجمہ پڑھنے کو دیا۔ یہ کتاب پڑھ کر اُن کا   یہ بیان تھا کہ یہ کسی جھوٹے انسان کی تصنیف ہو ہی نہیں سکتی۔علم ومعرفت کا اس جیسا بیان میں نے آج تک کسی کتاب میں نہیں دیکھا۔ اس کتاب کے مطالعہ کے دوران وہ آہستہ آہستہ احمدیت سے متاثر ہونے لگے۔ ان کے چچا بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا بھتیجا جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی اور جماعت کے صدر ہیں، وہ آسمان پر ہیں اور یہ اُن سے بہت نیچے ہیں۔ اسی اثناء میں وہ آسمان سے نیچے ہو کر اُن کے سر پر ٹھونگا مارتے ہیں، یعنی بھتیجا چچا کے سر پر ٹھونگا مارتا ہے تو اُن کے سر سے ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی خالی برتن سے آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صبح اُٹھنے پر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام کے متعلق جو آج تک میرا علم تھا وہ خالی برتن ہی تھا جو کہ بے معنی تھا اور میرے بھتیجے کا مجھ سے اوپر ہونا اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اگرچہ انہوں نے ابھی تک احمدیت کو قبول نہیں کیا لیکن مخالفت بالکل ترک کر دی ہے۔

وکالتِ تصنیف

وکالتِ تصنیف کی رپورٹ کے مطابق شارٹ کمنٹری ایڈٹ ہو رہی ہے اور مختلف مضامین کی چیکنگ ہو رہی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ کافی لٹریچر آ گیا ہے، کچھ آنے والا ہے۔ اسی طرح امسال شائع ہونے والی کتابوں میں مجلس خدام الاحمدیہ یوکے نے انگریزی زبان میں حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں کتاب شائع کی ہے،یہ بڑی اچھی کتاب ہے ۔ اسی طرح اور بہت سی کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عربی کی کتب شائع ہوئی ہیں۔ بوسنین میں شائع ہوئی ہیں۔ چینی زبان میں، مالٹی زبان میں، جرمن زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب شائع ہو رہی ہیں۔ مختلف اور لٹریچر جو ہے اس کے ہندی زبان میں ترجمے ہو کر شائع ہوئے ہیں۔ رشین زبان میں ترجمے ہوئے ہیں اور اس طرح دیگر بہت ساری زبانوں میں بھی ترجمے ہو کر کتابیں شائع ہو رہی ہیں اور لوگوں کی توجہ بھی اس طرف بڑھ رہی ہے۔ رسالہ ریویو آف ریلیجنز اس کی تعداد پہلے بہت کم تھی، 2010ء میں بارہ سو چوالیس تھی ۔میں نے جوتحریک کی تو اب اس کی اشاعت آٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے بلکہ اس سال آٹھ ہزار پانچ سو ہو چکی ہے۔ اس میں امریکہ اور غانا کی طرف سے زیادہ خریداری ہے، باقی ممالک میں کم ہے۔ اور ایک شکوہ کینیڈا اور امریکہ کا یہ تھا کہ لیٹ چھپ کے آتا ہے یا پوسٹیج کی وجہ سے لیٹ ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے اب وہاں کوشش ہورہی ہے کہ وہیں سے شائع ہو جائے۔ اور اس کی خریداری بڑھ جائے۔

احمدیہ پرنٹنگ پریسز

احمدیہ پرنٹنگ پریسز جو دنیا کے مختلف ملکوں میںہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ اور اس سال فضل عمر پریس قادیان جو ہے اُس کو تو نئی مشینیں بھجوائی گئی ہیں اور وہاں حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں اور دوسری کتابیں بہت عمدہ شائع ہو رہی ہیں بلکہ آرٹ بائنڈنگ اور دوسری امبوسنگ وغیرہ کی سب مشینیں وہاں ہیںاور تقریباً اسّی پچاسی بلکہ نوّے فیصد کام وہیں ہو رہا ہے۔

نمائشیں۔ بکسٹالز

نمائشیں اور بک سٹالز کے ذریعے سے بھی اس سال کافی کام ہوا ہے۔ قرآنِ مجید اور لٹریچر کی نمائشیں ہوئی ہیں۔ 2320 نمائشوں کے ذریعے اکیس لاکھ چھیاسی ہزار پانچ سو افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا ہے۔ پانچ ہزار دو سو نوے بک سٹالز اور ایک سو بک فیئرز میں شمولیت ہوئی اور ان کے ذریعے سے تینتیس لاکھ بیس ہزار نو سو افراد تک پیغام پہنچا۔

نمائشوں کے بارے میں تأثرات

قرآنِ کریم کی نمائش پر نائیجیریا سے الحاجی وائے عمر (Alhaji Y. Umar) صاحب سینیئر سکیورٹی افسر لکھتے ہیں کہ میں اس چیز سے بہت خوش ہوں کہ جماعت احمدیہ قرآن پاک کی نمائش لگا رہی ہے اور اسلام کو خوبصورت انداز میں پیش کر رہی ہے جس سے غیر مسلم بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر باقی مسلمان بھی جماعت احمدیہ کے بہترین نمونے کو اپنا لیں تو پوری دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف ایلورین کے بیرسٹر آر ابراہیم صاحب نے لکھا کہ: جماعت احمدیہ کے خلیفہ کے ذریعے ہی تمام مسلمان ایک جھنڈے تلے جمع ہوسکتے ہیں۔ خلافتِ احمدیہ ہی دنیا کے لئے آخری امید ہے جس کے ذریعے دنیا کو بچایا جا سکتاہے۔ مجھے آپ کا یہ سلوگن محبت سب کے لئے …بہت اچھا لگتا ہے۔ اگر دنیا کو تباہی سے بچانا ہے تو یہ سلوگن ساری دنیا کا ہونا چاہئے۔

مسز ایس بی الامین صاحبہ نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ: جماعت احمدیہ کے خلیفہ تمام انسانیت کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو کعبہ اور مدینہ کی طرف رہنمائی کریں۔ مسلمانوں کے اتحاد اور فتح کے لئے دعا کریں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا نمونہ آج اس خلافت میں نظر آتا ہے۔ خدارا مسلمانوں کو بچایا جائے۔ جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے کبھی ناکام نہیں کیا۔ ایک عیسائی دوست نے لکھا کہ قرآن شریف کی نمائش سے پہلے مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اسلام اتنا پیارا مذہب ہے اور قرآنِ شریف میں انسانیت کے ہر پہلو کے متعلق تعلیم پائی جاتی ہے۔ مجھے یہاں آ کر یہ احساس ہوا کہ قرآنِ شریف کی تعلیم قابلِ عمل ہے لیکن جو مسلمان اسلام کے نام پر دہشتگردی پھیلا رہے ہیں اُن کو ختم کیا جائے۔ لگتا ہے کہ ان کو اسلام اور قرآنِ کریم کا کچھ بھی علم نہیں ہے۔ امیر صاحب بینن قرآنِ کریم کی نمائش کے بارے میں لکھتے ہیں کہ فنانس منسٹری بینن کے ریٹائرڈ افسر سولے رافیو (Soule Rafiou) صاحب نے کوتونو میں منعقدہ نمائش کو وزٹ کرنے کے بعد کہا: اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے جس طرح منظم طریق پر یہ بھائی یعنی احمدی لگے ہوئے ہیں، میں واقعتا ان سے بہت متاثر ہوا ہوں۔

ناروے کے انتہائی شمال میں لوفوتن (Lofoten) کے مقام پر قرآنِ کریم اور دیگر لٹریچر کی نمائش لگائی گئی۔ یہ نمائش ملک کے شمال میں آرکٹک سرکل سے اوپر واقع جزائر لوفٹن (Lofeten) کے مقام پر لگائی گئی تھی۔ جب ہمارے نارویجن نو احمدی دوست مصطفی بَوْ صاحب نے لائبریری کے انچارج سے قرآنِ کریم کی نمائش لائبریری میں لگانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ باربار رابطہ کرنے پر لائبریری کے انچارج صرف تین دن کی اجازت دینے پر راضی ہو گئے۔ لائبریری انچارج صاحب اس نمائش کو دیکھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ خود ہی کلچر کے انچارج اور اخبار کے نمائندوں کو نمائش دکھانے کے لئے بلایا اور لائبریری والے نے وہ نمائش جو صرف تین دن کے لئے لگانے کی اجازت دی تھی،اب وہاں نمائش لگے تین ماہ ہو چکے ہیں اور لائبریری والے اُس کو بند نہیں کر رہے۔ ایک اخبار نے پورے صفحے پر اس نمائش کی رپورٹنگ کی اور سرخی لگائی کہ ’ہم دلائل استعمال کرتے ہیں، ہتھیار نہیں‘۔ ایک نارویجین نے نمائش دیکھنے اور لٹریچر پڑھنے کے بعد لکھا کہ: اگر آپ کے دلائل کو مان لیا جائے تو عیسائیت مر جاتی ہے۔ سعید احمد صاحب مبلغ کانگو برازاویل لکھتے ہیں کہ ایک کالج کا پروفیسر جو تاریخ پڑھاتا ہے، اسلام کے بارے میں منفی خیالات رکھتا تھا اور یہی کچھ کالج میں پڑھاتا تھا۔ وہ ہماری نمائش دیکھنے آیا اور کہا کہ میں اسلام کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوںاور میں لوگوں کے سامنے اسلام کی اصلیت پیش کروں گا جس کی وجہ سے تم لوگ بھاگ جاؤ گے۔ پانچ چھ دن اس سے سوال و جواب ہوتے رہے۔ اُس کی ساری غلط فہمیاں دور ہوئیں اور اسلام کا نورانی چہرہ اُسے نظر آ گیا اور بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوا۔ اب وہ سکول میں وہ تاریخ پڑھاتا ہے جو وہ احمدیت سے سیکھ رہا ہے۔

امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ غیر مسلموں کی ایک کثیر تعداد اس بات پر حیران تھی کہ ہم غیر مسلم بھی قرآن کو چھو سکتے ہیں اور خرید کر پڑھ سکتے ہیں۔ اس پر انہوں نے احمدیت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

ایک پادری صاحب نمائش دیکھنے کے بعد کہنے لگے کہ احمدیت کی جو تبلیغ ہمارے ریڈیو پر آجکل چل رہی ہے جس میں بائبل کے حوالے سے مسیح کی آمدِ ثانی پر بحث ہو رہی ہے، بہت دلچسپ ہے۔ میں اس کو سنتا ہوں اگرچہ میں ایک پاسٹر(Pastor) ہوں لیکن ایک دن احمدیت میں داخل ہو جاؤں گا۔ نمائش کی برکت سے ہمارے جو گیمبیا کے گورنر جنرل ایف ایم سنگھاٹے صاحب تھے ، اُن کی فیملی کا بھی  دوبارہ جماعت سے رابطہ ہو گیا۔ یہ لوگ ایک عرصے سے کٹے ہوئے تھے۔یہ تصویری نمائش تھی۔ وہاں جب ان کی تصویریں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ساتھ دکھائی گئیں تو اس کے بعد ان کا ایک بیٹا آیا، پھر اگلے دن ان کی اہلیہ آئیں اور اب اس فیملی سے دوبارہ رابطہ ہو رہا ہے۔

امیر صاحب یوکے لکھتے ہیں کہ یہاں انٹرنیشنل بک فیئر میں بڑے بڑے اسلامی ملکوں کے درمیان میں ہمارا سٹال بھی لگا۔ ترکی کے نمائندے ہمارے سٹال پر آئے اور بہت تعریف کی۔ اپنے ملک کے لئے قرآنِ کریم کے تمام تراجم کے نسخے خریدے اور بتایا کہ اپنے ملک میں ہونے والی exhibitionمیں رکھیں گے۔ ملائیشیا کے نمائندے نے ہماری کتب خریدیں تا کہ اپنے ملک کے سکولوں کے کورس میں شامل کی جائیں۔ سعودی عرب کے وفد کا سربراہ آکر ملا۔ اس کو قرآنِ کریم کا تحفہ پیش کیا گیا۔ اُس نے جماعت کی بہت تعریف کی اور کہا کہ جماعت اسلام کی بہت خدمت کر رہی ہے۔ اُس نے بتایا کہ وہ ایم ٹی اے دیکھتا ہے اور دوسرے دن آ کر اُس نے تفسیرِ کبیر کا مکمل سیٹ بھی خرید لیا۔ آسٹریا سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت آسٹریا نے دورانِ سال ویانا انٹرنیشنل بک فیئر میں ایک سٹال لگایا۔ پانچ ہزار سے زائد افراد نے باقاعدہ قرآنِ کریم کے مختلف زبانوں کے تراجم، مختلف زبانوں میں اسلامی تعلیم پر مبنی کتب، کتابچے اور دو ورقے حاصل کئے اور اسلام کے بارے میں سینکڑوں افراد نے بات چیت کی۔ عراق سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر جو ویانا یونیورسٹی میں استاد ہیں، اپنی اہلیہ کے ہمراہ سٹال پر تشریف لائے۔ موصوف سعودی حکومت کی طرف سے اس کتاب میلہ میں خصوصی لیکچر کے لئے تشریف لائے تھے۔ وہ جماعت کی طرف سے شائع کردہ جرمن ترجمہ قرآن کی شان میں رطب اللسان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت احمدیہ بہت روشن خیال جماعت ہے۔ ان کا جرمن ترجمہ قرآن سب سے بہترین ہے اور ساٹھ کی دہائی سے وہ اس سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے اس ترجمہ کی عمدگی کے پیشِ نظر اس ترجمہ کا ایک بہت بڑا پیکٹ سعودی عرب بھجوایا تھا۔ جماعت کا جرمن ترجمہ تو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ شاید میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ جرمنی میں بعض غیر احمدی مدرسوں والے یا امام اور مساجد والے ہمارے جرمن ترجمہ قرآنِ کریم کو خرید کر لے جاتے ہیں اور اُس کی جلد اتار کر اُس کے اوپر اپنی پرنٹ لائن لگا کر اسی ترجمہ کو شائع کر دیتے ہیں، بلکہ بعض توپرنٹ لائن بھی نہیں لگاتے صرف کَور بدل دیتے ہیں۔

لیف لیٹس، فلائرز کی تقسیم کا منصوبہ

لیف لیٹس، فلائرز کی تقسیم کا جو کام(جماعتوں کے) سپرد کیا گیا تھااور میں نے کہا تھا کہ ہر جگہ پہنچایا جائے، اُس کے ذریعہ سے امریکہ میں گزشتہ دو سالوں میں تیئس لاکھ ترانوے ہزار فلائرز تقسیم کئے گئے ہیں۔ اور اس طرح ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات کے ذریعہ سے اور ویب سائٹس کے ذریعہ سے ستر ملین افراد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا ہے۔ کینیڈا والوں نے اس سال چار لاکھ چوبیس ہزار فلائرز تقسیم کئے۔ پچاسی ملین سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ جرمنی میں اب تک تین ملین سے زیادہ لیف لٹس تقسیم ہو چکے ہیں، یعنی تیس لاکھ۔ وہاں مختلف ذرائع سے تیس ملین سے زائد افراد تک پیغام پہنچ چکا ہے۔ سویڈن میں تین لاکھ پچاس ہزار فلائرز تقسیم کئے گئے۔ دو ملین سے اوپر افراد تک پیغام پہنچ گیا ہے۔ ٹرینیڈاڈ میں چار لاکھ، گیانا میں تیس ہزار،اسی طرح ناروے میں اڑہائی لاکھ سے اوپر، بیلجیئم چار لاکھ سے اوپر، ہالینڈ پانچ لاکھ بلکہ چھ لاکھ، سپین وغیرہ مختلف ممالک میں ہر جگہ، دنیا کے ہر ملک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تقسیم ہو رہے ہیں اور کروڑوں آدمیوں تک اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ یوکے میں فلائرز کی تقسیم ہوئی ہے یہاں بھی سکولوں اور بسوں کے ذریعے سے اشتہار دیئے گئے۔

غیروں کے کچھ تأثرات ،اس کے بارہ میں بھی کچھ سنا دیتا ہوں۔

ہڈرز فیلڈ سے پال کینٹ (Paul Kent) لکھتے ہیں: مَیں نے ابھی ایک لیف لیٹ ریسیو کیا ہے جو میرے دروازے سے اسلام کے نام سے داخل ہوا ہے۔ یہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور ہماری کمیونٹی کے لئے بہت متأثر کن دعوت ہے۔ میں مسلمان نہیں ہوں اور نہ ہی کسی مذہب سے تعلق ہے لیکن اسلام کے مثبت رویے کو پھیلانے کا طریق بہت پسند آیا۔ لیف لیٹس سے احمدیت کے حجم کا اندازہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں لکھے ہوئے پیغام کو سراہتا ہوں۔

Christina Dreher (ووکنگ) سے لکھتی ہیں کسی نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مَیں نے کھولا تو کسی نے مجھے ایک لیف لٹ love for all تھما دیا، چونکہ یہ مجھے جنک میل (Junk Mail) سے مختلف لگا، اس لئے حسب معمول ڈائریکٹ بِن میں جانے سے بچ گیا۔ میں نے اُسی وقت اس کو پڑھا۔ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ بہت اچھا پیغام ہے اور میری خواہش ہے کہ ہر کوئی اس کو پڑھے۔

ایک ہیڈ ٹیچر نے لکھا کہ میں آپ کے پمفلٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس میں اسلام کی فلاسفی اور اصول بیان ہوئے ہیں۔ میں یہ معلومات اپنے سٹوڈنٹس کو بھی دوں گا تا کہ اسلام کی صحیح تصویر اُن پر کھولی جا سکے۔ آپ کا love for all کا پیغام زبردست پیغام ہے۔ امن کے قیام کے لئے اس تحریک میں حصہ لینے والوں کے لئے شکریہ اور نیک خواہشات۔

کرسٹین لوبن (Christine Laubin) نے لکھا: آپ کا لیف لیٹ لیٹر بکس سے ملا۔ پہلا صفحہ پڑھا جس پر Loyality, Freedom لکھا ہے۔ پھرلکھتی ہیں کہ روزانہ بیشمار خطوط آتے ہیں جن میں Take Away اور Pizzahut  وغیرہ کے (یہاں جس طرح رواج ہے) خطوط آتے ہیں۔ لیکن آپ کا لیف لیٹ بہت زبردست اور سب سے علیحدہ اور دل کو چُھو لینے والا ہے۔ اس کو وصول کر کے بہت خوشی ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی کمیونٹی اس کے ذریعے سے بہت دعائیں حاصل کرے گی اور ہمارے معاشرے میں یہ بہت مبارک کام ہے۔ پھر ایک اور خاتون لکھتی ہیں کہ مجھے اپنے دروازے سے یہ لیف لیٹ ملا۔ بہت اچھا لگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ احمدیہ کمیونٹی مقامی ہے یا نہیں۔ میرے لئے یہ خوشی کا باعث ہے کہ جب آپ کی مسجد کا افتتاح ہوا تھا تو میں انٹر فیتھ گروپ کے ساتھ شامل ہوئی تھی۔ اسی طرح بسوں پر اشتہار لگانے کی وجہ سے بھی کافی مشہوری ہوئی ہے۔

پھر کچھ اور واقعات بھی ہیں جو لیف لیٹس کی وجہ سے پیش آئے۔

امریکہ سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ نیویارک میں بسوں کے باہر اشتہار لگایا گیا۔ اللہ کے فضل سے یہ تدبیر بہت کامیاب ہو رہی ہے۔ جماعت کا تعارف بڑھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے افرادِ جماعت میں بھی تبلیغ کا اور جوش پیدا ہو رہا ہے۔ جرمنی میں پمفلٹ کی تقسیم کے متعلق لوگوں کے تاثرات: ایک عورت کو ہمارا پمفلٹ تقسیم کرنا بہت پسند آیا۔ اُس نے ہمارے انکار کرنے کے باوجود ایک خادم اور طفل کو دو دو یورو بطور انعام دئیے۔ ایک جرمن راہ گیر کو جب فلائر دیا تو اُس نے اس کو دیکھنے کے ساتھ ہی کہا کہ یہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے اور آپ نے ہر صورت میں اس کام کو جاری رکھنا ہے اور ڈر کر اس کو بند نہیں کرنا۔ فرینکفرٹ کے مین ریلوے سٹیشن پر جب اسلامی تعلیمات پر مشتمل پوسٹر لگائے گئے جس میں خواتین کے حقوق، مذہبی آزادی کے متعلق قرآنی آیات اور احادیث درج تھیں تو ایک جرمن اپنے تاثرات کااظہار اس طرح  کرتے ہیں کہ جیسے ہی مَیں نے اس پوسٹر کو دیکھا تو اس نے میرے قدم روک لئے اور میں نے فوری طور پر اپنا کیمرہ نکالا اور اس کی تصاویر لیں کیونکہ میری ایک بیٹی ہے اور میں اس کو دکھاؤں گا کہ عورتوں کے متعلق کتنی پیاری تعلیم ہے۔ شیخ برہان احمد صاحب انڈیا سے تحریر کرتے ہیں کہ امسال لیف لیٹ اور منصوبہ بندی کی طرف سے شائع لٹریچر اور کال فری نمبرز ہونے کی وجہ سے دن بدن رابطہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک فون نمبر کے ذریعہ سے یہ کالیں ریسیو بھی کرتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کال فری نمبر لگنے کی وجہ سے ایک خصوصی طبقہ کے علماء میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ مدرسوں کے طلباء اور علماء کی طرف سے گالیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے اور ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دیتے ہیں کہ اس نمبر کو جلد بند کرو ورنہ اس کے نتائج تمہارے لئے اچھے نہیں ہوں گے۔ چند روز قبل دیوبند کے کسی شخص کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر اختلاف کے باوجود میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ساتھیوں کی طرف سے جو آپ کو گالیاں نکالی جاتی ہیں وہ بالکل غلط طریق ہے اور آپ کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ آپ کی طرف سے جواباً کسی بھی قسم کی گالی دینا تو دور رہا، سختی سے جواب بھی نہیں دیا جاتا۔ حیدر آباد کے زونل امیر صاحب لکھتے ہیںکہ مبلغ سلسلہ نے شہر کاما ریڈی میں مقامی جماعت کی معاونت سے مقامی کالجز ، سکولز، پولیس حکام، وکلاء، منڈل آفس کے افسران میں لیف لیٹس کثیرتعداد میں تقسیم کئے جن سے غیر احمدیوں میں غصہ کی لہر دوڑ گئی اور ایک منصوبہ کے تحت ناصرالدین صاحب کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر ایک مسجد کے پاس لے گئے اور قریباً سو افراد نے ان کو مارا پیٹا۔ پولیس نے آ کر ناصر الدین صاحب کو چھڑایا اوراب وہ ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ گھانا میں امیر صاحب کی رپورٹ ہے کہ وہاں پہلے ایک شاہراہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کے ساتھ بہت بڑا بِل بورڈ (Bill board) لگایا گیا تھا اور اب دو اور جگہوں پر بھی لگایا گیا ہے۔ اور نیچے الفاظ یہ ہیں کہ وہ مسیح موعود جس کا مدت سے انتظار تھا، آ چکا ہے۔ یہ بورڈ کماسی سے اکرا آنے والی شاہراہ پر اور دوسرے اکرا سے سینٹر ریجن جانے والی سڑک کے کنارے اور تیسرا ایسٹرن ریجن میں لگایا گیا ہے۔ اوریہ خوبصوت تصویر اور یہ پیغام جو ہے، یہ ہر ایک کو اپنی طرف attract کرتا ہے اور اس کا بیس ہزار ڈالر کے قریب خرچ آیا تھاجو وہاں کے ایک احمدی نے ادا کیا۔

ایم ٹی اے انٹرنیشنل

ایم ٹی اے انٹرنیشنل کا بھی کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت وسیع ہو گیا ہے ۔ اس کے چودہ ڈیپارٹمنٹ ہیں جو کام کر رہے ہیں۔ خواتین بھی ہیں اور مرد بھی ہیں جو چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔یوکے کے نوجوان لڑکے، لڑکیاں، عورتیں مرد ،یہ بہت بڑی تعداد ہے جو والنٹیئرز کا کام کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ اس سال ایم ٹی اے کی نشریات کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے مختلف زبانوں کے تراجم کو ملا کر اب بیک وقت نشر کی جانے والی سٹریمز (Streams) کی تعداد اٹھائیس ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ پر ایم ٹی اے دیکھنے والوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ بعض اوقات زیادہ وزیٹرز کی وجہ سے سٹریمنگ (streaming) متأثر ہو جاتی تھی۔ چنانچہ اب مجھ سے پوچھ کے ایک گلوبل آئی پی ٹی وی ڈسٹری بیوٹر کے ذریعہ نشر کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کو کسی قسم کی روک نہیں آئے گی۔ اسی طرح موبائل فونز پر ایم ٹی اے کی وسعت ہو گئی ہے۔ مَیں نے آج لجنہ کی تقریر میں ذکر کیا تھاکہ موبائل کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ کا موبائل پر، یا انٹرنیٹ کا جو صحیح استعمال ہو سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف جماعت احمدیہ کے ذریعے سے ہی ہو رہا ہے۔

غانا میں بھی ایک پروگرام بن رہا ہے Real Talk افریقہ کا جو آج کل چل بھی رہا ہے۔ اس میںاللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کے مقامی لوگوں نے بھی اس میں حصہ لیا ہے اور کام کر رہے ہیں۔ کاڈونہ مشن ہاؤس (نائیجیریا) کے قریب ایک ہاؤسا مسلمان رہتا ہے جو ڈش انٹینا کی مرمت اور ان کی خرید و فروخت کا کام بھی کرتا ہے۔ نسیم بٹ صاحب مبلغ نائیجریا کہتے ہیںکہ مَیں نے اُس سے ایک دن ایم ٹی اے کا ذکر کیا جس پر اُس نے کہا کہ ہم تو کافی عرصے سے ایم ٹی اے دیکھتے ہیں اور ہمارے بچے تو ایم ٹی اے اس قدر شوق سے دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں کوئی اور چینل لگانے ہی نہیں دیتے اور بڑی دلچسپی سے پروگرام سنتے ہیں۔ غیر احمدیوں کی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔

ایک بزرگ کا خلافت سے اور ایم ٹی اے کی وجہ سے جو عشق ہے اُس کا ذکر کرتے ہوئے ناصر احمد محمود صاحب مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں۔ پانکپادے (Kpankpade) جماعت میں خاکسار اور ایک مبلغ ملک ریحان صاحب ایم ٹی اے کی ڈش لگانے کے سلسلہ میں گئے تو ایک بزرگ عبداللطیف صاحب نے ہمیں بٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ کااور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بڑے پیارے انداز میں ذکر کیا اور رو پڑے اور کہنے لگے کہ میری عمر اس وقت پینسٹھ سال سے زائد ہے۔ نا معلوم کس وقت بلاوا آ جائے۔ جب سے امام مہدی علیہ السلام کو قبول کیاہے میرے دل میں یہی کسک اور تڑپ تھی کہ کاش میری زندگی میں امام مہدی اور ان کا خلیفہ میرے گھر میں بھی آئیں۔ آج مَیں اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں۔ میری تمام مرادیں مجھے مل گئیں۔ امام مہدی بھی نظر آ گیا اور خلیفۃ المسیح بھی نظر آ گئے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ فرانس کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ فرانس کے شہر مرسیلی (Marselle) کے قریب ایک جزیرہ الڈی کورس (Ill de corse) ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں پر مقیم مراکش کے ایک شخص احمد ہارو (Ahmad Haro) نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصہ پہلے ان کو ایم ٹی اے العربیہ دیکھنے کا موقع ملا اور آہستہ آہستہ ان پر تمام حقیقت واضح ہو گئی کہ یہی سچائی ہے۔ انہوں نے لندن سٹوڈیوز میں خود رابطہ کیا۔ لندن سے اُن سے رابطہ کے لئے کہا گیا چنانچہ اُن سے رابطہ قائم ہوا۔ جلسہ سالانہ میں عالمی بیعت کا نظارہ دیکھ کر ساتھ ہی اُسی دن بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ یہ جزیرہ تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ فرانس کے سب سے بڑے بادشاہ نپولین کا تعلق بھی اسی جزیرے سے تھا۔

احمدیہ ریڈیو اسٹیشنز

اسی طرح ریڈیو احمدیہ کے ذریعے سے بھی بہت کام ہو رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے اس وقت افریقہ کے تین ممالک میں سات کی تعداد میں احمدیہ ریڈیو سٹیشن قائم ہو چکے ہیں۔ بورکینا فاسو میں، مالی میں، سیرالیون میں بھی اب ہو گیا ہے اور پروگرام اور تلاوت سن کر لوگ جماعت سے تعارف بھی حاصل کر رہے ہیں اور ان کو حقیقت بھی معلوم ہو رہی ہے۔ امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے ہمارے دونوں ریڈیو سٹیشن پر رمضان کے حوالے سے بہت اچھے پروگرام ہو رہے ہیں۔ ججنی (Didieni) کے علاقے میں ریڈیو کے ذریعے ہر طرف احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے اور اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں تینتالیس ہزار چار سو بہتّر بیعتیں ہو چکی ہیں اور بہت سے گاؤں اعلان کر چکے ہیں کہ وہ احمدی ہیں لیکن ہم ابھی تک اُن تک نہیں پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کو ثباتِ قدم عطا فرمائے اور ایمان و اخلاص میں ترقی کرنے والے بنیں۔ ہمارا دوسرا ریڈیو اسٹیشن بماکو (Bamako) میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ریڈیو کی رینج تین ملین لوگوں تک ہے۔ ہم رمضان میں چوبیس گھنٹے کی نشریات پیش کر رہے ہیں۔ ان کو بہت کثرت سے لوگ سن رہے ہیں اور ان پروگراموں کا بہت گہرا اثر ہو رہا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔

احمد جابی صاحب نامی ایک شخص مالی کے ہیں۔ ہمارے ریڈیو اسٹیشن سے ایک سو ساٹھ کلو میٹر دور رہتے ہیں۔ وہاں سے سپیشل ریڈیو اسٹیشن آئے اور بتایا کہ وہ عربی کے استاد ہیں اور تین زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں اور وعظ و نصیحت کا کام کرتے ہیں اور ان کے بہت سے مرید ہیں۔ پھر بتایا کہ وہ احمدیت کو شروع میں اچھا نہ سمجھتے تھے اور اس کی مخالفت کرتے تھے لیکن احمدیہ ریڈیو کو باقاعدہ سننا شروع کیا تو وفاتِ مسیح وغیرہ کے مسائل حل ہو گئے۔ مگر اس وقت تک دل احمدیت کی صداقت پر مطمئن نہ تھا۔ پھر احمدیہ ریڈیو سے سنا کہ اگر اطمینان نہ ہو تو استخارہ کریں۔ استخارہ کرنے پر خدا تعالیٰ کے فضل سے دل کی ساری مَیل جاتی رہی اور دل احمدیت کی طرف راغب ہو گیا۔ پھر وہ بیعت کرنے کے لئے ایک سو ساٹھ کلو میٹر کا سفر طے کر کے ریڈیو اسٹیشن آئے اور بیعت کی۔

بورکینا فاسو کے امیر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بوبو جلاسو کے رہنے والے ایک شخص میرے پاس تشریف لائے۔ جماعت کا لٹریچر 1961ء سے تھا مگر میں نے تمام لٹریچر بغیر پڑھے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اس کے بارے میں کبھی پڑھنے کا خیال نہ آیا۔ پھر میں بورکینا فاسو کے ریجن بوبو میں آ گیا۔ جب اس رمضان میں ریڈیو اسلامک احمدیہ پر قرآنِ کریم کی تفسیر سنی تو میرے دل نے کہا کہ اس جماعت میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔ چنانچہ میں مسلسل ریڈیو سنتا رہا اور سالوں کے رکھے لٹریچر کو کھولا اور پڑھنا شروع کیا اور جماعت کی صداقت مجھ پر واضح ہوگئی۔ اب مجھے خداتعالیٰ نے پچاس سال بعد توفیق دی کہ میں جماعت احمدیہ میں شامل ہوا ہوں اور یہ ان کتابوں کو گھر میں رکھنے کی برکت تھی کہ خدا نے مجھے جماعت میں داخل ہونے کی توفیق دی۔

امیر صاحب مالی تحریر کرتے ہیں کہ سینکو جباتے (Sekou Diabate) نامی مالی کا ایک شخص فرانس میں رہتا ہے۔ چھٹیوں میں جب وہ شخص فرانس سے مالی اپنے گاؤں آیا تو دیکھاکہ سب احمدی ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ احمدیوں کا ریڈیو ہے۔ چنانچہ اُس نے ریڈیو سننا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور دل میں ایمان کی شمع روشن ہو گئی۔ پھر وہ شخص ریڈیو اسٹیشن آیا اور کہا کہ میں جب فرانس میں تھا تو سنا تھا کہ لندن میں کوئی جماعت احمدیہ ہے لیکن اُس وقت دلچسپی پیدا نہ ہوئی ۔ لیکن جب یہاں ریڈیو سنا تو دل مطمئن ہو گیا اور حقیقت کا پتہ چل گیا۔ اب میں بیعت کرتا ہوں۔

غانا کے مبلغ سلسلہ یوسف بن صالح لکھتے ہیں کہ ہمارا ہفتہ وار ریڈیو پروگرام سن رائز ایف ایم پر جاری ہے۔ اکثر غیر احمدی ہمیں اس پروگرام پر مبارکباد دیتے ہیں اور ہماری تبلیغ کو سراہتے ہیں۔ ہمارے پروگرام میں اکثر اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ اس سال خدام کی ریجنل ریلی ایٹوکروم (Etokrom) کے مقام پر ہوئی۔ اس موقع پر علاقے کے چیف نانا آبو وان پون سم  (Nana Abu Boampon Sem) نے ہمارے ریڈیو پروگرام کے بارے میں اپنے خطاب کے دوران کہا: احمدی پریزنٹرز بڑے نڈر اور سچ بولنے والے ہیں۔ عیسائی پادری ہم سے جھوٹ بول کر ہم کو دھوکہ دیتے رہے ہیں۔ چیف نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں وہ بھی جماعت احمدیہ میں شامل ہو جائیں گے۔ مالی سے ایک شخص نے امیر صاحب مالی کو فون کیا کہ ہم مسلمان تھے لیکن ہم نے لکڑی کی بنی ہوئی عینک پہنی ہوئی تھی جس سے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن احمدیت نے شیشوں والی عینک پہنا دی ہے۔ اب سب کچھ صاف نظر آتا ہے۔ امیر صاحب بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ دِدْگُوریجن کے گاؤں سنابا (Sanaba) میں وہاں کے ریجنل مشنری اعجاز احمد صاحب گئے تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا لوگ احمدیہ ریڈیو سنتے ہیں؟ تو وہاں موجود ایک ممبر نے کہا کہ ریڈیو ہماری اور ہمارے بچوں کی بھی تربیت کر رہا ہے۔ اُس نے کہا کہ جب ریڈیو پر آذان لگائی جاتی ہے تو ہمارے بچے ہمیں کہتے ہیں کہ مسجد چلیں، نماز کا وقت ہو گیا ہے احمدیہ ریڈیو پر آذان آ گئی ہے۔ اس طرح ریڈیو ہماری تربیت کررہا ہے۔

دیگر ٹی وی ، ریڈیو پروگرام

ایم ٹی اے کے علاوہ دیگر ٹیلی ویژن پروگرام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے چل رہے ہیں۔ اس سال پندرہ سو تہتر (1573) ٹی وی پروگراموں کے ذریعے دس سو چورانوے (1094) گھنٹے وقت ملا اور ان کا بڑا اچھا اثر ہوا۔ افریقن ممالک میں بھی ریڈیو اور ٹی وی پروگرام لائیو چل رہے ہیں اور یہ کافی پروگرام ہیں۔ سورینام (Surinam) سے مبلغ سلسلہ تحریر کرتے ہیں کہ امسال ایک ٹی وی چینل نے روزانہ مختلف مساجد میں جا کر افطار اور نماز کی ریکارڈنگ اور لوگوں سے انٹرویو کا سلسلہ شرو ع کیا۔ مؤرخہ 7؍ اگست 2012ء کو اُن کی ٹیم ہماری مسجد میں آئی۔ افطار اور نماز کی ریکارڈنگ کے علاوہ تین افرادِ جماعت کا انٹرویو لیا۔ محترم صدر صاحب نے اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور نظام جماعت کا تعارف کروایا۔ قرآن مجید کے تراجم، ایم ٹی اے اور جماعت کی عالمی خدمات کا مفصل ذکر کیا۔ یہ پروگرام مؤرخہ 8؍اگست کو ٹی وی پر نشر ہوا۔ 19؍ اگست کو اس ٹی وی چینل کی انتظامیہ کا فون آیا کہ ہماری ٹیم 15 مساجد میں جا چکی ہے۔ جو تکریم اور عزت افزائی اُنہیں آپ کی مسجد میں ملی ہے وہ کسی اور جگہ نہیں ملی۔ لہٰذا وہ ایک بار پھر آپ کی مسجد میں آنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ 21؍ اگست کو یہ لوگ پھر ہماری مسجد میں آئے اور تین گھنٹے سے زائد وقت یہاں گزارا۔ بچوں کی نظمیں ریکارڈ کیں اور اس پر اچھا اثر لے کر گئے۔

احمدیہ ویب سائٹ

الاسلام ویب سائٹ کے ذریعہ سے بھی بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔ امریکہ میں ان کے رضاکار یہ سارا کام کر رہے ہیں۔کچھ کینیڈا میں بھی ہیں ، پاکستان سے بھی کچھ لڑکے انٹرنیٹ کے ذریعہ سے مواد بھیج دیتے ہیں۔ انڈیا میں بھی ان کی ٹیم ہے۔ یہاں بھی کام ہو رہا ہے۔ اسی طرح خطباتِ جمعہ اٹھارہ زبانوں میں آڈیو ویڈیو کی صورت میں میں یُوٹیوب پر ڈالے گئے ہیں۔ آئی پیڈ کے علاوہ آئی فون، انڈرائڈ اور بلیک بری فونز پر بھی یہ خطبات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر بچوں کو ٹیلی فون پکڑانا ہے، آئی پیڈ لے کر دینا ہے یا آئی فون لے کر دینا ہے تو پھر یہ عادت ڈالیں کہ کم از کم روزانہ جماعت کے پروگرام بھی دیکھا کریں اور یہ معلومات لیں۔

اسی طرح ویب سائٹ پر تقریباً پانچ سو اردو کتب، ایک سو اسّی انگریزی کتب مہیا کی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا اَور بھی کافی کام ہے ۔

انڈیا ڈیسک

قادیان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔ ایک تو میں نے بتایا کہ پریس کا کام ہے۔ پریس نیا لگا ہے۔ مشینیں لگی ہیں۔ باقی کام بھی وہاںہو رہے ہیں۔ کچھ دفاتر ،لائبریری اور گیسٹ ہاؤسز وغیرہ نئے بنے ہیں۔ اللہ کے فضل سے وہاں کے کاموں میں کافی تیزی پیدا ہوئی ہے۔

رشین ڈیسک

رشین ڈیسک ہے۔ وہ بھی اچھا کام کر رہا ہے۔ انہوں نے بھی ایک ویب سائٹ جاری کی ہے جو خطبات کا ترجمہ کر کے اگلے دن رشین میں دے دیتی ہے۔ اور پہلے بھی میں نے بتایا تھا کہ رشیا سے مجھے بے شمار خطوط آتے ہیں۔ لوگ بڑے خوش ہیں کہ ہمیں اپنی زبان میں فوری طور پر رشین کا ترجمہ مل جاتا ہے۔

چینی ڈیسک

چینی ڈیسک بھی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہا ہے اور چین میں بعض نمائشوں میں بھی ان کے ذریعہ سے لٹریچر بھجوایا ہے۔ ذریعہ تو وہاںکبابیر اور جرمنی بنے تھے لیکن لٹریچر بہر حال ان کے ذریعہ سے گیا۔

اس وقت ایک کتاب ’’اسلام کی بعثتِ ثانیہ کی دنیا کے کلچر پر مفید اثر‘‘ کے نام سے تیار ہو رہی ہے اور اسی طرح مختلف لٹریچر ہے۔

ٹرکش ڈیسک

ٹرکش ڈیسک بھی اچھا کام کر رہا ہے۔ انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کافی کتب کا ترکی زبان میں ترجمہ کر لیا ہے۔ اسی طرح ایم ٹی اے پر ان کے پروگرام بھی آ رہے ہیں۔

بنگلہ ڈیسک

بنگلہ ڈیسک بھی باقاعدہ کام کر رہا ہے اور ان کا لائیو پروگرام بھی ہر دو ماہ بعد آتا ہے۔ شوتیر شوندھانے ہے۔ سینتالیس گھنٹے کے پروگرام آ چکے ہیں۔ اس کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش میں بھی اور مغربی بنگال انڈیا میں بھی کافی بیعتیں ہو رہی ہیں۔

فرنچ ڈیسک

فرنچ ڈیسک بھی اللہ کے فضل سے کافی کام کر رہا ہے۔ خطبات کا ترجمہ اور کتابوں کا ترجمہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی بعض پروگرام انہوں نے ڈالے ہیں، اور قرآن کریم کا بھی ریوائزڈ ایڈیشن اب آ رہا ہے۔ پریس میں ہے۔ اس دفعہ پریس والے کچھ سست رہے ہیںاور کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں دیر سے ملا اور کچھ سکولوں کے کھلنے کی وجہ سے کتابوں پر زیادہ زور ہے، بہرحال ایک دو دن میں یہ کتابیں بھی انشاءاللہ آجائیں گی۔

جاپانی ڈیسک

جاپانی ڈیسک بھی ربوہ میں قائم ہو چکا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہا ہے۔

عربک ڈیسک

عربک ڈیسک نے اللہ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام اردو کتابیں جو تھیں، تقریباً ان سب کا ہی اب ترجمہ کر لیا ہے یا چند جو رہ گئی ہیں ان کا بھی انشاء اللہ تعالیٰ چند مہینوں میں ہو جائے گا اور اس طرح عربی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب کا ترجمہ اب پڑھنے والے کو میسر آ جائے گا ۔

ایم ٹی اے تھری3 اور الحوار المباشر

ایم ٹی اے تھری(3) اور الحوار المباشر کے ذریعہ بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔ یٰسین شریف صاحب نے خط لکھا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ خاکسار نے تیس سال تک مختلف مکتبہ فکر کی کتب اور فرقوں اور مشائخ کا بہت مطالعہ کیا مگر کہیں تسلی نہیں ہوئی۔ مشائخ کے احوال کا گہری نظر سے مطالعہ کیا مگر کسی کو مخلص نہیں پایا۔ مختلف فرقوں کی کتب کے مطالعہ سے میں نے دیکھا کہ ایک فرقے کے علماء بھی کسی ایک مسئلہ پر متفق رائے نہیں رکھتے۔ ان تضادات کو دیکھ کر طبیعت گھبراتی تھی۔ میں اسلام پر تو نہیں مگر اُن مولویوں پر ہنستا۔ اس پر میرے والدین مجھے کہتے کہ اس سے بہتر ہے کہ تم نماز پڑھنے ہی نہ جایا کرو۔ جب ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا تو یہ تضادات اور سوالات حل ہونا شروع ہوئے اور میں اندھیروں سے نور کی طرف نکلنا شروع ہوا۔ یوں لگا میں دوبارہ جنم لے رہا ہوں بعد اسکے کہ میں ہلاک ہو جاتا، میرا انجام اچھا نہ ہوتا۔ میں نے اپنے شہر میں خلیفۃ المسیح کے عہدِ سعید میں (یعنی میرے بارے میں لکھ رہے ہیں) کہ آپ کے عہدِ سعید میں سب سے پہلے بیعت کی توفیق پائی۔ میں قرآنِ کریم کی ایک ایک آیت پر تدبر کر کے سوچنے لگا کہ کیا میں اس کے مطابق واقعی مومن ہوں یا نہیں؟

آج مَیں نے یہی مضمون بیان کیا تھا کہ قرآنِ کریم ہی صحیح نشاندہی کرتا ہے مومن ہونے کی اور یہ غور کرنے سے پتہ لگتا ہے۔

پھر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن طعنہ زن، لعنت ملامت کرنے والا اور بدزبان اور گالیاں دینے والا نہیں ہوتا۔ مگر دیگر مسلمانوں کے چینل کے نام تو بڑے پیارے پیارے ہیں جیسے رحمت، حکمت، مؤدب، کوثر، صفا، انوار۔ مگر یہ اُن پر اپنی سنگدلی کا اظہار کرتے، جھگڑتے ، بدزبانی کرتے اور ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اور دیتے بھی اللہ اور اُس کے رسول اور اسلام کے نام پر ہیں۔ کاش یہ کم از کم ان چینل کے ناموں کی وجہ سے ہی کچھ شرم کرتے۔ قرآنِ کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کام یہ بتائے ہیں کہ تلاوتِ آیات، تزکیہ نفوس، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت۔ اور سب انبیاء درحقیقت یہی کام کرنے کے لئے آئے۔ کیا قرآن میں کسی ایسے نبی کا بھی ذکر ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو یہ سکھایا ہو کہ اپنے حکام اور بادشاہوں کو پکڑو اور قتل کرو کہ یہ کافر و فاجر اور مرتد ہیں۔ ان کو ختم کرنے کے لئے بیرونی طاقتوں سے مدد لو تا کہ وہ اللہ کے بندوں اور ملک کو فنا کریں اور مسلمانوں کو کئی صدیاں مزید پیچھے دھکیل دیں۔ کیا آج کے علماء یہی کام نہیں کر رہے۔ اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پنجاب میں سفید منارہ کے پاس آئے ہیں، اس سے مراد کوہِ ہمالیہ ہو سکتا ہے جو ساری دنیا میں منارہ کی طرح سب سے اونچا ہے اور ہر وقت برف پوش ہونے کی وجہ سے سفید رہتا ہے اور وہ دمشق کے مشرق میں واقع ہے۔ (بہر حال انہوں نے اپنی ایک ذوقی تشریح کی ہے) جب میں سفید منارے والی حدیث کے بارے میں لکھ رہا تھا تو مجھے دوسری حدیث یاد آ گئی جس میں ذکر ہے کہ جب خراسان کی جانب سے کالے جھنڈے نظر آئیں تو تم ان کے ساتھ ہو لینا کیونکہ اُن میں خلیفۃ اللہ مہدی ہوں گے۔ ایسے ضرور کرنا خواہ تمہیں برفوں کے اوپر سے گھٹنوں کے بل چل کر جانا پڑے اور میں خیالات میں سوچنے لگا کہ جب ہمارے خلیفہ، (میرا نام لکھا ہے انہوں نے کہ) جلسوں پر جھنڈا لہراتے ہیں تو یہ نظارہ ہوتا ہے۔

پھر ایک صاحب مراکش سے لکھتے ہیں کہ 1995ء کے آخر کی بات ہے، جماعت کے بارے میں جاننے اور اس کے دلائل سے مطمئن ہونے کے بعد میں نے بیعت سے قبل استخارہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے جمعہ کے روز بڑے تضرع اور ابتہال سے دعا کی کہ اے خدا! تو خود میری صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرما۔ اسی روز جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تو ہماری مرکزی مسجد کے مولوی نے خطبہ جمعہ کے آخر پر ایک شخص کے رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص رؤیا کی تعبیر کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔ اُس کا بیان ہے کہ اُس نے یہ رؤیا بار بار دیکھا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اُس شخص نے رؤیا میں دیکھا کہ طوفانِ نوح برپا ہے اور کشتی نوح پر لوگ جوق در جوق سوار ہو رہے ہیں۔ اس کشتی پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے اور ایک شخص لوگوں کو اس میں سوار ہونے کے لئے بلا رہا ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص مسیح ابنِ مریم علیہ السلام ہے۔ مولوی نے اس رؤیا کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ اس کشتی پر کھڑے ہو کر بلانے والا شخص مسیح ابن مریم ہو کیونکہ یہ زمانہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ لہٰذا نوح علیہ السلام کی کشتیٔ نجات مسیح علیہ السلام کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ پھر اس نے کہا کہ یہ درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی بشارت دی لیکن ان کے نزول سے پہلے تو دجّال اور یاجوج ماجوج نے آنا ہے اور ان باتوں کے ظہور میں ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے وہیں بیٹھے ہی یہ احساس ہو گیا کہ مولوی صاحب کو اس رؤیا کی تعبیر سمجھ نہیں آئی جبکہ مجھے سمجھ آگئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ اَلْمُؤْمِنُ یَریٰ وَ یُریٰ لَہٗ ۔ یعنی مومن کبھی رؤیا دیکھتا ہے اور کبھی اس کے بارے میں کسی اور کو دکھایا جاتا ہے۔ چونکہ میں نے دو روز قبل ہی استخارہ کیا تھا اس لئے مجھے یقین ہو گیا کہ اس رؤیا میں میرے لئے واضح پیغام تھا۔ نماز جمعہ کے بعد میں واپس آتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے دعویٰ کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور مولویوں کے اقوال کی بِنا پر اُن کی تکذیب کرنا انصاف سے دور بات ہے۔ ان خیالات اور سوچوں نے مجھے بیعت کا مرحلہ طے کرنے پر آمادہ کر لیا۔

اسی طرح سوڈان سے ایک صاحب لکھتے ہیں میں تقریباً ایک ماہ سے آپ کا چینل دیکھ رہا ہوں اور کبھی کوئی پروگرام نہیں چھوڑا۔ حتی کہ ایسے پروگرام بھی دیکھتا ہوں جو دوبارہ نشر ہوتے ہیں مجھے اس میں بہت مزا آتا ہے اور جماعت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا ہوں۔ میں انٹرنیٹ سے بھی حتی الوسع استفادہ کر رہا ہوں۔ خصوصاً  حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سورۃ فاتحہ کی تفسیر سے میں بہت متمتع ہوا ہوں۔ میں نے کل ہی نیٹ کے ذریعے بیعت کا خط ارسال کیا ہے۔ میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ صرف بیعت کافی نہیں بلکہ آپس میں رابطہ رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ہماری جماعت کا ذکر سوڈان میں کہیں نہیں ہے، لیکن میں نے اتفاق سے ٹی وی کھولا تو آپ کا چینل ملا جو سب سے زیادہ سچا ہے۔ ہم کہا کرتے تھے کہ سوڈانی چینل بہت صاف ستھرا ہے اور اس میں عورتیں بن سنور کر نہیں آتیں لیکن سچ یہ ہے کہ حقیقت اور معرفت پیش کرنے میں ایم ٹی اے سب سے بڑھ کر ہے۔ اس میں دنیاوی اغراض پر مبنی کوئی پروگرام نہیں، نہ ہی کوئی اشتہارات ہیں۔ باقی چینلز میں اگرچہ بسااوقات دینی پروگرام اور تلاوت قرآن وغیرہ آتی ہے لیکن یہ سب تجارتی اغراض پر مبنی ہیں۔

اٹلی سے ایک صاحب محمد الخضیر صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے دس سال کی عمر میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں بچپن سے ہی بچوں سے لڑنے کو ناپسند کرتا تھا اور دینی رغبت تھی۔ گیارہ سال کی عمر میں روزے رکھنے شروع کئے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ جب میں نے دیکھا کہ مذہب کے نام پر جرائم اور چوریاں وغیرہ ہوتی ہیں اور علماء کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں تو میرا اعتماد اُن سے اُٹھ گیا۔ اور اپنے نفس سے ایک لڑائی شروع ہوئی کہ کیا اس معاشرے میں رہنے کے لئے چوری کروں یا سچ بولوں اور تقویٰ اختیار کروں۔ اٹلی آ کر اس قسم کی حرکات کچھ کم نظر آئیں۔ اٹلی میں میرے پاس کام نہیں تھا۔ والد صاحب کی بیماری کی اطلاع ملی اور بعض مسلمان دوستوں نے کچھ رقم اکٹھی کر دی اور میں والد صاحب کا حال پوچھنے وطن مراکش پہنچا اور دو دن کے بعد والد صاحب کی وفات ہو گئی۔ اس پر میں نے یہی کہا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی امانت واپس لے لی ہمیں رونے دھونے کی ضرورت نہیں۔ دعا کی کہ مجھے بہتر کفیل عطا فرمائے۔ اس پر خدا تعالیٰ نے میرا تعارف جماعت سے کرا کر میری دعا قبول فرما لی اور اس طرح مجھے تسلی ہوئی۔ بیعت کی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ پاک پانی سے غسل کر رہا ہوں اور جب کلمہ پڑھتا ہوں تو اپنے کپڑوں میں سے سبز رنگ کے کپڑوں کا انتخاب کرتا ہوں کہ یہ اچھے ہیں، نہ کہ پہلے والے جو بظاہر سفید تھے لیکن بہت میلے تھے۔ ہانی صاحب کو بھی خواب میں دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے انتظار کیا اور جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ آپ فجر کی نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا کہ نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ کہنے لگے اُٹھ کر نماز پڑھا کریں خواہ اُسی جگہ نیند میں گر جائیں۔

ان کے بھی بہت سارے واقعات ہیں ۔ ایران سے ایک خط ہے، لکھتے ہیں کہ میری پیدائش اور پرورش شیعہ خاندان میں ہوئی جہاں شروع سے ہی دینی رجحان تھا۔ شاہِ ایران کے زمانہ میں ایک معروف عالم سے متاثر  اور دعا کرتا کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو احیائے دین کے لئے مبعوث کر دے۔ دوسری طرف مختلف ٹی وی پروگرام اور کتب کا مطالعہ کیا لیکن جس طرح سے اسلام کو پیش کیا جا رہا تھا، اُس سے تسلی نہیں ہوتی تھی اور خیال کرتا تھا کہ جس طریق سے اسلام پیش کیا جا رہا ہے، ضرور اس میں کوئی کمی اور کمزوری ہے۔ کیونکہ قرآن تو یہ فرماتا ہے، کثرت سے لوگ دین میں داخل ہوں گے لیکن آجکل لوگوں کی اکثریت تو اسلام کی حقیقت سے خالی ہے۔ اسی پر مجھے یقین ہو گیا کہ رائج الوقت مفاہیم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی دوران تمنا ہوئی کہ کوئی چینل ہو جو اسلام کے حسن و جمال کو دوبارہ لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر کرے اور دین کی تعلیمات کی دوبارہ ترویج کرے۔ ایک روز میرے دوست نے اپنے گھر بلایا اور ایم ٹی اے سے متعارف کروایا۔ اُسکے بعد میں نے اس پر الحوار المباشر اور بعض دیگر پروگرام دیکھے جن میں آپ کی تفسیر القرآن اور مختلف مسائل پر گہری، علمی اور حکیمانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوا۔ پہلی بار کسی چینل پر اسلام کے بارے میں علمی طریق سے گفتگو اور رابطہ کرنے والوں کے سوالوں کے قوی دلائل پر مبنی جوابات سنے۔ گو اس وقت میں احمدی نہیں تھا لیکن آپ کا مبلغ بن چکا تھا اور دوسروں کو ایم ٹی اے دیکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ بعض نے خوشی اور رغبت سے اُسے دیکھنا شروع کیا اور بعض نے مخالفت کی اور مولویوں کے پیچھے چلتے رہے۔ مختلف ویب سائٹس پر جماعت کے خلاف الزامات بھی پڑھے لیکن دل نے ان کو صحیح ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ جماعت ہی تو اسلام کا دفاع کرتی اور اُسے خرافات سے پاک کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو لوگ جماعت کی تکفیر کرتے ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور قرآنِ کریم پر عمل پیرا نہیں بلکہ اُن کا عمل حکمت اور موعظہ حسنہ کے برخلاف تھا۔ چنانچہ اگر وہ جماعت کے عقائد کو پڑھتے اور گفت و شنید کا طریق اختیار کرتے تو تکفیر بازی کی نوبت نہ آتی۔ ان کا جماعت کے ساتھ طرزِ عمل خود ان کی شکست اور فکری ناکامی کا آئینہ دار تھا۔ نیز عجیب یہ بات تھی کہ یہ علماء شیعوں کو مناظرے کی دعوت دیتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کے مقابل پر صرف تکفیر بازی اور گالی گلوچ پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ وہ جماعت احمدیہ کے قوی دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جب میں نے یہ سنا کہ احمدی لوگوں کو قید اور قتل کیا جاتا ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے مخالفین کے پاس سوائے اسلام کو بدنام کرنے والے کاموں کے اور کچھ نہیں۔ جب بھی مَیں ایم ٹی اے دیکھتا، میرا ایمان مضبوط تر ہو جاتا۔ قرآنِ کریم میں کسی قسم کے نسخ نہ ہونے کے بارے میں آپ کا عقیدہ معلوم کر کے آپ کی اسلام کے ساتھ محبت کا یقین ہو گیا۔ جب یہ سنا کہ مسیح موعودؑ نے دوسری مذاہب پر اسلام کی فوقیت ثابت کرنے کے لئے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں کتاب ’’ براہینِ احمدیہ‘‘ لکھی ہے تو مجھے اس کی تبلیغ کے بارے میں آپ کی لگن کا یقین ہو گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ اور پھر خلفاء کی کتب پڑھ کر یقین ہو گیا کہ یہ لوگ معمولی آدمی نہیں بلکہ یہ اسلام کے سرگروہ ہیں اور ان کے افکار کی دنیا کو سخت ضرورت ہے۔ آپ پر ایمان لانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ چھوڑا۔ اب جماعت کی حقیقت پر آگاہ ہونے کے بعد اس کی تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں اور پھر انہوں نے لکھا کہ رہنمائی چاہتا ہوں۔ اسی طرح اور بہت سارے واقعات ہیں۔ اس وقت ان کا بیان کرنا تو ممکن نہیں ہے۔ اب میں تحریک وقفِ نو کی طرف آتا ہوں۔

تحریک وقفِ نو

اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقفینِ نو کی تعداد میں اس سال تین ہزار چار سو چھیانوے (3496) کا اضافہ ہوا ہے اور کل تعداد سینتالیس ہزار آٹھ سو بانوے (47892) ہو گئی ہے۔ لڑکوں کی تعداد انتیس ہزار آٹھ سو چونسٹھ(29864) اور لڑکیوں کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے۔ اور ایک اعشاریہ پونے دو کا فرق ہے۔ پاکستان کے واقفینِ نو اللہ کے فضل سے سب سے زیادہ ہیں۔ اس وقت واقفینِ نو میں سے ترانوے(93) مربیان تیار ہو چکے ہیں۔ ستر (70) معلمین تیار ہو چکے ہیں۔ انتیس(29) ٹیچر تیار ہو چکے ہیں۔ ایک ڈرافٹسمین ہیں۔ سولہ (16)نرسنگ کے شعبہ میں ہیں۔ چھیاسٹھ (66) دوسرے کارکنان ہیں۔ دو انجینئر ہیں۔ ایک فارماسسٹ ہیں۔ دو ڈاکٹر ہیں۔ کُل دو سو اسّی(280) اس وقت میدانِ عمل میں ہیں۔

جامعہ احمدیہ میں اس وقت تیرہ سو بیالیس(1342) واقفینِ نو ہیں۔ ایک سو ایک(101) معلمین ہیں۔ دو پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ایک سو چھبیس (126)ایم بی بی ایس کر رہے ہیں۔ تیس(30) ڈینٹسٹ سرجری کر رہے ہیں۔ سڑسٹھ(67) فارماسسٹ ہیں۔ تین ویٹرنری (veterinary)ڈاکٹر ہیں۔چوبیس ہومیو ڈاکٹر ہیں۔ پانچ   فزیو تھراپسٹ ہیں۔ ستّر (70)پیرامیڈکس ہیں۔ دو سو تینتیس (233) نے انجینئرنگ کی ڈگری لے لی ہے۔ ستاسی (87)نے ڈپلومہ لیا ہے۔ ایم اے، ایم ایس سی تین سو اٹھانوے(398) نے کیا ہے۔ یہ بَیج(badge) بھی اب انشاء اللہ تعالیٰ عملی میدان میں آنے والا ہے۔ بی ایس سی آنرز دو سو ستائیس(227)، بی ایڈ ستر(70)، بی کام دو سو ستاون(257)، قانون ایل ایل بی بیس(20)، بی ایس سی سمپل ایک سو ترپن(153)۔ اور اس طرح مختلف پڑھنے والے چار ہزار ایک سو دس (4110)اس وقت ہیں۔

عقیل احمد صاحب Bo ریجن سیرالیون سے لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک لوکل مشنری الحاجی سیدو کی شادی کو تین سال کا عرصہ گزر چکا تھا کوئی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ نے بچے کو وقفِ نو میں شامل کرنے کے متعلق خط لکھا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی بچے کی امید نہیں ہوئی۔ خیر انہوں نے مجھے خط لکھا اور پھر وقفِ نو میں شامل کرنے کا عہد بھی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو بیٹا عطا فرمایا اور اُس کا نام مجھ سے انہوں نے لکھوایا تو میں نے مسرور اُس کا نام رکھ دیا۔ اُن کو جب بتایا کہ تمہارے بیٹے کا نام مسرور رکھا گیا ہے تو انہوں نے کہا میری ایک خواب پوری ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو بیٹا عطا فرمایا ہے اور میری والدہ مجھے کہتی ہیں کہ اس بچے کا نام خلیفہ رکھو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خلیفہ وقت کی دعا قبول فرمائی اور میرے خواب کے مطابق اس بچے کا نام بھی خلیفۃ المسیح کے نام پر ہے۔

غانا میں انٹرنیشنل جامعہ کا قیام

غانا میں انٹرنیشنل جامعہ کا قیام بھی اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمل میں آ گیا ہے۔ بڑی خوبصورت بلڈنگ بنی ہے اور مزید تعمیر ہو رہی ہے۔تمام افریقن ممالک کے بچے انشاء اللہ تعالیٰ وہاں جا کے شاہد کی ڈگری  حاصل کریں گے۔ پہلے وہاں تین سالہ کورس تھا۔ اب باقاعدہ شاہد کی ڈگری وہاں سے ملا کرے گی۔

اللہ کے فضل سے شعبہ پریس اینڈ پبلیکیشنز کے تحت بھی کافی کام ہوا ہے اور ریڈیو اور انٹرویوز اور اخبارات کے نام خبریں اور کٹنگز وغیرہ بھجوائی گئیں۔

مخزنِ تصاویر کے تحت بھی اللہ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے۔

مجلس نصرت جہاں کے تحت بھی اس وقت افریقہ کے بارہ ممالک میں انتالیس ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں۔ تینتالیس ڈاکٹر خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ بارہ ممالک میں ہمارے چھ سو چھپن ہائر سیکنڈری سکول اور جونیئر سیکنڈری سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں اور اس سال ہومیو پیتھک کلینک بھی کھل رہے ہیں۔

شفا کے غیر معمولی واقعات بعض دفعہ ہوتے ہیں۔ ٹیچی مان،گھانا کے سرکٹ مشنری لکھتے ہیں کہ 16؍ستمبر 2011ء کو ہم نے معمول کے مطابق ریڈیو پروگرام کیا۔ عنوان تھا ’کیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی آمد سے حضرت عیسیٰ کی آمدِ ثانی کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے؟‘ بحث کے دوران سب نے اپنی اپنی رائے دی مگر سیونتھ ڈے ریوایول چرچ (7th day Revival Church) کے پادری Yaw Saul جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، نے موضوع کو غلط قرار دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی قرار دینا کفر قرار دیا اور احمدیوں کے بارے میں دل آزار باتیں کیں۔ خاکسار نے قرآن مجید کی روشنی میں اُسے کہا کہ اگر ہم احمدی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیںتو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو، بصورت دیگر  Yaw Saul پر خدا کا غضب نازل ہو۔ اب خدا کی تقدیر اس طرح ظاہر ہوئی کہ اُس نے وعدہ کیا کہ تبلیغ کے معاونین کو سانپ بنا کر دکھائے گا جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سانپ بنانے کا معجزہ دکھایا تھا۔ اس کے لئے اس سال 8؍ مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی۔ اُس روز لوگوں کی بہت بڑی تعداد لاری سٹیشن پہنچ گئی۔ لوگوں نے لمبا انتظار کیا مگر یہ معجزہ ظاہر نہ ہوا۔ اس پر لوگوں نے اُس پر پتھر، لاٹھیاں اور جو کچھ ہاتھ میں آیا، پھینکا۔ اُس نے صرف یہ کہا کہ خدا نے اُسے مایوس کیا ہے۔ اب یہ شخص عیسائیت چھوڑ کر دنیاوی کاروبار کر رہا ہے اور اکرا چلا گیا ہے۔ ٹیچی مان کے لوکل اخبار نے اس واقعہ کی خبر دے کر یہ سرخی لگائی “False Prophet Yaw Saul” ۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے لوگوں کے یہ نظارے ہر زمانے میں دکھاتا ہے ۔ اسی طرح بہت سارے مریض شفا پاتے ہیں۔ ایسے مریض جن کو ہر جگہ سے ڈاکٹر جواب دے چکے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ہسپتالوں میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا رکھی ہے اور وہاں سے شفا پا کر جاتے ہیں۔

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹ انجینئرز بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی کام کر رہی ہے اور پانی کے نلکے لگانے، بجلی مہیا کرنے اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کرنے کے علاوہ انہوں نے ماڈل ویلیج افریقہ میں بنانے شروع کئے ہیں اور ایک کا افتتاح ہو چکا ہے۔ اور میرا خیال ہے ایک دو قریباً تیار ہیں۔ انشاء اللہ افتتاح ہو جائے گا۔ اور اس ذریعہ سے بھی جماعت احمدیہ کا کافی نام اُن ممالک میں پھیل رہا ہے اور لوگ ہماری خدمات کو سراہ رہے ہیں۔

ہیومینٹی فرسٹ اور خدمت خلق کے مختلف کام

ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے بھی اللہ کے فضل سے کافی کام ہو رہا ہے۔ اسی طرح بعض اور خدمتِ خلق کے کام ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں بلڈ ڈرائیو (Blood Drive) کیا گیا اور بارہ ہزار کے قریب بیگ اکٹھے کئے گئے جس کا وہاں اثر ہے۔ ایک Native امریکن نے ہماری ویب سائٹ پر لکھا کہ 9/11  واقعہ کے بعد میرے دل میں اسلام کے خلاف سخت نفرت پیدا ہوئی۔ دس سال میں اس نفرت میں کچھ کمی آئی لیکن دس سالہ تقاریب نے اُسے پھر دل میں زندہ کر دیا۔ آپ کے خون کے عطیات اکٹھے کرنے کے بارہ میں سی این این کی ویب سائٹ پر آپ کی رپورٹ دیکھی تو فوری ردّعمل یہ تھا کہ پبلک ریلیشن کا سٹنٹ (Stunt) ہے۔ پھر لکھا کہ پھر نہ جانے کس وجہ سے میں نے رونا شروع کر دیا اور ایسے لگا کہ میرے دل سے ساری اسلام دشمنی، بغض اور نفرت دُھل گئی ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ میں ایک یہودی سے انٹرویو لیا گیا تو اُس نے کہا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ خون دینے کی یہ مہم مسلمانوں کی طرف سے ہے تو کیونکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ میں ضرور خون کا عطیہ دوں گا۔ ایک چرچ میں عبادت کے بعد پادری صاحب نے اعلان کیا کہ کوئی شخص سوال یا تبصرہ کرنا چاہتا ہے تو کر لے۔ اس پر ایک خاتون نے کہا کہ مختلف ریڈیو اسٹیشن پر یہ اعلان ہو رہا ہے کہ احمدیہ جماعت جو مسلمانوں کی ایک پُر امن جماعت ہے، 9/11 کے موقع پر خون کے عطیات اکٹھے کر رہی ہے، ہمیں ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے اور کامیابی کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے۔ اس طرح بہت سارے لوگوں نے اپنے تاثرات دئیے۔ نادار اور ضرورتمندوں اور یتیموں کی امداد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے اور ہزاروں لاکھوں بچے اور مریض اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔

بینن سے معلم اسحاق صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس مرتبہ عید الفطر کے موقع پر جب تحائف دئیے گئے تو ذاکری صاحب صدر جماعت گنگولکا خاص طور پر ملنے آئے اور کہا کہ میں جتنا بھی خلیفہ وقت کا شکرگزار ہوں، اتنا ہی کم ہے کیونکہ اس مرتبہ عید پر پکانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کسی سے قرضہ لوںلیکن اُس سے اگلے ہی دن آپ کے مبلغ صاحب عیدی لے کر پہنچ گئے۔ میں شکرگزار ہوں۔ بورکینافاسو میں اسی طرح آنکھوں کے آپریشن ہوئے ہیں اُس پر لوگ بہت شکرگزاری کرتے ہیں۔ غرباء کی جماعت جو خدمت کر رہی ہے اس حوالہ سے بینن میں کوتونو کے صوبائی گورنر جناب پلاسیڈ آزاندے (Placide Azande) نے نیشنل ٹی وی ORTB کی ٹیم کو بتایا کہ میں اس وقت جماعت احمدیہ کی سوشل خدمات دیکھ کر بہت متاثر ہوں۔ یہ جماعت احمدیہ آج سے نہیں عرصہ دراز سے دنیا کی ہر طرح سے امداد کرتی جارہی ہے۔ یہ دنیا بھر میں امن کا صرف پیغام ہی نہیں دیتے بلکہ نادار طبقہ، غرباء، مساکین، بیواؤں، قیدیوں اور مریضوں، یتیموں کا ساتھ دے کر، اُن کا بھر پور خیال رکھ کر دنیا میں عملاً امن بھی قائم کرتے ہیں۔ قیدیوں سے بھی رابطے ہیں۔اُن کے ذریعہ سے بھی کام ہو رہا ہے۔ نومبائعین سے رابطے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے غانا اس وقت سر فہرست ہے۔ اس سال بھی انہوں نے انتیس ہزار دو سو نومبائعین سے رابطہ بحال کیا ہے اور سات سالوں میں اب تک یہ اللہ کے فضل سے نو لاکھ بتیس ہزار چار سو نومبائعین سے رابطہ بحال کر چکے ہیں۔ دوسرے نمبر پر نائیجیریا ہے۔ انہوں نے اس سال چالیس ہزار پانچ سو اٹھانوے نومبائعین سے رابطہ بحال کیا ہے۔ اب تک ان کے کُل چھ لاکھ رابطے ہو چکے ہیں۔ اس سال میں نائیجیریا پہلے نمبر پر ہی ہے لیکن کُل تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ تیسرے نمبر پر بورکینا فاسو ہے۔ پھر آئیوری کوسٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رابطے ہو رہے ہیں۔

بیعتیں

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو خاص دلچسپی بھی ہوتی ہے کہ بیعتوں کی تعداد کیا ہے؟ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے پانچ لاکھ چودہ ہزار تین سو باون بیعتیں ہوئی ہیں۔ 116 ممالک سے 282قومیں احمدیت میں داخل ہوئی ہیں۔ الحمد للہ۔ انشاء اللہ ان کی کل نمائندگی ہو گی۔ مالی میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار سے اوپر بیعتیں ہوئیں۔ تیئس نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ نائیجیریا ایک لاکھ پچیس ہزار تین سو چھ بیعتیں اور تیس نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ غانا میں سینتیس ہزار بیعتیں ہوئیں۔ انسٹھ مقامات پر جماعتیں قائم ہوئیں۔ بورکینا فاسو میں پچیس ہزار بیعتیں ہوئیں اور بیالیس نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ آئیوری کوسٹ میں اللہ کے فضل سے سات ہزار چھ سو بیعتیں ہوئیں اور انتیس جماعتیں قائم ہوئیں۔ سینیگال کو سات ہزار بیعتیں حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ بینن کو انتالیس ہزار، نائیجر کو تیئس ہزار، کیمرون کو اکیس ہزار، یوگنڈا کو دو ہزار۔ اسی طرح مختلف ممالک کینیا، سیرالیون، کانگو برازویل ہیں۔ ہندوستان کی تین ہزار دو سو سینتیس اور سینٹرل افریقن ریپبلک کی اس سال کی بیعتیں دو ہزار چار سو سترہ ہیں۔

بیعتوں کے تعلق میں ایمان افروز واقعات

بیعتوں کے بارے میں بعض واقعات بیان کر دیتا ہوں۔

ہمارے ایک معلم ابراہیم اَمیتیلا صاحب کہتے ہیں کہ ان کو تبلیغ کی غرض سے شہر گابُوما برازویل، کانگو برازویل سے بھیجا گیا تو یہ تبلیغ کرتے کرتے ایک مسلمان کی دکان پر گئے تا کہ کوئی چیز خرید کر کھائی جائے۔ اس کو بھی جماعت کا تعارف کروایا تو اُس نے کہا کہ آپ نے جس طرح مجھے اسلام کا تعارف کروایا ہے، پہلے کبھی میں نے نہیں سنا۔ ہماری مسجد میں تو روزانہ لڑائیاں ہوتی ہیں۔ پھر معلم نے کہا یہی ہمارا پیغام ہے۔ اسی دور کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ امام آئے گا، اس کو ماننا تو تم امن میں آ جاؤ گے۔ پھر ہم نے اُس کو تصویر دکھائی، (میری تصویر دکھائی اُن کو)، تو تصویر دیکھتے ہی کہا کہ ان کو تو ہم روزانہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں، لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتی کیونکہ ان کی زبان اور ہے، میرے بیوی بچے باقاعدگی سے دیکھتے ہیں۔ پھر معلم نے اُس کو بتایا کہ تم آڈیو چینل change کر کے فرنچ میں اس کو سن سکتے ہو۔ اس نے کہا ابھی تو میرا گھر دور ہے میں دوکان چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ آپ میرا ٹیلی فون نمبر لے لیں، دوبارہ آنے سے پہلے مجھے فون کر دیں۔ میں لوگوں کو اکٹھا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کا اس ذریعہ سے ایک نیا دروازہ کھل گیا اور اب علاقے میں سو سے زائد بیعتیں ہو چکی ہیں۔

مالی کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ مخالف مولوی احمدیت کے خلاف تقریر کرنے آیا اور بیعت کر کے واپس گیا۔ مالی میں جماعت احمدیہ کا ایک مخالف مولوی گروپ ہے۔ جب جیجنی (Didieni) میں جماعت کے ریڈیو پر تبلیغ کا آغاز ہوا تو اس گروپ کے ایک مولوی کو سپیشل بماکو (Bamako) شہر سے ہمارے خلاف تقریر کے لئے بلایا گیا۔ اتفاقاً اُس کی ہمارے معلم عبدالقادر سے ملاقات ہو گئی۔ وہ اُسے ریڈیو سٹیشن لے آئے۔ جب وہ ریڈیو سٹیشن میں داخل ہوا تو اس نے وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر دیکھیں۔ اس پر وہ کہنے لگا جب میری نظر ان تصاویر پر پڑی تو فوراً میرے دل نے گواہی دی کہ یہ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصاویر ہیں۔ اگرچہ میں نے اُنہیں دیکھا تو نہیں لیکن میرے دل میں ان کا یہی نقشہ ہے۔ پھر کہنے لگا کہ میری بیعت لے لو کیونکہ اب سے میں احمدی ہوں۔ مولویوں میں بھی نیک فطرت ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کا دل اس طرح بھی پھیرتا ہے۔

مفیض الرحمن صاحب مبلغ بوسنیا لکھتے ہیں کہ ایک دوست سماجو موفٹک (Samajo Muftich) صاحب کو جماعت کا پیغام پہنچا تو موصوف جماعتی سینٹر میں آئے اور جماعتی تعلیم کے بارے میں سوال کرتے رہے۔ دورانِ گفتگو اُن کی نظر میری تصویر پر پڑی تو انہوں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں۔ جب ان کو تعارف کروایا گیا تو کہنے لگے کیا اُن سے ملاقات ممکن ہے؟ ان دنوں جلسہ سالانہ جرمنی کی آمد تھی۔ موصوف جلسہ جرمنی میں شریک ہوئے۔ تقریریں بھی سنیں اور وہاں بیٹھے سن رہے تھے تو میرے سے ملے اور دیکھ کر رو پڑے۔ اور یہی کہتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیوں رو رہا ہوں۔ اس جلسہ پرہی بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔ اس سے قبل موصوف چودہ سال تک نماز اور اسلامی شعار سے بالکل دور تھے۔ مگر الحمدللہ احمدیت میں داخل ہونے کے بعد اب ان تمام شعار کے پابند ہیں۔

امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ غیر احمدی دوست بکرے ڈامنا صاحب ہمارے نیشنل جلسہ سالانہ گیمبیا میں شامل ہوئے اور انہوں نے پورا جلسہ سنا۔ جلسہ کے اختتام پر کہنے لگے میں تو اب جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ حقیقی اسلام تو احمدیت میں ہے۔ میں مختلف اجتماعات میں شامل ہوا لیکن آپ کا جلسہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اصل اسلام یہی ہے جو آپ پیش کر رہے ہیں۔ چنانچہ یہ صاحب بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔

نیوزی لینڈ کے صدر صاحب لکھتے ہیں کہ 2011ء میں جماعت نیوزی لینڈ کو یہاں کے مقامی ماؤری (Maori) باشندوں میں سے پہلی بیعت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام احمدیت قبول کرنے کے بعد اس دوست میں بڑی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ یہ دوست بیعت سے قبل بدقسمتی سے اپنے مخصوص ماحول کی وجہ سے پُرتشدد طبیعت کے مالک تھے چنانچہ اسی وجہ سے گھریلو تشدد کے باعث ان کا معاملہ پولیس کے پاس چلا گیا اور ان کے ماضی کی وجہ سے قوی امکان یہی تھا کہ اُنہیں جیل ہو جائے گی۔ اُن کی اہلیہ جو کہ جماعت میں کافی دلچسپی لیتی ہیں، نے کہا کہ اگر احمدیت سچی ہے تو پھر تمہیں سزا سے بچ جانا چاہئے۔ اس ضمن میں انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اُنہیں جیل کی سزا سے محفوظ رکھا۔ ان کی اہلیہ نے ابھی تک بیعت نہیں کی تاہم ان کے جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کے قبیلے کے باقی لوگوں کے احمدیت قبول کرنے کا امکان ہے۔ اس قبیلے کے بعض ایلڈرز (Elders) نے جماعتی وفد کے دورے کے موقع پر ہمارے ساتھ نماز بھی پڑھی کیونکہ ان کے ایک بزرگ نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ پِیس پرافٹ (Peace Prophet) کے لوگ اُن کے مارائی (Marae) کا وزٹ کرنے آئیں گے۔

ٹوگو سے کولانی دیتو صاحب (Kolani Ditu) جو ریجن دپاؤں (Dapaong) کے ایک گاؤں بوکوس (Bokos) کے رہنے والے ہیں، نے بیان کیا ؛کہ میں نے جماعت اس لئے قبول کی کہ میرے آباؤ اجداد نے اس بارے میں ہمیں بتایا تھا۔ میرے گاؤں میں کبھی ایک خدا کی عبادت نہیں کی گئی۔ آس پاس کے گاؤں میں دوسرے مذاہب موجود تھے لیکن وہ کبھی ہمارے گاؤں میں نہیں آئے۔ لیکن جماعت خود ہمارے گاؤں میں آئی اور یہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے ہمیں ایک خدا کی طرف بلایا۔ جب میں نے جماعت کا پیغام سنا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ہمارے بڑوں نے بتایا تھا اور یہی اصل روشنی ہے۔ میں نے اسے قبول کر لیا اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہوں گا۔

رؤیا صادقہ کے ذریعہ قبول احمدیت

پھر خوابوں کے ذریعہ سے بھی بہت سے لوگ احمدی ہوتے ہیں۔ ایک آدھ کا ذکر کر دیتا ہوں۔ امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ایک دوست فاجُنکُودرامے نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے بھائی کو تبلیغ شروع کر دی لیکن اُن کے بھائی احمدیت کا پیغام نہیں سن رہے تھے۔ ایک دن اُن کے بھائی نے کہا کہ وہ بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیوں بیعت کرنے لگے ہو۔ اس پر اُن کے بھائی نے بتایا کہ رات کو خواب میں دیکھا کہ سورج بھی چڑھا ہے اور چاند بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ جب سورج بلند ہوا تو یہ کہا گیا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور جب سورج کے بعد چاند چڑھا تو کہا گیا کہ یہ امام مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ چاند پورے جوبن پر تھا۔ پھر مجھے کہا گیا کہ یہ چاند امام الزمان ہیں۔ پھر میں خواب میں کہتا ہوں کہ مجھے امام مہدی علیہ السلام کو مان لینا چاہئے کیونکہ وہ آ چکے ہیں۔ چنانچہ اگلے دن اُن کے بھائی نے مشن آ کر بیعت کر لی۔

امیر صاحب فرانس بیان کرتے ہیں کہ فرانس کے ایک نو احمدی بُخَاس کی والدہ نے اپنا خواب بیان کیا انہوں نے بتایا کہ میں نماز ادا کر رہی ہوں۔ میرے آگے ایک باریش شخص کھڑا ہے اور وہ کچھ نہیں کہتا۔ یہ خواب پانچ چھ سال قبل کا ہے۔ ایک سال قبل میں اپنے بیٹے کے ساتھ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہ کون ہیں؟ یہی وہ بزرگ تھے جن کو پانچ چھ سال قبل میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ اس پر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ (جلسہ سالانہ کے پروگرام میں مجھے بھی انہوں نے دیکھا۔) ان تمام واقعات نے میری زندگی پر گہرا اثر کیا۔ جب واپس آئیں تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا مجھے احمدی ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

بانفورہ (Banfora) بورکینا فاسو ریجن کے ایک گاؤں چم پوگرا (Chempogra) میں ایک شخص عبدالرحمن نے خواب دیکھا کہ اس کا بیٹا اسے کہتا ہے کہ ابا ادھر دیکھو یہاں کون ہے؟ اور جب وہ وہاں دیکھتا ہے تو امام مہدی علیہ السلام کو کھڑے پایا۔ اُس نے لوگوں کو خواب سنائی مگر کوئی بھی اُس کا جواب نہ دے سکا۔ ایک دن وہ ہمارے معلم صاحب کے پاس گیا اور اسے بھی یہی خواب سنائی۔ تو معلم صاحب اپنے گھر کے اندر گئے اور حضرت مسیح موعود  علیہ السلام کی تصویر لے کر آئے اور پوچھا کہ کیا یہی وہ بزرگ تھے۔ تو وہ فوراً بول اُٹھا کہ ہاں یہی وہ پگڑی والے بزرگ تھے جو میری خواب میںآئے تھے۔ معلم صاحب نے عبدالرحمن کو تعارف کروایا کہ یہی وہ امام مہدی ہیں، امام الزمان ہیں جن کو خدا نے امام مہدی کے مقام پر کھڑا کیا ہے۔ اس پر عبدالرحمن کہنے لگے کہ مَیں نے تو آج سے قبل نہ ان کو دیکھا اور نہ ہی تعارف تھا مگر میری خواب میں یہی آئے۔ چنانچہ اس نشان کو دیکھتے ہوئے تمام گھر والوں سمیت جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔

اسی طرح بے انتہا واقعات ہیں جو اس وقت بیان کرنے مشکل ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ بیعتوں کے بعد رؤیا کے ذریعہ سے ایمان کی مضبوطی کس طرح عطا فرماتا ہے۔

کرغزستان کے ایک نہایت ہی مخلص لوکل احمدی عبداللہ صاحب بتاتے ہیں کہ مَیں کافی سالوں سے احمدی ہوں۔ جماعت احمدیہ کو سچا بھی مانتا تھا لیکن کبھی کبھار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے رہتے تھے کہ آپ کس درجہ پر فائز ہیں۔ مَیں گزشتہ کافی سالوں سے احمدی ہونے کے باوجود نادان اور نا سمجھ پھرتا رہا۔ کیونکہ میں عربی اور اردو زبان نہ جاننے کی وجہ سے امام مہدی علیہ السلام کی کتب کو نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے بعض اوقات ایک لمحے کے لئے آپ کی نبوت کے بارے میں شک میں پڑ جاتا تھا۔ کئی دفعہ شیطان نے بہت پھسلانے کی بھی کوشش کی لیکن میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا میں یہی التجا کرتا کہ اے اللہ! مجھے اس بارے میں رہنمائی فرما۔ کہتے ہیں اکیسویں روزہ کے اختتام پر رات خواب دیکھا کہ خواب میں سجدہ کرتے ہوئے مجھے ایک آواز آئی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سجدہ کرنا سکھائیں گے۔ اُسی وقت میرا جسم ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں تبدیل ہو گیا۔ ہم دونوں نے یعنی میں نے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی جسم کے ساتھ سجدہ کیا۔ سجدہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا کہ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تجھے سجدہ کرنا سکھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی میرے جسم میں داخل ہوئے تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں تبدیل ہو گئے۔ اس پر مَیں نے دوبارہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسری طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک ہی وجود میں دکھایا گیا اور میرے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے۔ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر ہیں۔

مخالف علماء کا بحث مباحثہ اور مخالفانہ پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں بیعتیں

زیمبیا کے جنوبی صوبہ کے شہر لونگسٹن (Livingstone) میں گزشتہ چار ماہ سے تبلیغی و تربیتی پروگرام کا سلسلہ جاری ہے۔ جماعت کے لٹریچر اور تبلیغی کوششوں کو دیکھ کر پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے تبلیغی جماعت کے مولویوں نے لوکل مسلمانوں کو جماعت کے خلاف اکساتے ہوئے تاکیداً کہا کہ کوئی مسلمان احمدیوں سے نہ ملے۔ اور جماعت احمدیہ کو اس علاقے میں ٹکنے نہ دیا جائے۔ ان باتوں سے متاثر ہو کر مسجد کے امام نے اگلے جمعہ جماعت احمدیہ کے خلاف نہایت شر انگیز خطبہ دیا۔ جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پاک پر نہایت گندے، غلیظ اور ہتک آمیز الفاظ استعمال کئے۔ اس خطبہ کے بعد لوکل پڑھے لکھے غیر از جماعت مسلمانوں کے دلوں میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر یہ لوگ احمدیوں کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ ضرور کوئی خلاف قرآن اور سنت بات ہو گی جس کی وجہ سے ہر ایک ان کے خلاف نظر آتا ہے۔ چنانچہ چار پڑھے لکھے غیر از جماعت افراد نے مسلسل جماعت کے ساتھ تبلیغی نشستیں کیں اور جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ ان چار افراد میں سے ایک فرد محمد مصطفی صاحب نے بذریعہ فون پیغام بھیجا کہ اس کی پیدائش 30؍جون کی ہے اور اس نے 30؍جون 2008ء کو عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کیا تھا۔ اب انشاء اللہ 30؍جون 2012ء کو ہی جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کا خواہشمند ہے۔ اس نے کہا کہ وہ سو فیصد جماعت احمدیہ کی صداقت کا قائل ہو چکا ہے۔ چنانچہ 30؍جون کو یہ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گیا۔

پھر بعض واقعات ہیں کہ جماعت کے مخالف مولویوں کے غلط پروپیگنڈے اور جماعت کے حالت دیکھ کر، نمازوں کی حالت دیکھ کر، قرآن کریم سن اور پڑھ کر ان لوگوں میں تبدیلی پیدا ہوئی اور پھر بیعتیں ہوئیں۔

احمدی کا نمونہ دیکھ کر بیعت

احمدیوں کا نمونہ دیکھ کر بیعت کرنے کی بعض مثالیں ہیں۔ ایک آدھی پیش کرتا ہوں۔ امیر صاحب بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ ڈوری ریجن کے مہدی آباد گاؤں میں جہاں جماعت نے ماڈل ویلیج پراجیکٹ مکمل کیا ہے، سبزیاں اُگانے کے لئے عبدالقادر نامی ایک مزدور رکھا۔ اس دوران ہمارے مبلغ کو اُسے تبلیغ کرنے کا موقع بھی ملتا رہا۔ مہدی آباد پروجیکٹ کے افتتاح کے بعد یہ کام چھوڑ کر چلا گیا اور ایک ماہ کے عرصہ تک کوئی رابطہ نہ ہوا۔ 27؍مئی 2012ء کو یہ دوست صبح کے وقت مشن ہاؤس آئے اور بیعت کرنے کا اظہار کیا۔ جب انہیں بیعت فارم پڑھ کر سمجھایا تو عبدالقادر صاحب نے اپنا نام اور اپنے بیوی بچوں کے نام بیعت فارم پر درج کئے اور کہنے لگے کہ مَیںکوئی خاص تعلیم یافتہ نہیں ہوں کہ دلیلوں کو سمجھتا اور لٹریچر پڑھتا مگر مَیں آپ کی جماعت کے ایک گاؤں میں ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ رہا ہوں اور مَیں نے کسی فرد جماعت کو سگریٹ نوشی اور شراب یا نشہ وغیرہ کرتے نہیں دیکھا۔ میرے لئے سب سے بڑی دلیل تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ زبان سمجھ نہیں آتی صرف خلیفہ وقت کی محبت کی وجہ سے اُس کا چہرہ دیکھنے اور اُس کی آواز سننے کے لئے احمدی ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ کیا یہ محبت کسی جھوٹے شخص کے لئے ہو سکتی ہے۔ اور پھر اگر خلیفہ کے نمائندے بھی اس کا پیغام لے کر آئے ہیں تو گاؤں والے سارے کام چھوڑ کر اُس کے پیغام کو سننے کے لئے آتے ہیں۔ بس خلیفۃ المسیح سے جماعت کی محبت دیکھ کر مجھے اس جماعت کی سچائی کا یقین ہو گیا ہے۔ اور آج بیعت فارم پُر کر کے میں اس جماعت میں داخل ہوتا ہوں۔

نشان دیکھ کر بیعتیں

نشان دیکھ کر بیعت۔  نائیجیریا سے معلم عبدالکبیر اوجوئے صاحب لکھتے ہیں کہ ہم اوڈولو (Odulu) گاؤں اور اس کے ارد گرد تبلیغ کر رہے تھے کہ وہاں کافی مخالفت ہوئی۔ کچھ عرصے بعد اس گاؤں کے ایک نوجوان بشیر نے آ کر بتایا کہ اُس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر یہ احمدی لوگ سچے نہیں ہیں تو اُنہیں تکلیف میں مبتلا کر اور اگر احمدی سچے ہیں تو مخالفین کو تکلیف میں مبتلا کر جو ایک نشان بنے۔ چنانچہ پانچ دن بعد میں نے دیکھا کہ مخالفین میں دو شخص بیمار ہوئے اور شدید تکلیف میں مبتلا ہو کر فوت ہوئے جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ جماعت خدا کی طرف سے ہے اور میں سچے دل کے ساتھ ایمان لا کر احمدی ہوتا ہوں اور جماعت کی ہر لحاظ سے خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں۔

مخالفانہ کوششیں اور نومبائعین کی ثابت قدمی

مخالفانہ کوششیں اور نومبائعین کی ثابت قدمی۔ اس کے بھی کافی واقعات ہیں۔ کینیا سے ایلڈوریٹ کے ریجن کی ایک جماعت مکوٹانو (Makutano) کی ایک معمر خاتون کو اللہ تعالیٰ نے اپنی فیملی کے ساتھ جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ جب مخالفین کو علم ہوا تو انہوں نے کافی مخالفت کی اور بعض نے تو بائیکاٹ کر دیا۔ کچھ عرصے بعد اُن کے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ مخالفین نے شور مچایا کہ اس کا خاوند احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے فوت ہوا ہے اور اُسے آ کر سمجھانے کی کوشش کی کہ اب بھی احمدیت سے باز آ جاؤ ورنہ تم پر خدا کا مزید قہر نازل ہو گا۔ جواباً اُس خاتون نے اُنہیں جواب دیا کہ ہم نے احمدیت کو اسلام کی سچی نمائندہ جماعت سمجھ کر قبول کیا ہے۔ اگر میرا سارا خاندان، گھر بار سب کچھ ختم ہو جائے، تب بھی میں احمدیت کو نہیں چھوڑ سکتی اور بتایا کہ میرے خاوند نے مجھے مرتے وقت یہ نصیحت کی تھی کہ تم پر بڑے بڑے ابتلاء آئیں گے مگر تم ثابت قدم رہنا، تمہاری موت بھی احمدیت پر ہی ہو۔ مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ یہ مخلص خاتون باوجود مالی کمزوری کے اپنے چندہ جات میں باقاعدہ ہیں اور تبلیغی پروگرام میں بھر پور حصہ لیتی ہیں۔ ایک دفعہ خاکسار نے ایک تبلیغی پروگرام کا اہتمام ان کے گاؤں سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک دوسرے گاؤں میں کیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ خاتون وہاں بھی موجود ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیسے آئی ہیں تو جواب دیا کہ مجھے علم ہوا تھا کہ آپ تبلیغ کے لئے آ رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہمارے علاقے میں آئے اور میں اُس پروگرام میں شامل نہ ہوں۔ بعد میں وہاں معلم صاحب نے بتایا کہ اس خاتون کے پاس سفر کے لئے رقم بھی نہ تھی اور یہ تمام فاصلہ پیدل ہی طے کر کے آئی تھیں۔ دعوت الی اللہ میں روکیں ڈالنے والوں کا انجام غیر معمولی تبدیلیوں کے بھی بڑے واقعات ہیں۔پھر دعوت الی اللہ میں روکیں ڈالنے والوں کے انجام کے واقعات بھی ہیں۔ ابھی اس وقت یہ بیان کرنے مشکل ہیں۔

انڈیا سے شیخ برہان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کھڈیاپورا (گجرات) کے چند لوگ جب بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تو وہاں بہت مخالفت شروع ہو گئی۔ اس مخالفت میں کچھ لوگ پیش پیش تھے۔ اُن میں ایک چالیس سالہ مخالف مُشری خان تھا۔ تمام لوگوں کے سامنے اُس نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ احمدی لوگ قبلہ کی بجائے دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ ایک دوسرے شخص کریم نامی نے بھی جماعت پر بہت بہتان تراشے اور شدید مخالفت کی۔ اس کے علاوہ قریب کے شہر کے بڑے مولوی صاحب اس مخالفت میں پیش پیش تھے۔ اس طرح ایک شخص بادشاہ خان بھی اس مخالفت میں پیش پیش تھا۔ یہ تمام افراد جماعت کی مخالفت کرتے اور گالیاں نکالا کرتے تھے اور تہیہ کر رکھا تھا کہ اس علاقے سے جماعت کو ختم کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تمام افراد کا عبرت ناک انجام اس طرح ہوا کہ مُشری خان جو کہ بالکل صحتمند تھا اس مخالفت کے دو ماہ بعد ہی شدید بیمار ہو گیا، پیشاب بھی بند ہو گیا، خون کی الٹیاں آئیں اور چار گھنٹے کے اندر اندر ہی ہلاک ہو گیا۔ کریم نامی شخص کو لقوہ اور فالج ہوا اور ایک سال تک اذیتناک بیماری برداشت کرتا ہلاک ہو گیا۔ شہر کے بڑے مولوی صاحب دو ماہ کے اندر اندر حرکت قلب بند ہونے سے ہلاک ہو گئے۔ ان کی عمر بھی پینتیس سے چالیس سال کے درمیان تھی۔ بادشاہ خان مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا یہ بھی حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ ان چاروں نے اس علاقے سے احمدیت ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن خود ختم ہو گئے۔

طاہر سون صاحب مبلغ روکوپور ریجن(سیرا لیون) لکھتے ہیں کہ روکوپور ریجن میں لوما جنکشن پر جماعت نے زمین خرید کر سکول بنانا چاہا۔ وہاں کی سینٹرل مسجد کا امام شیخ سلیمان جماعت کا بہت مخالف تھا۔ اُس نے مالکان اور دوسرے لوگوں کو کہنا شروع کر دیا کہ جماعت احمدیہ کے لوگ کافر ہیں اور کریمینل ایکٹویٹیز (Criminal activities) میں ملوث ہیں۔ جماعت احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بدزبانی کرنا شروع کردی۔ سکول کی تعمیر کے وقت جب زمین کا Layout کیا جانا تھا تو دوبارہ امام نے فتنہ اُٹھایا اور لوگوں کو ساتھ ملا کر زمین پر گیا اور کہا اس زمین پر ہم نمازِ عید ادا کیا کرتے ہیں اور یہ ہماری عید گاہ ہے، ہم اس پر سکول نہیں بننے دیں گے۔ زمین کے مالک کی بہن کو ساتھ ملا کر حق شفعہ کر دیا۔ اس عورت نے جماعت کے خلاف بدزبانی کی اور کہا کہ جو شخص زمین میں داخل ہو گا میں اُس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دوں گی۔ احبابِ جماعت نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی لیکن اس عورت نے جماعت کے خلاف اور بھی بدزبانی شروع کر دی۔ اس واقعہ کے ایک ماہ بعد اس عورت کا بڑا بیٹا کسی کام سے جنگل میں گیا اور وہیں اس کی وفات ہو گئی۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد دوسرا بیٹا بیمار ہوا اور فوت ہو گیا۔ اس پر لوگوں نے عورت کو کہنا شروع کر دیا کہ تم نے ناجائز طور پر جماعت کے خلاف بدزبانی کی تھی اور کہا تھا کہ جو کوئی زمین میں داخل ہو گا میں اُس کی دونوں ٹانگیں توڑ دوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسی کی سزا دی ہے کہ تیرے دونوں بیٹے فوت ہو گئے ہیں۔ جس پر اُس کے خاوند نے اُسے چھوڑ دیا اور گھر سے نکال دیا۔ اس پر اس عورت نے ہمارے مبلغ اور صدر صاحب کو گھر بلایا، کھانا کھلایا، معافی مانگی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے معاف فرما دے اور میں اپنے انجام کو پہنچ گئی ہوں۔ دوسری طرف ایک دن نماز فجر کے بعد پندرہ سے بیس افراد اس مخالف امام کے گھر آئے اور کہا کہ تمہارا بیٹا بہت ہی بدچلن ہے، اس نے ہماری بیٹیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے ہیں، اپنے بیٹے سے کہو کہ وہ ان کے تمام اخراجات دے یا تم خود ادا کرو ورنہ ہم قانونی چارہ جوئی کریں گے اور تمہیں اس گاؤں سے بھی نکال دیں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس امام نے گھر پر ایک شخص رکھا ہوا ہے جو اس کا شراب کا کاروبار چلاتا ہے اس لئے اس کو امامت اور گاؤں سے نکال دیا جائے۔ جس پر امام نے لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔ لوگوں نے اُس کو خوب زود کوب کیا اور گھر سے گھسیٹ کر سڑک پر پھینک دیا۔ چنانچہ اُس دن کے بعد وہ امام دوبارہ گاؤں میں دکھائی نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مخالفوں کو عبرت کا نشانہ بنا دیا۔ اسی طرح کے یہ اور بہت سارے واقعات بھی ہیںجو پھر کسی وقت بیان ہو جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔

نامساعد حالات میں حفاظت الٰہی پھر اللہ تعالیٰ نامساعد حالات میں حفاظت کے سامان فرماتا ہے۔ کینیا سے ہمارے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ محمد ادریس صاحب ہمارے ایک نہایت مخلص اور پیدائشی احمدی دوست ہیں اب قائدخدام الاحمدیہ ممباسا ریجن ہیں، جون 2011ء میںجس کمپاؤنڈ میں وہ رہتے تھے اچانک وہاں خطرناک آگ بھڑک اُٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے کمپاؤنڈ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ جس وقت آگ لگی اُس وقت ادریس صاحب اپنے کام پر تھے جو اُن کے گھر سے تقریباً چھ سات کلو میٹر دور ہے۔ فون پر جب اُن کی بیوی نے اُن کو اطلاع دی کہ آگ لگ گئی ہے اور ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں۔ اس پر ادریس صاحب نے مجھے فون کر کے اطلاع دی جس پر اُن کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ وہ بیان کرتے ہیں اس کے بعد انہوں نے گھر کی طرف دوڑ لگائی جو وہاں سے کافی دور تھا۔ کہتے ہیں کہ اچانک مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام یاد آیا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔ اس سے دل کو تسلی ہوئی کہ آخرمَیں بھی کچھ زیادہ نہیں تو ایک احقر غلام تو ضرور ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے پیارے مسیح علیہ السلام سے کئے گئے اس وعدے کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ میں جو بھاگ رہا تھا ایک دم رُک گیا اور مناسب ٹرانسپورٹ پر سوار ہو کر گھر پہنچا جہاں ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ میرے گھر پہنچنے سے قبل فائر بریگیڈ پہنچ چکی تھی جو آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مبلغ تحریر کرتے ہیں کہ اس دوران وہ بھی چند خدام کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ جب آگ پر قابو پا لیا گیا تو ہم خدام کے ساتھ کمپاؤنڈ کے اندر داخل ہوئے تا کہ اگر کچھ سامان آگ سے بچ گیا ہو تو اس کو محفوظ کیا جا سکے۔ جب داخل ہوئے تو دیکھا کہ سوائے محمد ادریس کے گھر کے جو تین کمروں پر مشتمل تھا اور اس کے عین ساتھ ایک گھر جو صرف ایک کمرے کا تھا، مکمل محفوظ تھے اور باقی کمپاؤنڈ میں واقع دس گھر جل کر خاکستر ہو چکے تھے۔ جب ہم اس گھر میں داخل ہوئے جو دھوئیں سے بھرا ہوا تھا تو سامنے دیوار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی تصاویر لگی ہوئی تھیں جن کو دیکھتے ہی خاکسار کے ساتھ مدد کے لئے گئے ایک خادم مزے رجب صاحب کے منہ سے برملا یہ نکلا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس گھر میں اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی تصاویر ہوں اس کو جلادے۔ بہرحال ان کے ایمان میں اضافے کا اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا فرمایا۔ احمدیت کی وجہ سے پاک تبدیلیوں کے بہت سے واقعات ہیں، قبولیت دعا کے واقعات، مالی قربانی اور چندوں میں برکت کے ایمان افروز واقعات ہیں اسی طرح اوربہت ساری چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت دنیا میں ترقی کر رہی ہے اور جو لوگ شامل ہو رہے ہیںوہ ایمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی ترقی کر رہے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

’’باوجود سخت مخالفانہ مزاحمتوں کے براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آج سے بیس برس پہلے دنیا میں شائع ہو چکی تھی‘‘۔ (اُس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں اور آج بھی ہم اس کے نظارے دیکھتے ہیں)، فرمایا کہ ’’جس کا خلاصہ یہ تھا کہ لوگ مزاحمتیں کریں گے اور اس سلسلہ کو نابود کرنا چاہیں گے لیکن خدا اُن کے ارادوں کے مخالف کرے گا اور اس سلسلہ کو ایک بڑی جماعت بنا دے گا، یہاں تک کہ یہ سلسلہ بہت ہی جلد دنیا میں پھیل جائے گا اور اُن لوگوں کے ارادوں پر لعنت کا داغ ظاہر ہو جائے گا جنہوں نے روکنا چاہا تھا‘‘۔ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 408)

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحیح رنگ میں ان باتوں پر عمل کرنے والا بنائے۔ اُن لوگوں میں شامل فرمائے اور جماعت کے اُن افراد میں شامل فرمائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دیکھنا چاہتے تھے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اپنا تبصرہ بھیجیں