خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع افتتاح جامعہ احمدیہ یو کے 21-10 2012

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

 اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ احمدیہ جو کہ جماعت کے بہت بڑے اور عظیم اداروں میں سے ایک ادارہ ہے اور جس کی شاخیں اب دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکی ہیں اُس کی برطانیہ کے جامعہ احمدیہ کی شاخ کی نئی عمارت کا یا نئی جگہ کا آج رسمی افتتاح ہو رہا ہے۔ جامعہ احمدیہ یوکے تقریباً سات سال پہلے یا آٹھ سال پہلے لندن میں ایک عمارت میں شروع ہوا تھا جو شروع میں تو بہت بڑی نظر آتی تھی اور آہستہ آہستہ جب تعداد بڑھنی شروع ہوئی، طلباء آنے شروع ہوئے، کلاسیں زیادہ ہونی شروع ہوئیں تو وہ جگہ چھوٹی نظر آنے لگی۔ اُس میں انتظامیہ نے بڑی محنت سے، بڑی کوشش کر کے بہت ساری جگہوں کو قابلِ استعمال بنا کر وقتی طور پر اپنی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کہاں تک؟اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش جماعت احمدیہ پر ہو رہی ہے اُس کو سنبھالنے کے لئے اللہ تعالیٰ تو چاہتا تھا کہبھی اپنے دلوں میں بھی اور اپنی جگہوں میں بھی  وسعت پید کرو۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ (تذکرہ صفحہ نمبر41ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) کی طرف توجہ کرو اور پھر اس طرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی توجہ ہوئی۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس توجہ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کو جو تقریباً بتیس(32) ایکڑ زمین پر مشتمل ہے اور اس میں بڑی وسیع عمارت بھی ہے جس میں ہوسٹل کی جگہ بھی میسر آ گئی۔اگرتمام کلاسوں کے لئے اَور بھی مزید طلباء آ جائیں تو میسر آ سکتی ہے ۔ کلاس رومز کی جگہ بھی میسر آ گئی اور بڑے اچھے خوبصورت کلاس رومز مل گئے۔ ہوسٹل میں بھی بڑے اچھے کمرے طلباء کو میسر آ گئے۔ باقی سہولتیں بھی ہیں۔ سٹاف کے لئے کچھ فلیٹس یا اپارٹمنٹ بھی مل گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس ارادے کے ساتھ ہی یہ ایک انتظام فرما دیا کہ ہم نے اپنے دلوں کو بھی کھولنا ہے اور اپنی جگہوں کو بھی کھولنا ہے۔ اور پھر اس جگہ میں جہاں تک شنید ہے یہ بھی ہے کہ مزید بعض تعمیرات کی اجازت بھی پہلے سے موجود ہے۔ تو اس لحاظ سے آئندہ کی ضرورت بھی پوری ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس نئی جگہ کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔

لیکن جو طلباء یہاں پڑھ رہے ہیں یا پڑھ کر یہ پہلا بَیچ(Batch) جو نکلا ہے، اُن کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس  جس طرح اللہ تعالیٰ وسعتیں پیدا کر رہا ہے اور ضروریات کو بڑھانے کے ساتھ ضروریات کو پورا بھی فرما رہا ہے، اُسی طرح ہماری ذمہ داری بھی بڑھ رہی ہے اور یہ احساس ذمہ داری ہر طالبعلم میں ہر روز ایک نئے انداز سے ابھرنا اور پیدا ہونا چاہئے ۔تبھی آپ مستقبل کی ضروریات کو اور وسعتوں کو پورا کرنے کی کوشش کر سکیں گے۔ یہاں پڑھنے والے طلباء ہمیشہ یاد رکھیں کہ جامعہ احمدیہ پر جماعت ایک بہت بڑی رقم خرچ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جہاں وہ جماعت کی وسعت بڑھا رہا ہے وہاں اس کے پیسے میںبھی بہت برکت ڈال رہا ہے۔ اب یہی جگہ جو آج سے چار سال پہلے جس قیمت پر میسر تھی، اُس سے آدھی قیمت پر مہیا ہو گئی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے ایسے سامان پیدا کر دئیے اور یہی برکتیں ہیں جو جماعت کے پیسے میں پڑتی ہیں جس کا خیال یہاں پڑھنے والے ہر طالبعلم کو رکھنا چاہئے کہ جماعت جس طرح خرچ کر رہی ہے، جس طرح اُنہیں اپنے مبلغین اور مربیان بنانے کی طرف توجہ دے رہی ہے اُسی طرح ہمیں بھی اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے بہت زیادہ توجہ اور محنت کی ضرورت ہے۔ اس لئے یاد رکھیں کہ آپ نے خاص طور پر یہ توجہ دینی ہے۔

آج دنیا میں کہیں بھی رہنے والے جماعت احمدیہ کے جو افراد ہیں،  اُن کی تربیت کی ذمہ داری بھی آپ پر ہے۔ یوکے میں پڑھنے والے صرف یوکے کی جماعت کی تربیت کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ بلکہ آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جو دوسرے ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے اُن کو انہی ممالک میں واپس بھیجا جائے یا پھر تبلیغ اور تربیت کے کام کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجا جائے۔

پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ پر ہے۔ اور پھر یہیں پر بس نہیں۔ جس جس طرح جماعت کی تعداد میں ترقی ہو رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں میں جماعت میں شامل ہو رہے ہیں، اُن کی تربیت کی ذمہ داری بھی آپ کی ہے۔ قرونِ اولیٰ میں یا ابتدائی زمانے میں اسلام کے پہلی چند صدیوں کے بعد یا شروع صدی میں بلکہ جب بہت بڑی تعداد اسلام لے کر آئی تو اُن کی بہت سی اپنی روایات اور اپنے نظریات، اپنے مذہب کی باتیں بھی اسلام میں داخل ہو گئیں اور اُنہی سے بدعات پیدا ہوتی چلی گئیں۔پس یہ اس وجہ سے ہوا کہ اُس وقت تربیت کے لئے سامان مہیا نہیں تھے اور آج اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے زمانے میں یہ تربیت کے سامان پیدا فرمائے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ جامعات کھل رہے ہیں ۔اور اس سامان کے لئے آپ لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ تیار کر رہا ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ مدّنظر رکھیں کہ جامعہ احمدیہ کی عمارت بڑی ہونا یا جگہ بڑی ہونا ،آپ کو اچھا ماحول میسر آ جانا یہ آپ کے لئے کافی نہیں ہے۔ آپ کے لئے تب تسلی کے سامان ہوں گے، آپ کو تب دلوں کی تسلی ہونی چاہئے جب اپنے آپ کو اس نہج پر تیار کریں کہ دنیا کی تربیت اور تبلیغ کے لئے آپ نے اپنی ہر قربانی دینی ہے۔ اس احسن رنگ میں تربیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر آپ لوگ یہاں آئے ہیں۔

                اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں فرمایا ہے کہ تفقّہ فی الدین حاصل کرو اور یہ تفقّہ فی الدین کے لئے ہی آپ نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے جیسا کہ فرمایا  لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ(التوبہ:122)وہ دین کا علم حاصل کریں۔ اور آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اس دین کا علم حاصل کرنے کے لئے پیش کیا۔ کیوں؟ تا کہ اپنی قوم کو خبردار کریں۔ تا کہ دنیا کو خبردار کریں۔ جب یہاں سے دین کا علم حاصل کر کے آپ فارغ ہو کے اپنے ملکوں میں لوٹیں گے یا جہاں کہیںبھی آپ کی تعیناتی کی جائے گی تو اس لئے کہ  شاید اس طرح دنیا ہلاکت سے بچ جائے۔ آپ کا یہ دین کا علم حاصل کرنا،آپ کا اس ادارہ میں پڑھنا اور ہر مربی اور مبلغ جو ہمارا ہے، اُس کا یہ دین کا علم حاصل کرنا اس لئے ہوتا ہے کہ دنیا کو ہلاکت و تباہی سے بچائے۔ پس یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور خود آپ نے اس کو حاصل کرنے کے لئے، ذمہ داری کو اُٹھانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔پس اس کا احساس ہر وقت اپنے دل میں قائم رکھیں۔ جب آپ نے اپنے آپ کو خوشی سے اس کام کے لئے پیش کیا ہے تو پھر آپ کا یہ فرض بنتا ہے اور دنیا کا یہ حق ہے جو وہ آپ سے مانگ رہی ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپنی اس تعلیم کو حاصل کریں اور یہ علم حاصل کریں، دنیا تک پہنچائیں اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے ہمیشہ تیار رہیں۔ میدانِ عمل میں جب جائیں تو محنت کے وہ اعلیٰ معیار قائم کریں کہ دنیا کے لئے ایک نمونہ ہو۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے تفقّہ فی الدین کا حکم دیا ہے تو اس کے لئے بھی اُسی وقت تفقّہ فی الدین ہو گا جب آپ احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنی تعلیم پر بھی مکمل توجہ دے رہے ہوں گے۔ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ اس طرح آرگنائز کریں گے کہ دین کا علم زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں تا کہ جتنی جلد ہو، جتنا بہترین اور زیادہ علم آپ حاصل کر سکیں، وہ حاصل ہو جائے۔ صرف ایک مضمون یا دو مضمون پڑھنے کی بات نہیں ہوگی۔

 ہمارے علماء سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بہت ساری باتوں پر توجہ دینے والے ہوں۔ دین کا علم بھی گہرائی میں جا کر ہو۔ اسی طرح لائبریری میں آپ کے اخبار اور رسالے آتے ہیں۔ دنیا کے جو کرنٹ افیئرز (Current Affairs)ہیں ان کا علم بھی آپ کو ہو۔ اور اس پر توجہ بھی ہو۔ ہر علم جو آپ حاصل کریں، ہر مضمون جو آپ پڑھیں، اُس کی گہرائی میں جانے کی کوشش کریں۔ ابھی سے یہ عادت پیدا ہو گی  اور پھر جب آپ آئندہ عملی زندگی میں قدم رکھیں گے تو اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک دو مضامین کا علم حاصل کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ حتی الوسع زیادہ سے زیادہ علوم کو سیکھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ گو کہ اس زمانے میں تخصّص کی طرف بہت توجہ دی جاتی ہے۔ سپیشلائزیشن کی طرف بہت توجہ دی جاتی ہے اور ہمارے طلباء بھی اس میں توجہ دیتے ہیں بلکہ خاص منصوبے کے تحت بعض مضامین میں اُنہیں تخصص کروایا جاتا ہے۔ لیکن اپنے مضمون میں یہ جو تخصّص ہے اس کے ساتھ ساتھ آپ کو دوسرے مضامین کا بھی کچھ نہ کچھ علم ہونا چاہئے۔ اور اسی طرح جو دنیا کی صورتحال ہے، دنیا کے حالات ہیں اُن کا بھی علم حاصل ہونا چاہئے تا کہ صحیح رنگ میں دنیا کی رہنمائی کر سکیں۔  اسی طرح علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی ظاہری حالت بھی ایک بہترین مومن کی حالت ہونی چاہئے۔ آپ کا ظاہری رکھ رکھاؤ بھی اچھا ہو۔ دوسروں سے فرق ہو۔ آپ کا لباس بھی انتہائی مناسب، مہذب ہو۔  سوبر(Sober) نظر آئیں۔ گو آپ کی لڑکپن کی عمر ہے لیکن اس لڑکپن کی عمر میں آپ کے لڑکپن میں اور ایک دنیا دار لڑکے میں یا آپ کی عمر کے لڑکے میں ایک فرق ہونا چاہئے کیونکہ آپ نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی خاطر خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے پیش کیا ہے۔ اُن اخلاق کو دنیا کو سکھلانے کے لئے(پیش کیا ہے) جن کو دنیا بھول بیٹھی ہے۔ پس ظاہری رکھ رکھاؤ میں بھی فرق ہو۔آپ کے لباس میں بھی فرق ہو۔ آپ کا اُٹھنا بیٹھنا بھی دوسروں سے فرق ہو۔ آپ کی بات چیت کا انداز بھی دوسروں سے مختلف ہو۔ بیہودہ اور غلط قسم کی زبان کبھی استعمال نہ ہو۔ آپ کی زبان میں ہمیشہ پاکیزگی ہو۔ انتہائی اعلیٰ اخلاق کا آپ سے مظاہرہ ہو رہا ہو۔ جب آپ ہوسٹل میں رہتے ہیں، آپس میں دوستوں میں اُٹھتے بیٹھتے ہیں تو یہیں آپ کو یہ عادت پڑے گی کہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوئے آپ کے انداز بدل جائیں۔  بات چیت کے جو انداز لے کرآپ یہاں آئے تھے اگر وہ اچھے تھے تو اُن میں مزید ترقی پیدا ہو۔ اگر اُن میں کوئی کمی تھی تو اُن میں بہتری پیدا ہو۔ پس یہ جامعہ احمدیہ کے ایک طالبعلم کی ذمہ داری ہے۔ آپ کے کھانے پینے کے آداب اور اخلاق دوسروں سے مختلف ہوں۔ کیونکہ صرف کھانا پینا اور سونا تو  ایک انسان کی حالت نہیں ہے۔ یہ حالت تو جانوروں کی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔

               ہر معاملے میں آپ کا رویّہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کی تصویر کھینچ رہا ہو۔

اب  جہاں آپ کا جامعہ احمدیہ ہے یہاں سے چند میل کے فاصلے پر چھوٹا سا جوشہر ہے، یہاں شہر میں بھی آپ کا نمونہ ہونا چاہئے۔ ان لوگوں کو تو آپ کا پتہ نہیںہے کیونکہ یہاں شاید ہی کوئی ایشین آباد ہو اور آپ میں سے اکثر جو طلباء  ہیںوہ ایشین اوریجن(Asian Origin) کے لوگ ہیں۔ پاکستان، ہندوستان، سری لنکا یا اس طرح ملکوں سے آئے ہوئے ہیں۔ تو آپ جب شہر میں جائیں، آپ کے اعلیٰ اخلاق دیکھ کر لوگوں کی توجہ آپ کی طرف پیدا ہو۔

مجھے کسی نے بتایا کہ کچھ دن ہوئے جامعہ احمدیہ کے لڑکے شہر میں گئے تو ایک چھوٹا بچہ، بڑا حیران ہو کر اُن کو دیکھنے لگااور ساتھ ساتھ گن بھی رہا تھا اور جب آخری لڑکا وہاں سے گزرا تو اُس نے کہا یہ فورٹی ون(Forty One) ہیں۔ یعنی اُس دن اکتالیس لڑکے گئے اور اُس نے گن لئے۔  اُس کویہ توجہ پیدا ہوئی اور یہ توجہ دوسروں کو بھی پیدا ہو گی۔ وہ دیکھیں گے کہ یہ اکتالیس لڑکے یا پچاس لڑکے یا ساٹھ لڑکے یا سو لڑکے یا چاہے تھوڑے لڑکے بھی ہوں دس پندرہ جو آئے ہیں تو یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ لیکن جب آپ کے اعلیٰ اخلاق دیکھیں گے، آپ کا بازاروں میں چلنا دیکھیں گے، آپ کا اُٹھنا بیٹھنا دیکھیںگے، آپ کے بازار میں چلنے کے اور لوگوں کے حق دینے کے اچھے اسلوب دیکھیں گے تو اُن پر اثر ہو گا۔ انبیاء پر بھی یہی الزام لگاتے ہیں ناں کہ یہ کیسا نبی ہے، یہ تو بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔لیکن وہی نبی جب بازاروں میں چلتا ہے تو ہر جگہ سلامتی پھیلاتا چلا جاتا ہے اور اُسی نبی کے اُسوہ پر عمل کرنے والے آپ لوگ ہیں جو بازاروں میں سلامتی پھیلاتے چلے جانے والے ہوں۔ پس اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں۔

اس ضمن میں یہ بھی مَیں کہہ دوں کہ بازار میں جانا، یہ کوئی بری بات نہیں۔ جانا چاہئے بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ روزانہ ایک کلاس کو انتظامیہ کو اجازت دینی چاہئے کہ وہ یہاں شہر میں جائے اور آدھے پونے گھنٹے کے لئے پھریںاور ویک اینڈ (Weekend) پرجو ہوسٹل میں لڑکے رہتے ہیں، اُن کو بھیجنا چاہئے۔ یہ چیز تبلیغ کا ذریعہ بنے گی۔ یہ چیز آپ کو متعارف کروائے گی۔ صرف پابندیاں لگا کر یہاں بٹھا دینے سے اعلیٰ اخلاق کا اظہار نہیں ہو گا۔ اعلیٰ اخلاق کا اظہار تب ہو گا جب آپ کیلئے میدان کھلا ہو۔ پھر آپ اپنے جذبات کو، احساسات کو، اخلاق کو، اعلیٰ نہج پر چلاتے ہوئے ایک نمونہ بن کر دکھائیں۔ پس یہ ہمیشہ یاد رکھیں۔ یہ باتیں جو ہیں یہ اُسی طرح اہم ہیں جس طرح آپ کا علم حاصل کرنا اہم ہے۔ علم کے ساتھ ساتھ اگر یہ چیزیں نہیں ہوں گی تو جیسا کہ پہلے بھی مَیں بیان کر چکا ہوں  کہ آپ کا حال غیر از جماعت علماء کی طرح ہو گا، علم تو ہے لیکن عمل نہیں۔ ایک پھل تو ہے لیکن اُس کا خالی شیل(Shell) ہے۔ کھوکھا ہے اُس کے اندر مغز نہیں ہے۔ پس آپ نے ایسے لوگ بننا ہے جن کا عمل بھی ہو اور علم بھی ہو۔

 پس ایک اچھے مبلغ بننے کے لئے، ایک اچھے مربی بننے کے لئے آپ کو اپنے اندریہ تبدیلی پیدا کرنی ہو گی۔ پھر یہی طریق ہے جس سے، مَیں نے کہا ،آپ دنیا کی اصلاح کر سکتے ہیں، ماحول کی اصلاح کر سکتے ہیں، اپنے فرائض کو احسن رنگ میں سرانجام دے سکتے ہیں یا اُس ذمہ داری کا حق ادا کر سکتے ہیں جس کے ادا کرنے کے لئے آپ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ اسی طرح علم اور عمل سے آپ دنیا کو شیطان سے پاک کر سکتے ہیں، برائیوں سے پاک کر سکتے ہیں یا کم از کم ایک حد تک کوشش کرکے دنیا کے ایک حصے کو برائیوں سے پاک کر سکتے ہیں۔ اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو جامعہ کے طلباء پر عائد ہوتی ہے۔ ہر مربی اور مبلغ پر عائد ہوتی ہے۔ اگر آپ نے یہ اصلاح نہ کی، اگر اس طرح اپنے علم اور عمل کو نہ ڈھالا تو دنیا آپ پر انگلیاں اُٹھائے گی، اشارے کرے گی کہ دعوے اَور ہیں، دعوے تو بہر حال دنیا کو پتہ لگ جاتے ہیں۔ آپ جب باہر جائیں گے تو یہاں کے لوگ تحقیق کریں گے ۔اس ماحول میں ہی تحقیق کریں گے۔ یہ آپ کے چھوٹے سے نمونے کی صرف ایک مثال ہے  ، یوں سمجھیں آپ کے لئے ایک لیبارٹری ہے جہاں آپ کے اکسپیریمنٹ(Experiment) ہو رہے ہیں ۔یہ شہر بھی اُس لیبارٹری کا حصہ ہے۔ یہیں سے آپ کو کہیں گے اچھا یہ لوگ ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ ان کا کیا دعویٰ ہے؟ یہ اسلام کی کیا تعلیم پیش کرتے ہیں؟ اور پھر جب دیکھیں گے کہ عمل اور دعوے میں فرق ہے تو پھر انگلی اُٹھے گی اور آپ نے کوشش کرنی ہے کہ کوئی انگلی آپ پر اعتراض کرتے ہوئے نہ اُٹھے۔ کیونکہ آپ پر ا گر انگلی اُٹھے گی تو یہ انگلی زمانے کے امام پر اُٹھے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر انگلی اُٹھے گی۔ کیونکہ آپ نے اُس تعلیم کو آگے بڑھانے کا دعویٰ کیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے تھے۔

 پس ہمیشہ خیال رکھیں کہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے ہاتھ کو حضرت طلحہؓ  کا ہاتھ سمجھیں جو نہ صرف آپ نے اس زمانے کے امام کی حفاظت کے لئے اُٹھایا ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے بھی آپ کا ہاتھ اُٹھنا چاہئے۔ اسلام پر آج اعتراض ہو رہے ہیں، اُن اعتراضوں کے جواب بھی آپ کے علم و عمل سے ہی ہوں گے۔ اور عمل اس میں بہت زیادہ کاؤنٹ(Count) کرتا ہے۔ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں۔ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ اب آپ کی عزت یا آپ کا وقار یا آپ کا رہن سہن آپ کا نہیں رہا بلکہ یہ اب زمانے کے امام کی عزت کا سوال ہے، یہ اسلام کی عزت کا سوال ہے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے جو اعتراضات ہیں اُن کے جواب دینے کا سوال ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو قائم رکھنے کا سوال ہے۔پس اس ذمہ داری کے احساس کے ساتھ آپ کو اپنی زندگیاں گزارنی چاہئیں ورنہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا کو تو جیسا کہ مَیں نے کہا، پتہ لگ جائے گا کہ آپ کا دعویٰ کیا ہے۔ دنیا پھر یہی کہے گی کہ پہلے اپنی اصلاح کرو ۔پھر دنیا کی اصلاح کی طرف توجہ دینا۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں جو سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ( آل عمران:111)کہ تم بہترین امت ہو جو ان تمام انسانوں کے فائدے کے لئے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

               پس خیر اُمّت ہونے کایہ نمونہ آپ نے دکھانا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر مسلمان کے لئے خیر اُمّت ہونے کا یہ حکم ہے۔ ہر مسلمان جو کلمہ طیبہ پڑھتا ہے، اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے اس کو خیر اُمّت کا نمونہ بننا چاہئے۔ لیکن اُن خاص آدمیوں کے لئے، اُن لوگوں کے لئے جو دین کے لئے وقف ہوئے ہیں ،جو دین کا علم سیکھ رہے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم دینی لحاظ سے دوسروں سے بہت آگے ہیں، اُن کے لئے سب سے بڑھ کر اس نمونے کو قائم کرنے کی ضرورت ہے جس سے خیر اُمّت ہونے کا اظہار ہو رہا ہو۔ خیر اُمّت ہونے کے نمونے دکھائیں گے تو پھرخیر اُمّت ہونے کے پھل بھی کھائیں گے ۔ وہ نعمتیں بھی ملیں گی جو اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں سے وابستہ کی ہیں جو اُن انعاموں کے مستحق ہوتے ہیں جو خیر امت کے لئے رکھے گئے ہیں۔ بہترین مسلمان کے لئے رکھے گئے ہیں۔ بہترین مومن کے لئے رکھے گئے ہیں۔

               پس آج آپ اپنے آپ کو دنیا کے سامنے نمونہ بنانے کے لئے اس ادارے میں آئے ہیں۔ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ بہت بڑا مقصد ہے جس کو لے کر آپ اس ادارے میں آئے ہیں۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آپ نے بھرپور کوشش کرنی ہے اور وہ طلباء جو اس سال فارغ التحصیل ہوئے ہیں، یہاں سے فارغ ہوئے ہیں، گریجویشن کی ہے اُن کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اب انہوں نے دنیا میں اس مقصد کے ساتھ اپنے نمونے قائم کرنے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے نمونے قائم کرنے ہیں اور دنیا کو بتانا ہے کہ ہم کیا چیز ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اگر یہ نہیں کرتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام پر حَرف آتا ہے۔ آپ نے تو ایک عام احمدی کو فرمایا ہے، مفہوم یہی ہے کہ یہ حرکتیں کر کے ہمیں بدنام نہ کرو۔ ہماری طرف منسوب ہو کے ہمیں بدنام نہ کرو۔ تو ایک وہ شخص جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں تو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہونے کے لئے اس ادارے میں داخل ہوا ہوں اور یہاں سے فارغ ہو کر نکلنے کے بعد مَیں نے دنیا کی اصلاح کا بیڑا اُٹھانا ہے اُس پر کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس بدنامی کا موجب نہ بنے۔ آپ نے دنیا کو یہ دکھانا ہے، اس کی مثال آپ دے سکتے ہیں کہ آپ جماعت احمدیہ کی کریم (Cream)ہیں۔ وہ لوگ ہیں جن کو دین کا علم بھی ہے اور جن کے اعلیٰ اخلاق بھی ہیں اور جنہوں نے ہر قسم کی قربانی کرتے ہوئے دنیا میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کرنی ہے۔ آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عہد کیا ہے کہ اب ہماری زندگیاں ہماری نہیں رہیں بلکہ ہم مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان ہونے کے لئے، جماعت کی خاطر قربان ہونے کے لئے، خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے، اپنے آپ کو پیش کرنے والے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کو دے دی ہیں۔ ہم نے اپنی جانوں کو بیچ دیا ہے اور اب ہمیں اپنی جانوں پر کوئی تصرف نہیں ہے۔

               پس ہمیشہ اگر اس بات کی جگالی کرتے رہیں گے تو پھرہی آپ کی خواہشات آپ کی نہیں رہیں گی بلکہ آپ کی ہر سوچ آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانے والی ہو گی۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ آپ یاد رکھیں کہ آپ نے اگر اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے وقف کی ہیں توآپ نے اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی ہے۔ جتنی جتنی جس میں استعدادیں ہیں اُس حد تک اُس کے حصول کی کوشش کرنی ہے اور پھر جب یہ کوشش ہو گی تو اللہ تعالیٰ پھر استعدادیں بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ پس ایک مومن کا  ہر قدم آگے ہی بڑھتاگیا ہے لیکن وہ مومن جو جیسا کہ مَیں نے کہا کریم (Cream)ہیں، اُن کے قدم تو بہت تیزی سے آگے بڑھنے چاہئیں۔ آپ نے جیسا کہ مَیں نے کہا اپنے نفس کو بیچ دیا ہے۔ اب کوئی نفسانی خواہشات آپ کی نہیںہونی چاہئیں۔ یہ سبق اس ادارے میں سیکھیں گے تو پھر ہی آپ میدانِ عمل میں کامیاب ہوں گے اور اسی کی عادت آپ چھ سات سال میں ڈالیں گے تبھی آپ کا وہ علم جو آپ نے حاصل کیا ہے وہ آپ کے لئے فائدہ مند ہو گا اور وہی جماعت کے لئے فائدہ مند ہو گا اور پھرا گر اس پر لاکھوں پاؤنڈ بھی خرچ ہوتے ہیں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی کیونکہ ایک بہترین نمونہ بن کر، آپ جماعت کا ایک بہت بڑا ایسٹ(Asset) بن کر باہر نکل رہے ہوں گے۔

               یہاں اساتذہ سے بھی مَیں کہوں گا کہ یہ اب عمل کا اور علم کا، بہترین واقفینِ زندگی بننے کا سبق دے رہے ہیں تو اپنے عملوں کو بھی اُس کے مطابق ڈھالیں تبھی آپ کے طلباء بھی بہترین واقفِ زندگی بن کے نکلیں گے۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر اور اُس کی صفات پر یقینِ کامل پیدا کریں۔ اس کے لئے قرآنِ کریم سے سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ حدیث سے بھی حصہ لیں گے، سنّت پر بھی غور کریں گے اور اس زمانے میں ان سب کی صحیح تشریح اور وضاحت اور تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ بھی ہمیشہ رکھیں۔ کوئی دن ایسا نہ ہو جو آپ نے کسی نہ کسی کتاب کے کسی نہ کسی حصہ کا مطالعہ نہ کیا ہو۔ رات کو تب آپ نے سونا ہے جب آپ کم از کم کچھ نہ کچھ حصہ کسی کتاب کا مطالعہ کر چکے ہوں۔

                ہمیشہ یاد رکھیں کہ بیشک آپ کی دنیاوی خواہشات ختم ہو چکی ہیں، بیشک اپنے نفس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر توجہ دینی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی صفات پر کامل یقین ہے تو پھر خدا تعالیٰ کبھی آپ کو ضائع نہیں کرے گا اور نہ کبھی اُس نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر ہمیشہ ایسے لوگوں کو اپنے فضل سے اس طرح نوازتا ہے کہ اُن کی ہر قسم کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہتی ہیں، اُن کی خواہشات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اُن کی غلط قسم کی نفسانی خواہشات خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ اُن کی دنیاوی ضروریات اگر ہیں اور جائز ضروریات ہیں تووہ بھی خدا تعالیٰ خود پوری کر دیتا ہے۔

               پس ہمیشہ اس بات کو مدّنظر رکھیں اور ان صفات پر یقین پیدا کرتے ہوئے اپنی عبادات میں بھی اس کو سامنے رکھیں۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور کسی بھی قسم کا آپ کا جھکنا انسانوں کے آگے نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کا مطمح نظر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق  وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَاتِ( سورۃ البقرہ آیت نمبر149:)آپ کا مطمح نظر ہونا چاہئے اور ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہوتا ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔  ہمیشہ یہ چیز آپ کے سامنے ہونی چاہئے۔ اس کے حصول کے لئے کوشش کریں۔ جیسا کہ میں نے کہا آپ تمام دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ خیر امت بنائے گئے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ پس اس کے حصول کی کوشش کریں۔ آپ کا مقابلہ تمام دنیا کے ساتھ ہے۔ اس لئے بلند مطمح نظر ہو گا، نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقینِ کامل ہو گا، اللہ تعالیٰ کی صفات پر یقین کامل ہو گاتو تبھی دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔ ایک انسان، ایک عاجز انسان کیا چیز ہے اور ہماری جماعت تو دنیا میں ابھی بھی سب سے چھوٹی جماعت ہے۔ ہمارے وسائل بھی بہت محدود ہیں لیکن ہمارے مقصد عظیم ہیں اور یہ مقابلہ انشاء اللہ تعالیٰ ہم نے کرنا ہے اور دنیا کو فتح کرنا ہے۔ اس لئے اپنا مطمح نظر ہمیشہ بلند رکھیں اور مطمح نظر یہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نیکیوں میں سبقت لے جاؤ، آگے بڑھتے چلے جاؤ۔

               اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو وہ کچھ بنائے جو جامعہ احمدیہ یا مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش تھی اور جس کے لئے آپ نے دعا کی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بیشمار فضلوں سے نوازے۔ آپ اپنے بلند مقام اور ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں۔ آپ عاجزی کی انتہاؤں کو چھونے والے ہوں کہ یہ بھی ایک بہت ضروری چیز ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا جو ایک بہت عظیم سرٹیفکیٹ صرف اس بات پردیا تھا کہ آپ نے عاجزی دکھائی تھی اور فرمایا تھا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں‘‘۔

(تذکرہ صفحہ نمبر595ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

                پس ان عاجزانہ راہوں کو چننے کی کوشش کریں۔ آپ علم و معرفت کی بلندیوں کو حاصل کرنے والے ہوں تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مصداق بنیں۔ آپ خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر ہوں۔ آپ خلافت کی حفاظت کے لئے ننگی تلوار ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر ایک کو وہ گوہر عطا کرے جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی نظر میں قابل قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور یہ ادارہ بھی جس میں اللہ تعالیٰ نے آج ہمیں اپنے فضل سے رقبے کے لحاظ سے بھی اور عمارت کے لحاظ سے بھی وسعت عطا فرمائی ہے، اس کے طلباء بھی اپنے علم و عمل میں اضافہ کرتے چلے جانے والے بنیں اوریہ ایک کامیاب ادارہ کہلانے والا ہو۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں