خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ ہفتہ 8؍ ستمبر2012ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا۔ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ -اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ۔ اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ
(البقرۃ:258-257)
ان آیات کا ترجمہ پہلے بھی آپ نے تلاوت میں سنا۔ اب دوبارہ پیش کرتا ہوں کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔ پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقینا اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں۔ اور اللہ بہت سننے والااوردائمی علم رکھنے والا ہے۔ اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے۔ وہ ان کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست شیطان ہیں۔ وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کیں، ان کا ترجمہ بھی آپ نے سنا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس اجلاس کے آغاز میں بھی یہ دو آیات تلاوت کی گئی تھیں۔ اس کے ترجمہ سے آپ پر واضح ہو گیا ہو گا کہ ان آیات میں اسلام کی خوبصورت تعلیم، ایمان کی مضبوطی اور اس پر مضبوطی سے قائم ہونے کے طریقۂ کار، اللہ تعالیٰ کے مومنوں پر فضل اور انعامات، اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے، اللہ تعالیٰ کی باتوں کا انکار کرنے والوںپر شیطانی تسلط اور اُن کے انجام کا ذکر ہے۔ یہ چند موٹی باتیں ہیں جو مَیں نے خلاصۃً بیان کیں۔ لیکن ان آیات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ان کی تفصیل میں جانا بھی ہر ایک کے لئے کچھ حد تک ضروری ہے۔ بعض لوگ اسلام پر سوال اور اعتراضات کرتے ہیں۔ غیرمسلموں کی طرف سے سوال اُٹھتے رہتے ہیں۔ ایک تو اُن کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے۔ دوسرے اُن کے مقابلے کے لئے یہ بنیادی جواب نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں بلکہ ہر احمدی کو پتہ ہونا چاہئے اور ہم دیتے بھی ہیں۔ آج کل تو لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے حوالے سے کافی نوجوان بھی بحث میں شامل ہوتے ہیں اور غیروں کو جواب دیتے ہیں۔ لیکن بعض احمدی خاص طور پر نوجوان بچیاں بچے آیت کے اس حصّے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ، کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے، کا لا علمی کی وجہ سے یہ مطلب بھی لے لیتے ہیں کہ ایک مسلمان کے بارے میں بھی یہ حکم ہے۔ جو کہ غلط مطلب ہے اور وہ غیروں کے سوال جواب کے دوران بھی یہ باتیں کر جاتے ہیں اور پھر مشکل میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اور اس وجہ سے جن نوجوانوں کا، جن لوگوں کا آزادی کی طرف زیادہ رجحان ہے وہ یہ سوال بھی اُٹھا دیتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے تو پھر ہمیں نظامِ جماعت پابندیوں میں کیوں جکڑتا ہے؟ مثلاً احمدیوں کے غیروں سے رشتہ کے معاملات ہیں، پردے کا معاملہ ہے یا دوسرے بعض احکامات ہیں۔ پس مختلف صورتوں میں اس کے بارے میں سوال ذہنوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس لئے اس کو جاننے کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا کچھ تفصیل میں جانے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ان آیات کے بعض الفاظ کے معنی جاننے کی بھی ضرورت ہے، اُن کی مدد سے ان آیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ پس اس لحاظ سے میں آج سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
پہلی بات تو یہاں یہ واضح ہو کہ جیسا کہ مَیں نے بار بار ترجمہ سنایا ہے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ کوئی بھی دین اختیار کرنا یا نہ کرنا، کسی مذہب کو ماننا یا نہ ماننا ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اسلام کسی پر زبردستی نہیں کرتا۔ کوئی عیسائی ہونا چاہتا ہے، یہودی ہونا چاہتا ہے، ہندو ہونا چاہتا ہے یا بدھسٹ ہونا چاہتا ہے یا لامذہب رہنا چاہتا ہے، خدا پر یقین نہیں کرتا تو کسی پر بھی زبردستی نہیں کی جا سکتی کہ ضرور تم نے مذہب کو قبول کرنا ہے اور اسلام کو قبول کرنا ہے۔ ہر انسان کا مذہب اُس کا ذاتی فعل ہے۔ مسلمانوں کو صرف یہ حکم ہے کہ تم اس مذہب کی، جو آخری شرعی مذہب ہے، تبلیغ کرو۔ اُس کی خوبیوں کو بیان کرو۔ یہ کامل اور مکمل مذہب ہے۔ ہر مذہب والے کو براہین و دلائل سے ثابت کرو کہ اسلام ہی آخری مذہب ہے۔ کامل اور مکمل مذہب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری شرعی نبی ہیں۔ قرآنِ کریم سے بڑھ کر نہ کوئی پہلے کامل شریعت اتری، نہ اتر سکتی ہے اور یہی آخری شریعت ہے جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے جو تا قیامت قائم رہنے والی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہ ہی کوئی کامل انسان پہلے پیدا ہوا، نہ کوئی نبی کامل نبی تھا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔ پس یہ پیغام تو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ایک مسلمان کا، ہر احمدی کا، ہر مرد کا، عورت کا فرض ہے لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہیِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۔ یقینا ہدایت اور گمراہی کا فرق کھل کر ظاہر ہو گیا۔ رُشد کا مطلب ہے صحیح راستہ، صحیح عمل، صحیح رہنمائی، اعلیٰ اخلاق، ذہنی نشوونما اور معیار کی بلوغت اور انتہا۔ اور اَلْغَیُّ کا مطلب ہے گمراہی، تباہی، ناکامی۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہاں مزید وضاحت کر دی، کھول دیا کہ ہر نیک فطرت انسان جس چیز کو چاہتا ہے، وہ صحیح راستہ ہے جو نیکیاں کرنے کی توفیق دے، نیک عمل بجا لانے کی توفیق دے جو خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہیں۔ اعلیٰ اخلاق اپنانے اور اُن کا ادراک اُس کو حاصل ہو، اُن کا اظہار کرنے والا ہو تا کہ معاشرے میں بھی اُس کو بہتر سمجھا جائے تا کہ پھر جو خدا کو ماننے والے ہیں، وہ خدا کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کے بندوں میں بھی اچھا تأثر پیدا کر سکیں۔ اپنے تعلقات مضبوط کریں۔ اعلیٰ اخلاق دکھا کر اپنے بارے میں، اپنے ماحول میں، اپنے معاشرے میں نیک اثر قائم کریں۔ ذہنی استعدادوں کو عروج پر لے کر جائیں اور اُن کا ایسا استعمال کریں جو جہاں انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہو، اپنے لئے فائدہ مند ہو وہاں خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے بھی فائدہ مند ہو۔ گمراہی، ناکامی اور تباہی سے بچے۔ پس یہ سب چیزیں اسلام اور قرآن کی تعلیم میں ہی میسر ہیں۔
جب ایک مسلمان دنیا کو یہ بتائے کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے اور یہ اس تعلیم کے فوائد ہیں تو دنیا کی توجہ خود بخود اس دین اور مذہب کی طرف پیدا ہو گی۔ پس جب یہ تعلیم واضح ہو جائے، اس تعلیم کے فوائد سامنے آ جائیں، اُس کی خوبیاں روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائیں اور چمک رہی ہوں تو پھر ضرورت کیا رہ جاتی ہے کہ اس کے پھیلانے کے لئے جبر کیا جائے، زبردستی کی جائے جو کہ بعض غیر مسلم مسلمانوں پر الزام بھی لگاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے کھلا راستہ چھوڑا ہے۔ دونوں راستوں کی نشاندہی کر دی ہے کہ یہ ہدایت کا راستہ ہے، یہ گمراہی کا راستہ ہے اور جو راستہ تم چاہو اختیار کرو۔ ہدایت کا راستہ اختیار کروگے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو گے۔ گمراہی کا راستہ اختیار کرو گے تو سزا کے مورد ٹھہرو گے۔ پھر اس کے ساتھ ہی ہدایت کا راستہ اور گمراہی کا راستہ بتا کر مسلمانوں کے ذمہ بھی یہ کام لگا دیا کہ تمہارا کام ان راستوں کی نشاندہی کرنا ہے، دنیا کو بتانا ہے کہ یہ یہ راستے ہیں۔ لیکن کبھی اگر تمہارے ہاتھ میں طاقت بھی آ جائے تو تب بھی تم نے جبر نہیں کرنا۔ جبر کی کسی صورت میں تمہیں اجازت نہیں دی جاتی۔
پس یہاں مسلمانوں پر بھی ایک ذمہ داری لگا دی گئی ہے کہ جب تم ہدایت اور گمراہی کی قرآنی تعلیم کی روشنی میں نشاندہی کر رہے ہو تو خود بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑو گے، اپنے اخلاق کے معیار اونچے کرو گے، اپنی ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو دین کی بہتری اور اُس کے پھیلانے کے لئے خرچ کرو گے، تبھی تبلیغ کے کام کو صحیح رنگ میں انجام دے سکتے ہو۔ پس جب ایک مسلمان کے، ایک احمدی کے قول و عمل دیکھ کر نیکیوں کو اپنانے کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جب کوئی یہ پیغام قبول کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ جزا پانے والا ہو گا۔ اور جو کوئی شیطانی طاقتوں اور لالچوں کی وجہ سے انکار کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سزا پانے والا ٹھہرے گا۔ پھر فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے شیطانی طاقتوں اور لالچوں کا انکار کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کومضبوط کرے تو گویا اُس نے ایک ایسے کڑے یا ایسی مضبوط چیز پر ہاتھ ڈالا ہے جو قابلِ اعتماد بھی ہے اور نہ ٹوٹنے والی بھی۔ پس جو نیک نیتی سے یہ کام کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث ہو گا۔
پس یہ تعلیم جو مسلمان کو دی گئی ہے، ایک مومن کو دی گئی ہے یہی تعلیم ہے جس پر عمل کر کے ایک احمدی حقیقی مومن کہلا سکتا ہے۔ جب دوسرے کو مضبوط کڑے کو پکڑنے کی تلقین کی جا رہی ہے، جب دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ اب حق صرف اور صرف اسلام کی تعلیم میں ہے تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ خود اپنے اوپر بھی اس تعلیم کے عملی اظہار کی ضرورت ہے۔ خود کس قدر ایک احمدی مسلمان عورت اور مرد پر ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط کرتے ہوئے اسلام کی اس کامل تعلیم، رہنما تعلیم، دنیا و عاقبت سنوارنے والی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اس مضبوط کڑے پر ہاتھ ڈالے اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھے۔
یہاں عُرْوَۃ کے مختلف معنی بھی بتانا چاہوں گا۔ عُرْوَۃ کے معنی ہیں دستہ یا ہینڈل (Handle)۔ اس چیز کے بھی ہوتے ہیں جس سے کسی چیز کوپکڑا جاتا ہے۔ عُرْوَۃ اُس چیز کو بھی کہتے ہیں جس پر اعتبار کیا جائے۔ عُرْوَۃ اُس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کی طرف مشکل وقت میں جایا جائے، مدد کے لئے رجوع کیا جائے۔ عُرْوَۃ ہمیشہ رہنے والی اور کبھی ضائع نہ ہونے والی چیز کو بھی کہتے ہیں۔ عُرْوَۃ بہترین مال بھی ہوتا ہے۔ پس عُرْوَۃ کو دستوں کے معنوں میں لیں گے تو مطلب ہو گا کہ دین کی تعلیم کے برتن کو مضبوطی سے پکڑ لیا تا کہ دین کے مائدہ سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ اس میں وہ روحانی غذا ہے، دینی تعلیم ہے جس سے آپ فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔ حسبِ ضرورت اپنی بھوک اور پیاس مٹا سکتی ہیں۔ عُرْوَۃ کو جب اعتبار اور سہارے کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو مطلب ہے کہ دین ہی ہے جس کے سہارے انسان اپنے نیک انجام تک پہنچ سکتا ہے۔ وہ رسّہ ہے جس کے سہارے اوپر چڑھ کر انسان ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح جماعت کی ترقی کا بھی حصہ بن سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:104)۔ تم سب کے سب اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ مت ڈالو۔
پس اب کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کامل دین اسلام ہی ہے اس لئے اس دین کی تعلیم کا سہارا تلاش کرو۔ اگر ادھر اُدھر کے سہارے تلاش کئے تو گر جاؤ گے، گڑھوں میں گر جاؤ گے۔ آپس کی اکائی بھی دینی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی قائم رہے گی۔ جماعت کی مضبوطی بھی دینی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی قائم رہے گی۔ تمہارا اپنا بھی حقیقی مسلمان اور مومن کہلانا اُس وقت تک قائم رہے گا جب تک یہ دین کا کڑا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ ہر مصیبت میں اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل ہی ایک انسان کے لئے چین و سکون کا باعث بن سکتا ہے۔ پس ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(الفاتحۃ:6) کی دعا ہمیشہ کرتا رہے۔ خدا تعالیٰ سے اُس کا فضل مانگتے ہوئے دین پر قائم رہنے کی کوشش کرے، اپنے ایمان کو مضبوط کرے، حقیقی مومن بنے۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک جگہ سورۃ نور میں کہ اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۔ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(النور: 52) یعنی مومنوں کا قول جب اُنہیں اللہ اور اُس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے، محض یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اور یہی ہیں جو مراد پانے والے ہیں۔ پس جب تک ہر احمدی مرد عورت کی طرف سے یہاں پوری طرح سننے اور اطاعت کرنے کا مظاہرہ نہیں ہو گا، اُس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتے۔
پھر فرمایا: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْن َ(النور:53) اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اُس کا تقویٰ اختیار کرے تو یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
پس پھر یہاں اللہ اور رسول کی اطاعت، دین کی تعلیم پر عمل، اللہ تعالیٰ کا خوف ہے جو کامیابیاں عطا کرتا ہے اس کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔
پھر فرمایا : وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ اَمَرْتَھُمْ لَیَخْرُجُنَّ ۔قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ ۔اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ (النور:54)اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو اُنہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ، دستور کے مطابق اطاعت کرو۔ یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اُس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
پس یہاں اب یہ آیات پڑھنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ اُن لوگوں کے لئے مزید کھول کر واضح کر دوں جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ پھر یہ پابندیاں کیوں ہیں؟ یہ قواعد و ضوابط کیوں بنائے ہوئے ہیں؟ یہ اس سختی سے ہم پر پابندیاں کیوں کروائی جاتی ہیں؟ بعض دفعہ تعزیر اور سزائیں کیوں دی جاتی ہیں؟ ان آیات میں سے جیسا کہ مَیں نے کہا سورۃ نور کی آیات ہیں جو مَیں نے پڑھی ہیں ان سے واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے۔ جماعت کے قواعد کی پابندی ضروری ہے جو شریعت کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ کوئی ایسا قاعدہ قانون نہیں ہے جس پر کوئی یہ انگلی اُٹھا سکے کہ یہ شریعت سے ہٹ کر ہے۔ اور خاص طور پر یہ جو آیات ہیں، یہ آیتِ استخلاف جو ہے اُس سے پہلے کی آیات تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خلافت سے وابستہ رہنا ہے، جماعت سے وابستہ رہنا ہے تو اس کے لئے پھر اطاعت بھی لازمی ہے اور ضروری ہے۔ یہ سوال نہیں کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کا اسلام میں حکم ہے اور ہم سے زبردستی بعض کام کروائے جاتے ہیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ جماعت سے منسوب رہنا ہے تو ان باتوںکی پابندی کرو۔ یہ پابندی ضروری ہے۔ اس لئے لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو ایمان لے آئے ہیں اُن کو کہا جائے کہ اب جو مرضی ہے تمہاری کرواور تم پر کسی قسم کی قدغن نہیں، کوئی پابندی نہیں، آزاد ہو۔ یہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن تو اُن کے لئے ہے جو ایمان لاتے ہیں اور دین چھوڑ دیتے ہیں۔ اُن پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی اور بھی بہت ساری آیات ہیں جو یہ واضح کرتی ہیں کہ دین میں شامل کرنے یا نکلنے سے روکنے میں کوئی زبردستی نہیں۔ لیکن کیونکہ ایسے لوگ حق کا انکار کرنے والے ہیں اس لئے حق کے منکر کی سزا جو خدا تعالیٰ نے دینی ہے وہی دے گا۔ کسی انسان کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ دین میں شامل ہونے یا نکلنے والے کو تم سزا دو۔ انسانوں کو حکم نہیں ہے کہ زبردستی کرواؤ۔ لیکن جو دینِ اسلام میں رہنا بھی چاہتا ہے اور نظامِ جماعت سے وابستہ بھی رہنا چاہتا ہے، یہ بھی کہتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر جماعت میں شامل ہو گیا ہوں، خلافت سے بھی وابستہ ہوں اور پھر یہ کہتا ہے یا کہتی ہے کہ اپنی مرضی ہے، ہم جو چاہیں کریں، اُن کے لئے اجازت نہیں ہے۔ اسلام میں رہنے والوں کے لئے تو ایک ہی راستہ ہے کہ اس کی تعلیم پر عمل کرو، ورنہ تم مومن نہیں کہلا سکتے۔
اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے: فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا۔ اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (ھود:113) کہ پس جیسے تجھ کو حکم دیا جاتا ہے اُس پر مضبوطی سے قائم ہو جا اور وہ بھی قائم ہو جائیں جنہوں نے تیرے ساتھ توبہ کی اور حد سے نہ بڑھو۔
اب تو ہر سال ہی بیعت ہوتی ہے اور دنیا میں ہر جگہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے سنی بھی جاتی ہے، بلکہ اس سال تو دو تین جلسوں پر ایم ٹی اے کے ذریعے سےLive بیعتیں ہوئی ہیں اور ہر ایک نے بیعت کی ہے۔ اور بیعت کرتے وقت ہم اُس میں یہ عہد بھی کرتے ہیں کہ ہم معروف فیصلہ پر عمل کریں گے اور توبہ بھی کرتے ہیں۔ پس ایک طرف تو یہ اعلان ہے جو بار بار ہر احمدی کرتا ہے۔ مرد ہو، عورت ہو، جوان ہو، بچہ ہو۔ پھر یہ اعتراض بھی ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے تو پھر زبردستی کیوں ہے؟ بعض پابندیاں کیوں کروائی جاتی ہیں؟ یہ توبہ کا جو معیار ایک مسلمان کے لئے رکھا گیا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے اسوہ پر چلنے کا مومن کو اور ہر مومنہ کو، ہر نوجوان کو، بوڑھے کو، مرد کو، عورت کو حکم دیا گیا ہے جو کلمہ پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بارے میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کَانَ خُلُقُہٗ اَلْقُرْاٰن کہ آپ کا عمل تو قرآن تھا، قرآن کا ہر حکم آپ کے لئے اس طرح تھا جس طرح ایک انسان کی زندگی کے لئے خوراک ضروری ہے۔ آپؐ کے اخلاق کامل تھے اور قرآن کے ہر حکم کی تعلیم کرنے والے تھے۔
پس اسلام لانے کے بعد، احمدیت اور حقیقی اسلام قبول کرنے کے بعد یہ بہانہ نہیں کہ دین میں جبر نہیں ہے اس لئے ہم اپنی مرضی سے جو چاہیں کریں۔ یہ بڑی غلط سوچ ہے۔ ایک عام دنیاوی تنظیم جو ہے، یا حکومتیں جو ہیں، اپنے قواعد اور قانون کی پابندی کرواتی ہیں اور اس پر سختی کرواتی ہیں اور اعلان کرتی ہیں کہ اگر پابندی نہیں کرو گے، اگر تنظیمیں ہیں یا کلب ہیں تو وہ اپنے ممبرشپ سے علیحدہ کر دیتی ہیں۔ ملک ہیں تو وہ قانون کے تحت سزا دیتے ہیں یا انسان جو ملک کے قانون کی پابندی نہیں کرتا وہاں سے نکل جاتا ہے ۔ اسلام جو مکمل ضابطہ حیات ہے، جو زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے، اُس کو کَور (cover) کیا ہوا ہے، اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اپنے قوانین کی پابندی کروائے۔ اور قوانین کیا ہیں؟ وہی احکامات جو قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر کے بیان فرمائے ہیں۔ یا وہ احکامات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول سے ہمیں بتائے، یا اپنی سنت سے بتائے۔ یہ تو اسلام کی خوبصورتی ہے کہ اگر کوئی کہے کہ میں ان پابندیوں میں رہنا نہیں چاہتا تو پھر اسلام کہتا ہے کہ تمہیں آزادی ہے، دینِ اسلام کی حدود سے باہر چلے جاؤ، یا اگر اسلام کے دائرہ میں رہنا ہے تو پھر بہرحال ڈسپلن کی پابندی کرنی پڑے گی جو قائم کیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ اعلان فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اعلان کروایا کہ یہ اعلان کر دیں کہ میری عبادتیں، میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت سب خدا تعالیٰ کے لئے ہے۔ یعنی میرا ہر عمل قرآن ہے۔ حضرت عائشہؓ کے قول کی قرآنِ کریم خود تصدیق کر رہا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کے اسوہ پر چلنے کا ہمیں حکم ہے، اُن کی تو زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گیا تھا۔ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم میں وہ تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہمیں بنائیں۔ یا ہمارا نفس ہمیں اس طرف لے جا رہا ہے کہ زمانے کے ساتھ چلو۔ اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں کہہ دیا ہے کہ تم پر کوئی سختی نہیں۔ بندے اور خدا کا معاملہ ہے اس لئے دوسروں کو دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض لوگ نمازوں کے لئے بھی کہو تو کہہ دیتے ہیں ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے تم کون ہوتے ہو؟ خدا کا معاملہ ہے، قرآنِ کریم میں اس کی پابندی کروائی گئی ہے اور اس نظام کو بھی پابند کیا گیا ہے۔ خلافت کے ساتھ منسلک رہنا ہے تو عبادتوں کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی۔ پھر شیطان دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ خلیفہ وقت اور نظامِ جماعت تم پر غلط اور ناجائز سختیاں کر رہا ہے۔ اگر ہم میں سے کسی کی سوچ یہ ہے کہ نظامِ جماعت یا خلیفہ وقت ہم پر ناجائز سختیاں کر رہا ہے تو وہ غلط ہے۔ اُس کو اپنی فکر کرنی چاہئے، اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد جو مَیں نے پہلے پڑھا تھا کہفَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا یہ حکم تو اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کے لئے ہے۔ یہ آپؐ کے لئے نہیں۔آپؐ تو پہلے دن سے ہی اللہ تعالیٰ کی رضا میں فنا ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سند جاری فرما دی تھی کہ آپ اعلان کر دیں کہ میرا اپنا تو اب کچھ بھی نہیں رہا۔ جو کچھ ہے خدا تعالیٰ کا ہے۔ اس لئے وَلَا تَطْغَوْا ، کہ حد سے نہ بڑھو۔ یہ اشارہ اور یہ ارشاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہیں تھا بلکہ ہمارے لئے تھا کہ تمہاری کچھ حدود ہیں اور وہ حدود ہیں جو قرآنِ کریم نے مقرر کر دی ہیں۔ تمہاری حدود وہ ہیں جن کا اسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرما دیا ہے۔ ان حدود سے آگے بڑھے تو تم خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والے ہو گے۔
پس فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ لاعلمی میں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنے والی بن جائے۔ لاعلمی میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی غلط تشریح کر کے کہیں کوئی اللہ تعالیٰ کی حدود توڑنے والا نہ بن جائے۔ پس ہر عورت کو، نوجوان کو، بوڑھی کو، مرد کو یہ خیال ہمیشہ رکھنا ہو گا کہ ہم نے اپنی حدود کو جاننا اور پہچاننا ہے اور اُن کا خیال بھی رکھنا ہے، یعنی اُن پر عمل بھی کرنا ہے۔ انسان کمزور ہے، غلطی سے یا بشری کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بعض دفعہ تعمیل نہیں بھی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم اور کریم ہے، استغفار پر معاف بھی فرماتا ہے، درگزر بھی فرماتا ہے لیکن ایک غلط حرکت کرنا اور پھر اُس پر ضد کرنا اور بحث کرنا اور سمجھانے والوں کو برا بھلا کہنا، یہ بات انسان کو اللہ تعالیٰ کی حدود توڑنے والا بناتی ہے اور پھر گناہوں میں بھی بڑھاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ہم سب کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں نہ ہی زبردستی مسلمان بنایا گیا ہے، نہ ہی تم نے اس زمانے میں زمانے کے امام کی بیعت اس لئے کی ہے کہ تمہیں کوئی خوف تھا بلکہ اپنی مرضی سے یہ سب کچھ تم نے کیا ہے۔ جب اپنی مرضی سے سب کچھ کیا ہے تو اس نظام کی پھر پابندی کرنی بھی ضروری ہو گی۔ نہ ہی کبھی یہ ہوا کہ اسلام میں رہنے کے لئے کسی پر زبردستی کی گئی ہو، گو غیر احمدیوں کے یہی نظریات ہیں کہ زبردستی اگر اسلام میں کوئی آگیا اور جب نکلتا ہے تو مرتد بن گیا اور اُس کو قتل کر دو۔ لیکن کہیں بھی قرآنی تعلیم سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو مزید کھول کر یہ واضح فرما دیا کہ اسلام میں زبردستی نہیں ہے لیکن جب تم ایک دفعہ داخل ہو گئے ہو اور رہنا چاہتے ہو تو پھر بہر حال پابندی کرنی پڑے گی۔ جب تم نے اس دین کو قبول کر لیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا دین ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو گے تو شیطان سے نجات پاؤ گے۔ اور یہ شیطان سے نجات کا راستہ اُس وقت تک نظر آتا رہے گا جب تک تم نظامِ خلافت کے کڑے پر ہاتھ ڈالے رکھو گے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پکڑے رکھو گے۔
اللہ تعالیٰ دعاؤں کو بھی سنتا ہے اور دلوں کا حال بھی جانتا ہے۔ اس لئے نیک نیتی کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر احمدی کو، عورت مرد کو یہ حکم ہے کہ دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے تو اس پر قائم بھی رکھے اور شیطانی خیالات کو اللہ تعالیٰ مجھ پر حاوی نہ ہونے دے۔ اگر یہ سب کچھ ہو گا تو دنیا کی جو لذات ہیں، دنیا کے فیشن ہیں یا یہ احساسِ کمتری کہ اگر ہم دنیا کے مطابق نہ چلے تو ہمیں دنیا کیا کہے گی، یہ سب چیزیں بے حیثیت ہو جائیں گی۔ دین اور جماعت مقدّم ہو جائے گی۔ ایک احمدی لڑکی اپنی حیا کی حفاظت کرنے والی ہو جائے گی۔ اُس کو یہ خیال نہیں آئیں گے کہ کیا حرج ہے اگر میری تصویر رسالوں میں چھپ جائے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا جو پردہ کا حکم ہے اُسے اس بات سے روکے رکھے گا کہ یہ حرکت نہیں کرنی۔ یہ خیال پیدا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے اور یہ حکم بھی پردہ کااور اپنی حیا کا قرآنِ کریم کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ اس لئے میں نے بہرحال اپنی حیا اور اپنے پردہ کی حفاظت کرنی ہے۔ تمام اُن باتوں پر عمل کرنا ہے یا کرنے کی کوشش کرنی ہے جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اُن راستوں پر چلنے کی دعا مانگنی ہے جو اُس کی پسند کے راستے ہوں۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کی تعمیل کر کے اپنے عہد کو پورا کرنا ہے کہ جو بھی معروف فیصلہ وہ کریں گے اُس کی پابندی ضروری سمجھوں گا اور یہ پابندی قرآنِ کریم میں ہے۔ جب اس سوچ کے ساتھ ہر عورت زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گی، ہر مرد زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر یہ کڑا جس پر اُس نے ہاتھ ڈالا ہے اُسے شیطانی اور دنیاوی خیالات سے بچانے کی ضمانت بن جائے گا۔ اس کی وضاحت بھی جو پہلے میں نے آیت تلاوت کی اُن میں سے اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے کہ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (البقرۃ:258) کہ اللہ تعالیٰ اُن کا دوست ہے جو ایمان لائے۔ پس اس بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ جس کا دوست ہو جائے، شیطان وہاں آ سکے۔
کل ہی مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے یہ بتایا تھا کہ شیطان وہیں آتا ہے جہاں رحمان سے تعلق کٹتا ہے۔ پھر خدا تعالیٰ یہ اعلان فرماتا ہے کہ جن کا وہ ولی ہو جائے، اُنہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ اُس روشنی کا حقیقی پتہ دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اب کیا کوئی پسند کرے گا کہ اندھیروں سے روشنی کی طرف نہ آئے؟ یہ دنیاوی روشنی نہیں ہے، یہ دنیا کی چمک دمک نہیں ہے بلکہ ایک مومن کا مطمح نظر اللہ تعالیٰ کی رضا بن جاتا ہے اور یہ وہ روشنی ہے جو اس رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے۔ پھر یہ دنیاوی آسائشیں، چمک دمک اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والوں کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہیں۔ پس ایک مومن کو اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے کہ تمہارا ایمان لانا، ہدایت کو پانا، اُس پر قائم رہنا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا تمہیں اللہ تعالیٰ کا دوست بنا دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا دوست بننے کے لئے، اپنے ایمان میں ترقی کرنے کے لئے اس کڑے کو پکڑے رکھو ورنہ شیطان گھات لگائے بیٹھا ہے، وہ کسی وقت بھی تمہیں اُچک لے گا۔ اپنا دوست بنانے کے لئے بڑے بڑے سبز باغ دکھائے گا۔ شیطان بھی دوست بنانے کے لئے باغ دکھاتا ہے اور شیطان ورغلاتا بھی لالچ دے کر ہی ہے اور جو بھی اُس کے بَھرّے میں آگیا، اُس کی لالچ میں آگیا، سمجھ لے کہ وہ اندھیروں میں ڈوب گیا۔ بظاہر دنیا کی روشنی دکھا کر شیطان ورغلائے گا لیکن حقیقت میں یہ اندھیروں کی طرف لے جانے والی ہو گی۔ یہاں مَیں یہ بھی واضح کر دوں کہ مومن کی، ایک ایمان لانے والی کی اللہ تعالیٰ نے خود ہی بعض خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ مختصر ایک دو میں یہاں بیان کر دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں سے زیادہ ایک مومن میں ہوتی ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے تو پھر شیطان کے حملے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر سن کر اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔ جو بات اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے کی جائے، ایک خوف پیدا ہوتا ہے اور پھر اُس کو کرنے کی طرف یا رُکنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔
پھر ایک مومن کی نشانی یہ بھی ہے کہ نماز کو اُن کی شرائط کے ساتھ ادا کرے۔ یہ بھی بڑی ضروری چیز ہے، فرائض میں شامل ہے۔ پھر مومن اپنے رزق میں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ بھی آج اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر فضل ہے کہ حقیقی ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں۔ پس احمدی کی یہ خصوصیات جو ہیں، جن جن میں ہیں، یا جن میں کمزوریاں ہیں اُن کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، دیکھیں کس حد تک ہیں اور کس حد تک ان کمیوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کی ایک نشانی یہ بھی ہے جو پہلے بھی میں نے بیان کی کہ اللہ اور اُس کے رسول کی آواز پر سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہتے ہیں۔ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ پس ہر احمدی کی سوچ کا دائرہ خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہونا چاہئے۔ اگر ہر لڑکی، ہر عورت اس سوچ کی حامل ہو جائے گی تو ہماری آئندہ نسلوں کے لئے دین پر قائم رہنے کی ضمانت بھی مل جاتی ہے۔ پس اپنے مقاصد کو اونچا رکھیں۔ دنیاوی ترجیحات کی جگہ خدا کی رضا ہر عورت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، ہر مرد کی ہونی چاہئے۔
یہ نظم بھی جو آپ نے سنی ہے اس میں بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے درد سے اپنے دل کا نقشہ کھینچا ہے اور اس میں اپنی ذات کے لئے ہی نہیں مانگا بلکہ اُس جماعت کے لئے بھی مانگا ہے جس کی رہنمائی آپ کے سپرد تھی۔ پس آج بھی اور ہمیشہ ہی خلیفہ وقت کی اپنے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی یہی دعا ہو گی۔ آج کفر و بدعت پہلے سے زیادہ دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ الیکٹرانک رابطوں کے ذریعہ سے تمام دنیا ایک ہو چکی ہے۔ ان رابطوں کے ذریعے جن میں موبائل شامل ہیں، انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں اور اب تو موبائل فونوں میں بھی انٹرنیٹ مہیا ہونے لگ گئے ہیں، اور اکثر بچوں نے بھی پکڑے ہوتے ہیں۔ نوجوانوں نے بھی پکڑے ہوتے ہیں۔ لڑکیوں نے بھی اور لڑکوں نے بھی، جن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ان کا جائز استعمال کیا ہے اور ناجائز استعمال کیا ہے؟ شوق میں کرتے رہتے ہیں اور پھر بعض دفعہ ناجائز استعمال کی عادت پڑ جاتی ہے اور اسی طرح مختلف اَور بیہودہ چیزیں بھی ہیں۔ ان چیزوں نے نیکیوں سے زیادہ برائیاں پھیلانے کا کام شروع کیا ہوا ہے۔
پس والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ جب اُن کے ہاتھوں میں موبائل پکڑا دیتے ہیں اور نئی قسم کے موبائل پکڑا دیتے ہیں جس میں ہر قسم کی اپلیکیشن (Application) وغیرہ مہیا ہیں تو پھر اُن پر نظر بھی رکھنی چاہئے۔ کیونکہ بعض دفعہ شکایات آتی ہیں یہ سوچتے ہی نہیں اور پھر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ہماری لڑکیاں بھی اور لڑکے بھی ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پس ان برائیوں کے خلاف ہمیں بھی آج جہاد کی ضرورت ہے جو انٹرنیٹ اور ٹی وی وغیرہ اور دوسرے ذریعے سے دنیا میں پھیلائی جا رہی ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کفر و بدعت کو غرق کرنے کے لئے طوفانِ نوح جیسا طوفان مانگا تھا۔ اگر ہمارا دعویٰ ہے اور یقینا ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈالنا ہے تو پھر ہمیں بھی ایسی دعائیں کرنی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت کو کھینچ کر لائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ ہم دنیا کو فتح کر سکیں۔ اور جب دعائیںمانگیں گے تو ہمیں اپنے عمل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے ہوں گے۔ اپنے دلوں کو ہر قسم کی بدیوں سے دھونا ہو گا تا کہ ہمارے سینے نور سے بھر جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا ولی ہو جائے اور ہم کامیابیوں کی منزلیں طے کرنے والے ہوں۔
پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ ایک سچی تڑپ کے ساتھ، اُس تڑپ کے ساتھ جس تڑپ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شعر کہے۔ اپنی روح کی مرض کا، بیماری کا علاج بھی خدا تعالیٰ سے مانگے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر یہ علاج بھی نہیں ہو سکتا۔ قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس سے مدد بھی مانگے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی عمل، عملِ صالح نہیں ہو سکتا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد کامل اطاعت کے ساتھ اس پر قائم رہنے کی دعا بھی مانگے کہ اس کے بغیر دین پر قائم رہنا ممکن نہیں۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بندے کو خدا سے ملانا، اسلام کی حقّانیت دنیا پر ثابت کرنا اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا تھا۔ اور یہی ہمارا مقصد ہے اور اس مقصد کو، جیسا کہ میں نے کہا، ہم اُس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے، جب تک ہم اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ دین کو دنیا پر مقدم نہیں سمجھیں گے۔ اپنے دلوں کو اُس نور سے منور نہیں کریں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔
پس ہر احمدی بچی اور عورت کو اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے۔ عورت پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ صرف اپنے دل کو ہی اس روشنی سے روشن نہیں کرنا بلکہ اپنی اولاد کے دلوں کو بھی روشن کرنا ہے تا کہ جلد تر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہراتا ہوا دیکھیں۔ پس ہر احمدی عورت اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اس اہم فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک یہ عہد نہ کریں کہ آج سے ہماری ترجیحات دین ہوگا، نہ کہ دنیا۔
نوجوان بچیاں یاد رکھیں اُن کی بقا دین میں ہے۔ دنیا میں نہیں۔ پس یہ کبھی خیال بھی نہ لائیں کہ فلاں حکم چودہ سو سال پرانا ہے اور آج اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔ یا دین میں جبر نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اختیار ہے کہ جو چاہو کرو۔ جس حکم کو چاہیں ہم قبول کریں، جس کو چاہیں انکار کر دیں۔ اسلام کا ہر حکم آج بھی اُتنا ہی اہم ہے جتنا چودہ سو سال پہلے تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی نوجوان بچیاں ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ مَردوں سے بڑھ کر نتائج پیدا کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں علم و معرفت میں مزید بڑھاتا چلا جائے۔ اللہ کرے اس تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوتا چلا جائے اور مجھے بھی اور آئندہ آنے والوں کو بھی یہ بے فکری ہو جائے کہ ہماری یہ نسل بھی اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی اُن ہاتھوں میں پروان چڑھ رہی ہیں جو اس بات کا پکّا اور مصمّم ارادہ کر چکی ہیں کہ ہم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں گاڑ کر دم لینا ہے اور اپنی ترجیحات کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔
