خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ ہالینڈ 19؍مئی 2012 ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ نے ایک مومن مرد اور مومن عورت کو جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے یا جو خصوصیات ایک مومنہ یا مومن کی ہونی چاہئیں، اُن کا کچھ بیان ان آیات میں ہوا جو شروع میں آپ کے سامنے تلاوت کی گئی تھیں۔ ان باتوں کی مختصر وضاحت آخر میں کروں گا ۔پہلے مَیں قرآنِ کریم کے حوالے سے ہی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآنِ کریم میں اور بھی کئی جگہ نیکیوں کے کرنے کا حکم دے کر، اُن کی طرف توجہ دلا کر، اعمالِ صالحہ بجا لانے کی تلقین کر کے پھر فرمایا ہے کہ جو اس کے مطابق اپنی زندگی گزارے گا وہ اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی، مرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کے انعامات کا حقدار ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کے ہر عمل کی جزا ضرور دیتا ہے لیکن بعض آیات میں یہ تنبیہ بھی کر دی کہ برے اعمال اور نافرمانیوں کی سزا بھی ملتی ہے۔ جس طرح جزا اور انعام ملنے میں کسی مرد اور عورت کی تخصیص نہیں ہے، کوئی فرق نہیں ہے، اسی طرح سزا ملنے میں بھی کوئی تخصیص نہیں ہو گی، کوئی فرق نہیں ہو گا۔ جو کوئی جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔

 پس اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام جہاں ایک مومنہ اور مومن کے لئے خوشی اور راحت کا سامان پیدا کرتا ہے وہاں خوف پیدا کرنے والا بھی ہے اورخوف پیدا کرنے والا ہونا چاہئے کہ جہاں یہ جزا ہے، انعامات ہیں، وہاں سزا بھی ہے تا کہ ایک مومن، انسان ہر وقت اپنے عمل پر نظر رکھے اور ایسے عمل کرے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا باعث بنے۔ اور ایک احمدی عورت اور مرد کے لئے تو اور بھی زیادہ توجہ کا مقام ہے کہ ہم اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں جس نے کھول کھول کر ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے اور ہم نے اس زمانے میں حضرت

 مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ عہدِ بیعت کیا ہے کہ ہم قرآنِ کریم کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ جو شرائطِ بیعت ہیں اُن کی چھٹی شرط یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کریں گے۔(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر 51)

اب یہ عہد جس طرح مَردوں نے کیا ہے احمدی عورتوں نے بھی کیا ہے۔ قرآنِ کریم کی حکومت صرف اس طرح تو قبول نہیں ہو گی کہ ہم کہہ دیں کہ الحمد للہ! ہم قرآنِ کریم کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو قرآنِ کریم پڑھا دیا۔ ایک دفعہ آمین کروا لی ہے۔ ہم یہ اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جو آخری شرعی کتاب ہے اور اس کے بعد ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد اور کوئی شرعی کتاب نازل نہیں ہو سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس شرعی کتاب کے نازل ہونے کے بعد دین کامل ہو گیا اور تمام روحانی نعمتیں اور دینی تعلیمات اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ اس قرآنِ کریم میں بتا دی گئیں۔ یقینا اس بات پر یقین کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا ہر ایک مومنہ اور مومن کے لئے ضروری ہے لیکن قرآنِ کریم کی حکومت اُس وقت ہم میں سے ہر ایک چاہے وہ مرد ہے یا عورت اپنے سر پر قبول کرنے والا بنے گا، جب قرآنِ کریم کے احکامات کو تلاش کر کے اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جو قرآنِ کریم کے سات سو حکموں پر عمل نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ (ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 26)

 آپ نے فرمایابیشک تم بیعت میں تو شامل ہو گئے ہو، تم نے یہ بھی مان لیا کہ جو مسیح و مہدی آنے والا تھا وہ آ گیا ہے۔ بیشک یہ بھی مان لیا کہ اس مسیح و مہدی کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں نبی کا قرار دیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں( اُس کا خلاصہ یہ ہے )کہ میری جماعت کا معیار اللہ تعالیٰ نے بہت اونچا رکھا ہے اور وہ اونچا معیار جیسا کہ بیان ہوا ہے، یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے تمام حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ مسیح موعود کے ذریعے ایسی جماعت قائم کرنا چاہتا ہے جس کا اوڑھنا بچھونا خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہر عورت کو بھی اور ہر مرد کو بھی ، ہر جوان کو بھی اور ہر بوڑھے کو بھی کہ وہ کس حد تک اپنے اعمال کو اُس معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے جو ایک مومنہ اور مومن کے ہونے چاہئیں۔ کس حد تک ہم اُن اعمالِ صالحہ کو بجا لانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا ذکر قرآنِ کریم میں ہوا ہے۔

 پس ہر احمدی عورت اور ہر احمدی مرد کو اس اہم بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ احمدی ہونے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف دیکھیں کہ وہ ہمیں کیا بنانا چاہتے ہیں۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

               ’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی۔ ہاں خدمتگار کے طور پر تو بیشک ہو سکتی ہے لیکن بطور شریک کے ہر گز نہیں ہو سکتی۔ یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ جس کا تعلق صافی اﷲ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے۔ اﷲ تعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا کہ:’’ ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو طاقت دے دیتا ہے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں کہ: ’’صحابہؓ کی حالت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک صاف کر دیا‘‘۔ فرمایا کہ ’’ خوب یاد رکھو کہ جس جماعت کا قدم خد اکے لیے نہیں اس سے کیا فائدہ؟ ‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 320 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صحابہ جیسی پاکی اور صفائی ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ صرف مرد صحابہ نے یہ پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا نہیں کیں بلکہ صحابیات نے بھی یہ پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کیں۔ ایک انقلاب اپنے اندر پیدا کیا۔ اپنی عبادتوں کے معیار ایسے بلند کئے کہ راتیں گھنٹوں عبادت میں گزارنے لگیں ۔جب دیکھا کہ مردوں کو جہاد کا ثواب ہم سے زیادہ مل رہا ہے، اُن کے قدم ہم سے بڑھ رہے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں کہ ہم اپنے مردوں کے گھروں کی حفاظت کرتی ہیں، اُن کے بچوں کی نگہداشت کرتی ہیں، کیا ہمارے فعل ہمیں مَردوں کے برابر کھڑا کر سکیں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ کیوں نہیں! یقینا تمہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا ۔جن کاموں کے لئے تم بنائی گئی ہو یا جو ذمہ داریاں تم پر ڈالی گئی ہیں اُن کا حق ادا کرنے، اُن کو خوبصورتی سے سرانجام دینے پر تم اُتنا ہی ثواب کا حقدار ٹھہرو گی جتنا ایک جہاد کرنے والا مرد۔

(الجامع لشعب الایمان للبیہقی باب الستون من شعب الایمان وھو اب فی حقوق الاولاد والاہلین… جلد11 صفحہ 177-178 حدیث 8369مطبوعہ مکتبۃ الرشد ناشرون ریاض 2004ء)

پس یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور اس زمانے میں تو جہاد کی صورت بھی بدل گئی ہے۔ اب تو ہر عورت اُس جہاد میں شامل ہو سکتی ہے جو مرد بھی کرتے ہیں اور وہ ہے تبلیغ کا جہادجو باہر رہ کر کرنا ہے۔ جو نفس کا جہاد ہے وہ تو ہر ایک نے کرنا ہی ہے۔ ایک تبلیغ کا جہاد ہے جو ہر ایک اپنے اپنے ماحول میں کر سکتا ہے۔ عورتیں بھی تبلیغ کر سکتی ہیں تا کہ اسلام کی تبلیغ کر کے دنیا میں زیادہ سے زیادہ اسلام کا پیغام پہنچائیں۔

پس اللہ تعالیٰ تو ہر ایک کو جو بھی کوئی نیک کام کرے گا یہ ثواب دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کبھی بغیر جزا کے نہیں چھوڑتا لیکن اس کا حق ادا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نفس کی قربانی اور اعمالِ صالحہ کو ضروری قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ  وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی ۔فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی(النٰزعٰت:42-41) یعنی اور جس نے اپنے رب کی شان سے خوف کیا اور اپنے نفس کو گری ہوئی خواہشات سے روکا۔ پس یقینا جنت اُس کا ٹھکانہ ہو گی۔  یہ آیا ت بیان فرما کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہشتی زندگی اور جنت جو ہے اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد چہارم صفحہ 320۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

 پس ہمارے ہر عمل اور قول کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہونا چاہئے تا کہ اس دنیا سے ہی یہ جنت کی زندگی شروع ہو جائے۔ یا درکھیں یہ جنت کی زندگی جو ہے یہ دنیا میں پڑنے سے نہیں ہوتی بلکہ دین کے ساتھ وابستہ رہنے سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دنیا تمہاری خدمتگار کے طور پر ہو۔ دنیا تمہاری نوکر ہو۔ دنیا تم پر حاوی نہ ہو بلکہ تم دنیا پر حاوی ہو جاؤ۔ تم دنیا کو اپنے پیچھے چلانے والی بنو ،نہ کہ خود دنیا کے پیچھے چلنے والی بن جاؤ۔

 یہی اصول تھا جسے صحابہ نے اور صحابیات نے اپنے سامنے رکھا۔ اُن کے سامنے بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی صورت میں ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرنے اور ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھنے کا ایک عملی نمونہ تھا جس کا اعلیٰ ترین معیار ہونے کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ان الفاظ میں اعلان فرمایا ہے اور ہمیں تلقین کی ہے کہ اس کو اپناؤ کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُواللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا( سورۃ الاحزاب: 22)   ۔تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں ایک کامل نمونہ ہے۔ وہ جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت کے ملنے کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ پس اس نمونے کی پیروی کرو۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ صحابہ کے سامنے یہ نمونہ تھا جو  آپ کی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی صورت میں تھا اور انہوں نے اس کی پیروی کی اور نفس کی خواہشات کو مٹا دیا اور دین کو دنیا پر مقدم کر لیا۔ وہ تاجر بھی تھے لیکن خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے تھے۔ وہ غلام بھی تھے، لونڈیاں بھی تھیں لیکن اُن میںخدا تعالیٰ کا خوف اپنے دنیاوی آقاؤں سے زیادہ تھا ۔ وہ دنیا کے دوسرے کاموں میں بھی مصروف ہوتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کو نہیں بھولتے تھے۔ اور خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی صحابیات بھی ویسی ہی کوشش کرتی تھیں جیسی صحابہ کرتے تھے۔ اور یہ کوشش اور قرآنِ کریم کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرنے کا نتیجہ ہی تھا کہ حضرت عائشہؓ نے وہ مقام حاصل کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آدھا دین عائشہ سے سیکھو‘‘ ۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح کتاب المناقب باب مناقب ازواج النبیؐ … الفصل الثالث جلد 11 صفحہ338 دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)               اور آپ مردوں کے لئے نمونہ بن گئیں۔ اس طرح کئی صحابیات نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو مردوں سے آگے نکل جانے والا فرمایا۔ آج بیشک وہ انسانِ کامل تو ہم میں موجود نہیں ہے جنہوں نے مُردوں کو زندہ کر دیا تھا اور اپنے عملی نمونے اور قوتِ قدسی سے ایک انقلاب برپا کر دیا تھا لیکن وہ آخری شرعی کتاب ، وہ کامل و مکمل شریعت قرآنِ کریم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ اور سنّت ہمارے سامنے موجود ہے۔ آپ اب تا قیامت زندہ رسول ہیں۔ چاہے جن کو بشری تقاضے کے تحت اللہ تعالیٰ نے وفات دے دی لیکن پھر بھی آپ کا  جواُسوہ ہے ہمارے سامنے موجود ہے اور اب یہ تا قیامت ہمارے سامنے موجود رہنا ہے۔ پس اس نمونے پر چلنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر خُلق ہی قرآنِ کریم کی عملی تصویر تھا ۔(مسند الامام احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 144 مسند عائشۃ حدیث 25108عالم الکتب بیروت 1998ء)

 پس ہمارے لئے حضرت عائشہ نے یہی فرمایا جب اُن سے پوچھا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتائیں تو آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر خُلق قرآنِ کریم کی عملی تصویر تھی۔ پس ہمارے لئے کوئی بہانہ نہیں رہ گیا، کوئی راہِ فرار نہیںہے کہ ہم کس طرح اُس اسوہ پر عمل کریں جو زندہ صورت میں ہم میں موجود نہیں ہے۔ اور پھر اس زمانے میں یہ دیکھیں کہ قرآنِ کریم کی حکومت ہمارے سروں پر قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجا ہے اور یہ تمام احکام اس طرح کھول کر آپ نے ہمارے سامنے رکھ دئیے ہیں کہ اس کے سوا اب اور کوئی چارہ نہیں کہ مسیح موعود کی جماعت سے منسوب ہو کر ہم ان قرآنی احکامات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں اور نہ صرف اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔اس اسوہ کو جاری رکھیں بلکہ اپنی نسلوں میں بھی جاری کرنے کی کوشش کریں کیونکہ نسلوں کی ذمہ داری عورت پر ڈالی گئی ہے۔

مائیں جب اپنے بچوں کو اپنا مقام قرآن و حدیث کے حوالے سے بتاتی ہیں تو اُس کا حق ادا کرنے والا بھی بننا ہو گا۔ عورت کے قدموں کے نیچے جب جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ تو ہر عورت اس جنت کی ضامن نہیں بن گئی۔ جنت کی ضمانت دینے والی عورت دنیاوی کھیل کود میں پڑنے والی عورت نہیں ہے۔ دنیاوی اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کرنے والی عورت نہیں ہے بلکہ وہ عورتیں وہ ہیں جو قرآنی احکامات پر عمل کرنے والی ہوں۔ وہ بھی تو عورت تھی جس کی زبان اُس کے بیٹے نے اس لئے کاٹ لی تھی کہ اگر یہ میری صحیح تربیت کرتی، بچپن سے ہی میرے ہر برے کام کو ماں کی ممتا کا نام دے کر لاڈ پیار سے ٹال نہ دیتی تو آج یہ بیٹا برے کام سیکھ کر ڈاکو اور قاتل نہ بن جاتا اور پھانسی کے تختے پر نہ پہنچتا۔ پس جو مائیں اپنے بچوں کی تربیت نہیں کرتیں، اگر اُن کے بچے اُن کی زبان کاٹ کر دنیا کو یہ نہیں بھی بتاتے کہ میرا گناہ کی طرف اُٹھنے والا ہر قدم جو ہے وہ میری ماں کی بری تربیت کا نتیجہ ہے تب بھی زمانے کو، دنیا کو ایسے بچوں کی حرکتوں کا پتہ لگ جاتا ہے۔ دین سے دور جانے کی وجہ سے پتہ لگ جاتا ہے۔ ماں باپ کا ادب اور احترام نہ کرنے کی وجہ سے پتہ لگ جاتا ہے۔ غلط قسم کے لوگوں میں بیٹھنے کی وجہ سے پتاہلگ جاتا ہے کہ ان بچوں کی اس تربیت پر عموماً گھر کے ماحول کا اثر ہے، ماں کی تربیت کی کمی کا اثر ہے۔ زیادہ لاڈ پیار کا اثر ہے۔ پس احمدی مائیں جو اس ماحول میں رہ رہی ہیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کے لئے وہ ماں بن کر دکھائیں جو اُنہیں ہر برے بھلے کی تمیز کر کے دکھانے والی ہو۔ اُنہیں دین سے جوڑنے والی ہو۔ اُن کے دلوں میں خلافت سے محبت اور احترام کا تعلق پیدا کرنے والی ہو۔ اُن میں سچائی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے والی ہو۔ ہم میں سے اکثر اچھے اخلاق سیکھنے سکھانے کی باتیں کرتے ہیں ۔ قرآنِ کریم کے حکم قولِ سدید یعنی ایسا سچ جو اعلیٰ ترین معیار کا سچ ہو جس میں کوئی ایچ پیچ نہ ہووہ اپنانے کی باتیں کرتے ہیں، اُس نیک بچے کی مثال تو دیتے ہیں جس نے ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ڈاکوؤں کو سچائی سے کام لیتے ہوئے اپنی چھپی ہوئی اشرفیوں کے بارے میں بتا دیا تھا اور اپنے نقصان کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی تھی اور سچائی کو دنیا کی ہر دولت پر ترجیح دی تھی۔ (ماخوذ از غنیۃ الطالبین اردو ، مترجم مولانا سید عبدالدائم صفحہ 12 سوانح حیات حضور محبوب سبحانی، ایک غیبی واقعہ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) لیکن اپنے جائزے لیں اور دیکھیں کہ کتنی مائیں ایسی ہیں جو وقت آنے پر خود بھی سچ کے اس معیار پر عمل کرنے والی ہیں۔ یہ عذر نہیں ہونے چاہئیں کہ آپ ہمیں نصیحت کرتے ہیں لیکن فلاں عہدیدار کی سچائی کا معیار بھی ایسا نہیں ہے۔ میں اگر کوئی بات کہتا ہوں تو ہر ایک کے لئے کہتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہنا کہ تمہارے جھوٹ کو میں اس لئے معاف کر دیتا ہوں کہ فلاں عہدیدار بھی جھوٹا ہے یا جھوٹی ہے۔ ہر ایک نے اپنا حساب خود دینا ہے۔ نہ ہی کبھی یہ دنیا میں ہوا ہے اور نہ کسی نے دیکھا ہے کہ بچے کی غلط تربیت کے بد نتائج اس لئے نہ نکلیں کہ فلاں عہدیدار نے یا فلاں شخص نے بھی اپنے بچے کی اچھی تربیت نہیں کی۔ یا کسی دوسرے نے اگر اچھی تربیت کی ہے تو اُس کا اثر آپ کے بچوں کی تربیت پر نہیں پڑے گا۔  پس ہمارے لئے اسوہ حسنہ کوئی دوسرا شخص نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور پھر جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کے صحابہ اور صحابیا ت ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ اور صحابیات وہ ستارے ہیں جو ہمیں راستہ دکھانے والے ہیں۔

(جامع الاصول فی احادیث الرسولؐ  لابن الاثیر جزری جلد 8صفحہ 422 الباب الرابع فی فضائل الصحابۃ ، الفصل الاول فی فضائلہم مجملا… حدیث نمبر 6369 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2009ء)

اور پھر اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق و عاشقِ صادق کی وہ ذات ہیں جو ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ پس ہم نے ان لوگوں کے پیچھے چلنا ہے۔ پھر خلافت کا جاری نظام ہے جو رہنمائی کرنے والا ہے۔ پس کسی دوسرے شخص کو ہم نے نہیں دیکھنا۔ ان چیزوں کو ہم نے دیکھنا ہے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہے۔ پس ہر عورت کی ان باتوں کی طرف نظر ہونی چاہئے۔ جب یہ ہو گا تو پھر یقینا آپ میں سے ہر ایک وہ ماں ہو گی جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے جو اپنے بچوں کی جنت کی ضمانت ہے۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ : ’’اس زمانے کا حصنِ حصین میں ہوں‘‘۔

(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 34)

 یعنی وہ مضبوط قلعہ ہوں جس کے ساتھ تعلق جوڑ کر تم اپنے آپ کو محفوظ کر سکتے ہو اور یہ تعلق اُسی صورت میں جُڑ سکتا ہے یعنی حقیقی تعلق جو ہمیں تمام آفات سے بچا سکتا ہے جب ہم دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے۔ یہ بدقسمتی ہے اُن لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ ہم احمدی تو ہیں لیکن ہم اپنی مرضی کریں گے یا کریں گی۔ اگر اپنی مرضی کرنی ہے تو پھر اس مضبوط قلعے میں داخل ہونے والی نہیں سمجھی جائیں گی ۔ پس اگر آپ اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتی ہیں، اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا چاہتی ہیں، اپنے گھروں کو محفوظ رکھنا چاہتی ہیں تو اُن تمام باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں، اور جن کو اس زمانے میں کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم تک پہنچایا ہے۔ اس مضبوط قلعے میں داخل ہونے کے لئے اپنے نفس کی قربانی دینی ہو گی۔ ان ملکوں میں آ کر سب سے پہلا بد اثر جو عورتوں پر پڑتا ہے وہ عموماً پردوں کا اُترنا دیکھاہے۔ پردہ قرآنی حکم ہے۔ یہ کوئی ایسا حکم نہیں ہے جس کے بارے میں عورتوں کو یہ چھوٹ دے دی گئی ہو کہ کرنا ہے تو کرو، نہیں کرنا تو نہ کرو۔ بلکہ بڑا واضح حکم ہے کہ اپنے سر کو ڈھانکو، اپنے چہرے کو ڈھانکو، اپنے سینے کو ڈھانکو۔ پس جو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ قرآنِ کریم کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ احساسِ کمتری ہے ہر اُس عورت میں جو سمجھتی ہے کہ میں نے پردہ کیا تو میں اس ماحول میں سموئی ہوئی نہیں لگوںگی، اس میں جذب نہیں ہو سکوں گی۔مجھے لوگ کیاکہیں گے؟ لوگ میرا مذاق اُڑائیں گے۔ اگر ایک حقیقی احمدی عورت بننا ہے تو اس احساس کمتری کی چادر کو اُتارنا ہو گا جو آپ کی حیا کو ننگا کر رہی ہے ،جو آپ کے تقویٰ کا لباس آپ سے اتار رہی ہے ۔ اور اُس چادر کو اوڑھیں جو تقویٰ کی چادر ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہے، جو آپ کی حیا کی حفاظت کرنے والی ہے، جو آپ کی ایک حیثیت دنیا میں قائم کرنے والی ہے اور دنیا کے سامنے رکھنے والی ہے۔ پس یہ سوچ لیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے یا دنیا کو راضی کرنا ہے۔ دو باتوں میں سے ایک فیصلہ کرنا ہو گا۔ اگر دنیا والوں کو راضی کرنا ہے تو پھر اس زمانے کے حصنِ حصین سے تو آپ باہر آ گئیں، اُس مضبوط قلعے سے آپ باہر آ گئیں۔ اور جب باہر آ گئی ہیں تو پھر آپ نہ اپنے دین کی حفاظت کی ضامن ہیں، نہ اپنے بچوں کے دین کی حفاظت کی ضامن ہیں۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اپنی جماعت میں اُن کو شامل کیا ہے جو قرآنِ کریم کے تمام حکموں پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ پس اس کے لئے اس تلاوت کے الفاظ پر غور کریں جو آپ کے سامنے کی گئی ہے۔

اب مَیں اس کی مختصر وضاحت کر دیتا ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ نے وہ تمام خصوصیات بیان فرمائی ہیں جو اس تلاوت میں بیان ہوئی ہیں کہ اگر یہ خصوصیات ہوں گی تو آخر میں پھر فرمایاکہ ایسی عورتوں اور مردوں سے مغفرت کا سلوک کیاجائے گا۔ اگر ہم میں سے ہر ایک کوشش کر کے ان خصوصیات کو اپنانے کے لئے کوشاں ہو گا تو بشری تقاضے کے تحت جو غلطیاں اور کوتاہیاں اور کمیاں ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں معاف کر دے گا اور اُن کے بدنتائج سے محفوظ رکھے گا۔ اگر اپنی پوری کوشش سے خود بھی دین پر قائم ہیں اور اپنے بچوں کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ باقی سامان خود کر دے گا۔ اور اس نیک نیتی کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ زمانے کے بد اثرات سے آپ کو بھی محفوظ رکھے گا اور آپ کی اولاد کو بھی محفوظ رکھے گا اور نہ صرف محفوظ رکھے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بھی ایسے مومن مرد اور عورتیں ہوں گی۔ یہ دس خصوصیات جو ایک مومنہ اور مومن میں ہونی چاہئیں جن کا حامل تمام نیکیوں کو اپنانے والا بن جاتا ہے اور تمام برائیوں سے بچنے والا ہو جاتا ہے، اُن کا مختصر بیان جیسا کہ میں نے کہا تھا میں کرتا ہوں۔

پہلی بات جو بیان کی گئی ہے اسلام قبول کرنے کی ہے، کیونکہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے جو انسان کی نجات کا ذریعہ بن سکے۔ پس روحانی ترقی کا پہلا قدم، پہلا زینہ مسلمین اور مسلمات میں شامل ہونا ہے۔ یعنی دماغی اور ذہنی طور پر مان لینا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے۔ اس کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ تک لے جا سکتا ہے۔ پھر جب ایک مسلمان عورت اور مرد نے ،ایک اسلام لانے والے نے اس بات کو تسلیم کر لیا تو پھر اگلا قدم مومنین اور مومنات میں شمار ہونا ہو گا۔ یعنی پھر ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔ اسلام اس لئے قبول نہیں کیا کہ مذہب ایسا لگتا ہے جس میں عقل کی باتیں نظر آتی ہیں یا خاوند نے یا کسی رشتہ دار نے اسلام قبول کر لیاہے یا احمدی ہو گیا ہے تو ہم بھی ساتھ ہو گئیں ۔ نہیں صرف اتنا کافی نہیں بلکہ ذاتی تجربات کی وجہ سے ایمان میں ترقی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، آپ کے عاشقِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا ہو۔ اورجب یہ تعلق ہو گا تو پھر ایک مسلمان قانتین اور قانتات میںیعنی مکمل طور پراللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے والا شمار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کیا ہیں؟ وہی جو قرآنِ کریم میں بیان ہوئے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ قرآنِ کریم کی حکومت کو بکلی طور پر قبول کرنا، اُس کے ہر حکم کو ماننا۔

  کل میں نے خطبے میں بیان کیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایک آدھ خُلق نہیں اپنانا، ایک آدھ حکم پر عمل نہیں کرنا بلکہ حقیقی متقی وہ ہوتا ہے جو ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ قبول کرنا جو ہے یہ صرف مجبوری کی وجہ سے نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے ہو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد2صفحہ680 ۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

پھر اگلی حالت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ صادق بنو۔ اُن لوگوں میں شمار ہو جو صادقین اور صادقات کہلاتے ہیں۔ یہ حالت کن کی ہوتی ہے؟ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سچائی پر قائم ہوتے ہیں اور سچائی کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں اور نہ صرف تیار ہوتے ہیں بلکہ جب مشکلات کا دور آئے تو سچوں کی طرح ان مشکلات سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ کوئی منافقت اُن میںنہیں ہوتی، اُن کا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ آپ نوجوان بچیاں بھی اور عورتیں بھی یہاں مسجد میں آتی ہیں۔ جس طرح کا حیا دار لباس اور پردہ آپ کا یہاں ہوتا ہے، یہ دیکھیں کہ کیا بازاروں میں، سڑکوں پر پھرتے ہوئے بھی یہی معیار آپ نے اپنا یا ہوا ہے یا جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں، دنیا کا پیار یا دنیا کی نظر آپ کو اس سچائی کے اظہار سے روک تو نہیں رہے؟ اگر تو یہ روک رہے ہیں، اگر دنیا کے مقابلے میں کسی بھی اسلامی حکم کو آپ پیچھے کر رہی ہیں تو پھر صادقات میں شمار نہیں ہوتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان خصوصیات کی حامل کو صبر کا بھی مظاہرہ کرنا چاہئے۔ صبر سے ہی استقامت پیدا ہوتی ہے اور ایمان اور یقین میں انسان ترقی کرتا ہے۔ یہ دیکھیںکہ آپ کے اس صبر کا ہی نتیجہ ہے جو آپ میں سے اکثر نے پاکستان میں دکھایا ہوا ہے اور اپنے ایمان کی حفاظت کی تھی کہ آپ آج یہاں آزادی سے بیٹھی ہیں اور دین پر جس طرح چاہیں عمل کر سکتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی قدر کریں اور اس دنیا داری کے ماحول میں دین کے معاملہ میں کسی دنیا دار کی بات کو اہمیت نہ دیں اور صبر سے اپنی روایات اور تعلیمات پر قائم رہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو صبر کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے اندر عاجزی پیدا کرو۔ یہ ایک ایسا خلق ہے جس کا اظہار معمولی چیز نہیں ہے۔ کسی بات کا فخر اور اَنا عاجزی کے خلق کو کھا جاتی ہے۔ پس کبھی کوئی فخر اور اَنا نہیں ہونی چاہئے۔ ایمان میں کامل ہونے کے لئے عاجزی ہونا بہت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماًفرمایا تھا  کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 595 ایڈیشن چہارم 2004 ء ۔ مطبوعہ ربوہ)

 پس اگر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو عاجزی کی راہ اختیار کرنی ہو گی۔

پھر اس کے بعد صدقہ کا ذکر ہے ۔اس خصوصیت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے بہت سے مرد اور عورتیں قائم رکھے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی اس طرف توجہ کریں۔ ان ملکوں میں رہنے والے جن کی مالی حالت اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بہتر کر دی ہے، اپنے غریب بھائیوں کی ضرورت کا خیال رکھیں۔ جماعتی طور پر بھی یتامیٰ اور طلباء اور مریضوں کا خیال رکھا جاتا ہے اس کے لئے مدد کرنی چاہئے۔ وہاں آپ لوگوں کو چندہ دینا چاہئے۔  پھر روزہ رکھنے والوں کا ذکر ہے۔ یہ بھی ایک ایسا کام ہے جو روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ میں نے نفلی روزوں کی جو تحریک کی تھی تو نفلی روزوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ اس طرف اپنے گھروں میں توجہ دیں۔ اپنے خاوندوں کو توجہ دلائیں۔اپنے جوان بچوں کو توجہ دلائیں اور خاص طور پر پاکستان اور اُن ملکوں میں جہاں جماعت کے افراد پر تنگیاں وارد کی جاتی ہیں اُن کے لئے بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے لئے سکون کے سامان پیدا فرمائے ہیں تو اُن لوگوںکے لئے بھی یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں بھی امن و سکون نصیب فرمائے۔

 پھر فرمایا  حَافِظِیۡنَ فُرُوۡجَھُمۡ وَالۡحَافِظَاتِ۔ یعنی ہر ایسی چیز جس سے گناہ کا خیال دماغ میں آنے کا احتمال ہو اور جو گناہ کی طرف راغب کرے اُس سے اپنی حفاظت کرنے والے وہی ہیں جو حقیقی مومن ہو سکتے ہیں۔ اس سے مراد صرف ظاہری زنا نہیں ہے کہ اس سے بچو بلکہ کان، آنکھ، منہ جن سے بری باتیں ایک انسان سنتا اور دیکھتا اور کرتا ہے، جن سے ذہن میں بیہودہ اور لغو خیالات پیدا ہو جاتے ہیں یا لغو خیالات پیدا کرنے والا بن سکتاہے، اس سے بچنے کا حکم ہے۔ پس آجکل جو بیہودہ ٹی وی پروگرام بھی ہوتے ہیں، خاص طور پر ان ملکوں میں تو کھلے عام ہے یا انٹرنیٹ پر جو لغویات آتی ہیں، یا خود بعض فیس بک(Face Book) کے ذریعہ سے لغویات میں ملوث ہو جاتے ہیں یا چیٹنگ(Chating) وغیرہ کے ذریعے سے اپنے رابطے کرتے ہیں یا کرتی ہیں خاص طور پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اُن کو اپنی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔بلکہ کئی شادی شدہ گھر بھی اس لئے برباد ہوتے ہیں کہ مردوں کو یا عورتوں کوان پروگراموں میں دلچسپی ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ گھریلو سکون برباد کرتی ہے۔میاں بیوی کی ناچاقیاں ہوتی ہیں۔پھر اولاد پر اس کا اثر پڑتا ہے اور نہ صرف یہ کہ گھر ٹوٹتے ہیں بلکہ نسلیں برباد ہو جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ ان چیزوں سے اپنی حفاظت کرو اور ان لغویات میں پڑنے کی بجائے اُس عظیم مقصد کو حاصل کروجو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھو۔ اُس کی عبادت کرو۔ ذاکرین اور ذاکرات میں اپنے آپ کو شامل کرو تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث تم بنتے چلے جاؤ گے۔ پس ہر احمدی مرد اور عورت کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اپنے آپ کو وارث بنا رہے ہیں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ عورت بھی اپنے دائرے میں گھر کی نگران ہے اور مرد بھی اُس سے زیادہ وسیع دائرے میں گھر کا نگران ہے اور نگرانی کے فرائض کا حق ادا نہ کرنے کی صورت میںاللہ تعالیٰ پوچھے گا۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہر احمدی عورت اور مرد کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ خوش فہمی کے جائزے نہ لیں۔ دوسروں کی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے جائزے نہ لیں کہ فلاں سے میں بہتر ہوں۔فلاں میں یہ کمزوری ہے اور مجھ میں نہیں ہے۔ قرآنِ کریم کے احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزے لیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے، تبھی حقیقی مومنات کہلا سکیں گی۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ’’خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا ہے کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 402۔ ایڈیشن2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

 پس یہ محبت اسی وقت ہو گی جب ہم اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ کر اُس پر عمل کر کے اُسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:’’جماعت کو خدا تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ 6۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

ٰ            پس اس بات پر ہمیشہ غور کرتے رہیںکہ کس قسم کا نمونہ ہم نے بننا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی عورت اور مرد کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ اُس کے مطابق چلنے والے ہوں جواللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے، جو اُس کا رسول ہم سے چاہتا ہے، جو اس زمانے کاامام ہم سے چاہتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اسلام کی حقیقی تصویر بن کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والا بن جائے۔ ہم دنیا کو اپنے اوپر حاوی کرنے والے نہ ہوں، بلکہ دنیا ہماری خادم اور غلام بن جائے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اب دعا کر لیں۔

ایک عقلمند عورت وہی ہے جو یہ سوچے کہ میں نے اپنا گھریلو چین اور سکون کس طرح پانا ہے؟ اپنے گھر کو جنت نظیر کس طرح بنانا ہے۔ اگر دنیا کی طرف نظر رہے تو یہ سکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ حقیقی سکون خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اپنی آزادی کو اُن حدود کے اندر رکھیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے مقرر کی ہیں۔ اگر آزادی یہاں کے معاشرے کی بے حجابی کا نام ہے تو یقینا ایک احمدی بچی آزاد نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسی آزادی کے پیچھے جانا چاہئے۔ پردے کا مقصد دوسروں کی توجہ اپنے سے ہٹانا ہے۔ یہ احساس دلانا ہے کہ ہم حیا دار ہیں لیکن اگر برقعوں پر گوٹے کناری لگے ہوئے ہوں اور توجہ دلانے والے الفاظ لکھے ہوئے ہوں تو یہ پردہ نہیں ہے، نہ ایسے برقعوں کا کوئی فائدہ ہے۔ جس وسعت سے عورتوں کے ذریعے عورتوں میں تبلیغ ہونی چاہئے، وہ نہیں ہوتی۔ جہاں مَردوں کو تبلیغ کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر کودنے کی ضرورت ہے وہاں عورتوں کو بھی اپنی صلاحیتوں کو اس میدان میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ احمدیت کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو یہاں پہنچائیں۔ ہر گھر تک پہنچائیں، ہر شخص تک پہنچائیں۔ یہ عورتوں کا بھی فرض ہے اور مردوں کا بھی فرض ہے۔  اُن لوگوں کی قربانیوں کو بھول نہ جائیں جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر احمدیت کی آبیاری کی ہے۔ آج تک یہ قربانیاں ہو رہی ہیں جو یہاں آپ کے آنے کا ذریعہ بن رہی ہیں اور آپ کے یہاں رہنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں