خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 2جون 2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بہت سی جگہ فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر عمل کرنے والے کے عمل کی جزا دیتا ہے اور اس میں کسی کی تخصیص نہیں رکھی، مخصوص نہیں کیا کہ فلاں کو ملے گی یا فلاں کو نہیں ملے گی۔ بعض آیات میں خاص طور پر بیان فرمایا ہے کہ عمل کرنے والے چاہے مرد ہوں یا عورت، جو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے اعمال بجا لائے گا، اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرے گا، اپنے عبادتوں کے معیار بلند کرے گا۔ دین کی خاطر اپنی قربانیوں کے معیار بلند کرے گا، دوسرے اعمالِ صالحہ بجا لائے گا تو یقینا خدا تعالیٰ کے حضور وہ جزا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ گناہوں کی سزا تو دونوں، عورتوں اور مردوں، کو اُن کے غلط اعمال کی وجہ سے دیتا ہے یا دے اور نیکی کی جزا باوجود اس کے کہ عورتیں نیک اعمال بجا لا رہی ہیں، اُتنی نہ دے جتنی مردوں کو دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسی ارشاد کا نتیجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں نے حقوق بجا لانے کی طرف بھی توجہ دی، اپنی عبادتوں کے حق بھی ادا کئے اور دوسرے نیک اعمال بجا لانے کی طرف بھی توجہ دی۔ حتی المقدور جتنی کوشش ہو سکتی تھی، کی۔ دین کی خاطر قربانیاں بھی دیں۔ اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اپنی جان کے نذرانے بھی پیش کئے۔

چند مہینے پہلے میں نے آپ کے اجتماع پر آپ کو یہ توجہ دلائی تھی، اُس میں گو اتنی حاضری نہیں تھی، کہ یہاں آ کر رہنے والی، اس معاشرے میں آ کر رہنے والی ہر عورت ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ اُس کی کیا تعلیم ہے اور اپنی اصل تعلیم کو بھول نہ جائیں۔ اسی طرح بچیاں دنیا کی چمک اور رونقوں کو ہی سب کچھ نہ سمجھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ وہ کون ہیں، اُن کے مقاصد کیا ہیں اور اُن کے عہد کیا ہیں۔ کیا عہد وہ کر رہی ہیں۔ ایک احمدی مسلمان عورت اور لڑکی معاشرے میں انقلاب لانے کے لئے پیدا کی گئی ہے، نہ کہ معاشرے کی رونقوں کا حصہ بننے کے لئے۔ عورت نے یہ نہیں دیکھنا کہ مرد کیا کرتے ہیں بلکہ انہوں نے یہ دیکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک احمدی عورت کو بھی یہ ارشاد ہے کہ کُنتُمۡ خَیۡۡرَ أُمَّۃٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِالۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنکَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِاللّہِ  (سورۃ آل عمران:111)  تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا ہے۔ تم نیکی کی ہدایت کرتی ہو اور بدی سے روکتی ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتی ہو۔  بعض کے دل میں شاید یہ خیال آ جائے کہ چند مہینے پہلے بھی ہمیں اس حوالے سے نصیحت کی تھی اور آج پھر اُسی کو دہرا رہے ہیں۔ (میرا خیال ہے کہ مَیں نے یہی بات کی تھی)، تو میراجواب یہ ہے کہ اگر آپ سب مجھے یہ یقین دہانی کروا دیں کہ اجتماع پر کی گئی تمام باتوں کی ہر عورت نے سو فیصد تعمیل کر لی ہے تو پھر کسی اور بات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اسلام کی تعلیم کا محور ہی یہ ہے کہ مسلمان خیر اُمّت ہیں جن کا کام نیکیوں کی تلقین کرنا ہے اور برائیوں سے روکنا ہے اور اللہ تعالیٰ پر اپنے کامل ایمان کا اظہار کرنا ہے۔ جب انسان میں کامل ایمان پیدا ہو جائے تو پھر نیکیاں اُس کا اوڑھنا بچھونا ہو جاتی ہیں جن کا اظہار اُس کے ہر عمل سے ہو رہا ہوتا ہے اور جب اپنے عمل اُس معیار کے ہوں جہاں نیکیاں نظر آ رہی ہوں اور صرف نیکیاں نظر آ رہی ہوں، تبھی ہم دوسرے کو نیکیوں کی تلقین کرنے کا حق رکھ سکتے ہیں۔ تبھی ہم حقدار ٹھہرتے ہیں کہ دوسرے کو بھی نیکیوں کی تلقین کریں۔ اگر ہمارے عمل اُس کے مطابق نہ ہوں تو دوسروں کو نیکیوں کی ہم کیا تلقین کریں گے۔ ان ملکوں میں رہتے ہوئے بعض کے نیکیوں کے معیار شاید بدل گئے ہوں یا بعض کے بدل جاتے ہیں، لیکن ہم نے نیکیوں کے معیار وہ رکھنے ہیں جن کی خدا تعالیٰ نے ہمیں تلقین کی ہے، ہمیں ارشا د فرمایا ہے۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق اُس کے فضل کے حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُوْلٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا(النساء:125)اور جو لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں، مومن ہونے کی حالت میں نیک کام کریں گے تو وہ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن پر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

پس ’’وَہُوَ مُؤۡمِنٌ‘‘ کہہ کر اور پہلے آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں ’’تُؤۡمِنُونَ بِاللّہِ‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ہی نیک اعمال کو نیک اعمال قرار دیا ہے۔ اگر اُس تعلیم سے پرے ہٹ کر کوئی عمل ہیں، جتنی مرضی نیکیاں ہوں وہ نیک عمل صالح نہیں ہو سکتے۔ انسانوں کی تعریف کے مطابق نہیں ہوتے یہ۔ پس ہر احمدی عورت اور مرد کا کام ہے کہ ایمان کے اس معیار کو حاصل کرتے ہوئے اُن نیک اعمال کی تلاش کرے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی جنت کا وارث یا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا جن لوگوں کو بتایا ہے اُن کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ ’’اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ‘‘ کہ وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ اب یہ بات دیکھنے کے لئے سب سے پہلے تو ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے، اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت تمام دنیاوی محبتوں کے مقابلے میں غالب ہے؟ اگر ہے تو یقینا ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے وارث بننے والے ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ مرنے کے بعد ان جنتوں کے وارث بنیں گے، بلکہ یہ دنیا بھی اُن کے لئے جنت بنا دی جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ  (الرحمن:47) کہ جو اپنے رب کی شان سے ڈرتا ہے اُس کے لئے دو جنتیں ہیں، دنیا میں بھی اور اخروی بھی۔ اپنے رب کی شان سے ڈرنا اسی لئے ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت ہے، دل میں تقویٰ ہے۔ محبوب کا خوف اُس کی سزا کے ڈر سے نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اُس کی ناراضگی اُس سے دور کر دے گی۔ اور یہ ایک سچا محبت کرنے والا کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ جب دنیاوی محبتوں میں یہ حال ہے تو خدا تعالیٰ کی محبت میں کس قدراحتیاط کی ضرورت ہے۔ دنیاوی محبتیں تو بسا اوقات بد انجام پر منتج ہوتی ہیں اور پھر کوئی ضمانت نہیں کہ ان محبتوں میں یقینا سکونِ قلب کا سامان ہو گا، دل کی تسکین ہو گی۔ لیکن خدا تعالیٰ کی محبت میں تو اس دنیا میں بھی سکونِ قلب کی ضمانت ہے اور اُخروی زندگی میں بھی جو اصل زندگی ہے، جو مرنے کے بعد کی زندگی ہے اُس میں بھی سکونِ قلب کی ضمانت ہے۔

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

               ’’جو شخص خدا تعالیٰ کے مقام اور عزت کا پاس کر کے اور اس بات سے ڈر کر کہ ایک دن خدا تعالیٰ کے حضور میں پوچھا جائے گا، گناہ کو چھوڑتا ہے، اُس کو دو بہشت عطا ہوں گے۔ اول اسی دنیا میں بہشتی زندگی اُس کو عطا کی جاوے گی اور ایک پاک تبدیلی اُس میں پیدا ہو جائے گی۔ ‘‘

پس اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا خوف رکھنے والے اس دنیا میں ہی ایک پاک تبدیلی پیدا کرتے ہیں جو دوسروں کو بھی نظر آ رہی ہوتی ہے اور خدا اُس کا متولی اور متکفل ہو جائے گا۔  پھر فرمایا:

               ’’دوسرے مرنے کے بعد جاودانی بہشت اس کو عطا کیا جائے گا۔ یہ اس لئے کہ وہ خدا سے ڈرا اور اُس کو دنیا پر اور نفسانی جذبات پر مقدم کر لیا۔‘‘  (لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد20صفحہ158)

پھر آپ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ :

               ’’یاد رکھو جو خدا تعالیٰ کی طرف صدق اور اخلاص سے قدم اُٹھاتے ہیں وہ کبھی ضائع نہیں کئے جاتے۔ اُن کو دونوں جہان کی نعمتیں دی جاتی ہیں جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ ۔  اور یہ اسی واسطے فرمایا کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میری طرف آنے والے، (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والے) دنیا کھو بیٹھتے ہیں۔ بلکہ اُن کے لئے دو بہشت ہیں۔ ایک بہشت تو اس دنیا میں اور ایک جو آگے ہو گا۔ ‘‘  (ملفوظات جلد نمبر5صفحہ411مطبوعہ ربوہ)

 پس اگر انسان غور کرے تو عقلمندی کا سودا تو یہی ہے کہ نہ صرف اس دنیا کی نعمتوں کو پا لیا جائے، اُس کے لئے کوشش کی جائے بلکہ آخرت کی نعمتوں کو بھی پانے والا بنا جائے۔ پس ہر عمل جو انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے، اُس کے کرنے سے اس زندگی میں بھی انسان خداکی پناہ میں رہتا ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ ہمیشہ یاد رکھیں اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو کوئی شخص بھی اپنی کوشش سے  یا کسی کی مدد سے کسی شر سے نہیں بچ سکتا۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنے خوف رکھنے والے اور اپنی طرف آنے والے کا متولّی ہو جاتا ہے، اُس کا دوست بن کر اُس کے ہر کام کے وہ نتائج پیدا فرماتا ہے جو اُس کی دنیا و آخرت سنوارتے ہیں ۔ شیطان ایک انسان کو ورغلا کر دنیا کی چمک دکھا کر اپنی طرف مائل کرتا ہے کہ یہ چیزیں حاصل کرنے کی کوشش کرو اور بعض گھر اس لئے اُجڑ جاتے ہیں کہ مرد اُن کی خواہشات پوری نہیں کر سکتے۔ ڈیمانڈز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ یا اگر اُجڑتے نہیں تو بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے۔ لیکن جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والے ہوں اُن کا کفیل خدا خود ہو جاتا ہے، اُن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ایک عقلمند عورت وہی ہے جو یہ سوچے کہ میں نے اپنا گھریلو چین اور سکون کس طرح پانا ہے؟ اپنے گھر کو جنت نظیر کس طرح بنانا ہے۔ اگر دنیا کی طرف نظر رہے تو یہ سکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ حقیقی سکون خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ دنیاوی خواہشات تو بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری خواہش آتی چلی جاتی ہے جو بے سکونی پیدا کرتی ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھتے ہیں تو جو بھی خواہش ہو، اللہ تعالیٰ کے ملنے کی، وہ ایک درد ایسا پیدا کرتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا پیار بڑھتا ہے۔

پس حقیقی سکون خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کا کفیل ہوتا ہے تو گو اُس کی دنیاوی ضروریات بھی پوری فرماتا ہے لیکن یہ کفالت ایسی ہے جس میں دنیا ملنے کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدل جاتی ہیں، preferences  بدل جاتی ہیں۔ اور یہ ترجیحات خود غرضی کی ترجیحات نہیں ہوتیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی ترجیحات ہوتی ہیں۔ پھر دنیاوی کشائش کو ایسی عورت اپنے زیور، سونے اور فیشن کرنے میں خرچ نہیں کرتی بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتی ہے۔ جماعت پر خرچ کرتی ہے، غرباء پر خرچ کرتی ہے۔ ضرورتمندوں پر خرچ کرتی ہے۔ دین کی اشاعت پر خرچ کرتی ہے۔ اور ایسے خرچ کرنے والی عورتوں اور دنیا کی خاطر اپنی ضروریات کے لئے ہر وقت دولت کا مطالبہ کرنے والی عورتوں کا اگر آپ جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ یقینا جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ نیک اعمال کر رہی ہیں اُن کی زندگیوں میں جو سکون اور اطمینان ہے وہ دنیا دار عورتوں کی زندگیوں میں نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے گھروں میں بھی بے سکونی ہے جو دنیا داری والی ہیں۔ لیکن جو دین کو مقدم رکھنے والی ہیں، اُس کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہیں، اُنہیں گھروں میں بھی سکون ہے، اور ان کی عائلی زندگی بھی خوش و خرم ہے۔ اُن کے بچے بھی نیکیوں پر قائم ہیں اور جماعت کے ساتھ منسلک ہیں۔

 پس اصل جنت یہ سکون ہے جو ان گھروں میں ہے۔ آپ میں سے اکثریت پاکستان سے آئی ہیں۔ اگر اپنے پچھلے حالات کا جائزہ لیں تو یہاں آکر جہاں آپ کو دینی لحاظ سے سکون نظر آئے گا، یعنی آزادی سے اپنے دینی فرائض ادا کرنے کی وجہ سے بے فکری سے اپنے دین کا اظہار کرنے کی وجہ سے آپ کو اُس دنیاوی خوف سے جو پاکستان میں ایک احمدی کو ہے امن حاصل ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو امن میں لے آیا ہے اور سکون کی کیفیت ہے۔ لیکن اس دینی سکون کے ساتھ یہاں آپ کو مالی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے مستحکم کیا ہے۔ لیکن اگر اس مالی استحکام کو آپ نے اپنی اصل ترجیح بنا کر اس کے حصول کے لئے ہی کوشش شروع کر دی اور کرتی چلی گئیں اور اس کے پیچھے پڑی رہیں اور دین کو بھول گئیں، اپنی اصل ترجیحات کو بھول گئیں تو پھر گھروں کا سکون بھی برباد ہونا شروع ہو جائے گا۔ اور پھر صرف آپ پر ہی اس کا اثر نہیں ہو گا بلکہ آپ کی اولاد بھی ان دنیاوی رونقوں میں ڈوبنے کی وجہ سے دین سے دور چلی جائے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا جب پھر آپ کو احساس ہو گا کہ میرے سے غلطی ہو گئی۔ ایسی صورت میں اولاد نہ صرف دین سے دور جاتی ہے بلکہ ماں باپ کے ہاتھوں سے بھی نکل جاتی ہے۔ اُن کا ادب و احترام کرنا بھی چھوڑ دیتی ہے۔

اسی طرح جو جوان بچیاں ہیں اُن سے بھی مَیں کہوں گا کہ اگر بعض بچوں کے دل میں یہ خیال آتاہے کہ ہم کیوں بعض معاملات میں آزاد نہیں ہیں؟ تو وہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ آزاد ہیں لیکن اپنی آزادی کو اُن حدود کے اندر رکھیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے مقرر کی ہیں۔ اگر آزادی یہاں کے معاشرے کی بے حجابی کا نام ہے تو یقینا ایک احمدی بچی آزاد نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسی آزادی کے پیچھے جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں اُن کے اندر رہتے ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔  (صحیح البخاری کتاب الایمان باب الحیاء من الایمان حدیث نمبر24)

 اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا پاتا ہے بشرطیکہ تم مومن ہو، تمہارے میں ایمان ہو۔ پس ہر احمدی بچی کو اگر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہے اور اپنے عملوں کی نیک جزا چاہتی ہے تو اپنی حیا کی بھی حفاظت کرنی ہوگی۔ ایک احمدی بچی کا لباس بھی حیا دار ہونا چاہئے نہ کہ ایسا کہ لوگوں کی آپ کی طرف توجہ ہو۔ ایسے فیشن نہ ہوں جو غیروں کو، غیر مردوں کو آپ کی طرف متوجہ کریں۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض عورتوں نے ایسے برقعے بھی پہنے ہوتے ہیں، بعضوںنے شروع کر دئیے ہیں جس پر بڑی خوبصورت کڑھائی ہوئی ہوتی ہے اور پھر پیٹھ پر، back میں کچھ الفاظ بھی لکھے ہوتے ہیں۔ اب بتائیں یہ کونسی قسم کا پردہ ہے۔ پردے کا مقصد دوسروں کی توجہ اپنے سے ہٹانا ہے۔ یہ احساس دلانا ہے کہ ہم حیا دار ہیں لیکن اگر برقعوں پر گوٹے کناری لگے ہوئے ہوں اور توجہ دلانے والے الفاظ لکھے ہوئے ہوں تو یہ پردہ نہیں ہے، نہ ایسے برقعوں کا کوئی فائدہ ہے۔

 پھر جہاں تک میک اَپ کا سوال ہے اگر میک اَپ کرنا ہے تو پھر جب باہر نکلیں چہرہ کو بھی مکمل طور پر پھر ڈھانکیں۔ پھر یہ صرف ماتھے کا اور ٹھوڑی کا حجاب نہیں۔ پھر پورا نقاب ہونا چاہئے۔ کوٹ گھٹنوں سے نیچے ہونے چاہئیں۔ یہ بھی حیا کا حصہ ہے۔ اگر آپ نے ٹراؤزر (Trouser) یا جین (Jean) پہننی ہے تو قمیص لمبی ہونی چاہئے۔ بعض لڑکیاں سمجھ لیتی ہیں کہ گھر میں جِین کے اوپر ٹی شرٹ پہن لیا یا چھوٹا بلاؤز پہن لیا تو ایسا کوئی فرق نہیں پڑتا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے لمبا کوٹ پہن لیا۔ جبکہ گھر میں اپنے باپ بھائیوں کے سامنے بھی ایسا لباس پہننا چاہئے جو حیادار ہو، مناسب ہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اُن سے پردہ نہ کرنے کا کہا ہے لیکن حیا کو بہر حال ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ پھر گھر میں کسی وقت بھی کوئی عزیز رشتے دار بھی بعض دفعہ آ جاتا ہے، اپنے باپ بھائیوں کے سامنے بھی اچانک کوئی آ جاتا ہے تو سامنے ہونا پڑتا ہے اور ایسا لباس پھر اُن کے سامنے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لئے گھر میں بھی اپنا لباس جو ہے حیادار رکھنا چاہئے۔ بیشک حجاب کی ضرورت نہیں ہے، سر ننگا پھر سکتی ہیں۔ لیکن تب بھی لباس ایسا ہوناچاہئے جو بہر حال حیادار ہو۔ اسلئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ نے اپنی حیا کی حفاظت کرنی ہے تا کہ ایمان کی حفاظت ہو اور پھر اس دعویٰ کی سچائی بھی ثابت ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمن کی نشانی بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اُس کے احکام پر عمل ہو اور حیادار لباس گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی پہنیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ حیا کے تقاضے پورے کرنے کے بعد آپ کو کوئی نہیں روکتا کہ آپ ڈاکٹر بنیں، یا انجینئر بنیں یا ٹیچر بنیں یا کسی بھی ایسے پیشے میں جائیں جو انسانیت کے لئے فائدہ مند پیشہ ہے۔ آپ اس کے ساتھ بالکل آزاد ہیں۔

پس ہر احمدی بچی کا ایک تقدس ہے، اُس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ اپنے تقدس کا خیال اور حیا کا اظہار ہی ہے جو آپ کو نیکیوں کی تلقین کرنے والا اور برائیوں سے روکنے والا بنائے گا۔ آپ کے اپنے نمونے آپ کو دوسروں کے لئے، اپنی سہیلیوں کے لئے توجہ کا باعث بنائیں گے۔ جس سے آپ کے لئے تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔

تبلیغ کی بات ہوئی ہے تو یہاں یہ بھی بتا دوں کہ عورتوں اور لڑکیوں کو اپنی صنف والوں کو ہی تبلیغ کرنی چاہئے۔ لڑکیاں لڑکیوں کو تبلیغ کریں اور لڑکے لڑکوں کو کریں۔ اس تبلیغ کے لئے آپ مزید راستے تلاش کریں۔ آپ یہاں آزاد ہیں۔ خدام الاحمدیہ کی رپورٹ آتی ہے کہ اتنے لاکھ لیف لیٹس (Leaflets) تقسیم ہو گئے، لجنہ کی طرف سے کبھی اتنی تفصیلی رپورٹ نہیں آتی کہ اتنے لاکھ لیفلٹ (Leaflet) لجنہ نے تقسیم کئے۔ حالانکہ عورتیں عورتوں میں تبلیغ کر سکتی ہیں۔ یہاں اپنی آزادی کا استعمال کریں اور بعض کرتی بھی ہیں۔ لیکن جس وسعت سے عورتوں کے ذریعے عورتوں میں تبلیغ ہونی چاہئے، وہ نہیں ہوتی۔ پس اپنی ترجیحات کو یہاں بدلنا ہو گا۔ فیشن کے پیچھے چلنے کے بجائے دین کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوں تو آپ کو دنیاوی باتوں کے سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔ اور یہ عمل خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔ اور دنیا کی رہنمائی کا ذریعہ بھی آپ بن جائیں گی۔ آج دنیا کو آپ کی تلاش ہے۔ دنیا بھٹک رہی ہے۔ جہاں مَردوں کو تبلیغ کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر کودنے کی ضرورت ہے وہاں عورتوں کو بھی اپنی صلاحیتوں کو اس میدان میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مردوں سے یہ مطالبہ کرنے کی بجائے کہ ہمیں فلاں چیز لے کر دو یا فلاں دنیاوی خواہش پوری کرو، یہ مطالبہ کیا کریں کہ آج ہم تبلیغ کے لئے اور دنیا کو راستہ دکھانے کے لئے فلاں جگہ جاتے ہیںجہاں لٹریچر تقسیم کریں گے۔ یا میری فلاں سہیلی ہے جسے دین سے دلچسپی ہے اُس نے مجھے بلایا ہے کہ میری اور سہیلیاں بھی یہاں جمع ہیں، آ کے تبلیغ کرو اس لئے مجھے وہاں لے جاؤ۔ عورتوں کی تبلیغ میں دلچسپی سے مردوں میںبھی مزید دلچسپی پیدا ہو گی اور یہاں جبکہ اس قوم کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے تو آپ ہی ہیں جو حقیقی اسلام کی تعلیم بتاکر ان کے لئے فائدہ کا موجب بن سکتی ہیں، رہنمائی کا موجب بن سکتی ہیں۔

 جیساکہ میں نے کہا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو لا کر یہاں مغربی ممالک میں  آپ کو مالی طور پر بھی بہت زیادہ بہتر اور مستحکم کر دیا ہے۔ جب شروع میں پاکستان سے آنے والے یہاں آتے ہیں تو چند دن یاد رکھتے ہیں کہ ہم کیوں آئے۔ اس لئے آئے کہ بعض کو جان کا خطرہ تھا۔ اس لئے کہ بعض کے کاروبار احمدی ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئے یا ہو رہے تھے۔ اس لئے کہ بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی تھی۔ اس لئے کہ ذہنی سکون نہیں تھا۔ اور جیسا کہ میںنے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ مذہبی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے بے چینی اور بے سکونی تھی۔ بعض کے عزیز رشتہ دار شہید ہوئے اس لئے ملک چھوڑ دیا۔ بعض صرف اس لئے آئے اور اکثریت ایسی ہے جنہوں نے عمومی ملکی حالات کی وجہ سے جو احمدیوں کے لئے وہاں پیدا کئے گئے ہیں یہاں کی حکومتوں کا رویہ دیکھ کر ہجرت کر لی کہ امن سے بھی رہیں گے اور مالی کشائش بھی پیدا ہو جائے گی۔ ہر احمدی جو یہاں آیا ہے، اُن میں سے 99.9فیصد احمدیت کی وجہ سے یہاں آئے ہیں اور یہاں رہنے کافیض بھی احمدیت کی وجہ سے ہی پا رہے ہیں ان کی اپنی کوئی ذاتی خوبیاں نہیں ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ احمدیت کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو یہاں پہنچائیں۔ ہر گھر تک پہنچائیں، ہر شخص تک پہنچائیں۔ یہ عورتوں کا بھی فرض ہے اور مردوں کا بھی فرض ہے۔ یہاں آکر آباد ہونے کی وجہ سے اور اچھے کام ملنے کی وجہ سے، اچھے حالات ہونے کی وجہ سے مالی کشائش ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو بھول نہ جائیں۔ اپنے مقصد کو بھی بھول نہ جائیں۔ جماعت سے تعلق کو بھول نہ جائیں۔ اُن لوگوں کی قربانیوں کو بھول نہ جائیں جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر احمدیت کی آبیاری کی ہے۔ اپنی جان کے نذرانے دے کر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے خون بہا کر نہ صرف اپنی اولادوں کے لئے بہتر حالات کے سامان پیدا کئے ہیں بلکہ اُن احمدیوں کے لئے بھی بہتر حالات کے سامان پیدا کئے ہیں جن سے خونی رشتہ نہیں تھا، جن سے صرف احمدیت کا رشتہ تھا۔ پس آپ کا یہاں آنا آپ کی کسی خوبی کی وجہ سے نہیں تھا جیسا کہ میں نے کہا، بلکہ یہ اُن قربانیوں کا نتیجہ اور اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اس احسان کو خود بھی یاد رکھیں اور اپنے بچوں کے ذہنوں میں بھی تازہ رکھیں۔ سن 74ء سے پہلے کسی کو خیال ہی نہیں تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں احمدی ملک سے باہر نکلیں گے اور ان مغربی ممالک میں جائیں گے۔ ان قربانی کرنے والوں کی وجہ سے ہی آپ باہر نکلے ہیں۔ ان قربانی کرنے والوں میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں جنہوں نے اپنی جان کے نذرانے بھی پیش کئے۔ جن کے معاملات جب یہاں حکومتوں کو پیش کئے گئے تو یہاں حکومتوں کی طرف سے آپ کی رہائش کا بندوبست کیا گیا۔ پس ان قربانی کرنے والوں کو بھی یاد رکھیں۔ ان قربانی کرنے والوں میں سے اس وقت میں آپ کے سامنے بعض خواتین کا ذکر کر دیتا ہوں۔ آج تک یہ قربانیاں ہو رہی ہیں جو یہاں آپ کے آنے کا ذریعہ بن رہی ہیں اور آپ کے یہاں رہنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔

1978ء میں سانگلہ ہل میں شیخو پورہ میں ایک خاتون تھیں رشیدہ بیگم صاحبہ، قاری عاشق حسین صاحب کی اہلیہ۔ انہوں نے 1976ء میں بیعت کی تھی اور نہایت اخلاص سے اپنے عہدِ بیعت کو نبھایا اور ہر دُکھ اور قربانی کو بڑی خوشی سے قبول کیا۔ 1978ء کا واقعہ ہے کہ ان خاوند قاری صاحب نماز تراویح پڑھا کر آئے تو ان کا جو سٹنگ روم (Sitting Room) تھا اس میں دو مہمان بیٹھے تھے۔ پرانے دوست تھے۔ جب ان سے فارغ ہو کر اندر گئے ہیں تو بیوی سے پوچھا ہے کیا بات ہے؟ تم ابھی تک سوئی نہیں کافی دیر ہو گئی ہے؟ کہنے لگی حافظ صاحب! مجھے نیند نہیں آ رہی۔ حافظ صاحب نے پوچھا کیا وجہ ہے۔ کہنے لگیں کل رات خدا نے مجھے بتایا ہے کہ جس لڑکے کو تو نے خود پالا ہے وہ تیرا قاتل ہے۔ یہ لڑکا قاری صاحب کا بھتیجا تھا۔ عبداللہ نام تھا اُس کا اور تقریباً نو ماہ کی عمر سے بیس سال کی عمر تک مرحومہ نے اُسے پالا۔ اور اس کے بارے میں خوابیں بھی دیکھی تھیں اور یہ خواب بھی دیکھی۔ دیکھیں کیسی صفائی سے پوری ہوئی۔ یہ یقین تھا کہ کوئی نہ کوئی ،کچھ نہ کچھ حرکت یہ شخص کرے گا اور پھر وہی کچھ ہوا کہ جب انہوں نے احمدیت قبول کر لی تو اُس کے بعد غیروں نے پھر اس لڑکے کو ورغلانا شروع کیا اور اپنی محسنہ ماں کا مخالف بنا دیا۔ پھر انہوں نے کہا بھی قاری صاحب کو کہ میرا خیال ہے ہمارا یہاں رہنا مناسب نہیں، یہاں سے ہم ربوہ چلے جاتے ہیں کیونکہ لڑکا ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حافظ صاحب نے کہا نہیں کوئی بات نہیں، صدقہ وغیرہ دے دو۔ آپ کا بیٹا ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ لیکن خدا کی بات بہر حال پوری ہونی تھی، ہوئی۔ اور ایک دن صبح کے وقت قاری صاحب اپنے کسی دوست کے ساتھ فیصل آباد چلے گئے۔ لڑکا جو ایک سال پہلے قاری صاحب کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اُن کے جانے کے بعد وہ گھر میں داخل ہوا اور یہ بچیوں کو قرآنِ کریم پڑھا رہی تھیں، اُن بچیوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ آگے ہوئیں۔ ان پر حملہ کیا اور پھر چاقوؤں کے کئی وار ان کی چھاتی پر کئے۔ وہ اُسے روکتی رہیں کہ تم کیا کر رہے ہو۔ لیکن بہر حال وہیں اس نے یہ کہہ کر کہ تم کافر ہو گئی ہو، اس لئے ان کو شہید کر دیا۔

پھر ایک شہید خاتون رخسانہ طارق صاحبہ ہیں۔ ان کے والد کا نام مرزا خان صاحب تھا۔ سرگودھا کے رہائشی تھے اور اُنہیں بھی 9؍ جون 1986ء کو عید کے روز مرحومہ کے جیٹھ بشارت احمد نے شہید کر دیا۔ رخسانہ صاحبہ نے عید پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور طارق کے بڑے بھائی ان کے جیٹھ بشارت نے مخالفت کی اور ڈانٹ کر منع کر دیا کہ وہاں احمدیوںکی مسجد میں عید پڑھنے نہیں جانا۔ مگر یہ وہی پرانے کپڑے پہن کر عید پر چلی گئیں۔ حالانکہ شادی کے بعد یہ ان کی پہلی عید تھی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اگر تیار ہو کر جانے نہیں دیتے تو میں اسی طرح چلی جاتی ہوں، مجھے کوئی نئے کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اور عید کی نماز میں بہت روئیں۔ گھر واپس آتے ہوئے بہت خوش تھیں اور پھر سب کے لئے ناشتہ بھی تیار کیا ۔ ان کے خاوند کہتے ہیں کہ میں حیران تھا کہ اتنی خوش کیوں ہے؟ سب سے خوشی سے ملیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ آخری لمحات ہیں۔ ان کو اپنی شہادت کی اطلاع بھی شاید مل چکی تھی ۔ اتنے میں ان کا بڑا بھائی بشارت احمد آیا اور رخسانہ سے کہا کہ تمہیں میں نے منع کیا تھا کہ تم نے احمدیوں کی مسجد میں نماز پڑھنے نہیں جانا، تم کیوں گئی ہو۔ رخسانہ نے کہا کہ تم جتنا چاہو منع کر لو، میں باز نہیں آؤں گی۔ میں جاؤں گی وہیں جاؤں گی کیونکہ میں نے احمدیت قبول کر لی ہے۔ یہ میرا مذہبی معاملہ ہے۔ اس پر بشارت نے مرحومہ پر پستول کے تین فائر کئے جو مقتولہ کی چھاتی اور ٹانگ پر لگے اور تھوڑی دیر میں انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے خاوند کہتے ہیں، والد بیان کرتے ہیں کہ ایک عجیب بات ہے جو میں نے رخسانہ میں دیکھی،وہ شادی کے چند دن بعد ہی اپنے جہیز بانٹنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مجھ سے اجازت لے کر سارا سامان جو جہیز کا تھا، غریب لڑکیوں میں تقسیم کر دیا۔

 اسی طرح ایک عزیزہ بچی نبیلہ مشتاق کو اور اس کے گھر والوں کو بھی شہید کیا۔ یہ بچی دس سال کی تھی، اس کو بھی ظالموں نے شہید کردیا۔ اسی طرح ایک مبارکہ بیگم صاحبہ چونڈہ ضلع سیالکوٹ کی تھیں۔ دعوتِ الی اللہ کا بڑے جوش اور جذبے سے کام کرتی تھیں۔ اب وہاں دعوتِ الی اللہ کرنا تو بہت بڑا جرم ہے۔ یہی میں نے کہا کہ آپ لوگ یہاں آزاد ہیں۔ آزادی سے یہ کام تو کرسکتی ہیں۔ ڈوگراں والی گاؤں کے دو افراد عابد حسین اور اُن کی بہن کو احمدی کیا۔ دونوں نو مبائع جو تھے اُن کے گاؤں میں اُن کی بہت زیادہ مخالفت ہوئی، اُن کو حوصلہ دیتی رہتی تھیں۔ آخری بار یکم مئی 1999ء کو ڈوگراں والی گئیں تا کہ نو مبائع کے والد صاحب کو ربوہ کی زیارت پر لے جانے کا پروگرام بنا سکیں۔ وہ سیالکوٹ گئے ہوئے تھے۔ اُن کی واپسی کا انتظار کرتی رہیں۔ کوئی سواری نہ ملنے کی وجہ سے آپ کو ڈوگراں والی میں ہی رات بسر کرنی پڑی۔ نو مبائع کا ایک سوتیلا بھائی رفاقت حسین جو مجرمانہ ذہنیت کا مالک تھا اور منشیات اور چوری وغیرہ کے مقدمات میں ملوث تھا۔ گھر میں احمدیت پھیلانے کا ذمہ دار محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ کو سمجھتا تھا۔ (خود ہر قسم کی بدمعاشی کر رہا تھا، قاتل بھی، چور بھی، ڈاکو بھی، نشہ آور بھی، لیکن یہ برداشت نہیں تھا کہ گھر میں احمدیت پھیلے، دین اور خدا کا نام پھیلے) چنانچہ اُس نے 2؍ مئی 1999ء کو آپ پر چھریوں کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا۔ ہسپتال بھی لے جایا گیاوہاں جا کے آپ شہید ہو گئیں، وفات ہو گئی۔

اسی طرح شوکت خانم صاحبہ اہلیہ مکرم عبدالرحیم مجاہد صاحب۔ نامعلوم افراد نے جسمانی تشدد کے بعد دونوں کو، ان کے میاں کو بھی اور ان کو بھی گلے میں پھندا ڈال کر شہید کر دیا۔ دونوں بہت بوڑھے تھے۔ ڈاکٹر نورین شہید صاحبہ اور ڈاکٹر شیراز صاحب ملتان کے تھے۔ 2009ء میں ان کو بھی احمدیت کی وجہ سے شہید کر دیا۔ دونوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی اور ہاتھ پیر باندھے ہوئے تھے۔ یہ قاتل ان کے گھر میں آئے اور ان کو شہید کر دیا۔ پھر اسی طرح مریم خاتون صاحبہ ، جن کا پہلے بھی میں نے  2011ء میں، دسمبر میں ذکر کیا تھا، جنازہ پڑھایا تھا۔ ان کو بھی احمدیت کی وجہ سے شہید کر دیا گیاجبکہ یہ لوگ مسجد اور اپنی جائیداد کی حفاظت کے لئے مقابلہ کر رہے تھے۔

پس آپ لوگوں کا یہاں آنا ان قربانیاں کرنے والوں کا مرہونِ منّت ہے۔ آپ کی کوئی خوبی نہیں تھی جس کی وجہ سے جرمنی کی حکومت مجبور تھی کہ آپ کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے۔ اور نہ صرف اجازت دے بلکہ بہت سوں کو انہوں نے شہریت بھی دے دی۔ یہ یقینا اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی کہ بڑے پیمانے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والے دنیا میں پھیل جائیں اور اشاعتِ ہدایت کے کام میں تیزی اور سہولت پیدا ہو۔ لیکن اس کے لئے خدا تعالیٰ کی تقدیر نے کچھ لوگوں کو قربانیوں کے لئے بھی چنا تھا۔ انہوں نے اس لئے قربانیاں دیں کہ ہم میں سے ایک حصہ دنیا میں پھیل جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ انہوں نے اس لئے قربانیاں نہیں دی تھیں کہ ہمارا جو ایک حصہ ہے وہ دنیا میں پھیل کر دنیا داری کے پیچھے پڑ جائے۔ دین کو بھول جائے۔ اپنی پیدائش کے مقصد کو بھول جائے۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چلنے سے گریز کرنے لگ جائے۔ یا دنیا کو فوقیت دینے والے بن جائیں۔ دنیاکو مقدم کرنے والے بن جائیں۔  پس غورکریں اور اپنے جائزے لیں۔ ہمارے مقاصد بہت اونچے ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے بہت اعلیٰ مقاصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ دنیا کے پیچھے چلنے کے لئے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کے لئے پیدا کیا ہے۔ خیرِ اُمّت بنایا ہے۔ اب دنیا کی رہنمائی آپ نے کرنی ہے۔ ترقی کے راستوں کا تعین اب آپ نے کرنا ہے۔ نیک اعمال آپ نے بتانے ہیں۔ انسانی ترقی کے زینوں کی طرف آپ نے لے کر جانا ہے، نہ کہ یہاں کے ٹی وی پروگراموںنے یا دوسری قسم کی رنگینیوں نے۔ پس اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

مَیں یہ نہیں کہتا کہ آج ایسے اعمالِ صالحہ بجا لانے والوں کے نمونے ہمارے سامنے نہیں ہیں جو اپنے ملکوں میں رہتے ہوئے بھی یہ نمونے دکھا رہے ہیں جو ان مغربی ممالک میں رہتے ہوئے بھی یہ نمونے دکھا رہی ہیں۔ آج بھی اس دنیا کی چمک دمک کو دھتکار کر اپنے سونے کے زیورات دینے والی عورتیں آپ میں موجود ہیں۔ آج بھی اپنی ہزاروں لاکھوں یورو کی بچت کو جماعت پر قربان کرنے والی عورتیں آپ میں موجود ہیں۔ نیک اعمال کرنے والی اور عبادات بجا لانے والی عورتیں آپ میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والی عورتیں آپ میں موجود ہیں۔ اُس کی خشیت اور اس سے محبت رکھنے والی آپ میں موجود ہیں۔ لیکن یہ نمونے قائم کرنے والوں کی تعداد اس حد تک بڑھا دیں کہ نیک عمل نہ کرنے والی اور دنیا سے رغبت رکھنے والی اتنی تھوڑی رہ جائیں کہ ہمیں نظر ہی نہ آئیں۔ ایک ہی مقصد ہو ہر عورت کا اور ہر بچی کا اور ہر لڑکی کا اور ہر جوان کا اور بوڑھے کا کہ ہم نے جماعت کی خاطر ہر قسم کی قربانی دیتے چلے جانا ہے۔ اور اشاعتِ اسلام کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دیتے چلے جانا ہے۔ تبلیغ کے میدان میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔

اسلام کے پہلے زمانے میں اسلام کی شان بلند کرنے کے لئے عورتیں تلوار کے جہاد میں شامل ہوتی رہی ہیں۔ آج اسلام کی نشأۃ ثانیہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے ہو رہی ہے، اس میں آپ نے بھی جہاد میں شامل ہونا ہے اور وہ جہاد یہ ہے۔ اپنے نفس کی اصلاح کے جہاد میں شامل ہو کر یہ جہاد کرنا ہے۔ اور پھر دنیا کو حقیقی ترقی کے راستے دکھانے کے لئے یہ جہاد کرنا ہے جس سے دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو جائے۔ آج یہ ملک آپ کو غیر ترقی یافتہ ملکوں کے باشندے سمجھتے ہوئے رحم کھاتا ہے۔ یہاں کے لوگ جو ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگ غیر ترقی یافتہ ملکوں کے آئے ہوئے ہیں، مذہب کی وجہ سے سختیاں جھیلے ہوئے ہیں اور آپ پر رحم کیا جاتا ہے۔ آج آپ کا فرض ہے کہ ان پر رحم کھاتے ہوئے ان کو خدا تعالیٰ سے ملانے والی بن جائیں۔ پس یہ انقلاب ہے جو ہم میں سے ہر ایک نے برپا کرنا ہے اور زمانے کے امام کو ماننے کا حقیقی حق ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

 اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں