خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ ہالینڈ 20؍مئی 2012 ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

’’ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزارہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہرگز ایسا صاف نہیں ہو سکتااور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفا دار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد اُن میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ اُن کی فطرت میں پہلے ہی سے ایک مادہ رشد اور سعادت کا مخفی تھا مگر وہ کھلے طور پر ظاہر نہیں ہوا جب تک انہوں نے بیعت نہیں کی۔ غرض خدا کی شہادت سے ثابت ہے کہ پہلے میں اکیلا تھا اور میرے ساتھ کوئی جماعت نہ تھی اور اب کوئی مخالف اس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ اب ہزارہا لوگ میرے ساتھ ہیں۔ پس خدا کی پیشگوئیاں اس قسم کی ہوتی ہیں جن کے ساتھ نصرت اور تائیدِ الٰہی ہوتی ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 249)

 آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے دل خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف پھیر دئیے ہیں اور ایسے ایسے تائیدی نشان ظاہر ہو رہے ہیں کہ جو جہاں اُن لوگوں کے ایمان میں زیادتی کا باعث بنتے ہیں جن کے ساتھ یہ نشانات کے واقعات ہوتے ہیں، وہاں دوسروں کے لئے بھی ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس وقت مَیں آج کے واقعات بیان نہیں کروں گا۔ وہ واقعات، تائیدی نشانات بیان نہیں کروں گاجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ آج بھی ہو رہے ہیں ۔بلکہ اُس زمانے میں اور اُن لوگوں میں مَیں آپ کو لے جانا چاہتا ہوں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے براہِ راست فیض پایا اور وہ زمانہ دیکھا۔ کیسے کیسے انہوں نے نشان دیکھے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ پر کس طرح اُنہیں یقین تھا۔ وہ جانتے تھے کہ خدا کے مسیح کے الفاظ ہیں جو ان کو کہے گئے ہیں اور وہ ضرور بالضرور پورے ہوں گے۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں اُن کی رہنمائی فرمائی۔ مخالفین سے واسطہ پڑا تو    اَن پڑھوں نے بھی ایسے ایسے جواب دئیے کہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اُن کے ساتھ شامل ہے۔ کیا ایمانی حالت تھی اور کس طرح اُن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت تھی۔ ان واقعات سے یہ سب پتہ لگتا ہے۔ اور پھر یہ تائید و نصرت اُن کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی تھی۔

 انہی واقعات میں سے جو پہلا واقعہ ، پہلی روایت صحابہ کی مَیں نے لی ہے وہ حضرت محمد حسین صاحبؓ ولد میاں محمد بخش صاحب کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ غالباً 1902ء میںیا 1903ء کے شروع میں حضرت اقدس کی ایک اپیل منظور ہو کر جرمانے کا روپیہ واپس آیا تھا۔( یہ غالباً کرم دین جہلمی والے مقدمہ کی بابت تھا ) تو میرے والد صاحب دو روپے کے بتاشے لے کر اور مجھے ساتھ لے کر مسجد مبارک میں پہنچے۔ (اس زمانے میں بیتاشے میٹھے کے طور پر ا ستعما ل ہوتے تھے)۔ تو ہر ایک کو جتنی جتنی توفیق تھی اور ان کا اخلاص تھا وہ دوروپے کے بتاشے لے کر مسجد میں پہنچے اور ساتھ اپنے بچے کو لے گئے ۔ اور دورروپے بڑی رقم تھی۔ کہتے ہیں کہ مسجد چونکہ اس وقت بہت چھوٹی تھی، چند بزرگ آدمی وہاں پر موجود تھے۔ حضرت اقدس بھی تشریف فرما ہوئے۔ نماز ادا کی گئی۔ بعد نماز حضور کے سامنے وہ بتاشے میرے والد صاحب نے پیش کئے اور عرض کیا کہ حضور! مقدمے میں فتح کی خوشی میں یہ لایا ہوں۔ حضور نے خوشی کا اظہار فرمایااور حکم دیا کہ تقسیم کر دو۔ میرے والد صاحب نے عرض کیا کہ جب تک حضور نہ کھائیں گے اُس وقت تک میں تقسیم نہ کروں گا۔ یہ سُن کر حضور مسکرائے اور مٹھی ہاتھ میں لے کر اور اُن میں سے ایک منہ میں ڈال کر یا دو تین کھائے ہوں گے، نصف کے قریب اندر بھیج دئیے اور باقی تقسیم کرنے کے بعد میرے والد صاحب نے حضور کے سامنے بیٹھ کر یہ باتیں سنائیں کہ حضرت جی! (اُن کا اپنا انداز تھا ایک بے تکلفی کا) مَیں تو درحقیقت اُسی دن احمدی ہو گیا تھا جس دن مارٹن کلارک کے مقدمے کا فیصلہ ہوا تھا۔کیونکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے جو اپنی مسجد کا امام مولوی امام الدین مقرر کیا ہوا تھا، اُس نے اس مقدے کے شروع ہونے پر ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ محمد حسین شیر کے منہ میں(یعنی محمد حسین بٹالوی کوشیر کہتا تھا) اب مرزا صاحب بکرا آیاہے۔ (نعوذ باللہ) اب یہ زندہ نہیں جا سکتا۔ مگر جب نتیجہ میں نے دیکھا تو مولوی امام الدین سے میں نے کہا کہ میاں جی! (مولوی کو میاں جی کہتے تھے) یہ تو الٹا ہی کام ہو گیا۔ بکرے نے شیر کاوہ حال کیا ہے کہ منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اس پر حضرت صاحب بہت ہنسے اور کچھ فرمایا بھی جو مجھ کو یاد نہیں رہا۔ پھر کہتے ہیں میرے والد نے کہاکہ میاں ایسا شرمندہ ہوا کہ حضرت جی! وہ میرے سامنے سے اب نہیں گزرتا۔ خیر مَیں نے تو بیعت کر لی۔ جب مولوی محمد حسین کو معلوم ہوا تو میرے پاس ایندھن خریدنے کے لئے آیا( ان کا ٹال تھا، لکڑی کا کاروبار تھا) کہتے ہیں پہلے مَیں اُس سے بہت تعظیم سے پیش آیا کرتا تھا، مگر اس واقعہ کے بعد پھرمجھ کو اُن کی شکل دیکھنے سے نفرت ہو گئی۔(بٹالے کے دہلی دروازے کے باہر ہی ہمارا لکڑی کا ٹال تھا) اس لئے مَیں اپنے تخت پوش پر ہی بیٹھا رہا۔( جب وہ مولوی آیا، تو وہاں جو تخت پوش بچھا ہوا تھا وہیں اپنے اڈّے پر بیٹھے رہے) مولوی کو ناگوار گزرا اور بولے کہ میاں محمد بخش! کیا محمد اکبر کی طرح تم بھی پھر گئے ہو۔ میں نے کہا مولوی صاحب! جب کوئی کام ہو پھر آتے ہیں ورنہ اپنے اڈّے پربیٹھتے ہیں۔ (کام ہو، ضرورت ہو تو آتے ہیں۔ نہیں تو ملازم ہیں وہ آپ کی ضرورت پوری کر رہے ہیں) مولوی نے کہا میرا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ محمد اکبر تو مرزائی ہو گیا تھا کیا تم بھی ہو گئے ہو۔ تو حضرت جی! (حضرت مسیح موعود کو کہتے ہیںکہ)  میں نے جواب دیا کہ مولوی صاحب! پہلے آپ پھرے تھے بعد میں ہم پھرے۔ مولوی محمد حسین صاحب کہنے لگے یہ کس طرح؟ کہتے ہیں میں نے کہا کہ آپ کے پیچھے ہم ہمیشہ جمعہ پڑھتے رہے اور آپ نے کئی بار خطبہ میں فرمایا تھا کہ مرزا صاحب نے جو کچھ براہین میں لکھا ہے( یعنی براہین احمدیہ میں)وہ سب سچ ہے اور مرزا صاحب بہت بڑے بزرگ ہیں۔ یہ باتیں آپ کی سن کر ہم نے بھی اُن کو بزرگ مان لیا تو ہمارا کیا قصور۔ مولوی صاحب ( مولوی محمد حسین صاحب)بولے کہ اُس وقت وہ سچے تھے۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب! بڑے تعجب کی بات ہے، کبھی وہ بھی جوہری کہلانے کا حقدار کہلا سکتا ہے جو جواہر کی شناخت تو پورے طور پر نہ کرے اور یونہی کھرا کھوٹا کہہ دے۔ اُس پر مولوی صاحب خاموش ہو کر واپس چلے گئے اور آج تک کبھی کوئی بات نہیں کی۔(کہ پہلے آپ اُن کو سچا کہتے تھے اچھے آپ جوہری ہیں۔ اپنے آپ کو بڑا عالم سمجھتے ہیں، ایسا عالم جس کو پہچان ہی کوئی نہیں) کہتے ہیں  اس پر حضرت اقدس نے فرمایا(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا )کیا پیارا خدا ہے جس نے اپنے اَن پڑھ بندے کو القاء کر کے اتنے بڑے مولوی کو لاجواب کر دیا۔ یہ خدا کی نصرت ہے۔

(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلد 7 صفحہ 95 تا97 روایت حضرت محمد حسین صاحبؓ ولد میاں محمد بخش صاحب)

پھر ایک روایت حضرت اللہ دتہ صاحب ہیڈ ماسٹر ولد عبدالستار صاحب کی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ:

 ’’ خاکسار قوم حُر بنی اسرائیل سے ہے۔ ہمارے آبائی پیر کشمیر سے آتے تھے۔ میرے احمدی ہونے پر وہ بگڑ گئے اور کہا کہ ہم اس کے سارے کام بند کر دیں گے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا۔ حضور کی طرف سے جواب آیا کہ یہ لوگ خود تباہ ہوں گے، تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل ہوئے اور اُس پیر کی نسل بند ہو گئی اور خود نابینا ہو گیا۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 7 صفحہ 119 روایت حضرت اللہ دتہ صاحبؓ)

اس کی مزید تفصیل آگے ایک روایت میں بیان کرتے ہیں۔ اُسی پیر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے احمدی ہونے پر جب میرا پہلا کشمیر کاپیر حیدر شاہ بگڑ کر کہنے لگا، میں قمر شاہ کا بیٹا نہیں اگر اس کے کام سب بند نہ کئے۔ (یعنی تم احمدی ہو گئے ہو، تمہارے سب کام بند نہ کر دئیے تو) میںنے حضور علیہ السلام کی خدمت میں لکھا۔ حضور نے تسلی فرمائی کہ یہ لوگ خود تباہ ہوں گے، تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پیر صاحب کے ہاں ایک لڑکی تھی۔ اولاد کی خاطر ایک روز نکاح کیا تو وہ لڑکی بھی مر گئی اور آپ نابینا ہو گیا اور میں جو دس روپے کا ملازم تھا اور کوئی اولاد اُس وقت نہ تھی ضلع بھر کا سینئر ہیڈ ماسٹر ہو گیا اور بیٹے ،پوتے اور نواسے ہو گئے۔ میرا چپڑاسی ہی اس وقت سولہ روپے تنخواہ لیتا ہے۔(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 7 صفحہ 400-401 روایت حضرت اللہ دتہ صاحبؓ)

پھر آگے کہتے ہیں کہ آج سے چھتیس سال پہلے رمضان المبارک میں خاکسار قادیان میں تھا، مسجد مبارک میں تہجد ادا کر کے بیٹھا تھا کہ میں نے دیکھا۔ (یعنی تہجد کے بعد بیٹھے تھے کہ نظارہ دیکھا، یا خواب کی صورت تھی) کہ جامن کے درخت پر بڑے موٹے سیاہ جامن لگے ہوئے ہیں۔ میں سیڑھی لگا کر چڑھ گیا اور ایک ہاتھ مار کر بہت سے جامن نگل گیا۔ مجھے اس نظارے سے فکر پیدا ہوئی کہ کہیں مجھے پلیگ نہ ہو جائے( طاعون نہ ہو جائے) تو الہام ہوا اس سے یہ مراد ہے کہ تیرے دشمن برباد ہوں گے۔ (جب یہ فکر پیدا ہوئی، ساتھ ہی الہام بھی ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرے دشمن تباہ ہوں گے۔) چنانچہ ہمیشہ میرے دشمن برباد ہوتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حضور علیہ السلام نے مجھے خوشبو دار صابن کی ٹکیہ اور ایک جائے نماز دیا۔ یہ بھی ایک نظارہ دیکھا یا خواب دیکھی۔ جب دیا ہے تو حضور علیہ السلام نے خواب میں ہی فرمایا کہ صابن اپنے پاس رکھو اور جائے نماز امیر کابل کو دے دو۔ جب حضور علیہ السلام سیر سے تشریف لائے تو مَیں نے ایک کاغذ پر یہ دونوں خواب لکھ کر حضور کی خدمت میں اندر بھیج دئیے۔ حضور کو اس قدر پسند آئے کہ خلافِ معمول کاغذ ہاتھ میں لئے باہر تشریف لے آئے۔ اور مجھے فرمایا یہ آپ کے خواب ہیں۔ مَیں نے عرض کیا ہاں حضور! فرمایا کہ بڑے مبارک خواب ہیں۔ پہلے کی تعبیر تو وہی ہے جو خواب میں بتائی گئی ہے (یعنی دشمن برباد ہوں گے) اور جو صابن آپ کو دیا گیا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے گناہ کی میل دھو دے گا۔ اور جائے نماز امیرِ کابل کو دینے سے یہ مراد ہے کہ اللہ آپ کے ذریعے کچھ دنیا داروں کو ہدایت دے گا۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 7 صفحہ 119 روایت حضرت اللہ دتہ صاحبؓ)

پھر حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فرماتے ہیں کہ قریباً ستائیس سال ملازمت سرکار کی اور پندرہ روپیہ ماہوار سے دو سو روپیہ ماہوار تک تنخواہ ملی بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ ہر مشکل اور تکلیف میں جہاں کوئی دوست کام نہ آیا وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی کام آتا رہا۔ اور میرے سب کام اُس کے فضل و کرم سے ہوئے۔ بڑے بڑے ابتلاء آئے اور آسانی سے گزر گئے۔ بیگانوں نے تو یہ سلوک ( بدسلوکی)کرنا ہی تھا خود اپنوں نے میرے ساتھ    سالہا سال برادرانِ یوسف کا سا سلوک روا رکھا۔مگر خدا تعالیٰ نے ہر معاند و حاسد کو اُس کے حسد و فساد میں ناکام رکھا۔ خدا تعالیٰ نے ہمیشہ میری دعائیں سنیں۔ اللہ ہی کے حق میں میرا خیر مد نظر تھا۔ کہتے ہیں کہ اہلِ لاہور نے توہینِ رسالت کا ایک بہتان میرے ذمہ باندھا اور احرارِ سرحد نے میرے قتل کے واسطے ایک بے گناہ شخص کو میرے سرِ بازار قتل پر آمادہ کیا۔ خدا تعالیٰ نے میری بریت کے واسطے پستول میں گولی ٹیڑھی کر دی اور پستول چل نہ سکا۔ قاتل کو  ارباب محمدعجیب خان صاحب احمدی نے گرفتار کیا اور حوالہ پولیس ہوا اور گورنمنٹ سرحد نے اُس کو نو سال کے واسطے جیل میں بند کر دیا۔ دشمن ناکام ہوئے۔ خدا ہمارے ساتھ تھا اور اب بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام پورا ہوا کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔

(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 7 صفحہ 199-200 روایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ)

پھر ایک روایت ہے ،حضرت حافظ جمال احمد صاحب حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کی روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بیان کیا میرے سامنے حضرت مولوی سرور شاہ صاحبؓ نے کہ دیوبند سے فارغ التحصیل ہو کر مَیں نے ( مولوی سرور شاہ صاحب نے)حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بغرض تحقیق سب کتابیں پڑھیں۔ مجھ پر صداقت کھل گئی۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ حضور! اجازت دیں تو میں اپنے ایمان کو مخفی رکھوں کیونکہ یہاں پر مَیں جامع مسجد کا امام ہوں اور قاضی بھی ہوں۔ ایک گزارے کی صورت بنی ہوئی ہے۔ حضرت صاحب نے جواب میں لکھا کہ مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ سچائی کو چھپائے بلکہ مومن پر جب کوئی سچائی کھل جاتی ہے تو وہ اُس کو دوسروں پر ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے مَیں آپ کو اپنا ایمان چھپانے کی اجازت نہیں دیتا۔ تب میں نے ارادہ کر لیا کہ جب ظاہر ہی کرنا ہے تو اچھی طرح کروں۔ چنانچہ اُس کے لئے میں نے جمعہ کا دن تجویز کیا جبکہ ارد گرد کے دیہات کے لوگ بھی جمع ہو جاتے تھے۔ مَیں نے خطبہ کے بعد اعلان کیا( وہاں مسجد میںنمازِ جمعہ پڑھاتے تھے) کہ نماز کے بعد سب بھائی تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائیں، مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے متعلق اپنی دو تین برس کی تحقیق کے حالات بیان کئے اور آخرمیں کہا کہ مجھ پر اُن کی سچائی کھل گئی ہے اور مَیں نے اُن کو قبول کر لیا ہے۔ اتنے میں ایک بڈھا شخص کھڑا ہوا اور کہا بھائیو! ذرا ٹھہرو میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ لوگوں نے کہا کہو۔ اُس نے کہا مَیں ایسے نہیں کہتا۔ پہلے میرے ہاتھ میں قرآن دو۔ لوگ قرآن لائے۔ اُس نے وہ قرآن واپس کر دیا اور کہا کہ جو سب سے بڑا قرآن ہے وہ لاؤ۔ لوگ بڑی تقطیع کا قرآن مسجد سے اُٹھا لائے۔ (بڑا بھاری قسم کا، موٹا موٹا لکھا ہوا) اُس نے قرآن اپنے سر پر رکھا اور کہا بھائیو! تم جانتے ہو کہ مَیں حاجی ہوں۔ پھر اس وقت باوضو اور قبلہ رُخ جامع مسجد میں کھڑا ہوں۔ پھر بڈھا ہوں۔ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں اور سب سے بڑا قرآن سر پر رکھا ہوا ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مولوی صاحب نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ سب غلط ہے۔ میں خود قادیان گیا ہوں، میں نے مرزا صاحب کو دیکھا ہے کہ وہ رات کے وقت مکان کی چھت پر ننگے ہو کر نعوذ باللہ تاروں کی پوجا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں تو اس بڈھے کی جھوٹی گواہی سُن کر گھبرا گیا کہ معلوم نہیں لوگ اب میرا کیا حال کریں گے کہ اتنا جھوٹ بول رہا ہے۔ (یعنی حاجی بھی، یہ تو حاجیوں کا حال یہی ہے اور قرآن کو بھی بڑا نہیں سمجھتے کہ یہ کونسی بھاری چیز ہے اُٹھا لیتے ہیں۔ بلکہ آجکل تو جو نام نہاد علماء ہیں، یا حاجی وہ اس سے بڑے الزام لگاتے ہیں) کہتے ہیں کہ میں اسی بات پر گھبرایا ہوا تھا کہ لوگ میرا کیا حشر کرتے ہیں ۔ یہ بہت جھوٹ بول چکا ہے۔ اتنے میں ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا بھائیو! ذرا ٹھہر جاؤ میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اب تو میں اور بھی گھبرایا۔ کیونکہ پہلا بڈھا تو جاہل تھا، مگر یہ شخص مولوی تھا اور اس علاقے میں سب جگہ پھر کر وعظ کیا کرتا تھا۔ میں نے خیال کیا کہ اس نے اگر کوئی فتویٰ جڑ دیا تو میرے لئے اپنی جان بچانا مشکل ہوجائے گا بلکہ نا ممکن ہو جائے گا۔ غرض اس شخص نے کہا کہ اس بڈھے سے قرآن لے کر مجھے دو۔ اُس نے قرآن ہاتھ میں لے کر لوگوں سے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو۔ میں مرزا صاحب کامرید نہیں بلکہ میں گولڑہ والے پیر صاحب کا مرید ہوںمگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس بڈھے نے جو کچھ بھی کہا وہ سب کا سب جھوٹ ہے۔ یہ قادیان ہرگز نہیں گیا لیکن میں قادیان گیا ہوں۔ کیونکہ وہاں پر نورالدین بڑا لائق حکیم ہے۔ میں اپنے بھائی کے علاج کے لئے اُن کے پاس قادیان گیا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہاں قرآن حدیث کے سوا کوئی چرچا نہیں اور رات دن ان کو اسلام کی ترقی کا فکر ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارا بعض مسئلوں میں اُن کے ساتھ اختلاف ہے مگر اُن پر اتنا جھوٹ باندھ کر اُن کو بدنام کرنا یہ میں ہرگز جائز نہیں سمجھتا۔ تو سرور شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اس مولوی کے اس بیان سے میری جان میں جان آئی۔ آخر میں اس علاقے سے پشاور چلاگیا۔ وہاں خدا نے میرے لئے اور بہتر راہ نکال دی۔(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 7 صفحہ 394-395 روایت حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ)

اللہ تعالیٰ نے اُس جھوٹے کا جو جھوٹ تھا وہ بھی غیر از جماعت کے ذریعے سے ظاہر کیا۔

پھرحضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ طاعون کی وبا پڑی اور ہمارے گاؤں میں بھی چوہے مرنے لگے، اور بعض آدمی مبتلائے وبا ہو گئے تو بعض غیر احمدی جوہمارے سخت مخالف تھے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ان مرزائیوں میں سے کوئی طاعون سے مرے تو ان کی کوئی شخص قبر نہ کھودے اور نہ ہی کفن دفن میں کوئی ان کی مدد کرے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خط لکھا اور دعا کی درخواست کی۔ اس پر رات کو میں نے خواب دیکھا کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے مکان کی چھت پر کھڑے ہیں۔ اس کے بعد میں بیدار ہو گیا۔ اس کے بعد جب تک طاعون کا سلسلہ قائم رہا غیر احمدی ہلاک ہوتے رہے لیکن حضرت اقدس کی برکت سے ہمارے گھر میں ایک چوہا تک بھی نہ مرا۔ اور جب بہت سے مخالف طاعون سے ہلاک ہو گئے تو اب اُن کی کچھ سمجھ میں آیا کہ مخالف مُلاّں تو یہ کہتے ہیں کہ طاعون کی وبا مرزا اور مرزائیوں کی وجہ سے پھیلی ہے لیکن مرزائی تو سب کے سب محفوظ ہیں اور ایک چوہا بھی ان کے گھر نہیں مرا۔ اور ہم لوگ جو اپنے آپ کو پکا مومن اور مسلمان سمجھ رہے ہیں ہم ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد بعض آدمی ہمارے گھر میں آ کر ہم سے دعا کی درخواست کرتے اور پانی دَم کرانے کے لئے کہتے۔ یہ اس خیال سے کہ شاید یہ لوگ مرزا صاحب کے دعویٰ کی تصدیق میں اور آپ پر ایمان لانے میں صادق ہی ہوں۔ اور ساتھ ہی طاعون کے خوف سے دل میں اس قدر ڈر محسوس ہوتا تھا کہ جس کی وجہ سے آ کر کہتے کہ ہم جناب مرزا صاحب کو ہرگز برا نہیں کہیں گے اس لئے ہمارے لئے دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں طاعون سے محفوظ رکھے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں طاعون سے بالکل محفوظ رکھا اور ہمارے گھر کے دس گیارہ آدمی جو خدا کے فضل سے محفوظ رہے۔ عذاب طاعون سے محفوظ رہنا مسیح موعود کا ایک نمایاں نشان تھا۔ اس پہلی دفعہ کی طاعون کے بعد بعض لوگوں نے بیعت بھی کر لی تھی جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 10 صفحہ63-64 روایت حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ)

پھر حضرت میاں عبدالرشید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ امرتسر کا واقعہ ہے کہ یہاں پر جنگی شوالہ کے عین سامنے ایک پہلوان عزیز نامی تھا۔ اتوار کا دن تھا۔ اُس نے میرے مکان سے مجھے بلا کر حضرت اقدس کی بہت توہین کی اور کہا کہ مرزا صاحب لاہور میں جب فوت ہوئے تو اُن کی نعش وہاں پر بہت خراب ہوئی اور اس میں کیڑے پیدا ہو گئے اور سخت عفونت پڑ گئی۔ میں نے اُس کو کہا کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کیونکہ بعض اوقات ایسی باتوں پر اللہ تعالیٰ گرفت کر لیتا ہے۔ ایسا واقعہ لاہور میں ہرگز کوئی نہیں ہوا۔ اور ایسی باتیں بعض اوقات زندگی میں انسان پر خود ہی وبال لے آتی ہیں اور انسان مرتا نہیں جب تک وہ اس تکلیف میں خود ہی گرفتار نہیں ہو جاتا۔ اس کے بعد اُسی رات کا یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے مکان کے اوپر سویا تھا۔ اُس کے مکان کے سامنے ایک پیپل کا درخت تھا اور مکان پر کوئی منڈیر نہ تھی۔ وہ رات کو کسی وجہ سے اُٹھا ہے اور پیپل کے درخت پر جس کی شاخ اُس کے کوٹھے پرپھیلی ہوئی تھی معلوم ہوتا ہے اُس نے اپنا ایک کپڑا دھو کر اوپر ڈالنا چاہا۔ اُس کا پاؤں پھسل گیا جس سے وہ بازار میں دھڑام سے نیچے گر گیا اور ایک آواز پیدا ہوئی جس کو میں نے سنا مگر رات کو اس کا چنداں خیال نہ کیا۔( اس کومحسوس نہ کیا، توجہ نہ دی) یہی سمجھا کہ پٹرنگ لوگ جو بہت صبح اُٹھتے ہیں اُن کی وجہ سے کوئی آواز ہے۔ جب صبح نماز کے بعد میں مکان کے نیچے گیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو عزیز پہلوان رات کو مکان کے اوپر سے گرا ہے۔ اُس کی حالت نہایت بری ہو چکی تھی۔ وہ مر چکا تھا اور بیشمار کیڑے اُس کے جسم پر چل رہے تھے۔ چونکہ لاش کو اُٹھانے کے لئے پولیس کا آنا ضروری تھا اس لئے وہ اسی جگہ کافی دیر تک پڑا رہا۔ اُس کی لاش پر کپڑا ڈالا ہوا تھا اور اُس کے بدن میں سخت عفونت پیدا ہو گئی تھی۔ اور چونکہ اُس کے جسم سے خون بھی کافی نکلا تھا اس لئے بہت سے کیڑے اُس کے جسم پر آ گئے تھے جس سے اُس کی لاش ڈھکی ہوئی تھی۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 11 صفحہ 35-36 روایت حضرت میاں عبد الرشید صاحبؓ)

حضرت شیخ زین العابدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں افریقہ رہتے رہتے چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا تو وہاں ایک خطرناک بیماری مروڑوں کی پھوٹ پڑی۔( یعنی پیٹ خراب ہونے لگ گیا) جس کو مروڑ لگتے تھے مزدور اُس کی قبر کھودنا شروع کر دیتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کی مثال بھی ایسی نہیں مل سکتی تھی کہ اُسے مروڑ لگے ہوں اور وہ بچ گیا ہو۔ جس شخص کو پہلا اجابت ہوتی، دست آتا، وہ کام چھوڑ دیتا اور اُسے یقین ہو جاتا تھا کہ اب میری وفات کا وقت بالکل قریب ہے اور مزدور اُسی وقت قبر کھودنے چلے جاتے تھے اور واپس آتے تھے تو لاش تیار ہوتی تھی۔ کہتے ہیں ایک دفعہ حافظ صاحب کام کر رہے تھے کہ اُنہیں بھی مروڑ لگ گئے۔ حافظ صاحب بہت گھبرائے اور کام چھوڑ کر ڈیرے پر آ گئے اور مجھے کہا کہ اب مَیں چند گھنٹوں کا مہمان ہوں اگر کوئی چارہ چل سکتا ہے تو چلا لو۔ میں نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ ہرگز نہیں مر سکتے۔ حضرت صاحب نے مجھے خود فرمایا ہے کہ تم زندہ اور فائدہ حاصل کر کے واپس آؤ گے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ شاید ان الفاظ کا کچھ اور مطلب ہو۔ میں نے کہا آپ کے متعلق تو حضرت صاحب کا الہام بھی ہے اور ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ افریقہ میں آپ فوت ہو جائیں۔ خیر وہ بہت گھبرائے۔میں نے کہا کیا آپ برداشت کر لیں گے کہ دو چار گھنٹے میں آپ سے جدا ہو جاؤں۔ کہنے لگے کہ اچھا جیسے آپ کی مرضی، مگر مجھے پانی دینے کے لئے کسی آدمی کے سپرد کر جاؤ۔ میں نے ایک مزدور کو کہا کہ میرے بھائی کو پانی دینا۔ مزدور نے مجھے کہا کہ کیا آپ کے بھائی کی قبر کھود دی جائے۔ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ حضرت مرزا صاحب کا الہام ہے کہ یہ زندہ واپس ہندوستان جائے گا۔ اُس کی قبر افریقہ میں ہرگز نہیں ہو سکتی۔ اُس مزدور نے کہاایشین ہی تھا کہ تم مرزائی لوگ یونہی مرزا صاحب کی کرامات بیان کرتے رہتے ہو۔ اگر یہ شخص بچ گیا تو ہم یقین کریں گے کہ تمہارا مرزا سچا ہے۔ میں نے کہا میرا بھائی ہرگز نہیں مرے گا۔ تم ہرگز قبر تیار نہ کرو۔ خیرمیں وہاں سے چل پڑا۔ قرآنِ مجید میرے ہاتھ میں تھا اور میرا ارادہ تھا، جو صاحب تھا اُن کا افسر اُس سے دس دن کی چھٹی لینے کاتھا۔ صاحب کا ڈیرہ آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میں سارے راستے روتا گیا، دعا کرتا گیا۔ قرآنِ مجید پڑھتا گیا۔ رستے میں جنگلی جانور بیشمار تھے مگر میں نے ادھر اُدھر دیکھا ہی نہیں۔ جب وہاں پہنچا، افسر کے ڈیرے پر، تو کلرک جو کہ ہندو تھا اُس کو میں نے سلام کیا مگر اُس نے توجہ ہی نہ کی۔ پھر میں نے دو روپے اُس کو دئیے، اُس کے بغیر کام نہیں ہوتا تھا۔ اس پر وہ خاطر مدارات سے پیش آیا۔ میں نے دو روپے اور دے دیے اور کہا کہ صاحب سے ملا دو میں چھٹی لینا چاہتا ہوں۔ اُس نے کہا صاحب سویا ہوا ہے۔ مگر چلو میں صاحب کو دبانے لگ جاؤں گا۔( یہ ترکیب کی اُس نے کی کہ میں جاتا ہوں اور افسر کو دبانے لگ جاتا ہوں) وہ جاگ پڑے گا اور میں کھانسوں گا تم اندر آ جانا۔ اُس نے ایسا ہی کیا اور میں اندر چلا گیا۔ سلام کیا اور رخصت کی درخواست کر دی۔ صاحب نے بڑا بُرا کہا کہ یہ پنجابی لوگ محض رنڈیوں اور طوائفوں کے پیچھے شہر میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں سرکاری راشن ملتا ہے، وردی ملتی ہے تو شہر جانے کی ،خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کلرک نے کہا یہ دونوں بھائی نئے مذہب کے ہیں اور دینداری میں ان کی مثال ڈویژن میں نہیں ملتی۔ آپ ایسے الفاظ ہرگز استعمال نہ کریں۔ خیر وہ افسر شریف تھا۔ اُس نے کہا اگر ایسا ہے تو معافی چاہتا ہوں۔ مجھے کہا کہ معاف کر دو۔ مَیں نے پھر اُس سے عرض کیا کہ ہم تو غریب آدمی ہیں، رخصت لینے آیا ہوں آپ رخصت دے دیں۔ اُس نے فوراً رخصت منظور کر لی۔ مَیں واپس پہنچا اور ضروری برتن لے کر گاڑی پر اپنے بھائی سمیت سوار ہو گیا اور ممباسہ شہر میں پہنچا۔ کہاں تو یہ تھا کہ دو تین گھنٹے بھی نہیں گزرتے تھے۔ واپس آئے اور بھائی ٹھیک ٹھاک تھے، اُن کو لے کر ممباسہ چلے گئے۔کمزوری تھی۔ وہاں تیس چالیس آدمی ہماری جماعت کے تھے۔جب انہوں نے سنا کہ جمعدار حامد علی اور اُن کا بھائی آیا ہے تو باوجود اس کے کہ ہم غریب تھے اور وہ بڑے امیر تھے اور تمام پانچ پانچ سو کے قریب تنخواہ پانے والے تھے مگر سارے استقبال کے لئے آ گئے اور اس طرح محبت سے پیش آئے کہ سگے بھائی ہرگز محبت سے مظاہرہ نہیں کرتے۔ چنانچہ وہاں اُن کی صحت بھی ہو گئی۔

( ماخوذازرجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 11 صفحہ 54تا 57 روایت حضرت شیخ زین العابدین صاحبؓ)

پھر حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب شام کی نماز پڑھ کر مسجد میں لیٹ جایا کرتے تھے اور بچے حضور کو دبایا کرتے تھے۔ میرا بچہ محمد حسین بھی دبا رہا تھا۔ حضرت اقدس کی آنکھیں بند تھیں۔ ایک اور لڑکا جلال جو پٹی کا تھا اور مغل تھا، وہ بھی دبا رہا تھا۔ تو کہتے ہیں حضرت      اُمّ المومنین بھی پاس بیٹھے تھے۔ یکدم حضرت صاحب نے جو آنکھ کھولی تو فرمایا کہ محمد حسین ڈپٹی کمشنر بنے گا اور جلال اُس کے گھوڑے کو چارہ ڈالا کرے گا۔ شاید اُس وقت کوئی نظارہ دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے، یہ پیشگوئی فرمائی۔ یہ جو غریب آدمی ہے یہ تو ڈپٹی کمشنر بن جائے گا اور یہ مغل جو ہے یہ اُس کے گھوڑے کو چارہ ڈالے گا۔ حضرت ام ا لمومنین نے جب یہ الفاظ سنے تو فوراً اُٹھ کر اندر گئیں اور میری بیوی کو جا کر مبارکباد دی کہ حضرت صاحب نے آپ کے لڑکے محمد حسین کو ڈپٹی کمشنر بنا دیا ہے۔ بس پھر کیا تھا ہر طرف سے مبارکباد مبارکباد کی آوازیں آنے لگیں اور سارا گھر خوشی سے بھر گیا کہ ہمارا یہ بچہ جو ہے وہ بڑا افسر بنے گا۔ خیر اُس کے بعد یوں ہوا کہ محمد حسین نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اول رہا۔ ڈپٹی کمشنر جہلم نے اُسے ایک تمغہ دیا چاندی دیا اور دو تمغے اور احباب کی طرف سے ملے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد نہر کے محکمے میں پچیس روپے پر ملازم ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد محمد حسین نے ڈپٹی کمشنر کو جو راولپنڈی میں تبدیل ہو کر چلا گیا تھا، چھٹی لکھی کہ میں نہر کے محکمے میں پچیس روپے پر ملازم ہوں، بتائیے آپ نے جو تمغہ مجھے دیا تھا وہ میرے کس کام کا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے لکھا کہ آپ کو آٹھ روز کے اندر اندر بلا لیا جائے گا۔ خیر آٹھ روز کے اندر اندر ڈپٹی کمشنر نے اُسے راولپنڈی بلا لیا اور چالیس روپے ماہوار پر اپنے دفتر میں ملازم رکھ لیا۔ایک دفعہ میں جو راولپنڈی گیا تو محمد حسین نے کہا کہ آپ کو اپنے بیٹھنے کی جگہ دکھاؤں اور میں نے کہا اگر کوئی ممانعت نہ ہو تو ضرور دکھاؤ۔ وہ مجھے دفتر لے گیا اور بتایا کہ دیکھئے یہ میز اور کرسی ڈپٹی کمشنر صاحب کی ہے اور یہ میز اور کرسی میری ہے۔ اور دونوں میزوں کے ساتھ ساتھ ایک صراحی پانی کی اور ایک ایک گلاس رکھا ہوا تھا اور باقی کلرکوں کے بیٹھنے کی جگہیں بالکل علیحدہ تھیں۔ میرے دل میں فوراً حضرت صاحب کا فرمان آ گیا اور میں نے کہا کہ میرے نزدیک تو حضرت صاحب کی بات پوری ہو گئی۔ تم ڈپٹی کمشنر بن گئے۔ پانچ چھ ماہ کے بعد وہاں ایک کلکتہ دفتر تھا اُس میں ایک ساٹھ روپے ماہوار کی آسامی نکلی۔ لوگوں نے تحریک کی کہ تم بھی اس کے لئے تیاری کرو۔ اُس نے کہا صرف آٹھ دن رہ گئے ہیں میں کیسے تیاری کر سکتا ہوں۔ مگر لوگوں کے زور دینے پر اُس نے کتابیں دیکھیں اور امتحان میں بیٹھ گیا۔ خدا کے فضل سے اور کرم سے دو تین سو لڑکوں میں اول نکلا اور پینسٹھ روپیہ پر ملازم ہو گیا۔ پھر تنخواہ بڑھ گئی۔ وہاں ہندو افسر تھے، اُن کے ساتھ اُن کی کھٹ پھٹ ہو گئی۔ رخصت لے کر رہتاس آ گیا۔ جہلم کے ڈپٹی کمشنر کو ’’ہِیر‘‘( ایک پنجابی میں جو ایک لمبی نظم ہے  شعری صورت میں) کے ترجمہ کی ضرورت تھی۔ وہ کسی موزوں آدمی کی تلاش میں تھا۔ ڈپٹی کمشنر کو ایک قانون گو  نے کہا (انگریز ڈپٹی کمشنر تھا) کہ راولپنڈی کے کلکتہ دفتر میں ایک یہاں کا لڑکا محمد حسین ملازم ہے، رخصت پر آیا ہوا ہے وہ شاید ترجمہ کر لے گا۔ ڈپٹی کمشنر نے محمد حسین کو بلایا۔مَیں بھی ساتھ گیا۔ ڈپٹی کمشنر کے ساتھ باتیں کیں۔ اُس نے پوچھا تمہاری تعلیم کہاں تک ہے۔ محمد حسین نے کہا کہ میٹرک تک ہے۔ اُس کی میم بولی،(بیوی اُس کی) کہ نہیں نہیں یہ ترجمہ نہیں کر سکے گا، کہ فلاں ہیڈ ماسٹر نہیں کر سکا حالانکہ وہ بی۔اے ہے۔فلاں بی۔اے نہیں کر سکا تو یہ میٹرک کیسے کر سکتا ہے۔ محمد حسین نے کہا آپ امتحاناً مجھے دو تین ورق دے دیں اگر پسند آئے تو کروا لینا ورنہ نہیں۔ جب یہ ان اوراق کا ترجمہ کر کے لے گیا تو اُس نے بہت پسند کیا اور ساری کتاب کا ترجمہ کرا کر دو سو روپے انعام دیا۔ پھر چونکہ راولپنڈی میں اس کی طبیعت نہیں لگتی تھی، نوکری چھوڑ کر رہتاس آ گیا۔ کسی نے کہا کہ افریقہ چلے جاؤ، افریقہ گیا تو فوراً تین سو شلنگ ماہوار پر ملازم ہو گیا۔ اُن دنوں ساغر چند ولایت میں تھا،ان کا کوئی ہندوواقف تھا، اُس نے لکھا کہ آجکل بیرسٹری کا امتحان آسان ہے دوستوں کو توجہ کرنی چاہئے۔ محمد حسین کو خیال آیا کہ افریقہ سے نوکری چھوڑ کر گھر آ گیا اور کہا  میرے اس امتحان کے لئے جو امداد آپ دے سکتے ہیں، دیں۔ مَیں نے کہا کہ زمین بیچ لو اور کچھ زیور وغیرہ لے لو۔ اُس نے کچھ روپیہ اکٹھا کیا، ولایت چلا گیا۔ یہاں انگلستان آ گیا۔ ایک سال میں بیرسٹری پاس کر کے افریقہ پریکٹس شروع کر دی اور یہاں تک ترقی کی کہ بہت مشہور ہو گیا اور نیروبی کے ڈپٹی کمشنر نے غالباً چار ماہ کی رخصت لی، اُس کا قائمقام محمد حسین کو مقرر کیا گیا۔( جو ڈپٹی کمشنر بن گیا۔)   ( ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 11 صفحہ 92تا 95 روایت حضرت ملک غلام حسین صاحبؓ مہاجر)

پھر حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ 1897ء میں ایک واعظ محمد علی بوپڑی ہوا کرتا تھا۔ وہ جماعت احمدیہ کا سخت دشمن تھا۔جہاں جاتا سلسلہ احمدیہ کے خلاف تقریریں کرتا اور لوگوں کے جذبات کو ہمارے خلاف بھڑکاتا۔ پہلے ایام سے جب ابھی جماعت احمدیہ کی مخالفت کی طرح لوگوں میں نہیں ڈالی گئی تھی۔( یعنی بہت زیادہ لوگوں میں جوش نہیں پیدا کیا گیا تھا) اس کا وعظ عام رنگ کا تھا اور چونکہ وہ اپنے وعظ میں اشعار کو ایک خاص طرز اور لَے سے پڑھا کرتا تھا، لوگ اُس کے وعظ کو سُنا کرتے تھے اور والد صاحب مرحوم کو بھی اکثر اس خیال سے کہ وہ لوگوں کو آخر نیک امور کی طرف توجہ دلاتا ہے ان دنوں سے اُس کی مجلس میں جاتے تھے اور اُس کے ساتھ سلام دعا تھی۔ اس تعارف کاواعظ مذکور نے ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہا۔ اُس کو یہ بھی معلوم تھا کہ والد صاحب مکرم کے دل میں سیدنا حضرت مسیح موعود کی بڑی عزت تھی لیکن اس خیال سے کہ جو کبھی کبھی اُس کی دعوت کر دیتے تھے، شاید اس کا اثر اُن کی طبیعت پر ہو گا۔ (یعنی اُس کو خیال آیا کہ میرا بھی اثر ہوگا۔) اس نے اُن کی خدمت میں عرض کیا کہ چونکہ میں نے (یعنی بیٹے نے) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی ہے وہ مجھے گھر سے نکال دیں۔ اس کے جواب میں والد صاحب نے کہا کہ افسوس آپ نے میری دعوتوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہا ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اپنے اس بچے کو مَیں اس لئے نکال دوں کہ اس نے اپنی آوارگی کو چھوڑ کر نیک صحبتیں اختیار کرلی ہیں اور بے نمازی کی عادت چھوڑ کر وہ پکا نمازی بلکہ تہجد گزار ہوگیا ہے۔ اور حضرت مرزا صاحب کے احکام کی اتباع میں اُس نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر لی ہیں۔ آپ بتائیں کہ آپ کے وعظ و نصائح سے لوگ کیا اثر قبول کرتے ہیں۔ مجھے تو آپ لوگوں میں ایک آدمی بھی ایسا نظر نہیں آتا جو انسان کی کایا کو اس طرح پلٹ دے جس طرح حضرت مرزا صاحب اپنی قوت قدسی سے روز مرّہ سینکڑوں انسانوں کے دلوں میں ایسی پاک تبدیلیاں پیدا کر دیتے ہیں۔

( ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 11 صفحہ 156الف، روایت حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحبؓ)

حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب مجھے حلقہ ومیلی میں پورے دو سال کام کرتے ہوئے گزر گئے تو اتفاقاً ایک دن میںکسی کام کے لئے تحصیل میں گیا۔ جب میں تحصیل کے کام سے فارغ ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے حلقہ ومیلی کا ایک گروہ میری طرف آ رہا ہے جن میں سے تین چار اشخاص پکڑ کر کہا کہ چچا اور بھتیجے کی لڑائی ہو پڑی ہے اور لڑائی میں بھتیجے سے اپنے چچا کے ضرب شدید آ گئی ہے جس کی وجہ سے پولیس نے دفعہ 325میں چالان کر دیا تھا۔( دو آدمیوں میں لڑائی ہوئی پولیس نے چالان کر دیا۔) اور آج اس معاملہ میں پیشی ہے اور دونوں فریق باہم راضی نامہ کرنا چاہتے ہیں مگر پولیس والے راضی نامہ نہیں ہونے دیتے۔( اب دونوں فریقین راضی ہونا چاہتے ہیں لیکن پولیس ٹانگیں اڑا رہی تھی، اُن کی اَنا کا مسئلہ بن گیا تھا۔) کہتے ہیں میں نے سادگی سے اُنہیں کہا کہ جب ہر دو فریق راضی ہیں اور گواہ بھی راضی نامہ پر رضا مند ہیں اور آپ بھی سب یہی چاہتے ہیں تو پھر راضی نامہ کو کون روک سکتا ہے؟ آپ عدالت میں لکھ کر دے دیں کہ ہم سب راضی نامہ میں رضامند ہیں۔ چنانچہ اُن سب نے عدالت میں راضی نامہ لکھ کر دے دیا۔اس پر پولیس نے تحصیلدار کوشکایت کردی کہ پٹواری نے ہمارا مقدمہ بگاڑ دیا ہے۔یہ پٹواری تھے جس پر تحصیلدار صاحب نے میری تبدیلی کی رپورٹ کر دی مگر سردار گلاب سنگھ بہادر سینئر سب جج نے جو کہ موضع ومیلی کے رہنے والے تھے اور اتفاق سے تین یوم کی رخصت پر گھر آئے ہوئے تھے۔ جب انہوںنے سنا کہ ہمارے پٹواری کی تبدیلی ہوتی ہے تو آپ میرے حلقہ کے چھ دیہات کے تمام لوگوں کو ہمراہ لے کر ڈپٹی کمشنر صاحب بہادرکے پاس ہوشیار پور جا پہنچے اور کہا کہ اگر ہمیں خوش قسمتی سے دیانتدار اور شریف پٹواری ملا تھا تو سنا ہے کہ تحصیلدار صاحب اُسے تبدیل کرا رہے ہیں۔ ہم تمام لوگ دل و جان سے چاہتے ہیں کہ ہمارا پٹواری تبدیل نہ کیا جائے۔ صاحب بہادر نے بڑی خوشی سے سردار صاحب کا کہنا مان لیا۔ مگر سردار صاحب نے کہا کہ آپ نوٹ بک میں میرے سامنے یہ نوٹ لکھ لیں۔ اس پر صاحب بہادر نے نوٹ بک نکال کر اس میں عدمِ تبدیلی کا نوٹ درج کر لیا۔ مگر باوجود اس قدر سعی کے، کوشش کے خدا نے ازرُوئے ترحم نہ چاہا( یعنی اللہ تعالیٰ یہ رحم کرنا چاہتا تھا مجھ پر کہ میرے پیارے مسیح موعود کا غلام اس جگہ نہ رہے) لالہ رام داس صدر قانون گو جو غایت درجہ کا متعصب تھا (بہت زیادہ متعصب تھا مسلمانوں سے) اُس نے صاحب کے حکم بھجوانے سے پیشتر ہی اپنے کسی رشتہ دار کو میری جگہ افسر مال کے ذریعے بھجوا کر مجھے تبدیلی کا پروانہ بھجوادیا جس پر میں چالیس کوس کے فاصلے پر حلقہ باوا جٹّاں میں چلا گیا۔ ابھی مجھے چارج لئے چند دن ہی گزرے تھے کہ خبر ملی کہ تمہارے سابقہ حلقے میںتمہارے چلے آنے کے بعد وہاں شدت سے پلیگ پھوٹی ہے۔ (طاعون پھوٹی ہے) اس چھوٹے سے گاؤں میں دس دس بیس بیس کے قریب روزانہ موتیں ہوئیں۔ میں یہ سنتے ہی اپنے مولیٰ کے حضور سر بسجود ہو گیا کہ اُس نے کس طرح ستّاری فرما کر مجھے اس آگ سے نکال لیا۔

(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 6 صفحہ122تا124 روایت حضرت چوہدری امیر محمد خان صاحبؓ)

حضرت عطا محمد صاحب فرماتے ہیں کہ 1904ء کے اگست میں میرے مرحوم چچا مجھے اپنے ساتھ سجان پور ڈیرہ لے گئے۔ شاید فروری یا مارچ 1905ء تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اشتہار ’’عَفَتِ الدِّیَارُ مَحِلُّھَا وَمَقَامُھَا‘‘ وہاں پہنچا۔ وہ مَیں نے سکول کے باہر اور شہر میں چسپاں کیا۔ ایک سادہ کارمسلمان سنار حسن دین نامی مجھے اس حالت میں ملا اور کہنے لگا کہ احمدیوں کی صف لپیٹی جائے گی۔ میں نے جو جواب اُس کو دیا اُس کے اصل الفاظ تو یاد نہیں رہے لیکن مفہوم یہ تھا کہ چند روز تک معلوم ہو جائے گا کہ احمدیوں کی صف لپیٹی جاتی ہے یا تمہاری؟ اس کے بعد تین اپریل 1905ء کی شام کو ہمارے گھر دو احمدی مہمان آ گئے۔ بابو محمد اسماعیل صاحب پوسٹ ماسٹر اور منشی امام الدین صاحب ،ملازم راجہ صاحب اور ایک تیسرے شخص غیر احمدی تھے جن کا نام یاد نہیں رہا۔ ہر تینوں مہمان اور میرے چچا صاحب مرحوم اُس رات کریم بخش صاحب رنگ ریز کے ہاں جو میرے بزرگوار چچا کے فیض صحبت سے احمدی ہوئے تھے، اُن کے ہاں دعوت پر گئے۔ وہاں سے قریباً بارہ بجے رات کے وقت واپس ہوئے ۔جس مکان میں ہم رہتے تھے وہ سکول سے جو پرانی طرز کا تھا بہت پختہ اور دو منزلہ مکان تھا، بالکل ملحق تھا۔ 4؍اپریل 1905ء کی صبح کو نہایت شدید زلزلہ آیا مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے ہمارے گھر میں بالکل کوئی نقصان نہ ہوا۔ میرے مرحوم چچا صاحب اول مکان سے باہر نکل گئے۔ بابو محمد اسماعیل صاحب اور منشی امام الدین صاحب مکان کے اندر ہی رہے مگر ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچی۔ جس جگہ میری چارپائی تھی وہاں سے تھوڑی دیوار جنوب کی طرف سے اور اُسی قدر شمال کی طرف سے اور اوپر اُسی قدر چھت بچ رہی۔ تمام مکان کی بنیادیں تک اُکھڑ گئی تھیں۔ سکول کی دوسری منزل پر بورڈنگ کے لڑکے سوئے ہوئے تھے۔ وہ بفضلہ تعالیٰ سب محفوظ رہے۔ سکول کے تمام طالبعلم خواہ وہ شہر کے کسی حصہ میں تھے بالکل بچ گئے۔ سکول کے تمام استاد صاحبان خواہ وہ شہر کے کسی حصہ میں تھے ہر قسم کی بدنی آزار سے محفوظ رہے۔ صرف ایک سکھ اُستاد تھے جو نئے آئے تھے اور صبح کو چارج لینا تھا، اُن کی پیشانی پر ذرا سی خراش آئی تھی۔ باقی شہر میں اس زلزلہ سے کیسی تباہی آئی اس کا حال سرکاری رپورٹوں اور اس زمانے کے اخبارات سے بخوبی لگ سکتا ہے۔ بے انتہا تباہی آئی۔( صرف یہ لوگ، اُس سکول کے لوگ ا ور قریب کے لوگ ہمسائیگی کی وجہ سے بچ گئے) کہتے ہیں میرا اندازہ ہے کہ جس گھر میں دس آدمی تھے اس میں نو مر گئے تھے اور صرف ایک زندہ رہا۔ وہ سادہ کار حسن دین تو بچ رہا مگر اُس کی بیوی بچے بھائی دیگر کئی رشتہ دار اس زلزلے کی نظر ہو گئے۔

(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)جلد 6 صفحہ294تا296 روایت حضرت عطامحمدصاحب صاحبؓ)

 پس یہ واقعات جہاں ان صحابہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا اظہار کرتے ہیں وہاں یقینا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کی سچائی اور صداقت کا ثبوت بھی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا اور اپنی صداقت کا ثبوت کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

            ’’ کتاب براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ مجھے ایک دعا سکھاتا ہے یعنی بطور الہام فرماتا ہے کہ رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَیۡرُ الۡوَارِثِیۡنَ۔ یعنی مجھے اکیلا مت چھوڑ اور ایک جماعت بنا دے۔ پھر دوسری جگہ وعدہ دیتا ۔  یَأتِیْکَ مِنْۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ ہر طرف سے تیرے لئے وہ زر اور سامان جو مہانوں کے لئے ضروری ہیں اللہ تعالیٰ خود مہیا کرے گا۔ اور وہ ہرایک راہ سے تیرے پاس آئیں گے۔ اور پھر فرمایا۔  یَأۡتُوۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ۔ لَا تُصَعِّرۡ لِخَلۡقِ اللّٰہِ وَلَا تَسۡئَمۡ مِنَ النَّاسِ۔ ہر ایک طرف اور ہر ایک راہ سے تیرے پاس مہمان آئیں گے اور اس قدرکثرت سے آئیں گے کہ قریب ہے تُو اُن (کی کثرت) سے تھک جاوے یا بدخُلقی کرے‘‘۔  اس لئے پہلے سے بتا دیا کہ نہ تو اُن سے تھکے اور نہ اُن سے بدخُلقی کرے۔

(ملفوظات جلد 5صفحہ128۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

             آپ فرماتے ہیں کہ:’’ اب غور کرو جس زمانہ میں یہ پیشگوئی شائع ہوئی یا لوگوں کو بتائی گئی، اُس وقت کوئی شخص یہاں آتا تھا؟ مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا۔ اورکبھی سال بھر میں بھی ایک خط یا مہمان نہ آتا تھا۔‘‘(ملفوظات جلد 5صفحہ128۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

            پس آج بھی جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، اگر سعید فطرت ہوں تو دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدی نشانات کس طرح آپ کے ساتھ ہیں، کس طرح آپ کی تبلیغ اور آپ کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے پہنچایا ہے۔ ہر ملک کے جلسے اور لوگوں کا ذوق و شوق سے آنا یہ آپ کی صداقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپؑ کا نام قادیان کی بستی سے نکل کر تمام دنیا میں پھیل چکا ہے۔ آج اگر اسلام کے حقیقی دفاع میں کوئی جماعت کھڑی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہے۔ کاش کہ عامۃ المسلمین نام نہاد علماء کے پیچھے چلنے کی بجائے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے لڑنے کی بجائے اس زمانے کے امام کو مان کر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے حاصل کرنے والے بن جائیں اور اس کا ایک حصہ بن جائیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی توفیق دے کہ صرف پہلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سلوک پر راضی نہ ہو جائیں یا آج بھی جو نئے شامل ہونے والے نشانات دیکھ کر احمدیت قبول کرتے ہیںاُن کے واقعات سے حظ اُٹھانے والے نہ بن جائیں بلکہ خود بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے والے اور ترقی کرنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کو بھی جماعت کے ساتھ اس طرح جوڑنے والے ہوں کہ یہ جاگ آگے سے آگے لگتی چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جلسہ کی برکات سے حصہ لینے والا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ اور اُن برکتوں کو لے کر آپ سب اپنے گھروں کو واپس جائیں۔ ہر لحاظ سے آپ کے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھرے رہیں اور ہمیشہ اپنے گھروں میں بھی یہ حمد کے چشمے جو ہیں وہ جاری رہیں۔ اب دعا کر لیں (دعا)

دعا کے بعد حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یہ حاضری کی رپورٹ جو انہوں نے دی ہے۔ یہ جتنے مقامی مہمان ہیں اُس سے زیادہ بیرونِ ممالک کے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ 1004 اور1072 بیرونی ممالک کے۔ کل 2076۔ اور اس میں سے خواتین مَردوں سے زیادہ ہیں۔ حالانکہ پہلے ان کا خیال تھا کہ مرد شاید زیادہ آئے ہوں۔ 1096 خواتین ہیں اور 980 مرد ہیں۔ بہر حال ان کی یہ حاضری، پچھلے گزشتہ سال سے تو کئی گنا ہو گی۔ لیکن اب ہالینڈ کی جماعت کو بھی چاہئے کہ اپنی تعداد کو بڑھائیں اور آئندہ اگر دو ہزار مہمان آتے ہیں تو چار ہزار ان کے اپنے ہونے چاہئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں