خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ قادیان31؍دسمبر 2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمًا۔یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا۔ (الاحزاب:42-41)

            یٰٓاَ یُّھَا النَّبِیُّ اِ نَّآ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاھِدًا  وَّ مُبَشِّرًا  وَّ نَذِیۡرًا۔وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا۔وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ بِاَنَّ لَھُمۡ مِنَ اللّٰہِ فَضۡلًا کَبِیۡرًا۔ (الاحزاب 46 تا48)

            اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ  عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔

(الاحزاب:57)

            ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے جیسے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں، بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتم ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو۔ اے نبی! یقینا ہم نے تجھے ایک شاھد اور ایک مبشر اور ایک نذیر کے طور پر بھیجا ہے اور اللہ کی طرف اُس کے حکم سے بلانے والے اور ایک منور کر دینے والے سورج کے طور پر، اور مؤمنوں کو خوشخبری دے دے کہ یہ اُن کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔ یقینا اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اُس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔

 گزشتہ دنوں ایک خبر یہ آئی کہ علماء اور مجلس ختم نبوت نے فیصلہ کیا ہے کہ سال 2013ء پاکستان میں ناموسِ رسالت کے سال کے طور پر منایا جائے۔ یہ عجیب عشقِ رسول ہے کہ ایک سال آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام کر دیا اور بس۔ اور اس سال میں بھی کیا ہو گا؟ اس سال میں بھی وہی کچھ ہو گا جو یہ نام نہاد علماء ناموسِ رسالت اور مذہب کے نام پر اب تک کرتے آئے ہیں۔ یعنی اپنے مفادات کے لئے، اپنی انانیت کی تسکین کے لئے مجبوروں اور مظلوموں کا مذہب اور ناموسِ رسالت کے نام پر خون۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ ناموسِ رسالت کے نام پر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو داغدار کرنے کی مذموم کوشش۔ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جسے اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالَمین بنا کر بھیجا تھا اُس کے نام پر ظلم و بربریت۔ لیکن ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رسّی جب ڈھیلی ہوتی ہے تو پکڑ بھی بڑی سخت آتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے پیارے دین اور پیارے رسول کے نام پر ظلم و بربریت کیا جائے تو اللہ تعالیٰ مستقل چھٹی نہیں دیتا۔ ایک وقت آتا ہے جب یہ ظلم و تعدی کرنے والے خدا تعالیٰ کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ پس یہ نام نہاد ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے نام پر قائم کی گئی تنظیمیں خداتعالیٰ کی ڈھیل کو اپنی کامیابی نہ سمجھیں، نہ ہی اُسے خدا تعالیٰ کی رضا سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا تو رحمۃ للعالمین کے اسوہ پر عمل کرنے پر ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا تو اُس کے دین کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانے میں ہے، نہ کہ مذہب کے نام پر خون میں۔

پس آج جو لوگ ناموسِ رسالت کے نام پر غیر مسلموں کے حقوق غصب کر رہے ہیں یا اپنے مفادات کی تسکین کے لئے توہینِ رسالت کا الزام لگا کر کسی کو بھی مجرم بنا کر قتل و غارت گری پر تلے ہوئے ہیں وہ حبیبِ خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اُسوہ کے خلاف چل کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو دعوت دے رہے ہیں ۔اور پھر اپنے ظلم کی انتہا کو یہاں تک لے گئے ہیں کہ جو امام اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق بھیجا ہے، اُس کا نہ صرف انکار کر رہے ہیں بلکہ اُس کے لئے دریدہ دہنی اور ظلموں کی حدوں کو بھی چھونے لگے ہیں۔ اُس کے ماننے والوں پر ظلموں کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔

پس یاد رکھیں، اپنے عمل سے یہ ظلم و بربریت کرنے والے ناموسِ رسالت نہیں کر رہے ۔ اُن کا عمل کسی طور بھی ناموسِ رسالت کرنے والوں میں شمار نہیں ہو سکتا بلکہ توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور غلامِ صادق کے خلاف مغلّظات بک کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دے رہے ہیں۔ قرآنِ کریم کو پڑھنے اور سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس میں دئیے گئے اللہ تعالیٰ کے اس اِنذار کو بھول جاتے ہیں کہ  وَاُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ(الاعراف:184)۔ اور میں اُنہیں مہلت دیتا ہوں۔ یقینا میری پکڑ بہت سخت ہے۔

پس خدا تعالیٰ کا خوف کریں اور توبہ اور استغفار کریں۔ یاد رکھیں کہ اگر ناموسِ رسالت کیلئے کھڑا ہونا ہے اور حقیقی مسلمان ہیں تو ایک سال نہیں بلکہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ ناموسِ رسالت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ اور اس کا بہترین طریقہ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنا اور آپؐ سے محبت ہے۔ وہ حقیقی محبت ہے صرف نام کی محبت نہیں۔ اس کا صحیح طریق سکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو بھیجا ہے۔ پس اگر حقیقی محبت کا اظہار کرنا ہے تو اُس کے ساتھ جڑنا ضروری ہے۔ آپ علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کس طرح سمجھا اور مقامِ ختم نبوت کیا ہے؟ دنیا کے تمام ادیان پر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری کس طرح ثابت کرنی ہے؟ یہ سب کچھ اُس سے پتہ چل سکتا ہے جس کو زمانے کا امام بنا کر خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے ۔جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا تھا۔ جس کا اوڑھنا بچھونا عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا۔ پس یہ بات بتانے کے لئے کہ کس طرح عشق و محبت کے یہ اظہار امام الزمان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کئے، مَیں نے آج چند حوالے لئے جو جہاں احمدیوںکے لئے ازدیادِ ایمان اور مقامِ خاتم الانبیاء کا علم و عرفان دلانے والے ہیں، وہاں اگر کوئی غیر احمدی نیک فطرت اس کو سُن لے تو اُسے بھی مقامِ محمدیت کی حقیقی تصویر دکھانے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور زمانے کے امام مسیح الزمان اور مہدی دوران کے بارے میں نام نہاد علماء کی طرف سے پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے والے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی حیثیت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا فرماتے ہیں؟ سب سے بڑا الزام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ لگایا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا کرتے ہیں اور ہم نام نہاد ناموسِ رسالت کے دیوانے یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔

             حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :

            ’’کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، قرآنِ شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآنِ شریف پر ایمان رکھتا ہے اور آیت وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن(الاحزاب:41) کو خدا کا کلام یقین رکھتا ہے، وہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسول اور نبی ہوں۔ صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اُس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں ‘‘۔ (یعنی پھر کفر لازم نہیں آتا) ’’مگر مَیں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے۔ لیکن وہ مکالمات اور مخاطبات جو اللہ جلّ شانُہٗ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں، جن میں یہ لفظ نبوت اور رسالت کا بکثرت آیا ہے، اُن کو میں بوجہ مأمور ہونے کے مخفی نہیں رکھ سکتا‘‘۔( جب اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی اور رسول کہا ہے تو مَیں کس طرح مخفی رکھوں۔)’’ لیکن بار بار کہتا ہوں کہ ان الہامات میں جو لفظ مُرْسَل یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے۔ اور اصل حقیقت جس کی مَیں علی رؤوس الاشہاد گواہی دیتا ہوں، یہی ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا۔ وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُوْلِنَا وَسَیِّدِنَا اَنِّیْ نَبِیٌّ اَوْ رَسُوْلٌ عَلَٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ وَالْاِفْتَرَآئِ وَتَرَکَ الْقُرْاٰنَ وَاَحْکَامَ الشَّرِیْعَۃِ الْغَرَّآئِ فَھُوَ کَافِرٌ کَذَّابٌ۔ غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنِ فیوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سرچشمہ سے جدا ہو کر آپ ہی براہِ راست نبی اللہ بننا چاہتاہے تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا اور عبادات میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کر دے گا۔ پس بلا شبہ وہ مسیلمہ کذّاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں۔ ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآنِ شریف کو مانتا ہے‘‘۔ (انجام آتھم ۔روحانی خزائن جلد 11صفحہ 28-27 حاشیہ)

پھر ختم نبوت کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

            ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مقدّسہ ایسے صاف تھے کہ خود اس مطلب کی طرف رہبری کرتے تھے کہ ہرگز اس پیشگوئی میں نبی اسرائیلی کا دوبارہ دنیا میں آنا مراد نہیں ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآنِ شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے، اپنی آیت کریمہ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن(الاحزاب:41)  سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو چکی ہے۔ پھر کیونکر ممکن تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریف لاوے۔ اس سے تو تمام تاروپودِ اسلام درہم برہم ہو جاتا تھا۔ اور یہ کہنا کہ’’ حضرت عیسیٰ نبوت سے معطل ہو کر آئے گا‘‘، نہایت بے حیائی اور گستاخی کا کلمہ ہے۔ کیا خدا تعالیٰ کے مقبول اور مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے اپنی نبوت سے معطل ہو سکتے ہیں؟ پھر کونسا راہ اور طریق تھا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آتے؟ غرض قرآنِ شریف میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین رکھ کر اور حدیث میں خود آنحضرت( صلی اللہ علیہ وسلم )نے لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ  فرما کر اس امر کا فیصلہ کر دیا تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آ سکتا۔ اور اس بات کو زیادہ واضح کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ آنے والا مسیح موعود اسی اُمّت میں سے ہو گا۔ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث ’’اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ‘‘ اور صحیح مسلم کی حدیث’’فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ‘‘ جو عین مقامِ ذکر مسیح موعود میں ہے، صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ مسیح موعود اسی اُمّت میں سے ہو گا‘‘۔

    (کتاب ا لبریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 218-217۔ حاشیہ)

پھر اس بات کا اظہار فرماتے ہوئے کہ ہر ایک فیضان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی پر موقوف ہے، سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔

            ’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحبِ شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں‘‘۔

(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ 213)

وہ وحی جو اتّباع کا نتیجہ ہے، کبھی منقطع نہیں ہو گی مگر شریعت والی نبوت یا نبوّت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے۔  پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم الشان معجزہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

            ’’ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وحی منقطع ہو گئی اور معجزات نابود ہو گئے اور اُن کی اُمّت خالی اور تہ دست ہے۔ صرف قصّے اُن لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع نہیں ہوئی اور نہ معجزات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کاملینِ اُمّت جو شرفِ اِتّباع سے مشرف ہیں، ظہور میںآتے ہیں۔ اسی وجہ سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا زندہ خدا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندۂ حضرتِ عزّت موجود ہے‘‘۔  (چشمہ ٔ  مسیحی۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ 351)

            ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی طرف اشارہ فرما رہے ہیں)۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ روحانی کی کشش بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔

            ’’انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حُسن ہیں۔ ایک حُسن معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع اُن کے متعلق فوت نہ ہو…۔

دوسرا حُسن انسان کی پیدائش میں حُسن بشرہ ہے۔… لیکن یہ حُسن جو روحانی حُسن ہے، جس کو حُسنِ معاملہ کے ساتھ موسوم کر سکتے ہیں، یہ وہ حُسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حُسن بشرہ سے بہت بڑھ کر ہیـــ‘‘ (یعنی کہ ظاہری حُسن سے چہرے مہرے کے حُسن سے بہت بڑھ کر ہے۔) ’’کیونکہ حُسنِ بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہو گا جو جلد زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہو گی‘‘۔ (عارضی حسن جو انسان کا ہوتا ہے وہ تو ایک وقت میں آکے ختم ہو جاتا ہے)’’ لیکن وہ روحانی حُسن جس کوحُسنِ معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے، وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اُس کی طرف کھنچا جاتا ہے ۔اور قبولیتِ دعا کی بھی درحقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا روحانی حسن والا انسان جس میں محبتِ الٰہیہ کی روح داخل ہو جاتی ہے، جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دعا کرتا ہے اور اُس دعا پر پورا  پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میںحُسنِ روحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرہ ذرہ اُس کی طرف کھینچا جاتا ہے ۔…… تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرّہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اُس کی دعائیں اُن تمام ذرّات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن رُبا لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے‘‘۔(جیسا کہ مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے) ’’پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علم طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے۔ جب سے کہ صانع مطلق نے‘‘( یعنی خدا تعالیٰ نے)’’ عالمِ اجسام کو ذرّات سے ترکیب دی ہے، ہر ایک ذرّے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرّہ روحانی حُسن کا عاشقِ صادق ہے۔ اور ایسا ہی ہر ایک سعید روح بھی، کیونکہ وہ حُسن تجلّی گاہِ حق ہے‘‘۔ (ایسا روحانی حُسن جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے، اللہ تعالیٰ کو دکھانے والا ہے)’’ وہی حُسن تھا جس کے لئے فرمایا گیا  اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْسَ (البقرۃ:35)۔ اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اس حسن کو شناخت نہیں کرتے۔ مگر وہ حُسن بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے‘‘۔ فرمایا:’’ نوح میں وہی حُسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزّت جلّ شانُہٗ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا ۔ پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حُسن روحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اُٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا۔ پھر سب کے بعد سیدّالانبیاء و خیر الوریٰ مولانا و سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حُسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیتِ کریمہ کافی ہے۔ دَنٰی فَتَدَلّٰی۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی(النجم:10-9)۔ یعنی وہ نبیؐ جنابِ الٰہی سے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اور اس طرح پر دونوں حقّوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے، ادا کر دیا۔ اور دونوں قسم کا حُسنِ روحانی ظاہر کیا اور دونوں قوسوں میں وَتر کی طرح ہو گیا‘‘۔( یعنی کہ بندے اور خدا کے درمیان ایک وتر کی طرح ہو گیا، ایک لکیر ہو گئی۔)’’ یعنی دونوں قوسوں میں جو ایک درمیانی خط کی طرح ہو……‘‘۔ فرمایا:’’ اس حسن کو ناپاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْن(الاعراف: 199)۔ یعنی تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تُو اُنہیں دکھائی نہیں دیتا۔ آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے‘‘۔  (ضمیمہ برا ہین احمدیہ حصہ پنجم ۔روحانی خزائن جلد21صفحہ 221-218)

آپ ؐاللہ تعالیٰ کے انوار قبول کرنے کا کامل نمونہ تھے جس تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

             ’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا و صدق و صفا و توکّل و وفا اور عشقِ الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و اَرفع و اَجلی و اَصفا تھے اس لئے خدائے جل شانہ نے اُن کو عطر کمالاتِ خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر تھاوہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اوّلین و آخرین کی وحیوں سے اَقویٰ و اکمل و اَرفع و اَتمّ ہو کر صفاتِ الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو۔ سو یہی وجہ ہے کہ قرآنِ شریف ایسے کمالاتِ عالیہ رکھتا ہے جو اس کی تیز شعاعوں اور شوخ کرنوں کے آگے تمام صحفِ سابقہ کی چمک کالعدم ہو رہی ہے۔ کوئی ذہن ایسی صداقت نکال نہیں سکتا جو پہلے ہی سے اُس میں درج نہ ہو۔ کوئی فکر ایسے برہانِ عقلی پیش نہیں کر سکتا جو پہلے ہی سے اُس نے پیش نہ کی ہو۔ کوئی تقریر ایسا قوی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور پُر برکت اثر لاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیاہے۔‘‘ (یعنی قرآنِ کریم)’’ وہ بلا شبہ صفات کمالیّہ حق تعالیٰ کا ایک نہایت مصفّا آئینہ ہے جس میں سے وہ سب کچھ ملتا ہے جو ایک سالک کو مدارجِ عالیہ معرفت تک پہنچنے کے لئے درکار ہے‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 72-71)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیحد فیضانات اور احسانات کے بارے میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

            ’’خدا وہی خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا اور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔…… جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے۔ یعنی سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ عجیب ظلم ہے کہ جاہل اور نادان لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ  ؑ آسمان پر زندہ ہے حالانکہ زندہ ہونے کے علامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پاتا ہوں۔ وہ خدا جس کو دنیا نہیں جانتی ہم نے اس خدا کو اُس کے نبی کے ذریعہ سے دیکھ لیا اور وہ وحی الٰہی کا دروازہ جو دوسری قوموں پر بند ہے، ہمارے پر محض اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے کھولا گیا۔ اور وہ معجزات جو غیر قومیں صرف قصوں اور کہانیوںکے طور پر بیان کرتے ہیں، ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے وہ معجزات بھی دیکھ لئے۔ اور ہم نے اس نبیؐ کا وہ مرتبہ پایا جس کے آگے کوئی مرتبہ نہیں ۔ مگر تعجب کہ دنیا اس سے بے خبر ہے۔ ……خدا تو تمہیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ تم اس رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کی کامل پیروی کی برکت سے تمام رسولوں کے متفرق کمالات اپنے اندر جمع کر سکتے ہو‘‘۔(چشمہ ٔ مسیحی ۔روحانی خزائن ۔ جلد20صفحہ 355-354)

لیکن امت کا ایک بڑا حصہ اس وقت کر کیا رہاہے۔ ان سے دور ہٹتا چلا جا رہا ہے اور اسی لئے غیروں کو موقع مل رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا اسلام اور قرآن پر حملے کریں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے وہ روشنی ملتی ہے جو اس سے پہلے ہزار برس کے مجاہدے سے نہیں مل سکتی تھی۔ فرمایا کہ :

            ’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔ وہ کیسی کتابیں ہیں جو ہمیں بھی اگر ہم ان کے تابع ہوں، مردود اور مخذول اور سیاہ دل کرنا چاہتی ہیں۔ کیا ان کو زندہ نبوت کہنا چاہئے جن کے سایہ سے ہم خودمُردہ ہو جاتے ہیں‘‘۔ (یعنی پہلی جو شریعتیں ہیں)’’ یقینا سمجھو کہ یہ سب مُردے ہیں۔ کیا مُردہ کو مُردہ روشنی بخش سکتا ہے؟ یسوع کی پرستش کرنا صرف ایک بُت کی پرستش کرنا ہے۔ …کوئی اس کو قبول کرے یا نہ کرے مگر یہی سچ ہے اور سچ میں برکت ہے کہ آخر اس کی روشنی دنیا پر پڑتی ہے، تب دنیا کی تمام دیواریں چمک اُٹھتی ہیں مگر وہ جو تاریکی میں پڑے ہوں‘‘۔( سو اُن کو اثر نہیں ہوتا۔)’’ سو آخری وصیّت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی و امّی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا۔ اور ایسی قبولیت اُس کو ملے گی کہ کوئی بات اُس کے آگے انہونی نہیں رہے گی۔ زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اُس کا خدا ہو گا اور جھوٹے خدا سب اُس کے پَیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے۔ وہ ہر ایک جگہ مبارک ہو گا اور الٰہی قوتیں اُس کے ساتھ ہوں گی۔ والسّلام علی من اتبع الھدیٰ۔‘‘

(سراج منیر۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 83-82)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان پر، آپ کے کام اور آپ کی مشکلات کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

            ’’ہر ایک زمانہ جو نوعِ انسان پر آیا، وہ اس بات کا مقتضی تھا‘‘( اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ)’’ جو اسی زمانہ کے مطابق کتاب دی جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی وحدت کا جب خدا نے ارادہ کیا تب ہر ایک قوم کے لئے جدا جدا رسول بھیجا‘‘۔ (قوم کو اکٹھا کرنا تھا تو ہر ایک قوم کے لئے نبی آیا)’’ اور یہ قومی وحدت اقوامی وحدت سے مقدم تھی‘‘۔ (اُس زمانے میں)’’ اور حکمتِ ربّانی اس امر کی مقتضی تھی کہ اوّل ہر ایک ملک میں قومی وحدت قائم کرے اور جب قومی وحدت کا دور ختم ہو چکا، تب اقوامی وحدت کا زمانہ شروع ہو گیا‘‘۔ (جب قومی وحدت کاوہ دور ختم ہو گیا ، انسانوں کو کچھ نہ کچھ اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کرنا آ گیا، ایک اکائی قائم کرنا آ گئی۔تب بین الاقوامی وحدت کا زمانہ شروع ہوا)’’ اور وہی زمانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا تھا‘‘۔ (کیونکہ آپ نے تمام دنیا کے انسانوں کو پھر جوڑنا تھا) ’’اور یاد رہے کہ کسی رسول اور کسی کتاب کی اسی قدر عظمت سمجھی جاتی ہے جس قدر اُن کو اصلاح کا کام پیش آتا ہے اور جس قدر اس اصلاح کے وقت مشکلات کا سامنا پڑتا ہے‘‘۔ (یعنی جو رسول پہلے گزرے ہیں، اُن کی عظمت اتنی سمجھی جاتی ہے جتنا اُن کے سامنے اُن کا اصلاح کا کام ہو، کیونکہ اُتنی ہی حد تک اُن کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جن کا انہوں نے حل کرنا ہوتا ہے۔) فرمایا کہ’’ سو یہ بات ظاہر ہے کہ ابتدائے زمانہ میں جو کتاب نازل ہوئی ہو گی، وہ کسی طرح کامل مکمل نہیں ہو سکتی‘‘۔ (کیونکہ کام بھی آسان تھا اور محدود تھا)فرمایا’’ کیونکہ ابتدائے زمانہ میں ان مشکلات کا وہم و گمان بھی نہیں آ سکتا تھا جو بعد میں پیدا ہوئیں۔ ایسا ہی قومی وحدت کے زمانہ میں اُس وقت کے نبیوں اور رسولوں کو  وہ مشکلات ہرگز پیش نہیں آ سکتی تھیں جو اقوامی وحدت کے زمانہ میں اُس نبی کو پیش آئیں جس کو یہ حکم ہوا کہ جو تمام قوموں کو ایک وحدت پر قائم کرو‘‘۔(چشمہ ٔ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 147-146)

 یعنی یہ مشکلات صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئیں جب آپ کو ساری دنیا کو اکٹھا کرنے کا حکم ہوا۔ یعنی جتنا مشکل وسیع کام ہے، اتنی ہی مشکلات ہیں۔ اور یہی ایک حقیقی مسلمان کا بھی آج فرض ہے کہ اس پیغام کو لے کر دنیا میں پھیلائے۔

 اپنی عربی تحریر’ البلاغ‘ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض احسانات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں،جس کا عربی سے ترجمہ یہ ہے کہ :

            اُس نے ہمارے لئے ایک ایسا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا جو کریم ہے۔(یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک ایسا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا جو کریم ہے۔) تمام امورِ خیر میں صاحبِ کمال ہے۔ کمالات کے تمام انواع میں ہر رنگ میں سبقت لے جانے والا ہے۔ تمام رسولوں اور نبیوں کا خاتم ہے۔ ام القریٰ میں آنے والا موعود نبی جو سچ مچ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کیونکہ اُس کے فیضیابوں کی زبانیں ہر وقت اُس کی ستایش سے تر رہتی ہیں۔ اور وہ اس روح سے بھی کامل ستایش کا مستحق ہے کہ اُس نے اُمّت کی خاطر انتہائی مشقت و محنت اپنے اوپر لی اور دین کی عمارت کو بلند کیا۔ اور اس لئے بھی کہ وہ ہمارے لئے ایک روشن اور تاباں کتاب لایا ۔اور اس لئے بھی کہ اُسے اپنے خداوند ربّ العالمین  کے پیغاموں کے پہنچانے میں ہمارے لئے طرح طرح کی ایذاؤں کا نشانہ بننا پڑا۔ پھر اس لئے بھی کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں ناتمام اور ناقص رہا تھا اُسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل کیا اور ہمیں افراط اور تفریط سے اور دیگر تمام عیوب و نقائص سے پاک شریعت عطا کی اور اخلاق کو کمال تک پہنچایا اور جو جو کچھ ناقص تھا اُسے کامل کیا۔ اور تمام اقوامِ عالم کو اپنا ممنونِ احسان کیا اور چوٹی کے فصیح و بلیغ بیانوں اور نہایت روشن وحی کے ذریعہ سے رُشد کی راہیں بتائیں اور مخلوق کو گمراہی سے بچایا اور اپنے نمونہ کے ذریعہ سے کنارہ کش بنایا اور بہائم و اَنعام کو گویا کر دیا۔‘‘ (یعنی  جو انسان جانور کی طرح تھے اُن کوبھی زبانیں عطا کر دیں)’’ اور اُن میں ہدایت کی روح پھونک دی اور تمام مرسَلین کے وارث بنا دیا۔ اور اُنہیں ایسا پاک و صاف کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا میں فناہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے انہوں نے پانی کی طرح اپنے خون بہا دئیے اور کامل اطاعت کے ساتھ اپنے آپ کو بکلّی اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا۔ اور پھر دوسری طرف آپ نے اچھوتے اور مخفی در مخفی لطائف و معارف اور نادر نکات کی تعلیم دے کر ہمارے جیسے آپ کے دستر خوان کا پس خوردہ کھانے والوں کو حقیقی فضیلت کے مقام پر پہنچا دیا۔ اور آپ کی رہنمائی کے طفیل حق تعالیٰ تک پہنچنے کی راہیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ہم فلک بریں پر جا پہنچے۔ بعد اس کے کہ ہم زمین میں دھنس چکے تھے۔ (یعنی اس رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زمین سے اُٹھا کے آسمان پر پہنچا دیا۔)‘‘ پس اے اللہ! روزِ جزا تک اور ابد الآباد تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیج۔ نیز آپ کی آل پاک طاہرین، طیبین اور آپ کے صحابہ کرام پر جو آپ کے ناصر بھی بنے اور منصور بھی۔جو اللہ تعالیٰ کی چنیدہ اور برگزیدہ جماعت ہے۔ جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنی عزتوں اور آبروؤں اور اپنے اموال و اولاد پر اللہ تعالیٰ کو مقدم کیا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْن ۔‘‘

(البلاغ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 434-433)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام  فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اخروی کا ثبوت کیا ہے؟ فرمایا:

            ’’ان سب باتوںکے بعد ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آخرت کا شفیع وہ ثابت ہو سکتا ہے جس نے دنیا میں شفاعت کا کوئی نمونہ دکھلایا ہو۔ سو اس معیار کو آگے رکھ کر جب ہم موسیٰ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ بھی شفیع ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ بارہا اُس نے اترتا ہوا عذاب دعا سے ٹال دیا۔ اُس کی توریت گواہ ہے۔ اسی طرح جب ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کا شفیع ہونا اَجلی بدیہات معلوم ہوتا ہے‘‘۔( بہت روشن تر اور واضح تر معلوم ہوتا ہے۔)’’ کیونکہ آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ آپ نے غریب صحابہ کو تخت پر بٹھا دیا۔ اور آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ وہ لوگ باوجود اس کے کہ بت پرستی اور شرک میں نشوونما پایا تھا، ایسے موحّد ہو گئے جن کی نظیر کسی زمانے میں نہیں ملتی۔ اور پھرآپ کی شفاعت کا ہی اثر ہے کہ اب تک آپ کی پیروی کرنے والے خدا تعالیٰ کا سچا الہام پاتے ہیں ۔خدا ان سے ہمکلام ہو تا ہے ‘‘۔

(عصمت انبیاء علیھم السلام ۔روحانی خزائن جلد 18صفحہ 699۔700)

لیکن کیسی بدقسمتی ہے کہ دوسرے مسلمان سمجھتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ نے اس کے دروازے بند کر دئیے ہیںاور اس طرح شفاعت کے دروازے کو بند کر رہے ہیں۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔

            ’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نشان اور معجزات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو آنجناب کے ہاتھ سے یا آپ کے قول یا آپ کے فعل یا آپ کی دعا سے ظہور میں آئے۔ اور ایسے معجزات شمار کے رُو سے قریب تین ہزار کے ہیں۔ اور دوسرے وہ معجزات ہیں جو آنجناب کی اُمّت کے ذریعہ سے ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور ایسے نشانوں کی لاکھوں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ اور ایسی کوئی صدی بھی نہیں گزری جس میں ایسے نشان ظہور میں نہ آئے ہوں‘‘۔

یہ غیر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو صرف تین ہزار کہتے ہیں اور اپنے معجزات کو لاکھوں میں بیان کرتے ہیں۔جبکہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ آج تک جو معجزات ہو رہے ہیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہو رہے ہیں جن کی تعداد لاکھوں تک بلکہ شاید کروڑوں تک پہنچ گئی ہو۔ اور جماعت احمدیہ ہر روز اس کا مشاہدہ کرتی ہے۔

             فرمایا:’’ اور ایسے نشانوں کی لاکھوں تک نوبت پہنچ گئی ہے اور ایسی کوئی صدی بھی نہیں گزری جس میں ایسے نشان ظہور میں نہ آئے ہوں۔ چنانچہ اس زمانے میں اس عاجز کے ذریعہ سے‘‘( حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں، آپ کے ذریعے سے)’’ خدا تعالیٰ یہ نشان دکھلا رہا ہے۔ ان تمام نشانوں سے جن کا سلسلہ کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوتا۔ ہم یقینا جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا نبی اور سب سے پیارا جنابِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کیونکہ دوسرے نبیوں کی اُمّتیں ایک تاریکی میں پڑی ہوئی ہیں اور صرف گزشتہ قصے اور کہانیاں اُن کے پاس ہیں۔ مگر یہ اُمّت ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تازہ بتازہ نشان پاتی ہے۔ لہٰذا اِس اُمّت میں اکثر عارف ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر اس درجہ کا یقین رکھتے ہیں کہ گویا اُس کو دیکھتے ہیں۔ اور دوسری قوموں کو خدا تعالیٰ کی نسبت یہ یقین نصیب نہیں۔ لہٰذا ہماری روح سے یہ گواہی نکلتی ہے کہ سچا اور صحیح مذہب صرف اسلام ہے۔ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کا کچھ نہیں دیکھا۔ اگر قرآنِ شریف گواہی نہ دیتا تو ہمارے لئے اور ہر ایک محقق کے لئے ممکن نہ تھا کہ اُن کو سچا نبی سمجھتا ۔ کیونکہ جب کسی مذہب میں صرف قصے اور کہانیاں رہ جاتی ہیں تو اُس مذہب کے بانی یا مقتدا کی سچائی صرف اُن قصّوں پر نظر کر کے تحقیقی طور پر ثابت نہیں ہو سکتی۔ وجہ یہ کہ صدہا برس کے گزشتہ قصے کذب کا بھی احتمال رکھتے ہیں۔ بلکہ زیادہ تر احتمال یہی ہوتا ہے کیونکہ دنیا میں جھوٹ زیادہ ہے۔ پھر کیونکر دلی یقین سے اُن قصوں کو واقعاتِ صحیحہ مان لیا جائے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات صرف قصوں کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے خود اُن نشانوں کو پا لیتے ہیں۔ لہٰذا معائنہ اور مشاہدہ کی برکت سے ہم حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں۔ سو اس کامل اور مقدس نبی کی کس قدر شان بزرگ ہے جس کی نبوت ہمیشہ طالبوں کو تازہ بتازہ ثبوت دکھلاتی رہتی ہے۔ اور ہم متواتر نشانوں کی برکت سے اُس کمال سے مراتبِ عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو ہم آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔ پس مذہب اسے کہتے ہیں اور سچا نبی اس کا نام ہے جس کی سچائی کی ہمیشہ تازہ بہار نظر آئے۔ محض قصوں پر جن میں ہزاروں طرح کی کمی بیشی کا امکان ہے، بھروسہ کر لینا عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ دنیا میں صدہا لوگ خدا بنائے گئے اور صدہا پرانے افسانوں کے ذریعہ سے کراماتی کر کے مانے جاتے ہیں‘‘۔ (بندوں کو خدا بنایا گیا، کئی لوگوں کو کراماتی جانا جاتا ہے)’’ مگر اصل بات یہ ہے کہ سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو‘‘۔ کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو۔(نعرے)’’ سو وہ شخص ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘۔ (یہاں آپ کو نعرہ لگانا چاہئے تھا) ’’خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھلانے کے لئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے۔‘‘ (نعرے) ’’دیکھو آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور طرح طرح کے خوارق ظہور میں آ رہے ہیں اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے۔ گو وہ عیسائی ہو یا یہودی یا آریہ۔ یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔

محمدؐ است امام و چراغ ہر دو جہاں                  محمدؐ است فروزندہ زمین و زماں

 خدا نگویمش از ترس حق مگر بخدا                       خدا نما است وجودش برائے عالمیاں

(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 154تا 157حاشیہ)

            یعنی محمد ؐہر دو جہان کے امام اور نور ہیں۔ محمدؐ زمین و زمان کو روشن کرنے والے ہیں ۔ خدا کے خوف کی وجہ سے اُس کو خدا تو نہیں کہتا۔ مگر اُس کا وجود دنیا کے لئے خدا نما ہے۔

 پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل ہمدردی اور دنیا کو روشن کرنے کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

 ’’دنیا میں ایک رسولؐ آیا تا کہ اُن بہروںکو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صدہا سال سے بہرے ہیں۔ کون اندھا ہے اور کون بہرہ ہے؟ وہی جس نے توحید کو قبول نہیں کیا اور نہ اُس رسولؐ کو کہ جس نے نئے سرے سے زمین پر توحید کو قائم کیا۔ وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے با اخلاق انسان۔ یعنی سچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا۔ اور پھر بااخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الٰہی رنگ سے رنگین کیا۔ وہی رسولؐ، ہاں وہی آفتابِ صداقت جس کے قدموں پر ہزاروں مردے شرک اور دہریت کے فسق اور فجور کے جی اُٹھے اور عملی طور پر قیامت کا نمونہ دکھلایا۔…جس نے مکہ میں ظہور فرما کر شرک اور انسان پرستی کی بہت سی تاریکی کو مٹایا۔ ہاں دنیا کا حقیقی نور وہی تھا جس نے دنیا کو تاریکی میںپا کر فی الواقع وہ روشنی عطا کی کہ اندھیری رات کو دن بنا دیا۔ اُس کی پہلی دنیا کیا تھی؟ اور پھر اُس کے آنے کے بعد کیا ہوئی؟ یہ ایک سوال نہیں ہے جس کے جواب میں کچھ دقّت ہو۔ اگر ہم بے ایمانی کی راہ اختیار نہ کریں تو ہمارا کانشنس ضرور اس بات کے منوانے کے لئے ہمارا دامن پکڑے گا کہ اس جنابِ ؐعالی سے پہلے خدا کی عظمت کو ہر ایک ملک کے لوگ بھول گئے تھے۔ اور اُس سچے معبود کی عظمت اوتاروں اور پتھروں اور ستاروں اور درختوں اور حیوانوں اور فانی انسانوں کو دی گئی تھی اور ذلیل مخلوق کو اس ذوالجلال و قدّوس کی جگہ پر بٹھایا تھا۔ اور یہ ایک سچّا فیصلہ ہے کہ اگریہ انسان اور حیوان اور درخت اور ستارے درحقیقت خدا ہی تھے جن میں سے ایک یسوع بھی تھا تو پھر اس رسول کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ لیکن اگر یہ چیزیں خدا نہیںتھیں تو وہ دعویٰ ایک عظیم الشان روشنی اپنے ساتھ رکھتا ہے جو حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کے پہاڑ پر کیا تھا۔ وہ کیا دعویٰ تھا؟ وہ یہی تھا کہ آپ نے فرمایا کہ خدا نے دنیا کو شرک کی سخت تاریکی میں پا کر اس تاریکی کو مٹانے کے لئے مجھے بھیج دیا۔ یہ صرف دعویٰ نہ تھا بلکہ اُس رسول مقبول( صلی اللہ علیہ وسلم )نے اس دعویٰ کو پورا کر کے دکھلا دیا۔ اگرکسی نبی کی فضیلت اُس کے اُن کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کرظاہر ہو تو اے سب لوگو! اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں:     ’’ اندھے مخلوق پرستوں نے اُس بزرگ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے۔ لیکن اب مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے ۔ چاہو تو میری بات کو لکھ رکھو کہ اب کے بعدمُردہ پرستی روز بروز کم ہو گی۔ یہانتک کہ نابود ہو جائے گی۔ کیا انسان خدا کا مقابلہ کرے گا؟ کیا ناچیز قطرہ خدا کے ارادوں کو ردّ کر دے گا؟ کیا فانی آدم زاد کے منصوبے الٰہی حکموں کو ذلیل کر دیں گے؟ اے سننے والو سنو اور اے سوچنے والو سوچو اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہو گا اور وہ جو سچا نُور ہے چمکے گا‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات ۔ جلد دوم صفحہ 307-305مطبوعہ لندن)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ۔

            ’’نوع انسان کیلئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جائو ۔ اوریاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہِ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے ؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ  رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے۔ اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اُس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دُنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کیلئے ضروری  تھا کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دُنیا ختم نہ ہوجب تک کہ محمدی سلسلہ کیلئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کیلئے دیا گیا تھا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ:7-6)موسیٰ نے وہ متاع پائی جس کو قرون اولیٰ کھوچکے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ متاع پائی جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھوچکا تھا۔ اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے۔ مگر شان میں ہزارہا درجہ بڑھ کر۔ مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ،ابن مریم سے بڑھ کر ہے‘‘۔(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 14-13)

پس یہ چند نمونے مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور ارشادات کے دکھائے ہیں جن سے ہمیں پہلے سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان اور آپؐ کے جاری فیضان کا علم و عرفان حاصل ہوتا ہے۔ پس کیا ہے کوئی اَور جو اس گہرائی اور دلیری سے دنیا پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو ظاہر کرنے والا ہو۔ یقینا نہ کوئی ہے اور نہ کوئی ہو سکتا ہے۔ اس زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو دنیا میں دلوں میں بٹھانے کے لئے جس جری اللہ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ آپ علیہ السلام ہی ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والوں، اسلام پر حملہ کرنے والوں کے ایسے دندان شکن جواب دئیے کہ دشمن دفاع پر مجبور ہو گیا۔

پس ناموسِ رسالت یہ نہیں کہ گھر بیٹھے باتوںکے تیر چلائے جائیں۔ ناموسِ رسالت کے نام پر کمزوروں اور کلمہ گوؤوں کو بہیمانہ طور پر ظلم کا نشانہ بنایا جائے بلکہ اسلام کی اصل خدمت اور غیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار یہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ کو دنیاکے کونے کونے میں پہنچا دیا جائے۔ لوگوں کے ذہنوں میں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کیا جائے۔ پس اس کام کو دنوں کو خاص کر کے سال میں محدود کر کے کبھی نہیں کیا جا سکتا۔ حُبّ پیمبری کا دعویٰ ہے تو ہر دن اور ہر لمحے کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے صَرف کرنا ہو گا اور یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رہنمائی میں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی جماعت کے ہر فرد کے سپرد کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر احمدی اس فریضہ کو انجام دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یورپ، ایشیا، افریقہ، امریکہ یا آسٹریلیا کے براعظموں کے شہروں اور قصبوں کی گلیاں ہوں یا کونسل ہال ہوں یا سکول ہوں یا یورپ اور امریکہ کے ایوان ، غریب ہو ں یا امیر، ہر طبقہ اور ہر جگہ احمدی ہی ہیں جو غیروں کے  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور اسلام پر حملے کے ایسے جواب دیتے ہیں کہ اکثر ہر شریف الطبع یہ کہنے پر مجبور  ہو جاتا ہے کہ اگر یہ اسلام ہے اور یہ سیرت خاتم الانبیاء ہے تو ہم غلطی پر تھے اور آج اس تعلیم اور سیرت کے واقعات سننے کے بعد ہمارے شکوک و شبہات دور ہو گئے ہیں اور ہر دورے پر مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ اسی طرح لوگوں کے اظہار ہوتے ہیں۔ پس آج بھی اگر کسی نے اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینکے جانے والے تیروں کو روکنے کے لئے طلحہ کا ہاتھ دیکھنا ہے تووہ اس جری اللہ کے ماننے والوں میں ہی نظر آئے گا۔ آج بھی اگر اسلام کے دفاع میں اپنے جسم کے انچ انچ پر زخم کھانے والے خالد بن ولید دیکھنے ہیں تو وہ جماعت احمدیہ میں ہی نظر آئیں گے۔ آج بھی اسلام کی سربلندی کے لئے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں پھیلانے کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ایک کے بعد دوسرا شہید ہوتا دیکھنا ہے تو وہ جماعت احمدیہ میں نظر آئے گا۔

 ان مخالفینِ مسیح الزمان کو ان باتوں کا کیا ادراک ہو سکتا ہے کہ ناموسِ رسالت کیا ہے اور اسلام کی خاطر قربانیوں کے اسلوب کیا ہیں؟ یہ سیکھنے کے لئے تو اس رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق سے جڑنا ہو گا۔ پس اے مسیح محمدی کے ماننے والو۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و وفا کی لَو کو 2012ء کی اس آخری رات میں بھی روشن کر دو اور پھر اس کو کسی سال تک محدود نہیں رکھنا بلکہ ہر سال اور ہر دن اُس وقت تک اُسے روشن رکھنا ہے جبتک کہ یا زندگی ختم ہو جائے یا تمام دنیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آ جائے۔

پس آج اس سال کے آخری دن میںہر احمدی یہ عہد کرے اور ہر سال کے نئے چڑھنے والے دن میں یہ عہد ہر احمدی کرے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے ہم ہر قسم کی قربانی دیتے چلے جائیں گے۔ یاد رکھیں ہماری فتوحات کے لئے دعاؤں کی شرط خدا تعالیٰ نے رکھی ہوئی ہے۔ پس دنیا میں بسنے والا ہر احمدی اس سال کو الوداع اور نئے سال کا استقبال ان دعاؤں کے ساتھ کرے۔ اے مسیح الزمان کی بستی میں آج جلسہ میں آئے ہوئے احمدیو! اس بستی کی اس رات کو بھی اپنی دعاؤں سے اس طرح جگا دو کہ تمہاری دعائیں عرش کے پائے ہلا دیں۔ اے پاکستان سے آئے ہوئے مظلوم احمدیو! تمہاری دعائیں تو ایک انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ بلکہ انقلاب لا سکتی ہیں۔ پس آج اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور پگھلا کر پیش کر دو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (نعرے) خدا کرے کہ ہم جلد تر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا پر لہراتا ہوا دیکھیں۔ دنیا کے کسی کونے میں کسی شخص کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان کھول سکے۔ آمین یارب العالمین۔

 یہ بھی یاد رکھیں کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اعلیٰ اظہار آپ پر درود بھیجنے میں ہے۔ پس درود کو اپنی دعاؤں کا اہم ترین حصہ بنا لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

            ’’درود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ اُن کو جنابِ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور تام سے اپنے رسولِ مقبول کے لئے برکاتِ الٰہی مانگتے ہیں۔ بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہرگز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتداء زمانہ سے انتہا تک کوئی ایسا فردِ بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا‘‘۔ (یعنی سب سے زیادہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو)’’یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا۔ اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہو سکتا ہے اور اس کو مستقل مزاجی سے قائم رکھنا کہ جو کچھ محبانِ صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اُٹھاتے رہے ہیں، یا آئندہ اُٹھا سکیں، یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے، وہ سب کچھ اُٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو۔‘‘(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر سب قربان ہونے کے لئے تیار ہوں۔ اور اس سوچ کے ساتھ درود پڑھا جائے) فرمایا’’ اور کوئی ایسی مصیبت، عقل یا قوتِ واہمہ پیش نہ کر سکے کہ جس کے اُٹھانے سے دل رُک جائے۔ اور کوئی ایسا حکم پیش نہ کر سکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو۔ اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اُس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو…‘‘۔ فرمایا’’ پس جب اس طور پریہ درود شریف پڑھا گیا کہ وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلا شبہ اُس کے عجیب انوار صادر ہوں گے۔ اور حضورِ تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو۔ اوریہاں تک یہ توجہ رَگ و ریشہ میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جاوے‘‘۔

(مکتوبات جلد اول صفحہ 523-522)

 اتنا شدید اثر ہو کہ سوتے جاگتے ہر وقت درود زبان پر ہو۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھر دے اور ہم جلد سے جلد اسلام کو دنیا میں کامیاب ہوتا دیکھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا پر لہراتا ہوا دیکھیں۔ آمین۔ اب دعا کرلیں ۔(دعا)

اپنا تبصرہ بھیجیں