خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ کینیڈا 8جولائی2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیۡنَ آمَنُوا مِنکُمۡ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُم فِیۡ الۡأَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِن قَبۡلِہِمۡ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِیۡ ارۡتَضَی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ أَمۡناً یَعۡبُدُونَنِیۡ لَا یُشۡرِکُونَ بِیۡ شَیۡۡئاً وَمَن کَفَرَ بَعۡدَ ذَلِکَ فَأُوۡلَئِکَ ہُمُ الۡفَاسِقُون۔ (النور:5 6)

 یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں یہ شروع میں تلاوت میں بھی پڑھی گئی تھیں۔ ان کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا ہے۔ اس سے واضح ہو گیا ہو گا کہ جس مضمون کو آج مَیں بیان کرنے لگا ہوں وہ خلافت سے متعلق ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ یہ مضمون جتنی اہمیت کا حامل ہے اُتنی اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ چند سالوں میںاس مضمون کو عموماً جماعت کے مختلف اجتماعوں پہ، جلسوں پہ مختلف حوالوں سے بیان کیا جاتا ہے۔ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ ’’ہمارے علماء کو بار بار اس مضمون کو سامنے رکھنا چاہئے‘‘۔ تو کم از کم یہاںمَیں نے جب کینیڈا کاپروگرام دیکھا تو مجھے یہ مضمون نظر نہیں آیا کہ کسی بھی تقریر میں   براہِ راست بیان کیا گیا ہو۔ کم از کم دنیا میں ہر جلسے میں خلافت کے موضوع پر کسی نہ کسی عنوان کے تحت تقریر ہونی چاہئے۔ اس لئے جب مَیں نے دیکھا آپ کے پروگرام میں یہ نہیں ہے تو مَیں نے خود ہی یہ موضوع آج اپنے لئے لے لیا ۔لیکن مَیں اس کا علمی پہلو مختصراً بیان کروں گا ۔ لیکن جو مَیں تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اور تائیدات کا مضمون ہو گا۔ بعض فتنہ پیدا کرنے والے لوگ اب بھی ایسے ہیں، چند ایک ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں بعض دفعہ بے چینی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بعض لوگ فتنہ پیدا کرنے کے لئے اور بعض اپنی کم علمی کی وجہ سے اُن کی باتوں میں آ کر یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کا تو انتخاب ہوتا ہے پھر خدا کس طرح خلیفہ بناتا ہے۔ یہ تو بندوں کا انتخاب ہے۔ یا پہلے اگر یہ بندوں کا انتخاب نہیں تھا تو اب یہ انتخاب بندوں کا ہو گیا ہے۔عجیب اُن کی منطق ہے،اس کی سمجھ نہیں آتی کہ پہلے خدا تعالیٰ کا انتخاب تھا تو اب کیوں نہیں ہے۔ اگر پہلے خدا تعالیٰ کا انتخاب تھا تو اب بھی خدا تعالیٰ کا ہی انتخاب ہونا چاہئے۔

پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ نہ یہ پہلے کبھی بندوں کا انتخاب تھا، نہ اب ہے اور نہ آئندہ کبھی انشاء اللہ تعالیٰ ہو گا۔ یہ انتخاب خدا تعالیٰ کاا نتخاب ہے اور اس بارے میں یہ آیات جو تلاوت کی گئی ہیں اور خاص طور پر یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے، اس بات کو کھول کر بیان کرتی ہے کہ یہ خالصۃً اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔  قرآنِ شریف سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ خلافت کا نظام تین طریقوں کا ہے۔ ایک انبیاء ہیں، اُن کو بھی قرآنِ کریم نے خلیفہ کہا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر میں یا حضرت داؤد علیہ السلام کے ذکر میں اُن کو خلیفہ کے نام سے پکارا گیا۔ پھر بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد جو نبی آئے، اُن کی شریعت کو جاری رکھنے والے آئے، اُن کو بھی اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کہا ہے۔ اور پھر ایک تیسری قسم ہوتی ہے جو نبی کے بعد نبی کے نظام کو چلانے کے لئے بعض لوگ ہوتے ہیں جن کو خود چنا جاتا ہے، جماعت کے ذریعے سے چنا جاتا ہے، وہ بھی خلیفہ کہلاتے ہیں اور اُن کو بھی اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کہا ہے۔  لوگوں کے انتخاب کے ذریعے جو خلیفۂ وقت کا انتخاب ہوتا ہے، اُس کو اگر بندوں کا انتخاب کہا جائے تو پھر خلفائے راشدین پر بھی یہ الزام آ جاتا ہے۔

پس ہر بات جو ہے سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے۔ اس انتخاب کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا معیار اللہ تعالیٰ نے یہ مقرر کر دیا جو اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ مومنین کے دل اس طرف مائل ہو جاتے ہیں جب ایک خلیفہ کا انتخاب ہوتا ہے اور جماعت احمدیہ کی اکثریت اس بات کی گواہ ہے کیونکہ ایم ٹی اے کی آنکھ نے دنیا کو 2003ء میں دکھا دیا تھا۔ا ور پھر جان و دل سے بیعت کرنے والے جو ہیں وہ جان و دل سے اُس کی اطاعت بھی کرتے ہیں۔ دنیائے احمدیت اب اس قدر وسیع ہو چکی ہے کہ ایک عقل مند کے لئے یہ دلیل ہی کافی ہے کہ دنیا کی مختلف قوموں کے لوگ، دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگ، جہاں تک سڑکیں بھی نہیں جاتیں، جہاں بجلی کی سہولت نہیں، جہاں پانی کی سہولت نہیں ہے، وہاں بھی آپ جائیں تو خلیفۂ وقت سے ایک پیار اور محبت کا اظہار ان لوگوں میں دیکھیں گے۔ پس یہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ دلوں میں جو پیار پیدا کیا ہے،یہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے انتخاب کی وجہ سے ہی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ خلافت کے لئے اپنی تائیدات کے ذریعے نبی کے کام آگے بڑھاتا ہے اور آج جماعت احمدیہ پر کوئی یہ انگلی نہیں اُٹھا سکتا کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار نہ صرف یہ کہ پیچھے کی طرف جا رہی ہے یا رُک گئی ہے بلکہ آج ہمارے مخالفین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی کی رفتار پہلے سے بڑھ کر ہے اورجماعت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور دنیا میں پھیلتی چلی جا رہی ہے ۔ پس یہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ انتخاب اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ پھر تمام تر نامساعد حالات میں، مختلف ملکوں میں مختلف حالات آتے ہیں، خلافت کی چھاؤں میں لوگوں کو سکون اور امن ملتا ہے۔اور اس کا اظہار بہت سی جگہوں پر مختلف جلسوں میں، فنکشنوں میں لوگ خود بھی کرتے ہیں۔ مجھے بیشمار خطوط آتے ہیں۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ آپ میں سے بھی بہت سارے ہوں گے جن کو اس کا تجربہ ہو گا ۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلیفۂ وقت اللہ تعالیٰ اور خدائے واحد کی عبادت کی طرف توجہ دلاتا ہے جو نبی کا مقصد ہے۔ جس مقصد کے لئے اس زمانے میں دین کی تجدید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بھیجا ہے۔پس کبھی آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے کوئی ایسا حکم آیا ہو کہ جس میں   نعوذ باللہ خدائے واحد کی عبادت سے کمی کی طرف کسی بھی طرح کا اظہار کیا گیا ہو بلکہ لگاتار اور بار بار افرادِ جماعت کو یہی تلقین کی جاتی ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار بڑھاؤ اور یہی ایک بہت بڑا کام ہے۔ کیونکہ تمام طاقتوں کا سہارا، انسان کو پالنے والا، انعامات سے نوازنے والا خدا تعالیٰ ہی ہے اور اُس کی شکر گزاری کے طور پر بھی ہر ایک کو عبادت کرنی چاہئے۔ پس یہ بھی ایک وہ پہلو ہے جو خلیفہ کے خدا کی طرف سے ہونے کی تائید کرتا ہے۔ اور پھر دعاؤں کے نتیجے میں جو خلیفۂ وقت کی ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی طور پر اللہ تعالیٰ کی تائیدات نظر آتی ہیں۔پس یہ چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ خلافت کا انتخاب گو چند لوگوں کے ذریعے سے ہوتا ہے لیکن یہ انتخاب خدا تعالیٰ کا ہے جو دلوں میں ڈالتا ہے۔

 پھراللہ تعالیٰ کی تائیدات میں سے یہ بھی دیکھ لیں کہ خلافت کے مقابلے پر کوئی بھی شخصیت یا حکومت جب بھی کھڑی ہوئی تو خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ اعلان کرتی ہے کہ یہ بندہ بیشک کمزور ہے، کم علم ہے، کم طاقت ہے اور تمہاری نظر میں تقویٰ اور طہارت سے عاری ہے لیکن اب یہ میری پناہ میں ہے اور جو بھی اس کے مقابلے میں کھڑا ہو گا وہ تباہ ہو جائے گا۔ مَیں تو اللہ تعالیٰ کی پناہ اور تائیدات کے جلوے ہر روز بڑی شان سے پورے ہوتے دیکھتا ہوں اور نہ صرف مَیں بلکہ ہر احمدی جو ایمان سے پُر ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں رہتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے جماعت کے لئے اور خلافت کی تائید کے لئے نظارے دکھاتا ہے اور نہ صرف مومنوں کے ایمانوں کو تازہ کرتا ہے بلکہ اب اس تائید و نصرت کے ذریعے سے پاک فطرت لوگوں کی رہنمائی بھی فرماتا ہے۔ آج جماعت احمدیہ پر طلوع ہونے والا ہر دن اس بات کی تائید کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ خلافت احمدیہ کے ساتھ ہے اس لئے کہ یہ خدا تعالیٰ کا انتخاب ہے۔ اس لئے کہ خدا تعالیٰ اپنے انتخاب کی غیرت رکھتا ہے۔

پس جماعت کی ترقی خلافتِ احمدیہ سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خلیفہ بھی انسان ہوتا ہے اس لئے قانونِ قدرت کے تحت ہر انسان نے اس دنیا سے رخصت ہونا ہوتا ہے۔ ایک جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہے کہ خلافت اب دائمی ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ انسانوں کے ساتھ وعدہ نہیں، خلافت کے ساتھ وعدہ ہے۔ اور یہ وعدہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات لئے ہوئے ہے۔ اس لئے جماعت کی ترقی، اسلام کی ترقی اب اسی سے وابستہ ہے۔ خلافت کے اس دائمی نظام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مَیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ہمیشہ ہم سنتے ہیں، دوبارہ پیش کرتا ہوں۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ قائم رہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اُس کو اُٹھانا چاہے گا، اُس کو اُٹھا لے گا۔پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ پھر وہ قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ قائم رہے۔( یہ شروع خلافت کا یعنی خلفائے راشدین کا ذکر ہے۔) پھر جب اللہ تعالیٰ اُس کو اُٹھانا چاہے گا، اُسے اُٹھا لے گا۔ پھر ایذا رساں  بادشاہت قائم ہو گی۔ پھر وہ قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ قائم رہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اُس کو اُٹھانا چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ پھر جابر بادشاہت ہو گی۔ پس وہ قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ قائم رہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اُس کو اُٹھانا چاہے گا اُٹھا لے گا۔ پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 285 مسند نعمان بن بشیرؓ حدیث 18596 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

 اور یہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے ساتھ شروع ہوئی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرماتے ہیں کہ :

            ’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی (المجادلہ:22)۔ اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچّائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخمریزی اُنہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اورٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں‘‘۔

             فرمایا :’’غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ (1) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامناپیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیںاور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا۔ اور یقین کر لیتے ہیںکہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اورکئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گِرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق  ؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی۔ اور بہت سے باد یہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ  بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا  وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اَمْنًا  (سورۃ النور:56)‘‘۔

            ’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جومَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو‘‘ (اُس وقت آپ کو بعض اشارے ایسے ملے تھے  جن کی وجہ سے آپ نے لوگوں کو اپنی واپسی کا بتایا تھا) ’’اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤںگا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی‘‘۔

(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304-305)

 پس یہ دو قدرتیں ہیں۔ پہلی نبوت کی اور دوسری خلافت کی۔ اگرخلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے یا کسی وقت میں نہیں رہنی تھی تو پھر یہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کیسی ہوئی ؟پس یہ انکار کرنے والے یا شبہات میں ڈالنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بھی انکار کرتے ہیں۔

             پھر فرماتے ہیں :’’ مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں۔ اور میرے بعد بعض اور وجود ہوںگے جو دوسری قدرت کامظہر ہوںگے۔ سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دُعا کرتے رہو‘‘۔  (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ 306)

 پس جو سمجھتے ہیں کہ خلیفہ خدا نہیں بناتا، وہ خلافت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہاں اپنی فکر کریں کیونکہ اس آیت میں خلافت کا وعدہ مومنین کی جماعت کے ساتھ ہے، فاسقوں کے ساتھ نہیں۔ پس قرآنِ کریم، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات سب واضح کرتے ہیں کہ خلافت کا نظام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین کے ساتھ شروع ہوا تھا اور اُن کے بعد اب دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو کہ مہدی معہود اور خاتم الخلفاء بھی ہیں کے ذریعہ سے دنیامیں قائم ہونا ہے اور ہو گیا ہے اور وہ خلافتِ راشدہ ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ ہے، اللہ تعالیٰ کی تائیدات لئے ہوئے ہے۔

جماعت احمدیہ کا آج دنیا کے دو سو ممالک میں قائم ہونا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خلافت احمدیہ ایک سچی خلافت ہے۔جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا اس وقت میں اس بارے میں زیادہ علمی بحث نہیں کرنا چاہتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ کے اپنے انتخاب کی تائید کا اظہار ہوتا ہے۔ اور میں نے چند واقعات لئے ہیں جوپرانے احمدیوں کے نہیں لئے بلکہ نومبائعین کے ہیں جن سے خلافت کی تائید و نصرت، قبولیتِ دعا، تسکینِ قلب اور ایمان میں پختگی کا اظہار ہوتا ہے۔

نائیجر کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ برنی کونی شہر کے ایک سادہ لوح نوجوان محمد ثالث صاحب ایک بینک میں صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہیں۔ اُنہوں نے ہمارے ساتھ نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں اور کچھ عرصے بعد بیعت بھی کر لی۔ انہوں نے نہ کوئی زیادہ سوال و جواب کئے اور نہ ہی جماعت کے بارے میں کچھ پڑھا۔ بس جماعت کے نظام اور تربیتی پروگراموں سے ہی استفادہ کیا۔ ایک دن ان کے بینک کے افسران اور اُن کے ساتھیوں نے اُنہیں گھیر لیا اور تنگ کرنے لگ گئے کہ جماعت نے آپ کو کوئی بڑی رقم دی ہے جس کی وجہ سے آپ احمدی ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا دکھ ہوا کہ یہ مجھ پر کیوں الزام لگا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس رات میں نے جماعت کی سچائی کے حوالے سے اپنے اللہ سے بہت دعا کی کہ اللہ!مَیں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں، تُو خود ہی میری رہنمائی فرما۔ کہتے ہیں کہ اُسی رات خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا اجتماع ہے اور دور دور تک لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں اور سب نے سفید لباس پہن رکھا ہے اور درمیان میں ایک سٹیج ہے اور اس سٹیج پر انہوں نے مجھے دیکھا کہ مَیں کھڑا ہوں اور مَیں نے بھی سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔مجھے لکھ رہے ہیں کہ آپ اونچی آواز میں لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  دہرا رہے ہیں اور سارا مجمع بھی آپ کے ساتھلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ دہرا رہا ہے اور ایک عجیب سرور کی کیفیت تھی۔ کہتے ہیں کہ اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی اور میری زبان پر بھیلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے الفاظ تھے اور اس کے بعد سے میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑھ گئی کہ اس دور میںلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی حفاظت کا ذمہ خدا تعالیٰ نے خلیفہ کو دیاہے اور یہی جماعت لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی وارث ہے۔

امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ پورتونووو (Portonovo)میں(وہاں ایک شہر ہے) ایک ڈینٹسٹ ہیں جن کا تعلق مصر سے ہے۔وہ مصری ہیں۔ وہ اپنی فیملی سمیت اپنی گورنمنٹ کے ساتھ کنٹریکٹ پر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ملازمت کر رہے ہیں۔ دل کے بڑے نرم ہیں۔ ان کے ساتھ مشن میں کئی بار اختلافی مسائل پر بات ہوئی۔ بات کو سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ختم نبوت کا مسئلہ تحقیق طلب ہے۔ جماعت کے اخلاق، تعلیم اور خدمتِ انسانی کے بہت معترف ہیں۔ اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ اور ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ پڑھنے کو دیں نیز دعا کی تحریک کی کہ خود دعا کریں کہ اگر احمدیت سچی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کی طرف سے وہی مسیح موعود اور امام مہدی ہیں تو خدایا مجھے قبول کرنے کی توفیق دے اور میرا سینہ کھول دے۔ موصوف نے بتایا کہ میں نے دو یا تین روز مسلسل خصوصیت سے دعا کی تو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اپنی فیملی کے ساتھ ایک بہت بڑے اور خوبصورت گھر میں ہوں اور بہت خوش ہوں۔ اسی اثناء میں ایک بہت بڑا اژدھا ظاہر ہوتا ہے اور ہماری طرف آتا ہے اور وہ اتنا بڑا ہے کہ میں خوفزدہ ہو جاتا ہوں یہاں تک کہ کانپنا شروع کر دیتا ہوں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ یہ سانپ مجھے اور میرے بچوں کو کھا جائے گا۔ اسی دوران میں مَیں ایک بزرگ کو اپنے پاس پاتا ہوں جو بڑے بارعب ہیں اور کسی کتاب سے کچھ پڑھتے جاتے ہیں۔ جوں جوں وہ کتاب کے صفحات تبدیل کرتے جاتے ہیں وہ سانپ غائب ہوتا جاتا ہے۔ جب مَیں ان بزرگ کا چہرہ دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ وَاللّٰہِ! ھَُوَخَلِیْفَۃُ الْاَحْمَدِیَہ، وَاللّٰہِ! ھَُوَخَلِیْفَۃُ الْاَحْمَدِیَہ۔ اور یہ دہراتے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ بینن میں بسنے والے دوسرے مصری لوگ اُنہیں منع کرتے ہیں کہ جماعت کے لوگوں سے نہ ملاکرو، یہ کافر لوگ ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ مَیں تو جماعت میں اخلاق، انسانی ہمدردی اور اسلام کی حقیقی روح دیکھتا ہوں اور اپنے دوستوں سے اس بات کا برملا اظہار بھی کرتا ہوں۔ یعنی کہتے ہیں کہ مَیں اظہار سے نہیں رہ سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ جو ابھی احمدی نہیں ہوئے، اُن کو بھی واضح طور پر بتاتا ہے۔

پھر نائیجر کے امیر صاحب ہی لکھتے ہیںکہ ماراوی ریجن کے ایک گاؤں میں ایم ٹی اے کی نشریات دیکھنے کے لئے احباب جمع ہوئے۔ ڈش انٹینا نصب کیا جا رہا تھا۔ گاؤں کے سب لوگ مردوزن، بوڑھے بچے اکٹھے ہوئے ہوئے تھے جب ڈش سیٹ کر کے ٹی وی آن کیا گیا تو اُس وقت میرا پروگرام سکرین پر آ رہا تھا اورساتھ ہی میری تصویر بھی تھی۔ کہتے ہیں کہ اچانک مجمع میں سے ایک بوڑھی خاتون اُٹھی اور آگے آ گئیں، وہ الحاجہ تھیں۔ انہوں نے حج کیا ہوا تھا۔ آتے ہی اونچی آوا ز میں کہنے لگیں کہ اس شخص کو مَیں نے خواب میں دیکھا ہے، جب اُنہیں بتایا گیا کہ یہ جماعت کے امام اور ہمارے خلیفہ ہیں تو وہ اور سکرین کے قریب آ گئیں اور غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔وہ غریب عورت تھی اور وہاںاُس علاقے میں بجلی بھی نہیں ، جنریٹر سے ٹی وی چلایا جاتا ہے تو اب یہ خاتون لکڑیاں لا کے بیچ کے گاؤں کے چیف کو پیسے دیتی ہیں کہ جنریٹر کے لئے تیل خریدیں اور جنریٹر چلائیں تا کہ وہ خلیفۃ المسیح کو دیکھ سکیں۔ تویہ  ایم ٹی اے کی برکتیں بھی ہیں۔ اس لئے آپ لوگوں کو بھی جو ایم ٹی اے کی سہولت ملی ہے، یہاں تو نہ آپ کو لکڑیاں بیچنی پڑتی ہیں نہ کوئی تیل خرچ کرنا پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھروں میں مہیا کیا ہوا ہے تو اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور یہی چیز جماعت کی تربیت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

 پھر کسومو (کینیا )سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہیومینٹی فرسٹ کے تحت احمدیہ مسجد کرونجے کے احاطے میں ایک کنواں کھودا جا رہا تھا۔ امید تھی کہ چالیس فٹ کی گہرائی تک کھدائی سے پانی مل جائے گا۔ مگر بیالیس فٹ تک کھدائی کرنے پر بھی پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ مزدور بہت مایوس ہوئے اور کہا کہ ہمیں اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ کھدائی کرنی چاہئے کیونکہ عموماً پینتیس چھتیس فٹ تک پانی مل جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ صورتحال مجھے  فیکس کی، تو ان کو میرا جواب یہ گیا تھا کہ انشاء اللہ پانی جلد مل جائے گا تو اُس پر انہوں نے مزدوروں کو کہاکہ ہمت نہیں ہارنی، کھودو۔ اور جب دو تین فٹ اور کھودا تو اللہ کے فضل سے وافر پانی مل گیا۔  اور یہ چیزیں پھر وہاں کے رہنے والے جولوگ ہیں، جو مزدور کام کر رہے تھے، اُن کو بھی حیران کرتی ہیں۔

اسی طرح امیر صاحب آسٹریلیا لکھتے ہیں کہ میلبورن سینٹر کی مسجد اور کمیونٹی کے لئے استعمال کی کونسل نے مخالفت کی۔ کونسل نے مخالفت کے باوجود اجازت دے دی تھی۔ بعد میں ایک شخص نے عدالت میں اپیل کر دی۔ ہم سب پریشان ہوئے کہ معاملہ کورٹ میں چلا گیا ہے۔ انہوں نے دعا کے لئے مجھے لکھا ۔ کہتے ہیں میرا جواب اُنہیں   گیا کہ اللہ تعالیٰ اب بھی فضل فرمائے اور آئندہ بھی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو خود دور کر دے گا ۔اور یہ کہتے ہیں کہ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور پہلی پیشی میں ہی کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا۔

 امیر صاحب انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ غلام محی الدین صاحب مبلغ سلسلہ انڈونیشیا نے لکھا کہ ایک نومبائع خاتون احمدی ہونے سے پہلے بھی تہجد کی نماز پڑھتی تھیں۔ ایک رات انہوں نے تہجد کی نماز کے بعد خواب میں ایک شخص کو دیکھا جنہوں نے پگڑی پہن رکھی تھی۔وہ اُسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے، وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں، اُس کے بعد اُس نے تہجد کے بعد تین مرتبہ اس پگڑی والے شخص کو دیکھا۔ اُس نے اپنے استاد صاحب جو کہ احمدی نہ تھے اُن سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ استاد نے جواب دیا کہ یہ صدیق شخص ہے۔ جو بھی ہے سچا ہی لگتا ہے۔ لیکن اس کے بعد اس کا دل بے چین رہنے لگا۔ بالآخر اُس کی ایک احمدی سے ملاقات ہوئی۔ اُس نے ایک دن اُس احمدی کے گھر میں ایم ٹی اے دیکھا۔ جب ایم ٹی اے پر انہوں نے میری تصویر دیکھی تو فٹ بولیں کہ یہ شخص تین دفعہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے اور اللہ کے فضل سے اس سال مئی میں انہوں نے بیعت بھی کر لی۔

اشرف ضیاء صاحب مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ بلغاریہ کے ایک دوست اولک(Olek) صاحب کافی عرصہ سے زیرِ تبلیغ تھے۔ عیسائی تھے اور اُن کی بیوی پہلے احمدی ہو چکی ہیں لیکن یہ احمدی نہیں ہوتے تھے۔ اس کی وجہ اُن کا خاندان بھی تھا جو کہ عیسائی ہے اور چرچ کی دیکھ بھال کا کام اُن کے سپرد ہے۔ 2005ء کے جلسہ سالانہ جرمنی میں ان کو شمولیت کی دعوت دی۔ اس پر یہ مع اپنی اہلیہ کے شریک ہوئے جو کہ احمدی ہو چکی تھیں۔ اُن کی میرے سے ملاقات بھی ہوئی۔ واپسی پر بہت متاثر تھے لیکن بیعت نہیں کی، ایک دن ہمارے سینٹر آئے اور کہنے لگے کہ میں نے بیعت کرنی ہے۔ میں احمدی ہونا چاہتا ہوں۔ اُن سے پوچھا کیا وجہ ہے۔ کہنے لگے کہ آج دوسری رات ہے لگاتار خلیفۃ المسیح میرے پاس خواب میںآتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اولک! اگر تم پاس نہیں آتے تو مَیں ہی تمہارے پاس آ جاتا ہوں۔ اس طرح میرے گھر تشریف لاتے ہیں، مجھے شرمندگی ہوتی ہے اور مَیں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ آج ہی مَیں احمدیت میں داخل ہوں گا۔ اللہ کے فضل سے بیعت کر لی۔

جرمنی کی ایک جماعت کے صدر صاحب لکھتے ہیں کہ ہم نے ٹیئر(Trier) شہر میں ایک تبلیغی سٹینڈ لگایا۔ ایک کُرد مسلمان قاسم دال اپنی جرمن بیوی اور تین بیٹیوں کے ساتھ وہاں تشریف لائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر سے بات شروع ہوئی اور خوب غصے سے بولے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون آ سکتا ہے؟ تقریباً پندرہ منٹ کی بحث کے بعد ہمارے سیکرٹری تبلیغ نے اُن کا فون نمبر لے لیا اور وہ چل دئیے۔ اگلے ہی دن اُنہیں کھانے پر بلایا گیا اور تین گھنٹے کی تبلیغی نشست ہوئی۔ اُنہیں کتابیں بھی دی گئیں۔ دو دن بعد اُن کا فون آیا کہ جو کتابیں آپ نے دی تھیں وہ مَیں نے جلا دی ہیں کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے اور مَیں رابطہ نہیں رکھنا چاہتا۔ ہمارے سیکرٹری صاحب تبلیغ نے کہا کہ ہماری دوستی تو اب نہیں ٹوٹ سکتی، یہ تو اب قائم ہو گئی ہے۔ اس لئے آج بیشک نہ آئیں لیکن جمعرات کو تشریف لائیں، آپ سے ضرور بات کرنی ہے۔ اس دوران اُن کودشمنوں کی طرف سے ، مخالفین کی طرف سے جماعت کے متعلق اتنا بد دل کر دیا گیا تھا کہ وہ آئے تو سہی لیکن روزہ رکھ کے آئے کیونکہ احمدیوں کے گھر کھانا پینا نہیں چاہتے تھے۔ تبلیغی بحث میں اتنا وقت گزر گیا کہ اُنہیں مجبوراً وہیںروزہ افطار کرنا پڑا ۔ آخر میں سیکرٹری صاحب تبلیغ نے کہا کہ ایک وعدہ کریں کہ مولوی کی بات ایک طرف، خدا تعالیٰ کے وعدے ایک طرف۔ آپ ایسا کریں کہ چالیس روز پاک دل ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کے بارے میں دردِ دل سے دعا کریں اور اس دوران کسی تعصب کو جگہ نہ دیں۔ انہوں نے اس کا وعدہ کر لیا۔ ابھی تیسرا دن تھا کہ ٹیلیفون آیا اور وہ بھی اپنے کام کی جگہ سے کہ تمہارے پاس خلیفۃ المسیح الخامس کی کوئی تصویر ہے؟ انہوں نے کہا ’’ہے‘‘۔ تو جواب دیا کہ مَیں ابھی کام چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ سیکرٹری تبلیغ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ مجھے غائبانہ آواز آئی ہے کہ ثبوت کیا مانگتے ہو، ثبوت تو ہم تمہیں دکھا چکے ہیں۔ اور ساتھ ہی اُن کو وہ خواب یاد دلائی گئی جس میں انہوں نے مجھے دیکھا تھا اور کہتے ہیں مجھے انہوں نے دیکھا تھا کہ کمانڈر انچیف کے طور پر کھڑا ہوں اور سامنے گندمی رنگ کے لوگ ہیں اور فرشتوں کی جماعت کے طور پر وہ دکھائے گئے۔ جونہی وہ سیکرٹری تبلیغ کے گھر پہنچے تو میری تصویر دیکھ کے کہنے لگے کہ یہی ہے۔ اب اُن سے رہا نہیں جا رہا تھا ۔کہنے لگے کہ مَیں نے جلسہ سالانہ انگلینڈ میں شرکت کرنی ہے۔ چنانچہ گزشتہ سال جلسہ یو۔کے میں شامل ہوئے۔ راستے میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا  اور مبلغ سے بھی بات کی کہ مَیں خلیفہ وقت کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اُنہیں کہا گیا کہ اتنے بڑے جلسے میں یہ وعدہ نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی بیعت ہو رہی ہے، انتظامیہ سے پوچھ کر بتایا جا سکتا ہے۔ لیکن بہر حال جب بات ہوئی تو ان کو آگے بلوا لیا گیا اور اللہ کے فضل سے انہوں نے وہاں بیعت کی اور اُس کے بعد اب تک وہ اپنے خاندان میںپانچ بیعتیں بھی کروا چکے ہیں ۔

امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ ہمارے الجزائر کے ایک دوست Bauhas Chebab احمدیت قبول کرنے سے قبل اپنی ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ خواب میں میں نے محسوس کیا کہ مجھے ایک ایسی جگہ لے جایا گیا ہے جو کہ جلسہ کی جگہ کی طرح تھی۔ پھر مجھے اُڑا کر ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں کچھ پاکستانی لوگ کالے کپڑوں میں موجود تھے اور اُن کے درمیان میں خلیفہ ٔوقت بیٹھے ہوئے تھے۔اُس وقت مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ خلیفۂ وقت کیا ہوتا ہے( اور یہ میرے انتخاب سے پہلے کی بات ہے) وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ سبز خاکی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا اور وہ رو رہے تھے اور باقی سب لوگ بھی رو رہے تھے۔ تو مَیں نے سوال کیا کہ یہ سب کیوں رو رہے ہیں تو کہتے ہیں کہ مجھے انہوں نے بتایا کہ چوتھے خلیفہ کا جسمِ خاکی اللہ کے پاس جا چکا ہے اور اس کی روح زندہ تھی۔پھر دو آدمی مجھے اپنے ہمراہ لے گئے۔ لیکن جو آدمی مجھے لے کر گئے مَیں اُن کے چہرے نہیں دیکھ سکا۔ انہوں نے کہا کہ اب جو آپ کو نظر آ رہے ہیں یہ پانچویں خلیفہ ہیں۔ نہوں نے لکھا کہ اُس وقت سے پہلے مَیں نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا تھا (انہوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا ) ۔ انہوں نے یہ بات تین دفعہ مجھے دہرائی کہ اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو صرف ایک بات یاد رکھنا کہ انہوں نے سبز رنگ کا کوٹ پہنا ہوا ہے۔ جمعہ کے دن جب مَیں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے ایک احمدی دوست کے گھر گیا تو وہاں سب لوگ ٹی وی دیکھ رہے تھے تو مَیں نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ جب مَیں نے ٹی وی کی طرف دیکھا تو مجھے وہی کچھ نظر آیا جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا اور اُس وقت میں احمدی نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر میرے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے اور مجھ پر پانچویں خلیفہ اور احمدیت کی صداقت ظاہر ہو گئی۔

 امیرصاحب فرانس ہی بیان کرتے ہیں کہ مراکش کی ایک خاتون ایک تبلیغی نشست کے بعد صدر جماعت کے گھر گئیں۔ وہاں پر خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تصویر دیکھتے ہی رونے لگیں۔ اور کہتی جاتی تھیں کہ یہ کون شخص ہے، یہ روز میری خواب میں آتا ہے۔ جب اُنہیں حضور کا تعارف کروایا گیا کہ یہ جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ ہیں تو اُس نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہے اُسی وقت بیعت کر لی۔

امیر صاحب بینن بیان کرتے ہیں کہ نکّی (Nikki)کے علاقے کے مولوی حضرات کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ نعوذ باللہ احمدیت کے گندے پاؤں سے اس شہر کو پاک رکھیں گے اور احمدیت وہاں نہیں آ سکے گی۔ لیکن خدا تعالیٰ کی نصرت کو کون روک سکتا ہے۔ وہاں ایک الحاج داؤد صاحب اپنی تمام فیملی کے ساتھ احمدی ہو گئے۔ انہوں نے ہمارے مقامی معلم کو بلایا اور کہا کہ تم میری بیعت لے لو۔ ہمارے معلم نے دریافت کیا کہ آپ بیعت کیوں کر رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ مَیں آپ کی دعوت پر لوگوں کو لے کر’ پراکو‘ گیا تھا جہاں خلیفۂ وقت آئے تھے۔ وہاں مَیں نے دیکھا کہ اگر کہیں اسلام ہے تو یہیں ہے۔ خاص کرجب مَیں نے خلیفۂ وقت کا چہرہ دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات گاڑ دی کہ یہی اللہ کا نمائندہ ہے۔ اُس پر مَیں نے ( یہ 2008ء کی بات ہے) جماعت کی جشنِ تشکر والی شرٹس خریدیں اور یہاں لا کر مفت تقسیم کیں۔

پھر امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں، لوئر نوئمی ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک احمدی دوست عثمان سوئے صاحب کو احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے سخت مخالفت کا سامنا تھا۔ یہ مخالفت اُن کے اپنے خاندان کی طرف سے بھی ہو رہی تھی اور اُن کے سسر اور سگے بھائی پیش پیش تھے۔ اسی دوران اُن کی اہلیہ اور بچے اُن کے سسر کے پاس اُن کے گاؤں چلے گئے۔ سسر نے اُن کی شادی ختم کروانے کی بھرپور کوشش کی۔ حالات دن بدن خراب ہو رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ 2004ء میں جلسہ سالانہ یوکے کے تمام پروگرام دیکھنے کے بعد موصوف نے میرے نام دعائیہ خط لکھا جس میں جلسے کی مبارکباد دی اور فیملی کے مسائل کا بالخصوص ذکر نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے لئے عمومی رنگ میں دعا کی درخواست کی تھی۔ کہتے ہیں کچھ عرصے بعد جب میرا جواب اُن کو گیا تو اس پر مَیں نے ان کو لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد اپنی فیملی سے ملانے کے سامان کرے۔ وہ یہ خط پڑھ کر حیرت سے کہنے لگے کہ مَیں نے حضور کو یہ نہیں لکھا تھا، اُن کو کیسے پتہ چلا کہ میرا فیملی کے ساتھ اس قسم کا مسئلہ ہے۔ خط پڑھنے کے بعد موصوف نے اپنی بیوی کے گاؤں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو کہتے ہیں اللہ کے فضل سے اُن کے سسرال نے غیر معمولی طور پر اُن کااستقبال کیا اور اُن کے ساتھ عزت سے پیش آئے اور پھر وہ اپنی بیوی بچوں کو لے کر واپس آ گئے۔ اس واقعہ کے بعد اُن کے خلافت کے ساتھ تعلق میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

سعید احمد صاحب مبلغ کانگو برازاویل لکھتے ہیں کہ برازاویل میں ایک شخص جس کا تعلق فرقہ سلف سے ہے، وہ سعودی عرب سے دو سال پہلے اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس آیا۔جب اُس کو پتہ چلا کہ کانگو میں بھی احمدیت پہنچ گئی ہے تو اُس نے جماعت کے خلاف فتاوی دینے شروع کر دئیے۔ جب بھی ہم ٹی وی پر پروگرام کرتے تو اُس کو بہت تکلیف ہوتی۔ جگہ جگہ اُس نے جماعت کے خلاف بدزبانی شروع کر دی۔ پورے ملک کا اُس نے وزٹ کیا اور ہر جگہ پر جماعت کے خلاف جلسے کئے اور انٹرنیٹ سے جماعت کے خلاف مواد لے کر پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا اور لکھا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اس لئے اگر وہ اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آئیں تو ان کی بات نہ مانی جائے اور اکثر پمفلٹ عیسائیوں میں تقسیم کئے گئے۔ اب عیسائیوں کو کیا پتہ تھا کہ اسلام کیا ہے اور احمدیت کیا ہے۔ جہاں ہم ابھی نہیں پہنچ سکتے تھے کہتے ہیں کہ وہاں بھی جماعت کا پیغام انہوںنے پہنچا دیا۔ اُس نے دو مرتبہ اپنے حواریوں کے ساتھ ہمارے مشن کے باہر آ کر پروپیگنڈا بھی کیا اور بفضلہ تعالیٰ اس کو ہر قسم کا جواب دیا گیا۔ پمفلٹ کے ذریعے بھی، ٹی وی پر بھی اور مناظرات کر کے بھی۔ جب بھی ہم کوئی پروگرام ٹی وی پر کرتے تو وہ ٹی وی والوں کے پاس جا کر کہتا کہ احمدیوں کو پروگرام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ جب اس کی شیطانی حد سے بڑھی تو مبلغ صاحب نے مجھے دعا کے لئے لکھا۔ اس پر میرا جواب ان کو گیا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ ٹی وی پر مسلسل تین مہینے پروگرام کئے اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کے بعد ایسی تائید فرمائی کہ وہ خاموش ہو گیا جیسے اُس کو سانپ سونگھ گیا اور مخالفت ترک کر دی۔

مبلغ سلسلہ سوئٹزرلینڈ لکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے دو نوجوان ایک سوئس اور دوسرا اٹالین(Italian) احمدی ہوئے اور جلسہ فرانس کے دوران انہوں نے وہاںمیرے ہاتھ پر بیعت بھی کی ۔ فرانس سے واپس آنے کے بعد اُن کا رابطہ دوسرے مسلمانوں سے ہوا۔ چونکہ ابھی تربیت نہیں تھی اور جھوٹا پروپیگنڈا تھا تو جماعت سے بدظن ہو گئے اور جماعت چھوڑ کر دوسرے مسلمانوں میں شامل ہو گئے۔ خیر مبلغ صاحب نے مجھے خط لکھا تو مَیں نے اس پر یہ جواب لکھا تھا کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ رحم کرے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ دعا کرتے رہیں انشاء اللہ ،اللہ تعالیٰ اَور دے گا۔ اور کہتے ہیں کہ یہاں فیکس ملی تو مجھے بڑی تسکین ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نعم البدل عطا فرمائے گا۔ کہتے ہیں فیکس کے ذریعہ یہ جواب آنے کوابھی دو تین دن ہی گزرے تھے کہ ایک سوئس خاتون نے جس کا نام مریم تھا فون کیا اور اسلامک سینٹر زیورک کا فون نمبر دریافت کیا۔ خاکسار کے نمبر دینے پر کہنے لگی کہ یہ نمبر تو میرے پاس ہے لیکن کئی دنوں سے بار بار اس نمبر پر کوشش کر رہی ہوں، کوئی اُٹھاتا ہی نہیں اور یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ پھر ٹرائی (Try)کر لیتی ہوں۔ چنانچہ کئی بار کی کوشش کے باوجود کسی نے فون اٹینڈ (Attend)نہیں کیا۔ پھر آخر تنگ آ کر اس خاتون نے دوبارہ فون کیا اور اپنے خاوند اور بیٹی کے ساتھ مسجد آنے اور ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ کہتے ہیں اگلے دن مقررہ وقت پر تشریف لائیں۔کہتی ہیں کہ تقریباً دو سال قبل انہوں نے اور اُن کے خاوند نے عیسائیت سے اسلام قبول کیا تھا۔ ذاتی دلچسپی اور مطالعہ کی بنا پر وہ مسلمان ہوئے لیکن وہ کسی مسلمان تنظیم سے منسلک نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اب اُن کے اندر خواہش پیدا ہوئی کہ مسلمان جماعت یا تنظیم سے تعلق ہونا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے لئے روزوں اور نوافل اور دعا کے ذریعہ خدا سے مدد چاہی اور مسلسل دس دن تک روزے رکھے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں سچی اور حقیقی جماعت سے منسلک کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو سنا اور باوجود کوشش کے اُن کا اسلامک سینٹر سے رابطہ نہ ہو سکا۔ رابطہ ہوا تو جماعت سے ہوا۔ یہ اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہیں آپ کی دعاؤں کا پھل تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس فیملی کو جماعت کی گود میں ڈال دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا تھا ۔اور پھر وہ لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی اور میری  تصویریں دیکھیںتو کہتی ہیں ان دونوں کو تو مَیں پہلے ہی خواب میں دیکھ چکی ہوں۔

ہمارے مبلغ سلسلہ جو بلغاریہ میں رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ 2008ء میں اسٹونیا میں ایک فیملی سے ملاقات ہوئی۔ مکرمہ میرلا صاحبہ کی والدہ عیسائی تھیں اور پروفیشن کے اعتبار سے ڈاکٹر تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میری والدہ صاحبہ کو کینسر ہے۔ بال جھڑنے شروع ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ناقابلِ علاج ہے اور روتے ہوئے کہنے لگی کہ میری والدہ کے لئے دعا کریں۔ اس پر ہم نے کہا کہ خلیفہ وقت کو بھی دعا کے لئے لکھتے ہیں۔ جلسہ سالانہ میں تشریف لائیں اور ہمارے خلیفہ سے ملیں۔ تو کہتے ہیں کہ انہوں نے اُسی وقت ایک خط بھی لکھ دیا اور جلسہ سالانہ جرمنی میں بھی شرکت کی اور میرے سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران رونے لگ گئیں اور یہ بتایا کہ ڈاکٹر جواب دے چکے ہیں۔ اس پر مَیں نے اُنہیں کہا کہ ڈاکٹرز کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے؟اللہ تعالیٰ جب کوئی معجزہ دکھانا چاہتا ہے تو منہ سے خود ہی الفاظ نکلوا دیتا ہے۔ نہیں تو یہ ایسی باتیں کہی نہیں جا سکتیں۔ زندگی موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔  اوریہ تو بہر حال ہمارا ایمان ہے۔ پھر مَیں نے اُن کے لئے ہومیو پیتھک دوائی بھی تجویز کی اور دعا کا بھی کہا۔ پھر اسی طرح اُن کو سُچی بوٹی گولیاں منگوا کر دیں۔ بہر حال علاج ہوا اور نسخہ لکھ کر دیا اور اللہ کے فضل سے تین ماہ کے عرصے میں ان کی والدہ محترمہ صحتیاب ہو گئیں اور نہ صرف صحت یاب ہوئیں بلکہ ڈیوٹی پر بھی حاضر ہو گئیں۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ تائید و نصرت غیروں کو نشان دکھا کر بھی فرماتا ہے۔

امیر صاحب نائیجر لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے بعد خاکسار نے تمام ممبران جماعت کو توجہ دلائی کہ خلیفۂ وقت کو دعائیہ خطوط لکھنے چاہئیں۔ اس پر ہمارے ایک احمدی دوست ابراہیم متراڑے صاحب کھڑے ہو گئے اور سب کے سامنے حلفیہ بیان دیا اور کہنے لگے کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ مَیں مرگی کا مریض تھا۔ میرے پاس علاج کے لئے کوئی پیسہ نہ تھا۔ مَیں شہر میں پھیری لگا کر چند اشیاء فروخت کرتا اور کہیں بھی مجھے مرگی کا دورہ پڑ جاتا اور میں گر جاتا۔ بعض لوگ مجھے پاگل سمجھتے اور مجھ سے دور بھاگتے۔ اسی دوران مجھے بیعت کی توفیق ملی۔ میں نے مربی صاحب کو کہا کہ میری طرف سے میری بیماری اور میری مالی حالت کے بارے میں خلیفہ وقت کی خدمت میں دعا کے لئے لکھیں۔ میرے پاس تو کھانے کے لئے بھی مشکل سے پیسے ہوتے ہیں۔ دوائی کا تو مَیں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میرے پاس صرف دعا کا ہی آسرا ہے۔ چنانچہ انہوں نے خط لکھا اور کہتے ہیں اب انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ اب سارا شہر گواہ ہے کہ اس واقعہ کو کئی سال ہو گئے ہیں۔ مَیں نے ایک گولی بھی نہیں کھائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل ٹھیک ہوں۔

محمد اشرف صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی ہمارے پاس آئی۔ دونوں میاں بیوی عیسائی تھے اور خاوند کی والدہ چرچ میں کسی اچھے عہدہ پر فائز تھیں۔ دونوں میاں بیوی نے بتایا کہ ہماری شادی کو سترہ سال ہو گئے ہیں اور اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ یورپ کے بڑے بڑے ممالک سے علاج کروایا ہے لیکن مایوسی ہو رہی ہے۔ جماعت احمدیہ کے بارے میں سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ کہتے ہیں اُسے مَیں نے خلافتِ احمدیہ کے بارہ میں بتایا اور دعاؤں کی قبولیت کے بارہ میں بتایا تو کہتے ہیں کہ  پھر انہوں نے دعا کے لئے لکھا۔ چنانچہ یہ کہتے ہیں کہ ان کومیرا یہ جواب گیا کہ ’’اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور آپ کی خواہش پوری فرمائے اور اولاد کی نعمت سے نوازے‘‘۔ اور کہتے ہیں بظاہر جو چیز ناممکن تھی وہ اللہ تعالیٰ نے دی اور ایسا فضل فرمایا کہ اُنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے نوازا ہے چنانچہ وہ آئے کہ یہ بیٹا خلیفہ کی دعاؤں کے طفیل ہوا ہے۔ یہ اسلامی بچہ ہے۔

محمد اشرف صاحب ہی لکھتے ہیں کہ ایک خاتون ویرونیکا (Veronika)صاحبہ اور ان کے خاوند نے ہمارے ساتھ رابطہ کیا کہ اُن کو کاروبار میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اُن کے خلاف عدالتوں میں کچھ کیسز چل رہے ہیں اور آپ ہمارے لئے دعا کریں۔ یہ فیملی عیسائی تھی۔ ہم نے جماعت کا تعارف اور خلیفۂ وقت کا تعارف کروایا اور دعاؤں کے بارے میں بتایا۔ 2010ء کے جلسہ میں جرمنی میں انہوں نے شرکت کی اور براہِ راست مجھے بھی ملیں اور دعا کے لئے کہا۔ تو کہتے ہیں اگلے سال 2011ء میں دونوں میاں بیوی جلسہ میں حاضر ہوئے اور پھر ملاقات کی اور ملاقات کے دوران موصوفہ رونے لگ گئیں اور کہنے لگیںکہ آپ کی دعاؤں سے ہماری ساری مشکلات دور ہو گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل نازل فرمائے ہیں اورانہوں نے یہ بھی کہا کہ مَیں بیعت کرنا چاہتی ہوں۔ میرے پوچھنے پر کہ آپ کے خاوند اس پرناراض تو نہیں ہوں گے۔ وہ کہنے لگیں کہ میرے خاوند تو پہلے ہی جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں۔

امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ ’’با‘‘(Ba) نامی گاؤں کے صدر جماعت بداماسی سونفو (Badamsie Sonfo) کا بیٹا کرسچین تھا اور جماعت کا سخت مخالف بھی تھا۔ اُس کی بیوی تین بار حاملہ ہوئی اور ہر دفعہ آپریشن کرنا پڑتا تھا۔تتیجۃً تینوں مرتبہ بچہ فوت ہو گیا۔ اس پر یہ نوجوان جماعت کا اشد مخالف ہونے کے باوجود اپنے باپ کے پاس آیا اوراُس کو دعا کا کہنے لگا تو باپ نے اُس کو مجھے خط لکھنے کے لئے کہا۔ چنانچہ دعا کاخط لکھا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد اُس کی بیوی پھر امید سے ہو گئی اور پھر وہ اپنے باپ کے پاس آیا اور یہ بھی کہا کہ اگر مجھے اولاد کی نعمت مل گئی تومَیں اور میری بیوی احمدیت میں داخل ہو جائیں گے۔ چونکہ اس سے پہلے وہ جماعت کا اشد مخالف تھا اس لئے قرب و جوار میں اس کا خوب چرچا ہوا۔ صدر صاحب نے معلم زکریا صاحب کے ذریعہ مبلغ کو بھی اطلاع دی۔ اس پر کہتے ہیں مَیں نے یہ ساری باتیں دعا کے لئے لکھیں۔ اور میرا جواب اُن کو گیا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ ہومیو پیتھک دوائی بھی ساتھ دی۔ اب تقریباً بیس دن ہونے کو ہیں اور اس عورت نے ایک بچی کو جنم دیا ہے اور یہ سب کچھ اتنا نارمل ہوا ہے کہ جب میٹرنٹی پر کام کرنے والی دائی نے اس کی کاپی دیکھی جس میں تین آپریشن کا اور بچوں کی فوتیدگی کا اندراج تھا تو وہ پریشان ہو گئی اور اُس نے شہر کے ہسپتال میں ریفر کرنا چاہا لیکن اسی اثناء میں اُس کے ہاں نارمل طریقے سے بچی کی پیدائش ہو گئی اور یہ واقعہ اُس کے لئے بھی غیر معمولی تھا۔

 امیر صاحب بینن ہی بیان کرتے ہیں کہ باسیلہ کے ایک گاؤں اِکوکو(Ikoko) میں ہمارے لوکل مشنری حسینی علیو صاحب کئی بار تبلیغ کے لئے گئے لیکن وہاں کے امام مولوی عبدالصمد جو کہ جماعت کے اشد مخالف تھے، وہاں بیعتوں کے حصول میں رکاوٹ بنتے تھے۔ اس امام سے بھی کئی بار بات چیت ہوئی لیکن مخالفت پر قائم رہے۔ معلم علیو صاحب بتاتے ہیں کہ پھر تقریباً آٹھ ماہ سے ان مولوی صاحب سے رابطہ منقطع تھا۔ ایک دن صبح کے وقت مذکور مولوی صاحب نے فون کیا اور گاؤں آ کر ملنے کا کہا۔ جب اُن کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ رات خواب میں آپ کے امام کو دیکھا( یعنی انہوں نے مجھے دیکھا) کہ وہ مجھے کہتے ہیں کس چیز کا انتظار ہے، جماعت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ الفاظ کئی بار دہرائے اور میں آپ کے رعب کے سامنے کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس پر اُس کو سمجھایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو واضح نشان عطا ہوا ہے کہ اب احمدیت قبول کر لیں۔ مولوی صاحب نے جماعت کی مخالفت چھوڑ دی ہے اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو جماعت کی طرف مائل کر رہے ہیںکہ مَیں ان کو ساتھ لے کر احمدی ہوں گا۔ لیکن اللہ کے فضل سے وہاں اب تک کافی تعداد میں ، سینکڑوں میں بیعتیں ہو چکی ہیں۔

آئیوری کوسٹ کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک معلم وترا آزمائونہ صاحب اس قدر بیمار ہوئے کہ موت کے قریب پہنچ گئے۔ انہوں نے اپنے ورثاء کو جمع کر لیا اور اپنے ترکہ کی تقسیم کے بارے میں اُنہیں وصیت کر دی اور خود موت کا انتظار کرنے لگے۔ بظاہر زندگی کی کوئی امید نہیں تھی۔ اسی دوران ایک روز خواب میں انہوں نے مجھے دیکھا  کہ مَیں آیا ہوں اور اُن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُن کی صحت کے لئے دعا کی ہے۔ صبح اُٹھے تو بالکل صحتمند تھے اور بیماری کا نام و نشان نہ تھا۔ سارے خاندان کو اکٹھا کیا اور بتایا کہ اس طرح مَیں نے خواب دیکھا ہے۔ اب مجھے بیماری سے موت نہیں آئے گی۔ چنانچہ اس کے بعد مسلسل خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔

عیسیٰ کاناذوی صاحب بورکینا فاسو کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں یہ خط اللہ تعالیٰ کے شکر اور خوشی کے اظہار کے لئے لکھ رہا ہوں، مَیں بہت بیمار ہو گیا تھا حتی کہ لوگ کہنے لگے کہ یہ اب نہیں بچے گا۔ اس پر مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر تُونے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حق کے ساتھ بھیجا ہے تو مجھے شفا بخش تا کہ مَیں جماعت کی خدمت کر کے تیری رضا کا وارث بنوں۔ خدا نے میری دعا قبول کرتے ہوئے مجھے خواب دکھائی اور انہوں نے مجھے دیکھا کہ مَیں اور امیر صاحب اور بعض دوسرے افرادِ جماعت اُن کے سر کے پاس کھڑے ہیں اور مَیں نے اُن کے لئے دعا کی اور حاضرین کو کہا کہ انشاء اللہ اب یہ مرض سے شفا پائے گا اور اس کے بعد زندہ رہے گا۔ چنانچہ کہتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے یہ خواب سچی کر دکھائی اور میں معجزانہ طور پر شفا یاب ہو گیا ہوں اور ڈاکٹر نے بھی اس معجزانہ شفا پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے میری دعوت کی۔ یہ 2008ء کے جوبلی جلسہ میں غانا میں مجھے ملے بھی تھے۔

پھر عمان سے ہمارے ایک دوست لکھتے ہیں جو یوکے کے جلسہ پر آئے تھے اور محبت میں بڑے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ عالمی بیعت میں آگے بیٹھ کر انہوں نے بیعت بھی کی تھی اور روتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آکر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو موقع بھی دیا۔ لیکن ان کو بیوی اور اُس کے بھائیوں کی طرف سے، اپنے بھائیوں کی طرف سے بڑی مخالفت تھی۔ انہوں نے دعا کے لئے مجھے کہا۔اس پرمَیں نے اُنہیں کہا کہ روزانہ صدقہ بھی دیا کریں ،دعا بھی کیا کریںا ور روزانہ دو نفل پڑھا کریں۔ اللہ فضل فرمائے گا۔ چنانچہ اب چند دن پہلے اُن کی اطلاع آئی کہ اُن کی بیوی نے بھی احمدیت قبول کر لی ہے۔

             مصر کے ایک دوست طارق محمد اسماعیل صاحب ہیں۔ بڑی عاجزی سے انہوں نے خط لکھا ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ میری زبان لڑکھڑا رہی ہے، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، کیا الفاظ لکھوں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے نیند سے بیدار کرنے آیا ہے اور جس کے خدو خال مَیں نے نہیں دیکھے۔ بس یہ نظر آ رہا ہے کہ کوئی اچھا چہرہ ہے۔ تو اس شخص نے میری بیوی کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا اور اُس کے بعد چلا گیا۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ اُس نے پاکستانی لباس پہنا ہوا ہے۔ کہتے ہیں میں نے بیداری کے بعد یہی خیال کیا کہ یہ محمد شریف صاحب ہیں کیونکہ مجھے اُن سے محبت ہے اس لئے خواب میں آئے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے وضاحت کی تو میرا خیال یکسر بدل گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی لباس میں جس شخص کو تُو نے دیکھا ہے یا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں یا خلیفۂ وقت ہیں۔ تو جس بات نے اس خیال کو یقین اور حقیقی طور پر ثابت کیا وہ یہ کہ میری بیوی نے مجھے بتایا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ ہم ڈاکٹر کے پاس گئے۔ اُس نے چیک کر کے بتایا کہ تمہاری بیوی امید سے ہے۔ یہ سن کر ہمیں ناقابلِ بیان خوشی ہوئی کیونکہ ہم شادی کے نو سال گزرنے کے باوجود بھی اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ پھر آگے وہ لکھتے ہیںکہ ٹی وی میں خطبات بھی سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔انہوں نے بڑے جذبات کا اظہار کیاہے۔

یہ چند واقعات مَیں نے بہت سارے واقعات میں سے لئے تھے۔ تو یہ ساری باتیں جو مَیں نے بیان کیں، یہ سب ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید خلافتِ احمدیت کے ساتھ ہے اور اُس تائید کے اظہار کے طور پر اللہ تعالیٰ مختلف لوگوں کو مختلف نظارے دکھاتا رہتا ہے۔ لیکن خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے بارے میں یا قبولیت کے بارے میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ دعا کروانے والے کے ایمان و اخلاص کا بھی اس میں بہت زیادہ دخل ہے اور اسی طرح دعا کروانے والے کی اپنی دعائیں بھی خلیفہ وقت کی دعاؤں کی مدد کرتی ہیں۔ اور یہ اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آپؐ نے ایک صحابی کو فرمایا تھامیری دعا کی قبولیت کے لئے تم بھی دعاؤں سے میری مدد کرو۔ تو یہ واقعات جو مَیں نے بیان کئے ہیں کہ ایک مومن کے ایمان میں تواضافے کا باعث بنتے ہی ہیں، ایک سعید فطرت کی آنکھیں کھولنے کے لئے بھی کافی ہیں اور خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جویہ تائید ہے یہ اصل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت ہے۔

پس بعض لوگ جو اپنے آپ کو بڑے عالم اور عقلمند سمجھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن خلافتِ احمدیہ پر بعض اعتراضات بھی کر دیتے ہیں،  وہ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو خلافتِ احمدیہ سے ہمیشہ وابستہ رہنے اور خلیفہ وقت کی طرف سے ملنے والی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایمان و اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ اپنی حفاظت میں رکھے اور خیر سے اپنے گھروں میں جائیں۔اس کے بعد ہم دعا کریں گے۔ دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں