خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ بنگلہ دیش05؍ فروری 2012

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمد للہ آج بنگلہ دیش کا جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ گزشتہ سال بنگلہ دیش کی جماعت نے ایک کھلی جگہ پر جلسہ منعقد کرنے کا انتظام کیا تھا اور اُس کے لئے لاکھوں ٹکا خرچ کیا تھا۔ اس کے لئے حکومت کے افسران اور انتظامیہ کے علم میں لا کر تمام انتظامات کئے گئے تھے اور افسران نے تسلی دلائی تھی کہ سب کچھ ٹھیک رہے گا۔ لیکن جلسے کے پہلے دن ہی چند اوباش طبع لوگوں کے ٹولے نے جو اپنے آپ کو اسلام کی بڑی غیرت رکھنے والا سمجھتے تھے، تھوڑا سا شور مچایا تو انتظامیہ نے اُن کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔ یا انتظامیہ اور پولیس خود اس ٹولے کے ساتھ مل کر ہمارے جلسہ سالانہ کو ناکام کرنا چاہتی تھی۔ بہر حال انتظامیہ نے ہمیں زور دیا کہ پہلے دن کاجلسہ شام پانچ بجے سے پہلے پہلے ختم کیا جائے۔ اور آئندہ دو دن کی اجازت نہیں ہے۔ احمدی کیونکہ قانون سے ہمیشہ تعاون کرنے والے اور پابند ہیں اس لئے انہوں نے حکومتی کارندوں کے کہنے پر اپنا لاکھوں کا نقصان برداشت کیا اور جلسہ سالانہ پہلے دن کے بعد اُس جگہ سے منتقل کر دیا۔ اور اپنی مسجد کے علاقے میں جہاں ہر سال جلسہ ہوتا تھا ، وہاں جلسے کو منتقل کر دیا گیا۔ اس پرانی جگہ سے جلسہ منتقل کرنے کی وجہ ہی یہی تھی کہ یہ جگہ چھوٹی پڑ گئی تھی اور اب ضرورت تھی کہ باہر نکل کر کھلی جگہ پر جلسہ منعقد کیا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُس میں شامل ہو سکیں۔ لیکن بہر حال انتظامیہ کی کوشش کے باوجود، مخالفین کی کوشش کے باوجود، اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کو توفیق دی کہ انہوں نے اپنا تین دن کا جلسہ مکمل کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ایمانی حرارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس مقصد کے لئے آئے تھے اُس کو پورا کر کے واپس لوٹے۔  پس مخالفینِ احمدیت چاہے جتنا بھی زور لگا لیں ہمارے ایمانوں کو چھین نہیں سکتے۔ دنیا کے ہر کونے میں بسنے والا احمدی جب ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہدِ بیعت باندھ کر پھر اس پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر قائم ہو جاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُس کے ایمان کو زد نہیں پہنچا سکتی۔ چاہے وہ بنگلہ دیشی احمدی ہے یا پاکستانی، انڈونیشین ہے یا افریقن۔ یورپ کا رہنے والا ہے یا امریکہ کا یا جزائر کا، ان کی ایمانی غیرت ہر جگہ ایک جیسی نظر آتی ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کا پیغام دنیا کے ہر بر اعظم اور دنیا کے ہر کونے میں پہنچ چکا ہے اور یہ پہنچنا ہی تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ ( تذکرہ صفحہ 260ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ )

             پس کیا کوئی انسانی طاقت اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کر سکتی ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو جو درحقیقت اسلام کا حقیقی پیغام ہے، دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں آپ کو الہاماً فرمایا کہ میں اُسے دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ تو اب دنیا چاہے جتنا زور لگا لے وہ کبھی اس پیغام کے پھیلنے کے راستے میں روک نہیں بن سکتی۔ ہمارے مخالفین یہ دیکھ بھی رہے ہیں لیکن پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ اسلام کے نام پر جو حرکتیں یہ کرتے ہیں کیا یہ اسلام ہے؟ کیا یہ وہ اسلام ہے جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟ہرگز نہیں۔ میرے آقا جو رحمۃٌ للعالمین ہیں، اُس پیغام کو لے کر آئے تھے جو دلوں میں تقویٰ پیدا کرتے ہوئے انسانیت کی قدریں قائم کرنے والا تھا۔ جو غریبوں بے سہاروں کی پناہ گاہ تھا۔جو یتیموں کا سہارا تھا۔ جو بھوکوں کو کھانا کھلانے والا تھا۔ جو عورتوں کی عزت قائم کرنے والا تھا۔ اُن کے حقوق دلوانے والا تھا۔جو مخالفین سے بات کرتے ہوئے موعظہ حسنہ کی تعلیم دینے والا تھا۔ حسنِ کلام سے دلوں کو لبھانے والا تھا۔ جو دنیا میں امن، صلح اور آشتی کو قائم کرنے کے لئے اپنے حقوق بھی چھوڑنے کے لئے کہتا تھا۔ جو راہب خانوں ، چرچوں اور یہودی معبدوں کی حفاظت کی اُسی طرح تلقین کرتا تھا جس طرح مسلمانوں کی مساجد کی حفاظت کی۔ وہ غیر مسلموں کی جان و مال کی اُسی طرح ضمانت دیتا تھا جس طرح مسلمانوں کی جان و مال کی ضمانت دیتا تھا۔ غرض کہ حسین تعلیم کے جتنے بھی پہلو ہو سکتے ہیں وہ اسلام لے کر آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس تعلیم کے ایک ایک حرف کواپنے قول و فعل سے ثابت کر کے ایک ایسا عظیم الشان اُسوہ قائم فرمایا جو ایک حقیقی مسلمان کے لئے ہمیشہ کے لئے پاک نمونہ ہے۔ جس پر چلے بغیر ایک مسلمان حقیقی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔

             پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے وہ نمونے قائم کئے جو بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لئے پھر ایک نمونہ بن گئے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کا نمونہ اس لئے قائم ہوا کہ انہوں نے قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھا۔  فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32 ) کا حقیقی ادراک حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنایا۔ اللہ تعالیٰ کاخوف اور خشیت ان کے دلوں میں تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں تقویٰ تھا، یہ وہ لوگ تھے جو گویا ہر وقت خدا تعالیٰ کو سامنے دیکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کی اُن میں ایک تڑپ تھی۔ اور اُن کو پتہ تھا کہ یہ تقویٰ، یہ خشیت، یہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی تڑپ پوری نہیں ہو سکتی جب تک کامل اتباع اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ ہو کہ یہی نبیؐ انسانِ کامل ہے جس کو تمام دنیا کے لئے ایک عظیم نمونہ بنا کر خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔  لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُواللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا  (سورۃ الاحزاب: 22)۔ یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔ یہ اسوہ، یہ نمونہ کیا صرف اُس وقت کے لئے اور اُس زمانے کے لئے تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں اپنی زندگی گزاری؟ نہیں۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمام انسانوں کے لئے رسول ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ  قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا(الاعراف: 159)۔ لوگوں کو بتا دو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا رسول تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے تھا اور ہے۔ اور آپ کا اُسوہ ہی اب راہِ نجات ہے۔ اور اس اُسوہ پر عمل کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہر میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسوہ قائم کیا اُس پر عمل نہیں ہو سکتا جب تک یہ چیزیں نہ ہوں، تقویٰ نہ ہو۔

            پس آج بھی صحابہ کے سے تقویٰ اور اخلاص اور وفا کی روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی فطرت میں کیونکہ کمزوری ہے جس سے شیطان فائدہ اُٹھاتا ہے اور اس کو وہ دین سے دور کر دیتا ہے، ہوشیاری اور چالاکی سے خدا تعالیٰ کے پیار کے نام پر یا نبی کی تعلیم کے نام پر انسان کو نبی کی بنیادی تعلیم سے دور لے جاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مختلف مثالیں دی ہیں کہ شیطان کس طرح مختلف صورتوں میں انسان کو اپنے پنجے میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً جیسے شیطان کی حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کا ذکر ہے۔ یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نام پر بچھڑے کو پوجنے کی طرف مائل کرنے کا ذکر ہے۔ تو یہ سب شیطانی حربے ہیں جو شیطان کرتا ہے اور ہر نبی کے ماننے والے شیطان کے پنجے میں گرفتار ہوئے۔ آخر کار اپنے اصل دین سے ہٹ گئے اور نتیجتاً اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئے۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونا تھا اور آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ لیکن کیونکہ آپ تمام زمانوں اور انسانوں کے لئے رسول ہیں، رحمۃٌ للعالمین ہیں، آپؐ پر دین کامل ہوا اور جو دنیا و آخرت کی نعمتیں تھیں آپؐ پر تمام ہوئیں، اور خدا تعالیٰ نے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10) کا وعدہ فرما کر تا قیامت آپ کی شریعت اور آپ پر اتری ہوئی کتاب کی حفاظت کا اعلان فرما دیا تھا۔ اس لئے مسلمانوں کی گراوٹ کے زمانے میں بھی اولیاء اللہ اور مجددین کے ذریعے دین پر عمل کے نمونے اور آپؐ کے اسوہ پر چلنے والوں کے نمونے اللہ تعالیٰ قائم فرماتا رہا۔ اور پھروَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4)  کے وعدے کو پورا فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق خاتم الاولیاء، خاتم الخلفاء اور آخری ہزار سال کے مجدد کو بھیج کر ایک ایسی جماعت کا قیام فرما دیا جس نے پھر یہ عہد کیا کہ ہم تقویٰ کو قائم کریں گے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اِتّباع کرتے ہوئے آپؐ کے اُسوہ کو قائم کریں گے۔

            پس ہمیں یہ واضح ہونا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ ہمارے یہ جلسے اسی لئے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور تقویٰ پر چلنے کی بھر پور کوشش کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے ہر پہلو کو اپنے لئے ایک نمونے بناتے ہوئے اُس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’اگر یہ نہیں تو ہمارے جلسوں کا کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی ایک احمدی کو احمدی کہلانے کا کوئی فائدہ ہے۔‘‘ ( ماخوذ ازشہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 394۔395)

            پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عاشقِ صادق ہی ہے جس نے پھر ہمیں وہ اسلوب سکھائے جن سے خدا تعالیٰ کا تقویٰ اور اُس کی خشیت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔ ہمارے مخالفین مسلمان ہمیں کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت میں کسی بھی دوسرے مسلمان سے زیادہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر ہر قربانی کے لئے دوسروں سے بڑھ کر تیار ہیں اور یہ قربانیاں دیتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس غیرت اسلام کے دکھانے کے وہ اسلوب اپنائے ہیں جو امام الزمان نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو کر ہمیں سکھائے ہیں۔ جس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا پر روشن ہوتی ہے۔ وہ موعظہ حسنہ اپناتے ہیں جس سے اسلام کے مخالفین کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس گہرائی سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اس زمانے میں قائم کرنے کی تلقین اور کوشش فرمائی اور کیا طریق بیان فرمائے ۔اس کی وظیفوں اوروردوں کے حوالے سے جو آجکل دوسرے مسلمانوں میں رائج ہیں، مثال دیتا ہوں۔ آجکل بھی اور آپ علیہ السلام کے وقت میں بھی مسلمانوں میں بہت سی بدعات نے راہ پا لی تھی۔ پیروں، فقیروں کے ڈیروں پر ذکر اور وِردوں کی مجلسیں جمتی ہیں۔ معصوم لوگ پِیروں کے پاس جاتے ہیں تو وہ اُنہیں مختلف وظیفے بتا دیتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسی مجلسوں کو بدعتیں قرار دیا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ اور آپؐ کے زمانے سے ثابت نہیں۔ آپ نے فرمایا ’’جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے۔ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منعم علیہ کی راہ کا سچا تجربہ کار اور کون ہو سکتا ہے؟ جس پر نبوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے۔ اس راہ کو چھوڑ کر اور ایجاد کرنا خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش کرنے والا معلوم ہوتا ہو، میری رائے میں ہلاکت ہے‘‘۔ (الحکم نمبر 11 جلد9صفحہ6مورخہ 31مارچ1905ء)

             پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا

            ’’میرا عقیدہ اور مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور نقشے پر چلنے کے بغیر کوئی انسان، کوئی روحانی فیض اور فضل حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔  (ملفوظات جلد 4صفحہ543۔544مطبوعہ ربوہ)

            پس یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم اور آپ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے بارہ میں فہم و ادراک۔ لیکن مخالفینِ احمدیت کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی مان کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام گرا رہے ہیں۔

            حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا ایک اور حوالہ پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

            ’’سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت و پیروی و تصدیقِ رسالت اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے۔ اور اُن انعامات کا وارث جو اگلے برگزیدہ انبیاء پر ہوئے۔ چنانچہ فرمایا  یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا (انفال:30)یعنی وہ تمہیں ایک فرقان دے گا‘‘۔ پس فرماتے ہیں’’ پس دوسرے مذاہب اور اس میں ایک مابہ الامتیاز اسی جہان میں ہونا ضروری ہے‘‘۔   (ملفوظات جلد 5صفحہ 633مطبوعہ ربوہ)

            آجکل جو مسلمانوں کی حالت ہے، اسلامی ممالک کے اندر جو فتنہ اور فساد اور فسق و فجور پھیلا ہوا ہے، جس کا ان ملکوں کے اخباروں میں، کالم لکھنے والوں میں برملا اظہار بھی ہوتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے محبوبوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ  یہ سلوک رکھتا ہے؟ بعض علماء اور لکھنے والے خود یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے ناراض لگتا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی بعض مفاد پرست عناصر اور نام نہاد علماء کا ٹولہ پاکستانی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ احمدیوں کو ہر طرح سے، ہر چیز سے محروم کر دو۔ کیا اُن کی پاکستان پر نظر نہیں کہ کس مشکل میں وہ ہر طرح سے گرفتار ہے؟ کیا یہ اُن سے خدا تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہو رہا ہے؟

            پس ہمیں عوام الناس کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ علماء تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف نہیں لے جا رہے  بلکہ خدا تعالیٰ سے دور ہٹا رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کبھی اپنی مخلوق پر ظلم پسند نہیں کرتا۔ کجا یہ کہ خدا تعالیٰ کے نام پر خدا تعالیٰ کے پیاروں پر ظلم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے تو یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا(انفال:30) فرما کر حقیقی مومن اور غیر میں ایک فرق قائم فرما دیا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ کو اُن انبیاء کے برابر کھڑا کر دیا کہ میری پیروی تمہارے مقام کو اس قدر بلند کر دے گی کہ سابقہ انبیاء پر ہونے والے انعامات کے تم وارث بن جاؤ گے۔ حقیقی علماء انبیاء بنی اسرائیل کے مقام تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن آج کل کے یہ علماء تو ان انعامات کے دروازے بند کر رہے ہیں۔ اور جب خود اپنے ہاتھوں سے انعامات کے دروازے بند کر رہے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کے معبود کس طرح بن سکتے ہیں؟ جس شخص کو زمانے کی اصلاح کے لئے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب بنا کر بھیجا ہے اُس کی مخالفت میں اتنے اندھے ہوئے ہوئے ہیں کہ اُس کے ماننے والوں سے سانس لینے کا بھی حق چھین رہے ہیں۔ یہ محبوبِ خدا بننے والوں کی حرکتیں تو نہیں۔ یہ تو خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کی حرکتیں ہیں۔ یہ تو فرعونوں اور ہامانوں کی حرکتیں ہیں۔

             پس ہر احمدی جو بنگلہ دیش میں رہنے والا ہے اپنی قوم کے معصوموں کو بتائے کہ یہ نام نہاد علماء تمہیں اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث نہیں بنا رہے بلکہ محرومیوں کی طرف لے جا رہے ہیں، تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ واضح کریں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی صرف انکار سے نہیں ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے انکار کے ساتھ ظلموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں کے لئے جوش میں آتی ہے۔ جہاں تک صرف انکار کا تعلق ہے، یہ معاملہ تو اگلے جہان میں طے ہو گا۔ ہمارا کام تو انسانیت کے لئے درد رکھتے ہوئے اُن کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے چلے جانا ہے۔ اور پھر ایسے لوگ جو ایک طرف ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہوں اُن کے لئے تو ہمارے دل میں دوسروں سے بڑھ کر درد ہے۔ پس یہ دل کا کرب اور حُبِّ رسول ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اُمّت کے معصوم افراد کو ان ظالم طبقہ مولویوں کے ساتھ مل کر ظلم کی ہولی کھیلنے سے روکنے کی کوشش کریں اور جہاں تک ہو سکتا ہے انہیں سمجھائیں۔

             جہاں تک ہم پر یہ اعتراض ہوتا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ اور آپ کو ماننے کی وجہ سے آپ کی جماعت یعنی جماعتِ احمدیہ ہتکِ رسول کی مرتکب ہوتی ہے اور نعوذ باللہ  ہم آپ کی خاتمیت، خاتمیتِ نبوت اور افضل الرسل ہونے کے منکر ہیں۔اس بارہ میں پہلے بھی کچھ حوالے پیش کر چکا ہوں۔ اب ایک دو تحریریں اور واقعات مزید پیش کر دیتا ہوں جس سے ہمارے غیر سننے والے خود اندازہ کر سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عشقِ رسول کا حق ادا کیا اور آپ ہمیشہ سے حق ادا کرنے والے تھے اور آپ کی جماعت بھی حق ادا کرنے والی ہے۔ ان سے ہر ایک کو پتہ لگ جائے گا کہ یہ عشقِ رسول کرنے والے ہیں یا توہینِ رسالت کے مرتکب ہونے والے ہیں؟

            حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

            ’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں‘‘۔ (یعنی فرشتے لے کے آتے ہیں)’’ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔  (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 598 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

            کیا کسی دوسرے کے لئے دل میںمیل رکھنے والا شخص کسی کو اچھے الفاظ میں بھی یاد رکھ سکتا ہے؟ کجا یہ کہ ساری رات اُس کے حسن و احسان کو یاد کر کے اُس کی یاد میں تڑپا جائے۔کیا نام نہاد علماء اور اسلام کے ٹھیکیداروں میں سے کوئی خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ حُبِّ رسول میں اس طرح تمام رات درود پڑھتا رہا ہے۔ آپؑ کا صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش جو آپ پر ہوئی اور آپ کی جماعت پر آج تک ہو رہی ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اپنے وعدے یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ  کو پورا فرما رہا ہے۔ پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم احمدی توہینِ رسالت کے مرتکب ہیں۔

             پھر آپ فرماتے ہیں کہ :

            ’’ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبیؐ کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے، جیسے اجسام کے لئے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔ وہ نہ تھکا ،نہ ماندہ ہوا جب تک عرب کے تمام حصے کو شرک سے پاک نہ کر دیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اُس کا نور ہر ایک زمانے میں موجود ہے اور اُس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کر دیتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ 303-302)

             کیا کوئی عقل رکھنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ فقرے آپؐ کے مقام کو گھٹا رہے ہیں۔ پھر آگے چلیں اور دیکھیں کہ غیرتِ رسول کا اظہار کس زبردست طریق سے آپ نے کیا ہے۔

             آپ فرماتے ہیں:

            ’’اس قدر بدگوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں، ٹکڑے ٹکڑے کرڈالتے اور ہمیں بڑی ذلّت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دُکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی، دُکھا‘‘۔

آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 51۔52)

             اور یہ نہ صرف زبانی اظہار ہے بلکہ اسلام کے دفاع میں، اسلام کی خوبیاں بیان کرنے میں آپ نے کئی جگہ عملاً بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی غیرت کا اظہار فرمایا۔ آپ کی کتب اور لٹریچر اس سے بھرے پڑے ہیں۔ آپ کا عمل اس بات کا گواہ ہے۔ اسلام پر حملہ کرنے والوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے والوں کو آپ نے کھلے چیلنج دئیے اور اُن کے منہ بند کروائے۔ ہمارا ایمان کیا ہے اور ہمارے مذہب کا خلاصہ کیا ہے جس پر ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامل یقین رکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں۔

            ’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لبّ لباب یہ ہے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ۔  ہمارااعتقادجو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضلِ توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سید و مولٰنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں۔ جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اوروہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے‘‘ ۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 169۔170)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشقِ رسول ، غیرتِ رسول اور ایمانی حالت کا تو بیان ہو گیا، اور آپ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے یہی ہر احمدی کے ایمان کا خاصّہ ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دل و جان سے اس پر قائم ہیں۔ اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی سربلندی کے لئے اور اسلام کے کامل اور مکمل مذہب ہونے کے لئے ایک اجتماعی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن مذہب کے نام پر خون کر کے نہیں۔ دین کی آڑ میں ذاتی اَناؤں اور مفادات کی تسکین کے لئے نہیں۔ دین کے نام پر اپنی سیاسی برتری ثابت کرنے کے لئے نہیں۔ بلکہ خا لصۃً اُس تعلیم کی روشنی میںجو اللہ تعالیٰ نے حضرت خاتم الانبیاء پر اتاری۔ اُس اُسوہ کی روشنی میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ قرآنِ کریم کی تعلیم کی عملی تصویر تھا۔ جس کے چند نمونے مَیں یہاں پیش کرتا ہوں جس کو دیکھ کر کوئی سعید فطرت یہ نہیں کہہ سکتا کہ   دین کے یہ نام نہاد ٹھیکیدارآجکل کے مولوی اس اُسوہ پر عمل کرنے والے ہیں۔

ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ میں دیکھتے ہیں جہاں اُس میں عبادتوں کا معیار اور اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی بھی اپنی معراج کو پہنچی ہوئی ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’دین تو خیر خواہی کا نام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کس چیز کی خیر خواہی؟ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ، اُس کی کتاب، اُس کے رسول، مسلمان ائمہ اور اُن کے عوام الناس کی خیر خواہی۔ ‘‘  (صحیح مسلم کتاب لایمان باب  بیان أن الدین النصیحۃ حدیث:196)

            یہ ہے وہ تعلیم جس پر عمل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اُسوہ قائم فرما کر دکھایا۔ کیا آج کل کے مختلف فرقوں کے علماء اس قسم کی خیر خواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ؟بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر کوئی اپنی علمیت اور اپنے منبر کے زعم میں پاگل ہواہوا ہے۔ نیتیں بد ہو چکی ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ خیر خواہی کی کوئی بات ان میں نظر نہیں آتی۔پھر کہتے ہیں کہ مسیح موعود کیوں آ گیا؟ یا دعویٰ کرنے والا مسیح موعود نہیں۔جبکہ خود علماء کے اپنے عمل یہ اعلان کر رہے ہیں کہ یہی وہ زمانہ ہے، وہ حقیقی وقت ہے جو مسیح موعود کے مبعوث ہونے کا وقت تھا۔ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے رسول

 صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ کافی ہے، قرآنِ کریم کی تعلیم کافی ہے۔ لیکن بتائیں کہ آج کون ہے جو قرآنِ کریم کی تعلیم کی تلقین بھی کر رہا ہے اور ساتھ اُس پر عمل بھی کر رہا ہے؟ ہم احمدی تو جانتے ہیں کہ یہ بات آج کسی فرقے میں نظر نہیں آتی۔ لیکن ہر شریف الطبع عام مسلمان بھی جب اپنے ارد گرد کا جائزہ لیتا ہے تو سب سے زیادہ بد خواہی ان نام نہاد دین کے ٹھیکیداروں اور علماء میں نظر آتی ہے۔ اور اخباری کالم بعض اوقات اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ پس عامۃ المسلمین کے لئے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو کب تک اپنا مذہبی پیشرو سمجھتے رہیں گے؟

            پھر میرے آقا و مطاع کی تعلیم کا ایک اور خوبصورت پہلو دیکھیں۔ بخاری کی روایت ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ اور سلامت رہیں۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ حدیث10)

            مسند احمد میں اس طرح بیان بھی ہوا ہے کہ ’’مومن وہ ہے جس سے دوسرے تمام انسان امن میں رہیں‘‘۔

(مسند احمدبن حنبل جلد 4صفحہ 396 أ نس بن مالکؓ حدیث12590مطبو عہ بیرو ت ایڈیشن 1998)

             اب ذرا آجکل کے دین کے ٹھیکیداروں کاموازنہ کریں اور دیکھیں کہ جو اپنی ایمانی حالت کو سب سے زیادہ بڑھا ہوا سمجھتے ہیں اور بھولے اور معصوم مسلمان جن کا بدقسمتی سے دینی علم کم ہے، اُن کو وہ جوتعلیم دے رہے ہیں کیا وہ اس کے مطابق ہے؟ بھولے اور معصوم مسلمان جن کا بدقسمتی سے دینی علم بھی کم ہے، ان علماء کے پیچھے چلنا ہی اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ اور ان معصوم مسلمانوں کو یہ نام نہاد علماء اس طرح غلط رنگ میں اپنے قابو میں کر لیتے ہیں کہ پھر اسلام کے نام پر تمام انسانی قدریں پامال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دہشتگردی کے ایسے حملے جس سے دوسرے انسانوں نے توکیا امن میں رہنا ہے، خود کلمہ گو مسلمان کہلانے والے بھی امن میں نہیںجن میں معصوم بچے اور عورتیں اور بوڑھے اور بیمار اور غریب جو اپنے گھر کی روٹی کا واحد سہارا ہیں وہ بھی اور مارے جاتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں ۔ یہ کون سا اسلام ہے جو ان لوگوں نے اپنایا ہوا ہے۔ ظاہراً کہہ دیں گے کہ یہ دہشتگرد تنظیمیں ہیں اور ہم ان کے خلاف ہیں جبکہ اندر سے یہ سب ملے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ہم احمدی تو ان کی دہشتگردی کا نشانہ بنتے ہی ہیں جن کو یہ نام نہاد مسلمان مسلمان نہیں سمجھتے۔ ہمیں ایسے علماء کی کسی سند کی ضرورت بھی نہیں ہے جن کے اپنے عمل اسلام سے دور ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا یہ تو خود ہمارے علاوہ کلمہ گوؤں کو بھی اپنے ظلموں کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ جہاں تک ہمارے مسلمان ہونے کا سوال ہے، ہمیں تو اپنے آقا کا یہ ارشاد کافی ہے کہ کسی شخص کے مسلمان یا مومن ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ  لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا اقرار کر لے۔ آپؐ نے اپنے ایک صحابی کی بڑی سختی سے صرف اس لئے بازپرس کی تھی کہ تُو نے ایک کلمہ گو کو قتل کر دیا۔ جب صحابی نے جواب دیا کہ وہ کافر تھا اور اُس نے میری تلوار کے خوف سے اُس وقت کلمہ پڑھا تھا ، دل سے نہیںپڑھا تھا ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تُو نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟۔ (صحیح مسلم کتاب الایما ن باب تحریم قتل الکافر بعدقولہ:لا الٰہ الااللّٰہ حدیث277)

            پس اگر ان علماء کو خدائی کا دعویٰ ہے، عالم الغیب ہونے کا دعویٰ ہے یا انہوں نے ہمارے دل چیر کر دیکھے ہیں تو پھر اُن کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ ہاں ایک چیز یہاںواضح کر دوں کہ اگر یہ ممکن ہو کہ دل چیر کر اس بات کا ثبوت مل جائے کہ اس میں حقیقی کلمہ ہے یا بناوٹی؟ تو ہر احمدی اپنا دل چیر کر دکھانے کے لئے تیار ہے۔ جس کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک کے دل میں لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کی جڑیں گہری گڑی ہوئی نظر آئیں گی۔

            پھر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا(سورۃ المائدۃ آیت 10)۔ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے کام نہ لو۔ پھر اللہ تعالیٰ کا آپ کوحکم ہے کہ  وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ  ( الشوریٰ: 16) کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مَیں تمہارے درمیان انصاف کا فیصلہ کروں۔ آپؐ نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ انصاف مانگنے والا مسلمان ہے یا کسی دوسرے مذہب کا ہے؟ آپؐ کا اُسوہ دیکھیں۔ ایک مرتبہ آپ نے کچھ صحابہ کو خبر رسانی کے لئے مکّہ بھجوایا۔ اُن صحابہ کو کچھ آدمی حرم کی حدود میں مل گئے جو مشرک تھے۔ اُن صحابہ نے یہ سمجھ کر کہ اگر ہم نے ان کو زندہ چھوڑ دیا تو یہ مکہ والوں کو خبر کریں گے اور ہم مارے جائیں گے، ان

 غیر مسلموں پر حملہ کر کے اُن میں سے ایک کو مار دیا۔ اور پھر یہ صحابہ اس کے بعد مدینہ واپس آ گئے۔ اُن کے آنے کے فوراً بعد ہی دشمنانِ اسلام کا ایک وفد مکّہ سے بھی مدینہ پہنچ گیا کہ اس طرح حرم کی حدود میں آپؐ کے آدمیوں نے ہمارے آدمیوں کو قتل کر دیا ہے۔ اب دیکھیں جو ظلم حرم کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ پر ہوتا رہا ہے اُس کے جواب میں دشمنانِ اسلام کو یہ کہا جا سکتا تھا کہ تم بھی ظلم کرتے رہے ہو۔ اب تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ حرم کے احترام کی باتیں کرو؟ لیکن قربان جائیں عدل و انصاف کے اُس عظیم مینار پر۔ آپؐ نے فرمایا ہاں اگر ایسا ہوا ہے تو تمہارے آدمیوں سے بے انصافی ہوئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اُن لوگوں نے حرم میں اپنی جان بچانے کے لئے پناہ لی ہو۔ لہٰذا اُن کا خون بہا ادا کیا جائے گا۔( اُن لوگوں کا جو قتل کئے گئے خون بہا ادا کیا جائے گا۔) چنانچہ آپؐ نے عرب رواج کے مطابق قتل کا فدیہ ادا کروایا۔

(ماخوذ از السیرۃالحلبیہ جلد 3باب سرایاہ ﷺوبعوثہ، سریہ عبد اللہ بن جحش ؓ … صفحہ217تا221 مطبوعہ  بیروت 2002ء)

            پھر ایک یہودی نے ایک صحابی کے بارے میں شکایت کی کہ اُس نے میرے چار درہم دینے ہیں جو نہیں دے رہا۔ صحابہ کی غربت کا یہ حال تھا کہ اس چار درہم دینے کی بھی اُن کو توفیق نہیں تھی۔ آپ نے اُس صحابی کو کہا کہ اس کی رقم ادا کرو۔ اُنہوں نے عرض کی کہ بیشک مَیں نے یہ رقم دینی ہے لیکن مَیں اس وقت دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپؐ نے دوبارہ فرمایا کہ اس کا قرض ادا کرو۔ انہوں نے پھر عرض کی کہ مَیں نے اس یہودی کو کہا ہے کہ کچھ رقم کی امید ہے، آجائے گی تو مَیں لوٹا دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی اس کا حق ادا کرو۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم جب تین بار کہہ دیا کرتے تھے تو صحابہ سمجھتے تھے کہ اب کوئی عذر جو ہے وہ آپؐ کوقابلِ قبول نہیں ہو گا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ صحابی بازار گئے اور اپنی تَہہ بند ، وہ کپڑا جو جسم کے نچلے حصے میں باندھا ہوا تھا ،چار درہم میں بیچ دیا اور سر کا چھوٹا سا کپڑا اپنا ننگ چھپانے کے لئے اپنے جسم پر لپیٹ لیا۔

(مسنداحمدبن حنبل جلد5صفحہ 336حدیث ابن ابی حدردالأسلمی حدیث 15570مطبوعہ بیروت1998ء)

            یہ تھا فوری انصاف جو میرے آقا نے اپنے اُسوہ سے قائم فرمایا۔آج کس اسلامی ملک میں جو اسلام کے علمبردار ہیں یا علمبردار اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، اس طرح کا انصاف نظر آتا ہے؟ یہ لوگ تو مخالف فریق کا چاہے وہ کلمہ گو ہی ہو طاقت کے نشے میں مال غصب کرنے والے ہیں۔ غریبوں کے مالوں کو شیرِ مادر کی طرح ہضم کر جاتے ہیں۔

            اسلام کا ایک بہت خوبصورت حکم ہمسائے سے نیک سلوک کرنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک ہمسایوں سے سلوک نہایت اعلیٰ درجے کا ہوتا تھا۔ آپؐ  فرمایا کرتے تھے کہ جبرئیل علیہ السلام بار بار مجھے ہمسایوں سے نیک سلوک کرنے کا حکم دیتے ہیں یہاں تک کہ مجھے خیال آتا ہے کہ ہمسائے کو شاید وارث ہی قرار دے دیا جائے ۔

             (صحیح بخاری کتاب الادب باب االوصاء ۃبالجار حدیث6015)

اسی طرح بے شمارخُلق ہیں جو آپ میں پائے جاتے ہیں، وقت کی کمی کی وجہ سے بیان نہیں ہو سکتے۔ کوئی خلق بھی لے لیں۔ اُس میںآپؐ کا اُسوہ آسمانوں کو چھوتا ہوا نظر آئے گا۔ کیا آجکل کے دین کے نام نہاد علماء یا دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے والوں میں یہ اخلاق ہیں؟ ان لوگوں سے تو ہمسائے بھی محفوظ نہیں۔ جماعت احمدیہ کے افراد تو آئے دن بعض ملکوں میں اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیںکہ اُن کے ہمسائے اُنہیں کس طرح ان تکلیفوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی یہ صورتحال ہے اور وہاں لوگوں کو اس کا تجربہ ہے۔

بہر حال یہ تو اُن کے عمل ہیں جو بگڑی ہوئی قوم ہیں۔ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے زیرِ اثر پورے ماحول کو ہی گندہ کر دیا ہے۔ لیکن ہم جو مسیح محمدی کو ماننے والا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمیں اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو پہلے سے بڑھ کر اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ دنیا کو بتا سکیں کہ آج ہم حُبِّ پیمبری کا صرف نعرہ لگانے والے نہیں ہیں ، بلکہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے بھی ہم ہی ہیں۔ دنیا کو بتائیں کہ یہ اعلیٰ اخلاق اور اسوہ رسول پر چلنے کا ادراک ہمیں زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے دیا ہے۔ پس آؤ اور اس غلامِ صادق کے دامن سے جُڑ جاؤ تا کہ دنیا اور آخرت سنوارنے والے بن سکو۔ یہ بنگلہ دیش کے رہنے والے نوجوانوں کا بھی کام ہے، انصار کا بھی کام ہے اور خواتین کا بھی کام ہے کہ اپنے نمونے اس اعلیٰ خُلق پر قائم کرنے کی کوشش کریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمایا۔ پورے جماعتی نظام کو ایک مہم کی صورت میں پہلے اپنی اصلاح کرنے اور پھر اس پیغام کو ملک کے کونے کونے میں ہر شخص تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اپنے ہم وطنوں پر ثابت کر دیں کہ آج ہم ہی سب سے زیادہ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے۔  پس آگے بڑھیں اور اس زمانے کے امام کو ماننے کا حق ادا کریں۔ مصلحتوں اور سوچوں میں نہ پڑ جائیں۔ دشمن جو احمدیت کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا آخری زور لگا رہا ہے یہ تو انشاء اللہ تعالیٰ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ یہ آخری زور ہے اور اس کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ اس کی موت ہے۔ احمدیت کا پھیلنا الٰہی تقدیر ہے۔ یہ لوگوں کے منصوبے سے کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔لیکن اگر آپ نے اس تقدیر کا حصہ بننا ہے تو اپنے عمل اور دعاؤں سے اس کا حصہ بننے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جلسے کی برکات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان برکات کو ہمیشہ اپنے دلوں میں قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس جوش اور جذبے کو جو اس وقت آپ کے دلوں میں بھرا ہے، ہمیشہ قائم رکھے اور جو ذمہ واریاں آپ کے ذمہ اس زمانے کے امام نے لگائی ہیں، اُس کو پورا کرنے کا ہمیشہ حق ادا کرتے چلے جانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دشمن کے ہر شر اور ہر حملے سے محفوظ رکھے۔ آپ کے گھروں میں آپ کی ہر آن حفاظت کے سامان پیدا فرماتا رہے۔ آپ اور آپ کی نسلوں میں ایمان اور ایقان میں اضافہ فرماتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ جلد وہ دن دکھائے جب ہم احمدیت کی فتوحات اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ہوں۔

             اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں