خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی3جون 2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

            ’’براہین احمدیہ میں اس جماعت کی ترقی کی نسبت یہ پیشگوئی ہے۔کَزَرْعٍ اَخْرَجَ  شَطْاَہٗ  فَاٰزَرَہٗ  فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ۔ یعنی پہلے ایک بیج ہوگا کہ جو اپنا سبزہ نکالے گا۔ پھر موٹاہوگا۔ پھر اپنی ساقوں پر قائم ہوگا۔ یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی‘‘۔ فرماتے ہیں: ’’یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی جو اِس جماعت کے پیدا ہونے سے پہلے اور اُس کے نشو و نما کے بارہ میں آج سے پچیس برس پہلے کی گئی تھی۔‘‘ (یعنی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لکھا ہے اُس سے پچیس برس پہلے کی گئی تھی)

فرماتے ہیں: ’’ایسے وقت میں کہ نہ اُس وقت جماعت تھی اور نہ کسی کو مجھ سے تعلّق بیعت تھا بلکہ کوئی اُن میں سے میرے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے یہ جماعت پیدا کر دی جو اَب تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ ‘‘    (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ241)

            یہ تقریباً 1907ء کی بات ہے۔ جب آپ نے حقیقۃ الوحی تحریر فرمائی تھی۔ حضور کا اقتباس ختم ہو چکا ہے۔ یہ میری بات آگے سے شروع ہو رہی ہے۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ ’’جب کوئی مجھے جانتا نہیں تھا‘‘ لیکن آج (جب یہ تحریر فرمایا) یہ تعداد تین لاکھ تک پہنچی ہوئی ہے۔ آج خدا تعالیٰ کے اس فرستادے اور مسیح موعود کے ساتھ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشان اس طرح ظاہر ہو رہے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں سعید فطرت لوگ ایک ایک سال میں جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔

            آپ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح تھا جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے بویا گیا۔ پھر مَیں ایک مدّت تک مخفی رہا۔ پھرمیرا ظہور ہوا اور بہت سی شاخوں نے میرے ساتھ تعلق پکڑا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ241)

 پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آج لاکھوں کی تعداد میں افراد بیعت کرکے جماعت میں نئے شامل ہو رہے ہیں اور دنیا میں یہ شاخیں پھیلتی چلی جا رہی ہیں اور تعلق پکڑتی چلی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو وعدے کئے تھے، اُن کو آج بھی خدا تعالیٰ پورا کر کے دکھا رہا ہے۔ مخالفینِ احمدیت کا خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ اس سلسلہ کا پھیلاؤ نہ صرف رُک جائے گا بلکہ آپ سے تعلق پکڑنے والی شاخیں سوکھ کر ختم ہو جائیں گی۔ یہ اُن کے خیالات تھے، یہ اُن کی خواہشات تھیں۔ اور یہی نہیں، دشمن یہ بھی سمجھتا تھا کہ ان سوکھی ہوئی شاخوں کو وہ جلا کر راکھ بنا کر ہوا میں اُڑا دے گا۔ لیکن کم عقل اور اندھا دشمن یہ نہیں سمجھتا تھا کہ میں جس پر ہاتھ ڈال رہا ہوں یا جس پر ہاتھ ڈالنے کی خواہش رکھتا ہوں، جس کو ختم کرنے کی خواہش رکھتا ہوں وہ خدا کے ہاتھ کا بویا ہوا بیج ہے جس کے مقدر میں پھلنا پھولنا اور بڑھنا ہے۔ جس خدا نے یہ بیج لگا کر آپ کی زندگی میں اُس کو پھلنے پھولنے اور بڑھنے کا وعدہ فرمایا تھا اور بڑھا کر دکھایا تھا اُس نے آپ کی وفات کے بعد بھی اس کے پھلتے پھولتے چلے جانے اور دنیا میں پھیلتے چلے جانے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ کے بعد خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی اور اس کے ذریعہ سے پھر اس درخت کی نشوونما ہوتی چلی جائے گی۔ آپؑ کے ساتھ تعلق جوڑنے والے پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ چنانچہ اس بارے میں بھی آپ نے پہلے ہی پیشگوئی فرمادی تھی۔ آپ فرماتے ہیں :

            ’’یہ خدا تعالیٰ کی سنّت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنّت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ:22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچّائی ظاہر کردیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اورٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ304)

            پھر آپ فرماتے ہیں : ’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن جب مَیں جاؤںگا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے ۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ305)

            اور پھر آج ایک سو چار سال گزرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کے وعدے کو بڑی شان سے ہم پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ دیکھیں کہ کس شان سے باوجود مخالفین کی تمام تر دنیاوی کوششوں کے اور مخالفتوں کے اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقی عطا فرما رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ساتھ جماعت کے افراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری شدہ نظامِ خلافت سے بھی وہ تعلق اور محبت کا رشتہ رکھے ہوئے ہیں جس کے ذریعہ سے پھر اس پیغام کو، اُس مشن کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے تھے، خدا تعالیٰ دنیامیں آگے سے آگے پھیلاتا چلا جا رہا ہے۔ خدا تعالیٰ دلوں میں خلافت کے لئے محبت اور اخلاص پیدا کر رہا ہے۔ اور خود بخود دلوں کو کھول رہا ہے۔ خلافت کے تعلق کی وجہ سے اور نظامِ خلافت کی وجہ سے، ایک تنظیم کی وجہ سے، ایک جماعت ہونے کی وجہ سے یہ اعلان ہے کہ آؤ اور مسیح محمدی کی فوج میں شامل ہو کر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے کام کو آگے بڑھاؤ۔ یہ نظارے ہم دیکھ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے وعدے کو پورا ہوتا ہم دیکھ رہے ہیں۔ آج اس کی ایک چھوٹی سی جھلک آپ نے بیعت کی صورت میں بھی دیکھی ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا یہ ثبوت ہے کہ آپ کے بعد بھی یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور دشمن کا ہر وار جو دشمن احمدیت کی ترقی کو روکنے کے لئے کرتا ہے اُسی پر اُلٹا پڑ رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کے جو جلسہ سالانہ ہر سال مختلف ممالک میں ہوتے ہیں اُن میں ہم ترقی دیکھتے ہیں اور جہاں خلیفہ وقت کی موجودگی ہو وہاں لوگوں کا خلافت کے ساتھ ایک خاص تعلق دیکھتے ہیں۔ پس یہ ایک ایسا نشان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت بھی ہے۔ کسی پہلو کو بھی لے لیں ہمیں جماعت کا قدم آگے ہی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیا یہ کسی کی کوششوں کا نتیجہ ہے؟ نہیں، بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی تائیدی ہوائیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے حق میں چل رہی ہیں۔ آپ کے بعد آپ کے جاری کردہ نظامِ خلافت کی تائید میں چل رہی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں جو پورے ہو رہے ہیں۔ دنیا کے دور دراز علاقوں میں، جنگلوں میں بھی چلے جائیں تو وہاں بھی اللہ تعالیٰ دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف پھیر رہا ہے اور آپ کی صداقت پر مہر ثبت ہو رہی ہے۔ اور شہروں میں بھی دلوں کی حالت بدل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے نظارے ہم دیکھ رہے ہیں۔

اس وقت میں چند واقعات پیش کروں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے سامان کرتا ہے یا کس طرح احمدی ہورہے ہیں اور احمدی ہونے کے بعد اُن میں کیا روحانی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں اور کس قدر اللہ تعالیٰ دلوں کی حالت میں پاک تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے۔

بینن کے ایک ریجن کے ہمارے مبلغ میاں قمر احمد صاحب ایک واقعہ لکھتے ہیں۔ یہ واقعہ ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان عورت کو جو پہلے مسلمان تھی، اور پھر عیسائیت کے زیرِ اثر آ کے عیسائی ہو گئی، لیکن اُس کے بیٹے اور جو قریبی بچے تھے اُن کو بڑی فکر تھی۔ وہ کوشش میں تھے کہ دوبارہ مسلمان ہو جائے۔ آج یہ درد صرف جماعت احمدیہ کے دل میں ہی ہے کہ جو ایک دفعہ کلمہ طیبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  پڑھنے والا ہے وہ ہمیشہ اُس پر قائم رہے اور اُس سے ہٹ کر اپنی عاقبت کو خراب نہ کرنے والا ہو۔ وہ ایک معمر بیوہ خاتون مادام Ossena Raimi کا واقعہ لکھتے ہیں جو پہلے مسلمان تھی۔ اپنے خاوند کی وفات کے بعد عیسائی ہو گئی۔ چرچ میں عبادت کے لئے جانے لگی۔ مگر ان کا بیٹا مسلمان ہی رہا۔ اُس نے احمدیت قبول کر لی۔ شادی کے بعد اس لڑکے کے گھر میں ایک لمبا عرصہ اولاد نہیں ہوئی جس کی وجہ سے یہ خاتون سخت پریشان رہتی تھی کہ مَیں عمر کے اس حصہ میں ہوں جس میں شاید اپنے بیٹے کی اولاد کی خوشیاںنہ دیکھ پاؤں۔ ہمارے معلم قاسم صاحب اس خاتون کو گاہے بگاہے تبلیغ کرتے رہتے تھے اور احمدیت قبول کرنے کی تلقین کرتے تھے مگر وہ انکار کر دیتی تھیں۔ ایک دن دورانِ تبلیغ موصوفہ نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ میری زندگی میں اس بچے کو اولاد عطا کر دے تو میں اس دن اسلام قبول کر لوں گی۔ اس وقت ہمارے معلم صاحب نے کہا کہ ہم اپنے خلیفہ کو خط لکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ تمہیںاولاد ہو گی۔ بلکہ انہوں نے تویہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بیٹے کو بیٹا عطا کرے گا۔ اور مقامی جماعت کے افراد بھی اُس کے لئے دعا کرنے لگ گئے۔ مجھے بھی انہوں نے خط لکھا۔ چنانچہ اس سال 2؍اپریل کو خدا تعالیٰ نے اُن کو پوتے سے نوازا اور بچے کے عقیقہ کے موقع پر موصوفہ نے سب کے سامنے یہ اعلان کیا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ مَیں اپنی زندگی میں اس بیٹے کی اولاد کی خوشیاں دیکھوں۔ الحمد للہ آج خدا نے اس کو نہ صرف اولاد دی ہے بلکہ نرینہ اولاد عطا فرمائی ہے تو میرا یہ ایمان اور یقین ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جماعت سچی ہے اور میں آج سے احمدی مسلمان ہوتی ہوں۔

پس اللہ تعالیٰ بھی بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ اپنے دین کی غیرت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے اور اُن کے غلاموں کے ذریعے سے ہی یہ کام سرانجام دیا جا رہا ہے۔

پھر ایک اور واقعہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے ایک شخص کا دیکھیں ۔ بینن کے الاڈا ریجن کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ دو ماہ قبل سے کُو (Sekou) شہر میں معلم داؤدا کریم صاحب لٹریچر تقسیم کر رہے تھے، تو محمد یوسف نامی صاحب نے اُن سے پوچھا کہ آپ کون لوگ ہیں؟ معلم صاحب نے اُنہیں بتایا کہ ہم احمدی ہیں اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ماننے والے ہیں اور ہماری یہ تعلیمات ہیں اور لٹریچر بھی پڑھنے کو دیا۔ چند دن بعد محمد یوسف صاحب ہمارے معلم سے ملے اور کہا کہ میں نے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے۔ مجھے تو ساری باتیں معقول معلوم ہوتی ہیں اور عین اسلام دکھائی دیتی ہیں۔ کیا میں آپ کی جماعت میں شامل ہو سکتا ہوں؟ چنانچہ 7؍ مارچ 2012ء کو انہوں نے بیعت کر لی۔ جب اُس کے احمدی ہونے کا علم شہر کے مُلّاؤں کو ہوا۔ مُلّاں تو ہر جگہ موجود ہے۔ آجکل تو مُلّاں پاکستان سے افریقہ میں بھی پہنچتے ہیں۔ لیکن تبلیغ کم کرتے ہیں اور احمدیت کے خلاف فساد زیادہ پیدا کرتے ہیں۔ وہ ان کے پاس آئے اور کہا کہ تم احمدی ہو گئے ہو۔ احمدی تو اسلام کے دشمن ہیں۔ تم نے یہ کیا الٹا کام کر دیا ہے۔ یوسف صاحب کہتے ہیں کہ اُن کی باتوں سے مجھے بڑی بے چینی لاحق ہو گئی اور کوئی سمجھ نہیں آئی کہ اب میں نے بیعت کر لی ہے اور ادھر مولوی کہتے ہیں کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ اسلام کو تو میں کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتا۔ اگر یہ واقعتا مسلمان نہیں ہیں تو پھرمَیں تو اسلام سے بھی گیا۔ کہتے ہیں کہ اس بے چینی میں 8؍ مارچ 2012ء کی رات یہ دعا کرتے کرتے سو گیا کہ اے اللہ! تو مجھے صحیح رہنمائی فرما، مَیں کدھر جاؤں۔ احمدیوں کی ساری تعلیمات اسلامی دکھائی دیتی ہیں جبکہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ مَیں کیا کروں۔ اس رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفید کپڑوں اور سفید پگڑی میں ملبوس میرے گھر تشریف لائے ہیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لے جاتے ہیں اور میرا ہاتھ جماعت احمدیہ کے معلم کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مَیں بیدار ہوگیا۔ خواب سے بیداری کے بعد صبح تک میں نوافل پڑھتا رہا اور اللہ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اُس نے مجھے صحیح رہنمائی کی ہے۔ اور صبح معلم صاحب کو یہ خواب سنانے اُن کے گھر چل دیا۔اس سے پہلے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا نہیں تھا۔ وہاں اُن کے گھر کے اندر جب گئے تو اُن کی تصویر دیکھی۔ کہتے ہیں میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ خواب میں جو بزرگ نظر آئے تھے وہ یہی تھے اور اس کے بعد تصویر اُٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور بیوی بچوں کو دکھایا کہ یہ میری خواب میں دکھائی دئیے تھے اور انہوں نے کہا کہ آج حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روپ میں یہ مسیح موعود آئے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو، ہدایت کے پیغام کو آگے پہنچانے والے ہیں۔

امیر صاحب آئیوری کوسٹ بیان کرتے ہیں کہ ایک موریطانی نوجوان ابراہیم کاہےؔ نے جماعت کا ریڈیو پروگرام سنا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آ چکے ہیں۔ وہ یہ سن کر سکتہ میں آ گیا کہ کیا واقعی ایسا شخص آ چکا ہے اور ہمیں علم ہی نہیں ہوا۔ چنانچہ وہ اپنے ایک کزن کے پاس گئے اور تمام واقعہ بیان کیا۔ لیکن اُس کے کزن نے مخالفت کی۔ اس پر ابراہیم کاہےؔ صاحب ریڈیو سٹیشن پہنچ گئے اور جماعت کے بارے میں کچھ آڈیو کیسٹ لیں اور احمدیہ مشن کا پتہ معلوم کیا۔ مشن ہاؤس میں ہمارے معلم زکریا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے جماعت کا تفصیلی تعارف کرانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ مطالعہ کے لئے دی۔ اگلے دن کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد نوجوان کافی مطمئن ہو گئے اور جب مسیح موعود علیہ السلام کے سچا ہونے کا یقین ہو گیا تو دوبارہ مشن ہاؤس آئے اور کہا کہ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر معلم صاحب نے ان سے کہا کہ ابھی دعا اور استخارہ کریں۔ کچھ دن کے بعد وہ نوجوان دوبارہ مشن ہاؤس آیا اور بتایا کہ اس عرصے کے دوران ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور مجھے بیعت فارم دے رہے ہیں جو کہ ایک سفید چمکدار کاغذ ہے جس کے دونوں اطراف خالی ہیں اور کچھ بھی نہیں لکھا ہوا۔ جس پر مَیں نے خواب میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کہ شرائط بیعت کیا ہیں۔ ابھی حضور نے جواب نہیں دیا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خود ہی اس خواب کی تشریح کی کہ سفید چمکدار کاغذ جماعت احمدیہ کی سچائی کے مترادف ہے اور کاغذ کا بالکل خالی ہونا، دل کا دنیاوی آلائشوں سے پاک صاف ہونا ہی بیعت کی شرائط ہیں۔ یعنی بیعت کی شرائط یہی ہیں کہ دنیاوی آلائشوں سے دل کو پاک کرو۔ یہ انہوں نے اپنی خواب کی تعبیر کی اور اس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔ موریطانیہ کے لوگ عقائد کے لحاظ سے بہت کٹر ہیں اور مُلّاں ٹائپ کے لوگ ہیں۔ ان میں اس طرح احمدیت کا آنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنا، واقعی ایک نشان ہے۔ ایک رَو ہے جو اس علاقے میں چلی ہوئی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلی ہوئی ہے۔

پھربورکینا فاسو سے مبلغ اعجاز احمد صاحب لکھتے ہیں کہ وِدْگو ریجن کی ایک جماعت سنابا (Sanaba) کی مسجد کے لئے ہم لوگوں کو مستری کی ضرورت تھی۔ ایک دن خاکسار جب اپنے دفتر میں تھا تو وہاں ایک مستری آیا۔ میں نے اس سے مسجد کی تعمیر کی بات کی اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ ریڈیو احمدیہ سنتا ہے۔ اس نے کہا وہ روزانہ ریڈیو احمدیہ سنتا ہے کیونکہ وہ احمدی ہو چکا ہے اور اُس نے بتایا کہ میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ امام مہدی کی تصدیق کرنے کے لئے کہ وہ سچا ہے یا نہیں استخارہ کروں گا۔ اس نے بتایا کہ تین دن بعد ہی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ سفید رنگ کے لباس میں ملبوس ہیں اور پھر اللہ نے میرے دل میں بات ڈال دی کہ یہ بندہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام واقعی سچا ہے۔ اس پر میں نے بیعت کر لی۔

اب یہ لوگ جو سعید فطرت لوگ ہیں، نیکی کی تلاش کرنے والے ہیں،دین کا درد رکھنے والے ہیں، جب یہ دعائیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتا ہے۔ اگر نہیں تو وہ سخت دل، پتھر دل پاکستانی مُلّاں ہیں اور انہوں نے اپنے ساتھ پوری قوم کو اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے جو دعاؤں کی طرف نہ توجہ دیتی ہے، نہ آتی ہے، نہ اس طرف سوچنے کی ان کو توجہ ہے۔ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بن رہی ہے۔

            پھر اٹلی کے عباس عادل صاحب ہیں۔ اپنی بیعت کے بعد اپنی بیوی کی قبول احمدیت کا ذکر کرتے ہیںکہ مجھے محمد شریف عودہ صاحب نے لکھا کہ خلیفۃ المسیح کی خدمت میں دعا کے لئے لکھو۔ مَیں نے اٹلی میں اپنی رہائش کے کاغذات کے حصول کے علاوہ نیک اولاد کے حصول کے لئے درخواست دعا کی۔ تو میرا اُن کو یہ جواب پہنچا کہ میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ آپ کو کاغذات بھی مل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک اولاد سے بھی نوازے اور اللہ تعالیٰ آپ کی اہلیہ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تین باتیں تھیں جو لکھی تھیں۔ کام، اولاد اور بیوی کی بیعت۔ کہتے ہیں جب یہ جواب گیا کہ آپ کے یہ سارے کام انشاء اللہ ہو جائیں گے تو مجھے اس خط کے پڑھنے کے بعد کچھ ایسی سکینت ملی کہ میںنے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ میرا کیس پاس ہو جائے گا اور جلد کاغذات مل جائیں گے۔ اسی طرح اپنے وکیل سے بھی کہہ دیا۔ مجھے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور بفضلہ تعالیٰ تھوڑے ہی وقت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کی برکت سے میری یہ مشکل حل فرما دی۔ پھر لکھتے ہیں کہ میری بیوی کے حق میں یہ دعا جس طرح قبول ہوئی اس کا کچھ پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔ میری بیوی عیسائی تھی جسے میں اسلام کی طرف بلاتا رہتا تھا لیکن اس کا یہی جواب ہوتا تھا کہ مجھ پر دباؤ مت ڈالو۔ میں مطالعہ کر رہی ہوں اور سوچ کر مسلمان ہوں گی۔ کہتے ہیں یہ میری بیعت کرنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اُس وقت ہماری شادی کو تقریباً اڑھائی یا تین سال کا عرصہ گزرا تھا۔ بیوی ابھی احمدی نہیں ہوئی تھی۔ یہ مسلمان تھے اور بیوی ان کی عیسائی تھیں۔ کہتے ہیں ایک دن صبح صبح میری بیوی ایک کاغذ پر لفظ ’اللہ‘ لکھ کر لائی اور مجھے پوچھنے لگی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے پوچھا کہ تم نے کہاں سے سیکھا ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ پہلے مجھے اس کا مطلب بتاؤ پھر میں آپ کو ساری بات بتاؤں گی۔ تو میں نے اُسے سمجھایا کہ یہ لفظ کیا ہے۔ پھر اُس نے مجھے بتایا کہ میں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ میں ایک چرچ میں ہوں اور میرے دیگر گھر والے میرے پیچھے ہیں کہ اچانک اپنے سامنے یہ لفظ یعنی ’اللہ‘ لکھا ہوا دیکھا جو ایک شخص کے سر پر سایہ فگن تھا جس کا صرف چہرہ نظر آتا تھا، جبکہ باقی جسم نور کا بنا ہوا تھا۔ کہتے ہیں اس رؤیا نے میری بیوی کو کچھ ایسا اطمینان اور انشراح صدر عطا فرمایا کہ اُس نے اسلام قبول کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کا جب فیصلہ کیا تو اُس وقت یہ احمدی نہیں تھے۔ مولوی کے پاس لے گئے اور یوں اُس نے باضابطہ طور پر اسلام قبول کر لیا۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ آپ نے (میرا لکھا ہے کہ انہوں نے) ان کی ہدایت کے لئے دعا کی اور میری طرف سے یہ پیغام اس تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اُس کو ہدایت دے۔ اس کے بعد بیوی نے جماعت کا لٹریچر پڑھنا شروع کر دیا۔ مَیں نے بھی اُس کو امور سمجھنے میں مدد کی۔ ایک دن وہ ایم ٹی اے دیکھ رہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر آگئی جسے دیکھ کر اُس نے پوچھا یہ کس کی تصویر ہے؟ میں نے وضاحت کی تو وہ کہنے لگی جس تصویر کو خواب میں دیکھنے کی وجہ سے میں نے اسلام قبول کیا تھا وہ اسی شخص کی تصویر تھی اور خواب میں اُن کے چہرے کے علاوہ باقی سارا جسم نور کا تھا۔ یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ مطمئن ہو گئی اور بیعت کرنے کے لئے تیار ہو گئی۔ اور پھر جب میں گزشتہ سال اٹلی گیا ہوں تو وہاں اُس نے دستی بیعت بھی کی تھی۔

یہاں جرمنی کے آپ کے جو مبلغ محمد احمد راشد صاحب ہیں، وہ بھی اپنی رپورٹ میں ایک بچی کے بارہ میں لکھتے ہیں۔ اُن کا نام گُل ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو استقامت بھی دے۔ اکیس سال کے قریب عمر ہے۔ انہوں نے بیعت کی۔ یہ واقعہ اس طرح سنایا کہ خدام الاحمدیہ جرمنی کی طرف سے اسلام احمدیت کے تعارف پر مشتمل جو پمفلٹ جلسہ سالانہ جرمنی 2011ء سے قبل تقسیم کیا گیا تھا وہ اس خاتون کو بھی ملا۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی ذکر تھا۔ وہ کہتی ہیںکہ بچپن میں سنا کرتی تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے تو میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا کہ سب سے افضل تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اگر واپس آنا ہے تو وہ آئیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کس کام آئے گی؟ کہتی ہیں جب جماعت کے پمفلٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے متعلق پڑھا تو اس بات نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس پمفلٹ کے ساتھ جلسے میں شمولیت کا دعوت نامہ بھی تھا۔ لہٰذا میں جلسے پر بھی گئی۔ جماعت کی جرمن اور ترکی ویب سائٹ سے استفادہ کیا۔ جماعت کی ترکی زبان میں چند کتب پڑھیں۔ جیسے جیسے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کا مطالعہ کیا میرے اندر خود بخود ایک عملی تبدیلی پیدا ہوتی چلی گئی۔ میں نے پردہ کرنا اور پنجوقتہ نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں۔ اب وہ لوگ جو صحیح طرح نمازیں نہیں پڑھتے اُن کے لئے بھی اس میں ایک سبق ہے۔ کہتی ہیں مَیں اس دوران اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کرتی رہی کہ اے میرے اللہ! مجھے علم نہیں کہ یہ جماعت سچی ہے یا نہیں تُو خود میرا ہاتھ تھام۔ کہتی ہیں اس پر چند دن قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ خلیفۃالمسیح الخامس ہمارے گھر تشریف لائے ہیں اور ہمارا گھر احمدیوں سے بھرا ہوا ہے۔ گویا وہ سب کھانے پر مدعو ہیں۔ میں نے احتراماً حضور کا دایاں ہاتھ تھام کر ادب سے اپنی پیشانی کو اس پر رکھا تو حضور کی انگلی پر انگوٹھی تھی جس کے نگینہ کا رنگ سرخ رنگ سے مشابہ ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی متاثر کن انگوٹھی نہیں دیکھی۔ جب یہ خواب میں میرے سے گفتگو کر رہی تھیں۔ تو کہتی ہیں کہ خواب میں میرے اندر یہی احساس ہے کہ میں احمدی ہوں، لیکن پھر بھی مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق پوچھتی ہوں کہ حضور! کیا یہ واقعتا مسیح ہیں جن کی آمد کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس پر انہوں نے(خلیفۃالمسیح الخامس نے) کہا کہ ہاں۔ پھر کہتی ہیں میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل میں عجیب رنگ کا ایک اطمینان اور سرور تھا۔ دورانِ خواب اور بعد کی کیفیت کا الفاظ میں بیان میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ کہنے لگیں کہ میں تو اس رؤیا میں ہی احمدی ہو چکی ہوں۔ شرائط بیعت میں نے ساری کی ساری ایک جگہ سے نقل کر کے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں اور پھر اُس کے بعد بیعت کر لی ۔

امیر صاحب سپین لکھتے ہیں عبدالعزیز صاحب سپین کے جنوب میں واقع شہر کاسیریس کے قریب رہتے ہیں۔ دو سال قبل ایم ٹی اے دیکھنے کی وجہ سے احمدی ہوئے تھے۔ ان کی بیوی عائشہ صاحبہ کہتی ہیں کہ جب میرے خاوند نے بیعت کی تو میں کافی شک میں تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے حقیقت سے آگاہ فرما دے۔ تو ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ خلیفۃ المسیح الخامس مجھے مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ احمدیت سچ ہے، احمدیت سچ ہے۔ اس خواب نے میرے سارے شکوک دور کر دئیے اور میں نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر لی۔

آئیوری کوسٹ سے مکرم صدیق آدم صاحب مبلغ سلسلہ ’بواکے‘ بیان کرتے ہیں کہ تافیرے (Tafire) مشن ہاؤس میں ایک گورنمنٹ کے ملازم تورے زکریا صاحب نے کچھ عرصے سے نمازیں پڑھنی شروع کیں لیکن ابھی بیعت نہیں کی تھی۔ ایک دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ لوگوں سے اسلامی باتیں کر رہے ہیں جن میں وہ بھی شامل ہیں۔ اس دوران نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو انہی بزرگ نے وہاں سب کو باجماعت نماز پڑھائی۔ تورے زکریا صاحب چونکہ احمدیہ مشن ہاؤس میں نمازیں پڑھتے تھے اور وہاں کے لوکل معلم صاحب کے ذریعے اُنہیں تبلیغ بھی ہو رہی تھی۔ پھر ایک دن تبلیغ کے دوران ان کو میری تصویر نظر آئی تو کہنے لگے کہ یہی وہ شخص تھا جو ان کو خواب میں نظر آیا تھا اور جنہوں نے باجماعت نمازکی امامت بھی کرائی تھی۔ چنانچہ وہ اسی وقت بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔

ارشد محمود ظفر صاحب مبلغ سلسلہ کرغزستان لکھتے ہیں کہ  ایک نو احمدی اُسون (Yuson) صاحب نے دو ماہ قبل بیعت کی توفیق پائی ہے۔ اُن کی بیعت اور جماعت کے بارے میں تعارف کے بارہ میں نیشنل صدر صاحب جماعت احمدیہ کرغزستان بیان کرتے ہیں کہ موصوف نے جب ہماری جماعت کے بارہ میں سناتو بہت دلچسپی لی اور میرے ساتھ مسلسل بات چیت شروع کر دی۔ اس نے کچھ روز بعد خواب دیکھا کہ میری اس سے ملاقات ہوئی ہے اور میں نے بہت اچھے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے ہیںجبکہ اس نے خود میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ مَیں نے(یعنی صدر صاحب نے) اس کو کہا کہ میرے ساتھ چلو۔ راستہ میں مبلغ سلسلہ بشارت صاحب ملے۔ انہوں نے سر پر پگڑی پہنی ہوئی ہے۔ میں ان کو ایک زیادہ منزلوں والی عمارت کی طرف لے کر جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہم یہاں نماز پڑھتے ہیں۔ جس جگہ ہم نماز پڑھتے ہیں وہ جگہ بہت بلند لیکن تنگ ہے۔ کہتے ہیںاس خواب کے بعد مَیں نے گھر جا کر اپنے اہل خانہ کو جماعت احمدیہ کے بارہ میں بتایاتو انہوں نے اس کی بہت مخالفت کی اور کہا کہ تم اس جماعت میں ہرگز شامل نہ ہونا اوردھمکی دی کہ اگر تم اس جماعت میں شامل ہوئے تو ہم سے کسی اچھائی کی امید نہ رکھنا۔ اس کی والدہ نے اسے کہا کہ اس جماعت سے تم نے نہیں ملنا۔ اس نے یہ سوچ کر کہ والدہ کے دل کو تکلیف نہ ہو وعدہ کر لیا کہ اُس جماعت سے نہ ملوں گا۔ لیکن دوہفتہ بعد دوبارہ خواب دیکھا کہ وہ آسمان میں ستاروں تک جا پہنچا ہے اور وہاں جا کر اس نے نماز پڑھی ہے۔ یہ خواب دیکھنے کے بعد وہ دوبارہ جماعت سے ملا اور کہا میں نے حقیقت کو پا لیا ہے اور بیعت کی خواہش کی۔

 کرغزستان کے حالات بھی آجکل احمدیوں پر بہت زیادہ تنگ کئے جا رہے ہیں۔ اُن کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ وہاں کے حالات بہتر کرے اور اُن پر جو سختیاں اور تنگیاں وارد کی جا رہی ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو دور فرمائے۔ پھر کرغزستان کے ایک نومبائع احمدی ہیں انہوں نے دو سال قبل بیعت کی تھی۔ وہ بیعت سے قبل کبھی کبھار ایک دو نمازیں پڑھ لیا کرتے تھے۔ بیعت کے بعد اب اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بلاناغہ پانچوں نمازیں ادا کرتے ہیں اوراپنا چندہ ہرماہ وقت پر ادا کرتے ہیں۔ اُن کی اہلیہ نے تا حال بیعت نہیںکی۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے بڑی خوشی سے بتایا کہ میری اہلیہ نے بھی نمازیں شروع کردی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کل ہم دونوں میاں بیوی گھر میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی کتاب ’’شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں‘‘ کا مطالعہ کررہے ہیں جو کہ کرغز زبان میں چھپ چکی ہے۔ دوران مطالعہ ہمارے درمیان اکثر یہ بحث ومباحثہ ہوتا رہتا ہے کہ حضور نے یہ کتاب میرے لئے لکھی ہے کیونکہ اس میں میری بیماریوں کا ذکر ہے۔ وہ کہتی ہے کہ نہیں یہ کتاب خاص میرے لئے لکھی ہے کیونکہ یہ کمزوریاں اور کوتاہیاں تو مجھ میں تھیں۔ اور اس طرح بڑی سرعت سے یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکیزگی اور روحانیت میں ترقی کررہے ہیں۔

پس یہ ہیں وہ نئے آنے والے لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ انقلاب برپا کر رہا ہے۔

 پھر قازقستان کے لوکل معلم روفات صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ2011ء کے موقع پرہمارے ساتھ دو چیچن بھی تھے۔ ان میں سے ایک کا نام سعید امین ہے اور وہ فرانس میں رہتے ہیں۔ انہوںنے جلسہ کے دوسرے دن بیعت کی۔ جب انہوں نے حضور کو (یعنی مجھے) پہلے دن دیکھا تو انہوں نے یہ کہا کہ یہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ (بعض اُن کے اعتراضات تھے۔ میرے خیال میں انہوں نے مجھے بھی لکھے تھے۔ لیکن بعد میں دوسرا خط آ گیا جس میں انہوں نے معافی بھی مانگی تھی) وہ اپنے بعض بے بنیاد اور ذاتی خیالات کی وجہ سے میرے بارے میں سمجھتے تھے کہ یہ حضور نہیں ہو سکتے۔لیکن جب اس نے میری تقریر سنی اور دیکھا کہ کیا کیا باتیں نکل رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں اور اللہ تعالیٰ کے رسول کے بارے میں اور اسلام کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں اور روحانیت کی باتیں ہو رہی ہیں تو اس کی کایا پلٹ گئی۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ اس کو آپ سے بہت محبت ہوگئی اور اُس نے فوراً بیعت کرلی۔ اور جب میرے سے ملاقات ہوئی ہے، تو امین صاحب نے کہا کہ ہم آپ کی اطاعت کے لئے مکمل تیار ہیں اور ہماری زندگی حضور کے ہاتھوں میں ہے۔

محترمہ نسمہ ابراہیم صاحبہ کہتی ہیں (مجھے لکھ رہی ہیں) کہ چند ماہ قبل میں نے آپ کی خدمت میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے لئے دعا کے لئے لکھا تھا۔ اب عرض کرنا چاہتی ہوں خدا تعالیٰ نے اس طرح آپ کی دعا قبول فرمائی کہ اس سیمینار کے دوران ایک پروفیسر مجھے بلا وجہ تنگ کر رہا تھا اور وجہ صرف یہ تھی کہ اُسے نگران مقالہ پروفیسر سے کوئی چِڑ تھی۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ تھوڑی دیر بعد ہی اُسے کسی اور پروفیسر نے بلایا اور وہ وہاں سے باہر چلا گیا اور اس کے بعد پورے پروگرام میں واپس نہیں آیا۔ اس طرح میرا سیمینار بہت کامیاب رہا اور سب نے مجھے مبارکباد دی۔ مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے اُسے وہاں سے نکلوایا۔ لیکن یہ اتنا غیر معمولی واقعہ تھا کہ خود مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ کیسے ہوا۔

 پھر برنی کونی نائیجر سے ہمارے مبلغ  20؍فروری 2012ء کو لکھ رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کی نماز کے بعد ہمارے ایک نومبائع احمدی دوست ثالث احمد صاحب نے بتایا کہ رات میں درود پڑھتا ہوا سو گیا تو خواب میں دیکھا کہ برنی کونی شہر میں ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہے اور درمیان میں ایک بڑا سٹیج لگا ہوا ہے جس پر خلیفۃ المسیح الخامس ایک بڑے عظیم بادشاہ کی طرح کھڑے ہیں۔ اور آپ نے اعلان فرمایا کہ تم سب میرے ساتھ دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاؤ۔ اور پھر جونہی دعا شروع ہوئی تو بڑی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ بارش اتنی اچھی لگ رہی تھی کہ ہر چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا تھا۔ ہر شخص فرحت میں اس بارش میں نہا رہا تھا۔ کہتے ہیں جب انہوں نے یہ خواب سنائی تو خاکسار( یعنی مبلغ سلسلہ )نے سب دوستوں سے کہا کہ آؤ مل کر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقت میں ہمیں حضور کی دعا کا وارث بنا دے۔ چنانچہ ہم دوستوں نے مل کر دعا کی۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ اس رؤیا کے ٹھیک دس دن بعد اِس وقت نائیجر میں شدید موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔ (یعنی جب وہ خط لکھ رہے ہیں) انہوں نے لکھا کہ شدید موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔ نائیجر میں بارشوں کا سیزن مارچ کے آخر یا اپریل کے درمیان شروع ہوتا ہے اور کبھی کبھار جون کے پہلے ہفتہ میں بارش ہوتی ہے۔ تو اس خواب کے بعد اور اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر یہ فضل فرمایا اور فروری میں جبکہ اُن کو اُس وقت بارش کی ضرورت بھی تھی وہ بارش ہو گئی۔

آئیوری کوسٹ کے ایک شہر سینفرا (Sainfra) کے ایک نو مبائع دوست بیان کرتے ہیں کہ خاکسار اکثر تبلیغی مباحثوں میں سنا کرتا تھا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اور مَیں اُن کے بارے میں صرف ان کے خلاف باتیں سنتا تھا۔ ایک دن اُن کے غیر احمدی  امام نے بتایا کہ اسلام آخری زمانے میں تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اور ان میں ایک فرقہ سچا اور صراط مستقیم پر ہے اور وہی جنتی ہے۔ میں چونکہ سچائی کی تلاش میں تھا اور اکثر سوچا کرتا تھا کہ کہیں یہ ایک فرقہ احمدیت ہی تو نہیں جس کے سب خلاف ہیں؟ یہ بھی تو سچا ہو سکتا ہے۔ بہر حال کہتے ہیں مَیں نے تحقیق کرنی شروع کی۔ اسی دوران وہ علاقے کے ایک احمدی معلم ’ابراہیم سلاسے‘ ملے۔ اُس نے قرآن پاک اور حدیث کے حوالوں سے مجھے تبلیغ کی۔ گھر واپس جانے کے بعد میں نے جب احمدیت اور اماموں کی بتائی ہوئی باتوں کا تقابلی جائزہ لیا تو مجھے واضح ہو گیا کہ احمدیت حقیقی اسلام ہے اور اس کے بعد میں شرح صدر کے ساتھ بیعت کر کے احمدی ہو گیا۔

 نائیجیریا سے مبلغ سلسلہ ریحان ملک صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال خلافت کے موضوع پر ایک پروگرام ایک لوکل ٹی وی چینل این ٹی اے نے نشر کیا۔ جب یہ پروگرام امابو (Emabo) نامی گاؤں کے امام نے دیکھا تو وہ ہمارے گاؤں کے ایک جاننے والے احمدی کے پاس آئے جو کہ ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں، اور کہنے لگے کہ یہ میری جماعت ہے اور یہی سچی جماعت ہے۔ میں کب سے اس کی تلاش میں تھا۔ میں اس میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ہمارے مبلغ صاحب ان کے گاؤں میں تبلیغ کے لئے گئے تو انہوں نے بڑی محبت سے استقبال کیا اور گاؤں کے لوگوں کو اُن کے آنے کا مقصد بیان کیا اور گاؤں سمیت جماعت میں  شمولیت اختیار کر لی۔ پورے کا پورا گاؤں احمدیت میں شامل ہو گیا۔

ماسکو سے مبلغ سلسلہ عطاء الواحد صاحب لکھتے ہیں کہ27؍ اپریل 2012ء کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے عبد المناب صاحب کو بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ عبدالمناب صاحب کا آبائی وطن کرغزستان ہے لیکن پچھلے بارہ سال سے ماسکو میں مقیم ہیں۔ جماعت سے واقفیت کا موقع خود معاندین احمدیت نے دیا۔ جب مخالفین نے اُن کے علاقے میں رہنے والے ایک احمدی دوست کے بارے میںاپنے منفی تأثرات کا اظہار کیا تو عبدالمناب صاحب کو تجسس ہوا اور اس احمدی کے ذریعے جماعت کے بارے میں جاننا شروع کیا۔ ماسکو میں بھی نمازِ جمعہ پر تشریف لاتے رہے اور جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کرتے تھے۔ اُس کے بعد اُٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی لیتے رہے۔ کافی مطالعہ کے بعد پھر انہوں نے میرے خطبات جو رشین زبان میںہیں، اُن کو بھی سنا اور اس کے بعد پھر بیعت فارم مانگا اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔

ایران کے نسیم عباد صاحب کہتے ہیں، میری پیدائش اور پرورش شیعہ خاندان میںہوئی جہاں شروع سے ہی دینی رجحان تھا۔ شاہِ ایران کے زمانے میں ایک معروف عالم سے متاثر تھا اور دعا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو احیائے دین کے لئے مبعوث کر دے۔ دوسری طرف مختلف ٹی وی پروگرامز اور کتب کا مطالعہ کیا لیکن جس طرح اسلام کو پیش کیا جا رہا تھااس سے تسلی نہ ہوتی تھی اور خیال کرتا تھا کہ جو اسلام پیش کیا جا رہا ہے ضرور اس میں کوئی کمی یا کمزوری ہے۔ کیونکہ قرآن تو یہ فرماتاہے کہ کثرت سے لوگ اس دین میں داخل ہوں گے۔ لیکن آجکل تو لوگوں کی اکثریت اسلام کی حقیقت سے خالی ہے۔ اس پر مجھے یقین ہو گیا کہ رائج الوقت مفاہیم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی جو مفہوم آجکل سمجھا جا رہا ہے، یا تفسیریں اور تشریحیں کی جاتی ہیں اُن کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دل نے کہا کاش کوئی چینل ہو جو اسلام کے حسن و جمال کو دوبارہ لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر کرے اور دین کی تعلیمات کی دوبارہ ترویج کرے۔ ایک روز میرے ایک دوست نے اپنے گھر بلایا اور ایم ٹی اے سے متعارف کروایا۔ اس کے بعد میں نے پروگرام الحوار المباشر اور بعض دیگر پروگرام دیکھے جن میں آپ کی تفسیر القرآن اور مختلف مسائل پر گہری، علمی اور حکیمانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوا۔ پہلی بار کسی چینل پر اسلام کے بارے میں علمی طریق سے گفتگو اور فون کرنے والوں کے سوالوں کے قوی دلائل پر مبنی جوابات سنے۔ گو اس وقت میں احمدی نہیں تھا لیکن آپ کا مبلغ بن چکاتھا اور دوسروں کو ایم ٹی اے دیکھنے کی ترغیب دینے لگا۔ بعض نے خوشی اور رغبت سے اس کو دیکھنا شروع کر دیا اور بعض نے مخالفت کی اور مولویوں کے پیچھے چلتے رہے۔ مختلف ویب سائٹس پر جماعت کے خلاف الزامات بھی پڑھے لیکن دل نے ان کو صحیح ماننے سے انکار کر دیا۔ بہرحال نیک فطرت تھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ کہتے ہیں کیونکہ جماعت تو اسلام کا دفاع کرنے اور اُسے خرافات سے پاک کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ جو لوگ جماعت کی تکفیر کرتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور قرآنِ کریم پر عمل پیرا نہیں ہیں بلکہ اُن کا عمل حکمت اور موعظہ حسنہ کے برخلاف تھا۔ اگر وہ جماعت کے عقائد کو پڑھتے اور گفت و شنید کا طریق اختیار کرتے تو تکفیر بازی کی نوبت نہ آتی۔ اُن کا جماعت کے ساتھ طرز عمل خود ان کی شکست اور علم سے تہی دست ہونے کا ثبوت ہے۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ یہ علماء شیعوں کو تو مناظرے کی دعوت دیتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کے مقابلے پر صرف تکفیر بازی اور گالی گلوچ پر اکتفا کرتے ہیں۔ یقینا اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ جماعت احمدیہ کے قوی دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں جب میں نے یہ سنا کہ احمدی لوگوں کو قید اور قتل کیا جاتا ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے مخالفین کے پاس سوائے اسلام کو بدنام کرنے کے اور کچھ نہیں۔ کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں کسی قسم کے نسخ نہ ہونے کے بارے میں آپ کا عقیدہ معلوم کر کے آپ کی اسلام کے ساتھ محبت کا یقین ہو گیا۔ جب یہ سنا کہ مسیح موعود نے اسلام کی دوسرے مذاہب پر فوقیت ثابت کرنے کے لئے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں کتاب براہین احمدیہ لکھی ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ ہی تبلیغ اسلام کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود اور پھر خلفاء کی کتب پڑھ کر یقین ہو گیا کہ یہ لوگ معمولی آدمی نہیں بلکہ یہ اسلام کے سرگروہ ہیں اور ان کے افکار کی دنیا کو سخت ضرورت ہے۔ مختلف انبیاء کی صداقت کے معیار پر حضرت مسیح موعود کی صداقت کو پرکھا تو یقین ہو گیا کہ مسیح موعود سچے ہیں۔ ان معیاروں میں مدعی کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی خاص طور پر اہم معیار ہے۔ نیز یہ کہ اگر نعوذ باللہ حضرت مرزا صاحب جھوٹے ہوتے تو کیوں آپ کی جماعت ابھی تک قائم رہتی اور اس کی تعداد کئی ملین تک پہنچتی۔ کہتے ہیں حضور علیہ السلام کی عربی زبان کی مہارت اور عرب و عجم کو عربی میں مقابلہ کا چیلنج دینا مخالفین کے لئے گولڈن چانس مہیا کرتا تھا کہ اپنی فوقیت ثابت کرتے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ ان سب دلائل نے میرے لئے آپ پر ایمان لانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ چھوڑا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ مدد فرماتا ہے۔

معلم روفات صاحب لکھتے ہیں کہ قازقستان کے کئی احمدی کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ (یہ تو آپ بھی یہاں اکثر سنتے رہتے ہیں)۔ کیونکہ ہم کئی سال دہریت میں رہے اور جلسہ ہمارے لئے روحانیت کی شمع ہے۔ کیونکہ جلسہ میں خدا کے فرشتوںکا نزول ہوتا ہے اور ہر ایک شرکت کرنے والا ان سے فیض پاتا ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم اپنے امام ، جو کہ امام مہدی کا خلیفہ ہے، کو دیکھتے ہیں اوران کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور آپ کے ہاتھوں کو چھوتے ہیں۔ (جلسہ پر جب یہ لندن آتے ہیں تو وہاں کا اپنا تجربہ انہوں نے بیان کیا ہے)۔

لبنان سے قاسم عبود صاحب لکھتے ہیں خدا تعالیٰ کا ہزارہزارشکر ہے کہ اُس نے مجھے آپ کی بیعت کے ذریعے ہدایت اور حق کی راہ دکھائی۔ مجھے لکھ رہے ہیں کہ مجھے آپ سے شدید محبت ہے۔ اس دنیا میں آپ ہی میرا سب کچھ ہیں۔ میں والدین کی وفات اور بڑے بھائیوں کے اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہونے کے بعد کافی عرصے سے اکیلا رہتا تھا اور خود اپنا گزارہ کرتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی۔ اب بیعت کے بعد میرا احساسِ تنہائی بالکل ختم ہو گیا ہے، کیونکہ آپ کے خطبات و خطوط اور ایم ٹی اے کے پروگراموں میںمجھے وہ شفقت اور محبت اور اہل وعیال مل گئے ہیں جنہیں میں والدین کی وفات کے بعد گم کر بیٹھا تھا۔ ایم ٹی اے پر آپ کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ آپ خود میرے گھر تشریف لے آئے ہیں اور احباب جماعت جو مختلف رنگ و نسل کے ہیں میرے دوست اوراہل و عیال ہیں۔ اگر میں اس جماعت کے ساتھ نہ ہوں تو خواہ ساری دنیا بھی میرے گرد جمع ہو جائے میں تنہائی محسوس کروں گا۔

 پس خلافت سے یہ محبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آپ کی اُن دعاؤں کا نتیجہ ہے جو قدرتِ ثانیہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھیں۔ پس ان محبتوں کو کون دل سے نکال سکتا ہے جو خالصتاً خدا تعالیٰ کی خاطر ہوں۔ ہمارے مخالفین کو یہ سب کچھ سن کر اور دیکھ کر بھی احساس نہیں ہوتا کہ اگر یہ جماعت کسی انسان کی کوشش سے بنائی ہوئی ہوتی تو یوں محبتیں دل میں پیدا نہ ہوتیں۔ محبتیں اس طرح نہ گڑھ جاتیں کہ دور بیٹھے ہوئے اس محبت کا احساس اور اظہار کر رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ خوابوں کے ذریعے بھی رہنمائی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ خوابوں کے ذریعے سے یا کئی اور مختلف ذرائع سے پھر ایمانوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جا رہا ہے۔ بلکہ انڈونیشیا اور پاکستان میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کو دیکھ کر بھی ان دشمنانِ احمدیت کو احساس نہیں ہوتا کہ صرف دنیا کی خاطر ایمان کی مضبوطی نہیں دکھائی جاسکتی۔ یقینا خدا تعالیٰ نے دلوں میں یہ مضبوطی پیدا فرمائی ہے۔ اور جو چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو وہ ان مُلّاؤں اور احمدیت کے دشمنوں کی کوششوں سے ختم نہیں ہو سکتی۔

            اے مخالفینِ احمدیت! تم نے جتنا زور لگانا ہے لگا لو، یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ احمدیت نے ہی غالب آنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور کوئی دنیا کی تدبیر اس کو بدل نہیں سکتی۔ جماعت احمدیہ ہی کی تقدیر میں غلبہ لکھا ہے اور تمہاری تقدیر میں نامرادی اور رسوائی لکھی گئی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

            حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے۔ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِئُوۡانُوۡرَاللّٰہِ بِاَفۡوَاھِہِمۡ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡن‘‘۔ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے مونہہ کی پھونکوں سے بجھادیں مگر خدا اُس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کر لے اگرچہ مُنکر کراہت کریں۔ فرمایا ’’یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ کوئی مخالف نہ تھا بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ پھر بعداس کے حسب بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی۔ …… تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہل مکّہ کے پاس خلاف واقعہ باتیں بیان کرکے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا۔ قتل کے فتوے دئیے گئے۔ حُکّام کو اُکسایا گیا۔ عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بیزار کیا گیا۔ غرض ہر ایک طرح سے میرے نابود کرنے کے لئے کوشش کی گئی مگر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور اُن کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نا مراد اور نا کام رہے۔ افسوس کس قدر مخالف اندھے ہیں۔ ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانہ کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئیں۔ کیا بجز خدا تعالیٰ کے کسی اور کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو۔ نہیں سوچتے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نا مراد نہ رہتے۔ کس نے اُن کو نا مراد رکھا؟ اُس خدا نے جو میرے ساتھ ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ241-242)

پس مخالفین احمدیت کی یہ نامرادی جس کے نظارے ہم آج تک دیکھ رہے ہیں، ان مخالفین احمدیت کا مقدر ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ اپنی کوششوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت ترقی کی منازل طے کرتی چلی جائے گی۔ پس اس ترقی کو دیکھنے کے لئے ہر احمدی کا یہ فرض یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کے ساتھ اپنا تعلق پختہ کرتے چلے جائیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے، دوسری قدرت یعنی خلافتِ احمدیہ کے ساتھ بھی اپنی وفا اور اطاعت کا تعلق بڑھاتے چلے جائیں تاکہ ہم جلد تر تمام دنیا پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہراتا ہوا دیکھ سکیں۔ پس اس کے حصول کے لئے اپنی حالتوں میں بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اب دعا کر لیں۔ (دعا کے بعد احباب نعرۂ تکبیر بلند کررہے تھے۔ حضور انور نے فرمایا:)

            ایک منٹ ذرا خاموش رہیں۔ آپ کو آپ کی حاضری بتا دوں۔ مستورات کی بارہ ہزار چار سو انتیس(12429) اور مرد حضرات کی پندرہ ہزار سات سو چورانوے(15794)۔ تبلیغی مہمان آٹھ سو چوّن(854)۔ کُل اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتیس ہزار ستہتّر(29077) کی حاضری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پینتالیس(45) ممالک کی نمائندگی ہوئی ہے۔ میرا خیال تھا اس دفعہ بہت تھوڑی تعداد آئے گی کیونکہ سکولوں میں چھٹیاں نہیں، لیکن ماشاء اللہ جرمنی والوں نے میرا اندازہ غلط ثابت کردیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں