خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع انصاراللہ برطانیہ7؍اکتوبر2012ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اس وقت میرے سامنے آپ جو انصار بیٹھے ہیں، آپ میں سے بہت سوں کے باپ دادا نے احمدیت قبول کی ہو گی اور کئی نسلوں سے آپ میں احمدیت چلی آ رہی ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کو تیس چالیس سال پہلے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ اُن کی نسلیں بھی پیدائشی احمدی ہیں۔ اسی طرح مسلسل یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ احمدیت میں شامل ہوتے ہیں۔ اور اب تو لاکھوں کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کا نتیجہ ہے کہ آپ کی جماعت نے ترقی کرنی ہے، بڑھنا ہے۔ پس ہر احمدی جو چاہے کئی نسلوں سے احمدی ہے یا نیا شامل ہونے والا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کا ایک نشان ہے۔ لیکن اب جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ واقعات کثرت سے ہوتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں جماعت میں لوگ شامل ہوتے ہیں اور پھر شامل ہونے والے اپنے واقعات بھی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اُن کو شامل ہونے کی تحریک پیدا ہوئی، کیا وجہ ہوئی اُن کے احمدیت قبول کرنے کی۔ اس کے بعد اُن میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں جلسہ کی دوسرے دن کی تقریر میں جماعت کی ترقی کا یہ ذکر ہوتا ہے اور اُن میں مختلف لوگوں کے واقعات بھی میں بیان کرتا ہوں۔ اب ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے، اس کثرت سے مختلف لوگوں کے یہ واقعات آتے ہیں کہ ایک تقریر میں ان کا احاطہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جب مَیں یہ واقعات پڑھتا ہوں تو بعض اوقات دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل فرما رہا ہے اور اُن میں کس طرح تبدیلیاں پیدا فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر دل حمد سے بھر جاتا ہے۔ نئے شامل ہونے والوں کے ایمان اور ایقان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کتنی جلدی ان لوگوں نے کتنی ترقی کی ہے اور بڑی تیزی سے مزید ترقی کی منازل طے کرتے چلے جا رہے ہیں۔

            بہرحال میں نے سوچا کہ آج اُس کیفیت میں آپ لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہئے جو ان کے واقعات دیکھ کر ہوتی ہے۔ جس کے لئے یہی طریق ہو سکتا ہے، جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کو آج شامل کروں اور مختلف اوقات میں، مختلف مجالس میںان کا ذکر کیا جاتا رہے جو ہر ایک کے لئے ازدیادِ ایمان کا باعث بنتے ہیں۔

            انڈیا سے سروترا جماعت جو گجرات میں ہے، اُس کے صدر اصغر بھائی صاحب لکھتے ہیں کہ جب سے وہ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے ہیں، مخالفین ہر طرح سے اُن کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ جہاں اُن کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی اُن لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ یہ احمدی ہو گئے ہیں تو ان پر زور ڈالا کہ احمدیت چھوڑ دو۔ بیٹی کے سسرال والوں نے شہر کے بڑے بڑے علماء کو اکٹھا کیا۔( انڈیا میں بھی بہت زیادہ مخالفت شروع ہو چکی ہے۔) اور رات میٹنگ بٹھا کر کہا کہ یا تو احمدیت چھوڑ دو یا لڑکی کو اپنے ساتھ واپس لے جاؤ۔ موصوف نے مخالفین کا مقابلہ کیا اور بڑی دلیری سے کہاکہ بیشک میری بیٹی واپس بھیج دو لیکن میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا۔ وہیں رات کو بیٹھ کر طلاق لکھی گئی اور لڑکی کو طلاق دے کر صبح اپنے ماں باپ کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ یعنی ایک رات بھی یہ شادی نہیں چلی ۔ یہ اپنی بیٹی کو لے آئے لیکن اپنے ایمان پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی اور ثابت قدم رہے۔

            یہ اُن لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو بعض پرانے احمدی ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر، رشتوں پر کوشش ہوتی ہے کہ ہماری بات مان لی جائے اور لڑکیوں کے معاملے میں خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑا واضح طور پر فرمایا ہے کہ اپنی لڑکیاں غیر احمدی کو نہیں دینیں۔

            پھر اعجاز احمد صاحب مبلغ سلسلہ بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ شہر دُوْگُو کے ایک نو مبائع پارے ادریس صاحب ہیں جو کہ مستری کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے دو شادیاںکی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ہمارے لوکل مشنری زَوْرِے اسماعیل سے کر دی۔ احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے وہ وہابی تھے۔ انہوں نے اپنی مسجد میں جا کر اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ جماعت احمدیہ کے مشنری سے کر دیا ہے اور ان کی بیٹی کا نکاح بھی احمدیہ مسجد میں ہی ہو گا۔ اس لئے وہ سب کو دعوت دینے کے لئے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا کہ  وہ امام مہدی جس کا انتظار ہے آ چکے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ جب مولویوں نے اُن کی یہ بات سنی تو انہوں نے کہا کہ تُونے اپنی بیٹی کا رشتہ کافر سے کر دیا ہے۔ اس لئے توبہ کرو اور اپنی بیٹی کا رشتہ وہاں نہ کرو۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمانوں کو وہاں افریقہ میں کوئی پوچھا نہیں کرتا تھا، لیکن اب کئی سالوں سے، کچھ عرصے سے مختلف عرب ممالک، مسلم ممالک اپنے لوگوں کو بھیجتے ہیں جن کا صرف اس بات پر زور ہوتا ہے کہ احمدی کافر ہیں، جماعت میں شامل نہ ہوں اور اکثر جگہ کافی مہم چل رہی ہے۔ لیکن بہرحال اس سے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ تو کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا اس لئے توبہ کرو اور اپنی بیٹی کا رشتہ وہاں نہ کرو۔ اس پر ادریس صاحب وہاں سے چلے آئے اور کچھ عرصے بعد جب اُن کی بیٹی کی شادی ہو گئی تو اُن کی دوسری بیوی کے والدین نے اپنی بیٹی کو گھر بلا لیا۔ بیٹی کو انہوں نے کچھ نہیں بتایا کہ کس سلسلہ میں انہوں نے اس کو گھر بلایا ہے۔ کیونکہ لڑکی کے والدین اور مولوی صاحبان آپس میں بات کر چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے ادریس صاحب کو بلایا اور کہا کہ ہماری تین شرائط ہیں۔ تم سب کے سامنے یہ اقرار کرو کہ نعوذ باللہ امام مہدی علیہ السلام جھوٹے ہیں۔ نمبر دو اعلان کرو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور وہ دوبارہ آئیں گے۔ نمبر تین یہ کہ تم نے اپنی بیٹی جو احمدیہ مشنری کو دی ہے، اُس کو واپس بلاؤ۔یہ تین شرطیں پوری کرو گے تو تمہیں تمہاری بیوی واپس دے دیں گے۔ اس پر ادریس صاحب نے سبحان اللہ کہا اور واضح طور پر بتا دیا کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے اور کہا کہ وہ حق کو تسلیم کر چکے ہیں اور اس کے لئے جتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں وہ تیار ہیں۔ اس کے بعد ادریس صاحب نے بیوی کے والدین سے بات کرنا چاہی مگر انہوں نے انکار کر دیااور کہا کہ جوہمارے مولویوں کا فیصلہ ہے وہی ہمارا فیصلہ ہے۔ اس پر وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر گھر چلے آئے لیکن احمدیت پر قائم رہے۔

            مفیض الرحمن صاحب مبلغ سلسلہ بوسنیا لکھتے ہیں کہ ایک دوست سماجو مفتی صاحب (Samajo Muftich) کو جب جماعت کا پیغام پہنچا تو موصوف جماعتی سینٹر میں آئے اور جماعتی تعلیم کے بارے میں استفسار کرتے رہے۔ دورانِ گفتگو اُن کی نظر (وہاں میری تصویر لگی ہوئی تھی) اُس پر پڑتی تھی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ جب اُن کو تعارف کروایا گیا تو کہنے لگے کہ ان سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ اُن دنوں میں چونکہ جلسہ جرمنی کی آمد تھی۔ موصوف جلسہ جرمنی میں تشریف لائے، وہاں جلسہ میں شامل ہوئے۔ جلسہ کے سب مقررین کی بھی اور میری بھی تقریریں سنیں۔ وہاں مجھے ملے بھی، دیکھتے رہے اور بڑے جذباتی ہوتے رہے۔ اور یہ بھی کہتے رہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ مَیں کیوں رو رہا ہوں اور اس جلسہ پر بیعت کر کے پھر جماعت میں داخل ہو گئے۔ چودہ سال سے نماز اور اسلامی شعار سے بالکل دُور تھے حالانکہ پہلے مسلمان تھے۔ لیکن الحمد للہ اب احمدیت میں داخل ہونے کے بعد ان تمام شعار کے پابند ہیں اور پابندی کرتے ہیں۔ حقیقت میں  یہ انقلاب ہے جو احمدیت لاتی ہے اور ہر احمدی کویہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے اور تبھی ہم، جو انصار اللہ کی عمر کے ہیں، انصار اللہ بھی کہلا سکتے ہیں کہ اگر اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کریں اور اخلاص و وفا کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے ہوں۔

            پھر اسی طرح لکھتے ہیں کہ ایک اور دوست حسن صاحب کو احمدیت کا پیغام ملا تو دو تین مرتبہ احمدیت کے بارے میں گفتگو کے بعد موصوف نے بیعت کر لی۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت اسلامی معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے جو صرف احمدیت میں نظر آتی ہے۔ موصوف چونکہ کتب کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے بک سٹال پر جماعتی کتب بھی رکھی ہوئی ہیں اور خود بھی تبلیغی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

            صدر صاحب نیوزی لینڈ لکھتے ہیں کہ نومبر 2011ء میں جماعت احمدیہ نیوزی لینڈ کو یہاں کے مقامی مائوری (Maori) باشندوں میں سے پہلی بیعت حاصل ہوئی۔ اس دوست میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام احمدیت قبول کرنے کے بعد ایک بڑی نمایاںتبدیلی آئی ہے۔ یہ دوست بیعت سے قبل بدقسمتی سے اپنے مخصوص ماحول کی وجہ سے پُرتشدد طبیعت کے مالک تھے۔چنانچہ اسی وجہ سے گھریلو تشدد کے باعث اُن کا معاملہ پولیس کے پاس چلا گیا اور ان کے ماضی کی وجہ سے قوی امکان یہی تھا کہ اُنہیں جیل ہو جائے گی۔ اُن کی اہلیہ جو کہ جماعت میں کافی دلچسپی لیتی ہیں، اُنہوں نے کہا کہ اگر احمدیت سچی ہے تو پھر تمہیں سزا سے بچ جانا چاہئے۔ اس ضمن میں انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا۔ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اُنہیں جیل سے محفوظ رکھا۔ ان کی اہلیہ نے ابھی تک بیعت نہیں کی تاہم ان کے جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کے قبیلے کے باقی لوگوں کے احمدیت قبول کرنے کا امکان ہے۔ ایک تو یہ بہت بڑا بریک تھرو(Break Through) ہوا ہے، لیکن انشاء اللہ وہاں کے یہ مقامی باشندے جو مائوری کہلاتے ہیں جب کثیر تعداد میں احمدی ہوں گے تو اُس علاقے میں انشاء اللہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا۔ اس قبیلے کے بعض ایلڈرز نے جماعتی وفد کے دورے کے موقع پر ہمارے ساتھ نماز بھی پڑھی۔ کیونکہ اُن کے ایک بزرگ نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ پیس پرافٹ (Peace Prophet)کے لوگ اُن کے مائوری کا وزٹ کرنے آئیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اُن کوتیاری کروائی ہوئی ہے۔

             عرفان احمد صاحب مبلغ ٹوگو لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں میں تبلیغی پروگرام کے دوران ہمیں ایک بزرگ ملے جنہوں نے 1958ء میں غانا میں احمدیت قبول کی تھی۔ اس کے بعد اُن کا رابطہ بالکل ختم ہو گیا تھا لیکن دل سے احمدی تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنے تمام حالات بتائے۔ پروگرام کے بعد اس علاقے کے مولویوں نے اکٹھے ہو کر اُن کو بلایا اور دھمکی دی کہ وہ ہرگز یہاں احمدیت نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں ہمیشہ سے احمدی ہوں اور یہاں کا رہنے والا ہوں۔ آج کے بعد یہاں احمدیت کی ترقی کے لئے کام کروں گا۔ اُس کے بعد سے بڑے ایکٹو(Active) ہو گئے۔

            ٹوگو ریجن ہاہو (Haho) کے ایک گاؤں کپیوے (Kpeve) میں تبلیغ کی گئی۔ یہ گاؤں مشرکوں کا ہے۔ تبلیغ کے نتیجے میں 64 افراد نے احمدیت قبول کی۔ حسبِ معمول مخالفین نے وہاں جا کر ان کو جماعت سے بدظن کرنے کے لئے غلط باتیں کرنی شروع کر دیں اور اُن سے کہا کہ یہ لوگ کافر ہیں۔ ان کو قبول کر کے تم دوزخ میں چلے جاؤ گے۔ سامان کی گاڑیاں بھر کر گاؤں میں آئے اور لالچ دی کہ جماعت کو چھوڑ دو تو یہ سب سامان دے دیں گے۔ ایک خوبصورت مسجد بنا کر دیں گے۔ گاؤں والوں نے باوجود غریب ہونے کے سب کچھ ٹھکرا دیا اور کہا کہ ہم زمین پر نماز پڑھ لیں گے۔ ہمیں ایمان کی جو روشنی احمدیت نے دی ہے اُس کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے بعد مخالفین نے امام کو لالچ دیا کہ اگر تم ہماری طرف آ جاؤ تو ہم تم کو 35000فرانک ماہانہ دیں گے۔ اُس نے جواب دیا کہ مجھے میرے کھیت سے جو ملتا ہے وہی کافی ہے۔ مجھے آپ کے پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آخر مخالفین تمام تر کوششوں کے بعد ناکام لوٹ گئے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں پوری جماعت قائم ہے اور نظام کے ساتھ قائم ہے۔ لوگ پوری طرح اُس میں شامل ہیں۔

            بینن کے مبلغ عارف محمود صاحب لکھتے ہیں کہ توکپوئے (Tokpoe) میں جماعت کا قیام آج سے چار سال قبل ہوا۔ یہاں جماعت کی ایک مسجد بھی ہے جو کہ چند سال قبل تعمیر کی گئی تھی۔ اس سال رمضان المبارک میں اس گاؤں کے احمدی اور نو مبائع افراد کی تعلیم و تربیت اور دیگر جماعتی پروگرام کے لئے امیر صاحب کی اجازت سے مدرسہ احمدیہ پوبے سے پاس ہونے والے طلباء میں سے ایک طالبعلم آگْبَوْْزَوْ سلیمان (Agbozo Souleman) کو بھجوایا جو یکم رمضان سے لے کر عید تک یہاں رہا۔ اس طالبعلم نے مجھے بتایا کہ مؤرخہ تیس رمضان کو شام پانچ بجے ایک گاڑی ہماری مسجد کے پاس آ کر رکی اور اُس میں سے ایک عربی شخص اترا اور اُس نے اس طالبعلم سے پوچھا کہ اس مسجد کا امام کون ہے؟ سلیمان نے جواب دیا کہ مَیں ہی مسجد کا امام ہوں۔ اس طرح باتیں کرتے کرتے وہ سلیمان کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا اور اندر سے مسجد کو دیکھا اور سلیمان سے کہا کہ وہ سعودی عرب سے ہے اور مکّہ مکرمہ کے قریب ہی اُس کا شہر ہے۔ وہ یہاں کام کے سلسلے میں آیا ہوا ہے اور اس نے چودہ ہزار فرانک سیفا نکال کر سلیمان کو دئیے اور کہا کہ کل عید ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ ان پیسوں سے کچھ خرید کر غریبوں میں تقسیم کر دیں۔ اس پر سلیمان نے اُس سے کہا کہ جماعتی سطح پر ہم نے انتظام کیا ہوا ہے اور ہم احمدیہ جماعت سے ہیں۔ ہم ہر بات اور کام کی تفصیل اپنے ریجن کے مشن ہاؤس کو دیتے ہیں اور وہ امیرکے ذریعے سے خلیفۃ المسیح کو رپورٹ بھجواتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ وہ جو عرب تھا اس آدمی نے شاید غور سے اُن کی بات نہیں سنی اور اپنی بات کرتا گیا کہ کس طرح اسلام کی خدمت کی جا سکتی ہے اور وہ کر بھی رہا ہے۔ (خود بتاتا رہا کہ میں کس طرح اسلام کی خدمت کرتا ہوں) کہتے ہیں اسی اثناء میں جو اُس کا ڈرائیور تھا اُس نے پوچھا کہ امیر کون ہے اور یہ خلیفہ کیا ہے؟ اُس کی بات سن کر وہ آدمی بھی تھوڑا سا چونکا اور پوچھا کہ مسجد کن کی ہے؟ سلیمان نے بتایا کہ احمدی مسلمانوں کی ہے۔ اُس نے پھر استفسار سے پوچھا کہ مسجد کن کی ہے؟ سلیمان نے کہا کہ بتایا تو ہے کہ یہ مسجد احمدی مسلمانوں کی ہے۔ جس پر وہ آدمی غصہ سے بولا کہ احمدی مسلمانوں کی نہیں، احمدی کافروں کی کہو، کیونکہ یہ لوگ کافر ہیں۔ پاکستان میں ان کو گورنمنٹ نے کافر قرار دیا ہوا ہے۔(یعنی یہ فتوے اب سعودی عرب میں بھی پاکستان سے آتے ہیں)۔ سعودی عرب میں ہم نے بھی ان کے حج پر پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ دہشتگرد ہیں اور اسلام سے باہر ہیں۔ اس پر سلیمان نے کہا کہ مسلمان یا کافر ہونے کا تو خدا ہی جانتا ہے کہ یہ کون ہے۔ اتنی دیر میں اس گاؤں کے کچھ اور افراد بھی آگئے۔ اُن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلیمان نے مزید کہا کہ یہ سب لوگ بت پرست تھے۔ ان کو جماعت احمدیہ نے تبلیغ کی اور ان کو قرآن کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ اُنہیں نماز پڑھنے کا طریق سکھایا گیا ہے ۔ یہ سب احمدی جماعت نے کیا ہے؟ کیا کوئی کافر ایسا کر سکتا ہے؟ اور یہ لو اپنے چودہ ہزار فرانک سیفا اور جس اسلام کی تم خدمت کرنا چاہتے ہو، وہ اس گاؤں میں نہیں ہے۔ اس پر وہ آدمی بولا کہ اگر تم مسجد پر’’ محمدیہ مسجد‘‘ لکھ دو تو مَیں آپ کو اور بھی پیسے دینے کو تیار ہوں۔ سلیمان نے کہا کہ جو خزانہ تعلیمات کی صورت میں ہم کو جماعت احمدیہ سے ملا ہے، وہ ہمارے لئے کافی ہے۔ (اوّل تو یہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن بہرحال اُس کی جو نیت تھی وہ اَور تھی، اس لئے انہوںنے انکار کر دیا)۔ پھر وہ آدمی سلیمان کو دوسرے لوگوں سے ذرا فاصلے پر لے گیا۔ نوجوان سمجھ کے اُس نے سوچا کہ اس کو لالچ دو اور کہا کہ اگر تم احمدیت چھوڑ دوتو مَیں آپ کی ہر طرح کی مدد اور خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں۔بلکہ آپ کا ماہانہ الاؤنس بھی مقرر کر دوں گا اور اس کے علاوہ بھی آپ کو وہ کچھ مل جائے گا جس کا تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ اس پر سلیمان نے کہا کہ مَیں جماعت کے لئے یہاں وقفِ عارضی پر آیا ہوں اور جو تعلیم اور ایمان کی دولت مجھے احمدیت سے ملی ہے، وہ کافی ہے۔ اور اس طرح وہ شرمندہ ہو کے واپس چلا گیا۔

            سید کریم صاحب انچارج علاقہ کھمم آندھرا(انڈیا) لکھتے ہیں کہ مخالفین جب اپنی کوششوں میں ناکام رہے تو انہوں نے آخر میں ایک پلان بنایا کہ دیہاتی لوگ غریب ہوتے ہیں ان کو کچھ پیسے دئیے جائیں تو وہ احمدیت چھوڑ کر ہماری طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس جائیداد میں سے جو گورنمنٹ کی طرف سے وقف بورڈ کے تحت مسلمانوں کے لئے رکھی جاتی ہے کچھ زمین صدر صاحب جماعت احمدیہ کھمم اور ان کے بھائی شیخ کریم صاحب کو دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ان کو ضلع میں ایک بڑا عہدہ دینے کی بھی پیشکش کی۔ اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ روپے تھی۔ (انڈیا کی بات ہے۔) اس پر صدر صاحب نے اُن مخالفین احمدیت کو جواب دیا کہ ایمان کو دولت سے خریدنا چاہتے ہو؟ کتنے آدمیوں کو خریدو گے؟ آپ کی اس پچاس لاکھ کی جائیداد سے مَیں اللہ کے عذاب سے کس طرح بچ سکتا ہوں جو مجھے امام وقت کے انکار کی وجہ سے ملے گا۔ اس طرح مخالفین کے ساتھ صدر صاحب کی پانچ گھنٹوں تک بحث ہوتی رہی اور آخر میں اُن سے کہا کہ آپ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ دیہاتی لوگ غریب ہوتے ہیں۔ اس لئے لالچ وغیرہ دے کر اُن سے سب کچھ کروایا جا سکتا ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ سچائی کے ساتھ مقابلہ مت کرو اور یہاں سے چلے جاؤ اور آئندہ ہمارے پاس کبھی نہ آنا۔ یہ کہہ کر اُن کو وہاں سے بھگا دیا۔

            اٹلی میں ایک نو مبائع نصر العامری صاحب بیان کرتے ہیں کہ سب سے بڑی چیز جو مجھے احمدیت میں آ کر ملی ہے وہ شجاعت ہے، بہادری ہے۔ مَیں سر اُٹھا کر مولویوں کے پاس جاتا ہوں اور اُنہیں کہتا ہوں کہ ان باتوں کا جواب دیں لیکن کوئی میرے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتا۔ کئی مولوی میرے گھر میں بھی آئے اور بعض عرب ممالک سے یہاں دورے پر آئے تو اُنہیں بھی مجھے احمدیت سے تائب کرنے کے لئے میرے گھر لایا جاتا رہا لیکن صرف وفاتِ مسیح کے مسئلہ میں ہی وہ لاجواب ہو گئے۔ موصوف نہایت گداز طبیعت کے مالک ہیں۔ بڑی نرم طبیعت ہے اور بہت مخلص ہیں۔ بات بات پر آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ قبل از یں تبلیغی جماعت سے منسلک تھے اور احمدیت قبول کرنے کے بعد ان میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ اپنے گھر کی دیواروں پر بیعت کی قبولیت کے جو خطوط میری طرف سے گئے ہوئے تھے وہ بھی  انہوں نے فریم کر کے لگائے ہوئے ہیں۔

            اب بعض باتیں بظاہر بڑی چھوٹی لگتی ہیں لیکن جب ایسے لوگوں کو دیکھو جو بالکل دیہات میں ہیں، جن کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ جن میں نیا نیا ایمان داخل ہوا ہے وہ جب اپنی ہر بات کواللہ تعالیٰ کے فضلوں پر منتج کرتے ہیں تو بہرحال یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایک انقلاب ہے جو اُن کی طبیعتوں میں پیدا ہوا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ  ٹیچی مان غانا کا ہے۔ یہاں ایک جگہ ہے اوفوری کروم (Oforikrom)۔ یہاں ایک مخلص احمدی سعید عیسیٰ رہتے ہیں۔ ایک دن وہ اپنے زرعی فارم پر کام کرنے گئے۔ کام کرنے کے دوران نماز کا وقت ہو گیا تو کام چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے گئے۔ نماز سے واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ درخت کی ایک بڑی شاخ اُس جگہ پر گری پڑی ہے جہاں وہ نماز سے پہلے کام کر رہے تھے اوراچانک گری تھی۔ اگر نماز پڑھنے نہ جاتے تو وہ درخت کی شاخ اُن کی موت کا بھی باعث بن سکتی تھی۔ اس بات نے اُن کے ایمان میں اضافہ کیا کہ دیکھو نماز کی وجہ سے میری جان بچ گئی۔

اسی طرح بعض نامساعد حالات میں الٰہی حفاظت کے واقعات ہیں۔

 بینن کے جگّو ریجن کے اجتماع کا انعقاد جپینگو (Japango) جماعت میں کیا گیا جو ایک نو مبائع جماعت ہے۔ دورانِ اجتماع جگّو شہر سے کچھ مولوی اپنے کارندوں کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھیاں لے کر مسجد میں آ گئے کہ ہم احمدیوں کو مار بھگائیں گے، اُن کا اجتماع نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بالکل نئے احمدی جوشِ ایمان سے لبریز تھے۔ بالکل نئے احمدی تھے لیکن بہرحال اُن میں ایمان تھا۔ کہتے ہیں مخالفین کو دیکھ کر اپنے لوکل مشنری سے کہنے لگے کہ آپ مسجد کے اندر چلے جائیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح حملہ کرتے ہیں۔ چنانچہ وفد کی صورت میں مخالفین کو سمجھانے لگے۔ پہرہ دینے لگے جب کہ مخالفین اُن کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ آخر لوکل مشنری صاحب ہی آگے بڑھے کہ بتاؤ کہ کس آواز اور پیغام کو تم روکنا چاہتے ہو۔ افریقنوں میں کم از کم یہ عقل اور شعور ہے جو آپ کو آجکل کے پاکستانی مُلّاں میں نظر نہیں آئے گا۔ کہتے ہیں کہ تم ہمیںکس بات سے روک رہے ہو ۔ اس وقت کا جو امام ہے وہ پیغام دیتا ہے کہ توحید الٰہی پر قائم ہو جاؤ اور اکٹھے ہو کر اسلام کا جھنڈا اور آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور جھنڈا بلند کرو۔ کیا تم اس آواز کو روک دینا چاہتے ہو جو قرآنِ کریم کی تصدیق کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شاہد ہے اور عین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آیا ہے۔ معلم صاحب کی گفتگو کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا اثر ہوا ۔ اور ایک ایک کر کے اُن میں سے لوگ جانے شروع ہو گئے اور مولوی صرف اکیلے ہی رہ گئے۔

            امیر صاحب ٹوگو بیان کرتے ہیں کہ متیجہ احمد صاحب (Motidja Ahmad) نومبائع ہیں۔ یہ آماتو (Amato) کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے جماعت احمدیہ آماتو کے جلسہ نومبائع کے دوران گواہی دی کہ وہ بیس سال سے مسلمان ہیں اور اب تک اُنہیں نہ تو صحیح نماز پڑھنی آتی ہے اور نہ ہی اسلام کے بارے میں کچھ معلوم تھا۔ کیونکہ مولوی کو صرف پیسے سے پیار ہوتا ہے۔تعلیم دینے اور شادی بیاہ عقیقہ وغیرہ کے موقع پر پیسے کا لالچ ہوتا ہے حتی کہ جنازہ پڑھانے کی بھی فِیس ہے۔ اس کے بغیر مولوی جنازہ نہیں پڑھاتے۔ لیکن خدا کے فضل سے دو سال پہلے جب سے احمدی ہوا ہوں احمدی معلم اور مبلغین نے جس رنگ سے تربیت کی ہے، اُس کی وجہ سے اب مجھے اسلام کے بارے میں بہت سی معلومات ملی ہیں اور اب میں ایک داعی الی اللہ کے طور پر کام کرتا ہوں۔ خدا کے فضل سے پنجوقتہ نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی ادا کرتا ہوں۔ اور جو بیس (20) سال مَیں نے احمدیت کے بغیر گزارے اُس پر خدا کے حضور معافی مانگتا ہوں۔

            پھر لائبیریا کے مبلغ ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ چھ ماہ قبل ہم نے ایک ایسے گاؤں میں تبلیغ کا پروگرام بنایا جو ایک مشکل جگہ پر واقع ہے اور کوئی گاڑی وہاں پر پہنچ نہیں سکتی۔ تقریباً پانچ چھ کلو میٹر پیدل چلنا پڑا۔ راستے میں ایک دریا پڑتا ہے جس کو عبور کرنے کے لئے چند لکڑیاں آپس میں باندھ کر مقامی ساخت کا ایک پل بنایا گیا۔ نئے آدمی کے لئے اس پر سے گزرنا بھی کافی مشکل کام ہے۔ دریا عبور کر کے جب ہم اس گاؤں میں پہنچے تو سب سے پہلے امام سے ملے اور اس کو درخواست کی کہ ہم آپ لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں اور احمدیت کا پیغام سنانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اُس نے سارے لوگوں کو جمع کیا۔ خاکسار نے ایک لمبی تقریر کے بعد اُن کو احمدیت میں شمولیت کی دعوت دی۔ انہوں نے سوال کیا کہ ہم پہلے بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور احمدی بھی مسلمان ہیں تو شمولیت سے کیا فرق پڑے گا۔ کہتے ہیں مَیں نے اُن کو اُن کی سمجھ کے مطابق بتایا۔ وہ اتنے پڑھے لکھے لوگ تو نہیں تھے لیکن وہاں افریقہ میں فٹ بال کا بڑا شوق ہے۔ تو انہوں نے ان کو اسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ فٹ بال کے کھلاڑی ہیں اور آپ کو کوئی اچھا فٹ بال کلب شمولیت کی دعوت دے تو آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ مَیں تو پہلے ہی فٹ بال کا کھلاڑی ہوں۔ مَیں کیوں آپ کے کلب میں شامل ہوں۔ آپ اکیلے کھلاڑی کچھ نہیں کر سکتے، کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے جب تک کسی اچھی ٹیم میں شمولیت اختیار نہ کریں۔ اس وقت احمدیت اسلامی میدان میں بہترین ٹیم ہے اور زمانے کا امام اس کو لے کر چل رہاہے۔ اس مثال سے وہ بہت محظوظ ہوئے اور سب نے امام سمیت جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ کہتے ہیں خاکسار نے اس وجہ سے کہ نئے احمدی ہیں اگر چندہ کا کہا تو ان میں کہیں دُوری نہ پیدا ہو جائے یا یہ نہ کہیں کہ صرف پیسے کے لئے آیا ہے تو مَیں نے چندہ کا وہاں ذکر نہیں کیا ۔ کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد وہ امام صاحب سارے گاؤں کا چندہ لے کر خود مربی صاحب کے پاس شہر میں آ گئے کہ جب وہ احمدی نہ تھے اُس وقت بھی شہر کی دوسری مسجد میں جا کر چندہ دیتے تھے۔ اور اب جبکہ ہم نے احمدیت قبول کر لی ہے تو چندہ ہم یہاں ادا کیا کریں گے۔ تب سے وہ ہر ماہ بغیر توجہ دلائے باقاعدہ چندہ لاتے ہیں اور واپس جاکر ان کو رسیدیں بانٹتے ہیں۔ اب یہ اگست کا چندہ لے کر آئے ہیں اور انہوں نے کہا کہ آپ موسمِ برسات میں بالکل وہاں آنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ راستے میں بہت پانی ہے اور مَیں چندہ دینے کے لئے اپنے کپڑے اتار کر پانی سے گزر کر آیا ہوں۔ تو یہ لوگ اتنی محنت اور تردّد کرتے ہیں۔

            پھر محمود احمد صاحب مبلغ سلسلہ نائیجیریا لکھتے ہیں کہ ہم ایک نئی جماعت گوئی (Goye) میں ایم ٹی اے کے لئے ڈش لگانے گئے۔ جب ہم ڈش لگا چکے تو اُس وقت ایم ٹی اے پر جلسہ سالانہ کینیڈا کی کارروائی جاری تھی اور مجھے لکھتے ہیں کہ آپ وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس گاؤں میں یہ ٹی وی کے اوپر پہلا پروگرام تھا جو آ رہا تھا، جس میں میری موجودگی میں وہاں کینیڈا کا جلسہ ہو رہا ہے۔ نومبائعین نے ایم ٹی اے پر اُسے دیکھا۔ جب سارے گاؤں کے نو مبائع ایم ٹی اے دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تو اس گاؤں کے چیف الحاجی موسیٰ ابوبکر نے میری طرف اشارہ کیاکہ یہ شخص، یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اور اللہ کے فضل سے اُس نے کہا کہ ہمیں خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے سچے امام کو مانا ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکتیں ہیں جن کا  اللہ تعالیٰ اظہار کرواتا ہے۔

             اکبر احمد صاحب امیر جماعت نائیجر لکھتے ہیں کہ نائیجر کے برنی کونی شہر سے گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر راڈاڈأُوَا (Radadaoua) ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے باسیوں نے علاقے میں سب سے پہلے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ وھابی مولوی اس گاؤں پہنچے اور احبابِ جماعت سے کہا کہ احمدی تو مسلمان ہی نہیں ہیں۔ ان کا تو قرآن بھی اَور ہے۔یہ مولوی ایک گروپ کی شکل میں وہاں پہنچے۔ بڑے بڑے جُبّہ پہنے ہوئے تھے۔ عربی بول کر اور قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر سادہ لوح احباب کو بہکانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ سادہ لوح احباب جن کو بیعت کئے سات آٹھ سال ہو گئے ہیں۔ جماعتی پروگراموں میں باقاعدہ شامل ہوتے ہیں۔ چندہ دیتے ہیں۔ اُن کے بچے وغیرہ نماز سیکھ چکے ہیں۔ وہ ان مولویوں کی باتیں سن کر پریشان ہوئے کہ وہ کیا کریں۔ بہرحال دل میں خیال پیدا ہوا کہ پھر سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔ کہتے ہیں اسی گاؤں کے رہنے والے ایک دوست عثمان صاحب نے بتایا کہ یہ سب سن کر اُن کو بہت دکھ ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے رات دعا کی کہ اے اللہ! تو خود میری رہنمائی فرما۔ اگر جماعت احمدیہ جھوٹی ہے تو خود مجھے اس سے بچا اور اگر جماعت سچی ہے تو کل مجھے پیسے ملیں۔ (یہ عجیب شرط لگائی انہوں نے)۔تو کہتے ہیں کہ عثمان صاحب کہتے ہیں کہ اگلے دن صبح میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ گھر سے کام کے لئے نکلا۔ سڑک پر جا رہا تھا کہ سڑک کے کنارے ایک کالا پلاسٹک کا لفافہ پڑا ہوا ملا جسے اُٹھا کر مَیں نے دیکھا تو وہ پیسوں سے بھرا ہوا تھا۔ اُس میں دس دس ہزار فرانک کے کئی نوٹ تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے ہاتھ میں حسبِ معمول ریڈیو بھی تھا۔( ریڈیو وہاں کے لوگوں کا رواج ہے۔ ہاتھ میں رکھتے ہیں) خاص طور پر گاؤں کے لوگ خبریں یا مختلف پروگرام بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں۔ کہتے ہیںعین اُس وقت ریڈیو پر اعلان ہو رہا تھا کہ کسی کا پیسوں سے بھرا لفافہ کہیں گر گیا ہے۔ اگر کسی کو ملے (یہ نشانیاں بتائیں) تو وہ ریڈیو اسٹیشن آ کر دے دے۔ عثمان صاحب کہتے ہیں کہ میرے دوست میرے پیچھے پڑ گئے کہ اس کو کھولو اور پیسے تقسیم کرتے ہیں۔ تو مَیں نے اُن سے کہا کہ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ میرے ربّ العزت کا جواب ہے کہ جماعت احمدیہ سچی ہے۔ کیونکہ رات مَیں نے دعا کی تھی اور خدا نے میری دعا قبول کر کے میرے ایمان کو احمدیت پر مضبوط کیا۔ یہ رقم امانت ہے اسے مَیں واپس لوٹاؤں گا۔ (پیسے تو ملے لیکن یہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دیئے کہ اب ایمان داری کا بھی آگے امتحان شروع ہوتا ہے)۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنا سائیکل پکڑا اور کونیؔ شہر آکر یہ رقم ریڈیو کے ڈائریکٹر کو لوٹا دی۔ ڈائریکٹر نے عثمان صاحب سے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے رُکیں۔ وہ بندہ جس کے پیسے ہیں وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ آئے جن کی رقم تھی۔ انہوں نے رقم گنی جو ایک ملین فرانک سے زائد تھی۔ اور وہ پوری تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ رقم عثمان صاحب کو بطور انعام کے دینا چاہی جسے عثمان صاحب نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرا انعام اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے۔ مجھے ان پیسوں کی ضرورت نہیں۔ اور خدا کے فضل سے اس واقعہ کے بعد اس گاؤں کے جو احباب جماعت ہیں، ان کے ایمانوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

            محمد احمد راشد صاحب مبلغ جرمنی لکھتے ہیں کہ ایک جرمن سائمن گلہر (Simon Geelhaar) نامی نوجوان نے بیعت کی۔ یہ اس سے قبل بھی مسلمان تھے۔  ان کی جب خاکسار سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ مَیں نے جب اسلام قبول کیا تو میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ سارے مسلمان ملتِ واحدہ ہیں لیکن بعد میں مجھے علم ہوا کہ یہاں تو بہت سارے فرقے ہیں۔ اب مجھے کیسے پتہ چلے کہ کون حق پر ہے؟ کہتے ہیں کہ اس پر مَیں نے عرض کیا کہ اگر آپ صدقِ دل سے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی رہنمائی کرے گا۔ انہوں نے دو تین دن ہی دعا کی تھی کہ ان کو دو مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اُن کو نہیںآتا تھا۔ اس زیارت کے دوران یہ نام بآسانی زبان پر آنا شروع ہو گیا۔ نیز اس زیارت کے نتیجے میں اُن کے دل میں ایک نور پیدا ہوا اور اُن کو ایک طمانیت ملی کہ احمدیت ہی سچا اسلام ہے۔ یہ دوست گزشتہ عید کے روز خاکسار کے پاس آئے اور نماز عید ادا کی۔ اپنی خواب میں دو مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور اللہ کے فضل سے بیعت کی۔

            فضل مجوکہ صاحب پرتگال سے لکھتے ہیں کہ پرتگال میں مقیم مراکش کے ایک دوست أزنین رضوان صاحب نے خاکسار سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ مشن میں آنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اُنہیں مشن کا ایڈریس دیا گیا اور وہ مشن تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سال سے ایم ٹی اے العربیہ دیکھ رہے ہیں اور وہ سو فیصد مطمئن ہیں اور بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اُنہیں بیعت فارم دیا گیا جس کو انہوں نے پڑھا اور پُر کر دیا۔ أزنین رضوان صاحب نے احمدیت کی طرف راغب ہونے کے متعلق دو خواب بتائے۔ کہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک سال قبل جب ایم ٹی اے العربیہ پر   اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر کا پروگرام دیکھ رہا تھا اور پروگرام کے آخر میں پڑھے جانے والے اقتباس کے متعلق بتایا گیا کہ  یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے تو تب اُنہیں پتہ چلا کہ امام مہدی علیہ السلام آ چکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے جستجو کی اور باقاعدگی سے دلچسپی سے یہ پروگرام دیکھنے لگ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ دشمن مسلمانوں کے بہت قریب پہنچ گیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرما رہے ہیں کہ اِنْھَضُوْا لِلْجِھَادِ، اِنْھَضُوْا لِلْجِھَادِ۔ کہ جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہو، جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہو۔ کہتے ہیں کہ جب مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتا ہوں تو مَیں خواب میں فوراً اُٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ مَیں ضرور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کروں گا۔ اس کے بعد مَیں بیدار ہو گیا اور میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس کی تعبیر ڈالی کہ مَیں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کر کے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کر سکتا ہوں۔ دوسرے خواب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان پر بادل کے دو بڑے ٹکڑے ہیں۔ اُن میں سے ایک ٹکڑا سفید رنگ کا ہے اور دوسرا سیاہ رنگ کا۔ سیاہ رنگ کے بادل کے بڑے ٹکڑے کے پیچھے سیاہ رنگ کا ایک چھوٹا ٹکڑا بھی ہے، سفید بادل کا ٹکڑا اور سیاہ بادل کا بڑا ٹکڑا ایک دوسرے کے مدّمقابل ہیں۔ پھر سفید رنگ کا بادل، سیارہ رنگ کے بادل سے ٹکراتا ہے اور سیاہ رنگ کا بادل ریزہ ریزہ ہو کر غائب ہو جاتا ہے۔ پھر سفید بادل بڑے ٹکڑے کو شکست دینے کے بعد سیاہ بادل کے چھوٹے ٹکڑے کی طرف بڑھتا ہے تو سفید بادل جس میں لوگ سوار ہیں، آواز آتی ہے کہ اس سے نہیں ٹکرانا، یہ رضوان ہے اور یہ ہم میں شامل ہو جائے گا۔أزنین رضوان صاحب نے بتایا کہ خواب کے بعد میرے دل میں شدید تڑپ پیدا ہو گئی کہ میں جلد از جلد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو جاؤں۔

            علا حسین صاحب عراق کے رہنے والے ہیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ جب سے مَیں نے بیعت کی ہے، مجھے ہر طرح کے امن و سلامتی اور سکون کا احساس ہو رہا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایمان و ایقان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ احساس ہوتا ہے کہ نہ صرف خدا تعالیٰ نے میرے گناہ بخش دئیے ہیں بلکہ اپنی محبت اور قرب میں بڑھایا ہے اور اب مَیں خدا تعالیٰ کی معیت میں ہوں اور میرے تمام اعضاء میں خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت محسوس ہوتی ہے اور دین اسلام کی صداقت خوب کھل گئی ہے۔ پھر یہ مجھے لکھ رہے ہیں کہ آج سے دو سال قبل مَیں نے رمضان کے آخری عشرے کے دوران خواب میں آسمان اور زمین کے درمیان پگڑی والے ایک شخص کو دیکھا تھا جس کی پگڑی کے اوپر سفید رنگ کے پَر کے مشابہ کوئی چیز ہے۔ اس شخص کا بڑا رعب ہے اور وہ فی البدیہہ طور پر اونچی آواز میں شعر یا نظم پڑھ رہا ہے جو میں سن رہا ہوں اور اپنے آپ میں ایسی گرمجوشی، تسلی اور امن محسوس کرتا ہوں جس کا بیان ناممکن ہے۔ میں اپنے دل سے اس کے اشعار سن رہا ہوں، نہ ظاہری کانوں سے۔ اس شخص کے الفاظ اور عبارتیںکان میں ایسی پڑ رہی تھیں جیسے ٹھنڈا پاکیزہ پانی ہوتا ہے اور جو کلام میں اس بزرگ امام سے سنتا ہوں اس جیسا کلام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا ہو گا۔ ایسے لگتا ہے جیسے میں اُسے پیتا جا رہا ہوں۔ درحقیقت میرا دل سن اور دیکھ رہا ہوتا ہے اور سیراب ہوتا ہے حتی کہ میری آنکھیں آنسوؤں سے امڈ آتی ہیں اور وہ الفاظ میرے نفس، روح، عقل اور دل پر گہرا اثر کرتے ہیں اور میرے جسم کے ہر ذرے میں رچ بس جاتے ہیں۔ جب مَیں بیدار ہوتا ہوں تو اُنہیں یاد کر کے لکھنا چاہتا ہوں، جو یہ الفاظ تھے۔

آثَرْتُ الجَمَالَ عَلَی الْجِمَال       اَنْتَ رُوْحِیْ وَرَاحَتِیْ             تَعَالَ حَبِیْبِیْ

یہ اس پیارے شخص کے لمبے قصیدے سے چند جملے مجھے یاد رہے۔ مجھے خیال گزرا کہ شاید وہ بزرگ حضرت علیؓ ہیں۔ پھر خیال آیا کہ جو پگڑی اس بزرگ نے پہنی ہوئی تھی وہ غیر معروف تھی اور پگڑی کے اوپر والا طرّہ غیر معروف تھا۔ یعنی اس کی گردن دائیں طرف کو جھکی ہوئی تھی اور اُن کے الفاظ بہت خوبصورت اور اس طرح محبت سے معمور تھے کہ میں کبھی اُن کو بھلا نہیں سکتا۔ بہرحال اس خواب کے قریباً ایک ہفتے کے بعد میں ایک دن ٹی وی پر مختلف چینل تلاش کر رہا تھا کہ اچانک آٹو میٹک سرچ پر لگا کر نئے چینل کی تلاش کی تو اچانک مجھے ٹی وی سے آواز آئی کہ

  لَقَدْ اُرْسِلْتُ مِنْ رَّبٍّ کَرِیْمٍ

 رَحِیْمٍ عِنْدَ طُوْفَانِ الضَّلَال

 (یعنی میں رب کریم و رحیم کی طرف سے ضلالت کے اس طوفان کے زمانے میں بھیجا گیا ہوں)۔ اس پر مجھے بڑا جھٹکا لگا اور مَیں جلدی سے ٹی وی کی طرف لپکا اور ایک چینل پر ایک شخص کی تصویر دیکھی جس کے نیچے لکھا تھا  اَلْاِمَا مُ الْمَہْدِیْ وَالْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْد اور مندرجہ بالا الفاظ پڑھے جا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مَیں اپنے جذبات پر کنٹرول کھو بیٹھا اور اونچی آواز سے رونے لگا۔ خدا کی قَسم! میں ہفتہ بھر روتا رہا اور جب بھی وہ تصویر ٹی وی پر آتی یا وہ اشعار سنتا تو اپنے گزشتہ گناہوں کی وجہ سے سر پیٹنے لگتا۔ اب دن رات میرا شغل ایم ٹی اے کا دیکھنا ہو گیا جیسے کسی کو فائنل میچ کا انتظار ہوتا ہے۔ اور رونے کے آثار میرے منہ پر واضح ہوتے۔ حتی کہ بعض لوگ مجھ سے پوچھنے لگتے کہ کیا تم رو کر آئے ہو؟ انہوں نے مجھے لکھا کہ کئی دفعہ خواب میں مَیں نے آپ کوبھی دیکھا۔ تو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر اُس کو نظر آئی۔

 تو یہ چند واقعات جو مَیں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ یہ جہاں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہونے پر یقین کامل پیدا کرتے ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تسبیح، تحمید اور استغفار کی طرف بھی زیادہ سے زیادہ توجہ پھیرنے والے ہونے چاہئیں۔ یہ سن کر صرف الحمد للہ اور ماشاء اللہ پڑھنا کافی نہیں ہو گا۔ یا صرف عارضی طور پر محظوظ ہونا ہی کافی نہیں ہو گا۔ جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اُس کی تسبیح کرتے ہوئے، اُس کی حمد کرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے جذب کرنے والے ہوں اور ایمان میں ترقی کرنے والے ہوں، وہاں ان نئے آنے والوں کے لئے نمونہ قائم کرنے والے بھی بنیں۔ جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے بیشک بہت سے ایسے ہیںجن کی رہنمائی اللہ تعالیٰ نے فرمائی اور اُن کے ایمانوں کو مضبوطی بخشی لیکن لاکھوں آنے والوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیںجو علمی دلیلوں اور زمانے کے حالات دیکھ کر ایک مصلح کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے احمدی ہوئے ہیں یا احمدیت میں شامل ہوئے ہیں۔ انہوںنے ہمارے نمونے بھی دیکھنے ہیں جو پہلے احمدی ہیں۔

پس آپ جو انصار اللہ کہلاتے ہیں حقیقی رنگ میں اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انصاراللہ بنیں اور بننے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر اُس کی حمد کرتے ہوئے مزید شکر گزار بنیں۔ استغفار کرتے ہوئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں اور نئے آنے والوں کے لئے اور اسی طرح اپنے لئے بھی مضبوطی ایمان اور ہر قسم کے شرور سے بچنے کی دعا کریں۔ اور یہاں مَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ انصار کی عمر کو پہنچ کر عاقبت کی زیادہ فکر ہونی چاہئے لیکن افسوس ہے کہ بعض ایسے بھی ہیں جو بجائے اس فکر کے معاشرے میں بے سکونی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اُن کے گھروں میں بھی بے سکونیاں ہیں اور گھروں سے باہر معاشرے میں بھی جھگڑوں کی وجہ سے بے سکونیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ پس اس طرف بھی ایسے لوگوں کو توجہ دینی چاہئے۔ جب بچے جوان ہو جائیں یا جوانی کی عمر میں قدم رکھ رہے ہوں تو اُن کے لئے ہمیں، انصار کی عمر کو پہنچے ہوئے لوگوں کو تو نمونہ بننا چاہئے۔ اُن کے لئے بھی استغفار کرنی چاہئے تا کہ مسیح موعودؑ کی قبولیت کا انعام جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھروں میں آیا ہے اُس کا فیض اگلی نسلوں میں بھی جاری رہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کرلیں

اپنا تبصرہ بھیجیں