خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ بنگلہ دیش 10فروری2013ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

بنگلہ دیش کے احمدیوں کو مبارک ہو کہ آج اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بنگلہ دیش میں احمدیت کی دوسری صدی میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ احمدیت کا یہ پودا جو گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی لگ گیا تھا لیکن یہ احمدی جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا، ان کے دو مختلف جگہوں پر ہونے کی وجہ سے باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ لیکن چونکہ مشرقی بنگال میں، بنگلہ دیش میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں احمدیت پہنچ چکی تھی اور وہاں کے دو بزرگوں حضرت مولوی احمد کبیر نور محمد صاحب اور حضرت مولوی رئیس الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت بھی کر لی تھی ۔ اس لئے یہ دو بزرگ بہر حال بنگلہ دیش میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اور یقینا ان دو بزرگوں کی کوششوں اور دعاؤں ہی کی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ وہاں جماعت بننی شروع ہوئی اور خلافتِ اُولیٰ میں یہ تعداد پانچ صد سے اوپر ہو گئی۔ 1913ء میں مولانا عبدالواحد صاحب نے برہمن بڑیہ میں مسجد تعمیر کروائی اور باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا، باقاعدہ نظامِ جماعت قائم ہوا۔

               پس بنگلہ دیش کے ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو نظامِ جماعت کے قیام کے لحاظ سے آپ دوسری صدی میں داخل ہو رہے ہیں لیکن اُس علاقے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچنے اور وہاں کے دو بزرگوں کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دستی بیعت کرنے کے لحاظ سے یہ صدی چند سال پہلے شروع ہو چکی ہے۔ بہرحال تاریخی حقائق کی یہ وضاحت میں ضروری سمجھتا تھا تا کہ آئندہ نسلیں اُن بزرگوں کو بھی یاد رکھیں جنہوں نے آپ پر یہ احسان کیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا وہ دو مرد اور ایک عورت تھی جس نے دس سال کے عرصہ میں اپنی تعداد تقریباًپانچ صد کر لی۔ 1913ء میں یہ تعداد پانچ صد تھی۔ یعنی ان تین افراد میں سے ہر ایک نے ہر سال تقریباً 17 افراد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی جماعت میں شامل کیا۔ اگر یہی معیارِ تقویٰ اور یہی کوشش صرف پانچ صد افراد میں قائم رہتی تو اب تک یہ تعداد لاکھوں میں ہونی چاہئے تھی۔ لیکن آپ اس وقت صرف ہزاروں میں ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج مخالفین بڑھ بڑھ کر آپ پر حملے کر رہے ہیں۔

                پس یہ صد سالہ تقریب ہمیں صرف خوشیاں منانے کی طرف توجہ دلانے کے لئے نہیں ہونی چاہئے بلکہ یہ توجہ دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہم نے گزشتہ سو سال میں کیا حاصل کیا؟ گزشتہ سو سال میں کئی سال ایسے حالات آئے اور گزشتہ چند سال سے بھی بعض علاقوں میں ایسے حالات ہیں جب اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا تھا۔ یہ مَیں کوئی ہوائی باتیں نہیں کر رہا۔ بلکہ آپ لوگوں کی رپورٹس میں ان باتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ پس اب بھی وقت ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم نے گزشتہ سو سال میں کیا حاصل کیا ہے؟ اور آئندہ کے لئے کیا پروگرام بنانا ہے؟ اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے وسیع سوچ کے ساتھ کچھ ہدف مقرر کرنے ہوں گے۔ ہمارے مقاصد تو وہ ہیں جن کی دنیا کو آج ضرورت ہے اور دنیا اُس کے لئے بے چین اور اس کی تلاش میں ہے۔  اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے آئے ہوئے کا دست و بازو بن کر اسلام کے خوبصورت پیغام اور اس کی خوبصورت تعلیم کو اس کی خوبصورتی دکھاتے ہوئے دنیا کے کونے کونے اور ہر انسان تک پہنچانا۔ آج اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کو نام نہاد علماء اور دہشت گرد گروہوں نے بگاڑنے کی کوشش کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کو دنیا میں بدنام کیا ہوا ہے اُسے اس کی حقیقی خوبصورتی کے ساتھ دنیا میں پیش کرنا۔معصوم عوام الناس کو علماء نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے جن غلط راستوں پر ڈال دیا ہے، ان غلط راستوں سے عوام الناس کو بچانا۔ ہمارے آقا و مولیٰ جو دنیا کے لئے رحمت للعالمین بن کر آئے تھے، جن کی رحمت کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں تھی، کیونکہ وہی اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمان کے اصلی پَرتَو تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمتوں کی وسعتوں سے دنیا کو روشناس کروانا اور نہ صرف روشناس کروانا بلکہ ایک درد کے ساتھ اس رحمت کے سائے تلے دنیا کو لانے کی کوشش کرنا۔ وہ رحمت للعالمین جو اپنوں پرایوں، دوستوں، دشمنوں، انسان اور چرند پرند ہر ایک کے لئے رحمت تھا۔ اُس پر لگائے گئے دشمنانِ اسلام کے الزامات کو باطل ثابت کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا پر ثابت کرنا اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا دنیا سے اقرار کروانا۔ یہ ہمارے مقاصد ہیں اور یہ ہمارے کام ہیں۔

               پس یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے جو آج جماعت احمدیہ کے سپرد ہے۔ یہ کوئی معمولی مقصد نہیں ہے جو بغیر کسی محنت اور قربانی کے حاصل ہو جائے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے نفس کی قربانی بھی دینی پڑے گی۔ مال کی قربانی بھی دینی پڑے گی۔ جان کی قربانی بھی دینی پڑے گی۔

               بنگلہ دیش کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ جماعت ہے جس میں ان تمام قسم کی قربانیوں کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ مقصد اتنا بڑا ہے کہ اس کے حصول کے لئے بہت بڑا ٹارگٹ مقرر کرنا ہو گا۔ ان قربانیوں کے نمونوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو گا۔ بلکہ ہر احمدی کو یہ نمونے قائم کرنے ہوں گے۔ تب جا کر ہم اس مقصد کو یا ان مقاصد کے حصول کے لئے مقرر کردہ ٹارگٹ کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن دنیا کی اکثریت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ساتھ تعلق جوڑے گی۔کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بہت سے وعدے جماعت احمدیہ کی 125 سالہ تاریخ میں پورے کئے ہیں۔ ان وعدوں کو پورا کرنا دکھا رہا ہے اور دکھاتا چلا جا رہا ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس شک میں رہیں کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی۔المجادلہ:22)۔ خدا نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرا رسول غالب آئیں گے کا وعدہ پورا نہ ہو۔ یہ وعدہ یقینا پورا ہو گا۔ ہاں اگر فکر ہو سکتی ہے تو یہ کہ ہماری شامتِ اعمال اس وعدہ کے ہماری زندگیوں میں پورا ہونے میں روک نہ بن جائے۔ پس ہر احمدی کو اس بارے میں ایک فکر کے ساتھ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش کو اور دنیا کو اگر امن کا گہوارہ بنانا ہے، نام نہاد علماء جو مذہب کے نام پر خون کر رہے ہیں اُن سے اگر اپنے ملک کو بچانا ہے تو ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر محنت اور قربانی کرنی پڑے گی۔ اپنے ملک کے ہر فرد کو بتانا ہو گا کہ یہ اسلام نہیں بلکہ دہشتگردی ہے جس کا اظہار آج یہ نام نہاد علماء معصوم عوام کو اپنے ساتھ ملا کر کر رہے ہیں۔ یہ کون سا اسلام کا حکم ہے کہ امن پسند شہریوں کی تقریب کو فتنہ و فساد کر کے برباد کیا جائے۔ جلسہ گاہ کو، اُن کے سامان کو آگ لگا کر جلا کر خاک کر دیا جائے یا لوٹ مار کی جائے۔ افسوس تو حکومت کے کارندوں پر بھی ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوتا دیکھا۔ ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ بہر حال ہمارا مولیٰ، ہمارا مددگار تو اللہ تعالیٰ ہے۔ ان سب ظلموں کے باوجود نہ ہی احمدیوں کے حوصلے پست ہیں اور نہ ہی وہ ان مُلّاؤں کے آگے گھٹنے ٹیکنے والے ہیں۔ نہ ہی حکومت سے کوئی توقع رکھتے ہیں۔ ہم تو اپنے مولیٰ کے آگے جھکنے والے ہیں۔ اور جب خدا تعالیٰ مظلوموں کی مدد کے لئے آنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر دنیا کی تمام طاقتیں پارہ پارہ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ سیاسی مقاصد اور مصلحتوں کی وجہ سے ہمیںجتنا انصاف ملنا چاہئے وہ نہیں ملے گا۔ گو وہاں بنگلہ دیش میں اس وقت جہاں جلسہ ہو رہا ہے، حکومت نے سکیورٹی مہیا کی ہے( اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فرائض انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔) لیکن جو ہو چکا اُس کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ انصاف کے تمام تقاضے بھلا دئیے جائیں گے۔

               پس احمدی اگر حقیقی انصاف چاہتے ہیں تو تمام جہانوں کے مالک اور رب کے آگے جھکیں۔ ان علماء کی حرکتوں کی وجہ سے ہمارا غم صرف یہ نہیں ہے کہ ہم پر ظلم ہوااور ہماری جلسہ گاہ راکھ کا ڈھیر کر دی گئی۔ جلسہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تمام حرکتوں کے باوجود بھی ہوا اور ہو رہا ہے۔ ہمارا اصل غم یہ ہے کہ رحمت للعالمین کے نام پر یہ سب ظلم کیا گیا اور غیروں کے سامنے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی تو رہ نہیں سکتی۔ دنیا کو پتہ ہے کہ کیا ہوا اور اخباروں میں آ رہا ہے۔ احمدی تو دنیا میں اسلام کی امن پسند اور پیار کی تعلیم کا پرچار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ علماء اپنے عمل سے اسلام کے چہرے کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہر حال یہ انشاء اللہ تعالیٰ کبھی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

               اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے جو حکم دئیے ہیں۔(ان میں) جب اُس نے یہ حکم دیاکہ اس دشمن سے لڑنے کی اجازت ہے جو اسلام کو مٹانے کے لئے آئے ہیںتو اُس وقت اجازت دیتے ہوئے بھی یہ فرمایا کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَ نَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِِھِمْ لَقَدِیْرُ(الحج: 40) ۔ اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے، قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ اُن پر ظلم کئے گئے اور یقینا اللہ اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔  پھر فرمایا کہ  اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍ اِلَّا ٓاَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَااللّٰہُ (الحج: 40)۔  یعنی وہ لوگ جنہیں اُن کے گھروں سے ناحق نکالا گیا۔ محض اس بناء پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔  فرمایا وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ۔اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج : 41-40) اور اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دئیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی، اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقینا اللہ ضرور اُس کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت طاقتور ہے اور کامل غلبہ والا ہے۔

               پس دشمن سے جنگ کی اجازت بھی ظلم سے بچنے کے لئے دی گئی۔ ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے دی گئی۔ نہ کہ ظلم کرنے کے لئے۔ اور پھر اسلام کی تعلیم کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس جنگ کی اجازت صرف مسلمانوں کے تحفظ کے لئے نہیں دی بلکہ ہر مذہب کے ماننے والے کے تحفظ کے لئے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کرنے کی تمام تر قدرت رکھتا ہے کیونکہ وہ طاقتور اور کامل غلبہ والا خدا ہے۔ پس ہم تو اس تمام قدرتوں کے مالک، تمام طاقتوں کے مالک اور کامل غلبہ والے خدا کے آگے جھکتے ہیں۔ اور انشاء اللہ ہمیشہ جھکیں گے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات ہماری ہوں گی۔

               آج ہم بیشک تھوڑے ہیں اور تمہیں اے مخالفینِ جماعت! مخالفینِ احمدیت! ظلم کی چھوٹ ہے لیکن یہی اقلیت ایک دن اکثریت میں بدل کر اے مخالفینِ احمدیت! تمہارے ظلموں کو دنیا سے مٹائے گی۔ لیکن یہ ظلم کا مٹانا بغیر کسی ظلم کے ہو گا۔ پس احمدی ہمیشہ حوصلہ میں رہیں کہ ان نام نہاد مُلّاؤں کے گروہوں کے عمل نے نہ کبھی پہلے ہمیں اپنے مقصد سے روکا اور نہ کبھی آئندہ روک سکیں گے۔اس لئے کسی قسم کی پریشانی کی ضرورت نہیں۔ اگر مالی نقصان ہوا ہے تو یہ تو خدا تعالیٰ پورا کر دے گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں اپنے عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جس کام کی ضرورت ہے، اُس طرف توجہ کریں۔ اپنی ذمہ داریوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے لَو لگائیں اور اُس کے آستانے پر ہمیشہ جھکے رہیں۔ اپنے اندر پہلے سے بڑھ کر روحانی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر اعلیٰ اخلاقی تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کسی طبقہ کی بھی دشمنی ہمیں انصاف سے دور لے جانے والی نہ ہو۔ ہمارے اندر ایسی عملی تبدیلیاں ہوں جو کبھی ہمارے قول و فعل میں تضاد دکھانے والی نہ ہوں۔ ہم ہمیشہ خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔ اور ہر ملک میں بسنے والے احمدی کی طرح بنگلہ دیش کے احمدیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ سب سے پہلے آپ کے ہم وطنوں کا جو آپ پر حق ہے اُسے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اور یہ کوشش ایک فکر کے ساتھ ہو۔ ان کے لئے دعا کریں۔ اپنے ملک کو شدت پسندوں سے بچانے کے لئے ہر احمدی مرد اور عورت اپنا کردار ادا کرے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ معصوم عوام معصومیت یا جہالت کی وجہ سے ان علماء کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ان کو اِن علماء کے چنگل سے آزاد کرانے کا حق صرف احمدی ہی ادا کر سکتا ہے۔ پس اس حق کے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ یہی جہالت ہی تو تھی جسے دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے۔ اگر مسلمانوں میں جہالت پیدا نہ ہو گئی ہوتی تو آپ علیہ السلام کے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ جماعت احمدیہ کی یہ مخالفت تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہی ہو رہی ہے۔ آج ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیںاور الٰہی جماعتوں کی یہ مخالفتیں ہوتی ہیں۔ لیکن وہ اس وجہ سے اپنے کاموں سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ کونسی تکلیف ہے جو مخالفینِ احمدیت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ دی؟ لیکن ہر تکلیف کے بعد ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ پھر جب قدرتِ ثانیہ کا ظہور ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت کا دور شروع ہوا تو مخالفینِ احمدیت نے کیا کچھ نہیں کیا۔ احمدیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنی سر توڑ کوششیں کیں۔ خلافتِ ثانیہ میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے(اپنی مخالفت کے نتیجہ میں) احمدیت کی ترقی اور وسعت کی نئی راہیں کھول گئے اور جماعت ہندوستان سے باہر پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلنی شروع ہو گئی۔ خلافتِ ثالثہ میں قانون پاس کر کے پاکستان میں احمدیوں کو دائرہ اسلام سے قانونی ضروریات کے لئے خارج کرنے کی کوشش ہوئی تو احمدیت دنیا میں پہلے سے زیادہ پھیلنی شروع ہو گئی۔ حکومتیں قانونی مقاصد کے لئے، قانونی تقاضوں کے لئے ہمارے مسلمان ہونے پر بیشک پابندیاں لگا سکتی ہیں لیکن ہمارے دلوں سے  لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے کلمہ کو کبھی نوچ نہیں سکتیں۔بہر حال پھر خلافتِ رابعہ کا دور آیا تو پاکستان میں مزید قانونی سختیاں آمروں نے پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ہجرت سے ترقیات کے دروازے کئی گنا بڑھ کر کھل گئے۔ اُن میں سے ایک انعام جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ایم ٹی اے کے اجراء کی صورت میں ہوا اور دنیا کے بڑے حصہ میں احمدیت کا پیغام پہنچ گیا۔ اور آج اس دور میں دنیا کا شاید ہی کوئی حصہ ہو جہاں ایم ٹی اے کی نشریات نہیں پہنچ رہیں۔ بلکہ اگر ڈشوں کے سائز بڑے کر دیں تو ہر جگہ دنیا کے ہر کونے میں آوازپہنچ رہی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے اور جلسہ کے لائیو خطابات بھی اب ہمارے لئے عام بات ہو گئی ہے۔ اس وقت مجھے آپ بنگالیوں کے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے چہرے نظر آ رہے ہیں اور میں آپ کو نظر آ رہا ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے اور جلسہ کے لائیو خطابات بھی جیسا کہ مَیں نے کہا اب عام بات ہے۔ آج احمدیت دنیا کے دو سو دو (202) ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔  ایم ٹی اے پر جو بنگلہ پروگرام آتا ہے، اُس سے صرف بنگلہ دیش یا مغربی بنگال کے لوگ ہی فائدہ نہیں اُٹھاتے بلکہ دنیا کے ہر ملک کے بنگالی احمدی فائدہ اُٹھا رہے ہیں بلکہ غیر احمدی بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

               پس آج اگر بنگلہ دیش میں احمدیت کی مخالفت بڑھ رہی ہے تو اللہ تعالیٰ یہ ترقی کی طرف ایک اور چھلانگ لگانے کا انتظام فرما رہا ہے۔ پس آپ لوگ بھی ایک نئے عزم کے ساتھ اس چھلانگ کا حصہ بننے کی کوشش کریں۔  جیسا کہ مَیں نے کہا بنگلہ دیش کی حکومت شاید مصلحت کے تحت مخالفین کے خلاف کوئی بڑا قدم نہ اُٹھا سکے لیکن اتنے اخلاق ان میں بہر حال ہیں کہ یہ ہم سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح پڑھا لکھا طبقہ اور میڈیا بھی ہمارے سے ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہے۔ اور یہ لوگ ہمارے جلسہ میں شامل بھی ہو جاتے ہیں۔ پس ایک تو اس لحاظ سے ان کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے۔ دوسرے ملک سے محبت اور مخلوق سے محبت کے تقاضے پورا کرتے ہوئے انہیں آگاہ کریں کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت جماعت تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ کل یہی لوگ حکومت کے خلاف بھی کھڑے ہوں گے اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ لوگ ملک کی بقا کے لئے بھی خطرہ ہیں۔پس ہم تمہیں محبت کے جذبہ سے، حب الوطنی کے جذبہ سے کہتے ہیں کہ ان شدت پسندوں سے چھٹکارا پانے کی آج ہی ٹھوس منصوبہ بندی کر لو۔ باقی جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے تو جیسا کہ مَیں نے کہا، ہمارے لئے تو ہر مخالفت کھاد کا کام دیتی ہے۔ اور ہر مخالفت کے بعد احمدیت کی لہلہاتی فصل پہلے سے زیادہ خوبصورت رنگ میں بڑھتی ہے۔ مخالفین نے تو اپنے زعم میں ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ ہمارا جلسہ روکنے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ ہمیں مایوس کرنے کے لئے سب کچھ کیا۔ لیکن ان کو کیا پتہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اُس مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آخرین میں شمار کر کے بڑا اعزاز بخشا ہے۔ اُن برکات سے نوازا ہے جو اولین کو عطا ہوئیں۔ اُس دور میں سے گزاراہے اور گزار رہا ہے جس میں سے گزر کر اوّلین اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنے۔ دین کی خاطر جان، مال اور وقت کی قربانی صرف آج احمدی ہی دے رہے ہیں۔  اور انشاء اللہ جب تک ضرورت ہو گی، دیتے چلے جائیں گے۔ چاہے یہ قربانی بنگلہ دیش میں ہو یا دنیا کے کسی بھی خطہ اور ملک میں ہو۔

               پس اے بنگلہ دیش کے احمدیو! مخالفینِ احمدیت کی یہ مذموم کوششیں نہ تمہیں خوفزدہ کرنے والی ہوں، نہ مایوس کرنے والی۔ مخالفت کی یہ آندھیاں تمہیں اونچا اڑانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے چل رہی ہیں۔ ان سے فائدہ اُٹھا لو۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کا پہلے سے بڑھ کر عرفان حاصل کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں پہلے سے بڑھ کر فنا ہو جاؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت تمام دنیاوی رشتوں سے بڑھ کر کرو کہ تمہارا   یہ سب کچھ دنیا و آخرت سنوارنے والا بن جائے گا۔ تمہاری آج کی یہ قربانیاںبنگلہ دیش کی تاریخ کا حصہ بننے والی ہیں۔ مایوسی کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دو۔ ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرو۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آپ کو آپ کے تمام نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے۔ ملک کو نقصان پہنچانے والے مذہبی شدت پسندوں اور ملک کو نقصان پہنچانے والے دوسرے گروہوں کو ختم کرنے کے سامان پیدا فرمائے تا کہ ملک ترقی کے راستوں پر تیزی سے گامزن رہے۔ اہلِ وطن پر آپ کی وطن سے محبت اور آپ کے حقیقی مسلمان ہونے کی سچائی روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے۔ اور بنگلہ دیش میں احمدیت کی یہ دوسری صدی بے شمار کامیابیاں اور برکات لے کر آئے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ سب لوگوں کو بھی جو دُور دُور سے اپنے جلسہ کے لئے آئے ہوئے ہیں، خیریت سے اپنے گھروں کو واپس لے جائے۔ اور اپنے اپنے علاقوں میں بھی احمدیت کے مخالفین کے حملوں سے اور اُن کے نقصا نات سے محفوظ رکھے۔ سفر و حضر میں آپ کا حافظ و ناصر ہو۔ اب دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں