خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ1 اگست2013ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

ہم احمدی جو جماعت احمدیہ میں زمانے کے امام کو مان کر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو مان کر مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے بھی آئے ہیں،مختلف مذاہب سے بھی آئے ہیں، مختلف قوموں سے بھی آئے ہیں، مختلف قسم کے تمدن اور طبقات سے بھی آئے ہیں اس لئے کہ ہر قسم کی تفریق کو ختم کر کے اُس تعلیم پر جمع ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے، جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی تعلیم ہے، جو ہر قسم کی سوچ رکھنے والے اور ہر قسم کی فطرت رکھنے والے مردو عورت کے لئے تسلی کرانے والی اور رہنمائی کرنے و الی تعلیم ہے۔ یہ تعلیم اُس کتاب میں جمع ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔ پس ہم جو احمدی کہلاتے ہیں، ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم جو مختلف قوموں، مختلف مذاہب، مختلف ملّتوں اور مختلف تمدنوں سے آ کر ایک جماعت بن کر اکٹھے ہو گئے ہیں، تو ہمارا ایک خاص مقصد ہے، ہماری ذمہ داری ہے، ہمارے لئے ایک لائحہ عمل ہے اور وہ قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہے۔ اور ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت بعض شرائط کے ساتھ کی ہے۔ ان شرائط میں بھی اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ان میں سے ایک شرط کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ بیعت کرنے والا قرآنِ شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 564)

 قرآنِ کریم کی حکومت کیا ہے؟ قرآنِ کریم کی حکومت قرآنِ کریم میں بیان کردہ احکامات پر عمل کرنا اور اُن کاپابند ہونے کی حتی الوسع کوشش کرنا ہے۔ اور اپنی تحریرات میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان احکامات کی تعداد سات سو بتائی ہے۔(ماخوذ از کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26)

                اور اگر اس کی جزئیات میں جائیں تو یہ تعداد اَور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ بہر حال ہر احمدی بیعت کرتے وقت یہ عہد کرتا ہے۔ پرانے احمدی بھی وقتاً فوقتاً بیعتوں میں شامل ہو کر اپنے عہد کی تجدید کرتے رہتے ہیں اور نئے احمدی بھی یہ بیعت کرتے ہیں۔ پس یہ عہدِ بیعت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور  جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک عہد یہ بھی ہے کہ ہم قرآنِ شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے اوپر قبول کریں گے، لاگو کریں گے اور اس کی کوشش کریں گے، تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم ان احکامات کی تلاش میں بھی لگے رہیں گے اور ان کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں گے اور پھر ان پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

               یہ جو آیات اس اجلاس کے شروع میں تلاوت کی گئی ہیں۔ ان میں بھی بعض احکامات بیان کئے گئے تھے۔ ان میں سے اس وقت میں چند احکامات کی مختصر تشریح آپ کے سامنے رکھتا ہوں یا مختصراً بیان کرتا ہوں۔ ان احکامات کا بار بار اور تفصیلی تذکرہ ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا رہتا ہے۔ تلاوت کردہ آیات میں سے پہلی آیت اس طرح شروع ہوتی ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل:91) یعنی یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں عدل کا اور احسان کا اور ایتایٔ ذی القربیٰ کا حکم دیتا ہے۔ یہ تین باتیں یا تین نیکیاں ایسی ہیں کہ اگر پوری پابندی کے ساتھ ایک معاشرے میں ان کا رواج ہو جائے، ان پر عمل شروع ہو جائے تو معاشرے کے تمام فساد ختم ہو سکتے ہیں۔ چھوٹی سے لے کر بڑی تک تمام رنجشیں دُور ہو سکتی ہیں۔ اور معاشرہ ایک ایسا معاشرہ بن جائے جو اس دنیا میں ہی جنت کا عملی نمونہ ہو۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل کرو۔ عدل کہتے ہیں برابری کے سلوک کو۔ عدل کہتے ہیں انصاف کے ساتھ فیصلے کو۔ صحیح گواہی دینا بھی عدل ہے اور سچائی اور راستبازی بھی عدل ہے۔ معاملات کو صحیح طرح سرانجام دینا بھی عدل ہے۔ اس ایک لفظ میں خدا تعالیٰ نے ہر عورت اور مرد کو اُن نیکیوں کی طرف نشاندہی کر دی ہے جو اُس کی بنیادی نیکیاں ہیں جو ہر ایک کا کم از کم معیار ہونا چاہئے۔ صرف فیصلہ کرنے والے ادارے یا اتھارٹی کا کام ہی نہیں ہے کہ وہ عدل کرے بلکہ ہر انسان اپنے دائرے میں بعض فیصلے کر رہا ہوتا ہے اور عدل اور انصاف کا فیصلہ وہ ہوتا ہے جو تمام برائیوں اور اچھائیوں کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔ اگر اچھائیاں برائیوں پر حاوی ہوں تو پھر یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ میرے جذبات کیا ہیں، میرے فوائد کیا ہیں؟ پھر فیصلہ عدل سے ہو۔ اپنے مطلب نکالنے کے لئے تاویلیں اور راستے نہیں تلاش کرنے چاہئیں۔

               پھر عدل سے مراد یہ بھی ہے کہ دیکھا جائے کہ ایک فیصلے کا، بات کا اثر معاشرے کا چین قائم کرے گا، سکون قائم کرے گا یا معاشرے میں بے چینی پیدا کرے گا۔ اس بارے میں مثال کے طور پر عورتوں اور مَردوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کی طرف مَیں توجہ دلاتا ہوں۔ شادی بیاہ مرد عورت کا ایک ایسا رشتہ ہے جس میں کسی ایک فریق کی طرف سے زیادتی اور انصاف سے کام نہ لینا نہ صرف اس رشتہ کے قائم رکھنے میں مسائل پیدا کرتا ہے بلکہ اگر اولاد ہے تو اولاد کے مستقبل اور زندگی پر بھی اس کے اثرات مترتب ہوتے ہیں، منفی اثرات پڑتے ہیں۔ عدل و انصاف کو سامنے نہ رکھتے ہوئے ایک فیصلہ گھرانوں اور اپنی زندگیوں بلکہ اگلی نسل کی زندگیوں کو بھی برباد کر رہا ہوتا ہے۔ گو اس عدل کے قائم نہ رکھنے کی بھی کئی وجوہات ہیں ، بعض جائز بھی ہیں، بعض ناجائز بھی ہیں لیکن بڑی وجوہات جو ہیں، جو میں نے دیکھی ہیں، اُن میں اَنانیت اور خود غرضی ہے۔ اکثر معاملات جو سامنے آتے ہیں اُن میں گھروں میں بد امنی اور گھروں کے ٹوٹنے کی وجہ مرد یا عورت کی اَنانیت اور خود غرضی ہوتی ہے۔ان جیسے لوگ اپنے ہی بچوں کے مستقبل کو اپنی ذاتی اغراض کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ یہ بچوں پر بھی ظلم ہے اور یہ عدل کے منافی ہے۔ اگر مرد اور عورت انصاف سے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہوں تو ایسی صورتحال کبھی پیدا نہ ہو جس سے اگلی نسلیں متاثر ہوں۔ اگر سچائی پر میاں بیوی کے رشتے قائم ہوں تو اعتماد قائم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپس کے تعلقات میں خاص طور پر قولِ سدید کا حکم دیا ہے۔ تو یہ بھی اس لئے کہ ایک دوسرے کے حق اس کے بغیر ادا نہیں ہو سکتے اگر سچائی نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ انصاف کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس لفظ عدل کی وسعت تو ہر میدان میں اور ہر موقع پر اپنا حسن دکھاتی ہے۔ یہاں مَیں نے صرف عائلی مسائل کے بڑھتے ہوئے معاملات کی وجہ سے یہ پہلو بیان کیا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ معاشرے کے حُسن کی بنیاد اُس وقت مضبوط ہوتی ہے جب ہر جگہ ہر موقع پر، ہر لحاظ سے عدل سے کام لیا جائے۔ یعنی انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ آپس کے معاملات میں بھی اور گواہیوں میں بھی اور فیصلہ کرتے وقت بھی۔ سچائی کا اظہار ہر موقع پر ہو۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنے خلاف اور اپنے ماں باپ کے خلاف اور اپنے قریبیوں کے خلاف بھی اگر گواہی دینی پڑے تو سچی گواہی دے۔ پھر اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کرنا بھی عدل ہے اور ایک عورت کی ذمہ داری اُس کے گھر کی ذمہ داری ہے۔ یہ سب سے پہلی ذمہ داری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کی نگرانی عورت کے سپرد فرمائی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الجمعۃ فی القری و المدن حدیث نمبر 893)

 اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں عورتوں کی اکثریت اس ذمہ داری کو نبھانے والی ہے اور نبھانے کی خواہش رکھتی ہے۔ لیکن ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو آجکل زمانے کے رسم و رواج کے پیچھے چل کر اپنی ذمہ داری کو بھول گیا ہے۔ عورتوں میں یہاں یورپ میں یا اس ملک میں ایک me time کی نئی رسم اور ٹرم رواج پا گئی ہے کہ اپنا وقت لینا ہے اور اپنی مرضی سے، اپنی آزادی سے پھرنا ہے۔ یہ انتہائی غلط سوچ ہے۔ میں نے کل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات پڑھے تھے، اُن میں بھی آپ نے یہی فرمایا تھا کہ اصل ایمان یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کو ہر چیز پر مقدم کرو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 602۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               پس ہمیں ہمیشہ سوچنا چاہئے کہ ہماری سوچیں، ایک احمدی کی سوچ چاہے وہ نوجوان لڑکی ہے، شادی شدہ نئی نوجوان لڑکی ہے، چھوٹے بچوں کی والدہ ہے یا بڑے بچوں کی ماں ہے،  عورت ہے بوڑھی ہے، ہر ایک کا یہ کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھے، اور سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے جو احکامات ہیں اُن کو تلاش کرے اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح جب مَردوں کی طرف سے ذمہ داریاں ادا نہ کی جا رہی ہوں، جب بچوں کے سامنے خاوند اپنی بیویوں سے انصاف نہ کر رہے ہوں اور بچے ہوش کی عمر میں پہنچ رہے ہوں، بچوں کا باہر ایکسپوژر (exposure)بھی ہو رہا ہو تو پھر اکثر معاملات میں خاوندوں کی وجہ سے بچے برباد ہو رہے ہوتے ہیں۔ گویا مرد اور عورت دونوں اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو انصاف سے ادا کریں۔  گو میں نے یہ مضمون عورتوں کو سمجھانے کے لئے شروع کیا تھا لیکن میری طرف سے یہ بھی عدل کے خلاف ہو گا اگر مَیں اِس وقت مَردوں کو بھی توجہ نہ دلاؤں جبکہ وہ لوگ براہِ راست میری آواز سن بھی رہے ہیں۔ اُن کو بھی مَیں کہتا ہوں کہ وہ اپنی نسلوں کو بچانے کی کوشش کریں۔ بیویوں کے بھی حق ادا کریں اور بچوں کے بھی حق ادا کریں۔ اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ حق ادا ہوتے ہیں پیار سے، محبت سے اور اعتماد کی فضا قائم کرتے ہوئے۔ پس اس کو قائم کرنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔

               اللہ تعالیٰ جس نے مخلوق کو پیدا کیا، اُس کے احکام بھی عین انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔ جب حکم دیا کہ عدل کرو تو ایسا لفظ استعمال کیا جو ہر جگہ پر معاشرے کے کم از کم معیار پر حاوی ہو جاتا ہے۔ پھر اُس کے بعد فرمایا کہ ایسی نیکیوں میں تمہارے معیار بھی بڑھنے چاہئیں۔ اس لئے جس نیکی کی طرف توجہ دلائی تا کہ ہر سطح پر محبت اور پیار اور امن کی فضاقائم ہو تو فرمایا کہ احسان کرو۔ عدل کو قائم کرنے کے لئے بعض دفعہ سخت قدم بھی اُٹھانا پڑ جاتا ہے اور عدل کے معنی میں یہ چیز شامل ہے کہ حق قائم کرنے کے لئے اگر سخت فیصلہ بھی کرنا پڑے تو کیا جائے، لیکن یہ فیصلہ کرنے کا اختیار خود فریقین کو نہیں ہے بلکہ تیسرے شخص یا ادارے کو ہے۔ یہ سن کے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمیں فیصلہ کرنے کا بھی اختیار ہے، ورنہ جو مثالیں میں نے دیں ہیںیا جو مثال میں نے دی ہے، اس میں خاوند خود ہی قاضی بھی بن جائے گا اور مزید ظلم شروع ہو جائیں گے، یا بیوی خود ہی مظلوم بن کر خود ہی اپنے فیصلے کرنے لگ جائے گی۔ اس لئے ایسے معاملات جہاں علیحدگیاں بھی ہونی ہوں، خلع کے معاملات بھی ہوں، اُس وقت بھی بڑے سوچ سمجھ کر اور دعاؤں کے بعد یہ فیصلے کرنے چاہئیں۔

               بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگلا قدم یہ ہے کہ احسان کرو۔ احسان یہ ہے کہ برائی کا بدلہ بھی اچھائی سے دینا ہے۔ عفو، درگزر اور صَرفِ نظر سے کام لینا ہے۔ خود کوشش کرکے مدد کے اور اچھائی کرنے کے راستے تلاش کرنے ہیں۔ اگر ان باتوں پر عمل ہو تو معاشرے کی ہر سطح پر ایک ایسی فضا قائم ہو گی جو پیار اور محبت کی مثالیں قائم کرنے والی ہو گی۔ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام پیدا ہو گا۔ میاں بیوی اور خاندانوں میں ایک دوسرے سے حسنِ سلوک کے وہ نمونے نظر آئیں گے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ دوستوں کے تعلقات میں بھی اور غیروں سے تعلقات میں بھی ہمدردی، غلطیوں سے صرفِ نظر اور ایک دوسرے کی مدد کے جذبات پیدا ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مزید ترقی کرو اور آپس کے سلوک اور نیکیاں پھیلانے کے علاوہ وہ معیار حاصل کرو جس کی انتہا قربانی اور بے نفسی اور بے غرضی ہو۔ اور فرمایا  اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی کا مقام حاصل کرنے سے یہ معیار حاصل ہوتا ہے۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ معیار حاصل ہوتا ہے اُس طرح قربانی کرنے سے، جس طرح ایک ماں بچے کے لئے کرتی ہے۔ ماں بچے کے لئے قربانی کرتی ہے، بے غرض ہو کر، بغیر کسی بدلے کی اور خواہش کے۔ ہر احسان اور حسنِ سلوک کے پیچھے بدلے کی خواہش یا نام و نمود کا اظہار یا بعض دفعہ آپس کے تعلقات کی دوریوں کو ختم کرنے کی غرض ہو سکتی ہے۔ لیکن ماں اور بچے کا رشتہ ایساہے جس میں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 217 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

        اِلاّ مَاشَآء اللہ جو مثالیں آجکل کی دنیا میں سامنے آ جاتی ہیں اور وہ بھی ان کی ذاتی اغراض کی وجہ سے، وہ بھی اُن لوگوں کی جو دین کو بھول بیٹھے ہیں اور صرف دنیاوی مقاصد اُن کے سامنے ہیں، جن کے دل اتنے سخت ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو بھی مار دیتے ہیں جس کی اخباروں میں خبریں آتی رہتی ہیں۔

               بہر حال سب سے زیادہ بے غرضانہ رشتہ ماں اور بچے کا ہے جو عام عقل رکھنے والے انسانوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن اُس وقت حقیقی مومن کہلاتے ہیں جب دنیا کے تعلقات میں بھی بے غرضانہ جذبات ہوں۔ بنی نوع انسان کے لئے خدمت کا جذبہ اور جوش ہو۔ کل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات پڑھے تھے تو آپ نے یہی فرمایا تھا کہ میں اپنی جماعت کو اُس معیار پر دیکھنا چاہتا ہوں کہ جہاں وہ بنی نوع کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ حق لینے کی خواہش کے بجائے حق کی ادائیگی کی خواہش ہو۔ دنیا کی عارضی لذتوں اور خواہشات کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 68-69 ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               اگر اس خوبصورت تعلیم پر عمل ہو تو گھر اور معاشرہ پُر امن ہو جاتا ہے۔ اخلاق میں بھی ترقی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے۔

               پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فَحْشَاء،مُنْکَر اوربَغْیِ سے روکتا ہے۔ فحشاء کا مطلب ہے انتہائی درجے کاگناہ اور گند اور ہر وہ بات جس سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے۔ اس بارے میں مَیں رمضان کے دنوں میں تفصیلی خطبات بھی دے چکا ہوں، اُن کو بھی سننا چاہئے۔ لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اگرفَحْشَاء  مُنْکَر کے ساتھ آئے تو اس کا مطلب ہے کہ ایسی بدی جس کا علم صرف اُس بدی کے کرنے والے کو ہو اور مُنکَر وہ بدی ہے جواس کے بعد آتی ہے جس کا علم دوسروں کو بھی ہو جائے، لیکن اس کا اثر دوسروں پر نہ پڑے، یا اس برائی سے دوسروں کے حق یا متاثر نہ ہوں یا بہت کم متاثر ہوں لیکن دنیا اس کو برا محسوس کرتی ہو، یہ برائی مُنْکَر ہے۔  (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 222)

               پھر اس کے بعد بَغْیِ کا لفظ آتا ہے،بَغْیِ کے مختلف معنی ہیں۔ مثلاً غلط کام کرنا، نقصان پہنچانا، دھوکہ دہی کرنا، نا انصافی کرنا، دوسرے کا حق مارنا۔ پس یہ جو لفظ ہیبَغْیِ، یہ ایسی برائی ہے جو دوسروں کو نقصان پہنچانے والی ہے اور معاشرے کا امن برباد کرنے والی ہے۔ بہر حال یہ تینوں برائیاں فَحْشَاء،مُنْکَر اوربَغْیِ ایسی برائیاں ہیں جو انسان کو عیب دار بناتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک حقیقی مومن اور مومنہ کو ایسی حالت میں دیکھنا چاہتا ہے جہاں وہ نیکیوں کو پھیلانے والا ہو اور برائیوں سے محفوظ ہو۔ اور نہ صرف خود برائیوں سے محفوظ ہو بلکہ معاشرے کو بھی محفوظ رکھنے والا ہو اور آج ہم احمدیوں کی یہی ذمہ داری ہے۔ ہم نے جو زمانے کے امام کو مانا ہے تو اس عہد کے ساتھ کہ ہم اپنی اس ذمہ داری کو بھی نبھائیںگے کہ معاشرے میں نیکیاں پھیلانے والے ہوں گے اور برائیوں کو دور کرنے والے ہوں گے۔ اگر ہم نے اپنی ذمہ داریاں نہ سنبھالیں، خود اپنی حالتوں کو نہ بدلا تو یہ ذمہ داریاں کس طرح ادا کر سکتے ہیں؟ کیونکہ یہ جب ہو گا تبھی اللہ تعالیٰ کا قرب بھی ہمیں حاصل ہو سکتا ہے، تبھی ہمارے ہر کام میں برکت بھی پڑ سکتی ہے۔

               پس یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم کہ نیکیوں کو حاصل کرنے کے لئے برائیوںکو چھوڑنا ضروری ہے اور صرف اس بات پر خوش نہ ہو جاؤ کہ ایک قسم کی یا چند قسم کی برائیاں چھوڑ دی ہیں بلکہ ہر قسم کی اور ہر سطح پر کی جانے والی برائی سے ہم نے بچنا ہے اور ہر نیکی کو اختیار کرنا ہے۔ دنیا انصاف اور عدل کے معیار کو بہت اعلیٰ معیار سمجھتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمتر نیکی ہے۔ نیکی کی اعلیٰ ترین مثال ایتایٔ ذی القربیٰ ہے۔ بنی نوع انسان سے اپنے قریب ترین رشتہ دار کی طرح محبت اور بلا غرض خدمت اصل نیکی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ معیار تم نے حاصل کرنے ہیں۔ یہ حکم ہے اور برائیوں کو مٹانے کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنے دلوں کو ہر قسم کی دھوکہ دہی، نا انصافی اور نقصان پہنچانے سے باز رکھو۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے جھوٹی بیان بازی سے بچو۔ دوسرے کو اپنی زبان سے بھی نقصان پہنچانے سے بچو بلکہ ایسی باتوں سے بھی بچو جو براہِ راست کسی کو نقصان تو نہیں پہنچاتیں لیکن بداخلاقی کا باعث بناتی ہیں۔ مثلاً ایک مجلس میں بیٹھے ہیں یا کسی سے آمنا سامنا ہوا ہے، ایک شخص وہاں آ کر سلام کرتا ہے تو دوسرا تکبر کی وجہ سے یا معمولی رنجش کی وجہ سے یا سلام کا جواب دینے کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے جواب نہیں دیتا، جبکہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ سلام پھیلاؤ۔ یہ تعلیم بڑی بنیادی تعلیم ہے کہ سلام کو رواج دو۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان انہ لا یدخل الجنۃ… حدیث نمبر 194)

                تو ایسے لوگ اُن لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو سلام کرنے والے کو تو متاثر نہیں کر رہے ہوتے، اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اُس نے تو سلام کا پیغام بھیج دیا، مگر اپنے اور اللہ تعالیٰ کے خود گناہگار بن رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی یہ گناہ سہیڑ رہے ہوتے ہیں، گناہوں کی فہرست میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسی برائی سے بھی بچو۔ پھر فرمایا اپنے جائزے لو، اپنے دلوں کو ٹٹولو، اپنی برائیوں کو دیکھو اور ان کی اصلاح کرو۔ جو برائیاں بیشک دوسروں کو نظر نہ آئیں لیکن تمہیں پتہ ہے، تمہارے علم میں ہے کہ یہ برائیاں تمہارے اندر ہیں تو اپنے دلوں کو ان سے پاک کرنے کی کوشش کرو۔ یہی تقویٰ کی باریک راہ ہے۔ اور ہمیں باریکی سے یہ جائزے لینے چاہئیں اور باریکی سے اپنا جائزہ لے کر اپنے دل کو ان برائیوں سے پاک کرنا جن سے پاک ہونے کی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی ہے، حکم فرمایا ہے یہ ضروری ہے۔ صرف یہ نہیں سوچنا کہ یہ میری برائی ہے کسی کو اس سے کیا غرض؟ بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فحشاء میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن خدمتِ خلق کا جذبہ بھی رکھتے ہیں دنیاداروں میں بہت ساری ایسی مثالیں مل جاتی ہیں۔ دوسروں پر ظلم کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ بعض کو جھوٹ سے نفرت بھی ہوتی ہے لیکن دل میں بعض لوگوں کے لئے کینہ اور بغض بھی بھرا ہوتا ہے۔ کسی کا حق مارنا بظاہر پسند نہیں کرتے مگر چغلیاں کرنے کی عادت ہوتی ہے، ایک دوسرے کے پیچھے باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ پیٹھ پیچھے کسی کے عیب جھوٹے سچے بیان کرنے کی عادت ہوتی ہے تو اسلام کہتا ہے کہ یہ چغلیاں گناہ ہے، یہ پیٹھ پیچھے باتیں کرنا منع ہے، بلکہ خداتعالیٰ تو یہاں تک فرماتا ہے کہ یہ چغلیاں کرنا اسی طرح ہے جس طرح تم نے مردہ بھائی کا گوشت کھا لیا۔ تو مختلف قسم کی برائیاں ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ اپنی سب ظاہری اور چھپی ہوئی برائیوں کو چھوڑو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے چھوڑو۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ سے نہ کوئی بات چھپی ہوئی ہے اور نہ ہی اُس کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس شرط پر بیعت کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں کو ہر بات اور ہر چیز پر فوقیت دیں گے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

 تو پھر اس بات پر تسلی نہ پکڑ لیں کہ کیا ہوا اگر ہم میں بعض برائیاں ہیں۔ ان برائیوں کی وجہ سے ہم دوسروں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے، ہمارے اپنے اندر ہی برائیاں ہیں۔ اگر آدمی ان چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی وقعت دینا چھوڑ دے تو یہی چھوٹی چھوٹی برائیاں پھر بڑی برائیاں بن جاتی ہیں اور فحشاء بن جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہوش کے ناخن لو اور خدا تعالیٰ نے جو نصائح فرمائی ہیں اُن کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ تبھی اپنی زندگی میں بھی سکون محسوس کر سکتے ہو۔ تبھی تم اپنے گھر میں بھی سکون کے سامان کر سکتی ہو اور تبھی تم معاشرے میں بھی نیکیاں پھیلانے والی بن سکتی ہو اور اس مقصد کا حصہ بن سکتی ہو جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔

                پھر اللہ تعالیٰ عہد کی پابندی کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ فرماتا ہے کہ اَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عَاھَدْتُّمْ۔ (النحل:92)۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو جب تم نے اُس سے عہد کیا ہے، پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے عہد دو طرح کے ہیں، ایک عہد بیعت کا عہد ہے اور ایک عہد اللہ تعالیٰ کے احکام کے اندر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کئے گئے عہد اور وعدے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے عہد عہدِ بیعت ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ۔ وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰھَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا۔(الفتح:11)یقینا وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھ پر ہے۔ پس جو کوئی عہد توڑے تو وہ اپنے ہی مفاد کے خلاف عہد توڑتا ہے اور جو اس عہد کو پورا کرے جو اُس نے اللہ سے باندھا ہے تو یقینا وہ اُسے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔

               پس یہ عہد جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا اسلام میں داخلے کا عہد ہے۔ آیت میں یہ مثال تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے لیکن آپ کے بعد یہ اسلام میں داخلے کا عہد ہے۔ یہ عہدِ بیعت ہے اور اس زمانے میں آپ کے غلامِ صادق کے ساتھ کیا گیا  عہدِ بیعت ہے۔اور جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہونے کا عہدِ بیعت ہے۔ پس جو کوئی اپنے آپ کو جماعت احمدیہ میں شامل سمجھتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے بیعت کے عہد کو پورا کرے اور اس میں جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ قرآنِ کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کرے، اُسے قبول کرے، تبھی وہ اُن لوگوں میں شمار ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے۔      اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ۔ (آل عمران: 77)ہاں کیوں نہیں، جس نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور تقویٰ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرنے والا ہے۔ پس اپنے عہد جو اللہ تعالیٰ سے کئے ہیں یعنی اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے عہد، اور پھر اُن پر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے عمل کرتے ہیں، پھروہ لوگ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاتے ہیں۔ اور ایک مومنہ اور ایک مومن کا یہی زندگی کا مقصد ہے۔ اس کیلئے کوشش کرنی چاہئے اور اُن لوگوں میں شمار ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔

               پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ ہم نے اپنے بیعت کے عہد میں جو نیک باتوں کے کرنے کا عہد کیا ہے اُسے پورا کریں ورنہ بیعت کرنا بے فائدہ ہے۔ اگر بیعت کر کے اپنی مرضی کرنی ہے اور قرآنِ کریم کی حکومت اپنے اوپر لاگو نہیں کرنی تو پھر تو ایسا عمل ہے جس کی خدا کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے  اور دنیا والوں کی مخالفت بھی ساتھ ہی ہے۔ ایک احمدی کی جتنی مخالفت ہو رہی ہے اور شاید ہی کسی کی ہوتی ہو۔ تو اس کا کیا فائدہ کہ بیعت بھی کی، اللہ تعالیٰ کی رضا مندی بھی حاصل نہ کی اور لوگوں کی مخالفت بھی مول لے لی۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنا ہے تو تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے عَہدوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے کہ نیکیوں کو اختیار کرو اور برائیوں کو ترک کرو، ان کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے عہد ہیں اور پھر ان نیکیوں کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے نام پر اور اُسے ضامن بنا کر جو عہد ہوتے ہیں، جو گو بندوں کے درمیان عہد ہوتے ہیں لیکن کیونکہ خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اور اُس کے نام پر ہیں، اس لئے یہ عہد بھی پورا کرنا ضروری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ تمہاری تمہارے عہدوں کی وجہ سے بازپرس ہو گی۔ تم پوچھے جاؤ گے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے احکام پر یا احکام کے مطابق جو آپس میں معاہدات کئے تھے، اُنہیں پورا بھی کیا ہے یا نہیں؟

               پس ہر ایک اپنے نفس کے جائزے لے کہ کس حد تک ہم خدا تعالیٰ سے کئے گئے عہد اور اُس کے نام پر کئے گئے عہد کی پابندی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بہت سے احکام اور یہ بہت سی نیکیاں جن کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے، اگر تم انہیں بجا لاؤ گے اور تم برائیوں کو تقویٰ پر چلتے ہوئے ترک کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا پانے والے ٹھہرو گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً۔ وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرُھْم بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (النحل:98) مرد یا عورت میں سے جو بھی نیکیاں بجا لائے، بشرطیکہ کہ وہ مومن ہو، ہم یقینا اُسے حیاتِ طیبہ کی صورت میں زندہ کر دیں گے اور اُن کے بہترین اعمال کے مطابق اُن کا اجر دیں گے جو وہ کرتے رہے۔

               پس اللہ تعالیٰ مَردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیتا ہے کہ اعمالِ صالحہ بجا لاؤ، اگر خدا تعالیٰ سے نیک اجر چاہتے ہو۔ پس یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ دنیا میں نیکیاں نہ صرف مردوں کے ذریعہ قائم ہو سکتی ہیں اور نہ ہی صرف عورتوں کے ذریعہ سے قائم ہو سکتی ہیں۔ اگر خوبصورت معاشرے کی تشکیل کرنی ہے، اگر نیکیوں کو قائم کرنا ہے تو پھر مرد اور عورت دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا۔ دونوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کرنی ہو گی۔ دونوں کو برائیوں سے بچنا ہو گا۔ دونوں کو اپنے عہد نبھانے ہوں گے۔ اگر یہ ہو گا تو تمہیں تمہارے عمل کی بہترین جزا ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا دینے کے معاملے میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس میں اپنوں کے لئے بھی پیغام ہے، اُن لوگوں کے لئے بھی جو سمجھتے ہیں کہ اسلام میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں ، جو عورت کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں، کوئی عزت اور احترام نہیں کرتے۔ خدا تعالیٰ کی نظر میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ جو بھی نیک اعمال کرے گا وہ جزا پائے گا، اللہ تعالیٰ کا پیارا ہو جائے گا۔ اور اُن اعتراض کرنے والوں کا بھی منہ بند کیا گیا ہے جو اسلام کی تعلیم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو اُس کا حق نہیں دیتا اور دوسرے درجے کا سمجھتا ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے فرائض بتا کر دونوں کو اُن کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اگر دونوں کی اس طرف توجہ ہو اور اپنے ذمہ فرائض کے حق ادا کئے جائیں اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے کئے جائیں تو اسلام وہ خوبصورت معاشرہ قائم کرتا ہے جس کی دنیا میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔ سارے انسانی قانون اور حقوق کے نام پر قائم کی گئی جو تنظیمیں ہیں وہ سطحی قانون بناتی ہیں جو وقت کے ساتھ اپنی کمزوریاں اور کمیاں ظاہر کر دیں گے۔ آج وہ بڑے اہم نظر آ رہے ہیں لیکن آہستہ آہستہ دیکھیں گے یہی جوقانون ہیں ایک وقت میں بالکل کمزور پڑ جائیں گے لیکن خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین جہاں سب سے پرانے ہیں، جو چودہ سو سال پہلے ہمیں دئیے گئے، وہاں سب سے اعلیٰ بھی ہیں اور ہر فریق کے حق کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔

               پس ہر احمدی عورت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان دنیاوی حقوق کے نعروں سے متاثر نہ ہوں۔ نوجوان بچیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان دنیاوی حقوق کے نعروں سے متاثر نہ ہوں بلکہ قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے حقوق دیکھیں، اپنی ذمہ داریاں دیکھیں، اپنے فرائض دیکھیں اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کریں۔ جب یہ معیار حاصل کر لیں گی تو اپنے سکون کے بھی سامان کریں گی، اپنی نسلوں کو سنوارنے کے سامان بھی کریں گی اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بھی بنیں گی۔ خدا تعالیٰ سب کو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔  اٰمین۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں