خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ آسٹریلیا 05اکتوبر2013ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اس اجلاس کی کارروائی کے شروع میں سورۃ الحشر کی جو آیات [الحشر:19تا22 ]  آپ کے سامنے تلاوت کی گئی تھیں،آپ میں سے بعض جانتی ہوں گی کہ نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات میں سے ایک آیت ان میں شامل ہے، جو اُن میں سے ترتیب کے لحاظ سے آخری آیت ہے اور یہاں تلاوت کردہ آیات میں سے پہلی آیت ہے۔ جیسا کہ اس کا ترجمہ بھی آپ سن چکی ہیں کہ:

               اللہ تعالیٰ تقویٰ کا حکم دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اپنے کل پر بھی نظر رکھو۔ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جو دل میں قائم ہو تو نیکیوں کی توفیق ملتی ہے۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا۔’’ اگر یہ جڑ رہی، سب کچھ رہا ہے‘‘۔ پہلا مصرع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ترتیب فرمایا کہ

’’ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے‘‘

یعنی ہر نیکی کی جڑ تقویٰ ہے اس پر فوراً ہی آپ کو اگلا مصرع الہام ہواکہ:

’’اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے‘‘

(درثمین اردو صفحہ 49مطبوعہ ربوہ)

               انسانی زندگی کا ایک بہت اہم حصہ اور موڑ وہ ہے جب وہ ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ جس میں مرد اور عورت، دونوں کا ایک اہم کردار ہے۔ یعنی شادی کا بندھن۔ شادی کا بندھن بھی ایک اہم موقع ہے۔ چاہے وہ دنیا دار کی شادی ہے، کسی بھی مذہب رکھنے والے کی شادی ہو یا لا مذہب کی شادی ہو، یا خدا تعالیٰ پر ایمان نہ لانے والے کی شادی ہو۔ہر ایک کے لئے یہ موقع ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اور خاص طور پر اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والے کی شادی کی اہمیت جو ہے، وہ تو دنیا داروں سے بہت مختلف ہے ۔ دنیا دار تو شادی کے لئے دنیاوی باتوں کو مدّنظر رکھتا ہے۔ آجکل کے اس مغربی اثر کے معاشرے میں یا نام نہاد آزاد معاشرے میں، گو کہ آسٹریلیا مغرب میں نہیں مگر پھر بھی مغرب کا اثر ہے۔ اُنہی قوموں میں سے یہ لوگ آئے ہوئے ہیں اور ایک آزاد معاشرہ ہے۔ آزادی کے نام پر عجیب عجیب قوانین بنا لئے گئے ہیں۔ شادی سے پہلے ہی آزادی سے ایک میل جول ہوتا ہے، جو آزادی کے نام پر بے حیائی تک پہنچ جاتا ہے۔ جبکہ اسلام اس چیز سے منع فرماتا ہے۔ کسی قسم کی دوستیاں، کسی قسم کے تعلقات اور یہ جو یہاں رسم ہے اس کا اثر بعض دفعہ ہماری بچیوں اور لڑکیوں پر بھی ہوتا ہے کہ understanding نہیں ہو رہی۔ یہ ساری غلط چیزیں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ جو نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہو تو مردوں کو فرمایا نہ تم دولت دیکھو، نہ تم لڑکی کا خاندان دیکھو، نہ تم اُس کی شکل اور خوبصورتی دیکھو۔ ہاں اگر دیکھنا ہے تو دینداری دیکھو کہ لڑکی یا عورت دیندار ہے کہ نہیں۔(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین حدیث 5090)

               پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہم موقعوں کے لئے جن آیات کا انتخاب فرمایا جیسا کہ میں نے کہا  اُس میں نکاح انسانی زندگی کا ایک بہت اہم موقع ہوتا ہے۔ اس کے بندھن کے اعلان میں بھی یہ آیات مسنون ہیں، جن کی تلاوت کروائی جاتی ہے اور جن میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا ذکر ہے۔ گویا انسانی زندگی میں مرد اور عورت کا بندھن دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے نہیں بلکہ نیک نسل چلانے کے لئے اور نیک خاندانوں کے قائم کرنے کے لئے ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے۔ دنیا والے تو دنیاوی باتوں کی خواہش کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو دولت نہیں دیکھتے، جو خاندان نہیں دیکھتے، خوبصورتی دیکھتے ہیں۔ بعض خوبصورتی نہیں دیکھتے، بعض اور باتیں اُن کے مدّنظر ہوتی ہیں۔ لیکن دین بہر حال اکثرکسی دنیا دار کے کے مدّنظر نہیں ہوتا۔ لیکن ایک دیندار کے لئے جو حکم ہے کہ تم دین مدّنظر رکھو۔ بے شک ہم کفو ہونے کا بھی ذکر ہے، جس میں بہت سارے پہلو دیکھے جاتے ہیں لیکن ہم کفو میں بھی تقویٰ اور دین پہلی شرط ہونی چاہئے۔

               پس یہ چیزیں ہیں تو لڑکیوں کو بھی اور لڑکوں کو بھی اپنے دینی پہلو کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جو تعلیم دی ہے اور بے تحاشا احکامات دئیے ہیں، وہ ہم سے کیا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم سے اللہ تعالیٰ کس طرح اُن احکامات پر عمل کروانا چاہتا ہے۔ یہ چیز دین ہے اور اگر اس پر قائم ہوں گے تو رشتے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر دیرپا ہوتے ہیں۔ اور نہ صرف رشتے دیرپا ہوتے ہیں بلکہ آئندہ نسلیں بھی نیکیوں پر قائم ہونے والی ہوتی ہیں۔ جماعت میں بھی ہر جگہ دنیا میں جو رشتوں میں دراڑیں پڑنے کی تعداد بڑھ رہی ہے، یہاں بھی ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو مذہب سے دُور ہٹے ہوئے لوگوں کی نقل کرتے ہیں۔ آزادی کے نام پر سمجھتے ہیں کہ لوگ بہت آزاد ہیں اور جو چاہے کریں، یہ آزادی ان کا حق ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بعض حدود رکھی ہیں۔ قرآنِ کریم ایک ایسی مکمل کتاب ہے اور ایسا ضابطہ حیات ہے جس میں ہر پہلو کو اللہ تعالیٰ نے کھول کر بیان فرمایا ہے اور اگر اُس پر عمل کیا جائے تو ایک انسانی زندگی گھر کے معاشرے سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ایسی امن پسند اور محبت اور پیار سے بھری ہوئی زندگی ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔

               بہر حال تقویٰ سے دُور ہٹنے کی وجہ سے یہ لوگوں کی نقل بھی شروع ہوئی ہے۔ اگر تقویٰ دل میں ہو تو کبھی یہ دل میں خیال نہ پیدا ہو کہ ان لوگوں کی آزادی جو ہے یہ بہت اعلیٰ چیز ہے اور اس کو ہمیں اپنانا چاہئے۔ آزادیاں ایک حد تک آزادی ہے۔ لیکن آزادی کی حدود ہیں، بے محابا آزادی جو ہے اس کو اسلام نے پسند نہیں کیا۔ پس اگر مسلمان رہنا ہے، اگر احمدی مسلمان رہنا ہے تو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کہاں ہماری آزادی کی حدود ختم ہوتی ہیں۔ اگر ہمارے لڑکے اور لڑکیاں تقویٰ کو معیار بنا لیں، نیکی اور تقویٰ کی شادی کو معیار بنا لیں تو نہ صرف یہ کہ ذاتی اختلافات ختم ہو جائیں گے، ذاتی طور پر خاندانوں میں بھی اور اپنی ذات میں بھی ایک انقلاب پیدا ہو جائے گا، بلکہ جماعتی انقلاب بھی پیدا ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار احکامات میں یہی فرمایا ہے کہ اِ س دنیا کی خواہشات کو اپنی ترجیح نہ سمجھو بلکہ اُس دنیا کی فکر کرو۔

                اس آیت میں بھی جو تلاوت کی گئی ہے یہی ذکر ہے کہ اپنے کل کو دیکھو جو ہمیشہ کی دنیا ہے، جس سے تمہاری عاقبت بھی سنورے گی اور تمہاری نسل کی عاقبت بھی سنورے گی۔ اس بات پر غور کرو کہ لِتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ(الحشر:19)کہ ہر جان یہ دیکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے؟ اب اس کل کے بھی دو مطلب لئے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس شادی کے بندھن کو احسن رنگ میں قائم کر کے اور اپنے آپ کو تقویٰ کی راہوں پر چلاتے ہوئے تمہارے سے جو نسل پیدا ہونی ہے، اُس کی تربیت کس حد تک اچھی کر رہے ہو؟ تم دنیا کے وارث تو نہیں بنا رہے۔ یہ دیکھو کہ تمہارا مقصد تو دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے۔ پس ایسی نسل پیدا کرو جو دین کی وارث بننے والی ہو۔ ایسی نسل پیدا کرو جو ماں باپ کے لئے دعائیں کرنی والی ہو۔ اُن کے مرنے کے بعد بھی اُن کے لئے دعائیں کرنے والی ہو۔ ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرنے والی ہو۔ ایسی نسل پیدا کرو، ایسی مائیں بنو جن کے پاؤں کے نیچے جنت ہوتی ہے، جن کے بچے نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ اپنے عمل بھی اس طرح رکھو کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی بہترین جزا دے۔ قرآن کے احکامات کو سامنے رکھو اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔

                جو پہلی آیت یہاں تلاوت کی گئی ہے اس ایک آیت میں ہی دو مرتبہ تقویٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اگر تقویٰ ہو تو کبھی مسائل اتنے نہ بڑھیں جتنے اب بڑھ رہے ہیں۔ لڑکے بھی ماحول کے بد اثر سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ جب نیک لڑکی کی تلاش میں ہوں گے تو پھر لڑکوں کو خود بھی نیکی کی طرف مائل ہونا ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ لڑکے تو آوارہ گردی میں مبتلا ہوں اور نیک لڑکیوں کی تلاش ہو۔ جب نیک لڑکی کی تلاش ہو گی تو خود بھی تقویٰ پر چلنا ہو گا۔ لڑکیاں بھی جب یہ دیکھیں گی کہ ہمارے رشتوں کی بنیاد نیکیوں پر ہے تو پھر وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی بجائے اپنے غیر ضروری فیشنوں کے بجائے،اپنی نیکیوں کی طرف توجہ دیں گی۔ ایک حد تک فیشن بھی جائز ہے، لباس کی خوبصورتی بھی جائز ہے، سنگھار بھی جائز ہے، لیکن جب یہ حد سے زیادہ بڑھ جائے تو یہ پھر تقویٰ سے دُور ہٹا کے لے جاتا ہے۔ تو جب لڑکیوں کو بھی پتہ ہو گا کہ ہمارے رشتوں کے معیار کیا ہیںتو ظاہر ہے وہ نیکیوں پر قائم ہوں گی۔ تو یہ دو طرفہ عمل ہے۔ لڑکیوں کو بھی نیکیوں کی طرف قدم مارنے ہوں گے اور لڑکوں کو بھی۔ اور ان کے ماں باپ کو بھی اس طرف توجہ دینی ہو گی کہ ہمارے بچے ایسے نیک ماحول میں پلیں بڑھیں جہاں تقویٰ سب سے مقدم ہو۔ صرف اجلاسوں اور جلسوں پر یہ عہد دہرا دینا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے کافی نہیں ہو گا، بلکہ اپنی عملی زندگی اس طرح بنانی ہو گی کہ جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والی ہو۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ پر یقین بھی ہو اور اُس کے احکامات پر نظر بھی نہ ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ پر یقین ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ کل پر نظر رکھو، ورنہ تمہارے عمل جو ہیں بے فائدہ ہیں تو پھر کل پر نظر رکھنے کی کوشش بھی کرنی ہو گی۔ مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے نیک اعمال ہی بچائیں گے۔ ایسے نیک اعمال جو خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے گئے ہوں۔پس ہر ایک کواپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہے؟ یا صرف دنیا دکھاوے کے لئے۔

               کچھ عرصہ ہوا مَیں نے خطبہ میں ایک لمبی حدیث سنائی تھی۔ اُس میں ہر عمل جو ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے دیکھا، کہیں فرشتوں نے اُس کو روک دیا کہ اللہ کی رضا کی خاطر نہیں تھا اور کہیں خدا تعالیٰ نے روک دیا۔ پس ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بنانے کے لئے کوشش کرنی ہو گی اور پھر یہ دعا کرنی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو ہمیں بچا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسانوں کو تو تم دھوکہ دے سکتے ہو، جھگڑوں کی صورت میں اپنے حق میں فیصلے کروا سکتے ہو، لڑکی بھی اپنے ناجائز حقوق چرب زبانی کے ذریعہ سے لے سکتی ہے، لڑکے بھی اپنے ناجائز حقوق چرب زبانی کے ذریعہ سے لے سکتے ہیں، لیکن اگر تقویٰ ہو تو الَّا مَا شَآئَ اللّٰہ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ کبھی یہ نہیں ہو گا کہ ناجائز طور پر حقوق لینے کی کوشش ہو۔ ہاں کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہو تو ہو، ناجائز نہیں ہو سکتا۔

               ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے، اُس شخص کو مانا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے زمانے کا مامور کر کے بھیجا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع میں نبی کا درجہ دے کر اس زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے۔ بندے اور خدا میں جو دُوری واقع ہو گئی ہے، اُسے ختم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ تقویٰ کے راستوں کی نشاندہی کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری نہ سمجھی اور دنیا کو اور اس کی جاہ و حشمت کو اور اس کی چکا چوند کو سب کچھ سمجھ لیا تو پھر احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مخالفینِ احمدیت سے بھی ہم ماریں کھائیں۔ کیا فائدہ ہے اس کا؟ احمدی ہوئے، احمدیت پر عمل بھی نہ کیا، مخالفین سے ماریں بھی کھائیں، گالیاں بھی سنیں اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی نیکیوں سے ہٹے ہوؤں میں شمار ہوئے۔ آپ میں سے بہت ساری ایسی ہیں جو پاکستان سے اس وجہ سے ہجرت کر کے آئی ہیں کہ وہاں حالات اجازت نہیں دیتے، آج حالات احمدیوں کے حق میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ یہاں اس ملک میں آ کر یہاں کی حکومتیں آپ کو رہنے کی اجازت دیتی ہیں۔ اس فضل کا شکرانہ یہی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے تقویٰ میں قدم آگے بڑھائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ دنیا کی جو جاہ و حشمت ہے اس سے متاثر ہو کر اس میں ڈوب جائیں۔

               کل بھی مَیں نے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں، کس درد سے ہم میں پاک انقلاب پیدا کرنے کے لئے آپ نے ہمیں نصائح فرمائی ہیں؟ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے لوگ میرے مرید ہو کر مجھے بدنام نہ کریں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ 145 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

(ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ 455 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                پس دیکھیں کیسا درد ہے۔ ہمیں اپنی حالتوں کے جائزے لینے ہوں گے۔ یہ باتیں جو میں آپ عورتوں کے سامنے کر رہا ہوں، یہ مَردوں کے لئے بھی ہیں، وہ بھی سن رہے ہیں، بلکہ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ساری دنیا میں جو بھی سننے کی خواہش رکھتا ہے، وہ سنتا ہے۔

                بعض مرد یہ سمجھتے ہیں کہ شاید عورتوں میں ذکر ہو رہا ہے تو ہم بہت نیک ہیں اور ہماری بیویاں ہی خراب ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کا تکبر ہے۔ کیونکہ تکبر جو ہے، یہ بھی تقویٰ سے دوری پیدا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن میں بھی تقویٰ نہیں ہے۔ ہر ایک کو عاجزی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بعض عورتیں مردوں پر الزام لگا دیتی ہیں تو جیسا کہ میں نے پہلے کہادونوں طرف تقویٰ ، ہو گا تو کبھی یہ الزام تراشیاں نہیں ہوں گی اور گھریلو زندگیاں پیار اور محبت سے گزرنے والی ہوں گی۔ اور یہی ایک خوبصورت گھرانے کی ایک اچھی نشانی ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات میں، مردوں اور عورتوں میں بھی اور بعض دفعہ دو تین بچے بھی ہو جاتے ہیں، پھر بھی اختلافات بڑھ جاتے ہیں اور طلاقوں تک نوبت آ جاتی ہے یا عورتیں بعض مجبوریوں کی وجہ سے خلع لیتی ہیں۔ مَیںیہ نہیں کہتاکہ ناجائز خلع لیتی ہیں۔ بعض مَردوں کے ظلم ایسے ہیں کہ خلع بالکل جائز ہوتے ہیں، لیکن بچوں کی خاطر پھر قربانیاں عورتوں کو بھی دینی چاہئیں اور مردوں کو بھی دینی چاہئیں۔ معمولی اختلافات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح نوجوان جوڑے ہیں، وہ بعض دفعہ ابتدا میں ہی، رشتے ختم کر دیتے ہیں کہ ہماری understanding نہیں ہوئی۔ یہ بھی غلط طریقہ کار ہے جو یہاں کے ماحول میں مذہب کی دوری کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن ایک احمدی کو، ایک احمدی مسلمان کو جو اپنے آپ کو اس زمانے میں سب سے زیادہ دین سے قریب سمجھتا ہے، اُس میں یہ باتیں پیدا نہیں ہونی چاہئیں۔

               اب یہ رشتہ کی ایک مثال میں نے دی ہے، تقویٰ صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ قرآنِ کریم میں جیسا کہ میں نے کہا تھا بے شمار احکامات ہیں اور ہر قدم اور زندگی کے ہر پہلو پر احکامات ہیں۔ وہ سب ہمارے مدّنظر ہونے چاہئیں۔ قرآنِ کریم کے احکامات پر عمل کرنا ہی تقویٰ پر چلنے کے قابل بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ جسے کم سمجھا جائے۔ جو احکام قرآنِ کریم میں بیان ہو گئے انسان کو سمجھنا چاہئے کہ اُن پر عمل کرنا اور اُن کو بجا لانا ایک مومن اور ایک مومنہ پر فرض ہے۔ مثلاً نماز کا ایک حکم ہے، عبادت کا حکم ہے تو یہ جس طرح فرض کیا گیا ہے اور جس عمر میں بھی فرض کیا گیا ہے، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس میں کسی قسم کی سستی نہیں ہونی چاہئے۔

               عورت گھر کی نگران ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ عورت گھر کی نگران ہے۔

(صحیح بخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہا حدیث 5200)

                اگر خود عبادت اور نمازوں کی پابندی ہو گی، خود قرآنِ کریم کی تلاوت کی پابندی ہو گی، خود دین سیکھنے کی طرف توجہ کی پابندی ہو گی تو بچے بھی اس طرف توجہ دیں گے۔ بعض دفعہ بعض عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ ہمارے خاوند اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ اگر نہیں دیتے تو اُن کو بھی توجہ دلائیں، یہ بھی آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے اور اگر کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی ذریعہ سے موقع دیکھ کے اُن کو توجہ دلائیں کہ دیکھو کہ تمہارا عمل صرف تمہارے تک محدود نہیںبلکہ تم اگلی نسلوں کو بھی بگاڑ رہے ہو۔پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہر موقع پر عورت کو اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ اُس نے نہ صرف اپنی ذات کے لئے بلکہ اپنی نسل کے لئے بھی قربانی دے کر دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہے، اپنی عبادتوں کے معیار حاصل کرنے ہیں۔  پھر عورتوں کے احکامات میں سے ایک حکم پردہ کا ہے۔ یہ کوئی چودہ سو سال پہلے کا حکم نہیں تھا۔ قرآنِ کریم کا حکم ہے جو ایک زندہ کتا ب ہے اور آج بھی اسی طرح یہ جاری حکم ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے جاری تھا۔ پردہ کا مقصد حیا، عورت اور مرد کا بے جاملنے جلنے سے بچنا، بد خیالات سے دوری اور تقویٰ پر چلنا ہے۔ پس ہر عورت کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اُس کا حیا کا معیار وہ ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ کیا بلا وجہ نامحرموں سے ملنا جلنا تو نہیں ہے۔ پھر بدخیالات ہیں۔ نوجوانوںمیں بدخیالات میںخاص طور پر آجکل کی فلمیں بہت کردار ادا کر رہی ہیں۔ گو کہ بعض بڑوں کے بارے میں بھی خاص طور پر مردوں کے بارے میںشکایتیں آتی ہیں، اور گھر اسی لئے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر یا ٹی وی پر بیٹھ کر بیہودہ اور لغو فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے بھی  آزادی کے نام پر یہاںبے حیائی عام ہے۔ ایسی فلموں سے کبھی پاک خیالات نہیں ہو سکتے۔ یہ فلمیں بنانے والوں کو یا  ٹیلیویژن وغیرہ پرچلانے والوںکوخود بھی یہ خیال ہے کہ یہ گندی چیزیں ہیں۔ اس لئے علاوہ ڈراؤنی فلموں کے ایسی گندی فلموں کے بارے میں بھی یہ لکھا ہوا آتا ہے کہ بچوں کے سامنے نہ دیکھی جائیں۔ یا بعض سائٹ ہیں، اُن پر لکھا ہوا آتا ہے کہ اُن کو بچوں کے لئے لاک (Lock)کر دو۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے نقصانات کا اندازہ ان کو بھی ہے لیکن ایک ظاہری آزادی کے نام پر بے حیائی پھیلتی چلی جا رہی ہے۔پھر جس معاشرے میں یہ گند دکھانے کی حالت ہو وہاں تقویٰ کہاں رہ سکتا ہے۔ اس لئے اس معاشرے میں رہ کر ایک احمدی عورت کو، ایک احمدی بچی کو، ایک احمدی مرد کو اور ایک احمدی جوان کو بہت پھونک پھونک کر قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

               پھر لباس کے فیشن ہیں۔ ہر احمدی عورت اور لڑکی کو یاد رکھنا چاہئے، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، فیشن کریں، ایک حد تک جائز فیشن کریں لیکن بعض ٹائٹ جینز اور بلاؤز پہنتی ہیںیا، اُن کے ساتھ ٹی شرٹ یا پہن لیں گی ، تو عورت کے تقدس کو پامال کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسا لباس تو گھروں میں مردوںکے سامنے بھی جن سے پردہ نہیں، اُن کے سامنے بھی نہیں پہننا چاہئے، کجا یہ کہ غیر مردوں کے سامنے ایسا لباس پہن کے آیا جائے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کو ہمیشہ یاد رکھناچاہئے کہ لباس اور ماحول خیالات پر بد اثر ڈالتے ہیں اور اچھا بھی اثر ڈالتے ہیں۔ جینز پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، کبھی میں نے نہیں روکا، لیکن اس کے ساتھ لمبی قمیص ہونی چاہئے، کم از کم گھٹنوں تک۔کچھ عرصہ پہلے مجھے یہاں سے کسی نے لکھا تھا کہ آپ یہاں آ رہے ہیں تو آپ کے سامنے بعض ایسی عورتیں بھی آئیں گی جنہوں نے باہر نکلتے ہوئے کبھی سر پر دوپٹہ بھی نہیں رکھا، لیکن بڑے نقاب اور برقعے انہوں نے پہننے کے لئے سلوا لئے ہیں۔ تو اگر صرف اس لئے ہے کہ مجھے دکھانا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میری تمہارے پر نظر ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(الحشر:19)۔ جو تم عمل کرتے ہو اُس سے مجھے خبر ہے۔ دلوں کو میں جانتا ہوں۔ ہاں اگر یہ خیال ہے کہ اس وجہ سے ہمارا شرم اور حجاب جو ہے وہ ذرا ختم ہو جائے اور ہم برقع پہن کے ایک دفعہ جائیں گے، دو دفعہ جائیں گے، تین دن جائیں گے، دس سامنے دن جائیں گے، تو ہمیں عادت پڑ جائے گی اور ہماری زندگی کا مستقل حصہ بن جائے گا، تو پھر یہ بڑی اچھی بات ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ آپ کا ہر عمل خدا تعالیٰ کے لئے ہونا چاہئے، کسی بندے کے لئے نہیں۔

               اگر ایک احمدی لڑکی اور عورت تقویٰ پرچلنا چاہتی ہے تو اپنے لباس کا خیال رکھنا ہو گا، اس کو حیا دار بنانا ہو گا،  با پرد بنانا ہو گا۔ ورنہ کوئی بعید نہیں کہ ماحول کا جواثر ہے، اسے بھی گندگیوں میں کھینچ کے لے جائے۔ اس وقت  تناوقت نہیں کہ میں قرآنِ کریم کے تمام احکامات کیا، اُن کے کچھ حصوں کا بھی کھول کر بیان کر سکوں۔ بہر حال ایک احمدی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے اور ترقی کے لئے قرآنی احکامات کی تلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہیں تلاش کرے اور اس کے لئے ایک جدوجہد اور کوشش ہو۔ آج جماعت احمدیہ کے افراد ہی ہیں، عورت اور مرد، بچے اور جوان اور بوڑھے جو دنیا کی اصلاح اور رہنمائی کر سکتے ہیں۔ آج احمدی ہی ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق پیدا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہیں۔ اگر یہ میں نے چند مثالیں دی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اکثریت ایسی ہے جو نعوذ باللہ دین سے دُور ہٹی ہوئی ہے۔ اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے لیکن ہمارے اندر معمولی تعداد بھی ایسی ہو جو دین پر نہ چلنے والی ہوتو باقیوں کو بگاڑ سکتی ہے۔ اور پھر فکر اُس وقت بڑھتی ہے جب یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھ بھی رہی ہو۔ پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں تک دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج ہر احمدی کا، ہر اُس احمدی کا فرض ہے جو تقویٰ پر قدم مارنے والا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی پناہ کی راہیں تلاش کرنے والا ہے کہ اُن تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرے، اُن کو پڑھے اور اُن کو تلاش کرے، جو قرآنِ کریم میں بیان کی گئیں اور جن کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے فرمائی۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

               ’’درحقیقت متقیوں کے واسطے بڑے بڑے وعدے ہیں اور اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کا ولی ہو جاتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 279۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                پس اگر اللہ تعالیٰ کو اپنا ولی بنانا ہے تو تقویٰ پر چلنا ہو گا، دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہو گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت احمدیہ میںبڑے لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نظارے دکھاتا ہے کہ اُن کی دعاؤں کو سنتا بھی ہے اور اُن کی ضرورتیں پوری بھی فرماتا ہے، اُن پر فضل بھی فرماتا ہے۔

               پس ہر احمدی مرد اور عورت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بعثت کا مقصد بندے کو خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنا بتایا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیدا کرنا قرار دیا ہے تو ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، بلا استثناء، ہر مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑے اور اپنے بچوں کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کی کوشش کرے۔جس معاشرے میں رہ رہی ہیں، اس معاشرے کو بھی ہم نے بدلنا ہے۔ اس میں بھی انقلاب لانا ہے۔ صرف پاکستانی احمدیوں کی یا چند فجین احمدیوں کی جماعت ، جماعت احمدیہ نہیں ہے، بلکہ ہمارا مقصد بہت بلند ہے۔ہم نے اس ملک کو تبلیغ کر کے احمدیت اور حقیقی اسلام میں لانا ہے اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہو گی۔ نہ کہ ان کی جو تعلیم ہے اور ان کی جو روایات ہیں اُن میں بَہ جائیں۔ اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق نہ بنائیں۔ تقویٰ پر قدم مارنے والا نہ بنائیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جماعت احمدیہ نے ترقی کرنی ہے، یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اگر ہم نے اس الٰہی تقدیر کا حصہ بننا ہے تو پھر ہر احمدی عورت کو چاہئے اور ہر مرد کو چاہئے، ہر جوان اور ہر بوڑھے کو چاہئے کہ اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے کے مطابق قومیں تیار ہو رہی ہیں جو جلد اس سلسلہ میں آ ملیں گی اور پھر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی بن جائیں گی۔ آپ میں سے اکثریت جو پرانے احمدیوں کی ہے، بلکہ اکثریت کے باپ دادا احمدی ہوئے تھے۔ اگر آپ نے اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق نہ ڈھالا تو دوسرے آ کر آگے نکل جائیں گے۔ پس بہت توجہ کی ضرورت ہے۔

                اللہ تعالیٰ اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو بڑھانے کے لئے اپنے طور پر بھی لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے ۔میں چند مثالیں آپ کو پیش کر دیتا ہوں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ رہنمائی فرما کر عورتوں اور لڑکیوں کو جماعت احمدیہ میں شامل فرما رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اُن پر ظاہر کر رہا ہے۔ پس یہ جماعت احمدیہ کوئی معمولی جماعت نہیں، اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے۔ اس نے بڑھنا ہے اور اس کا بڑھنا اُسی وقت صحیح ہو گا جب اس کا ہر فرد نیکیوں میں آگے بڑھنے والا ہو۔ آج ہر اُس شخص کی جس کی فطرت نیک ہے اللہ تعالیٰ کس طرح رہنمائی فرماتا ہے، چند مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھنے کے لئے نکالی ہیں۔

               تیونس کی ایک راضیہ صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ مَیں نے ایک عرصہ صوفی مذہب کے ساتھ گزارا۔ دین سے تعلق اُن کو پہلے بھی تھا، دنیا داری سے متاثر نہیں تھیں۔ نیک فطرت تھیں۔ پھر اچانک ایک روز آپ کا چینل یعنی ایم۔ٹی۔اے مل گیا۔ بعض قابلِ اعتماد لوگوں سے آپ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جماعت کی تکفیر کی۔ اب یہ چینل ایم ٹی اے ہدایت کے لئے ملا۔ غیر تو ہمارا چینل ہدایت کے لئے تلاش کریں اور ہم جو گندے چینل ہیں، اُن پر بیٹھ کے اپنی بے حیائی کے سامان کریں۔ایسے لوگوں کی کس قدر بدقسمتی ہو گی ۔ کہتی ہیں پھر ایک روز میرے کمسن بیٹے نے خواب دیکھی کہ ہم ایک کار میں بیٹھے ہیں جسے مصطفی ثابت صاحب چلا رہے ہیں۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ مَیں سیدھے راستے پر ہوں۔ چنانچہ میں جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئی۔

               پھر مصر کی ایک عزیزہ صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ میری بیعت کی تفصیل یہ ہے کہ 2011ء میں ایک روز ٹی وی کے مختلف چینلز بدل رہی تھی کہ اچانک ایم۔ٹی۔اے پر مصطفی ثابت صاحب کا پروگرام ’’اَجْوِبِہ عَنِ الْاِیْمَان‘‘ چل رہا تھا۔ اس کے بعد ایم ٹی اے دیکھتی رہی اور ’’الحوار المباشر‘‘ بھی پسند آیا جس میں مختلف ادیان کے لوگوں سے گفتگو ہو رہی تھی۔ مَیں بھی باقی لوگوں کی طرح عیسیٰ کے نزول کی منتظر تھی۔ احمدیوں کی اس بارہ میں باتیں تو بہت معقول تھیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آنے کی بات سمجھنا مشکل تھا اور ایک روز ایم ٹی اے پر ذکر ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کلام بھی کرتا ہے اور اس پر مجھے ایک پرانی خواب یاد آ گئی۔ 2003ء میں رمضان میں ایک روز نماز پڑھنے مسجد گئی تو وہاں عورتوں کے رویّہ سے بیزار ہو کر فیصلہ کیا کہ آئندہ گھر پر ہی نماز پڑھا کروں گی۔  یہاں مَیں ایک وضاحت بھی کر دوں کہ بعض ہماری نئی احمدی جو نو احمدی ہوتی ہیں، بلکہ بعض فجین بھی مجھے شکایت کرتی ہیں کہ جب وہ مسجد میں آتی ہیں، تو اُن کی جو پاکستانی تعداد زیادہ ہے، وہ اردو میں زیادہ باتیں کرتی ہیں۔ حالانکہ آج کل کی نوجوان لڑکیوں کو انگلش بھی آتی ہے اور اُن کی زبان میں بات کرنی چاہئے۔ جب کوئی غیر بیٹھا ہو تو پھر کوشش یہی کرنی چاہئے کہ اُنہیں کی زبان میں بات ہو۔

                بہر حال کہتی ہیں چنانچہ نماز اور دعا کے بعد سو گئی تو خواب میں دیکھا کہ آسمان میں ایک روشن کھڑکی کھلی ہے جس کا رنگ سفید اور شکل بیضوی ہے اور ایک منادی کہہ رہا ہے کہ میں تیرا رب ہوں۔ میں نے سجدہ کیا اور تین دفعہ کہا۔لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنِ۔ بیدار ہوئی تو بہت خوش اور حیران تھی۔ اللہ کی شفقت اور مہربانی دیکھ کر یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت قریب ہے اور دعا کرنے والوں کی دعا کا جواب دیتا ہے۔ اس خواب کے ایک دن بعد خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آسمان پر اڑتا ہوا آیا جس کے بال اور داڑھی سیاہ تھے۔ اُس کے سر سے میزائل نکل رہے تھے اور اوپر جا کر آسمان کو منور کر رہے تھے۔ میں نے اُس کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگا کہ میں مسیح ہوں۔ میں نے خیال کیا کہ وہ مسیح ناصری ہے اور یہ قربِ قیامت کی نشانی ہے۔ پھر دل میں سوچا کہ عیسیٰ مسیح میرے پاس کیوں آئے ہیں۔ تعبیر الرؤیا کی کتب میں تعبیر دیکھی۔ مگر مجھے خدا کے کسی کے ساتھ کلام کرنے کی تعبیر کہیں نہ ملی۔ لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا۔ خدا کسی سے کلام نہیں کرتا اور یہ عقیدہ غلط ہے۔        اللہ تعالیٰ کی یہ صفتِ کلام جو ہے، وہی جب آجکل کے مسلمانوں نے بند کر دی ہے تو انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کیا کرنا ہے؟ بہر حال کہتی ہیں تاہم مسیح علیہ السلام کو دیکھنے کی یہ تعبیر معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ایسی خواب دیکھنے والے کو حکمت اور نیک اولاد عطا فرمائے گا۔ پھر مجھے ایم ٹی اے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ مسیح موعود علیہ السلام تھے، اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی۔

               پھرالجزائر کی بشکیط صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں بیعت سے قبل میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام سے قبل بہت سے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آج جو انسانیت کی حالت اور جو فساد برپا ہے، وہ اس سے قبل کبھی نہیںہوا۔ کیونکہ نہ تو اب اخلاق باقی رہے ہیں اور نہ ہی کوئی اسلام کی صحیح طور پر پیروی کرتا ہے۔ میرے دل میں یہ تمنا ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ کسی رسول کو امت کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمائے۔ اب یہ دیکھیں ایک طرف بعض ہم میں سے کس طرف جا رہے ہیں اور دوسری طرف غیروں میں سے بعضوں کو دین کی کتنی فکر ہے اور اللہ تعالیٰ پھر اُن کی رہنمائی فرماتا ہے کہتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی عبدالعالی بشکیت نے نزول عیسیٰ، جنّ اور نملۃ کی حقیقت کے بارے میں تفصیل سے مجھے آگاہ کیا۔ ان کے یہ خیالات مجھے بہت بھائے اور ان میں ایک کشش محسوس ہوئی۔ پھر میں نے اپنے بھائی کے ٹیبل پر کچھ فائلیں دیکھیں، اُنہیں پڑھ کر تو میں جیسے ایک نہایت خوبصورت دنیا، بلکہ کسی جنت میں پہنچ گئی۔ جیسے جیسے میں ان باتوں کا مطالعہ کرتی گئی، میرا نفس دُھلتا چلا گیا۔ دن کو میں کام پر جاتی لیکن میرا دھیان ان کتب میں اٹکا رہتا۔ پھر میرے بھائی نے مجھے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بتایا اور سمجھایا کہ آپ ہی مسیح موعود بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ دیگر اسلامی جماعتیں جو صرف قتل و فساد کی تعلیم دیتی ہیں، اُن کے طرزِ عمل کے بارے میں مجھیکبھی اطمینان حاصل نہ ہوا تھا۔ اس طرح مولویوں کے چینل بھی مجھے بالکل نہیں بھاتے تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ ایسا نورانی ہے کہ جسے دیکھ کر انسان پہلی نظر میں گرویدہ ہو جاتا ہے۔ آپ سب سے اتنے الگ اور ممتاز نظر آتے ہیں جیسے اندھیرا اور روشنی۔ میں نے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔کہتی ہیں پھر میں نے استخارہ کیا۔ خواب میں دیکھا۔ کوئی میرے اندر سے بلند آواز میں کہہ رہا ہے کہ یہی مہدی ہیں، یہی امام مہدی ہیں۔ اس آواز کے سبب سے میں ساری رات ٹھیک سے سوئی نہیں اور اپنے آپ سے کہتی رہی کہ میں بیعت کرتی ہوں اور میری طبیعت میں سکون اور اطمینان پھیل جاتا اور مجھے یہ بھی خوف دامنگیر رہا کہ کہیں بیعت سے پہلے مر نہ جاؤں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے مجھے بیعت کی توفیق دی۔ اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہتی ہوں۔ اور یہ لوگ وہ کرتے بھی ہیں۔

               تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی قرآنِ کریم کے احکامات کو سمجھنے کے لئے بڑا ضروری ہے جو ہر بچی کو اگر اردو پڑھنی نہیں آتی تو انگلش میں جو لٹریچر میسر ہے، اُس میں پڑھیں۔ اور جن کو اردو پڑھنی آتی ہے اُس میں پڑھیں، تبھی اپنی اصلاح کر سکتی ہیں۔ کیونکہ قرآنِ کریم کی صحیح تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہی ملتی ہے۔ پھر ایک یمن کی نومبائع احمدی ہیں۔ کہتی ہیں میرے والد ایک عالمِ دین تھے۔ وہ مجھے بتایا کرتے تھے کہ امام مہدی کے ظہور کی جملہ علامات پوری ہو چکی ہیں۔ اگر میری وفات کے بعد امام مہدی ظاہر ہوں تو اُن کی بیعت ضرور کرنا۔تو مَیں اُن سے پوچھتی کہ وہ کیسے ظاہر ہو گا؟ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ وہ ٹی وی کے ذریعہ سے ظاہر ہوں گے اور اُن کو سارا زمانہ دیکھے گا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد میں ایک مرتبہ چینلز بدل کر دیکھ رہی تھی کہ مجھے     ایم ٹی اے مل گیا جس کے ذریعہ مجھے امام مہدی کے ظہور کی بشارت ملی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور جو میرے والد صاحب نے بتایا تھا وہ پورا ہوا۔ میں نے استخارہ کیا، اللہ تعالیٰ نے سیدھا راستہ دکھایا اور میں نے اور میری والدہ نے بیعت کر لی۔

               پھر تنزانیہ کی ایک خاتون ہیں۔ اب افریقہ کو لوگ کہتے ہیں کہ اَن پڑھ لوگ ہیں۔ وہاں کی ایک بڑی عمر کی غیر احمدی عورت ہماری مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے آئیں اور نمازِ جمعہ کے بعد معلم صاحب کے گھر چلی گئیں۔ وہاں کمرے میں بٹھایا، وہاںدیوار پرجماعت احمدیہ کا کیلنڈر لگا ہوا تھا۔ ایک بڑی تصویر تھی اُس پر عورت نے پوچھا یہ کس کی تصویر ہے؟ کیلنڈر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور خلفاء کی تصاویر تھیں۔ اُس خاتون نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہ کون ہیں؟ جب اُن کو بتایا گیا کہ آپ مسیح موعود اور مہدی امامِ وقت ہیں تو اس عورت نے کہا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جن کو مَیں نے خواب میں دیکھا تھاکہ مجھے اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ اس کے بعد خاتون نے بیعت کر لی۔ پس اگر نیک نیتی سے دعا کی جائے تو صرف یورپ میں ہی نہیں، افریقہ میں بھی اور ایشیا میں بھی اور دُور دراز علاقوں میں بھی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہے۔ جو غیر ہیں اگراُن کی رہنمائی فرما رہا ہے تو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو قبول کر لیا ہوا ہے اُن کی کس قدر رہنمائی فرمائے گا؟ اُن کو کس قدر توجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے راستوں کی طرف رہنمائی فرمائے گا۔ پس اس کے لئے کوشش کی بھی ضرورت ہے جو ہم میں سے، ہر ایک کو کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر ہماری ہر وقت نظر رہنی چاہئے بجائے ادھر اُدھر کے چینل دیکھنے کے ایک وقت کم از کم ایسا ضرور رکھیں جب ایم ٹی اے کے خاص پروگرام بھی دیکھا کریں جو آپ کی تربیت کے لئے بہتر ہوں۔ یہ دنیا ہمارے لئے کُل اثاثہ نہیںہے۔ یہ دنیا ہی ہمارے لئے سب کچھ نہیں ہے، بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول اگر مقصد ہو گا تو دلوں کی تسلی ہو گی اور نہ صرف اس دنیا میں اطمینان نصیب ہو گا بلکہ اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کی آغوش میں انسان ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیاوی خواہشات کے بجائے ہم سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی تڑپ رکھنے والے ہوں۔ ہمارے گھر بھی جنت کا نمونہ ہوں اور اخروی زندگی میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔

 اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں