خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ قادیان 29دسمبر2013ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یہ آیات جو اجلاس کے شروع میں تلاوت کی گئی تھیں، ان کے بارے میں ہم میں سے بہت سے جانتے ہیں کہ ان کے شروع میں دو زمانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ، جب دنیا میں ایک فساد برپا تھا، دنیا علم و حکمت سے بے بہرہ تھی۔ یعنی وہ علم و حکمت جو دین کی آنکھ کو تیز کرتی ہے۔ وہ علم و حکمت جو خدا تعالیٰ کی پہچان کرواتی ہے۔ وہ علم و حکمت جو انسان کو اُس کے پیدائش کے مقصد سے آگاہ کرتی ہے۔ وہ علم و حکمت جو انسان کے ساتھ انسان کے سلوک کے اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کرنے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ علم و حکمت انسانوں کو عطا فرمائی تا کہ لوگ اس کو اپنا کر عملی کمال کو پہنچیں اور گمراہی سے باہر آئیں اور صراطِ مستقیم پر چلیں اور خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو بڑھا کر خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے بنیں اور اُس کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والے بنیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ :
’’اس آیت کا ماحصل یہ ہے‘‘ یعنی دوسری آیت کااوراگلی آیت وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4) کا بھی، ان آیات کا ماحصل یہ ہے ’’ کہ خدا وہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علومِ حکمیہ دینیہ جن سے تکمیلِ نفس ہو اور نفوسِ انسانیہ علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔ یعنی خدا اور اُس کے صراطِ مستقیم سے بہت دور جا پڑے تھے۔ تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اُمّی بھیجا اور اُس رسول نے اُن کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے اُن کو مملو کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقینِ کامل تک پہنچایا اور خدا شناسی کے نور سے اُن کے دلوں کو روشن کیا۔‘‘(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ 304)
پس ایک دنیا نے دیکھا کہ کیسے کیسے نشان ظاہر ہوئے۔ شراب کے نشے میں چُور رہنے والے شراب کے مٹکوں کو توڑنے والے بن گئے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے والے محبت و پیار اور بھائی چارے کے پھیلانے کے علمبردار بن گئے۔ جاہل، اُجڈ، مذہب سے دور، بتوں کے پجاری توحید کے قائم کرنے والے اور باخدا انسان بن گئے۔ اسلام کی تاریخ ان کے سنہری واقعات سے بھری پڑی ہے۔ پس یہ انقلاب اُن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے کلام کے پہنچنے، سمجھنے اور علم و حکمت کے معیار بلند ہونے سے آیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہوا اُس کا کلام کیونکہ اب تاقیامت روشن رہنے اور علم و حکمت بکھیرنے کے لئے آیا ہے، اس لئے اُس کے قائم رکھنے اور اُس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خدا تعالیٰ نے خود لی ہے۔ پس جب آخری زمانے میں اس علم و حکمت کو لوگ بھولنے لگیں گے تب خدا تعالیٰ کی رحمت پھر جوش میں آئے گی اوروَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4) کا نظارہ دنیا دیکھے گی۔ پھر جہالت اور تاریکی اور گمراہی کو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ذریعہ دُور کر دے گا۔
پس یہ دوسرا زمانہ اس غلامِ صادق کا زمانہ ہے جو مسیح موعود بھی ہے اور مہدی معہود بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنے والے دوسرے زمانے کا جس کا ان آیات میں بیان ہوا ہے، ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا:
’’ کہ ایک گروہ اَور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہو گا وہ بھی اوّل تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دُور ہوں گے تب خدا اُن کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا۔ یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ اُن کو بھی دکھایا جائے گا یہاں تک کہ اُن کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا‘‘۔(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ 304)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اسی (یعنی مسیح موعود) کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:4) اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اوربرکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو ہی گروہ ہیں۔ اوّل صحابۂ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پایا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے اُن میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک روح رہ گئی۔ دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا۔ اور آیت آخَرِیْنَ مِنْہُمْ میں جو اس گروہ کو مِنْہُمْ کی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے۔ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے اور پیشگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانہ کو اس نعمت سے کامل طور پر حصّہ نہیں ہو گا‘‘۔ یعنی کچھ حصہ ہو گا، ادھر اُدھر چھوٹی چھوٹی جگہوں پر لیکن کامل حصہ نہیں ہو گا اور حصہ کا معیار بھی وہ نہیں ہو گا جو آخری زمانے میں مسیح موعود کے ذریعہ سے آنا ہے۔
پھر فرمایا: ’’ چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ خسوف کسوف رمضان میں موافق حدیث دار قطنی اور فتاویٰ ابنِ حجر کے ظہور میں آ گیا یعنی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں ہوا۔ اور جیسا کہ مضمونِ حدیث تھا۔ اُسی طرح پر چاند گرہن اپنے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج گرہن اپنے گرہن کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں وقوع میں آیا۔ ایسے وقت میں کہ جب مہدی ہونے کا مدّعی موجود تھا اور یہ صورت جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوا کبھی وقوع میں نہیں آئی کیونکہ اب تک کوئی شخص نظیر اس کی صفحۂ تاریخ میں ثابت نہیں کر سکا۔ سو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا جو لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پھر ذوالسنین ستارہ بھی جس کا نکلنا مہدی اور مسیح موعود کے وقت میں بیان کیا گیا تھا۔ ہزاروں انسانوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا۔ ایسا ہی جاوا کی آگ بھی لاکھوں انسانوں نے مشاہدہ کی۔ ایسا ہی طاعون کا پھیلنا اور حج سے روکے جانا بھی سب نے بچشمِ خود ملاحظہ کر لیا۔ ملک میں ریل کا طیار ہونا۔ اونٹوں کا بے کار ہونا یہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جو اس زمانہ میں اسی طرح دیکھے گئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے معجزات کو دیکھا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ جلّ شانہٗ نے اس آخری گروہ کو مِنْھُمْ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاجِ نبوت کا اور کس نے پایا۔ اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بد زبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اُٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اُٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔ بہتیرے اُن میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔ بہتیرے اُن میں سے ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہامِ الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے۔ بہتیرے اُن میں سے ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ اُن میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن اُن کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور اُن کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے۔ اور آسمانی نشانوں سے اُن کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جوآخَرِیْنَ مِنْہُمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں۔ اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا۔!!!‘‘
پھر آپ نے فرمایا : ’’اور آیت آخَرِیْنَ مِنْہُمْ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے وہ بھی ظلّی طورپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہو گا اور دو مشابہت اُس کے وجود میں ہوں گی۔ ایک مشابہت حضرت مسیح علیہ السلام سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا۔‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد14صفحہ 305تا307)
پس کیا سعید فطرت لوگوں کا یہ کام نہیں، اُن لوگوں کا کام نہیں جو جب حُبّ پیغمبری کا دعویٰ کرتے ہیں کہ تاریخ سے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا حال دیکھیں۔ چاند اور سورج گرہن کو تاریخ نے محفوظ کیا ہوا ہے۔ مشرق میں بھی اور مغرب میں بھی جبکہ مہدی کا دعویٰ کرنے والا بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا۔ یا باقی نشانات کو دیکھیں۔ کیا نئی نئی سواریاں جن میں یہ سب لوگ بیٹھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کی تصدیق نہیں کر رہیں؟ اور مسیح موعود اور مہدی موعود کی آمد کا اعلان نہیں کر رہیں؟ کیا دجّالی طاقتوں کے توحید کو مٹانے کے منصوبے اور مسلمانوں کو مسلمان سے لڑانے کی کارروائیاں اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے کافی نہیں ہیں کہ قرآن بھی موجود ہے، سنّت بھی موجو دہے اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ حسنہ ہمیں آپ کی سیرت کی کتابوں اور احادیث میں ملتا ہے۔ اپنے آپ کو دین کا علَم بردار کہنے والے علماء بھی ہر فرقے اور ہر قوم میں بکھرے پڑے نظر آتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ باوجود کوشش کے اُمّت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر یقین نہیں، خدا تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچا ہوا دیکھ کر مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا اعزاز بخشا تھا، اُس کی بات سننا نہیں چاہتے۔ پس جب تک اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کی بات نہیں سنیں گے، اُس کے ساتھ استہزاء کا سلوک بند نہیں کریں گے، یہ فتنے، یہ فساد، حکومتوں کے عوام پر یہ ظلم اور حکومتوں کے خلاف عوام کی یہ باغیانہ کارروائیاں، یہ جہاد کے نام پر مسلمان کا ایک دوسرے کا خون کرنا کبھی بند نہیں ہوگا۔ اُمّت بے چین ہے لیکن اپنے نام نہاد علماء کے فتووں کے خوف سے اپنی بے چینی کا اظہار نہیں کر سکتی یا وہ اظہار نہیں کر سکتی جس اظہار کرنے کا حق ہے۔ یا دنیا داری نے بعض لوگوں پر ایسا غلبہ پا لیا ہے کہ دین کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ لیکن بہت بڑی تعداد ایسوں کی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں، دین کی حالت دیکھ کر اپنے مولیٰ کے حضور جھکتے ہوئے کسی مصلح اور مہدی کی آمد کی دعائیں مانگتے ہیں۔
آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کے دل اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچتا دیکھ کر، اسلام پر حملے ہوتا دیکھ کر بے چین تھے اور آج بھی ایسے لوگ ہیں جن کے دل مسلمانوں اور اسلام کی یہ حالت دیکھ کر بے چین ہیں۔ اُن کی شرمندگی کی عجیب حالت ہوتی ہے جب وہ اسلام پر حملہ آوروں کے حملوں کا جواب نہیں دے سکتے اور علماء کے پاس جاتے ہیں۔ اُن نام نہاد علماء کے پاس جاتے ہیں جن کو صرف اپنی کرسیوں کی فکر ہے، اپنے منبروں کی فکر ہے، تو وہ علماء اُن کو آگے سے یہ کہتے ہیں کہ خاموش بیٹھے رہو، اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں، کسی دوسرے کو چھیڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس بات کو بڑی عقل مندی کی بات سمجھ کر یہ علماء اُن کو بتاتے ہیں کہ اپنا دین چھوڑو نہیں اور کسی کا دین چھیڑو نہیں۔ اگر اپنے پاس دلائل نہیں تو پھراپنا دین بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اور اگر کسی کو اپنے دین کی خوبیاں بیان کر کے اور دوسروں کو اُن کے دینی صحیفوں اور کتابوں سے ثابت کر کے آخری مکمل اور کامل دین یعنی دینِ اسلام کے بارے میں نہیں بتایا جائے گا تو تبلیغ کا حق کس طرح ادا کریں گے؟
پس یہ ویسے ہی لغو بات ہے کہ اپنا(دین) چھوڑو نہیں اور دوسرے کا چھیڑو نہیں۔ دلائل سے بات کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ تبلیغ ایک مومن کا اہم فریضہ ہے۔ پس یہ کم علمی کی باتیں ایسے علماء کی ہیں جن کو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کی غرض ہے۔ اسلام کی خدمت کرنے سے اُن کو کوئی غرض نہیں۔ زیادہ سے زیادہ اگر خدمتِ اسلام سمجھتے ہیں تو اس بات کو کہ قتلِ مرتد کی سزا نافذ کر دو جس کا اسلام کی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ یا اہانتِ رسول کی اپنی تعریف کر کے دنیا کا امن برباد کرنے کی کوشش کرو۔ اور وہ بھی صرف اس لئے کہ ان کے ممبر محفوظ رہیں، ان کی ساکھ قائم رہے، ان کے پیچھے لوگ چلتے رہیں۔ یا ختمِ نبوت کے نعرے کے نام پر اپنی کرسیاں مضبوط کریں۔ جبکہ ختمِ نبوت کا بہترین اور صحیح ادراک وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِم کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود نے ہی دینا تھا۔ بہر حال جب تک نیک فطرت اللہ تعالیٰ کے حضور بے چین رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل بھی نازل ہوتے رہیں گے۔ اور جب نیک فطرت بے چین ہو کر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو اُن کو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی حاصل تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دنیا میں موجود تھے اور ایک جری اللہ کی طرح اسلام پر حملہ کرنے والوں کے منہ توڑ جواب دے رہے تھے اور پھر جب نظامِ خلافت قائم ہوا تو اس وقت بھی سعید فطرت لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اُن کے دلوں میں بٹھائی۔ اللہ تعالیٰ کے رہنمائی کرنے کے بہت سے ذرائع ہیںجو لوگوں کے سینے کھولتے ہیں اور اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر یقین پیدا ہوتا ہے اور وہ آپ کی بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس وقت میں صرف ایک ذریعہ کا ذکر کروں گا جس میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی رہنمائی کی اور اب تک کرتا چلا آ رہا ہے اور وہ ہے خوابوں کا ذریعہ۔ اور یہ ایسی روشن اور واضح ہیں کہ اس میں انسانی سوچ کا دخل ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ ایسی واضح رہنمائی فرماتا ہے کہ اپنی خوابوں کی سچائی پر یقین کئے بغیر انسان رہ ہی نہیں سکتا۔ پس اس وقت مَیں یہ نمونے پیش کروں گا۔
پہلے مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے چند ایک نمونے لئے ہیں۔
حضرت ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ میری عمر قریباً اٹھارہ یا انیس برس کی تھی جبکہ دسمبر 1903ء میں خواب میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی۔ اس سے پہلے میں نے حضور کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ تم کس کے مرید ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرید ہوں۔ اس کے بعد مجھے ’آئینہ کمالاتِ اسلام‘ اور ’تریاق القلوب‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا جن کے مطالعہ سے میری طبیعت کا رجوع سلسلہ احمدیہ کی طرف ہوا۔ 1906ء میں مَیں نے استخارہ کیا۔ گوجرہ ضلع لائلپور میں میری ملازمت تھی۔ صبح کی نماز کے بعد مجھے کشفی طور پر عین بیداری کی حالت میں سیڑھیاں دکھائی گئیں۔ ہر ایک سیڑھی پر بورڈ لگا ہوا تھا۔ آخری سیڑھی کے درمیان سرخ زمین پر ‘‘(یعنی اُن کی background سرخ تھی) ’’سفید لفظوں میں ایک بورڈ نظر آیا جس پر موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا ’مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود‘۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ستمبر 1907ء میں رعیّہ ضلع سیالکوٹ میں اپنے سسر کو ملنے گیا جہاں وہ جمعدار تحصیل تھے۔ میری ملاقات مکرم حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم انچارج ہاسپٹل رعیّہ سے ہوئی۔اُن کے ہمراہ میں قادیان گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ظہر کی نماز کے وقت زیارت کی۔ جو حلیہ حضور کا 1903ء کی خواب میں مَیں نے دیکھا تھا وہ حلیہ اُس وقت تھا اور کپڑے بھی ویسے ہی تھے۔‘‘
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر1صفحہ 33روایت حضرت محمد عبداللہ صاحبؓ)
پھر حضرت رحمت اللہ صاحبؓ احمدی پنشنر بیان کرتے ہیں کہ:
’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چند ماہ لدھیانہ میں قیام فرمایا۔ میری عمر اُس وقت قریباً سترہ اٹھارہ برس کی ہو گی اور طالبعلمی کا زمانہ تھا۔ مَیں حضور کی خدمتِ اقدس میں گاہ بگاہ حاضر ہوتا۔ مجھے وہ نور جو حضور کے چہرہ مبارک پر ٹپک رہا تھا، نظر آیا جس کے سبب سے میرا قلب مجھے مجبور کرتا کہ جھوٹوں کا منہ نہیں ہے۔ مگر گرد و نواح کے مولوی لوگ مجھے شک میں ڈالتے۔ اسی اثناء میں حضور کا مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے لدھیانہ میں ہوا جس میں مَیں شامل تھا۔ اُس کے بعد خدا نے میری ہدایت کے لئے ازالہ اوہام کے ہر دو حصے بھیجے۔ وہ سراسر نور و ہدایت سے لبریز تھا۔ خدا جانتا ہے کہ مَیں اکثر اوقات تمام رات نہیں سویا۔ اگر کتاب پر سر رکھ کر غنودگی ہو گئی تو ہو گئی، ورنہ کتاب پڑھتا رہا اور روتا رہا کہ خدایا یہ کیا معاملہ ہے کہ مولوی لوگ کیوں قرآنِ شریف کو چھوڑتے ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ میرے دل میں شعلہ عشق بڑھتا گیا۔ میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو لکھا کہ حضرت مرزا صاحب عیسیٰ علیہ السلام کی وفات تیس(30) آیات سے ثابت کرتے ہیں۔ آپ براہِ مہربانی حیات کے متعلق جو آیات و حدیث ہیں تحریر فرما دیںا ور ساتھ جو تیس آیاتِ قرآنی جو حضرت مرزا صاحب لکھتے ہیں، تردید فرما کر‘‘ (اُن کا ردّ کر کے) ’’میرے پاس بھجوا دیں، مَیں شائع کرا دوں گا۔ جواب آیا کہ آپ عیسیٰ ؑکی حیات و ممات کے متعلق حضرت مرزا صاحب یا اُس کے مریدوں سے بحث مت کرو۔ کیونکہ اکثر آیات وفات ملتی ہیں۔ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ اس امر پر بحث کرو کہ مرزا صاحب کس طرح مسیح موعودؑ ہیں؟ جواب میں عرض ہوا کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑفوت ہو گئے ہیں تو حضرت مرزا صاحب صادق ہیں۔ جواب ملا کہ آپ پر مرزا صاحب کا اثر ہو گیا ہے مَیں دعا کروں گا۔جواب میں عرض کیا گیا کہ آپ اپنے لئے دعا کرو۔ آخر مَیں آستانۂ الوہیت پر گرا اور میرا قلب پانی ہو کر بہہ نکلا۔ گویامَیں نے عرش کے پائے کو ہلا دیا۔ عرض کی خدایا! مجھے تیری خوشنودی درکار ہے۔ میں تیرے لئے ہر ایک عزت کو نثار کرنے کو تیار ہوں اور ہر ایک ذلّت کو قبول کروں گا۔ تُو مجھ پر رحم فرما۔ تھوڑے ہی عرصہ میں مَیں اُس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ بوقتِ صبح قریباً چار بجے 25؍دسمبر 1893ء بروز سوموار جناب سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔
تفصیل اس خواب کی یہ ہے کہ خاکسار موضع بیری میں نمازِ عصر کا وضو کر رہا تھا۔ کسی نے مجھے آ کر کہا کہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہوئے ہیں اور اسی ملک میں رہیں گے۔ میں نے کہا: کہاں؟ اُس نے کہا یہ خیمہ جات حضور کے ہیں۔ میں جلد نماز ادا کر کے گیا۔ حضور چند اصحاب میں تشریف فرما تھے۔ بعد سلام علیکم مجھے مصافحہ کا شرف بخشا گیا۔ میں با ادب بیٹھ گیا۔ حضور عربی میں تقریر فرما رہے تھے۔ خاکسار اپنی طاقت کے موافق سمجھتا تھا اور پھر اردو بولتے تھے۔ فرمایا مَیں صادق ہوں۔ میری تکذیب نہ کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ مَیں نے کہا اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ تمام گاؤں مسلمانوں کا تھا مگر کوئی نزدیک نہیں آتا تھا۔ مَیں حیران تھا کہ خدایا! یہ کیا ماجرا ہے؟ آج مسلمانوں کے قربان ہونے کا دن تھا۔گویا حضور کا ابتدائی زمانہ تھا۔ گو مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ حضور اسی ملک میں تشریف رکھیں گے مگر حضور نے کوچ کا حکم دیا۔ میںنے رو کر عرض کی: حضور جاتے ہیں۔ مَیں کس طرح مل سکتا ہوں۔ میرے شانے پر حضور نے اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایا۔ گھبراؤ نہیں، ہم خود تم کو ملیں گے۔ تفہیم ہوئی کہ حضرت مرزا صاحب رسولِ عربی ہیں۔ مجھے فعلی رنگ سمجھایا گیا۔ الحمد للہ ثم الحمدللہ۔
میں نے بیعت کا خط لکھ دیا، مگر بتاریخ 27؍ دسمبر 1898ء بروز منگل قادیان حاضر ہو کر بعد نماز مغرب بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ خدا کے فضل نے مجھے وہ استقامت عنایت فرمائی کہ کوئی مصائب مجھے تنزل میں نہیں ڈال سکا۔ مگر یہ سب حضور کی صحبت کا طفیل تھا جو بار بار حاصل ہوئی اور ان ہاتھوں کو حضور کی مٹھیاں بھرنے کا فخر ہے۔ گو مجھے اعلان ہونے پر رنگا رنگ کے مصائب پہنچے مگر خدا نے مجھے محفوظ ہی نہیں رکھا بلکہ اس نقصان سے بڑھ کر انعام عنایت کیا اور میرے والد اور بھائی اور قریبی رشتہ دار احمدی ہو گئے۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر3صفحہ 58-59روایت حضرت رحمت اللہ صاحب احمدی پنشنرؓ)
پھر حضرت شیخ اصغر علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ تبلیغ کے سلسلہ میں لوگوں کو اس طرف توجہ دلانا بہت مفید ہوتا ہے کہ نمازِ عشاء کے بعد سونے سے پہلے تازہ وضو کر کے دو نفل پڑھے جاویں اور اُن میں دعا کی جاوے کہ اے ہمارے مولیٰ! اگر یہ سلسلہ سچا ہے تو ہم پر حقیقت ظاہر کر۔ مَیں مشرقی افریقہ 1900ء میں ملازمت پر جاتے ہوئے اپنے ایک پرانے دوست مسمّی نیک محمد صاحب ساکن سرائے عالمگیر ضلع گجرات کو اپنے ملازم کی حیثیت سے ساتھ لے گیا۔ اُن کو تبلیغ کرتے ہوئے مَیں نے یہ نسخہ بتایا۔ انہوں نے یہ عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو خواب میں حسبِ ذیل نظارہ دکھایا کہ وہ اپنے مکان واقعہ سرائے عالمگیر میں ہیں اور ان کا والد مرحوم بھی ہے اور جس کوٹھڑی میں وہ ہیں وہ حد درجہ روشن ہو گئی ہے اور یہ نظر آ رہا ہے کہ آسمان سے نور کی ایک لہر چل رہی ہے جس نے کوٹھڑی میں نور ہی نور کر دیا ہے اور معاً ایک بزرگ نہایت خوبصورت، پاکیزہ شکل ظاہر ہوتے ہیں اور بھائی نیک محمد صاحب کے والد بزرگوار اپنے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ یہ امام مہدی ہیں اور دونوں باپ بیٹا حضور انور سے ملے ہیں۔ ایسے خوش کن نظارے کے بعد اُن کی نیند کھلی اوردن چڑھے انہوں نے مجھے یہ حال بتایا اور اُن کی بیعت کے واسطے خط لکھنے کے واسطے کہا۔ چنانچہ میں نے اُن کی بیعت کا خط لکھ دیا۔‘‘
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر4صفحہ 167-168روایت حضرت شیخ اصغر علی صاحبؓ)
حضرت غلام مجتبیٰ صاحبؓ ولد مولوی محمد بخش صاحب فرماتے ہیں:
’’ مجھے متعدد مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت خواب میں مختلف پیرایوں میں ہوئی۔ ایک دفعہ تو میں مدینہ مکرمہ میں پہنچا اور وضو کر کے دو نفل پڑھے اور روضۂ مبارک کے پاس پہنچا تو وہاں نور کے حُلّے جیسے سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے، چل رہے تھے، میں بھی اُنہیں میں داخل ہو کر ویسے ہی ٹھاٹھوں میں شامل ہو گیا۔اور پھر یہی نظارہ مجھے بیداری میں جبکہ میں مغرب کی نماز کے بعد نفل پڑھ رہا تھا، ہوا۔ پس جب میں 1906ء میں رخصت پر آیا تو میرے دونوں بڑے بھائی غلام حامیم صاحب اور غلام یا سین صاحب قاری بیعت کر چکے تھے۔ چند روز تو میں نے اُن کے ساتھ نماز وغیرہ نہ پڑھی، مگر مجھے انجامِ آتھم پڑھنے کے لئے دیا گیا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو چیلنج مباہلہ دیا تھا، پڑھا تو بے اختیار ہو گیا اور میں نے قاری غلام یٰسین صاحب سے درخواست کی کہ چلو اُس بزرگ کو دیکھیں۔ ہم غالباً تینوں بھائی قادیان پہنچے تو لوگ بھی مسجد مبارک میں جو کہ اُس وقت بہت ہی چھوٹی سی تھی، بیٹھے تھے۔ ہم بھی بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو لوگ کھڑے ہو گئے۔ اس واسطے اُس وقت تو چہرہ مبارک نظر نہ آیا لیکن جب حضرت اقدس اندر کی کوٹھڑی میں بمعیت حضرت خلیفۂ اوّل صاحب بیٹھ گئے تو اُس وقت اُس کوٹھڑی کا وہی نظارہ دکھایا گیا جیسا کہ میں نے خواب میں مدینہ منورہ پہنچ کر دیکھا تھا۔اُس وقت میرا دل یقین سے پُر ہو گیا اور پھر بڑھ کر حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی۔‘‘
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر7صفحہ 177روایت حضرت چوہدری غلام مجتبیٰ صاحبؓ)
یہ چند واقعات جو میں نے بیان کئے ہیں، یہ اُن خوش قسمت لوگوں کے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں اللہ تعالیٰ سے صحیح فیصلہ اور رہنمائی کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی اُن پر ظاہر فرمائی۔ ایسے لاکھوں لوگ تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں خدا تعالیٰ نے مختلف ذریعوں سے رہنمائی کر کے آپ علیہ السلام کی تائید میں نشانات دکھا کر اُنہیں قبولِ احمدیت کی توفیق عطا فرمائی اور جیسا کہ میں نے کہا، اللہ تعالیٰ کے آپ کی تائید میں نشانات آج تک ظاہر ہو رہے ہیں۔ آج تک خدا تعالیٰ رہنمائی فرما رہا ہے جس سے افریقہ کے دور دراز علاقوں میں بیٹھا ہوا بھی حق کو پہچان رہا ہے اور عرب اور یورپ اور امریکہ اور جزائر اور دوسرے ملکوں میں بیٹھا ہوا بھی حق کو پہچان رہا ہے۔ لیکن حق اُنہیں پر ظاہر ہوتا ہے جن کی فطرت میں سعادت ہے۔ اس وقت جو واقعات ہو رہے ہیں، اُن میں سے بھی چند مَیں پیش کرتا ہوں۔
سیکرٹری تبلیغ جرمنی لکھتے ہیں کہ میسیڈونیا کے ایک علاقے سے ترکی زبان بولنے والی کافی فیملیز یہاں جرمنی میں مقیم ہیں۔ یہ لوگ مسلمان ہیں اور صوفی اِزم کے قائل ہیں۔ ایک دن ایک میسیڈونین دوست توفیق صاحب جرمنی کے شہر فورس ہائم میںبازار سے گزر رہے تھے کہ وہاں ہماری جماعت کے افراد لیفلیٹس تقسیم کر رہے تھے۔ انہوں نے اس پمفلٹ کو لیا اور پڑھا۔ لیفلیٹ پڑھنے کے بعد کہتے ہیں کہ میں بچپن سے سنتا آیا ہوں کہ امام مہدی اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور اسلام کی حقیقی تصویر اس دنیا میں پیش فرمائیں گے۔ جب بھی علماء سے اس بارے میں پوچھتا تھا تو وہ کہہ دیتے تھے کہ ابھی نہیں آئے لیکن ضرور آئیں گے۔ آج یہ فلائر پڑھ کر مجھے پتہ چلا کہ امام مہدی دنیا میں تشریف لا چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کتب حاصل کیں اور اُن کا مطالعہ کیا اور مبلغین کے ساتھ اُن کی میٹنگز کروائی گئیں۔ اُنہیں میرے خطبات سننے کے لئے بھی کہا گیا، نیز دعا کی تحریک کی گئی۔ انہوں نے دعائیں بھی کیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خواب میں ملے۔ آپ کا چہرہ مبارک انتہائی نورانی تھا۔ آپ نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُنہیں فرمایا کہ میں امام مہدی ہوں، میری بیعت کرو اور آگے لوگوں کو تبلیغ کرو۔ چنانچہ اس رؤیا کی بنا پر انہوں نے بیعت کی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی قوم کے لوگوں میں تبلیغ کر رہے ہیں اور مزید چھ بیعتیں کروا چکے ہیں۔
اسی طرح کمال الدین صاحب ہیں جویونان میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بیعت فارم کے ساتھ بیعت کی تفصیل بتائی کہ وہ الحوار المباشر کا پروگرام بڑے شوق اور اہتمام سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی حقیقی اسلام ہے۔ نیز لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ لیٹے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کے سرِ مبارک کی طرف کھڑے ہیں اور میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی طرف ہوں۔ میں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضور! امت گمراہ ہو چکی ہے، آپ کیوں نہیں اُٹھتے۔ اس پر انہوں نے دستِ مبارک سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اشارہ فرمایا اور آپ کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا۔ یہ شیرِ خدا ہے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ادب سے سرجھکائے کھڑے تھے۔ اس خواب کے بعد مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا پوری طرح یقین ہو گیا۔ مَیں ایک شراب خانے میں کام کرتا تھا لیکن بیعت کے فیصلے کے بعد میں نے یہ جاب چھوڑ دی کیونکہ میں کسی احمدی کے لئے اُسے جائز نہیں سمجھتا۔
پھر ایک عرب ملک سے احمد بکیرہ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں مَیں بچپن میں ایک امام مسجد سے قرآنِ کریم حفظ کیا کرتا تھا لیکن جب امام صاحب میں جھوٹ اور نفاق دیکھا تو اُن کے پاس جانا چھوڑ دیا بلکہ مسجد اور نماز بھی چھوڑ دی۔ بعد میں ایک دوست باسل صاحب کی تحریک پر دوبارہ نمازیں شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے رؤیا اور کشوف کا دروازہ کھول دیا۔ ایک رات خواب میں کہا گیا کہ مجھے محلہ کی مسجد میں جانے کی بجائے گھر پر نماز پڑھنی چاہئے۔ ہم بعض دوست مل کر نماز پڑھنے لگے اور نمازوں کی لذت حاصل ہونے لگی۔ پھر جب جماعت سے تعارف ہوا (یعنی جماعت احمدیہ سے) تو اس بارے میں استخارہ کیا۔ ایک بار خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے اپنی کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘ دی۔ اس کو پڑھنے سے مجھے شرح صدر حاصل ہوا۔ پھر ایک بار کشف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جماعت کے ساتھ تشریف لائے تو ایک وہابی مولوی آپ پر اعتراض کرنے لگا۔ آپ مسکراتے رہے۔ پھر آواز آئی کہ اس مولوی کو دُور کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ مولوی غائب ہو گیا۔ اس کشف کے بعد میرے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے اور بیعت کی توفیق ملی۔
مالی کے امیر صاحب لکھتے ہیں( مالی میں بھی آج جلسہ ہو رہا ہے اور بعض اور مشرقی ملکوں میں بھی ، جیسا کہ میں نے کہا تھا۔) بماکو شہر میں ایک ٹیلر ماسٹر ہیں۔ (بماکو مالی کا ایک شہر ہے) جو کہ اپنے کام کی وجہ سے بہت معروف ہیں۔ ہمارے مشن ہاؤس تشریف لائے اور بیعت کی۔ کہتے ہیں مَیں نے اُن سے تفصیل پوچھی تو بتایا کہ تقریباً دو سال قبل ایک خواب دیکھی کہ مَیں ہندوستان میں ایک بہت بڑے مینار پر ہوں۔ کہتے ہیں اُس وقت میں نے سوچا کہ ہندوؤں کے ملک میں مینار پر چڑھنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان میں مسلمان بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے نمازیں پڑھنی شروع کر دیں کیونکہ مجھے عموماً خوابیں نہیں آتیں اس لئے اس کا مجھ پر خاص اثر تھا۔
پھر ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ انسان جنہوں نے کالے رنگ کا کوٹ پہنا ہوا ہے، مجھے بلاتے ہیں اور مجھے سفید رنگ کے تین پتھر دیتے ہیں۔ ان خوابوں کے بعد میں بہت مذہبی ہو گیا جس کی وجہ سے میرے یار دوست پریشان ہونے لگے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟ کہتے ہیں کہ ایک دن اپنے کام کے دوران میں نے اپنے ریڈیو کی tuning کرتے ہوئے ’ربوہ ایف ایم‘ لگایا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ احمدیوں کا ریڈیو ہے تو میں نے فوراً تبدیل کرنا چاہا۔ کیونکہ بچپن میں آئیوری کوسٹ میں سنا تھا کہ احمدیوں کا کوئی اور نبی ہے اور یہ انگریزوں کی بنائی ہوئی جماعت ہے۔ اس لئے دل میں شدید نفرت تھی۔ تو ان کے ایک کاریگر نے کہا کہ استاد! یہ بڑا اچھا ریڈیو ہے اور صحیح اسلام کی تعلیمات پیش کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے کچھ دیر ریڈیو سنا تو مجھے محسوس ہوا کہ ایک غیبی طاقت ہے اور میرے اسلام کے متعلق جو مسائل اور خدشات تھے، سب حل ہونا شروع ہو گئے۔ اور اُس کے بعد میں صرف ربوہ ایف ایم ہی سنتا تھا۔ لیکن کسی احمدی سے رابطہ نہ ہوا۔ اس پر تقریباً تین مہینے گزر گئے۔ رمضان میں سارے پروگرام سنے۔ دل سے احمدی ہو چکا تھا لیکن جماعت سے رابطہ نہ ہوا۔ پھر ایک روز جمعہ کے دن مشن میں آئے، اُس وقت وہاں میرا خطبہ جمعہ لگا ہوا تھا تو کہتے ہیں کہ جس شخص کو میں نے دیکھا تھا، جس نے مجھے تین سفید پتھر دئیے تھے وہ یہی تھے۔ اس جمعہ پر میں نے کالی اچکن پہنی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ بیعت کی اور ان کے بچے خدام الاحمدیہ کے فعال ممبر ہیں۔
تو یہ خدا تعالیٰ کی تائیداور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا نشان ہے کہ نئے آنے والوں کو نہ صرف دین کی رہنمائی کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی رہنمائی کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری خلافت، خلافتِ راشدہ ہے اور سچی خلافت ہے۔
ترکمانستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوست اکمورادخاکییو (یہ میں صحیح نام بول رہا ہوں تو بہر حال) وہاں کے جماعت کے وہ صدر بھی ہیں۔ اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب کہ میں مکمل طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اُس کے ساتھ ساتھ میں مقامی کالج میں نفسیات اور تاریخ کے مضامین پڑھانے کے علاوہ اپنا ایک کاروبار بھی کیا کرتا تھا۔ ایک لمبے عرصے تک مَیں اسلام میں اپنے لئے ایک راہ تلاش کرتا رہا جس میں مَیں شک و شبہ کا شکار ہوا اور کبھی مایوسی بھی ہوئی۔ ایک لمبا وقت میں نے اللہ تعالیٰ کی قربت پانے میں خرچ کیا لیکن پھر بھی ایک پردہ حائل رہا جس نے مجھے اُس روحانی دینی حظّ سے محروم کئے رکھا جو اس راستے میں ملا کرتا ہے۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا کہ میں اس سچی تعلیم کے دہانے پرہوں اور میری تمام مشکلات کی کنجیاں وہیں موجود ہیں لیکن میں وہی چابی نہ ڈھونڈ پاتا جس نے میری مشکل آسان کرنی تھی۔ کہتے ہیں کہ 2009ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ مَیںنے خواب دیکھا کہ ایک آدمی جو دیکھنے میں بڑا نفیس معلوم ہوتا ہے، مجھے اپنے پیچھے چلنے کے لئے کہتا ہے۔ اس خواب نے مجھے اور میرے دل و جان کو نہایت فکر میں مبتلا کیا اور میں کسی طرح سے بھی اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ میں مختلف طور پر اس خواب کی تعبیر کرتا رہا لیکن کسی سے بھی اس کا ذکر نہ کیا۔ مجھے اس بزرگ آدمی کا چہرہ یاد تھا لیکن میرے جاننے والے احباب میں سے کسی کی شکل بھی ان سے مشابہ نہیں تھی۔ میں اس معاملے میں سخت شش و پنج کا شکار تھا اور چاہتا تھا کہ اس خواب کی کوئی سچی تعبیر کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسی سال میں میری راویل بخارایو صاحب مرحوم سے ملاقات ہوئی جنہوں نے میرا جماعت کے ساتھ تعارف کروایا۔ ایک اور احمدی دوست نے مجھے احمدیت کے حوالے سے ضروری لٹریچر فراہم کیا۔ یہ لٹریچر میرے لئے پہاڑوں کی تازہ ہواؤں کا ایک سلسلہ تھا۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ احمدیت کی تعلیمات ہی میرا اصل راستہ ہیں۔ مَیں نے اپنے معلم سے اس بات کا اظہار کیا کہ میں بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اب مجھے وہ چابی مل گئی اور دروازہ بھی کھل گیا تھا۔ اب میں اس عظیم تعلیم کے قریب آ گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی مجھے علم ہوا کہ اس تعلیم پر چلنے سے کتنی ایسی راہیں کھلتی ہیں جو نہایت سچی ہیں، جن پر میں نے پہلے کبھی قدم نہ مارا تھا۔ لیکن خواب ابھی بھی تعبیر طلب تھا۔ مَیں نے اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر کئی بار خوف اور احترام کی حالت میں دیکھیں کہ ان میں سے وہ شخصیت کون ہے جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کیونکہ میرے دل میں خوف تھا کہ کہیں میں غلط نہ سمجھ لوں۔ پھر جلسہ سالانہ 2010ء کے موقع پر عالمی بیعت کے وقت میرے ساتھ ایک ناقابلِ یقین واقعہ پیش آیا۔ میں ناقابلِ بیان سی حالت میں چلا گیا اور پھر میں نے ایک رؤیا دیکھی۔ میں نے اس رؤیا کے ذریعہ اس بزرگ شخصیت کو پہچان لیا وہ حضرت مسیح موعود اور مہدی موعود علیہ السلام ہی تھے۔ مجھے اپنی اِتّباع کی دعوت دینے والے اور کوئی نہیں تھے بلکہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود اور مہدی موعود ہی وہ شخصیت تھے۔ کہتے ہیں مجھے سچائی کی طرف دعوت دی گئی ہے، سچے مذہب کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ سچی جماعت کی طرف دعوت دی گئی ہے اور اب میں صحیح راستے پر قائم ہوں۔ میں نے اپنے دل و جان اور روح اُسے سونپ دی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو سونپ دی۔ میری زندگی کے آخری دن تک اب یہی میرا راستہ ہے۔
پھر بورکینا فاسو کے امیر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک نو مبائع پارے ادریس صاحب اپنی ایک خواب بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں خواب میں مَیں نے دیکھا کہ جس جگہ میں پہلے تھا۔ (یعنی پہلے یہ وہابی تھے۔ وہاں افریقہ میں وہابی بہت زیادہ ہیں) وہاں خاص طور پر اس بورکینا فاسو وغیرہ کے علاقے میں اب اندھیرا ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں: مَیں جہاں تھا وہاں اب اندھیرا ہو گیا ہے۔ اور اب جس جگہ مَیں ہوں وہاں نور ہی نور ہے اور کہتے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ خواب انہوں نے بیعت کرنے کے بعد دیکھی تھی۔ اس خواب کے بعد انہوں نے اپنے دوستوں کو بھی کہنا شروع کر دیا کہ اگر آج تم نور کی تلاش چاہتے ہو تو حقیقی نور صرف احمدیت میں ہے۔ کیونکہ اس میں خلافت کا بابرکت نظام جاری ہے اور خلافت کے ساتھ ہی ہماری فتح ہے۔
غانا کے مشنری شرف الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ گھانا کے شمال مغرب کے گاؤں گلینزاگو(Galinzagu) میں ہم تبلیغ کرتے رہے اور زیادہ تر افراد احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ تا ہم گاؤں کے امام نے ابھی تک ہمارا پیغام قبول نہ کیا تھا۔ ریجنل مشنری بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ تحریر پڑھی ہوئی تھی کہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کے بارے میں شبہات ہوں وہ خالص دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور استخارہ کرے اور خدا سے رہنمائی چاہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مخلص شخص کو ضرور ہدایت عطا فرمائے گا۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس امام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ نسخہ بتایا۔ امام نے استخارہ کرنے کی حامی بھر لی۔ چنانچہ چند ہی دنوں بعد اس امام نے اپنی ایک خواب بیان کی کہ میں نے واضح طور پر دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی اور بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف جا رہا ہوں۔ میں نے اس آگ کی دائیں جانب ایک فاصلے پر ریجنل مشنری کو کھڑے دیکھا کہ مجھے اس آگ سے بچنے کے لئے اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ اس پر میں مشنری صاحب کی طرف چلا جاتا ہوں اور وہ مجھے چند دعائیں سکھاتے ہیں جو میں دہراتا ہوں مگر مجھے یہ دعائیں یاد نہیں رہیں۔ اس خواب کے بعد اس امام کے دل میں کوئی شبہ باقی نہ رہا اور انہوںنے فوراً بیعت کر لی ۔
سعید احمد صاحب کانگو برازاویل سے لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع دوست رشید کوانگا صاحب نے بتایا کہ داؤد ماسامبا جو ہمارے معلم ہیں وہ ہمارے گاؤں میں تبلیغ کرنے کے لئے اکثر آیا کرتے تھے۔ میں اس کی باتیں سنتا تو مجھے سکون ملتا۔ میرے جو دوست احباب تھے، ان سے میں نے بات کی کہ کیوں نہ اس لڑکے کی بات کو مان لیا جائے اور جس طرف ہمیں بلاتا ہے ہم اس کو قبول کر لیں۔ مجھے اس کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ لیکن میرے دوست کہتے کہ یہ مسلمان اسی طرح پھنساتے ہیں۔ یہ مسلمان نہیں تھے۔ پھسلا کر پھر جہاد کرواتے ہیں۔ ان کی باتوں میں نہ آنا۔ چونکہ ہم سب عیسائی تھے۔ میں ڈر بھی جاتا تھا۔ لیکن اس کی باتیں اور بائبل کے حوالے جو دکھاتا تھا، میرا دل اس کی طرف جھکتا تھا۔ میں اس کشمکش میں تھا کہ ایک دن خواب میں مجھے کسی نے کہا کہ جس طرف تمہیں یہ لڑکا بلاتا ہے۔ اُسی کی طرف چلے جاؤ کیونکہ وہاں پر ہی تم اطمینانِ قلب پاؤ گے۔ پھر یہی خواب مَیں نے تین دفعہ دیکھی کہ اس لڑکے کے پیچھے چلو۔ چنانچہ ایک دن جب یہ لڑکا دوبارہ آیا تو میں نے پوچھا کہ کس طرح اسلام میں داخل ہوتے ہیں، تو اُس نے مجھے بیعت فارم پڑھ کر سنایا اور اس طرح مَیں جماعت احمدیہ میں داخل ہو گیا۔ جب سے میں نے بیعت کی، میرے دل کو ایک عجیب سا اطمینان ہے جو کبھی پوری زندگی نہیں ملا۔ ان کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہے۔یہ بیس کلو میٹر کا سفر کر کے باقاعدگی سے جمعہ پڑھنے آتے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ صرف مسلمانوں کی رہنمائی نہیں کر رہا بلکہ اس زمانے میں غیر مسلموں، عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کی بھی رہنمائی کر رہا ہے جو بھی حق کی تلاش میں ہیں۔ اور یہی واقعات ہیں جو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پھر اشرف عبدالفاطرخیال صاحب،یہ مصری ہیں لکھتے ہیں کہ قبولِ احمدیت سے قبل کے عرصے میں بڑی شدت کے ساتھ مجھے یہ احساس پیدا ہوا کہ آخر مسیح کا نزول اور امام مہدی کا ظہور کیوں نہیں ہو رہا۔ کہتے ہیں کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں امّت تخلّف کا شکار ہے۔ دنیا کی طاقتور حکومتیں امتِ اسلامیہ اور اس کے اموال و دولت پر ٹوٹی پڑتی ہیں۔ ہر طرف سے مصائب و مشکلات اور ہر جانب سے شکست و ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ آپس کے اختلافات کا شگاف اس قدر گہرا ہو گیا ہے کہ اتفاق و اتحاد کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ مسلمانوں کے اخلاق تباہ ہو چکے ہیں۔ شر اور نفاق کا دَور دورہ ہے۔ دوسری طرف بعض مسلمان ابھی تک دین سے بے خبر اپنے نسب اور قوم پر فخر کرنے کو ہی سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ مجھے مسلمانوں کا اسلام کے ساتھ کوئی جوڑ دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن نہ جانے وہ کیسی نمازیں ہیں جو مسجد سے نکلتے ہی اُنہیں لڑائی جھگڑے، چوری چکاری اور دیگر فحشاء و منکر سے نہیں روکتیں بلکہ مسجدوں کے اندر بھی ایسے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ سب مصائب کے پہاڑ بھی مسیح کے نزول کے لئے کافی دلیل نہیں تو پھر اس سے زیادہ کی کیا توقع کی جائے تا مسیح نازل ہوں اور امام مہدی کا ظہور ہو اور ہم ان مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اگر اب بھی مسیح نے نہیں آنا تو پھر کب آنا ہے؟ اور کس نے اسلام کا دفاع کر کے اس کا غلبہ کل ادیان پر ثابت کرنا ہے۔ کہتے ہیں کہ2007ء میں میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ NileSat پر ایک چینل ایسا کھلا ہے جو عیسائیوں کے ساتھ لائیو بات چیت کے پروگرام پیش کرتا ہے اور ان کے اعتراضات کا جواب دیتا ہے۔ چنانچہ اس دوست کے ذریعہ میرا ایم ٹی اے سے تعارف ہو گیا اور پھر میں اُس کا ہی ہو کر رہ گیا۔ کہتے ہیں سات ماہ تک ایم ٹی اے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہی لوگ سچے ہیں۔ پھر مختلف پروگراموں کے دوران مختلف کالرز کے ساتھ ان کے اخلاق اور محبت و رحمت کا سلوک اور سچائی کا پاس دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور جماعت کے عقائد پر اطلاع پانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا اور دل سے مطمئن ہو کر بیعت کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ یقینا اگر دلیل ہو تو دل میں تبھی نرمی پیدا ہوتی ہے۔ اگر دلیل نہ ہو تو پھر ان نام نہاد علماء کی طرح ہی سوائے گالم گلوچ کے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کہتے ہیں جب مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت اور آپ کا فصیح و بلیغ اور معجزانہ عربی کلام پڑھا تو اس بات کی گواہی دینے پر مجبور ہو گیا کہ یہ کلام کسی شاعر کا نہیں۔ نہ اس میں کوئی جھوٹ ہے، نہ دھوکہ ہے بلکہ یہ سچا اور واضح بیان ہے۔ کہتے ہیں باوجود اس کے کہ میں نے بیعت کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ مجھے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہی، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے خاص فضل سے ایک محبت بھرا رؤیا دکھا کر میری روح کی گہرائیوں تک صداقتِ احمدیت کو راسخ کر دیا جس سے مستقبل میں مجھے بہت بڑی بڑی مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ ملا۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں اپنے دو دوستوں کے ساتھ جو اُن کے ساتھ تھے اور ایم ٹی اے دیکھا کرتے تھے بلکہ تعارف بھی کروایا تھا، ان دو ساتھیوں کے ساتھ درمیان میں کھڑا ہوں جبکہ ہمارے سامنے ایک ڈبہ خوشنما کاغذ اور رِبن میں لپٹا ہوا ہے، جیسے کسی کی طرف سے میرے لئے تحفہ کے طور پر بھیجا گیا ہو۔ میں ابھی اُس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس ڈبے کا رِبن خود بخود کھلنا شروع ہو گیا۔ پھر یہ ڈبہ کھلا اور اس میں سے ایک سفید کاغذ نکلا جس پر جلی حروف میں یہ عبارت لکھی تھی کہ اِنَّکَ عَلَی الْحَقِّ اثْبتْ وَاسْتَمِرّ۔ یعنی تم حق پر ہو۔ اس پر ثابت قدمی اختیار کرو اور اسی نہج پر اپنا سفر جاری رکھو۔ کہتے ہیں مَیں یہ پڑھتے ہی اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ دیکھا تم نے! میں نے نہیں کہا تھا کہ میں تمہیں حق کی طرف ہی بلاتا ہوں اور میں حق پر ہوں۔
واقعات تو بے شمار ہیں، یہ چند نمونے مَیں نے پیش کئے ہیں۔ جس طرح سو سال پہلے کا واقعہ ایمان میں مضبوطی پیدا کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور تائید الٰہی ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اسی طرح آج بھی اللہ تعالیٰ کی تائید کے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر مہر ثبت کر رہے ہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ دلوں کو پھر رہا ہے۔ حیرت انگیز واقعات ہیں اور یہ واقعات ہمارے دلوں کو نورِ یقین سے بھر رہے ہیں۔ یہ ظلم و ستم کی چکیاں جو ہم پر چلائی جا رہی ہیں، کیا یہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور تائید کے نظارے دیکھنے کے بعد ہمیں خوفزدہ کر سکتی ہیں؟ یقینا نہیں۔ ہم نے اس آخری زمانے میں آنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو مانا ہے جس نے ہمیں پہلوں سے ملایا ہے۔ آلِ یاسرؓ کی قربانی جو چودہ سو سال پہلے ہوئی تھی، آج بھی ہمیں ایمان پر قائم رہنے کا عہد یاد دلا رہی ہے۔ چودہ سو سال پہلے کی حضرت بلالؓ کی تمام تکلیفوں کو برداشت کرتے ہوئے اَحَد اَحَد کی آواز آج بھی ہمیں ان مخالفتوں کو برداشت کرنے کا سبق دیتے ہوئے اپنے اصلی مقصد کی طرف بلا رہی ہے کہ ان ظلموں کے باوجود ہم توحید کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے اور اس کے قیام کے لئے اپنی کوششوں کو جو مسیح موعود کے ذریعہ مقدر ہیں کبھی ماند نہیں ہونے دیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ۔
پہلوں نے تو ہم سے بہت زیادہ ظلم سہے تھے ۔ ہم تو اُن کا عُشرِعشیر بھی نہیں سَہہ رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کی جماعت کو یہ خوشخبری دی ہوئی ہے کہ کامیابی تمہارا مقدر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر ہمیں یہ اطلاع دی ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ غلبہ ہمیں ملنا ہے۔ پس ہمارا کام اُن کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرنا اور اُس سے جُڑے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا ہے کہ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نِعْمَ النَّصِیْر اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لو، وہ تمہارا مولیٰ ہے، پس کیا ہی اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ سے تھی، ہے اور رہے گی۔پاکستان یا بعض ملکوں میں جو ظلم اور زیادتیاں ہو رہی ہیں یہ انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن ہوا میں اُڑ جائیں گی۔ ہمارا کام ہے کہ اپنے مولیٰ کا دامن، اپنے اللہ کا دامن ہمیشہ پکڑے رہیں اور کبھی نہ چھوڑیں۔ کبھی اپنی وفا میں کمی نہ آنے دیں۔ کبھی اپنے ایمان میں کمزوری نہ آنے دیں۔ کبھی اپنی دعاؤں میں کمی نہ آنے دیں کہ یہی ہماری کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔
