خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 9جون2013ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِیۡنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۔ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا۔وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ۔ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ۔ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔سَابِقُوْا اِلَی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ۔ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔
(الحدید: 21-22)
اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کردے اور سج دھج اورباہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ زندگی اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار کے دلوں کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سی بڑھتی ہے پھر تو اسے زرد ہوتاہوا دیکھتا ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب مقدر ہے۔ نیز اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی۔ جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکہ کا ایک عارضی سامان ہے۔ اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے۔ جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔
یہ آیات جن کی مَیں نے تلاوت کی ہے یہ وہی آیات ہیں جو اس اجلاس کے شروع میں بھی آپ کے سامنے تلاوت کی گئیں۔ ان آیات میں مومنین اور غیر مومنین کی بعض خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی دنیا داروں کی بعض خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ براہ راست یہ ذکر کیا لیکن پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی اس کے آخر میں جو نتیجہ نکالا گیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ صرف دنیا کے حصول کے لئے ان باتوں کو اپنانے سے بچ کر انسان خدا تعالیٰ کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے والا بن سکتا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ یہی باتیں دنیا دار کو خدا تعالیٰ سے دُور لے جاتی ہیں اور یہی باتیں ایک مومن کو خدا تعالیٰ کا قرب بھی دلا سکتی ہیں۔ اور اس زمانے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے ان باتوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ یہی زمانہ ہے جس میں دنیا داری کی چمک دمک اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور انسان اس کی طرف اس طرح دوڑ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی غافل ہو رہا ہے۔ بلکہ مسلمان کہلانے والے بھی دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف راغب ہو رہے ہیں کہ اپنے مقصد پیدائش کو بھی بھولتے چلے جا رہے ہیں۔
سورہ جمعہ میں بھی جس میں مسیح موعود کی آمد کا ذکر ہے اس کے آخر میں مسلمانوں کو یہی توجہ دلائی گئی ہے کہ تم بھی دنیا داری کی طرف جاتے ہوئے اپنے فرائض کو بھول رہے ہو، اپنی عبادتوں کو چھوڑ رہے ہو۔ حالانکہ اس کھیل کود اور دنیا داری سے بڑھ کر فائدے اور رزق اللہ تعالیٰ کے ہاں موجود ہیں جن کو تم حاصل کر سکتے ہو۔
پھر دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم تقویٰ کو چھوڑ کر دنیا داری کے پیچھے چل پڑے ہو۔ تمہاری عقلیں ہی ماری گئیں ہیں۔ پس یقینا دنیا داروں کی عقلیں ماری جاتی ہیں تو وہ تقویٰ سے دُور ہٹتے ہیں اور دنیا کی جاہ و حشمت اور چکاچوند انہیں سب سے بڑی attraction یا دلچسپی اور فائدے کی چیز نظر آتی ہے۔ پس ایسے لوگ مومن کبھی نہیں ہو سکتے۔ اب ان آیات کے حوالے سے میں مختصراً اُن باتوں کا ذکر کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے دنیا دار کی نشانیاں بتائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سن لو اور غور سے سن لو کہ یہ زندگی جو تم دنیا میں گزار رہے ہو اگر تمہیں اعلیٰ مقاصد سے غافل کررہی ہے تو صرف لہو و لعب ہے یعنی کھیل کود ہے ۔ لہو کھیل کود کرنے والے کو بھی کہتے ہیں اور ہنسی ٹھٹھا کرنے والے کو بھی کہتے ہیں۔ اور لَعْب بھی تقریباً یہی معنی دیتا ہے لیکن اس کے معنوں میں زیادہ عموم ہے، زیادہ وسیع معنی ہوجاتے ہیں۔ بعض کھیل کود تو فائدہ مند بھی ہوتے ہیں اگر حد اعتدال کے اندر رہ کر کھیلے جائیں، اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرنے والے نہ ہوں، ہر وقت صرف کھیل کود کی طرف ہی دھیان نہ ہو۔ لیکن یہ ایسا کھیل کود ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بالکل ہی لغو اور بیہودہ کام ہیں جو انسان کو بالکل بامقصد زندگی سے دور کر دیتے ہیں اور پھر اتنا دور انسان چلا جاتا ہے کہ اس پر دوام اختیار کر کے مستقل اسی پر چلتے ہوئے اپنے مقصد حیات کو بھول جاتا ہے۔ انسان خود اپنے آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف واپسی کے سارے راستے بند کرلیتا ہے۔
آج آپ دیکھ لیں دنیا کی گناہ آلود زندگی اس لہو ولعب کا نتیجہ ہے اور واپسی کے سب راستے بھی بند ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے بند نہیں کئے خود لوگوں نے اپنے اوپر بند کرلئے ہیں۔ مثلاً جوأ ہے تو اس کے کھیلنے کے لئے بھی نئے سے نئے طریقے ایجاد ہوئے ہوئے ہیں۔ ہر جگہ، ہر سروس اسٹیشن پر، مارکیٹوں میں جوئے کی مشینیں لگی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اور تو اور بعض کھیلیں، کھیل کھیل میں بچوں کو جوأسکھا رہی ہوتی ہیں۔ پھر ہر قسم کی کھیل ہے جو جسمانی صحت کے لئے ضروری ہے لیکن اس پر بھی شرطیں لگ رہی ہوتی ہیں ۔ ہزاروں لاکھوں لوگ اس میں رقمیں ہار رہے ہوتے ہیں اور رقمیں ہار کر دیوالیہ ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ پتہ ہوتا ہے کہ سب کچھ لٹ رہا ہے لیکن ایسی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں، دنیا داری میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ ہوش ہی نہیں ہوتی کہ سب کچھ جو ہمارا ختم ہو رہا ہے ہم اس کو سنبھالنے کی فکر کریں۔ پھر funکے نام پر ہلّڑ بازی اور ناچ گانے ہیں۔ لڑکے لڑکیاں گروپ بنا کر پھرتے ہیں ایک دوسرے پر پھبتیاں کستے ہیں۔ گروپوں کی صورت میںایک دوسرے کا مذاق اڑایا جاتا ہے، استہزاء کئے جاتے ہیں اور یہ باتیں نوجوانوں میں اتنی زیادہ راہ پاتی جا رہی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اب اس کی فکر ہونی شروع ہو گئی ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی یہ فکر بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ تو اس قسم کی تمام چیزیں جو دنیاوی ہائو ہُواور چمک دمک کی طرف لے جاتی ہیں لہو و لعب ہیں اور یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے مقصد اور زندگی کے انعام کا ضیاع ہے۔ زندگی تو اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے۔ انسان کو جس سے فائدہ اٹھانا چاہئے لیکن اسی انعام سے انسان اپنی زندگی برباد کررہا ہے۔
پھر اس لہو و لعب کے بعد جس چیز کااس آیت میں ذکر فرمایا وہ زینت کا اظہار ہے یعنی ظاہری سج دھج۔ اس میں لباس کی سج دھج بھی ہے، میک اَپ کی زینت بھی ہے، گھروں کی خوبصورتی اور انہیں سجانا بھی ہے۔ غرض کہ ہر قسم کی ظاہری خوبصورتی ہے اور زینت کا اظہار خاص طور پر عورتوں میں بہت ہوتا ہے۔ بعض میک اَپ سے زینت کررہی ہوتی ہیں اور بعض زیوروں سے اپنے آپ کو لاد کر زینت کررہی ہوتی ہیں۔ بعض مہنگے قسم کے لباس پہن کر زینت کے سامان کررہی ہوتی ہیں۔ بعض فیشن ایبل کپڑے پہن کر جس سے ان کے جسم نمایاں ہوں زینت کررہی ہوتی ہیں۔ اور پھر آج کل اس زینت نے زینت کے نام پر بے حیائی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ شرم و حیا کی تمام حدوں کو پامال کردیا گیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا لباس بے حیائی والا لباس ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پھر بڑے بڑے اشتہاری بورڈز کے ذریعہ سے، ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعہ سے بلکہ اخباروں کے ذریعہ سے بھی اشتہار دیئے جاتے ہیں کہ شریف آدمی کی اس پر نظر پڑجاتی تو شرم سے نظر جھک جاتی ہے اور جھکنی چاہئے۔ یہ سب کچھ ماڈرن سوسائٹی کے نام پر، روشن خیالی کے نام پر ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا یہ زینت اب بے حیائی بن چکی ہے یعنی زینت کے نام پر بے حیائی کی اشتہار بازی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا دار کی ایک بہت بڑی بیماری فخر کرنا ہے۔ کہیں دولت پر فخر ہے۔ کہیں خاندان پر فخر ہے۔ کہیں اچھی کار پاس ہونے پر فخر ہے کہ میں نے نئے ماڈل کی کار لے لی یا مہنگی قسم کی کار لے لی۔ کہیں گھر بڑا ہونے پر فخر ہے۔ حتی کہ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض کو اپنے فیشن ایبل ہونے پر بھی فخر ہے اور اس حد تک فیشن ایبل ہونا کہ فیشن کے نام پر برائے نام لباس اور حیا کے مٹ جانے پر بھی فخر ہے۔ اس میں مرد اور عورت سب شامل ہیں۔ مرد یہ کہتے ہیں کہ ہماری بیوی فیشن ایبل ہونی چاہئے، چاہے حیا نظر آئے یا نہ نظر آئے۔ پھر دنیا دار کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ دنیا دار نیکی میں آگے بڑھنے کی دوڑ میں شامل ہونے کی فکر نہیں کرتے بلکہ دنیا دار کو فکر ہوتی ہے تو یہ کہ میں اولاد میں آگے بڑھ جائوں۔ میری بیٹے فلاں رشتہ دار سے زیادہ ہیں۔ اولاد کی نیکی کی فکر نہیں ہوتی بلکہ لڑکے ہونے کی فکر ہوتی ہے۔اور اگر لڑکیاں ہوں تو پھر ماں باپ دونوں کو فکر ہورہی ہوتی ہے۔ اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ ہمارا بیٹا ہے، ہمارے کاروبار کو آگے چلائے گا۔ ہمارے بزنس کو پتہ نہیں کہاں سے کہاں تک لے جائے گا۔ یہ ان کی خواہشات ہوتی ہیں۔ ہماری نسل اس سے چلے گی۔ یہ نہیں جانتے کہ یہ بیٹا اس قابل بھی ہوگا کہ کاروبار آگے لے جا سکے گایا کاروبار لٹانے والا ہوگا۔ یہ نہیں جانتے کہ بیٹے سے نسل چل بھی سکے گی یا نہیں۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ بیٹا خاندان کی نیک نامی کا باعث ہوگا یا نہیں۔ بہرحال یہ سب دنیاداروں کی خواہشات ہیں جن میں عورتیں بھی شامل ہیں اور مرد بھی شامل ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان دنیاوی خواہشات کا انجام اس فصل کی طرح ہے جو تیزی سے بڑھتی ہے، اس کو دیکھ کر انسان بہت خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس سے یہ فائدہ اٹھائوں گا اور وہ فائدہ اٹھائوں گا لیکن ہوتا کیا ہے، ایک دن ایسی جلا دینے والی، تباہ کرنے والی ہوا اس پر چلتی ہے جو اس کو چورا چورا کر کے ضائع کردیتی ہے۔ پس اس طرح دنیاداروں کی لہو و لعب، دنیاداروں کی زینت کے اظہار، دنیاداروں کے اپنے کاموں یا اپنے مالوں پر فخر، دنیا داروں کے اپنے مالوں پر انحصار اور اس کے حصول کے لئے جان توڑ کوشش، دنیا داروں کے اولاد کے لئے بے چین ہونے کی حالت، قطع نظر اس کے کہ وہ اولاد نیک صالح ہو، انجام کار دنیا داروں کو جہنم میں دھکیلنے کا باعث بن جاتی ہے۔ پس دنیا داروں کو اس دھوکے سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضوان کی تلاش کرنی چاہئے۔ پس یہ فرما کر ان دنیاوی چیزوں میں جہنم ہے لیکن مغفرت اور رضوان بھی ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی فرما دیا ۔ یہ بھی بتا دیا کہ یہی جہنم میں لے جانے والی جو چیزیں ہیں جنت میں لے جانے کا سامان بھی مہیا کرتی ہیں۔ پس ایک مومنہ اور ایک مومن کو انہی دنیاوی چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بنانا چاہئے۔ اپنے مقصد پیدائش کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مومن اور مومنہ نے دنیا کو اپنی لونڈی بنانا ہے اور بنانا چاہئے۔
پس یہ دنیا جہاں دنیا دار کی زندگی کا مقصد ہے اور خدا تعالیٰ سے دور کرنے والی ہے وہاں ایک مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک مومن مرد ہو یا عورت جب اللہ تعالیٰ کے دنیاوی فضلوں کو دیکھتے ہیں تو انہیں صرف دنیاوی خواہشات کے پورا کرنے کا ذریعہ نہیں بناتے۔ دنیا داروں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ یہ سب مجھے اس لئے ملا ہے کہ میں اس کا حقدار تھا یا میں حقدار تھی۔ دنیا کی دولت اور آسائشیں سہولت کے تمام سامان ایک مومن کو اور ایک مومنہ کو ان اعلیٰ مقاصد سے غافل نہیں کرتے جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ان میں سب سے بڑامقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے۔ ان نعمتوں کے بڑھنے پر اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مومنہ اور ایک مومن مزید جھکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کی نعمتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرکے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو دولت دی ہے اس کا اظہار صرف اپنی زینت کے سامان کر کے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کے لئے اپنے محروم بہن بھائیوں جن میں صرف خونی رشتے کے بہن بھائی شامل نہیں بلکہ انسانی رشتوں کے بہن بھائی بھی شامل ہیں ان کے بھی حق ادا کرنے کی کوشش کرتے، ان کی بھی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس انسانیت کے رشتوں کو نبھانے کے لئے جب اپنی زینت کے لئے ایک مومن کو حکم ہے کہ اعلیٰ لباس بنائو تو غریب کا تن ڈھانپنے کی زینت کے بھی سامان کرو کہ غریب کی زینت تو سادہ لباس سے ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس کی عزّت اور عفّت کی حفاظت اس لباس سے ہورہی ہوتی ہے۔ پھر اگر ایک مومنہ جب اپنا سوچے تو ساتھ ہی اس غریب دلہن کا بھی سوچے جو خوبصورت لباس سے محروم ہے۔ اگر یہ سوچ ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے ہاںاس زینت کا اظہار بھی مقبول ہوجاتا ہے۔ کیونکہ زینت کا سامان تو کیا لیکن اپنی زینت کا نہیں، صرف دنیا دکھاوے کے لئے نہیں، اپنے حسن کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ساتھ ہی دوسرے کی زینت کا سامان بھی کیا۔ پس زینت کا لفظ اپنی ذات میں برا نہیں ہے کہ انسان سمجھے کہ ہرحال میں زینت بری چیز ہے۔ جب ظاہری زینت اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اظہار کے طور پر کرتے ہوئے غریبوں کی زینت کی بھی فکر ہو تو اس کا انجام اس فصل کی طرح نہیں ہوگا جسے گرم آگ کا بگولہ جھلسا کر خاک کردے بلکہ اس کا انجام اس بیج کی طرح ہوگاجس کو سات سو گنا تک پھل لگتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ پھل عطا کرے۔ پس یہی زینت سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ ثواب دلوانے کا موجب بن جاتی ہے۔ ایک احمدی عورت کو ایسی زینت کی تلاش کرنی چاہئے۔ اگر کشائش ہے تو جہاں اپنے لئے زیور کے سیٹ جمع کئے ہیں تو وہاں ایک چھوٹا سا زیور ایک غریب دلہن کی زینت کے لئے بھی بنا کر دے دیں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے سامان کرنے والا بناتا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ایک مومنہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے عموماً زینت کی حفاظت اور اسے چھپانے کا کہا ہے۔ سوائے اس کہ جو زینت خودبخود ظاہر ہو جائے۔ یہاں خودبخود ظاہر ہونے والی زینت سے مراد ظاہری قد کاٹھ ہے، ہاتھ پائوں وغیرہ ہیں۔ اور قد کاٹھ وغیرہ ایسی زینت ہے جو چھپ نہیں سکتی۔ اس لئے اس کے بارے میں فرما دیا کہ یہ تو مجبوری ہے۔ اس حد تک تو عورت کی زینت بے شک ظاہر ہوجائے۔ کیونکہ اس نے باہر نکلنا ہے۔ کام کاج بھی کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن اگر خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے ہیں، میک اَپ کیا ہوا ہے، خوبصورت زیور ہاتھ پائوں میں ڈالا ہوا ہے، اپنے ہاتھوں اورپائوں کو سجایا ہوا ہے، بالوں کو خوبصورتی سے بنایا ہوا ہے۔ تو یہ سب حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے مَحرم رشتوں کے سامنے تو جائز ہے لیکن ہر ایک کے سامنے اس کا اظہار جائز نہیں۔
یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ لباس کے معاملہ میں بھی محرم رشتوں کے سامنے بھی حیا دار لباس ضروری ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ہم گھروں میں جِینز کے اوپرچھوٹی ٹی شرٹ پہن لیتے ہیں، ایسا لباس باپ بھائی کے سامنے بھی جائز نہیں۔ صرف اگر گھر میں خاوند ہے تو اَور بات ہے لیکن اگر دوسرے رشتہ دار آرہے ہیں تو چاہے وہ گھر میں پہنا ہوا لباس ہو وہ بھی صحیح نہیں ہوتا۔ حیا دار لباس بہرحال گھر میں بھی ہونا چاہئے۔ پس جب زینت کے ایسے سامان کرو یعنی زیور پہنے ہوں اور دیگر اظہار کئے ہوں تو اسے چھپانے کا حکم ہے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری زینت پردے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری زینت اب پردے میں ہے۔ پردہ کرو گی تو یہ تمہاری زینت کا اظہار ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو یہ ساری سج دھج، زینت، میک اپ، بے پردگی تمہیں ایک وقت میں ایسی حالت میں کردے گی کہ تم ہاتھ ملو گی۔ تمہاری اس زینت کے اظہار کی وجہ سے وقتی طور پر تو شاید جو دنیادار عورتیں ہوتی ہیں ان کو سوسائٹی میں یعنی ایسی سوسائٹی میں جو دنیاداروں کی سوسائٹی ہے، پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے لیکن ایسے لوگوں کا انجام جو دنیادار ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ بھوسے کی طرح ہوتا ہے جو ضائع ہو جاتا ہے بلکہ اگلی نسلیں بھی ضائع ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
مجھے کسی نے بتایا کہ ایک خاتون یہاں سے کینیڈا گئیں تو وہاں ایک ایسی خاتون سے ان کا سامنا ہو گیا جنہوں نے دنیا کی خاطراپنا پردہ اتار دیا تھا۔پاکستان سے جب ایک طبقہ باہر آتا ہے تو ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو سب سے پہلے پردہ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہاں انہوں نے بڑے اچھے پردے کئے ہوتے ہیں۔ بہرحال جس نے پردہ اتارا ہوا تھا ان کوجرمنی سے جانے والی خاتون ملیں تو وہ ان جانے والی خاتون کو کہنے لگیں کہ تم کس دنیا میں رہ رہی ہو۔ اب یہ سکارف اور برقعے کا زمانہ نہیں رہا۔ یہ خوبی ہے یہاں سے جانے والی خاتون کی کہ اس نے سکارف اور برقعہ پہنا ہوا تھا۔ کینیڈا میں عموماً احمدی عورتیں حیادار ہیں، لباس کا خیال بھی رکھتی ہیں لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو احمدی معاشرہ کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔ اگر وہ اپنی ذات کی حد تک خراب کر رہی ہیں جو یہاں بھی شاید ہوں اور دوسرے ملکوں میں بھی ہوتی ہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر ایک مہم کی صورت میں دوسروں کو بھی خراب کررہی ہیں تو ان سے بہرحال ہر عقلمند عورت کو بچنا چاہئے۔
کینیڈا میں اس دفعہ بھی دورہ پرجب میں نے عمومی توجہ دلائی تھی تو اکثریت نے ایسی حرکتوں سے بیزاری کا اظہار کیا تھا۔ بلکہ ایک بچی کو میں نے توجہ دلائی کیونکہ اس کا لباس صحیح نہیں تھا تو اس نے مجھے لکھا کہ وہ لباس جو آپ نے ناپسند کیا تھا وہ میں نے کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیا اور آئندہ میں عہد کرتی ہوں کہ وہ لباس کبھی نہیں پہنوں گی۔ تو یہ ہے احمدی لڑکیوں کا کردار جو زینت کی حقیقت کو ابھارتا ہے۔ پس آپ میں سے بھی وہ جو ایسے لوگوں سے متاثر ہوتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی زینت کی حفاظت کی فکر نہیں یاد رکھیں کہ ایسے لوگوں سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی کے انجام کا فیصلہ کسی دنیا دار نے نہیں کرنا بلکہ خدا تعالیٰ نے کرنا ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انجام بخیر کے لئے میری ہدایات پر چلو، میری باتوں پر عمل کرو۔ میری ہدایت کے مطابق زینت کا اظہار اور اس کو چھپانا جنت میں لے جانے والا بنائے گا اور میری ہدایت کے خلاف زینت کا اظہار عذاب کا مورد بنائے گا۔
پھر جہاں اللہ تعالیٰ نے باہم ایک دوسرے پر فخر، چاہے وہ دماغی صلاحیتوں اور تعلیمی قابلیتوں پر ہو، چاہے اپنی خوبصورتی اور زینتوں کی وجہ سے ہو، چاہے وہ اولاد اور مال کے ذریعہ سے ہو، چاہے جسمانی طاقت کے لحاظ سے ہو، ہر ایک فخر کو ناپسند فرمایا ہے اور ایسے فخر پر بُرے انجام سے ڈرایا ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی خاطر فخر ہو تو یہ فخر جنّت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر آپ دنیا دار کے سامنے یہ کہتی ہیں کہ میں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہوں اور دنیا کی باتیں اور ہنسی ٹھٹھا مجھ پر کوئی اثر نہیں کرتے اور مجھے اس بات پر فخر ہے تو یہ فخر اللہ تعالیٰ کی رضا کا حامل بنانے والا ہے۔کیونکہ یہ فخر تکبر پیدا نہیں کرتا بلکہ عاجزی پیدا کرتا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا جانے والا فعل کسی ایسے انجام کی طرف لے جانے والا ہو جس سے تباہی مقدر ہو۔
پس یہ وہ مقام ہے جو ہر احمدی عورت اور مرد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہاں میں یہ بھی کہوں گا کہ زینت کے اظہار اور پردوں کے چھڑوانے میں مَردوں کا بھی ہاتھ ہے۔ جب وہ اپنی بیویوی کو معاشرے سے متأثر ہو کر برقعہ اور نقاب اتارنے کا کہتے ہیں۔ یہاں جرمنی میں بھی ہیں اَور بعض دوسرے بہت سے ملکوں میں بھی ہیں۔ لیکن بعض ملکوں میں عورتیں مَردوں کی یہ شکایت مجھ تک پہنچا بھی دیتی ہیں کہ اس طرح ہمارے مرد ہمیں مجبور کرتے ہیں۔ پس ایسے مَردوں کو بھی اپنی حالتوں کو بدلنے کی ضرورت ہے اور عورتوں کو بھی ایسے مَردوں کی باتیں ماننے سے انکار کردینا چاہئے جو شریعت میں دخل اندازی کے موجب بنتے ہیں۔
پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ مال میں آگے بڑھنے کی دوڑ ہے۔ اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے کہ اسے یہ چیز ناپسند ہے اور دنیا کے دھوکوں میں سے ایک دھوکا ہے۔ ایک عارضی بڑائی کا اظہار ہے اور انجامکار اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بنا دیتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ مال اگر ایسی ہی بری چیز ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار کس طرح ہو۔اس بارہ میں پہلے ہی کچھ کہہ آیا ہوں۔ بہت ساری نعمتیں مال سے وابستہ ہیں تو واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مال کمانے سے منع نہیں فرمایا۔ بعض صحابہ کروڑوں کے مالک تھے۔ بڑی بڑی وادیاں ان کے جانوروں اور ریوڑوں سے بھری ہوئی تھیں۔ بے شمار، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بکریاں بھیڑیں اور دوسرے جانور تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کو ان کے مال بڑھنے کی ایسی دعا بھی دی کہ وہ کہتے ہیں کہ اس دعا کے بعد مَیں مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ واقعۃً مٹی سونا بن جاتی تھی بلکہ اس دعا سے ہرکاروبار میں ایسی برکت پڑتی تھی کہ مال بے انتہا بڑھ جاتا تھا۔ لیکن اس مال کو انہوں نے دنیا کے عارضی فائدہ کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضوان کا ذریعہ بنایا ہے۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی عورتیں اور مرد ہیں جو اپنے مال میں برکت اور بڑھنے کی دعا کرواتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ یہ مال کا بڑھنا ان کی کسی دنیاوی بڑائی کا موجب ہو بلکہ اس لئے کہ وہ جہاں اس مال سے جماعت کے لئے خرچ کریں ، اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیوں میں خرچ کریں، مساجد بنانے میں خرچ کریں، خدمت خلق کے لئے خرچ کریں اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوشش کریں۔ یہ ہوتی ہے ان کی نیت۔ یعنی اپنا مال بنانے کی دوڑ دنیا دکھاوے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے احمدی ہیں، ایسی عورتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے ہزاروں لاکھوں کے زیور دے جاتی ہیں۔ ایسے مرد بھی ہیں جو لاکھوں یورو اور لاکھوں ڈالر خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیتے ہیں۔ یہاں جرمنی میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کی خواہش ہے کہ وہ اکیلے یا ان کے خاندان بھی مسجدیں بنائیں یا اپنے علاقے میں مسجد بنائیں اور اس کے لئے انہوں نے لاکھوں یورو بھی دے دیئے ۔ بظاہر ان کی حالت ایسی نہیں لگتی کہ اتنی بڑی رقم وہ دے سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ لیکن بعض مالی لحاظ سے بہت کشائش رکھنے کے باوجود چندے کے معاملے میں کنجوس بھی ہوتے ہیں۔ ان کی مال حاصل کرنے کی دوڑ خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتی بلکہ دنیا کے لئے ہوتی ہے۔ پھر اولاد ہے، یہ ایک نعمت ہے۔ اولاد سے محروم لوگ اس کے لئے دعائیں بھی کرواتے ہیں اور خود بھی دعائیں کرتے ہیں، علاج بھی کرواتے ہیں اور اس علاج کے لئے کسی خرچ کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ لیکن جب اولاد خدا کے مقابلے پر اور دین کے مقابلے پر کھڑی ہوجائے تو یہ اولاد نعمت کی بجائے تکلیف کا باعث بن جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بن جاتی ہے۔ اس لئے بچے کی پیدائش سے پہلے بھی اور بعد میں بھی نیک صالح اولاد کی ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ یہ احمدی عورتوں پر، احمدی ماں باپ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایک نظام کے تحت ان کو اپنی اولادیں دین کی خدمت کے لئے پیش کرنے کا موقع میسر ہے۔ جنہوں نے پیش کردیئے ان کو اب مَیں کہتا ہوں کہ ان کی تربیت کریں۔ جن مائوں نے بڑی قربانی کر کے اپنے بچوں کو دین کی خاطر پیش کر کے وقف نَو میں شامل کیا ہے ان کی تربیت کرنا بھی ان کا کام ہے اور وہ تربیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ماں باپ کے اپنے پاک نمونے قائم نہیں ہوں گے۔ جن کو اللہ تعالیٰ آئندہ اولاد دے اور اولاد سے نوازے وہ بھی دعا کریں اور کوشش بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں یعنی ان کی اولاد کو دین سے وابستہ رکھے اور دین کا خادم بنائے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والی اولاد ہو۔ وہ ماں باپ کے لئے ان کی زندگی میں بھی اور ان کے مرنے کے بعد بھی دعا کرنے والی ہو۔ پس جب ایسی اولاد ہو تو ایسی اولادماں باپ کی مغفرت اور رضوان کا باعث بن جاتی ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کے ظاہری سامان، یہ دنیا کی زینتیں، یہ دنیا کی عزتیں، یہ اموال جو تم دنیا میں حاصل کرتے ہو، تمہاری اولاد جو تمہارے نفوس میں اضافے کا باعث بنتے ہیں یہ سب دو پہلو رکھتے ہیں۔ اگر دنیاوی مقصد ہو اور خدا تعالیٰ بھول جائے تو اس فصل کی طرح ہے جو تھوڑے عرصے کے لئے دل کو خوش کرتی ہے اور انجام کار چورا چورا ہو کر ہوا میں اُڑ جاتی ہے اور ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا اور انسان اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بنتا ہے۔ لیکن اگر اپنے رب کی مغفرت کے حصول کے لئے انہیں استعمال کرو اور سَابِقُوْا إِلَی مَغۡفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ (الحدید:22)یعنی اپنے رب کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔ پس اگر ان سب دنیاوی سامانوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنائیں تو پھر یہ دنیاوی دوڑ نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے حصول کی دوڑ بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی وسعتوں تک پھیلے ہوئے فضلوں سے نوازتا ہے۔ یعنی لامتناہی فضلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے انعامات سے اگلے جہان میں بھی نوازتا ہے جس کا احاطہ انسان کر ہی نہیں سکتا۔ اور صرف اگلے جہان کی بات نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضوان چاہنے والوں کے لئے یہ دنیا بھی جنت بن جاتی ہے اور اگلا جہان بھی جنت بن جاتا ہے۔ اگلے جہان میں بھی جنّت ملتی ہے۔ فرمایا: جَنَّۃٍ عَرْضُھَاکَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ(الحدید:22) یعنی ایسی جنت جو زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ دنیا بھی جنت بن جاتی ہے اور اخروی زندگی بھی جنت بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتٰنِ(الرحمن:47) اور جو اپنے رب کی شان سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ دنیاوی بھی اور اخروی بھی ۔ پس جب یہ سب کچھ جن کا ذکر ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضوان کے لئے ہوگا تو یہ دنیا بھی جنت بن جائے گی اور بعد کی زندگی میں بھی جنت کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ پورا ہوگا۔ انشاء اللہ ۔پس ہمیں اس جنت کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عورتوں کو جو نصائح فرمائی ہیں۔ اس میں سے چند فقرے پیش کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
’’تقویٰ اختیار کرو۔دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگائو۔ قومی فخر مت کرو۔ کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو… کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ81)
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے تقویٰ وہ بنیادی چیز ہے جو اگر پیدا ہو جائے تو دنیا کی لہو و لہب سے بھی انسان بچ سکتا ہے۔ دنیا اور دنیا کی زینتوں سے بھی انسان بچ سکتا ہے۔ ہر قسم کے فخر سے بھی انسان بچ سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ بھی ہوتی ہے۔ ایک مومنہ کی حیا کی بھی پاسداری ہوتی ہے۔اپنی عزت کی بھی حفاظت ہوتی ہے۔ عبادات کے جو فرائض خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگائے ہیںان کی بھی ادائیگی ہوتی ہے اور مال کا خرچ بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ اگر یہ چیزیں ہم اپنا لیں، اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں تو ہم حقیقی احمدی کہلانے کے مستحق ہیں۔ اگر نہیں تو ہمارے دعوے کھوکھلے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی کبھی بھی صرف کھوکھلے دعوے کرنے والا ہو۔
پس اے احمدی عورتو اور بچیو! اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر اپنے آپ کو تقویٰ پر قائم رکھنے کا عہد کرنے والیو! اپنے آپ کو دنیا کی لہو و لہب سے دور رکھنے کا اعلان کرنے والیو! اپنی زینت کی قرآن حکیم کے حکم کے مطابق حفاظت کا اعلان کرنے والیو! اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والیو! اپنے مالوں کو دنیا کی لذات کے بجائے دین کے پھیلانے پر خرچ کرنے کا عہد کرنے والیو! اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کاعہد کرنے والیو! اپنے جائزے لیں اور دیکھیں کہ کس حد تک آپ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔ کس حد تک اپنے آپ کو اس کی مغفرت اور رضوان کی چادر میں لپیٹ رہی ہیں۔ کس حد تک اپنے آپ کو دنیا داری کے دھوکے سے بچا رہی ہیں۔ کس حد تک اپنے عَہدوں کو نبھا رہی ہیں۔ کس حد تک آپ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کی وسعتوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ایک حقیقی مومنہ بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن رہی ہیں۔ کس حد تک اپنے خاوندوں کے گھروں کی نگران بن کر اپنی اولاد کو لہو ولعب کے خطرناک حملوں سے بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کس حد تک اپنے خاوندوں کی دینی غیرت کے ابھارنے میں کوشش کررہی ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے ہمیشہ اس کے فضل کی وارث بنتی چلی جائیں۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی عورت اور مرد اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی مغفرت اور اس کی رضوان کے حصول کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنے والا ہو۔
اب ہم دعا کریں گے۔ میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں ۔
